نماز میں عاجزی اور خشوع
خطبہ جمعہ 10؍ اپریل 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ(المؤمنون: 2۔ 3)
یقینا مومن کامیاب ہو گئے۔ وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ ان آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر مومنوں کی کامیابی کی یقینی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ لیکن کونسے مومن؟ ان کی بہت سی شرائط اگلی آیتوں میں بیان فرمائی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے والے مومن ہی فلاح پانے والے ہیں اور ان شرائط میں سے یا اُن اوصاف میں سے جن سے ایک مومن کو متصف ہونا چاہئے، پہلی خصوصیت یا حالت یہ ہے کہ وہ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔ اپنی نمازوں میں خشوع دکھانے والے ہیں۔ ’’خاشع‘‘ کے عام معنی یہی کئے جاتے ہیں کہ نماز میں گریہ و زاری کرنے والے۔ لیکن اس کے اَور بھی معنی ہیں اور جب تک سب معنی پورے نہ ہوں ایک مومن کی حقیقی معیار کی حالت پیدا نہیں ہوتی۔ اور لغات کے مطابق خشوع کے یہ معنی ہیں کہ انتہائی عاجزی اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو بہت نیچے کرنا۔ اپنے نفس کو مٹا دینا۔ تذلل اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو کمتر بنانے کے لئے کوشش کرنا۔ نظریں نیچی رکھنا۔ آواز کو دھیما اور نیچا رکھنا۔
پس دیکھیں اس ایک لفظ میں ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت کا کیسا وسیع نقشہ کھینچا گیا ہے اور جو انسان خدا تعالیٰ کے آگے اپنی عبادتوں کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے جھکے گا، اپنی عاجزی کو انتہا پر پہنچانے والا ہو گا، اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مٹانے والا ہو گا اور جو دوسری خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان کو اپنانے والا ہو گا تو پھر وہ جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہو گا وہاں وہ اس طرف بھی توجہ دے گا کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مخلوق کا بھی حق ادا کرنا ہے اور پھر یہ نمازیں اس کے دنیاوی معاملات سلجھانے والی بھی بن جائیں گی۔ پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
(براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 18)
کی تصویر بننے کی کوشش کرے گا اور یہ تصویر بننے کی کوشش کرتے ہوئے، اپنی اَنا اور نفس کی بڑائی کے چنگلوں سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے دنیاوی معاملات بھی سلجھائے گا یا سلجھانے کی کوشش کرے گا۔ اپنی نظروں کو حیا کی وجہ سے نیچے رکھتے ہوئے صرف نماز کی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام روزمرّہ زندگی میں بھی اس پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی بیشمار برائیوں سے بچے گا یا بچنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی آواز کو نیچا رکھنے والا جہاں عبادت کے تعلق سے اس کا ادراک حاصل کرے گا وہاں اپنے روزمرّہ معمولات میں بھی چیخنے چلّانے اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رہے گا یا رہنے کی کوشش کرے گا۔ پس کئی برائیوں کا جن کا روزانہ کے معمولات سے تعلق ہے ایک مومن اپنی نمازوں اور عبادتوں کی وجہ سے ان کا بھی خاتمہ کر لیتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی نمازوں اور ایسے اثر اپنے پر قائم کرنے والے جو لوگ ہیں وہ فلاح پا گئے۔ ایک ترجمہ تو فلاح پانے کا کیا گیا ہے جیسا کہ مَیں نے آیت میں ترجمہ کیا تھا کہ کامیاب ہو گئے۔ لیکن اس کامیابی کی بڑی وسعت ہے کہ کس طرح کامیابی حاصل کی۔ لغت میں اس کے معنی ہیں آسانیاں پیدا ہونا۔ کشائش ہونا۔ خوش قسمتی کا ملنا۔ خواہش کا پورا ہونا۔ تحفظ ملنا۔ اچھائی اور خوشی کا مستقل رہنا۔ زندگی کی نعمتوں کا ملنا۔
پس نیکیاں بجا لانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نیکیاں کرتے ہیں کس کس رنگ میں فائدہ اٹھانے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کس کس رنگ میں ان پر فضل کرتا ہے۔ یہ سب انسانی تصور سے بھی باہر ہے اور ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پہلا قدم اور انتہائی اہم قدم نمازوں میں خشوع پیدا کرنا رکھا ہے۔ ان باتوں کے حصول کے لئے عبادت کرنا رکھا ہے۔
عاجزی تو بعض دنیادار بھی بعض دفعہ دکھا دیتے ہیں بلکہ صرف اگر گریہ و زاری کا سوال ہے تو بعض دنیا دار ذرا ذرا سی بات پر ایسی گریہ و زاری کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں ان کے دنیاوی مفاد متاثر ہو رہے ہوں وہ ذلیل ترین ہونے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یا عارضی طور پر جذبات کا اظہار بھی بعضوں سے ہوتا ہے۔ بعض حالات دیکھ کر، بعض لوگوں کی حالتیں دیکھ کر رحم بھی پیدا ہو جاتا ہے اور دردناک حالت دیکھ کر ان میں انتہائی جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب یا تو اپنے مفادات کے لئے یا دنیا دکھاوے کے لئے یا ایک عارضی اور وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تو ان ظاہری باتوں سے بہت دُور ہوتا ہے۔
دنیا داروں کی جذباتی حالت کے بارے میں یا ظاہری اور وقتی طور پر گریہ و زاری کا اظہار کرنے والوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ:
’’بہت سے ایسے فقیر مَیں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں‘‘ (یعنی جس طرح بارش ایک دم آ جاتی ہے اس طرح ایک دم ان کے آنسو بہنے لگ جاتے ہیں۔ پھر فرمایا) ’’لیکن مَیں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص مَیں نے بڑے مکّاربلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو مَیں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 194)
پس ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے بعض نظارے دیکھ کر آنسو گرنے میں دیر نہیں لگتی لیکن یہ ایک وقتی جذبہ ہوتا ہے۔ جب اپنے مفادات ہوں تو پھر اس شخص میں کبھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوگی۔ اگر ایک وقت میں ایک حالت کو دیکھے جہاں جذبات نہ ہوں، اپنے اپنے مفادات نہ ہوں تو وہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے لیکن جب اپنے مفادات ہوں توکبھی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ ظلم بھی کر دیتا ہے اور کبھی رحم نہیں آتا۔ یا بعض اور ایسی برائیاں ہوتی ہیں جو خدا کو ناپسند ہیں یا ان کی نمازیں اور عبادتیں صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں۔ پس جب یہ صورتحال ہو تو قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کے زمرے میں کس طرح ایسے لوگ آ سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک باقاعدہ مسجد میں نمازیں پڑھیں تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔ (خواہش ان کی یہ تھی کہ لوگ تعریف کریں لیکن لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔) آخر ایک دن ان بزرگ کو خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع ہوگئی۔ کسی نے بھی مجھے نیک نہیں کہا۔ اگر خدا کے لئے عبادت کرتا تو خدا تعالیٰ تو راضی ہو جاتا۔ یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اسی وقت جنگل میں چلے گئے۔ روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی اور عہد کیا کہ خدایا اب میں صرف تیری رضا کے لئے عبادت کیا کروں گا۔ جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کر رکھا ہے اور بچے اور بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے۔ اس بزرگ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدایا صرف ایک دن میں نے تیری رضا کی خاطر نماز پڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے میری تعریف شروع کر دی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 705)
اب دیکھیں احساس پیدا ہوتے ہی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی عبادتوں کو ڈھالا یا خالص ہو کے عبادت کی جو اس کی خاطر کی جا رہی تھی تو اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو گیا۔ لیکن اب یہ کوئی خواہش نہیں رہی تھی کہ لوگ میری تعریف کریں مجھے بڑا بزرگ سمجھیں اور اب خواہش کے نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے انہیں وہی کچھ کہنا شروع کر دیا جس کی وہ پہلے خواہش رکھتے تھے۔ لوگ تعریف کرنے لگ گئے۔ پہلے خواہش رکھتے تھے اور باوجود چاہنے کے کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اب بالکل اور صورتحال ہوگئی اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا۔
دوسرے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض پرانی نیکیوں کی قدر کرتے ہوئے کسی کی اصلاح کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ یہ جو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی پرانی نیکی پسند آ گئی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نیکی کی وجہ سے ان کو لوگوں کے کہنے پر یہ احساس پیدا ہوا اور لوگوں کا انہیں پہلے منافق کہنا ان کی اصلاح کا باعث بن گیا اور یہ یونہی نہیں ہو گیا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی گزشتہ نیکی پسند آئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ ان کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کیونکہ خود اصلاح کرنا چاہتا تھا اس لئے لوگوں کے کہنے پر ان کو احساس پیدا ہو گیا اور اگر دوسرے لوگوں کے دلوں میں پہلے یہی ڈالے رکھا کہ یہ منافق ہے۔ تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ ان کی تعریف کریں اور اس وجہ سے غلط طور پر ان میں خود پسندی کی عادت پیدا ہو جائے اور وہ مزید گناہوں میں ڈوبتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کسی پرانی نیکی کی وجہ سے اصلاح چاہتا تھا تو ان کی اصلاح کے سامان پیدا کر دئیے اور فلاح پانے والوں میں وہ شامل ہو گئے۔
پس کسی پہلے وقت کی کی گئی بعض نیکیاں بھی باوجود بعد کی غلطیوں اور گناہوں کے سرزد ہونے کے انسان کو بدانجام سے بچانے کا موجب بن جاتی ہیں اور انسان فلاح پانے والوں میں شمار ہونے والا بن سکتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی اصلاح کرنا چاہے تو اس طرح بھی کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں ان مومنوں کو یقینی فلاح کی ضمانت دی ہے جو اس کی رحیمیت سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی پہلی شرط نمازوں اور عبادتوں میں خشوع ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر خشوع کیا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے مومن کی اس حالت کو انسان کی پیدائش کے مختلف ادوار سے تشبیہ دیتے ہوئے جو بیان فرمایا ہے اس کے صرف پہلے حصے یعنی اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ کو مَیں پیش کرتا ہوں جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی نیکی اس وقت تک نیکی نہیں رہتی، نہ عبادتیں اس وقت تک مستقل بنیادوں پر عبادتیں رہتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ انسان چمٹا رہنے کی کوشش نہ کرے یا اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور اپنی عبادتوں کو صرف ایک ایسی کوشش سمجھے جو اسے اللہ تعالیٰ سے چمٹائے رکھنے کا اس کے فضل سے ہی ذریعہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقّت اور سوزوگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے۔ یعنی گدازش اور رقّت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا۔ اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزّوجل کی طرف دل کوجھکانا جیسا کہ اِس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔ یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نمازوں میں اور ہر ایک طور کی یادِ الٰہی میں‘‘ (صرف نماز ہی نہیں بلکہ ہر ایک طور کی یاد الٰہی میں ) ’’فروتنی اور عجزونیاز اختیار کرتے ہیں۔ اور رقّت اور سوزوگداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 188)
پس نماز میں گداز رہنے والا، خشوع کرنے والا، دوسری قسم کی یاد الٰہی میں بھی یہی نقشہ اپنے پر طاری رکھتا ہے جو نماز میں ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت مَیں پہلے لغوی معنوں میں کر آیا ہوں جو خشوع کے لغوی معنے بیان کئے ہیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر ایک طور کی یاد الٰہی میں فروتنی اختیار کرتے ہیں اور آدمی چلتے پھرتے بھی یاد الٰہی کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت بھی عاجزی ہوتی ہے۔ اور جب ہر ایک طور کی یاد الٰہی ہو تو ہر عمل چاہے وہ روزمرہ کے معاملات کا ہو خدا تعالیٰ کی یاد کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے احکام کی یاد دلاتے ہوئے عجز اور خوف کی حالت پیدا کئے رکھتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 189)
یہاں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا انسانی پیدائش کے دَوروں سے مثال دی ہے تو یہ اب اس کی مثال بیان ہو رہی ہے۔ جس طرح نطفہ رِحم میں جا کر بچہ بن کر پیدا ہوتا ہے اور پھر تمام خصوصیات والا ایک کامل انسان بن جاتا ہے۔ اسی طرح خشوع روحانی ترقی کے مدارج طے کرواتا ہوا روحانی لحاظ سے انسان کو مکمل کر دیتا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرضِ خطر میں ہے جب تک کہ رِحم سے تعلق نہ پکڑے۔‘‘(یعنی اس وقت تک ضائع ہونے کا خطرہ ہے جب تک رِحم میں چلا نہیں جاتا جہاں آگے اس کی اللہ تعالیٰ کی قانون قدرت کے مطابق بڑھوتری ہونی ہے۔) فرمایا: ’’ایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے۔ یاد رہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسّط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیضِ رحمانیت سے ظہور میں آیا۔ لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’یہی سنّت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے۔ پس جبکہ انسان نماز اور یادِ الٰہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے۔ سو نطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالتِ خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رِحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ (رحیم خدا کی یعنی) رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے۔ اور جیسا کہ نطفہ کے لئے ممکن ہے کہ وہ رِحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہو جائے ایسا ہی روحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لئے یعنی حالت خشوع کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی برباد ہو جائے۔‘‘ (پس بعض عبادتیں جو دکھاوے کی عبادتیں ہوتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے، رحیم خدا سے تعلق پیدا کرنے سے پہلے ہی برباد ہو جاتی ہیں۔ فرمایا) ’’جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اس ذات ذوالفضل سے جس کا نام رحیم ہے کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ (یہ ساری چیزیں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو رحیم ہے اس سے وہ تعلق پیدا نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے) ’’اور نہ اس کی خاص تجلّی کے جذبہ سے اس کی طرف کھنچے جاتے ہیں اس لئے ان کا وہ تمام سوزو گداز اور تمام وہ حالتِ خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسااوقات ان کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں‘‘۔ (اب نبیوں کی بیعت میں آ کر پھر مرتد ہونے والے کئی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض تھے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم کا بھی ذکر آتا ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود، اپنی نیکیوں پر پہنچنے کے باوجود اگر پھسلا تو بالکل ہی دین سے بھی گیا۔)
فرمایا ’’پس یہ عجیب دلچسپ مطابقت ہے کہ جیسا کہ نطفہ جسمانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رِحم کی کشش اس کی دستگیری نہ کرے وہ کچھ چیز ہی نہیں۔ ایسا ہی حالتِ خشوع روحانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رحیم خدا کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ حالت خشوع کچھ بھی چیز نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہو گی، اس تک پہنچے گا، رحیم خد اسے تعلق پیدا ہو گا تو وہ خشوع کامیاب رہے گا۔ نہیں تو صرف ظاہری رونا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جی ہم بڑے روئے، بڑے چلّائے، دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ لیکن اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ باقی چیزیں بھی پوری ہو رہی ہیں کہ نہیں۔ فرمایا کہ ’’اسی لئے ہزارہا ایسے لوگوں کو پاؤ گے کہ اپنی عمر کے کسی حصّہ میں یادِ الٰہی اور نماز میں حالت خشوع سے لذّت اٹھاتے اور وجد کرتے اور روتے تھے اور پھر کسی ایسی لعنت نے اُن کو پکڑ لیا کہ یک مرتبہ نفسانی امور کی طرف گر گئے اور دنیا اور دنیا کی خواہشوں کے جذبات سے وہ تمام حالت کھو بیٹھے۔ یہ نہایت خوف کا مقام ہے کہ اکثر وہ حالتِ خشوع رحیمیت کے تعلق سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے کہ رحیم خدا کی کشش اس میں کچھ کام کرے وہ حالت برباد اور نابود ہو جاتی ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 189-190)
پس کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کی عبادتیں خشوع کے اعلیٰ معیار پر پہنچ گئی ہیں۔ خشوع جیسا کہ میں نے پہلے بھی وضاحت کی ہے ان تمام جزئیات پر مشتمل ہے جو اس کے مضمون میں، معنی میں مَیں وضاحت سے بیان کرچکا ہوں۔ جب یہ جزئیات تمام تر عاجزی اور انکسار سے ادا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحیمیت پھر انہیں پھل لگاتی ہے۔ یہ مثال جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے اس میں انسان کو نہیں پتا کہ رحیم خدا کی رحیمیت نے کب اس کو قبول کر کے پھل لگانا ہے۔ پس ایک مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ جس طرح ظاہری طور پر پتا نہیں ہوتا کہ کب fertilization ہونی ہے اور کب بچہ پیدا ہونا ہے۔ بچے نے بننا شروع ہونا ہے اور پھر جس طرح بعض دفعہ رِحم میں جا کر بھی نطفے میں بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں، نطفہ ان کا حامل ہو جاتا ہے۔
[اس موقع پر مسجد کے اندر کسی کے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی جس پر حضور انور نے فرمایا: جس کا فون چل رہا ہے اپنا فون بند کریں اور مسجد میں بند کرکے آیا کریں ]۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا اور نطفے کی جو مثال دی تھی کہ جس طرح نطفہ رحم میں جا کر نقائص کا حامل ہو جاتا ہے ایسا ہی بعض دفعہ انسان کا ایک دفعہ کا خشوع اس کو اگر پھل لگا بھی دے گا اور یا پھل لگا دیتا ہے تو پھر اس میں بعض دفعہ خنّاس پیدا ہو جاتا ہے، اپنی بڑائی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ انبیاء کو قبول کر کے پھر چھوڑ دینے والوں کی حالت ہوتی ہے۔ تو یہ بڑائی اور تکبر ہی ہوتا ہے جو پھر ان کو ان نیکیوں سے چھڑوا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق اس وقت تک رہتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کے فرستادے سے تعلق رہے اور جہاں وہ تعلق چھوڑا وہاں ذلّت کے اور گمراہی کے کنوئیں میں گر گئے۔ پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خوف پیش نظر رہنا چاہئے۔ اس کی رحیمیت کے حصول کے لئے کوشش رہنی چاہئے۔ اس کے فضلوں کو طلب کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی ذرا سی کوششوں یا ایک آدھ دعا کے قبول ہونے یا چند سچی خوابیں دیکھنے پر نازاں نہیں ہو جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تمہاری ایک آدھ دعا کا قبول ہو جانا یا چند سچی خوابیں دیکھ لینا تمہیں فلاح پانے والوں میں شمار کر لے گا۔
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور فلاح والے اپنی عاجزی انکساری کی انتہا کو پہنچنے کے باوجود، لغویات سے پرہیز کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے باوجود، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے کے باوجود، اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے باوجود، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کے باوجود، اپنی نمازوں کے حق ادا کرنے کے باوجود اور ان کی حفاظت کرنے کے باوجود پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ڈھانپ لے کہ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو انسان کی مسلسل کوشش کو جو وہ اس کی رحیمیت کو جذب کرنے کے لئے کرتا ہے قبولیت کا درجہ دیتا ہے۔ یعنی رحیمیت کو جذب کرنے کی کوشش جو ہے وہ مسلسل رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے انسان قبول کیا جاتا ہے اور انجام اس کا بہترین نکلتا ہے۔
پس اس نکتے کو ایک حقیقی مومن کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیشک یہ فرما دیا کہ مومن فلاح پا گئے جو یہ یہ کام کرتے ہیں لیکن اس فلاح کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہر ترقی اور ہر فضل جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اسے اپنی کسی کوشش کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ ہر ترقی کے بعد سمجھے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر یہ مادہ پیدا ہو جائے تو ترقی ہوتی چلی جائے گی ورنہ اس نطفے کی طرح جو رِحم میں جا کر مکمل پرورش نہیں پاتا اور چند ہفتوں کے بعدنکل کر ضائع ہو جاتا ہے، ہمارا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو عارضی طور پر جذب کرنے کے بعد اپنے کسی بد عمل سے ناکارہ ہو کر ضائع ہو سکتا ہے اور ہو جاتا ہے۔
پس جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنے انجام کی طرف توجہ رکھنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی رحیمیت کو جذب کرتے ہوئے ہمارے ہر عمل سے وہ بچہ پیدا ہو جو ہر لحاظ سے مکمل ہو۔ ان لوگوں میں ہم شمار ہوں جو جُوں جُوں عبادت میں ترقی کرنے والے ہوں تو تذلّل بھی ان کا بڑھتا چلا جائے۔ عاجزی اور انکساری بھی ان کی بڑھتی چلی جائے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عبادتوں کی خوبصورتی اور خشوع کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے یہ فرماتے ہیں کہ میں بھی جنت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جاؤں گا (صحیح البخاری کتاب الطب باب تمنی المریض الموت حدیث نمبر 5673دارالکتاب العربی بیروت 2004ء) تو پھر کسی اَور کا صرف عمل اسے کس طرح جنت میں لے جا سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ضمانت دی ہوئی تھی اور انہوں نے دنیا کی اصلاح کرنی تھی، اسی کے لئے آئے تھے اور آپ کے عمل جیسا عمل تو کسی کا نہیں ہو سکتا وہ بھی اپنے خشوع و خضوع کو اس طرح بڑھاتے ہیں کہ نوافل میں یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ میرے پاؤں بھی متورم ہو گئے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے مسلسل عاجزی اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ہر حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو۔ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے اس میں کوئی اَنا یا تکبر کا حصہ تھا بھی تو نماز ختم کرتے وقت اس کا دل ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے۔ اسی طرح باقی عبادتیں ہیں۔ ہر عبادت کا خاتمہ اس کے تکبر کا خاتمہ اور تذلل کا اختیار کرنا ہو۔ اپنے روزمرہ معاملات میں ایک دوسرے سے سلوک اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دل میں عاجزی کی حالت لئے ہوئے ہو۔ پس عبادتیں ہمیں جھکائے چلی جانے والی ہونی چاہئیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس کو ہر وقت تازہ اور صحت مند پھلنے پھولنے والے پھل لگاتی رہے۔ ہر دن ہمیں اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرواتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل کو بڑھانے والا بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ استغفار کرتے رہنے والا بنائے۔ ہماری ہر نیکی اگر خدا تعالیٰ کی نظر میں نیکی ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہو۔ ہم میں سے ہر ایک ان لوگوں میں شامل ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں فلاح پانے والے ہوں۔
آیات قرآنی قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے نہایت پُر معارف تفسیر۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں یقینی فلاح کی ضمانت ان مومنوں کو دی ہے جو اس کی رحیمیت سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی پہلی شرط نمازوں اور عبادتوں میں خشوع ہے۔
کوئی نیکی اس وقت تک نیکی نہیں رہتی، نہ عبادتیں اس وقت تک مستقل بنیادوں پر عبادتیں رہتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ انسان چمٹا رہنے کی کوشش نہ کرے یا اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور اپنی عبادتوں کو صرف ایک ایسی کوشش سمجھے جو اسے اللہ تعالیٰ سے چمٹائے رکھنے کا اس کے فضل سے ہی ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور فلاح والے اپنی عاجزی انکساری کی انتہا کو پہنچنے کے باوجود، لغویات سے پرہیز کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے باوجود، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے کے باوجود، اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے باوجود، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کے باوجود، اپنی نمازوں کے حق ادا کرنے کے باوجود اور ان کی حفاظت کرنے کے باوجود پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ڈھانپ لے کہ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں۔ ہر حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو۔ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے اس میں کوئی اَنا یا تکبر کا حصہ تھا بھی تو نماز ختم کرتے وقت اس کا دل ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے۔ اسی طرح باقی عبادتیں ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ استغفار کرتے رہنے والا بنائے۔ ہماری ہر نیکی اگر خدا تعالیٰ کی نظر میں نیکی ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہو۔ ہم میں سے ہر ایک ان لوگوں میں شامل ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں فلاح پانے والے ہوں۔
فرمودہ مورخہ 10؍اپریل 2015ء بمطابق10شہادت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔