سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات
خطبہ جمعہ 17؍ اپریل 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک موقع پر دعا کی اہمیت بیان فرما رہے تھے کہ کس طرح دعا سے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جا سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے آپ نے علم توجہ یعنی مسمریزم کے متعلق بھی بیان فرمایا کہ جو لوگ مسمرائز کرنے کے ماہر ہوتے ہیں وہ بھی اس علم کے ذریعہ سے لوگوں میں بعض تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں مگر یہ عارضی اور انفرادی ہوتی ہیں اور پھر ایسی بھی نہیں ہوتیں جس سے کوئی انقلابی فوائد حاصل ہو رہے ہوں جبکہ دعائیں اگر تو اس کا حق ادا کرتے ہوئے کی جائیں تو قوموں کی بگڑی بنا دیتی ہیں۔ اس تفصیل میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جو حضرت صوفی احمد جان صاحب سے متعلق ہے۔ حضرت صوفی احمد جان صاحب سے متعلق مَیں نے تین جمعہ پہلے بھی بیان کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے ایک پیر صاحب کے ساتھ رہ کر مجاہدہ کیا تھا لیکن بعد میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی انہیں عقیدت پیدا ہو گئی تھی اور دعویٰ سے پہلے ہی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو پہچان لیا تھا۔ بہر حال اب میں حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں جس سے پتا چلتا ہے کہ علم توجہ سے دوسرے پر اثر ڈالنے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا حیثیت دیتے تھے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ: علم توجہ کیا ہے؟ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف براہین احمدیہ لکھی تھی کہ اس کی صوفیاء اور علماء میں بہت شہرت ہوئی۔ پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اس زمانے کے نہایت ہی خدا رسیدہ بزرگوں میں سے تھے۔ جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کر دی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں۔ اتفاقاً انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا۔ صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی۔ دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ صوفی احمد جان صاحب بھی ساتھ چل پڑے۔ وہ (صوفی احمد جان صاحب) رَتّر چھتّر والوں کے مرید تھے۔ اور ماضی قریب میں (یعنی اس زمانے کی جب آپ بات کر رہے ہیں ) رتّر چھتّر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقے میں مشہور تھے۔ علاوہ زہد و اتّقا کے انہیں علم توجہ میں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ (پیر صاحب) نماز پڑھتے تھے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے تھے اور نماز کے بعد جب وہ سلام پھیرتے تھے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی مار دیتے تھے (اور اس کا اثر تھا کیونکہ علم توجہ کا اثر بھی زیادہ ہوتا تھا) جس سے مریض شفا یاب بھی ہو جاتے تھے۔
جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں مَیں بیان کر چکا ہوں کہ صوفی احمد جان صاحب نے بارہ سال ان پیر صاحب کی شاگردی کی اور وہ چکّی ان سے پسواتے رہے۔ تو بہر حال راستے میں صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رتّر چھتّر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آ رہا ہے اگر میں اس پر توجّہ کروں (یعنی مسمرائز کر کے) تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ پر خاص جوش کی حالت طاری ہوتی تھی تو آہستگی سے اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے تھے جس طرح کوئی چیز کرید کر نکالی جاتی ہے۔ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور سوٹی سے اس طرح زمین کریدنی شروع کی۔ فرمایا: صوفی صاحب! اگر وہ گر جائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا اور اس کو کیا فائدہ ہو گا؟ وہ (صوفی صاحب) چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے۔ خدا تعالیٰ نے ان کو دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی ان پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے توبہ کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ دنیوی بات ہے، دینی بات نہیں۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں یہ لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ چنانچہ کوئی ہندو یا عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے۔ اس لئے مَیں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید اسے اسلام کا جزو سمجھ کر نہ کرے۔ ہاں دنیوی علم سمجھ کر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ جو میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں۔ چنانچہ انہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا۔ پہلے بھی مَیں شعر کا ذکر کر چکا ہوں کہ
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحب کشف تھے اور خدا تعالیٰ نے انہیں بتا دیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے پہلے فوت ہو گئے مگر وہ اپنی اولاد کو وصیت کر گئے کہ حضرت مرزا صاحب دعویٰ کریں گے انہیں ماننے میں دیر نہ کرنا۔ اور ان کے بارے میں تعارف مزید یہ بھی ہے کہ حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی شادی بھی ان کے ہاں ہوئی تھی۔ (ماخوذ ازخطبات محمود۔ جلد17 صفحہ101تا103)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ان کے داماد تھے۔
پھر مسمریزم سے متعلق ایک واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ہوا حضرت مصلح موعودنے بیان فرمایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ پر مسمریزم کرنے والے کو نہ صرف ناکام و نامراد کیا بلکہ نشان دکھایا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ: مسمریزم والوں کی قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔ مسمریزم کی قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتی۔ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوت ارادی اور انسان کی قوت ارادی میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ (جس مسجد میں آپ یہ خطبہ دے رہے تھے آپ نے فرمایا کہ) اسی مسجد مبارک میں نچلی چھت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک ہندو جو لاہور کے کسی دفتر میں اکاؤنٹنٹ تھااور مسمریزم کا بڑا ماہر تھا وہ کسی بارات کے ساتھ قادیان اس ارادہ سے آیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا اور وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے (نعوذ باللہ) اور لوگوں کے سامنے ان کی سُبکی ہو گی۔ یہ واقعہ اس ہندو نے خود ایک احمدی دوست کو سنایا تھا۔ وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لاہور کے اس احمدی کے ہاتھ اپنی ایک کتاب روانہ فرمائی اور کہا یہ کتاب فلاں ہندو کو دے دینا۔ اس احمدی دوست نے اس کو کتاب پہنچائی اور اس سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو اپنی کتاب کیوں بھجوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس پر اس ہندو نے اپنا واقعہ بتایا کہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت ہے کہ اگر میں تانگے میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ شخص جس پر میں نے توجہ ڈالی ہو گی وہ بھی تانگے کے پیچھے بھاگا آئے گا حالانکہ نہ وہ میرا واقف ہو گا اور نہ میں اس کو جانتا ہوں گا۔ توکہنے لگا کہ میں نے آریوں اور ہندوؤں سے مرزا صاحب کی باتیں سنی تھیں کہ انہوں نے آریہ مت کے خلاف بہت سی کتابیں لکھیں۔ میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا اور جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوں گے تو ان پر توجہ ڈال کر ان کے مریدوں کے سامنے ان کی سُبکی کروں گا۔ چنانچہ میں ایک شادی کے موقع پر قادیان گیا۔ مجلس منعقد تھی اور میں نے دروازے میں بیٹھ کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی۔ وہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کچھ وعظ و نصیحت کی باتیں کر رہے تھے۔ کہتا ہے کہ میں نے توجہ ڈالی تو کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ میں نے سمجھا ان کی قوت ارادی ذرا قوی ہے اس لئے میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ اسی طرح باتوں میں مشغول رہے۔ میں نے سمجھا کہ ان کی قوت ارادی اور بھی مضبوط ہے۔ اس لئے میں نے جو کچھ میرے علم میں تھا اس سے کام لیا اور اپنی ساری قوت صَرف کر دی لیکن جب میں ساری قوت لگا بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شیر میرے سامنے بیٹھا ہے اور مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ (یہ بھی ایک جگہ بیان فرمایا کہ ہر مرتبہ شیر نظر آتا تھا لیکن آخری مرتبہ وہ شیر حملے کے لئے تیار نظر آیا۔ بہرحال کہنے لگا شیر کو دیکھ کر) میں ڈر کر اور اپنی جوتی اٹھا کر وہاں سے بھاگا۔ جب میں دروازے پر پہنچا تو مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا دیکھنا یہ کون شخص ہے؟ چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اترا اور اس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے پکڑ لیا۔ مَیں چونکہ اس قوت سخت حواس باختہ تھا اس لئے میں نے پکڑنے والے سے کہا۔ اس وقت مجھے چھوڑ دو، میرے حواس درست نہیں ہیں۔ مَیں بعد میں یہ سارا واقعہ مرزا صاحب کو لکھ دوں گا۔ چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ تمام واقعہ لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوئی۔ مَیں آپ کے مرتبے کو پہچان نہ سکا۔ اس لئے آپ مجھے معاف فرما دیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میاں عبدالعزیز صاحب مغل لاہور والے سنایا کرتے تھے (ان کے خاندان کے بہت سے افراد یہاں بھی ہیں ) کہ میں نے اس ہندو سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم کو جانتے ہیں اور اس علم میں تم سے بڑھ کر ہیں۔ اس نے کہا یہ بات نہیں ہو سکتی کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ ان کی قوت ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ پس جو قوت ارادی خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہے اور جو کامل ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اس میں اور انسانی قوت ارادی میں بُعد المشرقَین ہے۔ جس شخص کو خدا تعالیٰ قوت ارادی عطا فرماتا ہے اس کے سامنے انسانی قوت ارادی تو بچوں کا سا کھیل ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے سامنے جادوگروں کے سانپ مات ہو گئے تھے۔ اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے پیاروں کی قوت ارادی ظاہر ہوتی ہے تو اس قسم کی قوت ارادی رکھنے والے لوگ جو دنیاوی طور پر قوت ارادی رکھتے ہیں ہیچ ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک موقع پر یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ قومی ترقی کے لئے کیا کچھ ضروری ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دینی معاملات میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام میں کس حد تک غیرت تھی۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ:
قومی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام سچائیوں کو اپنے اندر جذب کر لیا جائے۔ مسائل کے بارے میں بھی، عقائد کے بارے میں بھی(انتہائی ضروری چیز ہے کہ سچائیاں اپنے اندر جذب کی جائیں)۔ یہ نہیں کہ صرف وفات مسیح کو مان لیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے بلکہ وفات مسیح کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر اس پر غور کیا جائے کہ وفات مسیح کا ماننا کیوں ضروری ہے؟ ہمیں جو چیز حیات مسیح کے عقیدہ سے چُبھتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو حیات مسیح کے عقیدہ سے حضرت عیسیٰ کی فضیلت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت ہوتی ہے حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا کوئی نبی ہؤا ہے نہ ہو گا اور حیات مسیح ماننے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ساری دنیا کی حقیقی اصلاح کی، مسیح کی فوقیت ثابت ہوتی ہے اور یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔ ہم تو ایک لمحے کے لئے یہ خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتے کہ مسیح، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے اور یہ ماننے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہیں اسلام کی سخت توہین ہوتی ہے۔
دوسری بات جو اس حیات مسیح کے عقیدہ کے ماننے سے ہمیں چُبھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے توحید الٰہی میں فرق آتا ہے۔ یہ دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں وفات مسیح کے مسئلے پر زور دینا پڑتا ہے۔ اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو مسیح خواہ آسمان پر ہوتے یا زمین پر ہمیں اس سے کیا واسطہ ہوتا۔ مگر جب ان کا آسمان پر چڑھنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توہین کا موجب بنتا ہے اور توحید کے منافی ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ ہم تو یہ بات سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ مسیح، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے کجا یہ کہ اس عقیدہ کو مان لیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ عام احمدی جب وفات مسیح کے مسئلے پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دلائل پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے اندر جوش پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس طرح اس مسئلے کو بیان کرتے ہیں جس طرح عام گفتگو کی جاتی ہے۔ مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ جب آپ وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے تھے تو اس وقت آپ جوش کی وجہ سے کانپ رہے ہوتے تھے اور آپ کی آواز میں اتنا جلال ہوتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ حیات مسیح کے عقیدہ کا قیمہ کر رہے ہیں۔ آپ کی حالت اس وقت بالکل متغیّر ہو جایا کرتی تھی اور آپ نہایت جوش کے ساتھ یہ بات پیش کرتے تھے کہ دنیا کی ترقی کے راستے میں ایک بڑا بھاری پتھر پڑا تھا جس کو اٹھا کر مَیں دُور پھینک رہا ہوں۔ دنیا تاریکی کے گڑھے میں گر رہی تھی مگر میں اس کو نور کے میدان کی طرف لے جا رہا ہوں۔ آپ جس وقت یہ تقریر کر رہے ہوتے تھے آپ کی آواز میں ایک خاص جوش نظر آتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر مسیح بیٹھ گئے ہیں جس نے ان کی عزت اور آبرو چھین لی ہے اور آپ اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت واپس لینا چاہتے ہیں۔ (ماخوذ از’قومی ترقی کے دو اہم اصول‘۔ انوار العلوم جلد19 صفحہ92تا95)
پس یہ تھی غیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لیکن آج کل کے علماء پر بھی حیرت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنی غیرت اور جوش رکھنے والے کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا درجہ دیا ہوا ہے یا احمدیت کو اونچا درجہ سمجھتے ہیں۔ پھر ایک واقعہ یہ ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کو کسی اعلیٰ مقام پر کھڑا کرتا ہے تو اس کی لوگوں کے بارے میں کس طرح راہنمائی کر دیتا ہے۔ یہ واقعہ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان ہے کہ کس طرح رہنمائی کرتا ہے اور کس طرح لوگوں کا اندرونہ بھی ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔
اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ: جب انسان ایسے مقام پر کھڑا ہو جائے (یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نے خود بلند مقام پر کھڑا کیا ہو تو پھر) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود رہنمائی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کو ایسی مخفی ہدایت ملتی ہے جسے الہام بھی نہیں کہہ سکتے اور جس کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام سے جُدا امر ہے۔ الہام تو ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ لفظی الہام نہیں ہوتا اور عدم الہام ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عملی الہام ہوتا ہے اور انسانی قلب پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہو کر بتا دیتا ہے کہ معاملہ یوں ہے حالانکہ لفظوں میں یہ بات نہیں بتائی جاتی۔
فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ جب اس سے بھی واضح رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات بتائی جاتی ہے تو اسے کشف کہہ دیتے ہیں۔ (کشف بھی ہو جاتا ہے جب واضح طور پر ہو جائے۔) جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعائیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے، مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے… اللہ تعالیٰ کی یہی سنّت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کر دیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا۔ اس لئے اس سنّت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کر دے۔ (ماخوذ از الفضل9 مارچ 1938 صفحہ 3نمبر55 جلد26)
اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کس طرح غیروں کو بھی نشان دکھاتا ہے۔ اس بارے میں ایک واقعہ جو ایک غیر احمدی کے ساتھ ہؤا، بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ خیال کہ کسی انسان کے جسم سے ایسی شعائیں کس طرح نکل سکتی ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آ جائیں صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس نشان کو ظاہر پر محمول کر لیتے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے کہ یہ کشفی واقعہ ہے تو اس قسم کے وساوس بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتے۔ موسیٰ کا زمانہ تو بہت دُور کی بات ہے ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے نشان دکھائے ہیں جن میں کشفی نگاہ رکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو ظاہری شکل میں بھی متمثل دیکھا اور اس کے روحانی کیف سے لطف اندوز ہوئے۔ چنانچہ 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسے میں آپ نے تقریر فرمائی۔ ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ دورانِ تقریر مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا۔ اس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں کہا دیکھو وہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے دیکھا تو فوراً دوسرے دوست نے بھی کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے۔ اس نظارے کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہؤا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد7 صفحہ120، 121)
یہ ایسے نشانات ہیں جن کو دیکھ کر لوگوں نے ایمان حاصل کیا۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ نشانات کی مختلف صورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ لوگوں پر اب بھی ظاہر فرماتا چلا جا رہا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ ایک جمعہ پہلے میں نے خطبے میں بعض تازہ واقعات بھی بیان کئے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مجلس کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جنّ آتے ہیں۔ (عام طور پر ہمارے ہاں بھی اور عربوں میں بھی یہ تصور ہے کہ جنّ چمٹ جاتے ہیں اور جنّوں کو نکالنے کے لئے پھر جس بیچارے پے جنّ چمٹے ہوتے ہیں اس پر ظلم بڑا کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو جنّ نکالنے کے لئے اس شخص کو جس کو جنّ چمٹا ہو جان سے مار دیتے ہیں۔ بہر حال کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عرض کی کہ میری ہمشیرہ کے پاس جنّ آتے ہیں اور وہ جنّ ایسے ہیں کہ) وہ کہتے ہیں ہم آپ پر (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر) ایمان لانے کو تیار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں خط لکھا کہ آپ ان جنّوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو؟ اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ صاحب کو جا کر ستائیں۔ ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایسے جن کوئی نہیں ہوتے جن کو عام لوگ مانتے ہیں۔ بیشک کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنی انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں کہ جنّ کوئی نہیں ہوتے لیکن مومن کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے؟ (مومن کو اس طرح سوچنا چاہئے۔) اگر قرآن کہتا ہے کہ جنّ ہوتے ہیں جس طرح کہ جنّوں کا تصور عام لوگوں نے پیدا کیا ہوا ہے تو اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جنّ کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہ بات ماننی پڑتی ہے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد7 صفحہ363)
بہر حال مومن نے ہر صورت میں قرآن کی بات کو ماننا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی عزت اور وقار قائم رکھنے کے لئے مجذوبوں اور پاگلوں پر بھی کس طرح بعض تصرّف فرماتا ہے اس کا واقعہ بیان کرتے ہوئے (پہلے بھی ہم کئی دفعہ سن چکے ہیں) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ لاہور تشریف لے گئے۔ بعض دوستوں نے تحریک کہ شاہدرہ میں ایک مجذوب رہتا ہے اس کے پاس جانا چاہئے مگر بعض دوسرے دوستوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ نہایت گندی گالیاں بکتا ہے اس کے پاس نہیں جانا چاہئے۔ مگر جو جانے کے حق میں تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو الہام ہوتا ہے۔ دیکھنا چاہئے وہ کیا کہتا ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو جانچنے کے لئے ان کو ایک ہی معیار نظر آیا کہ اس کے پاس جایا جائے۔ تو) آپ خود بھی انکار کرتے رہے مگر دوست اصرار کر کے ایک دفعہ لے گئے۔ آپ نے فرمایا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ شخص گالیاں دیتے دیتے یکدم خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس ایک خربوزہ رکھا تھا۔ اسے اٹھا کر میرے پیش کیا اور کہنے لگا یہ آپ کی نذر ہے۔ تو بعض دیکھنے والے جو ظاہری باتوں کو دیکھتے ہیں وہ تو اس کے اور بھی معتقد ہو گئے۔ مگر آپ نے فرمایا کہ وہ پاگل تھا۔ تو بعض اوقات پاگل کو بھی ایسی باتیں نظر آ جاتی ہیں جو عقلمندنہیں دیکھ سکتے۔ وہ چونکہ دنیا سے منقطع ہو چکا ہوتا ہے اس لحاظ سے اسے کسی وقت غیب کی باتیں نظر آ جاتی ہیں۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 28 جولائی 1938ء صفحہ4 جلد26 نمبر171)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات اور معجزات کے حوالے سے حضرت مصلح موعودنے بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے چند حوالے پیش کرتا ہوں۔ ایک مشہور واقعہ پاگل کتے کے کاٹنے کااور مریض کے شفا یاب ہونے کا ہے۔ اس کو حضرت مصلح موعودنے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے سارے واقعات چونکہ محفوظ نہیں اس لئے اس قسم کی زیادہ مثالیں اب نہیں مل سکتیں ورنہ مَیں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں ہزاروں مثالیں آپ کی زندگی میں مل سکتی ہوں گی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جبکہ دہریت کا بہت زور ہے اور اس کو توڑنے کے لئے آسمانی نشانوں کی حد درجے کی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے بہت سے نشانات اس قسم کے دکھائے ہیں جن پر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کا قیاس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مَیں ایک صاحب عبدالکریم نامی کا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ وہ قادیان میں سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ انہیں اتفاقاً باؤلے کتے نے کاٹ کھایا۔ اس پر انہیں علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا اور علاج ان کا بظاہر کامیاب رہا۔ لیکن واپس آنے کے کچھ دن کے بعد انہیں بیماری کا دورہ ہو گیا جس پر کسولی تار دی گئی کہ کوئی علاج بتایا جائے مگر جواب آیا کہ Nothing can be done for Abdul Karim.یعنی افسوس ہے کہ عبدالکریم کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی بیماری کی اطلاع دی گئی۔ چونکہ سلسلے کی ابتدا تھی۔ (ابھی نیا نیا شروع ہوا تھا۔ جماعت احمدیہ کی ابتدا تھی) اور یہ صاحب دور دراز سے علاقہ حیدر آباد دکن کے ایک گاؤں سے بغرض تعلیم آئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہمدردی پیدا ہوئی اور آپ نے ان کی شفا کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی اور فرمایاکہ اس قدر دُور سے یہ آئے ہیں، جی نہیں چاہتا کہ اس طرح ان کی موت ہو۔ ایک جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کی ماں نے بڑے شوق سے اور جذبے سے اسے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اتنے دور دراز علاقے سے بھیجا ہے، اس لئے بھی میرے اندر ایک درد پیدا ہوا کہ اس کے لئے دعا کروں۔ بہرحال اس دعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دورہ ہو جانے کے بعد ان کو شفا دے دی حالانکہ جب سے انسان پیدا ہو اہے (اس وقت کی میڈیکل ہسٹری یہی کہتی تھی کہ) اس قسم کے مریض کو کبھی شفا نہیں ہوئی۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میرے ایک عزیز ڈاکٹر ہیں بلکہ اب بھی ڈاکٹری کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ ہستی باری تعالیٰ پر ایک دوسرے طالبعلم سے گفتگو کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے یہ واقعہ بطور شہادت کے پیش کیا کہ خدا تعالیٰ ہے اور اس طرح دعائیں سنتا ہے اور اس طرح ایک علاج ہو گیا۔ اس طالبعلم نے کہا یعنی جو دوسرا تھا جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں تھا اس نے کہا کہ ایسے مریض بچ سکتے ہیں یہ کوئی ایسی عجیب بات نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتفاقاً اسی دن کالج میں پروفیسر کا لیکچر ’’سگ گزیدہ کی حالت‘‘ پر تھا۔ یعنی جس کو کتّے نے کاٹا ہو اس کی حالت پر تھا۔ جب پروفیسر لیکچر کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس مرض کا علاج دورہ ہونے سے پہلے کرنا چاہئے اور بہت جلد اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بات کو واضح کرانے کے لئے کہا کہ جناب بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورہ پڑ جانے کے بعد بھی مریض اچھا ہو سکتا ہے۔ اس پر پروفیسر نے جھڑک کر کہا کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جو کہتا ہے وہ بیوقوف ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ غرض یہ ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا تھا اور نہ کبھی ہؤا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے میاں عبدالکریم کو شفا دی اور وہ خدا کے فضل سے اب تک زندہ ہیں۔ (اس وقت جب آپ یہ بیان فرما رہے تھے۔ ) پس ثابت ہوا کہ اس طبعی قانون کے اوپر ایک ہستی حاکم ہے جس کے ہاتھ میں شفا کی طاقت ہے۔‘‘ (ماخوذ از ہستی باری تعالیٰ۔ انوار العلوم جلد6 صفحہ328-329)
پھر آپ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ امریکہ سے دو مرد اور ایک عورت آئی۔ ایک مردنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے دعویٰ کے متعلق گفتگو کی۔ دورانِ گفتگو میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا ذکر آ گیا۔ اس شخص نے کہا کہ وہ تو خدا تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ان کے خدا ہونے کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟ اس نے کہا کہ انہوں نے معجزے دکھائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ معجزے تو ہم بھی دکھلاتے ہیں۔ اس نے کہا مجھے کوئی معجزہ دکھلائیں؟ آپ نے فرمایا تم خود میرا معجزہ ہو(یعنی وہ امریکن جس نے سوال کیا تھا اسے فرمایا کہ تم میرا معجزہ ہو۔) یہ سن کر وہ حیران سا ہو گیا۔ اور کہنے لگا مَیں کس طرح معجزہ ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ قادیان ایک بہت چھوٹا سا اور غیر معروف گاؤں تھا۔ معمولی سے معمولی کھانے کی چیزیں بھی یہاں سے نہیں مل سکتی تھیں حتی کہ ایک روپے کا آٹا بھی نہیں مل سکتا تھا اور اگر کسی کو ضرورت ہوتی تھی تو گیہوں لے کر پِسواتا تھا۔ اُس وقت مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا میں بلند کروں گا اور تمام دنیا میں تمہاری شہرت ہو جائے گی۔ چاروں طرف سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ان کی آسائش اور آرام کے سامان بھی یہیں آ جائیں گے۔ یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ اور ہر قسم اور ہر ملک کے لوگ تیرے پاس آئیں گے۔ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ۔ اور اس قدر آئیں گے کہ جن راستوں سے آئیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے۔ (گہرے ہو جائیں گے۔) اب دیکھ لو کہ راستے کس قدر عمیق ہو گئے ہیں۔ بٹالے سے قادیان تک جو سڑک آتی ہے اس پر پچھلے ہی سال گورنمنٹ نے دوہزار روپے کی مٹی ڈلوائی ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا کہ تم میرے پاس امریکہ سے آئے ہو۔ تمہارا مجھ سے کیا تعلق تھا۔ جب تک میں نے دعویٰ نہ کیا تھا مجھے کون جانتا تھا۔ مگر آج تم اتنی دور سے میرے پاس چل کر آئے ہو یہی میری صداقت کا نشان ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ جس وقت یہ گفتگو ہو رہی تھی اور اس شخص نے کہا تھا کہ آپ مجھے اپنا کوئی معجزہ دکھائیں تو سب لوگ حیران تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا کیا جواب دیں گے؟ سب نے یہی خیال کیا کہ آپ کوئی ایسی تقریر کریں گے جس میں معجزات کے متعلق بتائیں گے کہ کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن جونہی اس نے اپنی بات کو ختم کیا اور آپ کو انگریزی سے اردو ترجمہ کر کے سنائی گئی تو آپ نے فوراً یہی جواب دیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن ہر ایک انسان کی عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی۔ اب بھی ہر ایک وہ انسان جو عقل سے کام نہیں لے گا کہے گا کہ یہ کیا معجزہ ہے؟ مگر جن کی آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل اور سمجھ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا معجزہ ہے اور حق کے قبول کرنے والے کے لئے یہی کافی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میری صداقت میں لاکھوں نشانات دکھلائے گئے۔ لیکن مَیں تو کہتا ہوں کہ اتنے نشانات دکھلائے گئے ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے مگر پھر بھی بہت سے نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اتنے تو مرزا صاحب کے الہام بھی نہیں۔ پھر نشانات کس طرح اس قدر ہو گئے؟ لیکن عقل اور سمجھ رکھنے والے انسان خوب جانتے ہیں کہ لاکھوں نشانات تو ایک الہام سے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ایک قصّہ مشہور ہے کہ کوئی شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ کل میں تم کو ایک ایسا لڈّو کھلاؤں گا جو کئی ہزاروں، لاکھوں آدمیوں نے بنایا ہو گا۔ دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو انہوں نے لڈّو کھانے کی امید پر کچھ نہ کھایا اور چچا کو کہا کہ وہ لڈو دیجئے۔ اس نے ایک معمولی لڈو نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ یہ ہے وہ لڈو جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ اس کو دیکھ کر وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح کئی لاکھ آدمیوں کا بنایا ہوا ہے؟ چچا نے کہا کہ تم کاغذ اور قلم لے کر لکھنا شروع کر دو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ واقعہ میں اس لڈو کو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے۔ دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا۔ اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئیں ان کو حلوائی نے کئی آدمیوں سے خریدا۔ پھر ان میں سے ہر ایک چیز کو ہزاروں آدمیوں نے بنایا۔ مثلاً شکّر کو ہی لے لو اس کی تیاری پر کتنے آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے۔ کوئی اس کو مَلنے والے ہیں۔ کوئی رَس نکالنے والے ہیں۔ کوئی نَیشکر کھیت سے لانے والے۔ کوئی ہل جوتنے والے۔ پانی دینے والے۔ پھر ہل میں جو لوہا اور لکڑی خرچ ہوئی ہے اس کے بنانے والے۔ اسی طرح سب کا حساب لگاؤ تو کس قدر آدمی بنتے ہیں؟ پھر شکّر کے سوا اس میں آٹا ہے۔ اس کے تیار کرنے والے کا اندازہ لگاؤ۔ کیا اس طرح اتنی تعدادنہیں بن جاتی؟ بھتیجوں نے یہ سن کر کہا کہ ہاں ٹھیک ہے۔ یہ بات ان بچوں کی سمجھ میں تو نہ آئی لیکن وہ شخص چونکہ عقلمند تھا اس لئے وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک لڈّو کے تیار ہونے میں لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے۔
یہ تو اس نے دنیاوی رنگ میں نصیحت کی تھی مگر جو روحانی بزرگ ہوتے ہیں انہوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ (پھر آپ نے مرزا مظہر جان جاناں کا واقعہ بیان کیا کہ) انہوں نے بٹالے کے ایک شخص غلام نبی کو دو لڈو دئیے۔ اس نے منہ میں ڈال لئے اور کھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس سے انہوں نے پوچھا کہ تم نے ان لڈوؤں کا کیا کیا؟ اس نے کہا کھا لئے۔ یہ سن کر انہوں نے نہایت تعجب انگیز لہجے میں پوچھا کہ ہیں ! کھا لئے؟ اس نے کہا جی ہاں کھا لئے۔ اسی طرح وہ بار بار ان سے پوچھتے رہے اور تعجب کرتے رہے۔ اتنی جلدی تم نے کھا لئے۔ اس کو خیال ہوا کہ انہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ کس طرح کھاتے ہیں۔ ایک دن کوئی شخص ان کے پاس کچھ لڈو لایا۔ ان میں سے آپ نے ایک لڈو اٹھا کر رومال پر رکھ لیا اور اس میں سے ایک ریزہ توڑ کر آپ نے تقریر شروع کر دی کہ میں ایک ناچیز ہستی، میرے لئے خدا تعالیٰ نے یہ اتنی بڑی نعمت بھیجی ہے۔ اس میں کیا کیا چیزیں پڑی ہیں۔ پھر ان کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہو گا۔ کیا مجھ ناچیز کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نعمت بھیجی ہے؟ اس طرح تقریر کرتے رہے اور ادھر اپنی عاجزی اور فروتنی بیان کرتے رہے اور اُدھر خدا تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرتے رہے۔ اسی طرح ظہر سے کرتے کرتے ابھی پہلا ہی دانہ جو منہ میں ڈالا تھا وہی کھایا تھا کہ عصر کی اذان ہو گئی اور اسے چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ کیا بات تھی؟ یہی کہ اس لڈو میں انہیں خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات نظر آتے تھے۔ یوں کھانے والا تو چار پانچ دس بیس لڈو بھی جھٹ پٹ کھا سکتا ہے مگر مظہر جان جاناں کے لئے ایک ہی لڈو اتنا بوجھل ہو گیا کہ اس کے کھانے سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے ان کی کمر ٹوٹی جاتی تھی۔ تو عقل ہی ایک چھوٹی سی چیز کو بڑا بنا دیتی ہے اور نادانی نظر آنے والی بڑی چیز کو بھی چھوٹا ظاہر کر دیتی ہے۔ اسی طرح عقل ایک بڑی نظر آنے والی چیز کو چھوٹا دکھا دیتی ہے اور نادانی ایک معمولی چیز کو بڑا دکھا دیتی ہے۔ تو عقلمند انسان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی خدا کے بڑے بڑے نشان دیکھ لیتا ہے اور نادان بڑی بڑی اہم باتوں میں بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میری صداقت کے خدا تعالیٰ نے لاکھوں نشانات دکھلائے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے اور (اس میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشانات دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار بھی نہیں ہو سکتا۔ مگر کن کے لئے؟ (یہ نشان جو دکھلائے ہیں کن کے لئے ہیں؟) اُنہیں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص آپ کی صداقت کے نشانات دیکھنے کے لئے یہاں آئے تو یہ جس قدر بھی عمارتیں ہیں جو سامنے نظر آ رہی ہیں۔ (یہ قادیان میں فرما رہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہو کر) ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب آپ کے نشان ہیں۔ پھر احمدیہ بازار سے آگے کے جس قدر مکانات بنے ہوئے ہیں ان کے لئے جو زمین تیار کی گئی ہے، اس میں ڈالا ہوا مٹی کا ایک ایک بورا نشان ہے۔ یہاں ایک اتنا بڑا گڑھا تھا کہ اس میں ہاتھی غرق ہو سکتا تھا(مٹّی ڈال ڈال کے وہ بھرا اور پھر آبادی ہوئی۔ ) پھر قادیان سے باہر شمال کی طرف نکل جائیں وہاں جو اونچی اور بلند عمارتیں نظر آئیں گی ان کی ہر ایک اینٹ اور چونے کا ایک ایک ذرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہے۔ پھر قادیان میں چلتے پھرتے جس قدر انسان نظر آتے ہیں خواہ وہ ہندو ہوں یا سکھ یا غیر احمدی ہیں یا احمدی سب کے سب آپ ہی کی صداقت کے نشان ہیں۔ احمدی تو اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو دیکھ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں کے ہو رہے اور غیر احمدی اور دوسرے مذاہب والے اس لئے کہ ان کی طرز رہائش، لباس وغیرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے وہ نہ تھے جو اَب ہیں۔ ان کی پگڑی، ان کا کرتہ، ان کا پاجامہ، ان کی عمارتیں، ان کا مال، ان کی دولت وہ نہ تھی جو اَب ہے۔ (آج بھی قادیان کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے۔ آج بھی لوگ قادیان جاتے ہیں تو اس لئے جاتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہے۔ اس لئے نہیں جاتے کہ ایک شہر ہے اور عام شہروں کی طرح اس کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ترقی کر رہا ہے یا شہر پھیل گیا ہے۔ وہاں کے کاروباری لوگ آج بھی اس امید پر بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہاں جلسہ ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جاری کردہ ہے تو ہمارے کاروبار بھی چمکیں گے۔ تو مالی لحاظ سے بھی غیروں کی یہ ترقیاں آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے اس شہر میں ہو رہی ہیں۔ بہر حال) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کرنے پر لوگ آپ کے پاس آئے اور ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھا لیا اور لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ کی وجہ سے ان کو بھی نعمت مل گئی تو یہ سب آپ کی صداقت کے نشانات ہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) دُور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی مسجد (جہاں آپ یہ خطبہ دے رہے تھے اس) کی یہ عمارت یہ لکڑی یہ کھمبا یہ سب نشانات ہیں کیونکہ یہ پہلے نہیں تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو پھر بنے۔ پس لاکھوں نشانات تو یہاں ہی مل سکتے ہیں۔ پھر سالانہ جلسے پر جس قدر لوگ آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آنے والا ایک نشان ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ ہر سال ظاہر کرتا ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کرتا رہے گا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نشانات کا یہ بہت کم اندازہ لگایا کہ وہ لاکھوں ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ وہ اس قدر ہیں کہ کوئی انسانی طاقت ان کو گن ہی نہیں سکتی۔ صرف خدا تعالیٰ ہی کے اندازے میں آ سکتے ہیں۔ لیکن جہاں یہ نشانات ہمارے لئے تقویت ایمان کا موجب ہوتے ہیں وہاں اس آیت کے ماتحت یہ بھی بتاتے ہیں کہ اول ہر ایک آنے والا انسان آنکھیں کھول کے دیکھے کہ یہاں کس قدر نشانات ہیں اور پھر وہ خود بھی ایک نشان ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد5 صفحہ354تا357) اور آج دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی اور جماعت احمدیہ کی مساجد، مشن ہاؤسز، جامعات، سکول، ہسپتال، مقامی باشندوں کا آپ کے ساتھ عقیدت اور احترام کا اظہار یہ سب نشانات ہیں۔ جس کی روحانی نظر ہو اسی کو نظر آ سکتا ہے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا مَیں آپ کاکوئی نشان دیکھنے آیا ہوں۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا میاں تم میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ لو تمہیں معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں کس قدر نشانات دکھائے ہیں۔ تم نے ان سے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ اور نشان دیکھنے آئے ہو؟
پس اگر اس شخص نے دو منٹ یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی دو چار پیشگوئیاں پیش کی ہوتیں تو ہم دو سال کیا اس کی دو سو سال والی پیشگوئی بھی مان لیتے اور کہتے کہ جب ہم نے دو تین یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں دیکھی ہیں تو یہ لمبے عرصے والی پیشگوئیاں بھی ضرور پوری ہوں گی۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی پیشگوئیاں دکھائے بغیر لمبے عرصے والی پیشگوئیاں کرے تو ہم کہیں گے کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 14 اگست1956 صفحہ4 جلد 45/10 نمبر189)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں تو آپ کی زندگی میں پوری ہوئیں اور آج تک ہو رہی ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت کی روزانہ ترقی اس کی دلیل ہے، اس کا ثبوت ہے۔
اللہ تعالیٰ ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر جس طرح ہو رہی ہیں ان کو نظر نہ آنے والوں کو بھی بصارت عطا فرمائے کہ وہ ان کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہر لمحہ اپنے ایمان میں مضبوط تر کرتا چلا جائے۔
مسمریزم یا علم توجہ محض چند کھیلوں کا نام ہے۔ لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے۔
مسمریزم کی قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے دینی غیرت۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے غیروں کو بھی نشان دکھاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ مختلف واقعات کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ
فرمودہ مورخہ 17؍اپریل 2015ء بمطابق 17شہادت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔