حضرت مصلح موعودؓ: مذہب، اخلاقیات اور مادی ترقی کے تعلق پر روشنی
خطبہ جمعہ 24؍ اپریل 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
ایک سوال آجکل پہلے سے زیادہ شدت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں خاص طور پر اور معاشرے میں عموماً ان لوگوں کی طرف سے کثرت سے پھیلایا جاتا ہے جو مذہب کے خلاف ہیں۔ یا صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہب بلکہ خدا سے بھی دُور ہٹ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اچھے اخلاق ہوں یا اگر دنیاوی تعلیم اچھے اخلاق کی طرف لے جاتی ہے تو پھر مذہب کے ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ مذہب بھی تو یہی دعویٰ کرتا ہے یا مذہب کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ تمہیں اچھے اخلاق سکھاتا ہے۔ تو اخلاق تو ہمارے اندر بغیر مذہب کے پیدا ہو گئے۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا داروں کی اکثریت کے اخلاق مذہب کے ماننے والوں کے اخلاق سے زیادہ بہتر ہیں اور خاص طور پر اسلام کو اس حوالے سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دوسرے مذاہب کی اکثریت تو مذہب کے معاملے میں تقریباً لاتعلق ہو چکی ہے صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس کی طرف منسوب ہونے والی اکثریت اپنے دین کے ماننے کا اظہار کرتی ہے یا بے عمل مسلمانوں کی اکثریت بھی اپنے آپ کو کھل کر مسلمان کہتی ہے، مذہب کی طرف منسوب کرتی ہے۔ اسی لئے اصل حملہ اسلام پر ہی ہے اور دین سے ہٹانے کی کوشش میں مختلف طریق سے مختلف نکات پیش کر کے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں جو طرز تعلیم ہے اس میں جستجو کی طرف، تحقیق کی طرف زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے اس طرف توجہ ہونی چاہئے لیکن اس کے صحیح طریق بھی ہونے چاہئیں۔ بہر حال جب نوجوان یا نوجوانی میں قدم رکھنے والے لڑکے لڑکیاں اپنے گھر والوں میں اپنے ماں باپ اور بڑوں کی طرف ذہنوں میں پیدا کئے گئے اور پیدا ہونے والے مختلف سوالوں کے حل کی تلاش کے لئے جاتے ہیں تو یا تو ماں باپ کے پاس اپنے معاشی اور معاشرتی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے جواب دینے کا وقت نہیں ہوتا یا علم نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ان کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے انہیں بسا اوقات دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے نوجوانی میں قدم رکھنے والے بچے بھی سمجھتے ہیں کہ مذہب چاہے وہ اسلام ہی کیوں نہ ہو اس کا دعویٰ تو ہے کہ سچا ہے اور تمام مسائل کا حل ہے لیکن زمانے کے لحاظ سے عملی حل نہیں ہے یا جواب نہیں ہے یا پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ بڑوں کے عمل اور بچوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں تفاوت ہوتا ہے۔ بچے ایک وقت تک تو تعلیم کی باتیں سن کر چپ رہتے ہیں لیکن جب آزادی ملتی ہے تو دین سے دُور ہٹ جاتے ہیں اور پھر مذہب سے دور لے جانے والوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اسلام کی خوبصورت تعلیم اور زندہ مذہب ہونے کے اب مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو مذہب اور خدا کے انکاری ہیں۔ پس ایسے حالات میں ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو بھی ہم دین پر عمل کرنے والا بنائیں اور اپنی نسلوں کو بھی کس طرح ہم سنبھالیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے اور اس نے مختلف مسائل کے حل بتائے ہیں۔ قرآن کریم ایک مکمل اور کامل کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کامل اُسوہ ہمارے سامنے پیش فرماتے ہیں اور اس اُسوہ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ انہوں نے مذہب کو بھی سمجھا اور اخلاق کو بھی سمجھا بلکہ مادی ترقی بھی حاصل کی۔ لیکن ہر چیز کو اپنی جگہ رکھنے کا اِدراک بھی حاصل کیا کہ مذہب کہاں رکھنا ہے؟ اخلاق کہاں ہیں؟ مادی ترقی کیا ہے؟
پس ہمارے نوجوانوں کو، نوجوانی میں قدم رکھنے والے بچوں بلکہ خاص طور پر بڑوں کو یاد رکھنا چاہئے کیونکہ اگلی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بڑوں کی ہے کہ ہم اخلاق کی درستی، مادی ترقی اور مذہب کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ بڑے اس نکتے کو سمجھیں گے تو اگلی نسلوں کو بھی سنبھال سکیں گے۔ نوجوان اس نکتے کو سمجھیں گے تو دینی اور دنیاوی ترقی کی راہیں ان پر کھلیں گی اور ان کو پتا لگے گا کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے اور اس کے خلاف بولنے والے جھوٹے ہیں۔ یہ مسئلہ جو آج زیادہ شدت سے لامذہبوں یا مذہب مخالف لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے مذہب پر اعتراض کرنے والے اس مسئلے کو، اسی طرح کی دوسری باتوں کو اٹھاتے رہے ہیں جن سے مذہب پر اعتراض ثابت ہو کیونکہ مذہب کو انہوں نے کبھی بھی صحیح رنگ میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور نام نہاد مذہبی علماء نے خودساختہ غلط حل نکال کر یا صحیح رنگ میں اس مذہب کو نہ سمجھ کر تعلیم یافتہ طبقے کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ ان مسائل کی الجھنوں کو دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ آپ علیہ السلام نے ان کو سمجھنے کا اِدراک ہم میں پیدا فرمایا اور یہ مسائل سمجھنے اور ان کے حل نکالنے ہم پر آسان ہوئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ اس کی روشنی میں ایک خطبہ دیا اور اس میں اخلاق کی درستی، مادی ترقی اور مذہب کا کیا تعلق ہے اور اسلام اس کو کس طرح دیکھتا ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے عمل سے اور اپنے عملی نمونے سے ہمیں سمجھایا کہ اس کی کیا حقیقت ہے؟ تو جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ نے خطبے میں اس بارے میں بیان کیا اور مختصر روشنی ڈالی تھی۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے آج مَیں اس مضمون کو آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
ہم دنیا کو یہ کہتے ہیں اور یقینا سچ ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ نے عین انسانی فطرت کو مدّنظر رکھتے ہوئے تجویز فرمایا یا نازل فرمایا۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام دین فطرت ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’مذہب اور اخلاق اور انسان کی وہ ضروریات جو اس کے جسم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ایسی مشترک ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ یعنی جو شخص مذہب پر یقین رکھتا ہے وہ اخلاق کو مذہب سے جدا نہیں کر سکتا۔ نہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ مذہب نے مجھے دنیا سے بے پرواہ اور غنی کر دیا اس لئے یہ میری ضروریات نہیں ہیں۔ اگر یہ سوچ ہو کہ مجھے اب کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے تو انسانی ترقی یعنی مادی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ گویا کہ یہ ساری چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ مذہب بھی، اخلاق بھی اور مادی ترقی بھی لیکن اس کے باوجود ان میں فرق بھی ہے۔ مذہب پر یقین نہ رکھنے والے تو یہ کہہ کر آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچھے اخلاق اور مادی ترقی انسان کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک حقیقی مسلمان کہے گا کہ مذہب کی بھی ضرورت ہے کہ وہ خدا تک پہنچانے کا راستہ دکھاتا ہے۔
پس یہ سوچ کا فرق ہے کہ ہم نے ان چیزوں کو کس طرح دیکھنا ہے اور ان کا آپس کا تعلق کس طرح جوڑنا ہے۔ باقی مذاہب تو مردہ ہو رہے ہیں۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اِن کا آپس کا جوڑ ثابت کرتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے مذہب کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے غلط رنگ میں اخلاقیات سے تعلق رکھنے والی چیزوں اور مادیات سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو مذہب سے اس طرح جوڑا ہے کہ غلُو کی حد تک جا کر بجائے مذہب کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے اور اس کے طرف کھینچنے کے مذاہب سے دور کرنے والے بن رہے ہیں۔ نماز روزے سے اتر کر اخلاق اور دنیوی ضروریات خواہ کسی انجمن کا قیام ہو یا جلسے کا انعقاد، عموماً علماء یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ اسلام کا حصہ ہیں اور اس میں شامل نہ ہونے والا کافر اور مرتد ہے۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد 17صفحہ 462-463)
اب ہم یہی اسلامی دنیا میں دیکھتے ہیں۔ پھر کافر اور مرتد سے بڑھ کر جنگیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر فرقے کے فتوے ہیں اور پھر یہی وجہ ہے کہ مختلف شدت پسند گروہ اپنے اسلام کو نافذ کرنے کے لئے اپنا ضابطہ اخلاق یا نام نہاد قانون بنا کر قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ شام میں، عراق میں، افغانستان میں، پاکستان میں مذہب کے نام پر اپنے خود ساختہ قوانین ہی خون کر رہے ہیں۔ شام کی یا عراق اور شام میں جو نام نہاد اسلامی حکومت قائم ہوئی ہے وہاں سے ایک فرنچ جرنلسٹ رہا ہو کر آیا، پہلے بھی میں نے بتایا تھا، اس نے وہاں بعض ایسی باتیں دیکھیں، ان کے عمل دیکھے، ان کے قوانین دیکھے تو جتنا اس کو اسلام کا علم تھا یا قرآن کریم اس نے پڑھا تھا یا حدیث کا علم تھا اس کے مطابق اس نے وہاں بعض لوگوں سے پوچھا کہ تم جو بعض حرکتیں کر رہے ہو یہ تو قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں تو اس نام نہاد اسلامی حکومت کے کارندوں کا یا ان اہلکاروں کا جن سے اس کا واسطہ تھا یا ان افسران کا یہ جواب تھا کہ ہمیں نہیں پتا کہ قرآن اور حدیث میں کیا ہے۔ ہمارا یہ قانون ہے اور ہم اس کے مطابق کر رہے ہیں۔ تو اس طرح اسلام کی تعلیم میں انہوں نے بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔
یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ اپنی پسند کے فتووں کو مذہب کا نام دے کر معصوموں پر ہوائی حملے کئے جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے ایک فریق بھی غلط ہے دوسرا فریق بھی غلط ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ بلا وجہ معصوموں کو بھی مارا جائے۔ بلکہ اگر ہم دیکھیں تواسلامی تاریخ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے اور آج تک یہی ہو رہا ہے کہ فلاں مولانا کا یہ مذہب ہے اور فلاں عالم کا یہ مذہب ہے۔ یعنی ہر عالم اور مولانا نے بھی اپنا مذہب بنا لیا ہے۔ اس طرح اسلام میں یعنی ان لوگوں کے اسلام میں جس پر یہ عمل کر رہے ہیں کوئی حقیقت باقی نہیں رہی اور اسی وجہ سے ان علماء اور فتویٰ دینے والوں کے پیچھے چل کر مسلمانوں کی اکثریت بھی اسلام سے دُور جا پڑی ہے۔ روحانیت اور مذہب کے نام پر پتا نہیں کیا کچھ ہو رہا ہے۔
اس کے مقابل پر مذہب سے دور اور مغربی ترقی یافتہ لوگ جو ہیں وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ روحانیات اور اخلاقیات کو مادی دنیا کا حصہ بنا دیں۔ بالفرض اگر الہام پر غور کر بھی لیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ انسانی افعال کا جزو ہے۔ وہ اخلاق پر غور کریں گے تو اس نکتہ نگاہ سے کہ اس سے انسان کو دنیوی فائدہ ہو گا۔ اخلاق بھی دنیوی فائدے کے لئے ہیں اور اگر مذہب پر غور کریں گے تو یہی کہیں گے کہ یہ ادنیٰ قسم کے غیر تعلیمیافتہ یا کم تعلیمیافتہ جو لوگ ہیں مذہب کے نام سے کچھ حد تک جرائم سے بچ جاتے ہیں۔ یعنی مذہب کے نام پراگر کوئی فائدہ ان لوگوں کو پہنچ سکتا ہے تو وہ صرف اتناہے کہ اس میں کچھ حد تک اخلاقی بہتری ہو جاتی ہے کہ ان کو مذہب کا خوف ہے۔ وہ بھی اگر صحیح مذہب اپنایا جائے۔ لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ جن میں پہلے ہی اخلاق ہیں ان کو مذہب کی کیا ضرورت ہے۔
لیکن غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ مادیات، اخلاق اور مذہب اس قدر قریب ہیں کہ عام آدمی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے ایک حد شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر غور کرتے ہیں، اس کو دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے مادی مصلح بھی ہیں، اخلاقی مصلح بھی ہیں اور روحانی مصلح بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ تمام کی جامع ہے۔ اگر ایک طرف آپ حکم فرماتے ہیں کہ اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ تو دوسری طرف روحانیت کی تکمیل کے متعلق زور بھی دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ نماز پڑھ لی اور مسئلہ حل ہو گیا بلکہ اس کے مدارج بھی طے کرنے ہیں، روحانیت کو بڑھانا بھی ہے۔ دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا ہے جیسے بچے اور ماں کا تعلق ہوتا ہے۔ دعا کے معنی پکارنے کے ہیں۔ پکارنے والا تب پکارتا ہے جب یقین ہو کہ کوئی میری مدد کرے گا۔ کوئی اپنے دشمن کو تو مدد کے لئے نہیں پکارتا۔ جب ہم دعا کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو کس طرح اس کو ہمیں دیکھنا چاہئے۔ دعا میں حضرت مصلح موعود کے نزدیک تین چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے۔
اوّل یہ کہ دل میں یقین کرے کہ میری بات قبول کی جائے گی۔ دوسرے یہ اعتماد رکھے کہ جس کو مَیں پکارتا ہوں اس میں مدد کرنے کی طاقت ہے۔ تیسرے ایک فطری لگاؤ ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف یا جس کسی سے محبت ہو اس کی طرف) جو انسان کو باقی ہر قسم کے لگاؤ سے پھیر کر اسی کی طرف لے جاتا ہے۔ پہلے دو تو عقلی نکتے ہیں کیونکہ اگر یقین نہیں کہ جو پکار مَیں کر رہا ہوں وہ سنی جائے گی اور یہ اعتمادنہیں کہ جس کو مَیں پکار رہا ہوں اس میں مدد کی طاقت ہے تو پھر یہ بیوقوفی ہے کہ اسے مدد کے لئے پکارا جائے۔ پھر دعا فضول چیز ہے۔ تیسری بات فطری لگاؤ یا فطرتی محبت ہے جو ہر دوسری چیز کی طرف سے آنکھ بند کر کے صرف محبوب کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے لئے بچے کی اور ماں کی مثال ہے جیسا کہ پہلے بھی دی گئی۔ بچے کا ماں سے فطرتی تعلق ہے قطع نظر اس کے کہ ماں بچے کی مدد کر سکے یا نہ کر سکے وہ اسے ہی پکارتا ہے یہاں تک کہ ایک سمندر میں ڈوبنے والا بچہ جسے علم ہو کہ میری ماں کو تیرنا نہیں آتا پھر بھی اگر ماں اس کے قریب ہو گی تو وہ ماں کو ہی مدد کے لئے پکارے گا کسی دوسرے کو آواز نہیں دیتا۔ یہ ایک جذباتی تعلق ہے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔ یعنی بغیر دعا کے انسان کے ایمان کو کامل نہیں کیا جا سکتا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو بچے اور ماں کا تعلق قرار دیا ہے کہ آنکھ بند کر کے اس کی طرف بھاگو، اس کی طرف جاؤ۔
پھر دوسری چیز اخلاق ہیں جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے باریک در باریک اخلاقی پہلو ہیں کہ باریک نگاہ سے دیکھنے والا بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ان تک جا نہیں سکتا جب تک آپ کی رہنمائی نہ ہو۔
اب بیویوں سے حسن سلوک ہے اور محبت کا اظہار ہے۔ گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے یہ بہت ضروری بھی ہے۔ یہ بنیادی اخلاق میں سے ایک چیز ہے۔ بیویوں کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس حد تک باریکی سے خیال رکھتے تھے۔ آپ کے متعلق آتا ہے کہ جب آپ کی کوئی بیوی برتن میں پانی پیتی تو آپ نے جب پانی پینا ہوتا تو آپ اس جگہ منہ لگا کر پیتے جہاں سے اس نے پیا تھا۔ یہ بڑی چھوٹی سی بات ہے مگر کیسا باریک نکتہ ہے کہ انسانی محبت صرف بڑی بڑی باتوں سے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر یہی نہیں آپ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اخلاق کے بڑے بڑے معاملات میں بھی آپ نے ایسی تعلیم دی ہے اور ایسا اُسوہ دکھایا ہے کہ یہ دیکھنے سے لگتا ہے کہ آپ تمام عمر صرف اخلاقیات کا ہی مطالعہ کرتے رہے اور اس کا درس دیتے رہے۔ بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات، رشتے داروں کے باہمی تعلقات، انسان کے اپنے ذاتی کیریکٹر کی تفصیلات، جھوٹ خیانت بدگمانی سے پرہیز، تمام امور ایسے ہیں جن میں آپ کا اُسوہ اور تعلیم کامل اور مکمل ہے اور کوئی شخص بیسیوں زندگیاں بھی پا کر ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتا جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دکھایا ہے۔
پھر تیسری چیز مادّیات ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اس طرف بھی ہمیں رہنمائی کرتی ہے۔ مثلاً ایک شہری زندگی کے لئے سڑکوں کو کھلا رکھنا ہے۔ پانی کی صفائی کا انتظام ہے۔ شہر بسائے جاتے ہیں یا نئی آبادیاں قائم کی جاتی ہیں تو ان کی طرف بڑے بڑے انجنیئر اور سوچنے والے سوچتے، ہیں اس طرف توجہ دیتے ہیں۔ آپ نے اس طرف ہمیں توجہ دلائی۔ راستوں کی صفائی کا تعلق ہے تو آپ نے اس طرف توجہ دلائی۔ مکانوں کو کھلے اور ہوادار بنانے کا تعلق ہے تو آپ نے اس طرف توجہ دلائی۔ تمام مادی چیزوں اور دنیاوی چیزوں کی طرف بھی آپ نے توجہ دلائی چاہے، وہ حکومتی معاملات ہیں یا تمدن ہے یا تجارت ہے یا صنعت ہے۔ ہر چیز کو اپنے اپنے موقع پر آپ نے بیان فرمایا اور اس کی بڑی تفصیلات آپ کی سیرت سے ہمیں ملتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آجکل کے مذہبی رہنماؤں کی طرح ہر چیز کو آپ نے مذہب کا حصہ قرار نہیں دیا۔
مثلاً ایک واقعہ آپؐ کے متعلق آتا ہے کہ کچھ زمیندار اپنے کھجور کے باغ میں نر کا مادہ جو ہے، بور جو ہے وہ مادہ میں ڈال رہے تھے۔ (کھجور کے پودے نر اور مادہ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ ) آپ کا وہاں سے گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا حرج ہے کہ اگر اس کو اس طرح نہ ملاؤ۔ ہوا کے ذریعہ سے یہ نر اور مادہ خود بھی مل سکتا ہے۔ لوگوں نے اسے ملانا چھوڑ دیا۔ اس سال یا اگلے سال اس پر عمل نہیں ہوا تو پھل بہت کم آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے ہی منع فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا میں نے حکم نہیں دیا تھا۔ ان دنیاوی باتوں کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہاں اب گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مادیات کو مذہب سے جدا کر دیا۔ وہ زبان بھی خدا کے رسول کی زبان تھی جس نے یہ کہا تھا کہ کیا ضرورت ہے ملانے کی اور وہی زبان ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات بھی بتاتی تھی مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا کے رسول کی زبان تھی آپ نے مادیات کو مادیات قرار دے کر فرمایا کہ تم ان باتوں کو زیادہ جانتے ہو۔ مگر آجکل کے مولوی خواہ ان کے منہ سے انہونی بات ہی نکلے اس کے نہ ماننے سے اسلام کے دائرے سے خارج اور کافر اور مرتد کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف یہ مغربی یا نام نہاد ترقی یافتہ گروہ ہے۔ ان کے نزدیک نہ مذہب پر ایمان لانا ضروری ہے، نہ مذہب کی تعلیم کی عزت ہے۔ نہ اخلاق کی حرمت ہے۔ وہ ہر شئے کو مادی قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ان کے فلاسفروں نے اس زمانے میں کہا کہ سوال یہ نہیں کہ خدا نے دنیا کو کس طرح پیدا کیا بلکہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو کس طرح پیدا کیا۔ نعوذ باللہ۔ ان کے نزدیک خدا کا سوال انسانی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اگر خدا کا وجود ایک حقیقت بھی ہے تو پھر بھی وہ دماغی ترقی کی انتہائی کڑی ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ان کے نزدیک انسان نے ایک اچھا نمونہ تلاش کرنا چاہا۔ جب وہ انسانوں میں ایک عمدہ نمونہ تلاش نہ کر سکے تو انہوں نے انسانوں سے باہر ایک ذہنی نقشہ قائم کیا۔ تصورات میں ایک نقشہ قائم کیا۔ اس نقشہ کو قائم کرنے میں انسان کی پہلی کوشش ایسی کامیاب نہ تھی مگر جوں جوں وہ زیادہ غور کرتا گیا، زیادہ ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ اس نے ایک کامل نقشہ تیار کر لیا اور اس کا نام خدا ہے۔ یہ اس زمانے کے فلاسفروں کے نزدیک خدا کا تصور ہے اور اب بھی بعض یہ کہتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اس طرح ان لوگوں نے خدا کو بھی مادیات کا حصہ قرار دے دیا۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد 17صفحہ 463تا466)
اس زمانے کے فلاسفروں نے یہ خود ساختہ خدا بنایا تھا اور بہت سے ان میں سے ایسے بھی تھے جو اس خود ساختہ خدا پر یقین بھی رکھتے تھے لیکن پھر بعد کے آنے والے جو فلاسفر ہیں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ہیں اس طرح کے مادی خدا بنانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ پھر مذہب سے دور ہٹتے گئے اور آجکل اس خیال کی وجہ سے کہ خدا ایک خود ساختہ چیز ہے موجودہ فلاسفر دہریت کی طرف چلے گئے ہیں۔ بلکہ تعلیم اور روشن خیالی کے نام پر مغربی ممالک میں رہنے والوں کی اکثریت خدا کے وجود سے ہی انکاری ہو چکی ہے اور صرف اخلاق اور مادی ترقی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اور ان دہریت پسند لوگوں کے جو نظریات ہیں ان کو آجکل کے مولوی مزید ہوا دیتے ہیں جنہوں نے اپنی ہر چیز اور اپنے ہر نظریے کو مذہب کا حصہ ٹھہرا کر عجیب جہالت پھیلا دی ہے۔ پس اس لحاظ سے ہم دیکھیں تو آجکل کے علماء بھی غلطی خوردہ ہیں اور مذہب کو مادیت سمجھنے والے اور اس کا انکار کرنے والے بھی غلطی خوردہ ہیں۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان چیزوں سے بچا کر ایسی رہنمائی فرمائی ہے کہ اصل حقیقت جاننے کے لئے فرمایا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ ہر معاملے میں اعتدال اور اس کا حق ادا کرنا ہے۔ یہ حقیقی دین ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک عبادت انتہائی ضروری ہے۔ پیدائش کا مقصد ہے لیکن وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌ وَلِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقٌ وَلِجَارِکَ عَلَیْکَ حَقٌ کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے ہمسائے کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اور ان کے حصول کے لئے ہمیں تین قسم کے ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا اور عبادت ہے۔ دوسرے نفس پر قابو پانا، جذبات کو دبانا، انسانی نفسیات پر غور کرنا۔ تیسرے اپنے کام اور اپنے پیشے میں دیانت سے کام لینا اور دنیاوی اور سائنس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد 17صفحہ 466-467)
اگر ہم غور کریں تو نفس کے حق کے لئے دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ضروری چیز ہے۔ جذبات پر قابو پانا ہے یہ بھی ضروری چیز ہے۔ جذبات ہی بعض دفعہ بے لگام ہو کر اپنے نفس کے حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں یا ظلم کرنے پر آمادہ کر دیتے ہیں۔ اپنے علم میں اضافہ کر کے، اپنے کام میں دیانت سے کام لے کر اپنی زندگی کی روحانی حالت اور اخلاقی حالت اور مالی حالت کو ہم سنوار سکتے ہیں۔ اسی طرح اپنے اہل و عیال کے حق کی ادائیگی کے لئے بھی دعا ہے، جذبات پر کنٹرول ہے اور مادی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ تمہارے ہمسائے کا بھی تم پر حق ہے۔ یعنی معاشرے کے حق کی ادائیگی بھی اس وقت ہو گی جب ہم اس کے لئے دعا بھی کریں گے۔ ان کے حق ادا کریں گے۔ ان کی نفسیات کو سمجھیں گے اور اس کے مطابق جو دین کا پیغام پہنچانا ہے وہ پہنچائیں گے۔ یہ بھی ان کا حق ہے کہ ان کو دین سے آگاہ کیا جائے اور پھر اپنے علم میں ترقی اور کام میں محنت سے مجموعی طور پر ملک کی ترقی میں بھی ہم حصہ دار بنیں گے۔ یہ بھی ہمسائے کے حقوق میں اور معاشرے کے حقوق میں آ جاتا ہے۔ اور جب معاشرے میں اس سوچ کے ساتھ ہر ایک کوشش کر رہا ہو گا تو وہ معاشرہ روحانی، اخلاقی اور مادی ہر طرح کی ترقی کا بہترین نمونہ ہو گا۔
مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خدا کو، خدا کے مذہب کو مقدم کر کے ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جو ابھی میں نے بیان کی ہیں بلکہ اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھ لیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے مذہب اتارا تھا اس کو مقدم نہیں کیا بلکہ اگر وہ مقدم رکھتے تو باقی باتوں کا بھی خیال رکھتے۔ اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھ کر اس پر عمل کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسروں کو اسلام کی خوبیاں کیا بتانی تھیں خود اس خود ساختہ نفسانی مذہب کی پیروی کر کے مسلمان مسلمان کی گردن زدنی کر رہا ہے۔ نہ ان کو دین ملا، نہ دنیا ملی۔ سوائے اس کے کہ دنیا داروں کے سامنے اپنے ہر مسئلے کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ یہی آجکل ہمیں مسلمان دنیا میں نظر آتا ہے۔ مغربی قوموں نے چاہے دین کو دنیا کے تابع کر دیا۔ ا ن کے خیال میں دین کوئی چیز نہیں ہے دنیا ہی ہر چیز ہے۔ بیشک یہ لوگ بھی بھٹکے ہوئے ہیں لیکن جو مقصد یہ سمجھتے تھے اسے تو حاصل کر لیا چاہے غلط طریق ہی ہے۔ انہوں نے دنیاتو حاصل کر لی لیکن مسلمانوں کو تو نہ دین ملا، نہ دنیا ملی۔
بہرحال ان دونوں طرح کے لوگوں کی اصلاح کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں ہی اپنے ماموروں کو بھیجتا ہے جو صحیح رہنمائی کر کے مذہب کو مذہب کی جگہ اور اخلاق کو اخلاق کی جگہ اور دنیا کو دنیا کی جگہ رکھتے ہیں۔ بظاہر وہ روحانی پیغام لے کر آتے ہیں مگر ان تینوں چیزوں کا گہرا تعلق ہے اور روحانیت میں کمال سے اخلاق کا درست ہونا لازمی ہے اور اخلاق کی نگہداشت سے مادیت کی درستی بھی لازمی ہے۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا یا یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کی دنیا درست ہو اس کو دنیا میں سب کچھ مل جائے۔ جو وہاں ترقی کر رہا ہو اس کے اخلاق بھی درست ہوں۔ اور جس کے اخلاق درست ہوں اس کا مذہب بھی درست ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء انسان کو اپنی طرف لانے کا ہے۔ یہی اس کا مقصد پیدائش ہے۔ پس اس نے اخلاق کی درستی اور مادی ترقی کو مذہب کے تابع کر دیا ہے تا کہ جو اس کی طرف توجہ کرے اسے باقی سب کچھ آپ ہی آپ مل جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامل مومن کو سب ترقیات حاصل ہوتی ہیں لیکن جو صرف دنیا دار ہوں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(الکہف: 105) ان کی سب کوششیں دنیا میں ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گویا روحانیت کے قبول کرنے والے کے لئے یعنی اوپر سے نیچے آنے والے کے لئے سیڑھی موجود ہے مگر نیچے سے اوپر جانے والے کے لئے سیڑھی موجودنہیں ہے۔
پس معلوم ہوا کہ دنیا میں ان تینوں امور کے حصول کے لئے الگ الگ ذرائع ہیں لیکن ایک ذریعہ مشترک بھی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا ہے۔ اخلاق کے لئے کوشش کرنے سے اخلاق مل جائیں گے۔ مادیات کے لئے کوشش کرنے سے مادیات حاصل ہو جائیں گی، دنیاوی ترقی حاصل ہو جائے گی۔ مگر ہر ایک کوشش کا نتیجہ اس دائرے کے اندر محدود رہے گا، اس سے باہر نہیں نکلے گا۔ مگر روحانیت کی درستی کرنے والوں کو ساری چیزیں مل جائیں گی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم بیعت کرتے وقت اس بات کی بیعت نہیں کرتے تھے کہ گلیاں چوڑی رکھیں گے یا صفائی کریں گے یا دوسری مادی چیزوں کا خیال رکھیں گے بلکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھتے تھے۔ اس سے اخلاق بھی درست ہوتے تھے اور اخلاق کی درستی سے یقینا دنیا درست ہوتی تھی۔ مسلمان کے اس زمانے میں سچ کے معیار ایک نمونہ تھے۔ تجارت میں دیانتداری کی وجہ سے مسلمانوں کے سپرد دنیا والے بے دھڑک اپنی تجارتیں کر دیا کرتے تھے۔ رعایا سے انصاف دیکھ کر لوگ چاہتے تھے کہ مسلمان ہمارے حکمران ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک موقع پر شام سے مسلمانوں کو نکلنا پڑا کیونکہ اس وقت رومی فوجوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے مقابلہ مشکل تھا لیکن اس وقت شامی لوگ جو رعایا تھی وہ روتے تھے اور اصرار کرتے تھے کہ آپ لوگ یہاں سے نہ جائیں ہم آپ کی مدد کرتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ دفاع کریں گے۔ حالانکہ شامی لوگ بھی عیسائی تھی اور رومی بھی عیسائی تھے۔ مگر یہ اعلیٰ اخلاق اور حکومت کا حسن انتظام تھا جس نے شامی عیسائیوں کو عیسائی حکومت کے مقابلے پر مسلمانوں کی مدد پر آمادہ کر دیا۔ پس گو بادشاہت دنیوی چیز ہے لیکن مسلمانوں کی بادشاہت دنیوی نہیں تھی۔ یہ بادشاہت انہیں مذہب کے طفیل ملی تھی اس لئے مذہب کے پیچھے چلتی تھی اور اسی وجہ سے اس میں ایسی خوبیاں تھیں کہ مذہبی اختلاف کے باوجود رعایا چاہتی تھی کہ مسلمانوں کی بادشاہت قائم رہے، ان کی حکومت قائم رہے۔ گو مسلمانوں کو بادشاہت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے طفیل ملی تھی لیکن صرف زبانی دعویٰ نہیں تھا بلکہ حقیقی ایمان کے طفیل ملی تھی کیونکہ زبانی دعوے والا تو دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر جس کو سچا مذہب مل جائے اس کے اخلاق بھی درست ہو جاتے ہیں اور دنیا بھی۔ کاش کہ آج کے مسلمان حکمران اس نکتے کو سمجھیں اور اپنی حکومتوں کو اس نہج پر چلائیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تاجر کی مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس نے ایک بڑی رقم اپنے شہر کے قاضی کو امانت کے طور پر رکھوائی۔ وہ سفر پر جا رہا تھا کہ سفر سے واپسی پر لے لوں گا۔ جب واپس آیا اور اپنی رقم کی تھیلی مانگی تو قاضی صاحب نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے کوئی امانت نہیں رکھی اور نہ میں امانتیں رکھا کرتا ہوں۔ کیسی تھیلی اور کیسی امانت؟ تاجر نے بہت سی نشانیاں بتائیں لیکن قاضی انکاری تھا کہ میں نے تو کہہ دیا کہ امانتیں رکھا ہی نہیں کرتا۔ اس پر تاجر پریشان ہوا۔ آخر اسے کسی نے بتایا کہ بادشاہ فلاں دن اپنا دربار لگاتا ہے اور ہر شخص کی پہنچ اس تک ہوتی ہے۔ تم بھی جا کر اپنا معاملہ پیش کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ مگر کیونکہ اس کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا اس لئے بادشاہ نے کہا کہ بغیر ثبوت کے تو قاضی کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ ہاں بادشاہ نے خود ہی ایک صورت بتائی کہ فلاں دن میری سواری اور جلوس نکلے گا، شہر میں جائے گا تم اس دن قاضی کے قریب کھڑے ہو جانا کیونکہ سڑک پے بڑے بڑے لوگ استقبال کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ میں جب آؤں گا تو تم سے بے تکلفی سے باتیں کروں گا۔ تم بھی ایسے ظاہر کرنا جیسے میرے دوست ہو۔ ڈرنا نہیں کہ میں بادشاہ ہوں، کچھ ہو جائے گا۔ تم سے میں پوچھوں گا کہ بڑے عرصے سے ملے نہیں۔ تو تم بتانا کہ پہلے تو میں سفر پہ گیا ہوا تھا پھر واپس آیا تو ایک شخص کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی اس کا جھگڑا چل رہا ہے۔ وصولی کی کوشش میں ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ اس پر مَیں تمہیں وہیں قاضی کے سامنے ہی کہوں گاکہ اس جھگڑے کے حل کے لئے میرے پاس تم آ جاتے۔ پھر تم کہنا کہ اچھا اگر حل نہ نکلا تو میں آپ کے پاس آؤں گا۔ چنانچہ اس دن جب بادشاہ آیا۔ اس تاجر نے ایسا ہی کیا۔ سوال جواب ہوئے۔ قاضی بھی جو بادشاہ کے استقبال کے لئے موجود تھا کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا۔ جب بادشاہ کی سواری آگے چلی گئی تو قاضی صاحب تاجر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم ایک دن میرے پاس آئے تھے اور کسی امانت کا ذکر کیا تھا۔ میرا حافظہ کمزور ہے۔ کچھ نشانیاں بتاؤ۔ تو تاجر نے وہی نشانیاں جو پہلے بتائی تھیں دوبارہ بتا دیں۔ قاضی اب چونکہ بادشاہ کا رویہ اور سلوک دیکھ چکا تھا تو فوراً بولا یہ نشانیاں پہلے کیوں نہیں بتائیں۔ امانت میرے پاس محفوظ ہے۔ ابھی لا کر دیتا ہوں۔ جب ایک دنیوی بادشاہ جس کو محدود طاقت ہے اس کی دوستی انسان کویہ مقام دے سکتی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس سے ڈرتے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی دوستی کسی کو حاصل ہو اور دنیا اس کے قدموں پر نہ گر جائے۔ پس سچا مذہب حاصل کر کے انسان تمام دنیا کو حاصل کر سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ باتیں جو صحابہ کو ملیں انہوں نے دنیاوی طور پر حاصل نہیں کی تھیں بلکہ جو دنیا انہیں ملی وہ مذہب کے تابع ہو کر ملی۔ مگر اس کے لئے ایمان کی ضرورت ہے۔ ایسا ایمان ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو جذب کرے۔ ایک شخص جسے کامل ایمان حاصل ہو وہ کس طرح اعلیٰ اخلاق کو چھوڑ سکتا ہے۔ اگر اخلاق کے سارے شعبے انسان اختیار کرے اور ان پر عمل کرے تو سچائی، دیانت، امانت، تقویٰ اور طہارت سبھی کچھ اسے حاصل ہو جائے گا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ علم، ہنر، ہوشیاری، لیاقت اور محنت اس کو حاصل ہو گی۔ اس پر عمل کرنے والا ہو گا اور نتیجۃً پھر دنیا بھی حاصل ہو گی۔ پس مومن کو سب سے زیادہ توجہ روحانی تعلق کی طرف کرنی چاہئے۔ ان لوگوں کی طرح نہیں جو سمجھتے ہیں کہ منہ سے اقرار کافی ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت زبان سے نہیں ہو سکتی بلکہ دل سے ہی ہو سکتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر انسان ہر شئے پر قبضہ کر لیتا ہے۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد 17صفحہ 467تا470)
جب تک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا۔ مذہب میں داخل ہونے سے بھی کمال ہی فائدہ دیتا ہے اس کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل ہم سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یا تو پوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ انہیں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ یا کامل اخلاص رکھنے والے۔ ادنیٰ تعلق فائدہ نہیں دیتا۔ اگر انسان خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے تو جیسا پہلوں کے ساتھ معاملہ ہوا اس کے ساتھ بھی ہو گا۔ اس زمانے میں بھی یہ ہو سکتا ہے۔ اگر انسان حقیقت میں اس کی کوشش کرے تبھی یہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ کی کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کامل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دیں۔ اس کے آستانے پر اپنے آپ کو گرا دیں تو آپ ہی آپ سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔ اور جو ترقی ہمارے لئے ضروری ہے آپ ہی آپ ہمیں مل بھی جائے گی۔ ایک عام مثال ہے کہ آگ کے پاس بیٹھنے سے انسان کے سب اعضاء جو ہیں وہ گرم ہو جاتے ہیں۔ تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے پاس آئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ حصہ نہ لے۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد 17صفحہ 470-471)
پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ خدا کو حاصل کریں۔ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مذہب کی حقیقت کو سمجھیں۔ خدا تعالیٰ کی محبت کو ایک ایسی شئے بنائیں جو طبعی چیز بن جائے اور یہی چیز ہمارے اخلاق کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والی ہو گی اور دنیاوی ترقیات بھی ہم حاصل کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے اگر ہم حصہ لینے کی کوشش کریں تو تبھی ہم حقیقت میں فیض پا سکتے ہیں۔ جب ہم ایک لگن کے ساتھ اس نور سے حصہ لینے کی کوشش کریں گے تو جھوٹ جو اندھیرا ہے وہ بھی ہم سے خود بخود الگ ہو جائے گا۔ سستی، فریب اور دغا اور جو دوسری برائیاں ہیں، دوسروں کے حق مارنا یہ سب ظلمات ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے خود بخود دور ہو جائیں گی۔ ہمارے اخلاق بھی بلند ہوتے چلے جائیں گے اور دنیاوی ترقیات بھی ملتی رہیں گی۔ پس اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی نسلوں کو اگر دنیا داری کے بد اثرات سے بچانا ہے، مذہب اور اخلاق کا جوڑ انہیں سمجھانا ہے، دنیاوی ترقی کو بھی حقیقی مذہب کے تابع ثابت کر کے انہیں یعنی ان کی نسلوں کو مذہب سے جوڑنا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق جوڑنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
مذہب کے مخالفین کی طرف سے آج کل بڑی شدّت سے ایک اعتراض کیاجاتا ہے کہ اگر مذہب کو مانے بغیر ہی اخلاق اچھے ہوں تو پھر مذہب کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ آج کل دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ دنیا داروں کی اکثریت کے اخلاق مذہب کے ماننے والوں کے اخلاق سے زیادہ بہتر ہیں۔ اس اعتراض کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اخلاق کی درستی، مادی ترقی اور مذہب کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس موضوع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک خطبہ کے حوالہ سے قرآن مجید اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں احباب کی رہنمائی۔
فرمودہ مورخہ 24؍اپریل 2015ء بمطابق 24شہادت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔