سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات
خطبہ جمعہ یکم مئی 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے واقعات بیان فرماتے ہیں تو بڑی باریکی سے ان میں سے وہ نتائج اخذ کرتے ہیں جو ایمان کے صحیح راستوں کی طرف نشاندہی کر کے ایک مومن کو اسے خدا تعالیٰ اور دین کی حقیقی شناخت کرنے والا اور اس کا اِدراک پانے والا بنائے۔ ایک دفعہ آپ اپنی ایک تقریر میں آیۃ الکرسی کی تفسیر فرما رہے تھے تو اس کے اس حصے کہ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (البقرۃ: 256) کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب بتاؤ کہ جب تمہارا ایسا آقا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اسی کا ہے تو اس کے مقابلے میں اور کسی کو تم کس طرح اپنا آقا بنا سکتے ہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے سوا کسی کو نہیں پوجتے اور غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ البتہ ان کی نیازیں دیتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں اور وہ ہماری شفاعت خدا تعالیٰ کے حضور کریں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہمارے حکم کے بغیر تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا۔ اس زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کس نے بڑا انسان ہونا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ جب نواب صاحب کے(نواب محمد علی خان صاحب کے) لڑکے عبدالرحیم خان کے لئے جبکہ وہ بیمار تھا دعا کی تو الہام ہوا کہ یہ بچتا نہیں۔ آپ کو خیال آیا کہ نواب صاحب اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان آ رہے ہیں۔ ان کا لڑکا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلا نہ آ جائے۔ اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ الٰہی میں اس لڑکے کی صحت کے لئے شفاعت کرتا ہوں۔ اس پر الہام ہوا مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ تم کون ہو کہ میری اجازت کے بغیر شفاعت کرتے ہو۔ دیکھو مسیح موعود علیہ السلام کتنا بڑا انسان تھا۔ تیرہ سو سال سے اس کی دنیا کو انتظار تھی مگر وہ بھی جب سفارش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہوتے کون ہو کہ بلا اجازت سفارش کرو۔ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ الہام ہوا تو مَیں گر پڑا اور بدن پر رعشہ شروع ہو گیا۔ قریب تھا کہ میری جان نکل جاتی۔ لیکن جب یہ حالت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے نے فرمایا کہ اچھا ہم شفاعت کی اجازت دیتے ہیں۔ شفاعت کرو۔ چنانچہ آپ نے شفاعت کی اور عبدالرحیم خان اچھے ہو گئے‘‘۔ صحتیاب ہو گئے۔
یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا مگر یہ دعا قبول ہوئی۔ شفاعت کی اجازت ملی۔ مگر مسیح موعود جیسے انسان کو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم کون ہو جو سفارش کرو تو اَور لوگ جو بڑے بنے پھرتے ہیں ان کی کیا حیثیت کہ کسی کی سفارش کر سکیں۔ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اِذن ہو گا تب آپ سفارش کریں گے۔ پس کیسا نادان ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ میری سفارش دوسرا کر سکے گا۔ (ماخوذ از برکات خلاف، انوارالعلوم جلد 2صفحہ 241)
اس غلط تصور نے ہمارے ملکوں کے لوگوں میں، ہمارے معاشرہ میں قبرپرستی کی برائی بھی ڈال دی ہے۔ اس میں مبتلا ہو چکے ہیں اور شرک کرتے ہیں، پیروں کو پوجتے ہیں۔ پس اس بات کو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی فرمایا ہے کہ جب اِذن ہو گا اسی کی سفارش ہو گی۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب کلام رب عزوجل یوم القیامۃ مع الانبیاء وغیرہم حدیث 7510)
پھر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کس طرح اپنی قدرت کے عجائبات دکھایا کرتا تھا۔ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ آپ کو کھانسی کی شکایت تھی۔ مبارک احمد (جو آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے)کے علاج میں آپ ساری ساری رات جاگتے تھے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ان دنوں بارہ بجے کے قریب مَیں سویا کرتا تھا اور جلدی ہی اٹھ بیٹھتا۔ لیکن جب مَیں سوتا اس وقت حضرت صاحب کو (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو) جاگتے دیکھتا اور جب اٹھتا تو تب بھی جاگتے دیکھتا۔ اس محنت کی وجہ سے آپ کو کھانسی ہو گئی۔ طبیعت خراب رہنے لگی۔ (ماخوذ از تقدیر الٰہی، انوارالعلوم جلد 4صفحہ 579)
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میرے سپرد آپ کی دوائی وغیرہ پلانے کی خدمت تھی اور قدرتی طور پر جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس میں دخل دینا بھی اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ مَیں بھی اپنی کمپاؤڈری کا یہ حق سمجھتا تھا کہ کچھ نہ کچھ دخل آپ کے کھانے پینے میں دوں۔ چنانچہ مشورہ کے طور پر عرض بھی کر دیا کرتا تھا کہ یہ نہ کھائیں وہ نہ کھائیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے بھی تیار ہو کر استعمال ہوتے تھے اور انگریزی دوائیاں بھی مگر کھانسی بڑھتی ہی جاتی تھی۔ یہ 1907ء کا واقعہ ہے اور عبد الحکیم مرتدنے آپ کی کھانسی کی تکلیف کا پڑھ کر لکھا تھا کہ مرزا صاحب سِل کی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہوں گے اس لئے ہمیں کچھ یہ بھی خیال تھا کہ غلط طور پر بھی اسے خوشی کا کوئی بہانہ نہ مل سکے۔ مگر آپ کو کھانسی کی تکلیف بہت زیادہ تھی اور بعض دفعہ ایسا لمبا اُچھو آتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رک جائے گا۔ ایسی حالت میں باہر سے کوئی دوست آئے۔ (یعنی جب یہ حالت تھی تو باہر سے کوئی دوست تشریف لائے) اور تحفے کے طور پر کچھ پھل لے کے آئے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مَیں نے وہ حضور کے سامنے پیش کر دئیے۔ آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا کہ انہیں (دوست کو) کہہ دو کہ جَزَاکَ اللہ اور پھر ان میں سے کوئی چیز جو غالباً کیلا تھا اٹھایا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مَیں چونکہ دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اس لئے یا شاید مجھے سبق دینے کے لئے حضرت مسیح موعودنے فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا۔ مگر آپ مسکرا پڑے اور چھیل کر کھانے لگے۔ میں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز کھانے میں اچھی نہیں۔ آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے۔ میں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہئے۔ اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ ’’کھانسی دُور ہو گئی‘‘۔ چنانچہ کھانسی اسی وقت جاتی رہی۔ حالانکہ اس وقت نہ کوئی دوا استعمال کی اور نہ کوئی پرہیز کیا بلکہ بدپرہیزی کی بلکہ بدپرہیزی کی اور کھانسی پھر بھی دور ہو گئی۔ اگرچہ اس سے پہلے ایک مہینہ علاج ہوتا رہا تھا اور کھانسی دور نہ ہوئی تھی۔ تو یہ الٰہی تصرف ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یوں تو بدپرہیزی سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور علاج سے صحت بھی ہوتی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو دخل بھی دے دیتا ہے اور دعا کا ہتھیار اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور جا کر کہے کہ میں آزادی نہیں چاہتا۔ میں اپنے حالات سے تنگ آ گیا ہوں۔ آپ مہربانی کر کے میرے معاملات میں دخل دیں اور اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے کہ یہ بندہ متوکّل ہو گیا ہے اور چاہتا ہے کہ مَیں اس کے معاملات میں دخل دوں تو وہ دیتا ہے اور پھر اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 23صفحہ 274-275)
حضرت مصلح موعودنے اس واقعہ کی مثال کے بعد ایک مثال دی جو ایمان کو تازہ کرتی ہے اور جو لیکھرام سے تعلق رکھتی ہے کہ لیکھرام کا واقعہ بھی اس امر کی مثال میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ چاہے تو صحت کے تمام سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ (اب لیکھرام کے معاملے میں ) خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا تھا، (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا) کہ عید کے دوسرے دن اس کی موت ہو گی اور چھ سال کے اندر اندر۔ اب چھ سال میں دو تین روز کے لئے حفاظت کے خاص طور پر سامان کر لینا کوئی مشکل امر نہیں ہے اور یہ اس کے اختیار میں تھا کہ ان دنوں حفاظت کے خاص سامان مہیا کر لیتا مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کو پورا کر دیا حالانکہ ظاہری سامان اس کے خلاف تھے۔ 6؍مارچ اس کی موت مقدر تھی۔ یکم مارچ کو لیکھرام کو سبھا کی طرف سے ملتان پہنچنے کا حکم ہوا۔ (یہ ان کی کمیٹی تھی۔ ) وہاں 4؍مارچ تک اس نے چار لیکچر دئیے۔ پھر سبھا نے اسے سکھر جانے کے لئے تار دیا مگر وہاں پلیگ ہونے کی وجہ سے ملتان کے آریہ سماجیوں نے وہاں جانے سے روک دیا۔ پھر پنڈت لیکھرام مظفر گڑھ جانے کے لئے تیار ہوئے مگر یہ نہیں معلوم کہ پھر وہ سیدھے لاہور کیوں لوٹ پڑے اور 6؍مارچ دوپہر کو یہاں پہنچ گئے‘‘۔ اگر وہ اسی روز واپس نہ آتا تو یہ پیشگوئی پوری نہ ہوتی لیکن باوجود اس کے باہر رہنے کا موقع پیدا ہو گیا۔ پھر بھی وہ لاہور پہنچ گیا اور وقت مقررہ پر قتل بھی ہو گیا۔ یہ مثال اس امر کی ہے کہ صحت اور حفاظت کے سامانوں کے باوجود بھی انسان ہلاک ہو سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انسان کے کاموں میں دخل دیتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے اپنی قدرت دکھاتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 23صفحہ 273)
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا بھی ذکر ہوا جن کی تیمار داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی صحت پر بھی بڑا برا اثر پڑا اور آپ کو اپنے اس لڑکے سے محبت بھی تھی۔ اس کا ذکر حضرت مصلح موعود ایک واقعہ میں یوں فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام مبارک احمد تھا۔ اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے مشرق کی طرف موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ بہت ہی پیارا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا۔ (محبت کا یہ اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس حد تک تھا اور کس طرح ان کا خیال رکھا کرتے تھے۔ کہتے ہیں ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق تھا۔ ) کچھ مرغیاں مَیں نے رکھیں۔ کچھ میر اسحق صاحب مرحوم نے رکھیں۔ کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں اور بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے، مرغیوں کے ڈربے کھولتے، انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دئیے ہیں اور میری نے اتنے۔ ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی شامل ہو جاتا۔ اتفاقاً ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں جن کا عرف دادی پڑا ہوا تھا۔ ہم بھی اسے دادی ہی کہتے اور دوسرے سب لوگ بھی۔ حضرت خلیفہ اول اسے دادی کہنے پر بہت چڑا کرتے تھے مگر اس لفظ کے سوا شناخت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا۔ اس لئے آپ (حضرت خلیفہ اوّل) بجائے دادی کے اسے جگ دادی کہا کرتے تھے۔ جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا تو دادی نے کہہ دیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے بہت جاتا ہے۔ (وہاں مستقل رہتا ہے اور گندی جگہ ہے)۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو حضرت اماں جان سے فرمایا کہ مرغیاں گنوا کر (یعنی کتنی مرغیاں ہیں گن لو)ان بچوں کو اس کی قیمت دے دی جائے اور مرغیاں ذبح کر کے کھا لی جائیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبارک احمد بہت پیارا تھا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 3صفحہ 581-582)
لیکن یہی بیٹا جس کی آپ نے اتنی تیمارداری کی جس کو اتنا پیار کیا، لاڈ کیا۔ جب وفات پا گیا تو اس وقت کے حالات کا نقشہ حضرت مصلح موعودنے مختلف جگہوں پر کھینچا ہے کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا کیفیت ہوئی تھی۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بہت محبت تھی۔ جب وہ بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اتنی محنت اور اتنی توجہ سے اس کا علاج کیا کہ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ اگر مبارک احمد فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچے گا۔ حضرت خلیفہ اول بڑے حوصلے والے اور بہادر انسان تھے۔ جس روز مبارک احمد مرحوم فوت ہوا اس روز صبح کی نماز پڑھا کر آپ مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ میرے سپرد اس وقت مبارک احمد کو دوائیاں دینے اور اس کی نگہداشت وغیرہ کا کام تھا۔ میں ہی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ میں تھا، حضرت خلیفہ اوّل تھے، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے اور شاید ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے۔ جب حضرت خلیفہ اول مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حالت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ بچہ سو گیا ہے۔ مگر درحقیقت وہ آخری وقت تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جب مَیں حضرت خلیفہ اول کو لے کر آیا اس وقت مبارک احمد کا شمال کی طرف سر اور جنوب کی طرف پاؤں تھے۔ حضرت خلیفہ اول بائیں طرف کھڑے ہوئے اور انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا مگر نبض آپ کو محسوس نہ ہوئی۔ اس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ حضور مُشک لائیں اور خود ہاتھ کہنی کے قریب رکھ کر نبض محسوس کرنی شروع کی کہ شاید وہاں نبض محسوس ہوتی ہو۔ مگر وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ حضور جلدی مشک لائیں اور خود بغل کے قریب اپنا ہاتھ لے گئے اور نبض محسوس کرنی شروع کی اور جب وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو گھبرا کر کہا حضور جلد مشک لائیں۔ اس عرصے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چابیوں کے گچھے سے کنجی تلاش کر کے ٹرنک کا تالہ کھول رہے تھے۔ جب آخری دفعہ حضرت مولوی صاحب نے گھبراہٹ سے کہا کہ حضور مشک جلدی لائیں اور اس خیال سے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت صدمہ ہو گا، باوجود بہت دلیر ہونے کے آپ کے (حضرت خلیفہ اول کے) پاؤں کانپ گئے اور حضرت خلیفہ اول کھڑے نہ رہ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ شایدنبض دل کے قریب چل رہی ہو اور مشک سے قوت کو بحال کیا جا سکتا ہو مگر ان کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ امید موہوم تھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی آواز کے ترعّش کو محسوس کیا تو آپ سمجھ گئے کہ مبارک احمد کا آخری وقت ہے اور آپ نے ٹرنک کھولنا بند کر دیا اور فرمایا کہ مولوی صاحب شاید لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ آپ اتنے گھبرا کیوں گئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہمیں دی تھی۔ اب وہ اپنی امانت لے گیا ہے تو ہمیں اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے۔ پھر فرمایا آپ کو شاید یہ خیال ہو کہ میں نے چونکہ اس کی بہت خدمت کی ہے اس لئے مجھے زیادہ صدمہ ہو گا۔ خدمت کرنا تو میرا فرض تھا جو مَیں نے ادا کر دیا اور اب جبکہ وہ فوت ہو گیا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر پوری طرح راضی ہیں۔ چنانچہ اسی وقت آپ نے بیٹھ کر دوستوں کو خطوط لکھنا شروع کر دئیے۔ (الفضل 14مارچ 1944ء صفحہ 4 جلد 32نمبر61) (ایک جگہ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ وہیں جہاں یہ دوائیاں پڑی تھیں وہاں کارڈ بھی پڑے ہوئے تھے جو پوسٹ کارڈ ہوتے ہیں۔ آپ نے بجائے دوائی نکالنے کے پھر کارڈ وہاں سے نکالے، قلم نکالا اور دوستوں کو خط لکھنے شروع کئے جو قریبی تھے) کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 5صفحہ 232)
وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہم سے لے لی۔ تو مومن کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہاں تک ہو سکتا ہے دوسرے کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کو اپنے لئے ثواب کا موجب سمجھتا ہے مگر دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوتی ہے تو وہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدمت کا ثواب مجھے مل گیا لیکن جو جزع فزع کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور آخرت کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور اس سے زیادہ بدبخت اور کون ہو سکتا ہے جو دوہری مصیبت اٹھائے۔ اس جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے اور اگلے جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے۔ (ماخوذ از الفضل 14مارچ 1944ء صفحہ 4 جلد 32نمبر61)
پھر حضرت مصلح موعود ایک جگہ اسی بارے میں قادیان کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہاں رہنے والے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اور مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاج معالجہ کا کس قدر خیال ہوتا تھا۔ دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا آپ اپنے سلسلہ کی ترقی انہی کی زندگی پر سمجھتے تھے۔ ان ایام میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر ہی نہ ہوتا تھا کہ کس طرح علاج ہو اور کیا علاج کیا جائے۔ لیکن ان کی وفات کے وقت کیا ہوا۔ یہی کہ یک لخت آپ کی ایسی حالت بدلی کہ حیرت ہی ہو گئی۔ یا تو اتنا جوش کہ صبح سے لے کر شام تک (مولوی عبدالکریم صاحب کا وقت جب آیا تھا اس وقت بھی اور عزیزم مبارک احمد کایا صاحبزادہ مبارک احمد کا آیا اس وقت بھی)انہی کے علاج معالجہ کا ذکر یا آپ اس بات پر ہنس ہنس کر اور نہایت بشاش چہرہ سے تقریر فرما رہے ہیں کہ ان کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے بتا دیا ہوا تھا۔ (خطبات محمود جلد 5صفحہ 231)
پھر آپ نے اس واقعہ کا ایک جگہ اس طرح بھی ذکر فرمایا ہے کہ مبارک احمد کی وفات کے بعد ’’جب آپ گھر سے باہر تشریف لائے۔ (باہر لوگ تھے۔ اس لئے باہر تشریف لے گئے) تو بیٹھتے ہی آپ نے جو تقریر کی اس میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے اور ہماری جماعت کو اس قسم کے ابتلاؤں پر غم نہیں کرنا چاہئے۔ پھر فرمایا مبارک احمد کے متعلق فلاں وقت مجھے الہام ہوا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں اٹھا لیا جائے گا۔ اس لئے یہ تو خوشی کا موجب ہے کہ خدا تعالیٰ کا نشان پورا ہوا۔‘‘
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: کہ ’’پس ہمارا اپنا بھائی بیٹا یا کوئی اور عزیز رشتے دار اگر مر جائے اور اس کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہو تو رنج کے ساتھ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہمیں خوشی بھی ہو گی۔ خوشی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں غیر سمجھتے ہیں۔ ہم تو انہیں اپنا ہی سمجھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو ان سے بھی زیادہ اپنا سمجھتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ناممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے کسی نشان کو چھپائیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا پر اپنی دونوں خوبیوں کو ظاہر کر دیں۔ ایک طرف خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان قہری نشان کو ہم دنیا میں پھیلائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظہور پذیر ہوا اور دوسری طرف مصیبت زدگان اور مجروحین کی امداد کریں۔ (مطلب یہ ہے کہ جو مختلف آفات میں مرتے ہیں وہ بھی ہمارے اپنے ہی ہیں۔ وہ بعض قہری نشانوں کی وجہ سے مر رہے ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعودنے فرمائی۔ تو ہمیں دوسروں کو یہ بتانا چاہئے ایک وجہ تو یہ ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظہور پذیر ہوا اور دوسری طرف مصیبت زدگان اور مجروحین کی امداد کریں۔ اب یہ نہیں ہے کہ اسی بات پر ہم خوش ہو جائیں کہ یہ لوگ نشان کے طور پر مر گئے بلکہ جو زخمی ہیں، جو مصیبت زدگان ہیں، جو آفت زدہ ہیں، جن کو تکلیفیں پہنچی ہیں اس نشان کے واقعہ ہونے کی وجہ سے ان کی امداد بھی کریں ) تا دنیا سمجھے کہ ہم جہاں خدا تعالیٰ کا نشان ظاہر ہونے کے بعد اس کی اشاعت میں کسی مصیبت اور ملامت کی پرواہ نہیں کرتے وہاں ہم سے زیادہ ان کا خیر خواہ بھی کوئی نہیں ہے۔ (اور اسی لئے جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ ان مصیبت زدوں کی امداد کرتی بھی ہے۔ ) اگر ہم اپنی ان دونوں خوبیوں کو ظاہر کریں گے تو اس وقت خدا کی بھی دونوں قدرتیں ہمارے لئے ظاہر ہوں گی۔ وہ قدرت بھی جو آسمان سے اترتی ہے اور وہ قدرت بھی جو زمین سے ظاہر ہوتی ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 16صفحہ 338-339خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍جون 1935ء)
پس یہ واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ بچے کی خدمت، اس کے علاج کی فکر، اپنے قریبی ساتھی کی فکر، اس کے علاج کی طرف توجہ، پھر نشانات پورے ہونے پر خوشی کا بھی اظہار لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آ گئی تو پھر ایسا اظہار کہ جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں اور احباب جماعت کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش کرنے کی تلقین کہ اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور جو اس نے خبریں دی ہیں ان کے پورا ہونے پر جہاں ایک طرف اطمینان ہے وہاں دوسری طرف انسانیت کو جہاں خدمت کی ضرورت ہے وہاں پورے زور سے اور پوری توجہ سے خدمت بھی کرنی ہے۔
صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی ذہانت اور ذکاوت کے متعلق حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’میں احساس اور بے حسی کی مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں جنہوں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کو مبارک احمد سے کس قدر محبت تھی۔ اس محبت کی کئی وجہیں تھیں۔ اول یہ کہ وہ کمزور تھا اور کچھ نہ کچھ بیمار رہتا تھا۔ اس لئے اس کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے اور یہ لازمی بات ہے کہ جس کی طرف خاص توجہ ہو اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ دوسرے اگرچہ وہ ہم سے چھوٹا تھا اور اس کی عمر بھی بہت تھوڑی تھی مگر بہت ذہین اور ذکی تھا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کی ایک یہ بھی وجہ تھی کہ وہ بہت ذہین اور ذکی تھا۔ ) اس کی عمر سات سال کی تھی اور وہ اسی عمر میں شعر کہہ لیتا تھا اور عام طور پر اس کے شعر کا وزن درست ہوتا تھا۔ (اتنی چھوٹی عمر میں بھی شعر کہتے تھے اور وزن بھی درست ہوتا تھا۔ ) اس کی ذہانت اور حافظے کی مثال یہ ہے کہ جب حضرت صاحب نے وہ بڑی نظم جس کی ردیف ’’یہی ہے‘‘ لکھی تو ہم سب کو فرمایا کہ تم قافیہ تلاش کرو۔ اس نے (یعنی صاحبزادہ مبارک احمدنے) ہم سب سے زیادہ قافیے بتلائے جن میں بہت سے عمدہ قافیے تھے۔‘‘ (خطبات محمود جلد اوّل صفحہ 77-78خطبہ جمعہ فرمودہ 18جون 1920ء)
پھر حضرت مصلح موعود ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس کا تعلق اس بات سے ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمت بھی کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہو سکے۔ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا۔ میں اس وقت چھوٹا سا تھا۔ سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہو گئی اور اس کو دفن کرنے کے لئے اسی مقبرے میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہو سکتے۔ جنازے کے بعدنعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لی۔ اس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور! نعش مجھے دے دیجئے۔ میں اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’یہ میری بیٹی ہے‘‘۔ یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک جسمانی خدمت جو اس کی آخری خدمت ہے یہی ہو سکتی ہے کہ میں خود اس کو اٹھا کر لے جاؤں‘‘۔ حضرت مصلح موعود اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’رب العالمین کا مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے بھی ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجا لاؤ۔ اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائیدادیں دے دیتے ہو۔ اپنی کل آمد اسلام کی اشاعت کے لئے خرچ کر دیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے۔ (مالکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے)مگر رب العالمین کے مظہر نہیں بنو گے کیونکہ رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غرباء کی خدمت پر کمربستہ رہو‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 18صفحہ 579-580خطبہ جمعہ فرمودہ 26نومبر 1937ء)
پس یہ خوبصورت وضاحت ہے کہ رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے اپنے ہاتھ سے نہ صرف اپنوں کی بلکہ غیروں کی بھی خدمت کرنے کی کوشش کریں۔ اگر غور کریں تو اس کے بڑے وسیع نتائج ہیں جو قوم کو آپس میں مضبوطی سے جوڑ دیتے ہیں۔ اور معاشرے کا ہر حصہ اگر اس پر عمل کرے تو ایک دوسرے کی خدمت کرنے سے ایک خوشگوار معاشرہ بن جاتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توکّل، قبولیت دعا، اپنی سچائی پر کامل یقین ہونے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ کپور تھلہ کے احمدیوں اور غیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہو گیا۔ جس جج کے پاس یہ مقدمہ تھا اس نے مخالفانہ رویہّ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ اس پر کپور تھلہ کی جماعت نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعا کے لئے لکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں تحریر فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی۔ مگر دوسری طرف جج نے اپنی مخالفت بدستور جاری رکھی اور آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا۔ مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا تو اس نے نوکر سے کہا کہ مجھے بوٹ پہنا دو۔ نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اور دوسرا ابھی پہنا ہی رہا تھا کہ گھٹ کی آواز آئی۔ اس نے اوپر دیکھا تو جج کا ہارٹ فیل ہو چکا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد دوسرے جج کو مقرر کیا گیا اور اس نے پہلے فیصلے کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کر دیا جو دوستوں کے لئے ایک بہت بڑا نشان ثابت ہوا اور ان کے ایمان آسمان تک پہنچے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعہ متواتر غیب کی خبریں دیتا ہے جن کے پورا ہونے پر مومنوں کے ایمان اَور بھی ترقی کر جاتے ہیں۔ یہ غیب کی خبروں کا ہی نتیجہ تھا کہ جو لوگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کے دل اس قدر مضبوط ہو گئے کہ اور لوگ تو موت کو دیکھ کر روتے ہیں مگر صحابہ میں سے کسی کو جب خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کا موقع ملتا تو وہ خوشی سے اچھل پڑتا اور کہتا: فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کہ ربّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 27-28)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کے چند منٹ میں پورا ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ کبھی بیداری میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ فلق الصبح کی طرح اسی رنگ میں ظاہر ہو جاتا ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ انسان کو نظارہ دکھاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشوف میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گرا پڑا ہے اور اسے سخت چوٹ آئی ہے۔ ابھی اس کشف پر تین منٹ سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ مبارک احمد جو چٹائی کے پاس کھڑا تھا اس کا پیر پھسل گیا۔ اسے سخت چوٹ آئی اور اس کے کپڑے خون سے بھر گئے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 447)
پھر قادیان کی ابتدائی حالت کا نقشہ اور پھر قادیان کی ترقی اور جماعت کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کوئی آدمی نہ تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب آپ کے ساتھ ہزاروں آدمی تھے اور اب تو لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر کسی زمانے میں پنجاب میں بھی کوئی شخص آپ کا معتقدنہ تھا اور اب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام براعظموں میں احمدی پھیل گئے ہیں۔ اگر یہ سچ بات ہے کہ دنیا نہیں مانتی تو پھر اتنے لوگ کہاں سے آ گئے؟‘‘ (اگر ہمیں جماعت احمدیہ کو، حضرت مسیح موعود کو دنیا نہیں مانتی تو اتنے لوگ کہاں سے آ گئے اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملکوں کے ملک احمدی ہو رہے ہیں یا وہاں احمدیت پھیل رہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ) ’’یہیں دیکھ لو۔ اچھے لوگ اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانے میں آپ پر ایمان لائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس مجمع میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل دیکھی۔ زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی تصویر دیکھی۔ پھر کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شکل تو دیکھی مگر آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا انہیں موقع نہ ملا اور بہت قلیل ایسے ہیں جو غالباً درجنوں سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے جنہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا انہیں موقع ملامگر آخر یہ لوگ کہاں سے آئے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میری پیدائش اور بیعت قریباً ایک ہی وقت سے چلتی ہے۔ (ساتھ ساتھ چلتی ہیں ) اور جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا۔ اس وقت کئی سال تبلیغ پر گزر چکے تھے لیکن مجھے اپنے ہوش کے زمانے میں یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلتے تو صرف حافظ حامد علی صاحب ساتھ ہوتے۔ (یعنی صرف دو آدمی ہوتے۔ ) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اسی طرف سیر کے لئے آنا ہوا (قادیان کے ایک علاقے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ اس طرف سیر کے لئے آنا ہوا) مَیں اس وقت چونکہ چھوٹا بچہ تھا اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں بھی سیر کے لئے چلوں گا۔ اس زمانے میں یہاں جھاؤ کے پودے ہوا کرتے تھے۔ (جھاڑیاں ہوتی تھیں وہ جس علاقے کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں وہاں جھاڑیاں ہو تی تھیں ) اور یہ تمام علاقہ جہاں اب تعلیم الاسلام ہائی سکول، بورڈنگ اور مسجد وغیرہ ہیں ایک جنگل تھااور اس میں جھاؤ کے سوا اَور کوئی چیز نہ ہوا کرتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی طرف سیر کے لئے تشریف لائے اور میرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میں تھک گیا ہوں۔ اس پر کبھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اٹھاتے اور کبھی حافظ حامد علی صاحب اور یہ نظارہ مجھے آج تک یاد ہے۔ تو وہ ایسا زمانہ تھا کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا دعویٰ تھا مگر آپ کو ماننے والے بہت قلیل لوگ تھے اور قادیان میں آنے والا تو کوئی کوئی تھا لیکن آج یہ زمانہ ہے (یہ 1937ء کی بات ہے جس زمانہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ فرمایا ہے) کہ ہمیں بار بار یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ قادیان میں ہجرت کر کے آنے سے پیشتر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اجازت لے لیں اور اگر کوئی بغیر اجازت کے یہاں ہجرت کر کے آئے تو اسے واپس جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 18صفحہ 659-660خطبہ جمعہ فرمودہ 24دسمبر 1937ء)
پس یہ واقعات یقینا ایمان اور یقین میں اضافہ کرنے والے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم سب جماعت کے مفید وجود بننے والے ہوں۔
نماز کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ محترمہ نسیم محمود صاحبہ اہلیہ سید محمود احمد شاہ صاحب کراچی کا ہے۔ 27؍اپریل 2015ء کو بعمر 58سال کراچی میں کینسر کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحومہ کے والدنے 1953ء کے پُر آشوب دور میں ایک واقعہ کے بعد ذاتی مطالعہ کر کے جماعت کو قبول کیا تھا۔ مخالفتیں بھی بڑے رستے کھولتی ہیں۔ واقعہ یوں تھا کہ مکرم ملک محمد رفیق صاحب پاکستان ایئر فورس میں ملازم تھے۔ لاہور سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے تو رائے ونڈ سے مولویوں کا ایک مجمع ٹرین میں سوار ہوا۔ یہ 53ء کے زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں احمدیوں کے خلاف پہلا فساد ہوا۔ رائے ونڈ سے مولویوں کا مجمع ٹرین میں سوار ہوا کہ ہم جہاد پر جا رہے ہیں اور جہاد کیا ہے کہ قادیانیت کو اس ملک سے مٹا کر دم لیں گے۔ کہتے ہیں کہ ٹکٹ چیکر کے آنے پر سوائے ملک محمد رفیق صاحب اور ان کے ساتھی آفیسر کے کسی مولوی سے ٹکٹ برآمدنہ ہونے پر انہوں نے سوچا۔ (بغیر ٹکٹ کے گاڑی میں سفر کر رہے تھے) کہ اگر یہ مولوی سچے ہوتے اور ان کا جہاد حقیقی ہوتا تو یہ بغیر ٹکٹ سفر کر کے ملکی خزانے کو نقصان نہ پہنچا رہے ہوتے۔ اب آجکل تو یہ اور بھی زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ بہر حال اس واقعہ کے بعد جب آپ اپنی ملازمت پر کراچی پہنچے تو آفیسر انچارج سے دریافت کیا کہ کیا ہماری یونٹ میں کوئی قادیانی ہے تو معلوم ہونے پر ایک احمدی سے گفتگو اور پھر معلومات حاصل کر کے آخر بیعت کر لی اور احمدیت میں شامل ہو گئے۔ بہر حال ان کے والدنے اس طرح احمدیت قبول کی اور ان کے خاندان میں احمدیت آئی۔
مرحومہ 1987ء سے اب تک کراچی میں ہی ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ رہیں۔ خدا تعالیٰ نے مرحومہ کو 1997ء سے وفات تک جماعتی خدمات کی بھرپور توفیق عطا فرمائی۔ 1997ء سے 2005ء تک آٹھ سال پھر 2007ء سے 2013ء تک چھ سال بحیثیت لوکل صدر لجنہ دو دفعہ خدمت کی توفیق پائی۔ پھر آپ کو قیادتوں کے نگران کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔ ضلع کراچی کی عاملہ کی ممبر رہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ ان کے پسماندگان میں ان کے خاوند مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار ہیں۔ آپ کے دونوں بیٹے مبلغ سلسلہ ہیں حافظ سید شاہد احمد صاحب جو نائیجیریا میں ہیں اور دوسرے بیٹے مکرم حافظ سید مشہود احمد صاحب جو جامعہ احمدیہ یو۔ کے میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ یہ والدہ کے جنازے پر جا بھی نہیں سکے۔
یہی حافظ سید مشہود احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے والدین نے اپنے دونوں بیٹوں کو قرآن پاک حفظ کروا کر خدا کی راہ میں پیش کرنے کی توفیق پائی۔ دونوں کو حافظ قرآن بنایا پھر جامعہ میں داخل کروایا۔ والدہ محترمہ نے ہر معاملے میں دین کو دنیا پر مقدم رکھا اور بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی کہ ہم نے صرف جماعت کی خدمت کرنی ہے۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی رات کو سوتے ہوئے ادعیہ ماثورہ یاد کروانے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے دعائیں کرنا ان کا معمول تھا۔ بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی اولاد کے حق میں لکھی ہوئی منظوم دعا ’’میرے مولیٰ میری اک دعا ہے‘‘کے اشعار ترنم اور انتہائی درد کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں۔ نیز ہمیشہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے بڑے بھائی نے مربی بننا ہے اور تم نے قرآن پاک حفظ کرنے کے لئے کراچی سے ربوہ جانا ہے۔ بعد میں پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ دونوں بھائیوں نے قرآن مجید بھی حفظ کیا اور پھر زندگی وقف کر کے جامعہ میں تعلیم بھی حاصل کی اور مبلغ بن کے خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مدرسۃ الحفظ میں ہمارے قیام کے دوران ہماری امی جان کراچی سے ربوہ کا تقریباً ہر ماہ سفر کرتیں اور اس دور میں ریل کا نظام بھی بڑا خستہ اور تکلیف دہ تھا۔ آپ ہم سے مل کر ہمارا حفظ شدہ حصہ خود بھی سنتیں۔ ہمارے کپڑے دھونے، استری کرنے اور ایک دن خدمت کرنے کے بعد اگلے روز پھر واپس کراچی جا کر (کیونکہ تدریس کے شعبہ سے منسلک تھیں ) اپنے سکول میں جا کے تدریسی ذمہ داریاں ادا کرتیں۔ گزشتہ دنوں یہ وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ بیمار تھیں۔ جنازے پر تو نہیں جا سکے لیکن بیماری میں جا کر ایک دفعہ مل آئے تھے۔ کہتے ہیں جب وہاں گیا تو مجھے فرمانے لگیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا کرتی ہوں کہ اے میرے مالک مجھے میرے واقفین زندگی بیٹوں کے لئے ابتلا نہ بنانا۔ آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ اپنوں غیروں کی بچیوں کی شادیوں کے مسائل اور رشتے کے مسائل حل کرنے میں بہت مدد کیا کرتی تھیں، بڑی تڑپ رکھتی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اور افراد جماعت کے ساتھ محض لِلّٰہ ہمدردی کا جو تعلق تھا وہ بھی نرالا اور بڑی شان والا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے اور ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
ربّ العالمین کا مظہر بننے کے لئے اپنے ہاتھ سے نہ صرف اپنوں کی بلکہ غیروں کی بھی خدمت کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت سے مخلوق خدا کی خدمت، توکّل علیٰ اللہ، قبولیت دعا، اپنی سچائی پر کامل یقین اور قادیان کی ترقی وغیرہ موضوعات سے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ متفرق روح پرور واقعات کا تذکرہ
فرمودہ مورخہ 01؍مئی 2015ء بمطابق 01ہجرت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔