حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات میں آنحضرت ﷺ کی عظمت شان
خطبہ جمعہ 15؍ مئی 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ جمعہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جماعت کے بعض جرائد اور کتب پر پابندی لگائی ہے کہ ان کی اشاعت نہیں ہو سکتی یا ڈسپلے (display) وغیرہ نہیں ہو سکتا اور اس بات کی وہاں کی بعض اخبارات نے خبریں بھی دیں۔ آجکل فون پر ہی تصویری عکس، میسیجز (messages) اور مختلف قسم کے پیغام بھیجنے کے جو طریقے ہیں ان کے ذریعہ سے منٹوں میں خبریں دنیا میں گردش کر جاتی ہیں۔ یہ سن کے، دیکھ کے مجھے بھی لوگ خط لکھتے ہیں۔ فیکس وغیرہ کے ذریعہ سے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ان نام نہاد علما کے کہنے پر اسی طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ اور ابتدا سے ہی جب سے کہ جماعت احمدیہ قائم ہے اس قسم کی حرکتیں یہ لوگ کرتے چلے آ رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان حرکتوں سے نہ پہلے کبھی جماعت کو نقصان پہنچا اور نہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کبھی پہنچے گا۔ نہ ہی یہ پہنچا سکتے ہیں۔ نہ ہی کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدائی مشن کو ان باتوں سے روک سکے۔ ان علماء نام نہاد علماء اور ان کی طرف دیکھنے والی حکومتوں کو احمدیت کی ترقی دیکھ کر حسد کے اظہار کا کوئی بہانہ چاہئے۔ اس حسد میں یہ اتنے اندھے ہیں کہ ان کی عقل پر بالکل پردے پڑ جاتے ہیں۔ بظاہر پڑھے لکھے لوگ جاہلوں سے بڑھ کر اپنی حالتوں کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ سب کچھ کس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے۔ انصاف پسند مسلمان جو ہیں، عربوں میں سے بھی اور دوسری قوموں میں سے بھی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، جب جماعت کا لٹریچر دیکھتے ہیں، کتب دیکھتے ہیں اور پھر پتا لگتا ہے کہ حقیقت کیا ہے تو حیران ہوتے ہیں کہ ان نام نہاد علماء نے جو اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار سمجھتے ہیں کس طرح جھوٹ اور فریب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کو، تعلیمات کو، آپ کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی شان کو کس طرح بیان فرمایا ہے ہمارے ایم ٹی اے کے جو لائیو ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں ان میں بھی اور خطوط کے ذریعہ سے بھی اکثر لوگ اس بات کا اظہار کرتے ہیں جو ابھی احمدی نہیں ہوئے کہ ہمیں اس مقام اور اس شان کا اب پتا لگا ہے۔ نہیں تو ان علماء نے تو ہمیں جہالت کے پردے میں رکھا ہوا تھا۔ لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ احمدیت کی دشمنی میں یہ لوگ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے نام پر حرف لانے کا باعث بن رہے ہیں۔ بہر حال ان علماء کا تو دین ہی دشمنی اور فساد ہے۔ اس لئے کبھی یہ کوشش نہیں کریں گے کہ ہم حقیقت معلوم کریں چاہے اس کی وجہ سے سادہ لوح مسلمانوں میں جتنا بھی بگاڑ پیدا ہو جائے۔ بہرحال یہ تو ان کے کام ہیں یہ کرتے رہیں گے اور کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ان کو دین سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات پیارے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح ان مخالفین کے یہ عمل ہمارے ایمانوں میں جلاء پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق میں بڑھنے کے لئے کھاد کا کام دینے والے ہونے چاہئیں۔ اگر ہماری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ کم تھی تو اب زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہئے۔
ایک پنجاب کی حکومت کی روک سے تو کیا تمام دنیا کی حکومتوں کی روکوں سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا کیونکہ یہ انسانی کوششوں سے کئے جانے والے کام نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم و معرفت کے خزانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے۔ ہمیشہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ بڑی بڑی روکوں اور مخالفتوں کے بعد جماعت کی ترقی زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اپنے زعم میں ہمارے خلاف جو یہ قدم اٹھایا گیا ہے یہ تو ایک معمولی سی روک ہے۔ ہمیں تو جتنا دبایا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کو بڑھاتا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی بہتر ہوگا۔ اس لئے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اس لئے زیادہ فکر اور پریشانی کی ضرورت نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اب تو دنیا کے اور ممالک میں بھی چھپ رہی ہیں۔ ویب سائٹ پر بھی میسر ہیں۔ آڈیو میں بھی بعض کتب میسر ہیں اور باقی بھی انشاء اللہ تعالیٰ جلدی مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک زمانہ تھا جب یہ فکر تھی کہ اشاعت پر پابندی سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علم و معرفت کے جو خزانے ہیں یہ فضاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا اور اس طرح پاکستان کے ایک صوبے کے قانون کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا فائدہ ہو جائے گا۔ ہر جو روک ہوتی ہے، مخالفت ہوتی ہے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ نئے راستوں اور ذرائع کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ کہ اس سے نہ صرف اصل زبان میں کتابیں چھپیں گی یا درس ہوں گے بلکہ بہت ساری قوموں کی مقامی زبانوں میں بھی یہ مواد میسر آ جائے گا۔ پس جن کے دلوں میں کسی بھی قسم کی پریشانی ہے کیونکہ لوگ لکھتے ہیں اس لئے مجھے کہنا پڑ رہا ہے وہ اپنے دلوں سے نکال دیں۔ ہمارے لٹریچر کے خلاف یہ جو ساری کارروائی کی گئی ہے اس سے ایک بات بہرحال واضح ہے اور یہ بڑی ابھر کر سامنے آ گئی ہے، پہلے بھی ہمیشہ آتی ہے کہ یہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت بڑھے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے یہ بہت بڑے علمبردار ہیں اور اس وجہ سے یہ ہماری مخالفت کرتے ہیں انہوں نے انصاف کی نظر سے نہ کبھی جماعت کے لٹریچر کو پڑھا ہے، نہ پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ ویسے تو عموماً ہماری طرف سے ان کے دعوے کی حقیقت اور ان کا اصل چہرہ ان کو دکھایا جاتا رہتا ہے لیکن میں نے سوچا ہے کہ آج بھی مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے حوالے سے جن میں ہمارے مخالفین کے خیال میں نعوذ باللہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، شان کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، تعلیمات کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، یا ان میں نفرت اور دلآزاری کا مواد ہے۔ یہ سارے مضامین تو بڑے وسیع ہیں اس میں سے چند وہ حوالے پیش کروں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کے ہمیں دکھائے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرنے والا کوئی شخص ان کو سننے اور پڑھنے سے اپنے کان اور آنکھیں بند کر سکتا ہے!؟ بہرحال ان نام نہاد علماء سے ہمیں کوئی غرض نہیں لیکن ایسے ہزاروں وہ لوگ جو ہماری باتیں ایم ٹی اے کے ذریعہ سنتے ہیں ان کے دلوں کو مزید کھولنے کے لئے اور احمدیوں کے دل و دماغ میں مزید جِلاء پیدا کرنے کے لئے، اس کا صحیح اِدراک پیدا کرنے کے لئے میں کچھ حوالے پیش کروں گا۔
پہلا مثلاً حمد الٰہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا پیارا انداز جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’الٰہی تیرا ہزار ہزار شکر کہ تو نے ہم کو اپنی پہچان کا آپ راہ بتایا اور اپنی پاک کتابوں کو نازل کرکے فکر اور عقل کی غلطیوں اور خطاؤں سے بچایا اور درود اور سلام حضرت سید الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کو سیدھی راہ پر چلایا۔ وہ مربی اور نفع رساں کہ جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا۔ وہ محسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھڑایا۔ وہ نور اور نور افشاں کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا۔ وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا۔ وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مُردوں کو زندگی کا پانی پلایا۔ وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے امت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا۔ وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کو موت کے منہ سے نکال کر لایا۔ وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سرجھکایا اور اپنی ہستی کو خاک سے ملایا۔ وہ کامل موحّد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھایا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا۔ وہ معجزۂ قدرت رحمن کہ جو اُمّی ہوکر سب پر علومِ حقّانی میں غالب آیا اور ہریک قوم کو غلطیوں اور خطاؤں کا ملزم ٹھہرایا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ17)
پھر کسی بھی شخص کے اعلیٰ اخلاق کا یا اس کے تکالیف میں مبتلا ہونے سے پتا چلتا ہے یا کشائش میں اور طاقت میں جب اس کو حاصل ہوتی ہے تب پتا چلتا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑھ کر اظہار اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے خاص مقربوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ اور اس میں بھی سب سے بڑھ کر جو اعلیٰ مقام ہے اس کا اظہار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ایام مصائب اور زمانہ فتوحات میں کیا تھے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’انبیاء اور اولیاء کا وجود اس لئے ہوتا ہے کہ تا لوگ جمیع اخلاق میں ان کی پیروی کریں اور جن امور پر خدا نے ان کو استقامت بخشی ہے اس جادۂ استقامت پر سب حق کے طالب قدم ماریں (یعنی اس پر چلنے کی کوشش کریں )اور یہ بات نہایت بدیہی ہے (صاف ظاہر ہے)کہ اخلاق فاضلہ کسی انسان کے اس وقت بہ پایۂ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوں (ہر اخلاق کا ایک وقت ہوتا ہے جب اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوں تو وہیں پتا لگتا ہے کہ وہ ثابت ہو رہے ہیں ) اور اسی وقت دلوں پر ان کی تاثیریں بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً عفو وہ معتبر اور قابل تعریف ہے کہ جو قدرت انتقام کے وقت میں ہو۔ (جب کسی میں انتقام لینے کی طاقت ہو اس وقت معاف کرنا یہی قابل تعریف ہے) اور پرہیزگاری وہ قابل اعتبار ہے کہ جو نفس پروری کی قدرت موجود ہوتے ہوئے پھر پرہیزگاری قائم رہے۔ غرض خدائے تعالیٰ کا ارادہ انبیاء اور اولیاء کی نسبت یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہریک قسم کے اخلاق ظاہر ہوں اور بہ پایۂ ثبوت پہنچ جائیں۔ سو خدائے تعالیٰ اسی ارادہ کو پورے کرنے کی غرض سے ان کی نورانی عمر کو دو حصہ پر منقسم کردیتا ہے۔ (دو حصے آتے ہیں ) ایک حصہ تنگیوں اور مصیبتوں میں گزرتا ہے اور ہر طرح سے دکھ دیئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تا وہ اعلیٰ اخلاق ان کے ظاہر ہوجائیں کہ جو بجز سخت تر مصیبتوں کے ہرگز ظاہر اور ثابت نہیں ہوسکتے۔ اگر ان پر وہ سخت تر مصیبتیں نازل نہ ہوں تو یہ کیونکر ثابت ہو کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ مصیبتوں کے پڑنے سے اپنے مولیٰ سے بے وفائی نہیں کرتے بلکہ اور بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں اور خداوند کریم کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے سب کو چھوڑ کر انہیں پر نظر عنایت کی اور انہیں کو اس لائق سمجھا کہ اس کے لئے اور اس کی راہ میں ستائے جائیں۔ سو خدائے تعالیٰ ان پر مصیبتیں نازل کرتا ہے تا ان کا صبر، ان کا صدق قدم، ان کی مردمی، ان کی استقامت، ان کی وفاداری، ان کی فتوّت شعاری (یعنی جوانمردی) لوگوں پر ظاہر کرکے اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکِرَامَۃِ کا مصداق ان کو ٹھہراوے۔ کیونکہ کامل صبر بجز کامل مصیبتوں کے ظاہر نہیں ہوسکتا اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور ثابت قدمی بجز اعلیٰ درجہ کے زلزلے کے معلوم نہیں ہوسکتی اور یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں جن سے دنیا میں ان کے اخلاق فاضلہ جن میں وہ بے مثل اور مانند ہیں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی ترقی ہوتی ہے۔ اگر خدا ان پر یہ مصیبتیں نازل نہ کرتا تو یہ نعمتیں بھی ان کو حاصل نہ ہوتیں اور نہ عوام پر ان کے شمائل حسنہ کماحقّہٗ کھلتے بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح اور ان کے مساوی ٹھہرتے(پھر تو سارے ایک جیسے ہو جاتے) اور گو اپنی چند روزہ عمر کو کیسے ہی عشرت اور راحت میں بسر کرتے پر آخر ایک دن اس دارِفانی سے گزر جاتے اور اس صورت میں نہ وہ عیش اور عشرت ان کی باقی رہتی نہ آخرت کے درجات عالیہ حاصل ہوتے۔ نہ دنیا میں ان کی وہ فتوت اور جوانمردی اور وفاداری اور شجاعت شہرۂ آفاق ہوتی جس سے وہ ایسے ارجمند ٹھہرے جن کا کوئی مانندنہیں۔ اور ایسے یگانہ ٹھہرے جن کا کوئی ہم جنس نہیں اور ایسے فرد الفرد ٹھہرے جن کا کوئی ثانی نہیں اور ایسے غیب الغیب ٹھہرے جن تک کسی ادراک کی رسائی نہیں اور ایسے کامل اور بہادر ٹھہرے کہ گویا ہزارہا شیر ایک قالب میں ہیں اور ہزارہا پلنگ (مطلب چیتے) ایک بدن میں جن کی قوت اور طاقت سب کی نظروں سے بلند تر ہوگئی اور جو تقرب کے اعلیٰ درجات تک پہنچ گئی۔ (یہ ساری چیزیں ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جاتی ہیں۔)
اور دوسرا حصہ انبیا اور اولیاء کی عمر کا فتح میں، اقبال میں، دولت میں بمرتبۂ کمال ہوتا ہے تا وہ اخلاق ان کے ظاہر ہوجائیں کہ جن کے ظہور کے لئے فتح مند ہونا، صاحب اقبال ہونا، صاحب دولت ہونا، صاحب اختیار ہونا، صاحب اقتدار ہونا، صاحب طاقت ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اپنے دکھ دینے والوں کے گناہ بخشنا اور اپنے ستانے والوں سے درگزر کرنا اور اپنے دشمنوں سے پیار کرنا اور اپنے بداندیشوں کی خیرخواہی بجا لانا۔ دولت سے دل نہ لگانا، دولت سے مغرور نہ ہونا، دولتمندی میں امساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور جُود اور بخشش کا دروازہ کھولنا اور دولت کو ذریعہ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلہ ظلم و تعدی نہ بنانا۔ (اگر حکومت، طاقت ہاتھ میں آ جائے تو اس کی وجہ سے ظلم نہ کرنا) یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے۔ اور اسی وقت یہ بہ پایۂ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں۔ پس چونکہ بجز زمانۂ مصیبت و اِدبار و زمانۂ دولت و اقتدار (کمزوری اور مصیبت کا زمانہ اور دولت اور اقتدار کا زمانہ)یہ دونوں قسم کے اخلاق ظاہر نہیں ہوسکتے۔ (یعنی یہ چیزیں، ایسے اخلاق جو ہیں کمزوری کی حالت میں بھی اور فتح کی حالت میں بھی اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب انسان مصیبت کا زمانہ بھی دیکھے اور دولت اور اقتدار کا زمانہ بھی دیکھے) پھر فرمایا کہ اس لئے حکمت کاملہ ایزدی نے تقاضا کیا کہ انبیاء اور اولیاء کو ان دونوں طور کی حالتوں سے کہ جو ہزارہا نعمتوں پر مشتمل ہیں متمتع کرے۔ لیکن ان دونوں حالتوں کا زمانہ وقوع ہریک کے لئے ایک ترتیب پر نہیں ہوتا۔ (دونوں حالتیں ہوتی ہیں لیکن ایک ترتیب نہیں ہوتی) بلکہ حکمت الٰہیہ بعض کے لئے زمانہ امن و آسائش پہلے حصہ عمر میں میسر کردیتی ہے اور زمانہ تکالیف پیچھے سے اور بعض پر پہلے وقتوں میں تکالیف وارد ہوتی ہیں اور پھر آخرکار نصرت الٰہی شامل ہوجاتی ہے اور بعض میں یہ دونوں حالتیں مخفی ہوتی ہیں اور بعض میں کامل درجہ پر ظہور و بروز پکڑتی ہیں (انتہائی طور پر ظاہری ہو جاتی ہیں اور فرمایا کہ) اس بارے میں سب سے اوّل قدم حضرت خاتم الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہوگئیں (یعنی تنگی کے حالات بھی ہوئے اور فتح اور نصرت کے حالات بھی ہوئے) اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن ہوگئے اور مضمون اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ کا بہ پایہ ثابت پہنچ گیا۔ اور آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے (آپ کے اخلاق کا کمال تک پہنچنا صرف آپ کے اخلاق کو نہیں بلکہ تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے۔ کس طرح؟۔ فرمایا) کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا(ان کی تصدیق کی) اور ان کا مقربُ اللہ ہونا ظاہر کردیا ہے۔ پس اس تحقیق سے یہ اعتراض بھی بالکل دور ہوگیا کہ جو مسیح کے اخلاق کی نسبت دلوں میں گزر سکتا ہے یعنی یہ کہ اخلاق حضرت مسیح علیہ السلام دونوں قسم مذکورہ بالا پر علی وجہ الکمال ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ ایک قسم کے رُو سے بھی ثابت نہیں ہیں۔ کیونکہ مسیح نے جو زمانۂ مصیبتوں میں صبر کیا تو کمالیت اور صحت اس صبر کی تب بہ پایۂ صداقت پہنچ سکتی تھی کہ جب مسیح اپنے تکلیف دہندوں پر اقتدار اور غلبہ پاکر اپنے موذیوں کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا (جنہوں نے آپ کو تکلیفیں پہنچائی تھیں ان کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا) جیسا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) قطعی حکم وارد ہوچکا تھا۔ اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہریک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم کہا۔ اور اسے عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔‘‘ (یعنی ایسا عفو دکھایا جو مخالفوں کو اپنے گناہوں کی وجہ سے، اپنی غلطیوں کی وجہ سے لگتا تھا کہ بڑا مشکل ہے ہمیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ جب وہ اپنی شرارتوں کو دیکھتے تھے تو سمجھتے تھے کہ اب ہماری سزا صرف یہی ہے کہ ہمیں قتل کیا جائے گا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کر دیا۔ فرماتے ہیں کہ) ’’ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا (اسی وجہ سے) اور حقانی صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو ایک زمانۂ دراز تک آنجناب نے ان کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا۔ آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہوگیا (ایسا صبر تھا جو آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہو گیا) اور چونکہ فطرتًا یہ بات انسان کی عادت میں داخل ہے کہ اسی شخص کے صبر کی عظمت اور بزرگی انسان پر کامل طور پر روشن ہوتی ہے کہ جو بعد زمانہ آزارکشی کے اپنے آزار دہندہ پر قدرت انتقام پاکر اس کے گناہ کو بخش دے۔‘‘ (یعنی کہ ایک لمبے زمانے تک آپ کو تکلیفیں دی گئیں لیکن فرمایا کہ اسی وقت اس کا اظہار ہو سکتا ہے صحیح صبر کا حقیقی صبر کا جب جس کو تکلیفیں دی جائیں اس کو جب بدلہ لینے پر، انتقام لینے پر قدرت حاصل ہو جائے، طاقت حاصل ہو جائے تب وہ ساروں کے گناہ بخش دے۔ تو یہ ہے اصل حقیقی صبر اور یہ نمونہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا) فرمایا کہ ’’اس وجہ سے مسیح کے اخلاق کہ جو صبر اور حلم اور برداشت کے متعلق تھے بخوبی ثابت نہ ہوئے اور یہ امر اچھی طرح نہ کھلا کہ مسیح کا صبر اور حلم اختیاری تھا یا اضطراری تھا کیونکہ مسیح نے اقتدار اور طاقت کا زمانہ نہیں پایا تا دیکھا جاتا کہ اس نے اپنے موذیوں کے گناہ کو عفو کیا یا انتقام لیا۔ برخلاف اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ صدہا مواقع میں اچھی طرح کھل گئے اور امتحان کئے گئے اور ان کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہوگئی۔ اور جو اخلاق کرم اور جود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زہد اور قناعت اور اعراض عن الدنیا (دنیا سے بے رغبتی) کے متعلق تھے، وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہوگئے ہوں کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے۔ سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبّہ بھی خرچ نہ ہوا۔ (اپنے آرام پر ایک پائی بھی خرچ نہیں کی) نہ کوئی عمارت بنائی، نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی۔ بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی۔ بدی کرنے والوں سے نیکی کرکے دکھلائی اور وہ جو دلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا۔ اور کھانے کے لئے نانِ جَو یا فاقہ اختیار کیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرتؐ نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا۔ اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے (یعنی کہ ابتدائی زندگی سے لے کر آخر تک وصال تک) بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا۔ اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکۂ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا۔ (سخت مشکل جگہ ہوتی تھی)خالصًا خدا کے لئے کھڑے ہوکر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی۔ غرض جود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی‘‘۔
آپ فرماتے ہیں ’’اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنوں کر کے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود باجُود پر ختم ہو گئے۔ وَھَذَا فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 276 تا 292 حاشیہ نمبر 11)
پھر ایک عیسائی کے سوال پر وضاحت فرماتے ہوئے کہ روشنی اور نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ سوال یہ تھا کہ ’’مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہے ’میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندے ہو کہ میں تمہیں آرام دوں گا‘ اور یہ کہ ’میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں۔ میں زندگی اور راستی ہوں‘۔ کیا بانیٔ اسلام نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کئے ہیں‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’قرآن شریف میں صاف فرمایا گیا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ۔ (وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ) الخ (آل عمران: 32)یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے۔‘‘ (فرمایا کہ) ’’یہ وعدہ کہ میری پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے مسیح کے گزشتہ اقوال پر غالب ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے۔ پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الٰہی بنا دیتا ہے اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے۔ اسی لئے اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نور رکھا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے قَدْ جَآءَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْرٌ (المائدۃ: 16) یعنی تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 372)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتی ہے، آپ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کے ساتھ اپنا پیار کرنا اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔ یعنی شرط یہ لگائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرو گے تو میرا پیار حاصل ہو گا) چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الٰہی کی ایک خاص تجلّی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذباتِ نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘ (حقیقۃا لوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 67تا 68)
پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ سب سے کامل انسان اور کامل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں فرماتے ہیں کہ:
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قُویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ عِلمًا و عملاً و صدقًا و ثباتًا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا، …… وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا، وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَ اَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْنَ۔‘‘ (اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد8صفحہ 308)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض احسانات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اس نے ہمارے لئے ایک ایسا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا جو کریم ہے۔ تمام امور خیر میں صاحب کمال ہے۔ کمالات کے تمام انواع میں، ہر رنگ میں سبقت لے جانے والا ہے۔ تمام رسولوں اور نبیوں کا خاتم ہے۔ اُمّ القریٰ میں آنے والا موعودنبی جو سچ مچ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ اس کے فیضیابوں کی زبانیں ہر وقت اس کی ستائش سے تر رہتی ہیں اور وہ اس رُو سے بھی کامل ستائش کا مستحق ہے کہ اس نے امّت کی خاطر انتہائی مشقت و محنت اپنے اوپر لی اور دین کی عمارت کو بلند کیا اور اس لئے بھی کہ وہ ہمارے لئے ایک روشن اور تاباں کتاب لایا اور اس لئے بھی کہ اسے اپنے خداوند رب العالمین کے پیغاموں کے پہنچانے میں ہمارے لئے طرح طرح کی ایذاؤں کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر اس لئے بھی کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں ناتمام اور ناقص رہا تھا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل کیا اور ہمیں افراط اور تفریط سے اور دیگر عیوب و نقائص سے پاک شریعت عطا کی اور اخلاق کو کمال تک پہنچایا اور جو جو کچھ ناقص تھا اسے کامل کیا اور تمام اقوامِ عالَم کو اپنا ممنون احسان کیا اور چوٹی کے فصیح و بلیغ بیانوں اور نہایت روشن وحی کے ذریعہ سے رُشد کی راہیں بتائیں اور مخلوق کو گمراہی سے بچایا اور اپنے نمونے کے ذریعہ سے کنارہ کش بنایا اور بہائم و انعام کو گویا کر دیا (یعنی ایسے لوگ جو جانوروں کی طرح رہنے والے تھے، اَن پڑھ جاہل تھے، اجڈ تھے ان کو بھی زبانیں دیں اور ان کی زبانوں کو شائستہ کر دیا۔ ان کے اخلاق کو بلند کیا) اور ان میں ہدایت کی روح پھونک دی اور تمام مرسَلین کے وارث بنا دیا اور انہیں ایسا پاک و صاف کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے انہوں نے پانی کی طرح اپنے خون بہا دئیے اور کامل اطاعت کے ساتھ اپنے آپ کو بکلّی اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا۔ پھر دوسری طرف آپ نے اچھوتے اور مخفی در مخفی لطائف و معارف اور نادر نکات کی تعلیم دے کر ہمارے جیسے آپ کے دسترخوان کا پس خوردہ کھانے والوں کو حقیقی فضیلت کے مقام پر پہنچا دیا۔ (اخلاق میں بھی اعلیٰ کر دیا، علم و معرفت میں بھی اعلیٰ کر دیا) اور آپ کی رہنمائی کے طفیل حق تعالیٰ تک پہنچنے کی راہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (روحانیت میں بھی اوپر لے گئے) اور ہم فلک بریں پر جا پہنچے، بعد اس کے کہ ہم زمین میں دھنس چکے تھے۔ پس اے اللہ! روز جزا تک اور ابد الآباد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیج۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پاک طاہرین طیبین پر اور آپ کے صحابہ کرام پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناصر بھی بنے اور منصور بھی جو اللہ تعالیٰ کی چیدہ اور برگزیدہ جماعت ہے جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنی عزتوں اور اپنی آبروؤں اور اپنے اموال اور اولاد پر اللہ تعالیٰ کو مقدم کیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن‘‘۔ (البلاغ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 433-434۔ ترجمہ عربی عبارت)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام ادیان سے بہتر ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کے بعد وہی نبی آ سکتا ہے جس کی تربیت آپ کے فیضان سے ہوئی ہو اور آپ کی پیشگوئی کے ماتحت آیا ہو اور کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ …… اور ختم نبوت سے مرادنبوت کے کمالات کا ہمارے نبی افضل الرسل والانبیاء پر ختم ہونا ہے۔ اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ آپ کے بعد وہی نبی آ سکتا ہے جو آپ کی امّت میں سے اور آپ کے کامل ترپیروؤں میں سے ہو جس نے تمام کا تمام فیضان آپ ہی کی روحانیت سے پایا ہو اور آپ ہی کے نور سے منور ہؤا ہو۔ اَور کوئی نبی نہیں آسکتا۔ …… اور یہی بات حق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات پر گواہ ہے اور لوگوں کو آپ کا حسن آپ کے سچے پیروؤں کے لباس میں جو کامل محبت اور اخلاص کے ساتھ آپ میں فنا ہوں دکھلاتی ہے اور اس کے خلاف بحث کرنا جہالت ہے بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتر نہ ہونے کا ثبوت ہے اور اہل تدبیر کے لئے اس کی تفصیل کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی لحاظ سے تو کسی مرد کے باپ نہیں تھے لیکن آپ روحانیت کے رو سے کمال یافتہ شخص پر اپنی فیضان رسالت کے لحاظ سے باپ ہیں اور آپ تمام انبیاء کے خاتَم اور تمام مقبولوں کے سردار ہیں اور سوائے اس شخص کے جس کے پاس آپ کی مہر کا نقش ہو اور آپ کی سنّت کا پیرو ہو، کوئی شخص خدا تعالیٰ کی درگاہ میں کبھی رسائی نہیں پا سکتا اور کوئی عمل اور کوئی عبادت آپ کی رسالت کے اقرار اور آپ کے دین اور آپ کی ملت پر پختگی کے ساتھ قائم ہوئے بغیر قبول نہیں ہو سکتی۔ اور جس نے آپ کو چھوڑا اور اپنی طاقت اور مقدور بھر آپ کی تمام سنن کی پیروی نہ کی وہ ہلاک ہوا اور آپ کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی اور کوئی چیز آپ کی کتاب اور آپ کے احکام کو منسوخ کرنے والی یا آپ کی پاک باتوں کو تبدیل کردینے والی نہیں ہو سکتی اور کوئی بارش آپ کی بارش جیسی نہیں ہو سکتی۔ اور جو شخص قرآن کی پیروی سے ایک ذرہ بھر باہر نکلا وہ دائرہ ایمان سے نکل گیا۔ اور کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا اور نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ ان تمام باتوں کی پیروی نہ کرے جو ہمارے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور جو شخص آپ کے احکام میں سے ایک ذرہ بھر بھی چھوڑتا ہے وہ تباہی کے گڑھے میں گرتا ہے اور جو شخص اس امّت میں سے کہلا کر بھی دعویٰ نبوت کے ساتھ یہ اعتقادنہیں رکھتا کہ اس کی تربیت خیر البرایا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے ہوتی ہے اور آپ کے نمونے کی پیروی کے بغیر وہ کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا اور یہ کہ قرآن شریف خاتم الشریعۃ ہے تو ایسا شخص ہلاک شدہ اور پکا کافر و فاجر ہے۔ اور جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اور یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو کہ وہ آپ کی امّت میں سے ہے اور جو کچھ اس نے پایا ہے آپ کے فیضان سے پایا ہے اور یہ کہ وہ آپ کے باغ کا ایک پھل، آپ کی بارش کا ایک قطرہ آپ کے انوار کی ایک جھلک ہے تو ایسا شخص ملعون ہے اور ایسے شخص پر اور اس کے مددگاروں اور پیروؤں اور ساتھیوں پر سب پر خدا کی لعنت ہے۔ اب آسمان کے نیچے ہمارے نبی مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخص جو آپ کا غیر ہو نبی نہیں اور نہ ہی قرآن کریم کے سوا ہماری کوئی اور کتاب ہے اور جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ اپنے آپ کو آپ دوزخ میں ڈالتا ہے۔‘‘ (مواھب الرحمان۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 285 تا 287۔ ترجمہ عربی عبارت)
پھر آپ بیان فرماتے ہیں کہ اب شفیع صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرمایا:
’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پرتم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے (خدا سچ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق اور خدا کے درمیان شفیع ہیں ) اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔ ……
موسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرون اُولیٰ کھو چکے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا۔ اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگر شان میں ہزارہا درجہ بڑھ کر۔ مثیل موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم، ابن مریم سے بڑھ کر۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ14-13)
پس یہ چند اقتباسات ہیں جو میں نے ان بے شمار اقتباسات میں سے لئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کے بارے میں تحریر فرمائے ہیں۔ اسی طرح اسلام کی مختلف تعلیمات کی وضاحت کے بارے میں بھی ایک خزانہ ہے جو آپ نے پیش فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے نام نہاد علمبرداروں کو بھی عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عاشق صادق کی باتوں کو سنیں اور یہ عامّۃ المسلمین کی صحیح رہنمائی کرنے والے بنیں۔ نماز کے بعد میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا ہے مکرم محمد موسیٰ صاحب درویش قادیان کا جو 10؍مئی 2015ء کو پچانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم آخری عمر تک چلتے پھرتے رہے۔ وفات سے چار روز قبل احمدیہ چوک میں ایک سڑک پر حادثے میں گرنے کی وجہ سے کنپٹی پر چوٹ لگی جس کی وجہ سے چار روز امرتسر ہسپتال میں داخل رہے اور اس کے بعدنور ہسپتال میں وفات ہو گئی۔ مرحوم موصی تھے۔ آپ کے خاندان کو خلافت اولیٰ کے زمانے میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ مرحوم ضلع شیخو پورہ کے گاؤں سیّد والا کے رہنے والے تھے۔ 1946ء میں جب آپ نے فوج کی ملازمت چھوڑ کر قادیان میں رہائش اختیار کی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ کیا کام کر رہے ہیں تو مرحوم نے بتایا کہ فوج کی سروس چھوڑ کر ذاتی کام شروع کرنے لگا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ مجھے آپ کی خدمت کی ضرورت ہے ہجرت کر کے آپ نے پاکستان میں نہیں جانا۔ قادیان میں ہی قیام رکھیں۔ یہ 47ء کی بات ہے اور اس وقت حالات پارٹیشن کے بھی ہو رہے تھے۔ چنانچہ آپ قادیان میں ہی ٹھہرے اور اس طرح آپ 313درویشان قادیان میں شامل ہو گئے اور بڑی سعادتمندی سے درویشی کے دن گزارے۔ آپ کو سالہا سال صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں بالخصوص دارالمسیح میں خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم کو 2006ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں درویشوں کے نمائندے کے طور پر شرکت کی توفیق ملی اور عالمی بیعت میں بھی آپ کو ہندوستان کے نمائندہ ہونے کی توفیق ملی اور آپ سب سے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے بیٹے مکرم لطیف صاحب سلسلہ کی خدمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ آپ کی اہلیہ کی وفات 30؍مئی 2014ء کو ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے درویش شوہر کا ساتھ دیتے ہوئے بڑی درویشانہ زندگی بڑے صبر کے ساتھ بسر کی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے رہیں۔ دوسرا جنازہ صاحبزادی سیدہ امۃ الرفیق صاحبہ کا ہے جو حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں۔ 6؍مئی 2015ء کو 80سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی شادی سے اولادنہیں تھی۔ دوسری شادی مکرمہ حضرت امۃ اللطیف بیگم صاحبہ سے 1917ء میں ہوئی اور ان سے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹیاں اور تین بیٹے عطا فرمائے۔ صاحبزادی امۃ الرفیق کا نمبر آٹھواں تھا۔ بڑی علمی شخصیت تھیں۔ خاموش طبیعت تھی۔ ان کے بیٹے حمید اللہ نصرت اللہ پاشا فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرے والد حضرت اللہ پاشا صاحب نے 1953ء میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران احمدیت قبول کی تھی۔ 1960ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے والد صاحب کو میری والدہ سے رشتہ سے متعلق تجویز دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے دو ماموں تھے۔ بڑے ماموں بہت بڑے صوفی تھے یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو حضرت اماں جان کے بھائی تھے اور چھوٹے ماموں بہت بڑے عالم تھے یعنی حضرت میر اسحٰق صاحب۔ میاں بشیر احمد صاحب نے فرمایا کہ آپ کے لئے اپنے بڑے ماموں کی صاحبزادی امۃ الرفیق کا رشتہ تجویز کرتا ہوں تو ان کے والدنے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے کہا کہ میرے رشتے دار سارے غیر احمدی ہیں تو میں رشتہ کس طرح کروں، بات کس طرح کروں؟ آپ نے فرمایا کہ آپ کے سرپرست کے طور پر میں رشتہ کی بات کرتا ہوں۔ چنانچہ 5؍نومبر 1961ء کو آپ کا نکاح ہوا اور اسی روز رخصتی ہو گئی اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے ڈاکٹر نصرت پاشا کو سنایا کہ تمہاری امی کی شادی جب ہوئی اس وقت حضرت مصلح موعود بیمار تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے شادی کی دعا کرائی اور نمائندگی میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعود کو جب ملنے آئے اور جب مل کے نکلنے لگے تو حضرت مصلح موعودنے پیغام دیا کہ حضرت اللہ پاشا جن سے امۃ الرفیق صاحبہ کی شادی ہوئی تھی ان کو کہہ دو کہ آپ کو میں نے اپنی بیٹی دی ہے۔
ان کے بچے حمید اللہ نصرت پاشا صاحب جیسا کہ میں نے کہا واقف زندگی ہیں۔ فضل عمر ہسپتال میں ڈینٹل سرجن ہیں۔ دوسرے بیٹے خضر پاشا دوبئی میں ہیں اور بیٹی ان کی ایک فرحانہ پاشا ڈاکٹر غلام احمد فرخ صاحب واقف زندگی کی اہلیہ ہیں۔ یہ فرخ صاحب بھی ربوہ میں کمپیوٹر سیکشن میں کام کرتے ہیں۔ امۃ الرفیق صاحبہ کو ایک لمبا عرصہ نائب صدر لجنہ کراچی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور باوجود گھٹنوں کی تکلیف کے آپ ہر جگہ پہنچتیں۔ دفاتر اونچی منزل میں تھے وہاں جاتیں اس کی وجہ سے آپ کو تکلیف زیادہ بڑھ گئی لیکن بہرحال انہوں نے اپنے فرائض نہیں چھوڑے۔ بڑی غریب پرور تھیں اور غریبوں کی غیر معمولی مدد کیا کرتی تھیں اور اخفاء میں رکھتی تھیں۔ خلافت سے اس قدر عقیدت کا تعلق تھا کہ کوئی بات آپ برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ 1974ء میں جو حالات ہوئے اس کے بعد کچھ مہمان ان کے گھر آئے اور کھانے کی میز پرکسی نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی کے دوران حضور کو یعنی خلیفہ ثالث کو اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کہنا چاہئے تھا تو آپ نے اسی وقت انگلی کے اشارہ سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ بس اس سے آگے ایک لفظ نہیں سنوں گی۔ فوراً وہیں بات ختم کر دی۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی ریٹائرمنٹ ہو گئی تو صرف پنشن پے گزارا تھا۔ حالات ذرا تنگ تھے تو ایک دن والدہ صاحبہ نے (یعنی امۃ الرفیق صاحبہ نے) میری موجودگی میں والد صاحب سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ کی بشارت ہوئی ہے۔ اور اس کے بعد ان کے میاں کو ورلڈ بینک نے ایڈوائزر کے طور پر رکھا اور کنسلٹنسی (consultancy) کی فیس بھی آنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آمد بڑھ گئی۔ دنیا سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ ان کی بیٹی فرحانہ پاشا نے لکھا ہے کہ میری امی کا جو سامان لپیٹا ہے تو سب کچھ لپیٹنے میں پندرہ منٹ لگے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ ان کا سارا سسرال غیر احمدی تھا۔ حضرت مصلح موعودنے ان کو نصیحت کی تھی کہ غیر احمدی رشتہ داروں کا ہمیشہ خیال رکھنا اور کہتی ہیں کہ امی نے ساری زندگی اس نصیحت پر خوب عمل کیا اور ابّا کے ساتھ غیر احمدی رشتہ دار جو صرف رشتہ دار ہی نہیں تھے بلکہ مختلف انداز میں مخالفت کا بھی اظہار کرتے تھے ان کی مخالفت کے باوجود ساری زندگی ان سے حسن سلوک رکھا اور آخر وفات کے وقت ان میں سے بعضوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان جیسا ہمارا ہمدرد اور خیر خواہ کوئی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
گزشتہ جمعہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جماعت کے بعض جرائد اور کتب پر پابندی لگائی ہے کہ ان کی اشاعت نہیں ہو سکتی یا ڈسپلے (display) وغیرہ نہیں ہو سکتا اور اس بات کی وہاں کی بعض اخبارات نے خبریں بھی دیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ان نام نہاد علماء کے کہنے پر اسی طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ اور ابتدا سے ہی جب سے کہ جماعت احمدیہ قائم ہے اس قسم کی حرکتیں یہ لوگ کرتے چلے آ رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان حرکتوں سے نہ پہلے کبھی جماعت کو نقصان پہنچا اور نہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کبھی پہنچے گا۔ نہ ہی یہ پہنچا سکتے ہیں۔ نہ ہی کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدائی مشن کو ان باتوں سے روک سکے۔
کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ سب کچھ کس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے۔
ہمیشہ کی طرح ان مخالفین کے یہ عمل ہمارے ایمانوں میں جلاء پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق میں بڑھنے کے لئے کھاد کا کام دینے والے ہونے چاہئیں۔ اگر ہماری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ کم تھی تو اب زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہئے۔
ایک پنجاب کی حکومت کی روک سے تو کیا تمام دنیا کی حکومتوں کی روکوں سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا کیونکہ یہ انسانی کوششوں سے کئے جانے والے کام نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم و معرفت کے خزانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے۔ ہمیشہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ بڑی بڑی روکوں اور مخالفتوں کے بعد جماعت کی ترقی زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اب تو دنیا کے اور ممالک میں بھی چھپ رہی ہیں۔ ویب سائٹ پر بھی میسر ہیں۔ آڈیو میں بھی بعض کتب میسر ہیں اور باقی بھی انشاء اللہ تعالیٰ جلدی مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک زمانہ تھا جب یہ فکر تھی کہ اشاعت پر پابندی سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علم و معرفت کے خزانے جو ہیں یہ فضاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا اور اس طرح پاکستان کے ایک صوبے کے قانون کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا فائدہ ہو جائے گا۔ ہر جو روک ہوتی ہے، مخالفت ہوتی ہے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ نئے راستوں اور ذرائع کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ کہ اس سے نہ صرف اصل زبان میں کتابیں چھپیں گی یا درس ہوں گے بلکہ بہت ساری قوموں کی مقامی زبانوں میں بھی یہ مواد میسر آ جائے گا۔
حمد الٰہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت شان، آپ کے خلق عظیم، آپ کے احسانات، مقام ختم نبوت و شفاعت سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پُر شوکت تحریروں سے نمونۃ ً چند روح پرور اقتباسات کا تذکرہ۔
مکرم محمد موسیٰ صاحب درویش قادیان اور مکرمہ صاحبزادی سیّدہ امۃ الرفیق صاحبہ بنت حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 15؍مئی 2015ء بمطابق 15ہجرت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔