جلسہ سالانہ جرمنی اور کمزوریوں کی انقلابی اصلاح
خطبہ جمعہ 5؍ جون 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے یہ جلسے منعقد ہونا جماعت احمدیہ کے اہم پروگراموں کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے ہندوستان کے رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی قادیان جلسے کے لئے آنا کرایوں وغیرہ کے اخراجات کی وجہ سے بہت مشکل تھا بلکہ بعض کے لئے ممکن نہیں تھا۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ سال بھر اس مقصد کے لئے کچھ نہ کچھ جوڑتے رہیں تا کہ جلسہ سالانہ کے لئے زادِ راہ میسر آ جائے۔ (ماخوذ از آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 صفحہ352)
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی یافتہ ممالک میں بلکہ بعض ایسے ممالک بھی جہاں جماعتیں بڑھی ہیں جو جلسے منعقد ہوتے ہیں ان میں شامل ہونے والوں کی اپنی سواریوں اور کاروں کی تعداد ہی اتنی ہوتی ہے کہ انتظامیہ کو کارپارکنگ کے لئے جو انتظام کرنا پڑتا ہے وہ بھی ایک محنت طلب کام ہے اور خاص طور پر کرنا پڑتا ہے۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جن کے آباؤ اجداد جلسے میں اپنے پر تنگی وارد کر کے اور تکلیف اٹھا کر جاتے ہوں گے۔ بعض حسرت اور خواہش رکھنے کے باوجود کہ ہر سال جلسے میں شامل ہوں لیکن ان کے لئے ممکن نہ ہو سکتا ہو گا۔ لیکن کبھی آپ میں سے کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اتنی آسانیاں میسر آنے کے بعد، کشائش پیدا ہونے کے بعد جو آپ کو سفر کی سہولتیں اور توفیق ملتی ہے کیا یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے اور ایمان میں بڑھانے کا باعث بنی ہیں؟ کیا جو ایمان ہمارے بڑوں کا تھا اور جو تعلق خدا تعالیٰ سے ان کا تھا اس معیار پر ہم بھی پہنچے ہیں۔ بعض اس زمانے کے بزرگوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ پانے کے باوجود، آپ کو ماننے کے باوجود، خواہش کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا ہے مالی روکوں کی وجہ سے سفر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن آج جن ممالک کے جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک غلام اور خلیفہ شامل ہوتا ہے اس میں شمولیت کے لئے لوگ دوسرے ممالک سے خرچ کر کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ میرے سامنے بھی کئی بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت جاننے کے لئے ایسے لوگ بھی دوسرے ممالک سے شامل ہونے کے لئے آ جاتے ہیں جو ابھی آپ پر ایمان نہیں لائے۔ پس یہ بات جہاں اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دئیے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے وہاں ان بزرگوں کی اولادوں کے لئے اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ ہونے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم اپنے تعلق باللہ، اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کی پابندی کرنے کے لحاظ سے کس مقام تک پہنچے ہیں۔ اگر ہمارے خاندانوں میں ہمارے بزرگوں کے نیکی کے معیار وں کے مقابلے میں تیزی سے تنزّل ہو رہا ہے تو ہماری حالت قابل فکر ہے۔ ہماری کشائش اور ہماری کُھل بے فائدہ ہے۔ ہم دنیا تو کما رہے ہیں لیکن ہمارا دین کا خانہ خالی ہو رہا ہے اور ایسے حالات میں پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان دنیا کے دھندوں میں غرق ہو کر خدا تعالیٰ سے بالکل ہی تعلق ختم کر دیتا ہے اور یوں خدا تعالیٰ کی نظر سے گر کر شیطان کی جھولی میں جا گرتا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کا جلسہ پر آنا صرف ایک رسم بن جاتا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے پر شمولیت ہمیں ہماری کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے اندر انقلاب لانے والی ہو۔ ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہو۔ ہماری کشائش ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہو۔ ہم ہمیشہ یہ دعا اور کوشش کرتے رہنے والے ہوں کہ ہم یا ہماری نسلیں کبھی خدا تعالیٰ کے غضب کا موردنہ بنیں۔ ہم اپنے بزرگوں کی خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے والے ہوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جماعت کو وسعت مل رہی ہے۔ جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے، اللہ تعالیٰ جو لوگوں کے دلوں کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی شمال سے بھی، جنوب سے بھی، مشرق سے اور مغرب سے بھی لوگوں کو توفیق دے رہا ہے، جو لوگ جماعت میں اپنے ایمانوں میں جلاء پیدا کرنے کے لئے شامل ہو رہے ہیں، اپنے تعلق باللہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ اس جلسہ میں شامل ہونے کے مقصد کو پورا کرنے والے بھی بنیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے دل کھلیں مزید کھلتے چلے جائیں۔ اس بات پر نظر رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے انعقاد کے مقاصد کے لئے بیان فرمائی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ سے تعلق اور اپنی زندگیوں کو اس کے حکم کے مطابق ڈھالنا۔ اپنے بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشش۔ یہ تمام باتیں اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھالنے اور ایک قربانی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ پس یہ جلسہ نہ کوئی دنیاوی میلہ ہے نہ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہاں آنے والوں کو ایک تو ذکر الٰہی کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ ہر وقت ذہن میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان نیکیوں کو حاصل کرنے اور اپنانے والے بنیں اور پھر انہیں مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بنیں جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
ذکر الٰہی کے ضمن میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مجالس میں بیٹھنے والوں کا ذکر چاہے اپنے اپنے رنگ میں ہو رہا ہو الگ الگ انفرادی طور پر ہر کوئی کر رہا ہو جماعتی رنگ رکھتا ہے اور جہاں انسان کی ذات کو اس سے فائدہ ہو رہا ہوتا ہے وہاں جماعتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔
پس جلسے کی کارروائی سنتے ہوئے، چلتے پھرتے ان دنوں کو ذکر الٰہی میں گزاریں اور پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ جب انسان ذکر کر رہا ہوتا ہے، ایسی مجلس ہوتی ہے تو دوسروں کو بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر وہ بھی اپنے ان دنوں کو بامقصد بنانے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بے مقصد مجالس لگائی جائیں بے مقصد گفتگو کی جائے ان دنوں کو ہر ایک کو بامقصد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان دنوں کی عادت کا اثر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد میں بھی کچھ عرصے تک تو رہتا ہے اور اگر انسان کی توجہ رہے تو پھر لمبا عرصہ رہتا ہے۔
پس یہ جلسہ سالانہ کی برکات میں سے ہے کہ ایک شخص کی دعائیں اسے خود بھی فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں اور جماعت کی مجموعی ترقی کا بھی باعث بن رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے اور جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے کا باعث بنا رہی ہوتی ہیں۔ پس اپنے ان دنوں کو ہر شامل ہونے والے کو اس طریق پر گزارنا چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا اور ہم سے توقع رکھی۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کریں اور دوسرے اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی محبت سے بھریں۔ اپنے بھائیوں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں۔ یہاں جلسے پر آ کر اگر کسی میں رنجشیں بھی ہیں تو ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کریں گے اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کریں گے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی رنگ میں دنیا کو پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن سکیں گے۔ لیکن ان تمام راستوں سے گزرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ محنت شرط ہے۔ یہ جلسے اسی لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ روحانی ماحول سے، نیکی کی باتیں سننے سے، ذکر الٰہی کرنے سے ہم میں وہ عادتیں مستقل پیدا ہو جائیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایسا مقام ہے کہ آخر فنا ہے۔ اندر ہی اندر اس فنا کا سامان لگا ہؤا ہے۔ وہ اپنا کام کر رہا ہے مگر خبر نہیں ہوتی۔ اس لئے خدا شناسی کی طرف قدم جلد اٹھانا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کا مزا اُسے آتا ہے جو اُسے شناخت کرے۔ اور جو اس کی طرف صدق و وفا سے قدم نہیں اٹھاتا اُس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف ذرا سی حرکت کرو گے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا۔ لیکن اوّل تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
پھر فرمایا: ’’بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں۔ نماز بھی پڑھی، روزے بھی رکھے، صدقہ و خیرات بھی دیا، مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہؤا۔ تو ایسے لوگ شقی ازلی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لئے کئے ہوتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6صفحہ 230-229۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)
پس اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہمیں خالص ہو کر اس کی عبادت بھی کرنی ہو گی اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا۔ ہمارا کام اگر خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گا تو ہم اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں گے۔ ہمیں دنیاوی تاریکی سے نکل کر خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ وہ ہماری اصلاح کے لئے اپنے فرستادے، اپنے پیارے بھیجتا رہتا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے بھی اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو مانا جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دین کی محبت کے اسلوب سکھائے اور ان پر چلنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جنہوں نے ہمیں مخلوق کے حق اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ جنہوں نے ہمیں فردی اور اجتماعی برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ دلائی۔ قومی برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ دلائی۔ انفرادی برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ دلائی۔ عملی اور اعتقادی حالتوں کو درست کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
پس اگر ہم آپ کی بیعت میں آ کر پھر بھی ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے تو ہم اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔ انبیاء آتے ہیں اپنے ماننے والوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے۔ ان کی حالتوں کو بالکل مختلف صورت دینے کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے کشفاً دکھایا کہ آپ نے نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ آؤ انسان کو پیدا کریں۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ154ایڈیشن چہارم2004ء بحوالہ چشمہ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 376-375حاشیہ)
یہ نئی زمین اور نیا آسمان بنانا اور انسان پیدا کرنا وہ انقلاب ہے جو آپ نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا تھا۔ نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کا سب سے بڑھ کر اور کامل اور مکمل اظہار تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتا ہے۔ آپ نے کس طرح نئی زمین اور نیا آسمان بنایا کہ توحید کے دشمنوں کو توحید پر قائم کر دیا۔ وہی جو بتوں کو پوجنے والے تھے اور ایک خدا کے انکاری تھے وہ اَحَد اَحَد کہہ کر ہر طرح کے ظلم سہتے رہے۔ جو توحید کے قیام کے لئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن توحید سے انکار نہیں کیا۔ جن کو خدا تعالیٰ کا تصور ہی نہیں تھا ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اس طرح اترا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الٰہی مادی کھانے سے زیادہ ان کی غذا بن گئی۔ انہوں نے دن کو روزوں اور راتوں کو نوافل میں گزارنا شروع کر دیا۔ ان کی عورتوں نے بھی عبادت کے شوق اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کے لئے رات کی اپنی نیندوں کو حرام کر دیا اور عبادت کی خاطر اپنی نیندوں کو دور کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ایک صحابیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے ایک رسّی چھت سے لٹکائی ہوئی تھی جس کو پکڑ لیتی تھیں یا جس کے جھٹکے سے آپ ہوشیار ہو جاتی تھیں۔ (صحیح بخاری کتاب التھجد باب مایکرہ من التشدید فی العبادۃ حدیث1150)
ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا معیار یہ تھا کہ اپنی جائیدادیں تک اپنے بھائیوں کو دینے کے لئے تیار تھے بلکہ پیش کیں۔ لیکن دوسری طرف جن کو پیش کی گئی تھیں ان میں بھی ایک انقلاب آ چکا تھا۔ انہوں نے شکریہ کہہ کر یہ کہا کہ یہ تمہاری چیز تمہیں مبارک ہوں۔ ہمیں بازار کا رستہ بتا دو۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب ماجاء فی قول اللّٰہ عز وجل حدیث2049)
کسی کے محتاج ہونے سے بہتر ہے کہ خود کما کر کھاؤں۔ سچائی اور ایمانداری کے معیار یہ قائم ہوئے کہ ایک مسلمان سو دینار کا ایک گھوڑا دیہات سے خرید کر لایا۔ جب وہ گھوڑا فروخت کے لئے بازار میں آیا تو دوسرے مسلمان نے کہا کہ یہ گھوڑا بہت اچھا ہے اس کی میرے نزدیک قیمت دو سو یا تین سو دینار ہے۔ مالک کہتا ہے کہ اس گھوڑے کی قیمت سو دینار ہے میں زیادہ رقم کس طرح لے سکتا ہوں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 318)
وہ لوگ جو مال سے محبت کرتے تھے اور زیادہ کمانے کے لئے دھوکے سے بھی مال وصول کر لیا کرتے تھے وہ لوگ سچائی کے اس معیار تک پہنچے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اتنے پیسے کس طرح لے سکتا ہوں۔ تو یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ایسے اعلیٰ معیار پیش کئے۔ یہ وہ تغیر اور تبدیلی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کی۔ پھر عورت کو حقوق دلا ئے۔ اس کو عزت دلائی۔ اس کی عزت قائم کی۔ اسے معاشرے میں ایک مقام دلایا۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورت کی کوئی عزت نہیں تھی یہ بہت بڑی بات تھی بلکہ اب تک ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ اس بارے میں آج کے معاشرہ اور پہلے معاشرہ کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک حقیقت بیان فرمائی ہے۔ آج کامَرد معاشرہ بڑا نعرہ لگاتا ہے کہ ہم نے عورت کو حقوق دئیے اور یہ حقیقت ہے کہ پہلے معاشرے میں مرد عورت کو ستاتا تھا، مارتا پیٹتا تھا اور سمجھتا تھا کہ مار پیٹ جائز ہے اور آج بھی حسب سابق مرد عورت کو ستاتا اور پیٹتا ہے۔ یورپ میں بھی ایسا ہوتا ہے اور دوسرے ممالک جو عورت کی آزادی کے بڑے نعرے لگاتے ہیں ان میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ بعض وکیل میرے سامنے بیٹھے ہوں گے ان کو پتا ہے کہ ایسے کیس آتے ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اب مرد یہ کہتا ہے کہ عورت کو ستانا اور پیٹنا جائز نہیں۔ پہلے ستاتا بھی تھا، پیٹتا بھی تھا، مارتا بھی تھا، حقوق غصب کرتا تھا لیکن جائز سمجھ کر۔ اب یہ سب کچھ کرتا ہے اور ساتھ نعرہ لگاتا ہے کہ یہ جائز نہیں۔ عمل وہی ہے لیکن ظاہری اقرار بدل گئے ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 317-316)
تو ہر میدان میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک انقلاب پیدا ہؤا ہؤا نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ جانوروں سے بدتر انسانوں کو انسان بنایا۔ پھر تعلیم یافتہ انسان بنایا۔ پھر با خدا انسان بنایا۔ (ماخوذ از لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد20 صفحہ206)
تو یہ ایک عظیم معجزہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آیا۔ ان باخدا انسانوں نے ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنا شروع کر دیا۔ پس یہی نئی زمینیں اور نیا آسمان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے بنا اور اس زمانے میں آپ کے غلام صادق کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ نئی زمین اور نیا آسمان بناؤ۔ کیا جو حالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے تھے یا جو حالت روحانی اور اخلاقی ان کی تھی وہی حالت اب ہے؟ نہیں۔ بلکہ جو آپؐ کے آنے سے پہلے جہالت تھی وہ جہالت یہاں نئے سرے سے پیدا ہو چکی ہے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود اور مہدی موعود کو بھیجا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں نے توحید کی خاطر جانیں دیں۔ ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ اسلام کو پھیلایا اور دنیا میں ایک نمایاں تغیر پیدا ہو گیا۔ لیکن اب مسلمان توحید کے بجائے قبروں کو سجدے کرتے ہیں۔ مُردوں سے مرادیں مانگتے ہیں۔ شرک میں مبتلا ہیں۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تو اب بھی ہے لیکن اب وہ کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے جاننے والے یا ماننے والے اس کا مطلب اور مفہوم نہیں جانتے۔ ان کا مسلمان ہونا برائے نام ہے۔ ایسے بھی ہیں جو بیشک پانچ دفعہ عبودیت کا ظاہری اقرار کرتے ہیں۔ نماز اور اذان میں توحید کی شہادت دیتے ہیں۔ لیکن حرکتیں مشرکانہ ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 315)
اچھے بھلے بعض پڑھے لکھے لوگ ہیں بلکہ پاکستان میں تو کئی پڑھے لکھے ہیں وزیر سفیر بھی ہیں جو پیِروں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ایسا سلوک ہے جس طرح پوجا کی جاتی ہے۔ اکثریت تو نماز ہی نہیں پڑھتی۔ صرف سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کو کافر کہنے اور مولوی کے پیچھے چلنے سے ان کے مسلمان ہونے کے حق ادا ہو جائیں گے۔ پھر اسلام کے نام پر شدت پسند تنظیمیں ہیں جو صرف ایک لفظ جہاد کو جانتی ہیں اور وہ بھی غلط مطلب کے ساتھ، جس نے توحید پر تو کسی کو کیا قائم کرنا ہے یہ لوگ دنیا کو مذہب سے اور اسلام سے متنفر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پس ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا ضروری تھا تا کہ وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنائیں اور آپ نے ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا بھی دیا۔ ایک مشہور ڈاکو تھا اور دوسرے چھوٹے ڈاکو اور چور وغیرہ اس کو بھتہ دیا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ان سے لوگ پوچھتے تھے کہ تم مرزا صاحب کی صداقت کا نشان بتاؤ۔ کوئی نشان تم نے دیکھا؟ تو انہوں نے کہا تم اور کیا نشان پوچھتے ہو مَیں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہوں اور یہ ثبوت ہوں کہ میری کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ چوروں سے تعلق کٹ گیا اور ڈاکے ختم ہو گئے اور عبادات میں مشغول ہو گیا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ319)
پس آپ نے بھی اس زمانے میں نئی زمین اور نیا آسمان بنایا اور لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ کر بتایا کہ یوں نئی زمین اور نئے آسمان بنتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے تو نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کر کے دکھا دیا اور بہت سارے نمونے ہم نے دیکھے۔ ہم نشانات دیکھتے بھی ہیں، سنتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ اپنے بزرگوں کی حالتوں کو دیکھ کر، ان سے سن کر مزید ایمانوں میں تازگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس کشف میں نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں آپ علیہ السلام کی جماعت کو بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اس لئے اب یہ دیکھنا ہے کہ آپ کی جماعت کا حصہ بن کر آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہم کیا کوشش کر رہے ہیں کہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان پیدا کریں۔ کیا صحابہ نے جو اسلام کی حقیقی تعلیم اپنائی اور اس کا اظہار کر کے نئی زمین اور نیا آسمان بنایا وہ معیار ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے نفسوں میں اتنا تغیر اور تبدیلی پیدا ہو گئے ہیں کہ لوگ کہہ اٹھیں کہ یہ تو بالکل بدل گئے ہیں۔ انہوں نے نیا آسمان اور نئی زمین بنا ڈالی ہے۔ پس ہم نے اگر اس بات کی دلیل دینی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح نئی زمینیں اور نیا آسمان بنایا تو اس کا سب سے بڑا ثبوت ہماری ذات ہونی چاہئے۔ توحید کا قیام ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے میں ہماری کوشش ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف ہماری توجہ رہنی چاہئے۔ ہم صرف اعتقادی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے نہ ہوں بلکہ عملی تبدیلیاں بھی ہمارے اندر نظر آئیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا لوگ کہیں کہ یہ تو کوئی بالکل اور انسان ہو گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس کی خوبصورت وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو قسم کے نشانات ہیں۔ ایک تو وہ جن کا پورا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ دوسرے وہ جن کے پورا ہونے میں ہمارا بھی دخل ہے اور جو ہمارے ذریعہ سے یا ہمارے واسطے سے پورے ہونے ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ کئی علوم ایسے ہوتے ہیں جن کو نبی سمجھ سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو نبی کی ضرورت ہی کیوں ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چودہ سو سال بعد ایسی باتیں بتائیں جو موجود تھیں لیکن مسلمانوں کو ان کا علم نہ تھا یا صحیح فہم نہ تھا مثلاً تمام مذاہب کی صداقت۔ آپ نے بتایا کہ وہ پیشوا جس کے لاکھوں کروڑوں پیرو ہوں اور پھر ایک لمبا عرصہ ماننے والے اس پیشوا سے ہدایت حاصل کرتے رہے ہوں اس کے پاس ضرور صداقت ہوتی ہے۔ بیشک بعد میں ان کی تعلیم میں تحریف ہو گئی اور وہ مذہب اپنی اصلی حالت میں نہ رہا جس طرح بدھ ہیں، زرتشت ہیں، کرشن ہیں۔ اپنے اپنے زمانے کے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور صداقت کے حامل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے بڑے بڑے بزرگ بھی اگر دوسری قوموں کے بزرگوں کو، ان کے مذہبوں کے سربراہوں کو برا نہیں کہتے تھے تو مشتبہ ضرور تھے۔ تسلی بہرحال نہیں تھی کہ پتا نہیں اصل حقیقت کیا ہے۔ لیکن بہرحال جو لوگ اپنے پیشواؤں کی صحیح تعلیم کو مانتے ہیں دوسروں کی نسبت ان کی حالت بہتر ہے۔ اگر ان کی تعلیم پر عمل کیا جائے تو دنیا بڑی پُر امن ہو سکتی ہے اور ایک نمایاں تبدیلی یہاں نظر آ سکتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جس تعلیم سے اگر برے نتائج نکل رہے ہوں تو وہ بری ہوتی ہے۔ ان تمام پہلے انبیاء کی تعلیم شیطان کے خلاف تھی اور اگر یہ شیطان کی تعلیم ہوتی تو کوئی ان کی پیروی نہ کرتا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ یہ نکتہ قرآن کریم میں موجود تھا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہو سکا یا اس طرح وضاحت نہیں کر سکا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا۔ آج اس کے باوجود کہ مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کے خلاف ہیں لیکن یہی کہتے ہیں اور اس بات کو مانتے ہیں کہ تمام مذاہب کی بنیاد صداقت پر ہے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا تعلیمیافتہ طبقہ جو ہے دوسرے مذاہب والوں کو کہتا ہے کہ دیکھو ہمارا مذہب کتنا اچھا ہے کہ آپ کے بزرگوں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مانتا ہے۔
پھر حضرت عیسیٰ کے آسمان پر چڑھ جانے کا عقیدہ ہے وہ بھی اکثر مسلمانوں میں یا تعلیمیافتہ کہلانے والوں میں نہیں رہا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 318-317)
بلکہ اب تو پاکستان میں تو علماء بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ کوئی نہیں آنا اور کوئی نہیں چڑھا۔ سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے جو غیروں کے نظریات بدلے ہیں تو یہ بھی نئی زمین اور نیا آسمان بننے کی دلیل ہیں۔ یہ نشان تو ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پورے ہوئے۔ لیکن نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کی جو دوسری صورت ہے کہ عملاً بھی نئی زمین اور نیا آسمان بنے اسے ہم نے پورا کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں نے پورا کرنا ہے۔ ایک نیا آسمان بنا کر ہم نے اپنے عقیدے میں نہ صرف تبدیلی پیدا کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ گئے۔ لیکن دوسری صورت جو نئی زمین بنانے کی ہے اس میں ہماری کوششوں کا دخل ہے۔ صرف اچھا آسمان ہونا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا جب تک زمین بھی نئی نہ ہو اور بہتر نہ ہو اور اچھی زمین کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مومن کا دل زمین کی طرح ہوتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 319)
پس اپنے دلوں کو عقیدے کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملوں کے لحاظ سے بھی فائدہ مند بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہمارے اعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے نیک بنائے اور ہمارے ہاتھوں سے زمین کو درست کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں طریق بتا دئیے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں ایک مصالحہ دے گئے اسے کام میں لانا ہمارا کام ہے۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کیا واقعی ہم یہ کام کر رہے ہیں؟ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 319-318)
پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا اگر ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے اور بندوں کا حق ادا کرنے کا کام کر رہے ہیں، اگر ہمارے معاملات خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے ساتھ صاف ہیں اور اس میں امتیازی شان رکھتے ہیں تو یقینا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نئی زمین اور نیا آسمان بنانے میں آپ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
بعض باتوں کی طرف میں توجہ بھی دلاتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتائی ہیں۔ ایک بات تو بنیادی ہے کہ قرآن کریم کا ہر حکم ہمارے اندر تبدیلی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان ہمارے اندر بنانے والا ہے اور پھر اس کو اختیار کر کے اس پر عمل کر کے ہم میں سے ہر ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنا سکتا ہے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ تدبیریں تو کرتے ہیں مگر دعا سے غفلت کی جاتی ہے بلکہ اسباب پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تدابیر دنیا ہی کو خدا بنا لیا گیا ہے اور دعا پر ہنسی کی جاتی ہے اور اس کو ایک فضول شئے قرار دیا جاتا ہے۔ … یہ خطرناک زہر ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زہر کو دور کرے۔ چنانچہ یہ سلسلہ اس نے اسی غرض کے لئے قائم کیا ہے تا دنیا کو خدا تعالیٰ کی معرفت ہو اور دعا کی حقیقت اور اس کے اثر سے اطلاع ملے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6صفحہ 269۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)
پس اس غرض کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلق باللہ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پھر آپ نے فرمایا۔ ’’یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خدا تعالیٰ نے اِس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 25۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)
پس اس روحانی لڑائی کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی روحانیت کے نئے زمین و آسمان پیدا نہ کریں۔ آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ شیطان کو شکست دینے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے۔ اپنے ہر ماننے والے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ روحانیت میں ترقی کر کے شیطان کا مقابلہ کرے اور پھر حقوق العباد کے معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں، نہ عبادات میں۔ اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو۔ اور احسان سے یہ مرادنہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو۔ آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو۔ مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی۔ مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو‘‘(یعنی اپنے بدلے خود لینے کی کوشش نہ کرو۔ ) ’’جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہو گا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد9صفحہ 165-164۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے تمام حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ ہم اعتقادی اور عملی لحاظ سے وہ بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بنانا چاہتے ہیں۔ ہماری زمین بھی نئی بن جائے اور ہمارا آسمان بھی نیا بن جائے اور ہم وہ انسان بن جائیں جو نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاون و مددگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس جلسے کو بھی ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور یہاں آنے والے بے شمار فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ جلسے کے پروگراموں کو آپ لوگ توجہ سے سنیں اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ ہر تقریر ہر پروگرام بڑا اچھا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے یہ جلسے منعقد ہونا جماعت احمدیہ کے اہم پروگراموں کا ایک اہم حصہ ہے۔
آج جن ممالک کے جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک غلام اور خلیفہ شامل ہوتا ہے اس میں شمولیت کے لئے لوگ دوسرے ممالک سے خرچ کر کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے پر شمولیت ہمیں ہماری کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے اندر انقلاب لانے والی ہو۔
اس بات پر نظر رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے انعقاد کے مقاصد کے لئے بیان فرمائی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ سے تعلق اور اپنی زندگیوں کو اس کے حکم کے مطابق ڈھالنا۔ اپنے بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشش۔
یہاں آنے والوں کو ایک تو ذکر الٰہی کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ ہر وقت ذہن میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان نیکیوں کو حاصل کرنے اور اپنانے والے بنیں اور پھر انہیں مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بنیں جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
جب ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کریں گے اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کریں گے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی رنگ میں دنیا کو پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہمیں خالص ہو کر اس کی عبادت بھی کرنی ہو گی اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا۔
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نئی زمین اور نیا آسمان بنایا اور لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ کر بتایا کہ یوں نئی زمین اور نئے آسمان بنتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ آپ کی جماعت کا حصہ بن کر آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہم کیا کوشش کر رہے ہیں کہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان پیدا کریں۔ کیا ہمارے نفسوں میں اتنا تغیر اور تبدیلی پیدا ہو گئے ہیں کہ لوگ کہہ اٹھیں کہ یہ تو بالکل بدل گئے ہیں۔ انہوں نے نیا آسمان اور نئی زمین بنا ڈالی ہے۔
فرمودہ مورخہ 05؍جون 2015ء بمطابق 05احسان 1394 ہجری شمسی، بمقام کالسروئے جرمنی
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔