رمضان: اصلاح نفس اور ہماری ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ 26؍ جون 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدودنہیں ہونا چاہئے۔ یہ اصل مقصدنہیں۔ تزکیۂ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8صفحہ 70۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس آپ چاہتے ہیں کہ جماعت میں عملی تبدیلی پیدا ہو۔ جب آپ نے فرمایا کہ قیل و قال پر محدودنہیں ہونا چاہئے تو اس کا مطلب ہے کہ صرف باتوں تک ہی نہ رہو۔ یہ نہ ہو کہ جہاں اپنا مفاد دیکھو وہاں اپنی بات کو بدل لو۔ اپنے اخلاق کے معیاروں کو قائم نہ رکھ سکو۔ بلکہ ایمان اور اللہ تعالیٰ کی باتوں پر عمل اور اپنے نفس کی اصلاح اور اسے ہمیشہ پاک رکھنا اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لو اور جب یہ ہو گا تب ہی آپ کی بیعت میں آنے کا حق ادا ہو گا اور اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے۔
پس ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیشہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارے پیش نظر ہو۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنا چاہتے ہو تو فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ(البقرۃ: 187)۔ میرے حکموں کو قبول کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرنا کیا ہے؟ یہ ہماری تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے۔ اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق گزارنا ہے۔ پس رمضان کے اس خاص ماحول میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارے یہ زبانی دعوے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار حکم دئیے ہیں ہمیں ہمیشہ ان حکموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے تا کہ اصلاح نفس کی طرف ہماری توجہ رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دئیے ہیں اس وقت مَیں ان میں سے بعض باتیں پیش کرتا ہوں جو جہاں ہمارے نفس کے تزکیہ میں کردار ادا کرتے ہیں وہاں معاشرے میں پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا(الفرقان: 64)اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں۔ نرمی سے، وقار سے چلتے ہیں۔ تکبّر نہیں کرتے۔ اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ لڑتے نہیں بلکہ کہتے ہیں ہم تو تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پس مختصر طور پر اس عظیم اخلاقی اور روحانی انقلاب کی تعلیم کا نقشہ کھینچ دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور آپ کے ماننے والوں نے، آپ کے صحابہ نے ان اخلاق کو اپنے اندر پیدا کیا۔ وہ زمانہ کہ جب دنیا اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اور شیطان کے پنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ اَنا اور خود پسندی اور تکبر اور فتنہ و فسادنے دنیا کو تباہی کے گڑھے میں پھینکا ہؤا تھا۔ اس وقت انسان کو اعلیٰ اخلاق اور عاجزی اور انکساری کا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درس دیا بلکہ ایسے انسان پیدا ہو گئے جو اس آیت کی عملی تصویر تھے۔ آج بھی دنیا کی یہی حالت ہے اور اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھیج کر آپ کو ایسے عباد الرحمن لوگوں کی جماعت بنانے پر مامور کیا ہے۔ پس آپ کی جماعت کی طرف منسوب ہونے والے ہر شخص کو اس معیار کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
عباد الرحمان کے بارے میں جیسا کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا۔ کہ زمین پر آرام، سے وقار سے، عاجزی اور تکبر کے بغیر چلتے ہیں۔ پس ایک حقیقی عبد رحمان کو اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میں عاجزی بھی ہو، وقار بھی ہو اور تکبر سے پاک بھی ہو۔ جب ایسی حالت ہو تو پھر ایسے لوگ معاشرے میں محبت پھیلانے والے اور اس کے امن کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ ان کا یہ وقار اور عاجزی جاہلوں کے غلط عمل اور فساد پیدا کرنے کی کوشش پر ان سے یہ جواب کہلواتا ہے کہسَلَامًا۔ تم ہمارے سے جھگڑے اور فساد کرتے ہو لیکن ہم تمہارے سے جھگڑنے کی بجائے تمہارے لئے سلامتی اور امن کی دعا کرتے ہیں اور خاص طور پر جب اختیار ہاتھ میں ہو، طاقت ہو اور پھر انسان جب ایسا رویّہ دکھائے تو یہ ایسا بلند خُلق ہے جو بندے کو حقیقی عبد بناتا ہے۔ یعنی جب انسان رحمان کا بندہ بننے کے لئے یہ خُلق دکھا رہا ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے دکھا رہا ہو تو پھر ایسے بندے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جاتے ہیں اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور یہ لوگ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ وہ پاک نفس ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکومت اس دنیا میں قائم کرنے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں پیار، محبت اور بھائی چارہ اور عاجزی پھیلے۔ ہر قسم کی نیکیاں دنیا میں پھیلیں۔ تمام برائیوں کا خاتمہ ہو۔ شیطان کے پنجے سے انسانوں کو نجات ملے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اس دنیا کو بھی انسان امن، سکون اور جنت کا گہوارہ بنا دے اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس تعلیم کے ساتھ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تا کہ دنیا کو حقیقی عبد رحمان بننے کے اسلوب سکھائیں، تا کہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کو یہ بتائیں کہ ابدی جنت کا ادراک پیدا کرنا ہے اور اسے حاصل کرنا ہے تو پہلے اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھال کر اس دنیا کو بھی جنت بناؤ۔ اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر: 30۔ 31) یعنی آ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور آ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
پس رمضان جس میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ اس میں دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں (سنن الترمذی کتاب الصوم باب ما جاء فی فضل شھر رمضان حدیث نمبر 682) اور اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے قریب تر آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نچلے آسمان پر آنے سے مراد ہے کہ نیک عملوں کی بڑھ کر جزا دیتا ہے۔ دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ پس ہر ایمان کا دعویٰ کرنے والے کو، ہر احمدی کو جو حقیقی مسلمان ہے جس نے عبد رحمان بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت کی ہے اپنے جائزے لیتے ہوئے، عاجزی دکھاتے ہوئے، تکبر کو ختم کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اپنے ماحول میں جھگڑوں اور فسادوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امن اور سلامتی کو پھیلانا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اپنا اُسوہ ہمارے سامنے قائم فرما کے دکھایا اور مختلف مواقع پر نصائح بھی فرمائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ اس حد تک انکساری اختیار کرو کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واھلہا باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا… حدیث نمبر 7210)
اس معیار کو جانچنے کے لئے کوئی بیرونی آلہ یا طریقہ نہیں ہے۔ ہر ایک شخص اگر وہ حقیقت میں ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر اس کو اپنا محاسبہ خود ہی کرنا چاہئے۔ وہی صحیح بتا سکتا ہے کہ کیا ہم فخر سے بالکل پاک ہیں؟ ہمیں اپنے کسی اعلیٰ خاندان ہونے پر فخر تو نہیں ہے۔ ہمیں اپنی مالی حالت دوسروں سے بہتر ہونے پر فخر تو نہیں ہے۔ ہمیں اپنی اولاد کے تعلیم یافتہ ہونے پر فخر تو نہیں۔ ہمیں اپنی علمی قابلیت پر فخر تو نہیں۔ ہمیں اپنی کسی نیکی پر فخر تو نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے اور نہ عجمی کو عربی پر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ760حدیث رجل من اصحاب النبی حدیث 23885مطبوعہ بیروت 1998ء)
یہ اس کے لئے کوئی فخر کا مقام نہیں ہے۔ اصل بنیاد تقویٰ ہے اور جس میں تقویٰ ہو اس کے ذہن میں کبھی کسی قسم کا فخر آ ہی نہیں سکتا۔ بعض دفعہ علم کا فخر اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ انسان پھر دین سے بھی دور ہٹ جاتا ہے۔ دیکھیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کی کیا انتہا تھی جب آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان فرماتے ہیں کہ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَم کہ میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں۔ یہ ایک ایسا بڑا اعزاز ہے جو صرف اور صرف ہمارے آقا کو حاصل ہے۔ لیکن اس بلندی کو پانے کے بعد کہ جس بلندی تک دوسرا کوئی پہنچ نہیں سکتا ہمارے آقا ایک اور بلندی کی معراج کا اعلان کرتے ہوئے ان الفاظ میں یہ اعلان کرتے ہیں وَلَا فَخْرَ۔ اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھدباب ذکر الشفاعۃ حدیث4308)
معاشرے کے فساد کو ختم کرنے کے لئے امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لئے آپ کے عظیم اُسوہ کی ایک اور مثال دیتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک یہودی نے حضرت موسیٰ کی فوقیت ثابت کرنے کی کوشش کی تو مسلمان نے سختی سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب سے بلند ہے۔ اس پر وہ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کرتا ہے کہ اس سے میری دلآزاری ہوئی ہے۔ تو تمام نبیوں کے سردار نے فرمایا کہ مجھے موسیٰ پر فوقیت نہ دو۔ (صحیح بخاری کتاب الخوصومات باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ…حدیث 2411)۔ یہ ہے وہ عظیم اُسوہ جس سے معاشرے کا امن قائم ہوتا ہے۔
پس یہ جواب ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو اس امن، آشتی اور صلح کے بادشاہ پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے لئے بھی اُسوہ ہے اور سبق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم اور بربریت کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اس وقت اس عملی دنیا میں ان الزام لگانے والوں کے الزاموں کو ردّ کرنے کی ذمہ داری ہمارے سپرد ہے۔ اگر ہمارا دعویٰ حقیقی مسلمان ہونے کا ہے تو اس حقیقی تعلیم کا نمونہ بھی ہمیں بننے کی کوشش کرنی چاہئے جس کو ماننے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں اور یہ باتیں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں گی وہاں ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے والے بن کر دنیا کے رہبر بن سکیں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے لئے اس طرح عاجزی اختیار کی اور یہ فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی کو زمین پہ لگا دیا، تو اس کو مَیں اتنا بلند کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتنا بلند کروں گا۔ اور یہ بیان کرتے ہوئے آپ نے اپنی ہتھیلی کو اونچا کیا اور بہت اونچا کر دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ170مسند عمر بن الخطابؓ حدیث 309مطبوعہ بیروت 1998ء)
پس جو خدا تعالیٰ کی خاطر عاجزی دکھائے، جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تکبر سے نفرت کرے، جو خدا تعالیٰ کی خاطر معاشرے سے نفرتوں کے بیج ختم کرنے کی کوشش کرے تا کہ امن اور سلامتی قائم ہو اسے خدا تعالیٰ وہ بلندیاں عطا فرماتا ہے جو انسان کے وہم و گمان سے بھی باہر ہیں۔ یہ دن ہمیں خدا تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے مہیا فرمائے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنے گھروں کے جھگڑوں کو خدا تعالیٰ کی خاطر ختم کر کے سلامتی اور امن کی فضا ہر احمدی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے بھائیوں سے جھگڑوں کو ختم کر کے جن کی بنیاد اکثر اَنا اور تکبر ہی ہوتی ہے معاشرے میں سلامتی پھیلانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ مخالفین کی باتوں پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا کا فساد بھی ختم ہو۔ ہم امن اور سلامتی اور محبت کو دنیا میں قائم کرنے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن حقیقت اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم خود اس معاملے میں ملوث ہوں اور خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی دے کر اس امن اور پیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں جس کا اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ … ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ …کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو‘‘(یعنی خدا سے کرو۔ جس قدر دنیا میں انسان کسی سے محبت کر سکتا ہے یا محبت ممکن ہے تم اس سے کرو)’’اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو‘‘۔ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ402-403)
پس یہ وہ حالت ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ ان دنوں میں ایک کوشش کے ساتھ اپنے ہر قسم کے تکبر کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سلامتی پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے۔
پھر آپ علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہرگز نہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلّت کی موت دیوے۔ جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامراد رہا‘‘۔ (پس یہ سچا تعلق ضروری شرط ہے۔ ) ’’خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے‘‘۔ (صرف ذاتی خواہشات نہ ہوں اور کوئی مقصدنہ ہو کہ مقصد ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ بلکہ فرمایا کہ) ’’اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے‘‘۔ (نفسانی خواہش پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے۔ ) ’’جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود فرماتا ہے مَن یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ (الطلاق: 3۔ 4) اس جگہ رزق سے مراد روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزّت، علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں۔ خدا تعالیٰ سے جو ذرّہ بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 301-302۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آ جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پا سکتا‘‘۔ (آپ فرماتے ہیں: ) ’’کبیر نے سچ کہا ہے
بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام
جے ہو تے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان
یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی کم ذات… پر نظر کر کے شکر کرتا۔ پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو، تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور ناقابل و ہیچ جان لے گا۔‘‘ (پس آنکھیں رکھنا شرط ہے۔ اپنے اندر کا جائزہ لینا شرط ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا شرط ہے۔ پھر کوئی فخر نہیں پیدا ہو سکتا۔ فرمایا کہ)’’انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جو ایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت و کبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 437تا438۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ وہ معیار ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا میں خدا کی بادشاہت اس کے دین کو پھیلا کر قائم کرنے کا ہمارا دعویٰ ہے تو پھر اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کو بھی ایسا بنانا چاہئے کہ پہلے خود خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر یہ تکبر وغیرہ ہے اور اپنی حالت کی طرف جائزہ نہیں لے رہے اور کسی بھی طرح اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو، کسی بھی قسم کا تکبر تمہارے اندر پایا جاتا ہے تو وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں شامل نہیں ہو سکتا۔
پس یہ دن جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاک تبدیلیوں کے پیدا کرنے اور قبولیت دعا کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں میسر فرمائے ہیں ان میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس جس کو جس جس بات پر فخر ہے یا جو چیز ہمیں ہماری عاجزی اور انکساری میں بڑھانے میں روک ہے یا جو چیز بھی ہمارے ماحول میں ہماری وجہ سے بے چینی اور فتنے کا باعث بن سکتی ہے اسے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا وجود ہر جگہ سلامتی پھیلانے والا وجود بن جائے نہ کہ بے چینی اور فساد پھیلانے کا ذریعہ۔
اللہ تعالیٰ نے حقوق کی ادائیگی، سلامتی پھیلانے کی وسعت اور تکبر سے بچنے کے لئے دوسری جگہ ان الفاظ میں حکم فرمایا ہے۔ فرمایا کہ وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (النساء: 37) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقینا اللہ اس کو پسندنہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور شرک سے روکنے کے بعد بعض حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ رمضان جہاں عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کا مہینہ ہے وہاں معاشرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے کا مہینہ ہے۔ پس ان دنوں میں ان حقوق کی ادائیگی بھی ایک مومن کا فرض ہے اور اصل میں یہ حقوق کی ادائیگی تو ہمیشہ کے لئے ہے جو انسان کو کرنی چاہئے۔ لیکن یہ مہینہ ایسا ہے جس میں ہم عادت ڈال سکتے ہیں۔ اگر یہ ادائیگی نہیں تو صرف عبادتیں مومن کو ان تمام مقاصد کا حامل نہیں بناتیں جو رمضان کا مقصد ہے۔ ان دنوں میں اگر عادت پڑ جائے تو اصل مقصد یہ ہے کہ یہ پاک تبدیلیاں جو ہم پیدا کریں ان کو زندگی کا حصہ بھی بنائیں۔ ایک تو عبادتیں ہیں اور جب ہم اس مہینے میں عبادتیں کریں تو پھر مستقل زندگی کا حصہ بنائیں۔ پھر حقوق کی ادائیگی ہے ان کی طرف ہم اس مہینے میں توجہ کریں تو پھر مستقل اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے حقوق کے لئے، غریبوں مسکینوں کی مدد کے لئے ان دنوں میں خاص طور پر اپنے ہاتھوں کو اس قدر کھولتے تھے کہ روایات میں آتا ہے کہ آپ کی سخاوت تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبیﷺ یکون فی رمضان1902)
عام حالات میں بھی آپ کی سخاوت کا معیار اس قدر بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا تو پھر رمضان میں اس سخاوت کی مثال دینے کے لئے تیز آندھی کی جو مثال دی گئی ہے اس سے بہترکوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ بہرحال یہ ضرورتمندوں کے حقوق کی ادائیگی ہے جس کا آپ نے اعلیٰ ترین اُسوہ قائم فرمایا جو مالی مدد کی صورت میں ہے۔ اس کے علاوہ ان کے جذبات کا خیال رکھنا، ان کے احساسات کا خیال رکھنا، ان کی دوسری ضروریات کا خیال رکھنا یہ چیزیں بھی ساتھ ہیں۔ اور پھر آپ نے مومنین کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اس طرف خاص توجہ کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ گو کہ یہ حکم سارے سال کے لئے ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ رمضان میں نیکیوں کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے یا ہونی چاہئے اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر ان حقوق کی ادائیگی کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے اور ان دنوں کی نیکیوں کی عادت پھر مستقل نیکیاں بجا لانے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے بنیادی مقصد عبادت کی طرف توجہ دلانے کے بعد کہ عبادت جہاں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بناتی ہے وہاں ایک حقیقی عابد اور عبد رحمان کو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ اگر یہ دونوں قسم کے حق ادا نہیں ہو رہے تو ایسا شخص مومن نہیں بلکہ ان لوگوں میں شامل ہے جو متکبر اور شیخی بگھارنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ہر عابد سے ان اعلیٰ اخلاق کی توقع رکھتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہے جو عاجز ہو کر ایک مومن کو ادا کرنے چاہئیں۔ ان حقوق کی ادائیگی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کوئی بہت بڑی بڑائی ہے۔ حقوق کی ادائیگی بڑائی نہیں بلکہ ہر مومن کا فرض ہے اور ان حقوق کی ادائیگی سے ہی عبادتیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آیت میں واضح ہے ان حقوق میں والدین کے حقوق ہیں۔ رشتہ داروں کے حقوق ہیں۔ یتیموں کے حقوق ہیں۔ مسکین لوگوں کے حقوق ہیں۔ رشتہ دار قریبی ہمسایوں کے حقوق ہیں۔ غیر رشتہ دار ہمسایوں کے حقوق ہیں۔ مختلف موقعوں پر ساتھ رہنے والے اٹھنے بیٹھنے والے لوگوں کے حقوق ہیں۔ مسافروں کے بھی حقوق ہیں اور جو ہمارے زیر نگیں ہیں، جو ہمارے پر انحصار کرنے والے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں۔ گویا کہ اس ایک آیت میں تمام انسانیت کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا احاطہ کر کے ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلا دی بلکہ حکم دے دیا۔
والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم میں اور جگہ بھی ذکر ہے۔ بڑھاپے میں ان کی خدمت کرنا ان کا خیال رکھنا اولاد کا فرض ہے اور یہ کوئی احسان نہیں ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق ہیں اس بارے میں اگر خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے حق ادا کریں، سسرالیوں کے حق ادا کرتے رہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ اپنے رِحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو تو گھروں کے بہت سے جھگڑے ختم ہوجائیں اور پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو جائے۔ بہت سارے معاملات آتے ہیں جن جن گھروں میں ایسی ناچاقیاں ہیں انہیں ان دنوں میں خاص طور پر غور کرنا چاہئے اور بجائے ضد اور اَنا کے اپنے گھروں کو بسانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر یتیموں کی خبر گیری بھی ایک بہت اہم فریضہ ہے۔ ان کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان کے حق کی ادائیگی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی ہے کہ فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں اکٹھی ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین و الیتیم حدیث 2983)۔ یعنی ہمارا بہت قریب کا ساتھ ہو گا۔
پس اس اہمیت کو جماعت کے افراد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے خرچ کرنا چاہئے۔ جماعتی طور پر بھی اس کا انتظام موجود ہے۔ پھر ضرورتمندوں اور مسکینوں کے حقوق ہیں جس میں تعلیم کے اخراجات ہیں۔ علاج معالجہ کے اخراجات ہیں۔ شادی بیاہ کے اخراجات ہیں۔ جماعت میں ان سب اخراجات کے پورے کرنے کے لئے علیحدہ فنڈ بھی جاری ہیں۔ ان میں بھی صاحب حیثیت لوگوں کو جن کو توفیق ہے جماعتی نظام کے تحت خرچ کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رشتہ دار اور قریبی ہمسایوں کے حقوق ادا کرو۔ پس اس میں وہ ہمسائے بھی آ جاتے ہیں جو قریبی رشتہ دار ہیں، جو قریب رہنے والے ہیں اور وہ بھی جن کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ ایسے ہمسایوں کا بھی خیال رکھو جن کو تم اچھی طرح جانتے نہیں۔ ان میں وہ ہمسائے بھی آ جاتے ہیں جو ہمارے قریبی ہمسائے نہیں، دُور کے ہمسائے ہیں اور وہ ضرورتمند ہمسائے بھی آ جاتے ہیں جن کے تمہارے ساتھ اچھے تعلقات نہیں۔ پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو محبت اور پیار کو پھیلاتی ہے۔ صلح اور آشتی کی بنیاد ڈالتی ہے۔ ماحول میں امن اور سلامتی پیدا کرتی ہے۔ پھر ہم جلیسوں اور مسافروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے۔ ان الفاظ میں حقوق کی ادائیگی کو میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی پر بھی حاوی کر دیا اور اپنے دوستوں، ساتھیوں، ساتھ کام کرنے والوں پر بھی پھیلا دیااور افسروں اور ماتحتوں کا بھی اس میں احاطہ کر لیا۔ پھر وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ کہہ کر ہر قسم کے ماتحتوں اور زیر نگیں افراد کے حق کی طرف توجہ دلا دی اور یہ سارے حقوق ادا کر کے فرمایا کہ اگر یہ حق ادا نہیں کر رہے تو تمہارے میں تکبر اور فخر پایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔
پس دنیا میں امن قائم کرنے، سلامتی پھیلانے اور ہر قسم کے طبقے کے حقوق قائم کرنے کے لئے یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے۔ پس یہ دن جو ہمیں میسر آئے ہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے دن ہیں بلکہ خدا تعالیٰ خود ان دنوں میں ہمارے قریب آ گیا ہے اور ان لوگوں کو نوازنا چاہتا ہے جو اس کے بھی حق ادا کریں، جو عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اس کے بندوں کا بھی حق ادا کریں۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمیں عاجزی اختیار کرتے ہوئے ان تمام قسم کے حقوق کو ادا کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ رمضان کے یہ دن ایک خاص ماحول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں اور دوسری نیکیاں بجا لانے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم نے اپنی عبادتوں کو مقبول کروانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ …تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اُس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جائے‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12تا 13۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ نے ایک جگہ فرمایا: ’’جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد ششم صفحہ 91۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادتوں کے ساتھ تمام دوسرے حقوق جو حقوق العباد ہیں وہ بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم حقیقی رنگ میں رحمان خدا کے بندے بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو اس رمضان میں پہلے سے بڑھ کر پانے والے ہوں اور پھر مستقل زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔
نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ مکرمہ ہدایت بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم عمر احمد صاحب مرحوم درویش کالا افغاناں قادیان کا ہے جو 4؍جون 2015ء کو چند دنوں کی علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے درویشی کا دور بہت صبر اور شکر سے گزارا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار، قرآن کریم سے بہت محبت کرنے والی، مہمان نواز، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ آپ کو بہت سے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے بڑے بیٹے سلسلہ کی خدمت سے ریٹائر چکے ہیں۔ دوسرے بیٹے خدمت سلسلہ بجا لا رہے ہیں۔ آپ کی بیٹی ربوہ میں مقیم ہیں۔ دوسرا جنازہ مکرم مولوی محمد احمد ثاقب صاحب واقف زندگی، سابق استاد جامعہ احمدیہ ربوہ کا ہے جو 18؍مئی 2015ء کو مختصر علالت کے بعد 98سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت حکیم محمد عبدالعزیز صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ مڈل تک اپنے آبائی گاؤں بھینی شرقپور ضلع شیخوپورہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد قادیان چلے گئے اور جامعہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کیا۔ 1939ء میں زندگی وقف کی تو حضرت مصلح موعودنے محترم ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم کے ساتھ آپ کو دہلی کے ایک مشہور مدرسہ میں فقہ اور حدیث میں تدریس کی ٹریننگ کے لئے بھجوا دیا۔ اس کے بعد دیوبند، سہارنپور اور لاہور سے بھی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ پارٹیشن سے قبل آپ کو کچھ عرصہ تک دفتر امور عامہ اور پھر دفتر وصیت میں خدمت کی توفیق ملی۔ پاکستان میں جامعہ احمدیہ قائم کیا گیا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اس میں استاد مقرر فرمایا جہاں چالیس سال تک آپ کو فقہ اور حدیث کے مضامین پڑھانے کی توفیق ملی۔ آپ نے فقہ کی مشہور کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ کیا جو ’’ہدایۃ المقتصد‘‘ کے نام سے جماعت کی طرف سے شائع ہوا۔ اسی طرح آپ کو دارالقضاء ربوہ میں قاضی اور ایک سال ناظم دارالقضاء کی حیثیت سے بھی خدمت کا موقع ملا۔ آپ دعا گو، منکسر المزاج اور دھیمی طبیعت والے ایک نیک اور مخلص انسان تھے۔ آپ کے بیسیوں شاگرد اکناف عالم میں مختلف اعلیٰ حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں سات بیٹیاں اور چار بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درجات بلند فرمائے، مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
رمضان کے اس خاص ماحول میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارے یہ زبانی دعوے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار حکم دئیے ہیں ہمیں ہمیشہ ان حکموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے تا کہ اصلاح نفس کی طرف ہماری توجہ رہے۔
عاجزی اختیار کرنے اور تکبّر سے بچنے کے لئے قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تاکیدی نصائح۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں پیار، محبت اور بھائی چارہ اور عاجزی پھیلے۔ ہر قسم کی نیکیاں دنیا میں پھیلیں۔ تمام برائیوں کا خاتمہ ہو۔ شیطان کے پنجے سے انسانوں کو نجات ملے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اس دنیا کو بھی انسان امن، سکون اور جنت کا گہوارہ بنا دے اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے
یہ دن ہمیں خدا تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے مہیا فرمائے ہیں۔ اپنے گھروں کے جھگڑوں کو خدا تعالیٰ کی خاطر ختم کر کے سلامتی اور امن کی فضا ہر احمدی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
رمضان جہاں عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کا مہینہ ہے وہاں معاشرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے کا مہینہ ہے۔ عبادتیں جب ہم اس مہینے میں کریں تو پھر مستقل زندگی کا حصہ بنائیں۔ حقوق کی ادائیگی ہے ان کی طرف ہم اس مہینے میں توجہ کریں تو پھر مستقل اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے خرچ کرنا چاہئے۔ جماعتی طور پر بھی اس کا انتظام موجود ہے۔ پھر ضرورتمندوں اور مسکینوں کے حقوق ہیں جس میں تعلیم کے اخراجات ہیں۔ علاج معالجہ کے اخراجات ہیں۔ شادی بیاہ کے اخراجات ہیں۔ جماعت میں ان سب اخراجات کے پورے کرنے کے لئے علیحدہ فنڈ بھی جاری ہیں۔ ان میں بھی صاحب حیثیت لوگوں کو جن کو توفیق ہے جماعتی نظام کے تحت خرچ کرنا چاہئے۔
آیت قرآنی کے حوالہ سے مختلف معاشرتی حقوق کی تفصیل اور ان کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ کی تاکید۔
رمضان کے یہ دن ایک خاص ماحول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں اور دوسری نیکیاں بجا لانے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم نے اپنی عبادتوں کو مقبول کروانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
مکرمہ ہدایت بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم عمر احمد صاحب مرحوم درویش قادیان اور مکرم مولوی محمد احمد ثاقب صاحب واقف زندگی، سابق استاد جامعہ احمدیہ ربوہ کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 26؍جون 2015ء بمطابق 26احسان 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔