اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت
خطبہ جمعہ 10؍ جولائی 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بائیس روزے گزر گئے یا بائیسواں روزہ گزر رہا ہے اور یوں ہم رمضان کے آخری عشرہ میں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات دلانے والے عشرہ میں سے گزر رہے ہیں۔ (الجامع لشعب الایمان کتاب الصیام باب فضائل شھر رمضان جلد5 صفحہ 224مکتبۃ الرشد طبع 2004ء حدیث نمبر3336)
پس یہ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ موقع نصیب فرمایا۔ لیکن ایک مومن جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھرا ہوا ہے، وہ صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتا کہ یہ دن یا عشرے جو اللہ تعالیٰ نے میسر فرمائے میری نجات کا سامان بن گئے۔ یہ دن بیشک رحمت مغفرت اور جہنم سے نجات کے دن ہیں لیکن کیا ہم نے ان دنوں کے فیض سے فیض بھی پایا ہے؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات بغیر کسی شرط کے نہیں ہوا کرتے۔ ان کے ساتھ بعض شرائط ہوتی ہیں۔ پس ان دنوں کی رحمت سے فیض پانے کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں اور ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے حصہ لینے کی بھی کچھ شرائط ہیں اور جہنم سے نجات کے لئے بھی کچھ شرائط کا پابند ہونا ضروری ہے۔
پس ہمیں ان چیزوں سے فیض پانے کے لئے ان باتوں کی تلاش کی ضرورت ہے جن سے ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہوئے اس کے فضلوں کے مورد بنیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں بعض مفسّرین دو قسمیں بیان کرتے ہیں۔ ایک قسم تو رحمت کی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان کے ہوتی ہے۔ انسان اس کو حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص تردّد یا کوشش نہیں کر رہا ہوتا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (الاعراف: 157) کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے تمام لوگ حصہ لے رہے ہیں۔ بغیر کسی عمل کے ان کو اس رحمت سے حصہ مل رہا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارے میں یوں فرمایا ہے کہ:
’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی صفت عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی یہ صفت قانون الٰہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اس کے لئے ضرور ہے کہ اوّل قانون الٰہی ہو اور قانون الٰہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرنا چاہتی ہے‘‘۔ (جنگ مقدس روحانی خزائن جلد6 صفحہ207)
پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے ان پر رحم کرتا ہے لیکن جب قانون الٰہی سے تجاوز کرنے پر انسان غضب یا سزا کا مورد بنتا ہے۔ چھوٹی موٹی غلطیوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف کرتا چلا جاتا ہے لیکن جب انتہائی حد سے بڑھنا شروع کر دے تب پھر خدا تعالیٰ کی عدل کی صفت یا جو دوسری صفت ہے وہ کام کرتی ہے لیکن عموماً اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے۔ بعض دفعہ عدل کا یا قانون الٰہی کو توڑنے کا تقاضا ہوتا ہے کہ سزا ملے لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی رحم کرتے ہوئے بخش دیتا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کیفیت مومنوں کے لئے نہیں ہے۔ جو حقیقی مومن ہیں ان کا مقام کچھ اور ہے۔ ایمان کا تقاضا تو ان ایمانی حالتوں کو درست رکھنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کرنا ہے۔ اور سب کوششوں کے باوجود کسی بشری کمزوری کی وجہ سے گناہ سرزد ہو جائے تو پھر اگر حقیقی ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس گناہ کو ڈھانک لیتی ہے نہ کہ جیسا کہ میں نے پچھلے کسی خطبے میں کہا تھا کہ انسان گناہوں پر دلیر ہوتا چلا جائے اور یہ کہتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے، کوئی پرواہ نہیں۔ تو یہ باتیں خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والی ہیں۔ اس بات کو واضح فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس طرح اس کے غضب کو ڈھانک لیتی ہے۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’وعید میں دراصل کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔ صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدوسیت کی وجہ سے تقاضا فرماتا ہے کہ شخصِ مجرم کو سزا دے اور بسا اوقات اس تقاضے سے اپنے ملہمین کو اطلاع بھی دے دیتا ہے‘‘۔ یعنی اپنے فرستادوں کو، انبیاء کو جن پر الہام کرتا ہے ان کو بتا دیتا ہے کہ فلاں شخص دلیر ہوتا جا رہا ہے اس کو میں سزا دینے والا ہوں لیکن پھر کیا صورت ہوتی ہے۔ ’’پھر جب شخصِ مجرم توبہ اور استغفار اور تضرع اور زاری سے اس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الٰہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے‘‘۔ بعض دفعہ اطلاع بھی ہو جاتی ہے، سزا بھی مل جاتی ہے، مقدر ہو جاتی ہے، فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ شخص جس کے بارے میں فیصلہ ہوا ہے توبہ کر رہا ہے، استغفار کر رہا ہے تو پھر سزا سے بچ بھی سکتا ہے۔ تو فرمایا کہ ’’تو رحمت الٰہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر محجوب و مستور کر دیتا ہے۔‘‘ اسے چھپا دیتا ہے۔ اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ ’’یہی معنی ہیں اس آیت کے کہ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ(الاعراف: 157)۔ یعنی رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ۔‘‘ (تحفہ غزنویہ روحانی خزائن جلد15 صفحہ537) (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) میری رحمت غضب پر حاوی ہو گئی۔
پس مجرموں کو بھی ان کے توبہ استغفار سے اللہ تعالیٰ بخشتا ہے۔ جو بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں ان کے لئے سزا مقدر ہو جاتی ہے ان کو بھی بخش دیتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ایسے مجرموں کو بھی جن پر عذاب لازم ہو گیا جب وہ زاری کریں تو اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے بلکہ بعض پر عذاب کی اپنے فرستادوں کو خبر بھی دے دیتا ہے (جیسا کہ میں نے کہا) لیکن پھر مجرم کی زاری جو ہے، اس کا تضرع ہے، اس کا رونا پیٹنا ہے، استغفار کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچ لیتا ہے۔ تو بہرحال مومن کا یہ مقام نہیں ہے کہ پہلے قانون الٰہی سے بغاوت کرے اور پھر آہ و زاری کرے اور پھر رحمت تلاش کرے۔ مومنوں کے بارے میں دوسری مثال ہے۔ اور دوسری قسم کی رحمت اعمال کے ساتھ مشروط ہے اور اس کا وعدہ نیک کام کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کے ساتھ مشروط ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(الاعراف: 57) یعنی یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت محسنوں کے قریب ہے۔
محسن کے معنی ہیں جو دوسروں سے نیک سلوک کرے۔ تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ علم رکھنے والا ہو۔ تمام شرائط کے ساتھ اس کام کو پورا کرنے والا ہو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان لوگوں کے قریب ہے جو جان بوجھ کر گناہ کرنے والے نہیں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہوں کی سزا کے خوف سے ہمیشہ پکارتے رہتے ہیں اور اپنے گناہوں کی سزا کے خوف سے اس کی یاد دل میں رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو جان بوجھ کر گناہ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ انجانے میں اگر کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے پکارتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر نازل ہوتی ہے۔ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ وہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اس پر کوئی زبردستی نہیں ہے، نہ کوئی کر سکتا ہے کہ ضرور بالضرور اس نے ہماری دعائیں قبول کرنی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رحم محسنین کے ساتھ ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ ہے، ان پر ہوتا ہے جو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو دوسروں سے نیکیاں کرنے والے اور ان کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ پس اگر دعائیں قبول کروانی ہیں تو پھر محسن بننا ضروری ہے اور محسن کے ان معنوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے محسن بننا ضروری ہے۔ پس یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ عام نیکیاں کر کے انسان محسن نہیں بن سکتا بلکہ یہ مقام حاصل کرنے کے لئے اپنے اعمال کو اعلیٰ معیاروں تک لے جانا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو محسن کی تعریف فرمائی ہے اس کو اگر انسان دیکھے تو خوف سے پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا ہماری عبادتوں کی یہ حالت ہوتی ہے۔ ہر کام کرتے ہوئے جو بھی کام ہم کر رہے ہیں ہماری یہ حالت ہوتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی ہے۔ اور وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محسن وہ ہے جو ہر نیک کام کرتے ہوئے یہ دیکھے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ بات سامنے رکھے۔ یا کم از کم خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبیﷺ عن الایمان والاسلام والاحسان، و علم الساعۃ حدیث نمبر50)
اب یہ حالت ہماری عبادتوں کی بھی ہو اور ہمارے دوسرے کام سرانجام دیتے وقت بھی ہو تو کبھی غلط کام ہو ہی نہیں سکتا۔ کبھی تقویٰ سے ہم اِدھر اُدھر ہو ہی نہیں سکتے۔ کبھی کسی کے ساتھ برا سلوک کر ہی نہیں سکتے۔ کبھی کسی کا حق مار ہی نہیں سکتے بلکہ کسی کو نقصان پہنچانے اور اس کا حق مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس اسلام کے احکامات تو ایسے ہیں کہ کسی طرف سے بھی ان پر عمل شروع کریں یا اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو پکڑیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی حکم کو دیکھیں یا ارشاد کو دیکھیں تو وہ سب کو گھیر کر اکٹھا کر کے ہمیں جس طرف لے کے جائیں گے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ ہم خواہش تو بہت کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں بھی قبول ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بھی وارث ہوں اور اس کے مورد بنیں لیکن ان کے حصول کے لئے ہم اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے یا اکثریت ہم میں سے نہیں کرتی یا باقاعدگی سے ہم کوشش نہیں کرتے جو ایک مومن کو کرنی چاہئے۔ ہم اس بات پر تو خوش ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے عشرے میں سے ہم گزرے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس رحمت کے حصول کے لئے ہم نے کیا کیا یا ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا۔ کیا ہم ان گناہگاروں اور جرائم پیشہ کی طرح رہے جو وقتی آہ و زاری کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کر کے اس سزا سے بچ گئے جو کسی کو کسی خاص جرم کی وجہ سے ملنی تھی یا بعض جرائم کی وجہ سے ملنی تھی۔ یا ہم محسنین میں شمار ہو کر اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنے والے بننے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیشہ تقویٰ پر قائم رہنے کا عہد کرتے ہیں، جو ہمیشہ دوسروں کے ساتھ نیکیاں بجا لانے کا عہد کرتے ہیں، جو رمضان کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا مستقل ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بناتے ہیں۔ پس ہمیں اس رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی چاہئے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے نہ کہ عارضی اور وقتی طور پر سزا سے بچا لے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ہم پہلی حالت میں آ جائیں۔ اس ایک لفظ رحمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری زندگی کے لئے لائحہ عمل کا ایک خزانہ عطا فرما دیا کہ رمضان کے پہلے دس دن میں اس رحمت کی تلاش کرو اور جب یہ رحمت تلاش کر لو تو پھر یہ عہد کرو کہ اس کو ہم نے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ ایک مومن کے لئے دس دن کی تربیت پھر اگلے راستے دکھائے گی۔ لیکن کیونکہ شیطان ہر وقت ہمارے ساتھ لگا ہؤا ہے جو اپنے کاموں میں مصروف ہے، ورغلانے کے کام میں مصروف ہے، نیکیوں سے ہٹانے کے کام میں مصروف ہے اس لئے اس رحمت کو حاصل کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور یہ مدد حاصل کرنے کے لئے ہم نے کیا طریق اختیار کرنا ہے۔ فرمایا کہ اگلے دس دن پھر اللہ تعالیٰ کی اس مدد اور طاقت کو تلاش کرو تا کہ تمہارے عمل مستقل عمل بن جائیں اور وہ طاقت ہے استغفار۔ آپ نے فرمایا کہ دوسرا عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ آہ و زاری کرنے والے کے گناہ بخشتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے اور ان پر رحمت اور فضل کرتا ہے۔ لیکن مومن وہ ہے جو اس ستاری اور رحمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے جس کا اظہار اس کی عبادتوں سے بھی ہو اور دوسرے اعمال سے بھی ہو اور مستقل استغفار کرتے ہوئے ہو۔ اپنے اعمال پر نظر ڈالتے ہوئے ہو۔ اور جب یہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جائے گی۔ اس کی رحمت کے دروازے ہم پر کھلتے چلے جائیں گے۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر ہمیں نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ دیتا چلا جائے گا۔
ایک مومن کے لئے مغفرت کی حقیقت کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے اور کس طرح استغفار کرنی چاہئے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریّت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہواور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفْر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُستَغْفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے‘‘۔ جو استغفار کرنے والا ہے اس کی جو فطرتی کمزوریاں ہیں ان کو ڈھانک لے اور مستقل استغفار سے پھر اللہ تعالیٰ ڈھانک بھی لیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہؤا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیّوم بھی ہے۔ یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور جس طرح بنایا اس کو اپنے خاص سہارے سے محفوظ رکھنے والا بھی ہے۔ وہ قیّوم بھی ہے۔ ’’پس جب خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدا ئش کے نقش کو خدا کی قیّومیّت کے ذریعہ بگڑنے سے بچاوے‘‘۔ (عصمت انبیاء روحانی خزائن جلد18 صفحہ671)
پس انسان کے لئے ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے۔ اس بگڑنے سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی قیومیت سے حصہ لینے کے لئے اپنی روحانی حالتوں کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ استغفار کرو۔
پس رمضان میں جو ہمیں مغفرت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو اس روح کو سامنے رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس کی رحمت سے اگر مستقل حصہ لینا ہے تو استغفار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کرو۔ خدا تعالیٰ جو ان دنوں میں اپنے بندوں پر خاص مہربان ہوتا ہے اس کی رحمت کے دونوں فیض جاری ہیں۔ ایک عام فیض جس سے مومن اور غیر مومن سب حصہ لیتے ہیں اور ایک خاص فیض جو محسنین کے ساتھ مخصوص ہے اس سے بھی ہم حصہ پانے والے ہوں کہ اس فیض سے حصہ لینے کے لئے جو محسنین سے مخصوص ہے جہاں ایک مومن نیکیوں کے بجا لانے کے لئے طاقت پکڑنے کی کوشش کرے وہاں استغفار سے اللہ تعالیٰ کی روشنی سے روشنی لے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت سے طاقت پکڑے تا کہ کبھی اللہ تعالیٰ کی روشنی سے محروم ہو کر اندھیروں میں نہ بھٹکنے لگے یا اللہ تعالیٰ کی طاقت سے بے فیض ہو کر شیطان کی جھولی میں نہ جا گرے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی طاقت ساتھ نہ ہو تو شیطان کے حملے بڑے سخت ہیں۔ وہ فوراً اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس لئے استغفار کرنا بہت ضروری ہے تا کہ انسان اللہ تعالیٰ سے طاقت پکڑے اور شیطان سے ہمیشہ بچا رہے۔
پس فرمایا کہ انسان فطرتاً کمزور ہے اور اس کمزوری سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت سے طاقت لینے کے لئے استغفار ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کو اپنی نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو اپنے اوپر ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا نام قیوم رکھ کر اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ اس کی یہ صفت ہے کہ نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے ہمیشہ حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت ہی بتا رہی ہے کہ تم نے اگر ہمیشہ کسی چیز کو جاری رکھنا، قائم رکھنا ہے تو تمہیں بہر حال میرے سہارے کی ضرورت ہے۔ میری طرف آؤ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سہارے کو کبھی نہ چھوڑو جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے، قائم کرتا ہے اور سب سے مضبوط سہارا ہے۔
پس ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ درمیانی عشرہ کے مغفرت کا عشرہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں جتنی استغفار کرنی ہے کر لو اور تم نے اتنا کرنے سے اپنے مقصود کو پا لیا۔ بلکہ اس طرف ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے کہ رمضان آیا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوا۔ تمہاری توجہ بھی روزوں اور دعاؤں کی طرف ہوئی تو اب اپنی نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے مستقل حصہ لینے کے لئے اپنی فطری کمزوریوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے اس کی پناہ میں آؤ اور یہ کوشش کرو کہ یہ حالت مستقل ہو جائے۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے اکثر اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کرتے ہوئے دوسرے عشرے میں سے گزر رہے ہوں یا گزرے ہوں۔ عشرہ تو ختم ہو گیا۔ اور اب اس سوچ کے ساتھ تیسرے عشرے میں بھی داخل ہو رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی ہوئی روشنی اور طاقت ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں لے جانے والی ہو گی انشاء اللہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ آخری عشرہ جہنم سے بچانے کا عشرہ ہے تو جب انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں بھی لپٹ جائے، اس کی مغفرت سے روشنی اور طاقت پکڑ کر اس پر قائم بھی ہو جائے، اس کی روشنی سے حصہ لے لے اور اس کی طاقت پکڑ کر اس پر قائم بھی ہو جائے تو ظاہر ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو بغیر اجر کے تو نہیں چھوڑتا۔ بڑا دِیالو ہے۔ بڑا دینے والا ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے نیکیاں بجا لا رہا ہو یا بجا لانے کی کوشش کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ صرف اتنا نہیں فرماتا کہ اچھا مَیں تمہیں جہنم میں نہیں ڈالوں گا۔ جہنم سے تم بچ گئے بلکہ جہنم سے بچانے کا عشرہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں ہمیں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے عمل کرنے والوں سے راضی ہو کر اپنی جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ جو دوزخ کے دروازے رمضان کے آنے پر بند کئے گئے تھے۔ (سنن الترمذی کتاب الصوم باب ما جاء فی فضل شھر رمضان حدیث نمبر682)
اگر مستقل اس کی مغفرت طلب کرتے رہو گے، استغفار کرتے رہو گے، نیکیوں پر دوام حاصل کرنے کے لئے اور ان پر قائم رہنے کے لئے مستقل اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رہو گے تو جہنّم کے دروازے صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ ان تیس دنوں کی عبادات اور عہد اور حقوق کی ادائیگی اور توبہ اور استغفار کی مستقل عادت جہنم کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی۔
جنت اور جہنّم کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مذہب سے غرض کیا ہے؟ بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کاملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالم آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہو گا۔ اور حقیقی خدا سے بے خبر رہنا اور اس سے دور رہنا اور سچی محبت اس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنم ہے جو عالم آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا‘‘۔ (چشمہ مسیحی روحانی خزائن جلد20 صفحہ352)
پس اس نکتے کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہنم سے نجات بھی اس دنیا سے شروع ہوتی ہے اور جنت کا ملنا بھی اس دنیا میں ہوتا ہے اور ان دونوں کے جو وسیع اثرات ہیں، جو مختلف حالتوں اور رنگوں میں انسان کو ملنے ہیں یا ملتے ہیں وہ اگلے جہان میں ملتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق، توبہ استغفار انسان کو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دیتا ہے جس کے وسیع تر انعامات جیسا کہ میں نے کہا اگلے جہان میں ملیں گے۔ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق اور محبت اور اس کی رحمت اور بخشش ہر وقت طلب نہ کرتے رہنا اس کے احکامات کو جان بوجھ کر توڑنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے حوالے سے اس طرح کھول کر بیان فرمایا۔ فرمایا کہ
’’قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کیا۔ اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ اسی دنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن: 47)۔ یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے واسطے دو بہشت ہیں‘‘۔ (دو جنتیں ہیں) ’’یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اس کو برائیوں سے روکتا ہے‘‘۔ (برائیوں سے رکنے سے بہشت ملتا ہے) ’’اور بدیوں کی طرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک جہنم ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا خوف برائیوں سے روکتا ہے اور انسان جب برائیوں سے رکتا ہے تو اس دنیا میں بھی جہنم سے بچ گیا اور جو بدیوں کی طرف دوڑنا ہے، بدیاں کرنا ہے، اس سے کوئی بدی کرنے والا سکون نہیں پاتا۔ کہیں نہ کہیں اس کو اضطراب رہتا ہے، کوئی بے چینی رہتی ہے اور انسان کی بدیاں کرنے کے بعد جو یہ حالت ہے یہ خود ایک جہنم ہے۔ فرمایا ’’لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کر کے اس عذاب اور درد سے تودم نقد بچ جاتا ہے‘‘۔ (وہ تو فوری طور پر بچ گیا جو خدا تعالیٰ کا خوف کرنے والا ہے۔ ) ’’جو شہوات اور جذبات نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی جذبات شہوانی سے اور جذبات نفسانی سے انسان جو نفسانی جذبات کی غلامی میں آ جاتا ہے یا شہوات کا اسیر بن جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہو تو اپنے ان جذبات کو دبانے سے وہ اس سے بچ جاتا ہے۔
پھر فرمایا کہ ’’اور وہ وفا داری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے؟‘‘ (پھر انسان جب ان چیزوں سے بچے گا تو خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے میں ترقی کرے گا) ’’جس سے ایک لذت اور سرور اسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اسی دنیا سے اس کے لئے شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ156-155۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اس دنیا کی بہشتی زندگی یا اگلے جہان کی بہشت کے حصول کی کوشش اور جہنم سے بچنا کس طرح ہے اور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق جہنم سے بچنا اور جنت کا حصول صرف اخروی جنت اور جہنم نہیں ہے بلکہ اس دنیا کی بھی جنت اور جہنم ہے اور اس صورت میں اس سے بچنا اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان خدا تعالیٰ سے ڈرے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حقیقی محسن وہ ہے جو ہر وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اور جب یہ احساس ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تب خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور تبھی انسان برائیوں سے بچتا ہے۔ اور جو برائیوں سے بچتا ہے وہ دل کی بے چینیوں سے بھی بچتا ہے۔ اب ایک چور ہے یا کسی بھی طریقے سے کوئی بھی غلط کام کرنے والا ہے، اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں یا اور کسی قسم کی بدنامی نہ ہو اور آپ نے فرمایا کہ یہ خوف ہی اس دنیا میں اسے جہنم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اس دنیا اور اگلے جہان میں جنت کما رہا ہوتا ہے اور برائیوں اور شہوات نفسانی میں مبتلا اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جہنم کما رہا ہوتا ہے۔ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا اس سے وفا رکھنا ہی جنت ہے اور اس سے دور جانا جہنم ہے۔ پس یہ جہنم سے نجات کی بات بھی وہیں آ کر ٹھہری کہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل اور اس کے خوف اور تقویٰ کو ہر وقت سامنے رکھنا۔
پس اس چھوٹی سی حدیث میں تین باتوں کا ذکر فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف توجہ دلائی وہاں اس پر قائم رہنے کے لئے استغفار کی طرف بھی توجہ دلائی اور پھر اس پر قائم رہنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا اگر انسان اس بات کو حاصل کر لے تو اس کا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ہو جاتا ہے۔ برائیوں سے نفرت اور نیکیاں بجا لانے کی طرف رغبت پیدا ہو جاتی ہے۔ رمضان کا مستقل فیض اس کی زندگی میں جاری ہو جاتا ہے اور وہ جہنم سے دور کر دیا جاتا ہے اور دنیا و آخرت میں وہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنت سے فیض پاتا ہے۔
پس ہمیں اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور اس کے مطابق سوچنا چاہئے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور ایمان کو ہمیشہ سلامت رکھنے کے لئے اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے ایک اور بات بھی، ایک اور چیز بھی یا ایک اور امر کی طرف بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی بلکہ ایک خوشخبری عطا فرمائی اور وہ یہ ہے کہ ان دنوں میں آخری عشرہ میں لیلۃ القدر ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے جو حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے، اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر 2014)
لیلۃ القدر کی بڑی اہمیت ہے لیکن رمضان کے روزے بھی وہی اہمیت رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ایک رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں لیکن گزشتہ عمل بھی سامنے ہیں اور رمضان میں تیس دنوں میں بھی یہی عمل ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ شرائط ہیں جو ضروری ہیں۔ ایمان اور نفس کا محاسبہ۔ یعنی رمضان کے روزے بھی اور لیلۃ القدر کا پانا اور گناہ بخشوانا بھی۔ اگر پہلے دنوں میں کوئی کمزوری رہ گئی تھی تو آخری دنوں میں اسے دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف لیلۃ القدر جس کو ملے گی اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے بلکہ ہر شخص جو روزوں سے اور لیلۃ القدر سے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے گزر رہا ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی بخشش کی امید رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔
مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات اور شرائط رکھی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی یہ شرائط رکھی ہیں وہاں بہت ساری جگہوں پر ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ بھی جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور ساتھ ہی نیک اعمال۔ پس اس طرف بھی ہماری توجہ رہنی چاہئے کہ ایمان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کے لئے بہت سی نشانیاں بتائی ہیں۔ مثلاً ایک نشانی یہ بتائی کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ(الانفال: 3) یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں۔ مومن کی یہ نشانی ہے کہ ہروقت اس احساس میں رہے کہ خدا کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دئیے ہیں۔ جب بھی اسے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے کوئی چیز یاد کرائی جائے تو وہ فوراً ڈر جائے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ پس جب متعدد جگہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے اعمال صالحہ بجا لانے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب خدا تعالیٰ کے حوالے سے ان کی ادائیگی کا کہا جائے اور پھر انسان ان کی ادائیگی کی طرف توجہ نہ دے تو کیا وہ اس آیت کے تحت مومن کے زُمرہ میں آتا ہے؟ یا اگر ہم توجہ نہیں دیتے تو ہم (اس زمرہ میں) آتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اور اپنے ایمان کی حالت کو دیکھتے ہوئے روزے رکھے یا لیلۃ القدر سے گزرے تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے۔
پس رمضان اور لیلۃ القدر کی برکتیں مشروط ہیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول کے احکامات مشروط ہوتے ہیں۔ اگر انسان کے ایمان میں کمزوری ہے اور دوسروں کے حقوق غصب کر رہا ہے اور پھر بھی وہ اگر کہتا ہے کہ اس نے لیلۃ القدر کانظارہ کیا۔ اگر دعا کی خاص کیفیت اس میں پیدا ہوکر اُسے اپنی حالت میں مکمل انقلاب لانے والا بناتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت نے اسے نوازا ہے جس کا تقاضا اب یہ ہے کہ اس پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرے۔ اگر یہ حالت نہیں تو ہو سکتا ہے کہ جس کو وہ لیلۃ القدر سمجھا ہو وہ نفس کا دھوکہ ہو۔ آپ نے تو یہی فرمایا ہے۔ ایمان بھی کامل ہو نفس کا محاسبہ بھی ہو۔
پس اس نکتہ کو ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر صرف وہ خاص رات ہی نہیں۔ لیلۃ القدر کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ رات جو رمضان میں آتی ہے۔ ایک وہ زمانہ جو نبی کا زمانہ ہے۔ اور ایک یہ ہے کہ انسان کے لئے، ہر شخص کے لئے اس کی لیلۃ القدر وہ ہے جب وہ پاک اور صاف ہوگیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ336)۔ دنیا کے تمام گندوں اور میلوں سے پاک ہو گیا۔ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم ہو گیا۔ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے تمام برائیوں کو اپنے سے دور کر دیا۔ پس یہ وہ لیلۃ القدر ہے جو اگر ہمیں میسر آ جائے اور ہم خالص اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بن جائیں، اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بلند کرنے والے بن جائیں تو یہ ہمارا وہ مقصد ہے جس کو حاصل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اگر ہم نے یہ مقام حاصل کر لیا یا ہم یہ کر لیں تو ہر دن اور ہر رات ہمارے لئے قبولیت دعا کی گھڑی بن جاتی ہے۔ ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہیں ہمیں اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہوئے اپنے ایمانوں کو اس مقام تک لے جانے کی ضرورت ہے جہاں ہمارا ہر قول اور فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو جائے۔ ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے بن جائیں اور رمضان کی برکات ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہیں۔ اللہ کرے ہمارے میں سے بہت سے اس لیلۃ القدر کو بھی پانے والے ہوں جو قبولیت دعا کا خاص موقع ہے اور جو ان آخری دنوں میں ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس کو پانا ہمیں نیکیوں اور تقویٰ پر چلانے والا اور اس میں مزید بڑھانے والا ہو۔ ہمارے گزشتہ تمام گناہ بھی بخشے جائیں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ہم میں قوت اور طاقت پیدا فرما دے۔
ہم رمضان کے آخری عشرہ میں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات دلانے والے عشرہ میں سے گزر رہے ہیں۔ یہ دن بیشک رحمت مغفرت اور جہنم سے نجات کے دن ہیں لیکن کیا ہم نے ان دنوں کے فیض سے فیض بھی پایا ہے؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات بغیر کسی شرط کے نہیں ہوا کرتے۔ ان کے ساتھ بعض شرائط ہوتی ہیں۔ پس ان دنوں کی رحمت سے فیض پانے کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں اور ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے حصہ لینے کی بھی کچھ شرائط ہیں اور جہنم سے نجات کے لئے بھی کچھ شرائط کا پابند ہونا ضروری ہے۔
اگر دعائیں قبول کروانی ہیں تو پھر محسن بننا ضروری ہے۔ عام نیکیاں کر کے انسان محسن نہیں بن سکتا بلکہ یہ مقام حاصل کرنے کے لئے اپنے اعمال کو اعلیٰ معیاروں تک لے جانا ضروری ہے۔
ہمیں اس رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی چاہئے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے نہ کہ عارضی اور وقتی طور پر سزا سے بچا لے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ہم پہلی حالت میں آ جائیں۔ حقیقی محسن وہ ہے جو ہر وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اور جب یہ احساس ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تب خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور تبھی انسان برائیوں سے بچتا ہے۔ اور جو برائیوں سے بچتا ہے وہ دل کی بے چینیوں سے بھی بچتا ہے۔
ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہیں ہمیں اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہوئے اپنے ایمانوں کو اس مقام تک لے جانے کی ضرورت ہے جہاں ہمارا ہر قول اور فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو جائے۔ ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے بن جائیں اور رمضان کی برکات ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہیں۔
فرمودہ مورخہ 10؍جولائی 2015ء بمطابق 10وفا 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔