جمعۃ المبارک کی اہمیت و برکات
خطبہ جمعہ 17؍ جولائی 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیَُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوْا الْبَیْعَ۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الجمعۃ: 10۔ 11)
رمضان کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ آج شاید بعض جگہ آخری روزہ ہو بعض جگہ کل آخری روزہ ہے۔ اور یوں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق گنتی کے چند دن گزر گئے۔ ہم میں سے بہت سوں نے ان دنوں کے فیض سے فیض اٹھایا ہو گا۔ بعض کو ان دنوں میں نئے تجربات ہوئے ہوں گے۔ اب یہ دعا اور کوشش ہونی چاہئے کہ یہ فیض، یہ برکات، یہ نئے روحانی تجربات ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والے ہمارے قدم اب یہاں رک نہ جائیں بلکہ ہمیشہ بڑھتے رہنے والے قدم ہوں اور ہر قدم بیشمار برکات کو سمیٹنے والا قدم ہو۔
آج رمضان کا آخری جمعہ بھی ہے۔ ہم میں سے اکثریت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اہتمام کے ساتھ جمعہ پڑھنے والی ہے لیکن بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج رمضان کے اس آخری جمعہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اہمیت دے رہے ہوں گے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعتیں بڑی پھیل چکی ہیں۔ مختلف طبقات سے لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان پہ پرانی تربیت کا اثر بھی ہے اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو عموماً سارا سال جمعہ کو اتنی اہمیت نہیں دیتے لیکن رمضان کے آخری جمعہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور مسلمانوں میں رائج عام تصور کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اس جمعہ میں شامل ہونا جو جمعۃ الوداع کے نام سے عام مسلمانوں میں مشہور ہے انہیں گزشتہ سال کی تمام برائیوں اور کمزوریوں سے نجات دلانے والا ہو گا اور تمام سال کی عبادتوں کا حق اب شاید اس جمعہ میں شامل ہونے سے ادا ہو جائے گا۔ پس ایسے لوگ چاہے چند ہی ہوں مَیں انہیں یہ یاد کروانا چاہتا ہوں اور انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس جمعہ میں شامل ہونے سے ہماری زندگی کے مقصد کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے کلام سے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ صرف رمضان کا آخری جمعہ پڑھ لینا نجات کا ذریعہ نہیں بن جاتا۔ اس لئے اگر انسان نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف اسی میں شامل ہو جائے تو انسان کی دنیا و عاقبت سنور جاتی ہے، یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا۔
پس ہمارے نوجوانوں کو بھی اور ہم میں سے جمعہ کی ادائیگی کے بارے میں سستی کرنے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غیر احمدیوں میں اگر جمعۃ الوداع کا کوئی تصور ہو تو ہو، جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق جمعۃ الوداع کا نہ کوئی تصور ہے، نہ کوئی ہونا چاہئے۔ ہاں اگر آج جمعہ میں اہتمام سے شامل ہونے والے کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے یا یہ خیال آ جاتا ہے کہ آج سے میں عہد کرتا ہوں کہ اپنی کمزوری کو دور کروں گا جو جمعوں میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے ہوتی رہی اور آئندہ ہمیشہ جمعوں پر خاص اہتمام سے شامل ہوں گا تو پھر یقینا اس جمعہ کی اہمیت ہے بلکہ اس دن کی اہمیت ہے اور صرف جمعہ ہی اس کے لئے بابرکت نہیں بلکہ اس پاک تبدیلی کی وجہ سے ایسے شخص کے لئے یہ لمحہ جس میں اس کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کا خیال آیا اور اس خیال نے ایک پکّا ارادہ دل میں پیدا کر دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اب اہمیت دوں گا، ان پر قائم رہوں گا تو پھر اس کے لئے یہ دن اور یہ لمحہ لیلۃ القدر بن جائے گا۔ ایک اندھیری رات کے بعد اس میں روحانی روشنی کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔ اور جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان کے لئے ایک لیلۃ القدر اس کا وقت اصفیٰ بھی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ336)
یعنی جب وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے، اس کے احکامات پر عمل کا عہد کرتا ہے اور اس پر قائم ہو جاتا ہے۔
جمعوں کی اہمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا ارشاد فرمایا ہے۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہترہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ پس جب نماز ادا کی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
پس واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ پر آنے اور تمام دنیاوی معاملات کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں پیدا کرتے ہوئے اس میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں رمضان کے جمعوں یا رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہونے کا ارشاد اور حکم نہیں فرمایا بلکہ بلا تخصیص نماز جمعہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا کہ ہر جمعہ بہت اہم ہے۔ اس لئے اگر تم مومن ہو، اگر تم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو تو پھر جمعہ کا خاص دن جو تمہارے لئے عام دنوں سے بڑھ کر ہے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اس میں اپنے کاروبار اپنی تجارتیں اپنی مصروفیات چھوڑ کر شامل ہوں۔ یٰٓاَیَُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ کہہ کر اس بات پر زور دیا کہ ایمان کے لئے ضروری شرط جمعہ کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے ہر جمعہ میں شامل ہونا ضروری شرط ہے۔ پس بغیر عذر کے نہ شامل ہونے والے کو اپنے ایمان کی حالت کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے جو جمعہ پر دیر سے آتے ہیں۔ اپنے کاموں کو اگر سمیٹنا ہے تو وقت سے پہلے سمیٹیں۔ یہاں جو جمعہ پر آنے والے ہیں ہر ایک کو علم ہے کہ ایک بجے جمعہ کا وقت ہے یا مختلف ممالک میں مختلف جگہوں پر جو جو بھی اس کے اوقات ہیں وہ مقرر کئے ہوتے ہیں۔ یہاں خاص طور پر یورپ میں سفر کا جو مارجن (margin) ہے وہ بھی رکھیں اور اس مارجن (margin) کو رکھ کر پھر تیاری کرنی چاہئے۔ ان ملکوں میں تو ٹریفک اور پارکنگ وغیرہ کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اس سے بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں اور خاص طور پر جب رش ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے بلایا جائے تو ان تمام چیزوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور جمعہ کے دن اور وقت کا اندازہ کر کے نکلنا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ پر پہلے آنے والے کو بڑے ثواب کا مستحق ٹھہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اسی طرح مسجد میں آنے والوں کی فہرست تیار کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ امام اپنا خطبہ ختم کر لیتا ہے تو وہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الاستماع الی الخطبۃ929)
پس ہر آنے والے کو مسجد میں آنے اور جمعہ والے دن ذکر الٰہی کرنے کا خاص ثواب ہے۔ امام کے انتظار میں اور خطبہ کے دوران بھی وہ اس ثواب سے حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو اہمیت نہ دینے والوں کو بڑی تنبیہ فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر تین جمعے چھوڑ دئیے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔ (سنن الترمذی ابواب الجمعۃ باب ما جاء فی ترک الجمعۃ من غیر عذر500)
پس اس اہمیت کو ہم سب کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے نہ ہی قرآن کریم میں اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان کا آخری جمعہ بہت اہمیت کا حامل ہے بلکہ تمام جمعوں کو ہی اہم بتایا ہے۔ بلکہ ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانو! جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے۔ پس اس روز خاص اہتمام سے نہا دھو کر تیار ہوا کرو۔ (المعجم الصغیر للطبرانی باب الحاء من اسمہ الحسن صفحہ 129)
پس یہ ہر جمعہ کی اہمیت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہر جمعہ کو ہی اہتمام کریں اور تمام مصروفیات کو ہم ترک کریں۔ تمام کاموں اور کاروباروں سے وقفہ لیں اور مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے آئیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح کھول کر اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ مومن کے ایمان کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے ہر مومن پر جمعہ کی ادائیگی فرض ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کا منفی پہلو اور انذار بھی بیان فرما دیا کہ جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کا دل نیکیوں کے بجا لانے کے لئے بالکل بند ہو جاتا ہے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ سستیاں کرنے والوں کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور بغیر عذر کے بلا وجہ کی سستیاں ترک کرنی چاہئیں۔ اسلام صرف سختیاں ہی نہیں کرتا۔ اسلام ایک سمویاہوا مذہب ہے اس میں صرف انذار ہی نہیں اور سختیاں ہی نہیں ہیں۔ یہی نہیں کہہ دیا کہ جمعہ پر نہیں آؤ گے تو ڈرا دیا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اگر جائز عذر ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر جائز عذر کے بغیر کوئی نہیں آتا تو وہ پکڑ میں آتا ہے۔
بغیر جائز عذر کے جمعہ چھوڑنا منع ہے۔ ان جائز عذروں کی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی۔ کون کون لوگ ہیں جن کے عذر ہو سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا فرض ہے سوائے چار استثناء کے اور وہ چار لوگ جن کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہیں غلام، عورت، بچہ اور مریض۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ 1067)
پس یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ مجبوروں اور جائز عذر رکھنے والوں کو چھوٹ دی۔ یہ نہیں کہ ہر عورت، بچہ اور مریض اور وہ غلام جو اپنے مالک کی سختیوں کی وجہ سے مجبور ہیں اگر جمعہ پر نہیں آتے تو ان کا دل سیاہ ہو جائے گا۔ یہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے لئے نہیں کہا گیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ جائے گی۔ عورتیں اگر آ جائیں تو ٹھیک ہے۔ نماز باجماعت، جمعہ کے علاوہ جو پانچ نمازیں ہیں وہ مسجد میں آنا اور باجماعت ادا کرنا صرف مَردوں پر فرض ہے۔ ضروری نہیں کہ عورتیں ضرور مسجد میں آئیں لیکن جمعہ پر اگر عورتیں آ جاتی ہیں تو یہ مستحسن ہے۔ اگر نہیں آتیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن بعض عورتیں جو آتی ہیں ان کے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں تو وہ جب آتی ہیں تو بعض دفعہ ڈسٹرب بھی کر رہی ہوتی ہیں۔ پھر بعض عورتوں کی دوسری گھریلو مصروفیات بھی ہوتی ہیں اس لئے انہیں گھروں میں رہنے کی اجازت ہے۔ بلکہ چھوٹے بچوں والی عورتوں کو جیسا کہ میں نے کہا کہ ڈسٹرب کرتی ہیں۔ چاہے وہ آ بھی سکتی ہوں ان کے لئے آسانی بھی ہو تو انہیں آنا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ پھر اس سے بعض دفعہ بچوں کی وجہ سے باقی نمازیوں کی نماز اور خطبے میں خلل پڑتا ہے۔ صرف عید کی نماز پر آنا ہر عورت پر فرض ہے۔ اگر نماز نہ بھی پڑھنی ہو تو خطبہ سن لے۔
اسی طرح غلام ہیں وہ اپنے مالک کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں لیکن آجکل تو کوئی غلام نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں غلاموں کا جو تصور تھا اِس زمانے میں تو نہیں پایا جاتا۔ ملازم پیشہ لوگ تو لوگ ہیں لیکن وہ غلاموں کے زُمرہ میں نہیں آتے۔ اس لئے ان کو بھی اپنے آپ کو اس چھوٹ کی وجہ سے غلاموں کے زُمرہ میں شامل نہیں کرنا چاہئے سوائے اس کے کہ کوئی انتہائی مجبوری ہو اور مالک بڑا سخت ہو اور وہ رخصت نہ دے اور کوئی ذریعہ آمدنہ ہو اور پھر فاقے اور بھوک اور افلاس کی نوبت کے آنے کا خطرہ ہو تو اس صورت میں استثناء ہو سکتا ہے۔ یہ اضطراری حالت ہے اور اضطراری حالت میں تو حرام کھانے کی بعض دفعہ اجازت ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ اضطراری حالت بھی اگر مالکان کو احساس دلایا جائے تو عموماً نہیں ہوتی۔ چاہے وہ عیسائی بھی ہوں تو کچھ نہ کچھ وقت کی یا ایک جمعہ چھوڑ کر ایک جمعہ کی اجازت دے دیتے ہیں بلکہ ایسے بھی بہت سے احمدی ہیں جنہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے جمعہ کی چھٹی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی نوکری چھوڑی تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بہتر انتظام کر دیا۔
پس یہ بات اگر ہم پیش نظر رکھیں کہ ہم نے جمعہ کو اہمیت دینی ہے اور پھر دعا بھی کریں کہ اگر بعض سخت حالات ہیں اور جمعہ ضائع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرمائے تو اللہ تعالیٰ دردِ دل سے کی گئی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے انتظام بھی فرما دیتا ہے اور آسانیاں بھی پیدا فرما دیتا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا عورتوں کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کو بھی جمعہ پر نہیں لانا چاہئے کیونکہ اس سے دوسرے نمازیوں کی نماز ڈسٹرب ہوتی ہے۔ بعض مرد لے آتے ہیں انہیں بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ نہ لائیں یا پھر اگر لے آئے ہیں تو پھر ان کو بچوں کے حصے میں بٹھائیں یا خود بچوں کے حصے میں بیٹھیں۔ بہرحال یہ چار استثناء ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ ان کے علاوہ ہر ایک پر جمعہ کی نماز پر آنا فرض ہے اور جمعہ والے دن خاص اہتمام کرنا فرض ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری کامل اور مکمل شریعت لے کر آئے تھے وہ تعلیم لے کر آئے تھے جو بندے کو خدا تعالیٰ سے ملاتی ہے۔ آپ اپنے ماننے والوں کے بہت بلند روحانی معیار دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ انسان کو کس طرح اپنے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کس طرح خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہئے۔ کس طرح اپنی نیکیوں کو مستقل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کس طرح اپنے مقصد پیدائش کا حق ادا کرنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفّارہ بن جاتے ہیں جبتک کہ انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ ورمضان الی رمضان مکفرات …551)
پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے لئے رہنمائی جو نہ صرف گناہوں سے بچاتی ہے بلکہ ان کی بخشش اور سامان بنتی ہے بلکہ روحانیت میں بھی بڑھاتی ہے۔ جو شخص حقیقی رنگ میں ایک نماز کے بعد اگلی نماز کی فکر کرے گا تو کوئی گناہگار ظالم، دوسروں کے حقوق غصب کرنے والا تو یہ فکر نہیں کرے گا کہ میں نے اگلی نماز پر جانا ہے اور اگلی نماز کی تیاری کرنی ہے کہ نماز پڑھ کے آئے اور پھر گناہوں میں مبتلا ہو گئے یا لوگوں کے حقوق غصب کرنے لگ گئے یا دوسروں پر ظلم کرنے لگ گئے اور اگر کوئی ایسا ہے جو اس طرح کرتا ہے تو اس کی نماز، نماز نہیں اور پھر وہ گناہ کبیر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ غاصب اگر کوئی ہے تو پھر اس کی نماز خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہے اپنے گناہوں کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں ہے۔ کوئی ایسے نمازی ہیں تو وہ ان نمازیوں میں شامل ہو جاتے ہیں جن کی نمازیں ان کے لئے ہلاکت کا موجب بن جاتی ہیں اور قرآن شریف کے مطابق ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازیں فرما کر اس طرف بھی توجہ دلا دی کہ یہ پانچ نمازیں تم پر فرض ہیں اور ان کو ان تمام لوازمات کے ساتھ ادا کرنا تم پر فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ اسی طرح جمعہ کی طرف توجہ دلائی کہ جمعہ میں شامل ہو کر جن برکات سے اور امام کے خطبہ سے تمہارے اندر جو نیکی کا احساس پیدا ہوا ہے اس کو اگلے جمعہ تک قائم رکھنا ہے۔ جو باتیں اس میں ہوئیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اور اگر یہ ہو گا تو پھر ایک جمعہ سے اگلا جمعہ تمہیں برائیوں سے نجات دے گا۔ تمہارے گناہوں کی بخشش کے سامان کرے گا۔ یہاں بھی ایک جمعہ سے اگلا جمعہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جمعہ کی فرضیت اور اہمیت واضح فرما دی۔ پھر اسی طرح رمضان کی اہمیت بیان فرمائی۔ تو نیکی پر قائم رہنا اور ایک تسلسل سے قائم رہنا ہی انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔
پس نمازوں کے حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ جمعوں کی ادائیگی باقاعدگی سے کرنا بھی ضروری ہے۔ اور رمضان سے بھی ان شرائط کے ساتھ فیض پانا گناہوں کا کفّارہ بنتا ہے اور نیکیوں میں بڑھاتا ہے جو شرائط اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کے لئے رکھی ہیں۔ اگر حقیقی تقویٰ پر چلنا ہے تو ان چیزوں کی بہرحال پابندی کرنی ہو گی۔ خدا تعالیٰ کا قرب اگر حاصل کرنا ہے تو ان کا پابند ہونا ہو گا۔ گناہوں کی بخشش کے سامان کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو رستہ بتایا اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ ان چیزوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک روزانہ کا لائحہ عمل بھی دے دیا۔ ایک ہفتہ وار لائحہ عمل بھی دے دیا اور ایک سالانہ لائحہ عمل بھی بتا دیا جو انسان کی روحانی اصلاح کے لئے ضروری ہے۔ اور جو اِن درجوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے گا وہ خدا تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش کا حامل ہو گا۔ پس ان باتوں سے مزید روشن ہو کر واضح ہو گیا کہ جمعہ کی کیا اہمیت ہے۔
سال کے بعد روحانی بہتری کے پروگرام میں خدا تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ رکھا ہے، جمعۃ الوداع نہیں رکھا کہ سال کے بعد رمضان کا ایک جمعہ پڑھ لو بلکہ رمضان کا پورا مہینہ رکھا ہے۔
جمعہ کی برکات سے فیض پانے کے لئے یا فیض اٹھانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سات دن کے بعد آنے والے جمعہ کو ہی اہم اور بخشش کا ذریعہ قرار دیا۔ پس ہر آنے والا جمعہ ہمارے لئے یہ گواہی دینے والا ہونا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہ دن گزارے اور کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو یا جان بوجھ کر ایسا عمل نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنائے تو پھر اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کو، کمیوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ ہر جمعہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گواہی دیتا ہے کہ اس بندے نے عموماً ڈرتے ڈرتے یہ دن گزارنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح روزانہ کی نمازیں ہیں جو اگر خدا تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ادا کی جائیں گی تو ہمارے حق میں گواہی دیں گی اور یہی حال رمضان کے روزوں کا ہے۔ کفّارہ کا مطلب یہی ہے کہ ان عبادتوں کی گواہیاں ہمارے حق میں ہو کر ہمارے لئے بخشش کے سامان بن جائیں گی۔
پھر جمعہ کی اہمیت اور اس کی خوبصورتی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ یوں فرمایا کہ دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب تفریع ابواب الجمعۃ1047)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ کا حکم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ تو یہ درود آپ کے سامنے پیش کیا جانا بھی ہمیشہ کے لئے ہے۔ یہ نہیں کہ جب آپؐ نے فرمایا تو آپؐ کی زندگی کے لئے تھا۔
پس یہ جمعہ کی ایک اور جاری برکت ہے۔ کہیں نہیں آیا کہ جمعۃ الوداع کو درود پیش کیا جائے گا بلکہ ہر جمعہ کو یہ پیش کیا جاتا ہے۔ ہم میں سے خوش قسمت ہیں وہ جو اس فیض سے فیض اٹھاتے ہیں اور ان درود بھیجنے والوں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
پس یہ جمعوں کی برکات ہیں جن کے حصول کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بھی بڑا نوازنے والا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ جب تم جمعہ کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا حق ادا کر لو، اپنے کاروباروں اور اپنی مصروفیات کو جمعہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے پس پشت ڈال دو تو تم روحانی طور پر تو ترقیات حاصل کرنے والے بنو گے لیکن مادی فضلوں سے بھی محروم نہیں رہو گے۔ جمعے کی نماز کے بعد اپنے کاروباروں کی طرف جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرو۔ جو دوسری آیت ہے اس میں یہی فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں میں برکت ڈالے گا۔
پس یہ بھی ضمانت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی کام میں برکت پڑتی ہے۔ اگر اس کی خاطر جمعہ کے تھوڑے سے وقت کے لئے قربانی کرو گے تو کاروباروں میں برکت پڑے گی اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنو گے اور جب خدا تعالیٰ کی خاطر کچھ دیر کے لئے اپنے کام کا حرج کرو گے تو اللہ تعالیٰ سب کاموں کو سنوارنے والا اور سب طاقتوں کا مالک ہے۔ وہ تمہارے جو دنیاوی اور مادی نقصانات ہیں ان کو بھی پورا کرنے والا ہے اور ان کاروباروں میں برکت ڈال کر اپنے فضلوں سے نوازنے والا ہے۔ گویا یہ بھی فرما دیا کہ ایک مومن کا دنیا کمانا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کمانے سے منع نہیں کرتا لیکن جو معین جگہ ہے، اور کسی کام کے کرنے کا جو معین وقت ہے اس پر اس کو کرنے اور انجام دینے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
پس ان فضلوں کوحاصل کرنے کے لئے تم نے جو محنت اور کوشش کرنی ہے جمعہ کی نماز کے بعد کرو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں سے حصہ لو۔ لیکن یاد رہے کہ دنیاداری کے ان کاموں کے باوجود خدا تعالیٰ کو نہ بھولنا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھو۔ دنیاوی کاروبار بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء اور احکامات کے مطابق ہوں۔ کوئی دھوکہ، فریب، جھوٹ، سستی، کاہلی نہ ہو۔ اگر یہ چیزیں کاروباروں اور کاموں میں تمہارے ساتھ ہیں تو تب بھی گناہگار ہو رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی یاد کو بھلا رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر تمہیں ان چیزوں سے بچانے والا ہونا چاہئے۔
جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر ہؤا تھا کہ ہر کام کرتے وقت یہ خیال رہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور جب یہ خیال رہے گا تو خدا تعالیٰ کے ذکر کا بھی حق ادا ہو گا اور جو اپنی ذمہ داریاں ہیں ان کا بھی حق انسان صحیح طرح ادا کر سکے گا۔ پس آج کا یہ دن اگر اہم بنانا ہے تو اس لحاظ سے اہم بنانے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم آج یا کل ایک سال کے لئے رمضان کی عبادت سے تو نکل رہے ہیں لیکن جمعہ کی عبادت سے ایک سال کے لئے نہیں نکل رہے بلکہ اگلا جمعہ بھی اسی طرح ہمارے لئے اہم ہے جس طرح آج کا جمعہ۔ اور جو کمزوریاں اور کمیاں ہمارے اندر ماضی میں تھیں آئندہ کے لئے ان کو دُور کرنے کا ہم عہد کرتے ہیں۔ اگر یہ سوچ ہو گی تو ہم جمعہ کو وداع نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی برائیوں، اپنی کمزوریوں، اپنی کوتاہیوں اور اپنی سستیوں کو وداع کرتے ہوئے ان سے ہمیشہ کے لئے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ اور رمضان کی برکات سے بھی فائدہ اٹھانا یہی ہے کہ جن نیکیوں کی ہمیں رمضان میں توفیق ملی ہے ان میں سے اگر اضافہ کرتے ہوئے نہیں تو کم از کم ان پر قائم رہتے ہوئے ہم اگلے رمضان کا استقبال کریں۔ پس نہ ہم یہ سوچ رکھنے والے ہوں کہ ہم نے جمعہ کو وداع کیا، نہ ہم یہ سوچ رکھنے والے ہوں کہ ہم نے رمضان کو وداع کیا، نہ ہمیں یہ خیال آئے کہ ہم نے اپنی عبادتوں کو وداع کیا جن کا لطف رمضان کے دوران ہم نے اٹھایا۔ اگر کبھی یہ سوچ کسی کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے مقصد پیدائش سے دور چلا جاتا ہے اور جو مقصد پیدائش سے دور ہے وہ تقویٰ سے دور ہے اور جو تقویٰ سے دور ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ گویا رمضان میں جو کچھ ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اسے خود ہی ہم نے ضائع بھی کر دیا اور جس کامیابی اور اخلاص کا، جس کامیابی اور فلاح کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اس سے ہم محروم ہو گئے۔ روزے کے بارے میں جو آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے روزے کے حکم اور روزے کے دوسرے احکامات کے بجا لانے کا نتیجہ تقویٰ بتایا ہے۔ پس ہمیں آج اس کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اس نتیجے کو حاصل کر لیا ہے یا نہیں؟ یا کم از کم ہم نے اس کوشش میں کچھ قدم بڑھائے ہیں کہ نہیں۔ اور کیا یہ عہد کیا ہے کہ ہم نے رمضان میں جو حاصل کیا ہے اس پر ثابت قدم رہنے اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تقویٰ اور اس کی باریکیوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے سمجھایا ہے۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ’’بار بار قرآن شریف کو پڑھو اور تمہیں چاہئے کہ بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ‘‘۔ قرآن کریم نے جن کاموں کو بُرا کہا ہے ان کی تفصیل لکھتے جاؤ۔ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہو گا’’۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 376۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ برائیوں سے بچنا تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا۔
پس رمضان کے دنوں میں ہم نے درس بھی سنے۔ اور ہم میں سے بہت سوں نے خود بھی قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کی اور سمجھنے کی کوشش کی۔ بدیوں کا بھی پتا لگا۔ نیکیوں کا بھی پتا چلا اور ابھی نیکیوں کے کرنے کا مرحلہ تو بعد کی بات ہے آپ فرما رہے ہیں کہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی برائیوں کی فہرست بنا کر ان سے بچنے کی کوشش کرو۔ اور برائیوں سے بچنے کی یہ کوشش اور ان سے بچنا انسان کو تقویٰ کے پہلے مرحلے میں لاتا ہے۔
فرمایا کہ بیشک برائیوں سے بچنا اچھی بات ہے لیکن یہ نیکی کا پہلا حصّہ ہے۔ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہے۔ نیکی اس پر ختم نہیں ہو جاتی۔
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتنی سی بات نہیں جس سے وہ راضی ہو جاوے۔ بدیوں سے بچنا چاہئے اور اس کے مقابل نیکی کرنی چاہئے۔ اس کے بغیر مخلصی نہیں۔ (اگر نہیں کرو گے تو یہ نہ سمجھ لو کہ بدیوں سے بچ کر میں نے تقویٰ حاصل کر لیا۔ اس لئے اگر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو نیکیاں بجا لائے بغیر جان نہیں چھوٹے گی۔ بہرحال کرنی پڑیں گی۔ فرمایا کہ) جو اس پر مغرور ہے کہ وہ بدی نہیں کرتا۔ (بعض لوگوں کو بڑا فخر ہے کہ ہم بدی نہیں کرتے) وہ نادان ہے۔ اسلام انسان کو اس حد تک نہیں پہنچاتا اور چھوڑتا بلکہ وہ دونوں شقیں پوری کرانا چاہتا ہے۔ یعنی بدیوں کو تمام کمال چھوڑ دو۔ (اپنی بدیوں اور برائیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دو۔) اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو۔ (بدیوں کو مکمل طور پر چھوڑو اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو۔ فرمایا کہ) جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں نجات نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 377۔ 378)
پس یہ رمضان بھی اور جمعہ بھی اور ہماری عبادتیں بھی ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں کہ ہم نے جہاں تقویٰ کے پہلے مرحلے میں بدیوں کو مکمل طور پر چھوڑنا ہے یا چھوڑا ہے وہاں تقویٰ کے اگلے مرحلے پر چلتے ہوئے تمام نیکیوں کو پورے اخلاص سے ادا کرنا ہے۔
آپ نے ایک جگہ فرمایا یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ نمازوں کی مثلاً مجھے عادت پڑ گئی اور نماز پڑھنے کے بعد وہیں مسجد میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی برائیاں شروع کر دیں یا ایسی باتیں کرنے لگ گئے جن کا نیکیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ تو یہ تو تم نے پہلا مرحلہ بھی طے نہیں کیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 376)
پس جمعہ کے دن جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قبولیت دعا کی ایک گھڑی ہوتی ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جب قبولیت دعا ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ 935)۔ پہلے مَیں اس کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ یہ دعا بھی خاص طور پر ہمیں کرنی چاہئے کہ رمضان ہماری بدیوں سے ہمیں مکمل طور پر نجات دلاتا ہؤا اور ہمیں نیکیوں کو پورے اخلاص کے بجا لانے کی توفیق دیتا ہؤا ہمیں چھوڑے اور ہم حقیقی تقویٰ پر چلنے والے ہوں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں اور اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کو بتائیں کہ یہی دین ہے جو بندے کو زندہ خدا سے ملاتا ہے اور یہی دین ہے جو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بہترین رنگ میں ہدایت فرماتا ہے اور توجہ دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مشکلات میں گھرے ہوئے تمام احمدیوں کو بھی ان کی مشکلات سے نکالے اور جو کسی بھی رنگ میں پریشانیوں میں مبتلا ہیں ان کی پریشانیاں ختم ہوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اُمّت مسلمہ کو بھی توفیق دے کہ وہ زمانے کے امام کو مان کر دکھوں اور پریشانیوں سے باہر نکلیں۔ ایک دوسرے پر جو ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ان ظلموں سے روکے اور اسلام اپنی حقیقی شان کے ساتھ ہر مسلمان ملک سے دنیا پر ظاہر ہو۔
رمضان کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق گنتی کے چند دن گزر گئے۔ ہم میں سے بہت سوں نے ان دنوں کے فیض سے فیض اٹھایا ہو گا۔ بعض کو ان دنوں میں نئے تجربات ہوئے ہوں گے۔ اب یہ دعا اور کوشش ہونی چاہئے کہ یہ فیض، یہ برکات، یہ نئے روحانی تجربات ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والے ہمارے قدم اب یہاں رُک نہ جائیں بلکہ ہمیشہ بڑھتے رہنے والے قدم ہوں اور ہر قدم بیشمار برکات کو سمیٹنے والا قدم ہو۔
ہمارے نوجوانوں کو بھی اور ہم میں سے جمعہ کی ادائیگی کے بارے میں سستی کرنے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غیر احمدیوں میں اگر جمعۃ الوداع کا کوئی تصور ہو تو ہو، جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق جمعۃ الوداع کا نہ کوئی تصور ہے، نہ کوئی ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان کے جمعوں یا رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہونے کا ارشاد اور حکم نہیں فرمایا بلکہ بلا تخصیص نماز جمعہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
قرآن مجید و احادیث نبویہ کے حوالہ سے جمعۃ المبارک کی اہمیت و برکات کا تذکرہ اور ان سے استفادہ کی تاکید۔
جمعہ کی برکات سے فیض پانے کے لئے یا فیض اٹھانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سات دن کے بعد آنے والے جمعہ کو ہی اہم اور بخشش کا ذریعہ قرار دیا۔ پس ہر آنے والا جمعہ ہمارے لئے یہ گواہی دینے والا ہونا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہ دن گزارے اور کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو یا جان بوجھ کر ایسا عمل نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنائے تو پھر اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کو، کمیوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی کام میں برکت پڑتی ہے۔ اگر اس کی خاطر جمعہ کے تھوڑے سے وقت کے لئے قربانی کرو گے تو کاروباروں میں برکت پڑے گی اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنو گے۔
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانا بھی یہی ہے کہ جن نیکیوں کی ہمیں رمضان میں توفیق ملی ہے ان میں سے اگر اضافہ کرتے ہوئے نہیں تو کم از کم ان پر قائم رہتے ہوئے ہم اگلے رمضان کا استقبال کریں۔ یہ رمضان بھی اور جمعہ بھی اور ہماری عبادتیں بھی ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں کہ ہم نے جہاں تقویٰ کے پہلے مرحلے میں بدیوں کو مکمل طور پر چھوڑنا ہے یا چھوڑا ہے وہاں تقویٰ کے اگلے مرحلے پر چلتے ہوئے تمام نیکیوں کو پورے اخلاص سے ادا کرنا ہے۔
فرمودہ مورخہ 17؍جولائی 2015ء بمطابق 17وفا 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔