حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ متفرق واقعات
خطبہ جمعہ 24؍ جولائی 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ سے متعلق ہیں بیان کروں گا۔
’تذکرہ‘ میں 9؍فروری 1908ء کی تاریخ کے تحت ایک الہام لکھا ہوا ہے۔ اس دن کے آٹھ الہامات ہیں۔ ایک الہام یہ ہے۔ ’’لَاتَقْتُلُوْا زَیْنَب‘‘۔ (تذکرۃ صفحہ635ایڈیشن چہارم 2004ء)
اس کی واقعاتی وضاحت بعض حالات کے مطابق ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ’’1908ء کے شروع میں حافظ احمد اللہ خان صاحب مرحوم کی دو لڑکیوں کی شادی کی تجویز ہوئی جن میں سے بڑی کا نام زینب اور چھوٹی کا نام کلثوم تھا۔ زینب کے متعلق اور بھی بعض لوگوں کی خواہش تھی۔ (ان کا ایک رشتہ شیخ عبدالرحمن مصری سے بھی آیا ہوا تھا۔) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی شادی مصری صاحب سے ناپسند کی (کہ زینب کی شادی اس سے نہ ہو۔) لیکن آپ کی عادت یہ نہیں تھی کہ بہت زیادہ زور دیں۔ آپ نے زور نہیں دیا۔ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ لَاتَقْتُلُوْا زَیْنَب۔ کہ زینب کو ہلاک مت کرو۔ حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم نے دوسرے شخص کو کسی نہ کسی وجہ سے ناپسند کیا اور یہ خیال کیا کہ اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشورہ غلط ہے وہاں شادی نہ کی جائے بلکہ مصری صاحب سے شادی کی جائے اور خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے کو الہام نے ردّ کر دیا ہے۔ (یعنی یہ جو الہام تھا لَاتَقْتُلُوْا زَیْنَب۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جو مشورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے وہ اللہ کہ پسندنہیں آیا بلکہ دوسرا رشتہ جو اس کے خلاف تھا وہ پسند آیا۔ بہر حال انہوں نے اپنی اس بیٹی کی شادی مصری صاحب سے کر دی۔) چنانچہ یہ الہام 9؍فروری 1908ء کو ہوا اور 17؍فروری 1908ء کو شیخ مصری صاحب کا نکاح زینب سے کر دیا گیا۔ (حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ) یہ تاریخ اس طرح محفوظ رہی کہ مصری صاحب کا نکاح دو اور نکاحوں سمیت اسی دن ہوا تھا جس دن کہ ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح ہوا تھا اور وہ 17؍فروری تھی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو اور مصری صاحب سے نکاح نہ کرو ورنہ یہ نکاح اسے منافق بنانے کا نتیجہ پیدا کر دے گا (یا ہلاکت کا نتیجہ پیدا کر دے گا یا قتل کرنے والی بات ہو گی۔) لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو شاید اس زینب کے متعلق اسے سمجھا ہی نہیں اور لڑکی کے باپ نے الٹ نتیجہ نکالا۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کا منشاء اس الہام سے یہ تھا کہ اس شخص سے ایک بھاری فتنہ پیدا ہونے والا ہے (کیونکہ بعد میں مصری صاحب سے فتنہ پیدا ہوا۔) اس سے زینب کی شادی نہ کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو۔ پھر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب کو یہی مشورہ دیا تھا۔ چنانچہ جب مصری صاحب جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیں تو (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) پیر منظور محمد صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب کو کہا تھا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب سے شادی نہ کی جائے۔ مگر جب حافظ صاحب نے اس بات کو نہ مانا اور اسی جگہ لڑکی کی شادی کر دی تو مجھے سخت غصّہ آیا۔ (یہ بیان کیا پیر منظور محمد صاحب نے) اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ حضورخدا تعالیٰ کے مامور ہیں اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب مامور ایک بات کہہ دے تو تمام مومنوں کو چاہئے کہ اس پر عمل کریں مگر حافظ احمد اللہ صاحب نے حضور کی نافرمانی کی ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ بات تو آپ نے جو کہی ہے یہ ٹھیک ہے مگر ایسے معاملات میں مَیں دخل نہیں دیا کرتا۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) جب یہ روایت مجھے پہنچی تو گو اس روایت میں مجھے کوئی شبہ نہیں ہو سکتا تھا مگر چونکہ یہ اکیلی روایت تھی اس لئے اس بات کا فکر ہواکہ کوئی اور گواہ بھی ہونا چاہئے۔ ان کے جماعت چھوڑنے کی اور اس فتنے کی جو ساری backgroundتھی اس کی وجہ سے آپ چاہتے تھے کہ اس کا ٹھوس ثبوت ملے۔ تو بہرحال کہتے ہیں ) خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دوسرے دن کی ڈاک میں مجھے ایک خط ملا جو منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی طرف سے تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ 1915ء میں جب میں قادیان آیا تو اس وقت مجھے کسی دوست سے قرآن پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے حافظ احمد اللہ صاحب سے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اپنی لڑکی زینب کا رشتہ کسی اور شخص سے کرنے کا کہا تھا مگر انہی دنوں آپ پر یہ الہام نازل ہوا کہ لَاتَقْتُلُوْا زَیْنَب۔ جس سے میں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے صحیح نہیں اور میں نے شیخ مصری صاحب سے رشتہ کر دیا۔ مگر اب شیخ مصری مجھے بہت سخت تنگ کرتا ہے۔ (یہ ان کے سسر نے کہا) اور اس نے مجھے بڑی بڑی تکلیفیں پہنچانی شروع کر دی ہیں جس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم نہ ماننے کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانے میں شیخ مصری صاحب نے بازار میں اپنے خسر کو مارا جس پرحضرت خلیفہ اوّل مصری صاحب سے سخت ناراض ہو گئے اور میں نے کئی دن آپ کی منّتیں کر کے انہیں معاف کروایا۔
پس اس الہام کے یہ معنی تھے کہ تم زینب کی شیخ مصری سے شادی مت کرو ورنہ اس کا ایمان بھی برباد ہو جائے گا۔ چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس شادی سے اس کا ایمان بھی ضائع ہو گیا۔ (ماخوذ از ’مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر‘۔ انوار العلوم جلد14 صفحہ579تا581)
مصری صاحب کے بارے میں بہت سوں کو نہیں پتا ہو گا کہ یہ کون تھے اور ان کا کیا قصہ ہے۔ یہ تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے اس لئے تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں۔ شیخ عبدالرحمن مصری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی جیسا کہ ظاہر ہے۔ پڑھے لکھے تھے۔ پھر یہ مصر گئے اور ان کو مصر بھیجنے کا خرچ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چوہدری نصر اللہ خان صاحب نے دیا۔ مصر جانا جہاں ان کے لئے دوسرے فوائد کا باعث بنا وہاں مصر جانے کی وجہ سے شیخ مصری کہلانے کا بھی ذریعہ بنا۔ اس وجہ سے ان کو شیخ مصری کہا جاتا تھا۔ (ماخوذ از ’مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر‘۔ انوار العلوم جلد14 صفحہ579)
بہرحال ایک ایسا وقت آیا جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے اختلاف کیا اور اختلاف کی وجہ سے آپ کے خلاف بہت کچھ کہنے لگے۔ جماعت میں فتنے کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاں جماعت کو وسیع پیمانے پر فتنے سے محفوظ رکھا۔ وہاں بعض احباب کو انفرادی طور پر بھی ان کی حالت کے بارے میں رؤیا میں بتا دیا کہ ان کی حالت کیسی ہے۔ مصری صاحب کے جماعت میں مقام کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بیان فرمایا ہے کہ ایک دوست نے افریقہ سے مجھے خط لکھا کہ مصری صاحب کے جماعت سے علیحدہ ہونے پر مجھے سخت گھبراہٹ ہے۔ لکھتے ہیں کہ جب اتنے بڑے بڑے آدمیوں کا ایمان ضائع ہو گیا تو ہمارا ایمان کیا حقیقت رکھتا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں اس پر مَیں نے ان کو لکھا کہ بڑائی کا فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ آپ کا نہیں ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے اپنے عمل سے انہیں جماعت سے علیحدہ کر دیا ہے جن کو آپ بڑا سمجھتے تھے اور آپ کو جماعت میں رکھا تو ثابت ہوا کہ بڑے آپ ہیں، وہ نہیں۔ (ماخوذ از ’مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر‘۔ انوار العلوم جلد14 صفحہ564)
بہرحال جبتک مصری صاحب جماعت میں تھے بڑے اہم سمجھے جاتے تھے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس اختلاف کے دوران یا جماعت سے نکلنے کے بعد مصری صاحب نے خود ہی لَاتَقْتُلُوْا زَیْنَب کا الہام بتا کر اپنی اہمیت ظاہر کرنا چاہی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رشتہ کے متعلق یہ الہام ہوا تھا اور اس کا مطلب یہی تھا کہ میرے بارے میں ہے۔ لیکن جب اس الہام کی باقی الہاموں کے ساتھ جوڑ کے حضرت مصلح موعودنے حقیقت کھولی اور جماعت کے افرادنے بھی بتانا شروع کیا تو پھر مصری صاحب نے خود ہی کہنا شروع کر دیا کہ میری بیوی زینب کو اس معاملے میں کیوں کھینچا جا رہا ہے۔ تو اس الہام کی وضاحت کرنے کی یہ وجہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی ہے کہ کس طرح وہ الہام پورا ہوا۔
حضرت مصلح موعود مزید فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھو یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جس کی طرف خود مصری صاحب نے توجہ دلائی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیوی کو یہ یاد تھا کہ ایسا الہام ہوا تھا اور (بیوی کہتی ہے کہ) میرے والدنے اسے میرے متعلق سمجھا۔ اس طرح ان کا ذہن اس طرف گیا اور (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) اس طرح ان کا (مصری صاحب کا بھی) ذہن اس طرف گیا اور شاید جو کام ہم سے دیر میں ہو سکتا وہ خود انہوں نے کر دیا۔ (حضرت مصلح موعود مثال دیتے ہیں کہ اس کی مثال) بالکل اسی طرح (ہے) جس طرح بکری نے چھری نکالی تھی۔ کہتے ہیں کہ کوئی شخص تھا جس نے بکری ذبح کرنے کے لئے چھری نکالی مگر پھر کہیں رکھ کر بھول گیا اور اس پر بچوں نے کھیلتے ہوئے مٹی ڈال دی اور وہ مٹی کے نیچے چھپ گئی۔ اس نے چھری کو بہتیرا تلاش کیامگر نہ ملی۔ وہ حیران سا کھڑا تھا کہ بکری نے پیر مارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مٹی ہٹ گئی اور اسے چھری نظر آ گئی جس سے اس نے فورًا اسے ذبح کر دیا۔ تو اُس وقت سے عرب میں یہ مثل مشہور ہو گئی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کرتا ہے تو کہتے ہیں اس نے بالکل ایسا ہی کیا جس طرح بکری نے چھری نکال لی تھی۔‘‘ (ماخوذ از ’مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر‘۔ انوار العلوم جلد14 صفحہ581)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی نتیجہ نکالا اور یہ نتیجہ بڑا ظاہر نکلتا ہے کہ حافظ صاحب اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان کر اپنی بیٹی زینب مصری صاحب کے نکاح میں نہ دیتے تو اس کا ایمان ضائع نہ ہوتا۔ پس مامور کی باتوں پر عمل کرنا مومنوں کا فرض ہے۔ اور اس کو سمجھنا چاہئے اور اپنی توجیہیں کرنے کی بجائے لفظاً عمل کیا جائے تو ایمان ضائع نہیں ہوتا۔
حضرت مصلح موعود پھر ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مولوی محمد احسن صاحب کی طبیعت ایسی تھی کہ ان کی طبیعت میں بڑی جلد بازی تھی۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسراواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے (سیر کے دوران) فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اور بندے کے کلام میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنا ایک الہام سنایا اور فرمایا دیکھ لو یہ بھی ایک الہام ہے اور اس کے مقابل پر حریری کا بھی کلام موجود ہے۔ (یہ ایک لکھنے والا تھا۔) مولوی محمد احسن صاحب نے بات کا آخری حصہ غور سے نہ سنا اور الہام کے متعلق خیال کر لیا کہ یہ حریری کا کلام ہے۔ اور کہنے لگے بالکل لغو ہے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا الہام ہے تو مولوی صاحب فورًاکہنے لگے سبحان اللہ! کیا ہی عمدہ کلام ہے۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 30 مئی 1959ء صفحہ 4 نمبر127 جلد48/13)
پس کسی بھی بات کے متعلق رائے قائم کرنی ہو تو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔
پھر اس بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج دنیا کے کونے کونے اور ہر ملک میں جانا جاتا ہے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سکھ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے تایا مرزا غلام قادر صاحب تو بہت مشہور تھے اور ایک بڑے عہدے پر فائز تھے لیکن مرزا غلام احمد صاحب غیر معروف تھے انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ سکھ کہنے لگا کہ میرے والد ایک دفعہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس گئے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد کے پاس۔) اور کہنے لگے سنا ہے آپ کا ایک اور بیٹا بھی ہے وہ کہاں ہے۔ انہوں نے کہا وہ تو سارا دن مسجد میں پڑا رہتا ہے اور قرآن پڑھتا رہتا ہے۔ مجھے اس کا بڑا فکر ہے وہ کھائے گا کہاں سے۔ تم اس کے پاس جاؤ اور اس کو کہو کہ دنیا کابھی کچھ فکر کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ کوئی نوکری کر لے۔ لیکن جب میں اس کے لئے کسی نوکری کا انتظام کرتا ہوں وہ انکار کر دیتا ہے۔ چنانچہ میرے والد گئے (اس سکھ کے والد گئے) اور بڑے مرزا صاحب کی بات ان کو پہنچائی۔ وہ کہنے لگے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہنے لگے) کہ میرے والد صاحب کو تو یونہی فکر لگی ہوئی ہے۔ مَیں نے دنیا کی نوکریوں کا کیا کرنا ہے۔ آپ ان کے پاس جائیں (میرے والد کے پاس) اور کہیں کہ میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا ہوں۔ مجھے آدمیوں کی نوکریوں کی ضرورت نہیں ہے۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) اس سکھ پر اس بات کا اتنا اثر تھا کہ وہ جب بھی آپ کا ذکر کرتا اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) ایک دفعہ وہ چھوٹی مسجد میں میرے پاس آیا اور چیخیں مار کر رونے لگ گیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ آج مجھ پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ میں آج بہشتی مقبرہ گیا تھا۔ جب میں مرزا صاحب کے مزار پر سجدہ کرنے لگا تو ایک احمدی نے مجھے اس سے منع کر دیا حالانکہ اس کا مذہب اور ہے اور میرا مذہب اور ہے۔ اگر احمدی قبروں کو سجدہ نہیں کرتے تو نہ کریں۔ میں تو سکھ ہوں ہم سجدہ کر لیتے ہیں۔ پھر اس احمدی نے مجھے منع کیوں کیا۔ اس پر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ غرض آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بالکل خلوت نشین تھے اور جو لوگ آپ کے واقف تھے ان پر آپ کی عبادت اور زہد کا اتنا اثر تھا کہ غیر مسلم ہونے کے باوجود یہ لوگ آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی آپ کے مزار پر آتے تھے۔ (ماخوذ از الفضل 30 مئی 1959ء صفحہ 4 نمبر127 جلد48/13)
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست تھے۔ آپ کے دعوے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا ہے اور اب میں ہی گراؤں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے یعنی مولوی محمد حسین کے نام کو تو مٹا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کو دنیا میں پھیلا دیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کا، مولوی محمد حسین صاحب کا ایک بیٹا آریہ ہو گیا اور حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں نے اسے قادیان بلایا اور اسے دوبارہ مسلمان کیا۔ مولوی محمد حسین صاحب نے اس بات پر مجھے شکریہ کا خط بھی لکھا۔
پھر حضرت مصلح موعودنے خلافت ثانیہ کے دور میں اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے مخالفت چل رہی ہے لیکن جماعت ترقی کر رہی ہے بلکہ آج تک بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف سازشوں اور مخالفتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن اللہ کے فضل سے جماعت ترقی کر رہی ہے۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ جماعت کانٹوں پر گزرتی ہوئی اپنی حیثیت کو پہنچی ہے اور یہ بات بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہا ہے۔ لیکن اس فضل کو دائمی کرنے کے لئے جماعت کو ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے۔ (ماخوذ از الفضل 30 مئی 1959ء صفحہ 4 نمبر127 جلد48/13)
اگر ہم دعاؤں کا حق ادا کرتے رہے تو انشاء اللہ تعالیٰ موجودہ بھی اور آئندہ بھی ہونے والی سب مخالفتیں خود اپنی موت مر جائیں گی۔
ایک موقع پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیمثال قربانی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک اعلیٰ درجے کی ملازمت عطا فرمائی تھی۔ وہ چُھوٹی (ختم ہوئی) تو آپ نے اپنے وطن میں پریکٹس شروع کی۔ وہاں آپ کی بہت شہرت تھی۔ آپ کا وطن بھیرہ سرگودھا کے ضلع میں ہے جہاں بڑے بڑے زمیندار ہیں اور ان میں سے اکثر آپ کے بڑے معتقد تھے۔ پس وہاں کام چلنے کا خوب امکان تھا۔ لیکن آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے قادیان آئے۔ چند روز بعد جب واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیا کا آپ بہت کچھ دیکھ چکے اب یہیں آ بیٹھئے۔ آپ نے اس ارشاد پر ایسا عمل کیا کہ خود سامان لینے بھی واپس نہ گئے بلکہ دوسرے آدمی کو بھیج کر سامان منگوایا۔ اس زمانے میں یہاں پریکٹس چلنے کی کوئی امید ہی نہ تھی بلکہ یہاں تو ایک پیسہ دینے کی حیثیت والا بھی کوئی نہ تھا مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی۔ پھر بھی آپ کی شہرت ایسی تھی کہ باہر سے مریض آپ کے پاس پہنچ جاتے تھے اور اس طرح کوئی نہ کوئی صورت آمد کی پیدا ہو جاتی تھی۔ مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی قربانی ایسے رنگ کی تھی کہ کوئی آمد کا احتمال بھی نہ تھا۔ نہ کہیں سے کسی فیس کی امید تھی، نہ کوئی تنخواہ تھی اور نہ وظیفہ۔ کسی طرف سے کسی آمد کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ مگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سیکرٹری کے طورپر کام کرتے تھے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) اِس وقت جتنے کام تمام محکمے (جماعتی ادارے) کر رہے ہیں یہ سب وہ اکیلے (کیا) کرتے تھے حالانکہ گزارے کی کوئی صورت نہ تھی اور یہ بھی وادیٔ غیر ذی زرع میں جان قربان کرنے والی بات ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد2 صفحہ261-260)
پس یہ نمونے ہیں ہمارے بزرگوں کے جن کو ہم واقفین زندگی کو بھی وقتاً فوقتاً اپنے سامنے رکھتے ہوئے ان پر غور کرنا چاہئے۔
پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا آپ علیہ السلام سے جو عشق تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مولوی عبدالکریم صاحب کو خاص عشق تھا اور ایسا عشق تھا کہ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمانے کو دیکھا۔ دوسرے لوگ اس کا قیاس بھی نہیں کرسکتے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور جس زمانے میں مَیں نے ان کی محبت کو شناخت کیا ہے اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی۔ یعنی بچپن کی عمر تھی لیکن باوجود اس کے مجھ پر ایک ایسا گہرا نقش ہے کہ مولوی صاحب کی دو چیزیں مجھے کبھی نہیں بھولتیں۔ ایک تو ان کا پانی پینااور ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی محبت۔ آپ ٹھنڈا پانی بہت پسند کرتے تھے اور اسے بہت شوق سے پیتے تھے اور پیتے وقت غَٹ غَٹ کی ایسی آواز آیا کرتی تھی کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی نعمتوں کو جمع کر کے بھیج دیا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد14 صفحہ122-121)
چند گھونٹ لینے کے بعد الحمد للہ الحمد للہ کرتے تھے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد24 صفحہ158) (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) اس زمانے میں اس مسجد اقصیٰ کے کنوئیں کا پانی بہت مشہور تھا۔ اب تو معلوم نہیں لوگ کیوں اس کا نام نہیں لیتے۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ کہتے بھائی کوئی ثواب کماؤ اور پانی لاؤ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود مجلس میں موجود ہوتے تو اور بات تھی ورنہ آپ سیڑھیوں پر آ کر انتظار میں کھڑے ہو جاتے اور پانی لانے والے سے لوٹا لے کر منہ سے لگا لیتے۔ دوسری بات جو تھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی آنکھیں حضور کے جسم میں سے کوئی چیز لے کر کھا رہی ہیں۔ اس وقت گویا آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی کا ایک باغ لہرا رہا ہوتا تھا اور آپ کے چہرے کا ذرہ ذرہ مسرت کی لہر پھینک رہا ہوتا تھا۔ جس طرح مسکرا مسکرا کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنتے اور جس طرح پہلو بدل بدل کر داد دیتے وہ قابل دیدنظارہ ہوتا۔ اگر اس کا تھوڑا سا رنگ میں نے کسی اور میں دیکھا تو وہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے۔ غرض مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آپ سے ویسی ہی محبت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد ہمیشہ بیٹھ کر باتیں کرتے۔ لیکن مولوی صاحب کی وفات کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور اب بیٹھتے نہیں؟ تو فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی جگہ کو خالی دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ حالانکہ کون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو حیّ اور دوبارہ زندگی دینے والا یقین کرتا ہو۔ پس یہ یکطرفہ عشق نہیں تھا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد14 صفحہ122)
آپ علیہ السلام کو اپنے صحابہ سے بہت محبت تھی۔
ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص نے کچھ بیجا الفاظ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے متعلق کہے۔ لوگوں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ وہ شخص ضدی تھا۔ لوگ اسے مارتے جاتے مگر وہ یہی کہتا جاتا کہ میں تو یہی کہوں گا۔ لوگ اسے پھر مارنا شروع کر دیتے اور یہ جھگڑا بڑھ گیا۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) ہم اس وقت چھوٹی عمر کے تھے۔ ہمارے لئے ایک تماشا بن گیا۔ وہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا کہ مَیں تو یہی کہوں گا۔ لوگ اسے مارتے یہاں تک کہ وہ اسے مار مار کر تھک گئے۔ ان دنوں ایک غیر احمدی پہلوان حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس علاج کے لئے آیا ہوا تھا۔ (خلافت سے پہلے حضرت مسیح موعود کے زمانے میں۔ ) اس نے جب یہ شور سنا تو (وہ سمجھا کہ یہ بھی کوئی ثواب کا کام ہے۔ اس نے) خیال کیا کہ مَیں کیوں اس ثواب سے محروم رہوں، مجھے بھی اس میں حصہ لینا چاہئے۔ چنانچہ وہ بھی گیا اور اس شخص کو بات کا پتا نہ تھا۔ اس نے اس کو اٹھایا اور بھمبیری کی طرح گھما کے زمین پے دے مارا۔ لیکن وہ بھی بڑا ضدی شخص تھا۔ وہ گر کے پھر یہی کہتا تھا میں تو یہی کہوں گا۔ تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ہمارے لئے ایک تماشا بن گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب معلوم ہوا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا ہماری یہی تعلیم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ دیکھو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں لیکن ہمارا اس سے کیا بگڑ جاتا ہے۔ اگر اس نے کچھ بیجا الفاظ مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق بھی استعمال کر دئیے تو کیا ہو گیا؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اور تو اور ہمارے نانا میر ناصر نواب صاحب نے جب یہ دیکھا تو آپ وہاں گئے اور لوگوں سے کہا۔ تم لوگ یہ کیا لغو بات کر رہے ہو؟۔ کیوں تم اس شخص کو مارنے لگ گئے ہو؟ مگر ابھی آپ لوگوں کو یہ نصیحت کر ہی رہے تھے کہ اس شخص نے مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق پھر وہی الفاظ دہرا دئیے تو اس پر میر صاحب نے خود بھی اسے دو چار تھپڑ لگا دئیے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں) بسا اوقات انسان اس قسم کے بھی کام کر لیتا ہے جو لغو ہوتے ہیں۔ دراصل رو چلنے کی دیر ہوتی ہے۔ جب رَو چل جائے تو لوگ خود بخود اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ (ماخوذ از الفضل 5 جون 1948ء صفحہ6 نمبر127 جلد2)۔
لیکن پھر بھی ہمیں اپنے جذبات پر کنٹرول کی عادت ہونی چاہئے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اور صحابی حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے آپ سے عشق کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’منشی اروڑے خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق تھا۔ وہ کپور تھلہ میں رہتے تھے اور کپور تھلہ کی جماعت کی اخلاص کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس قدر تعریف فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے انہیں ایک تحریر بھی لکھ دی تھی جو انہوں نے (یعنی جماعت نے) رکھی ہوئی ہے کہ اس جماعت نے ایسا اخلاص دکھایا ہے کہ یہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بار بار درخواست کرتے کہ حضور کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں۔ آپ نے بھی وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب موقع ہؤا آئیں گے۔ ایک بار جو فرصت ملی تو اطلاع دینے کا وقت نہیں تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بغیر اطلاع کے چل پڑے اور کپورتھلہ کے اسٹیشن پر جب اترے تو ایک شدید مخالف نے آپ کو دیکھا جو آپ کو پہچانتا تھا۔ اگرچہ وہ مخالف تھا مگر بڑے آدمیوں کا ایک اثر ہوتا ہے۔ منشی اروڑا صاحب سناتے ہیں کہ ہم ایک دکان پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا کہ تمہارے مرزا صاحب آئے ہیں۔ یہ سن کر جوتی اور پگڑی وہیں پڑی رہی اور مَیں ننگے پاؤں اور ننگے سر سٹیشن کی طرف بھاگا۔ مگر پھر تھوڑی دورجا کر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ اطلاع دینے والا مخالف ہے اس نے مخول کیا ہو گا۔ مذاق کیا ہو گا۔ اس پر مَیں نے کھڑے ہو کر اسے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ منشی صاحب کہتے ہیں میں نے اس شخص کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تُو جھوٹ بولتا ہے مذاق اڑاتا ہے۔ مگر پھر خیال آیا کہ شاید آ ہی گئے ہوں اس لئے پھر بھاگا۔ پھر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت نہیں ہو سکتی اور پھر اسے کوسنے لگا۔ وہ کہے مجھے برا بھلا نہ کہو مَیں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ اس پر پھر چل پڑے۔ غرضیکہ میں کبھی دوڑتا اور کبھی کھڑا ہو جاتا اسی حالت میں جا رہا تھا کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں۔ تو یہ جنون ہونے والا عشق ہے اور ان کے معشوق ہونے کا خیال آتا تو دل کہتا کہ وہ ہمارے پاس کہاں آ سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں تو کچھ عرصے بعد منشی اروڑے خان صاحب قادیان آ گئے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ میں جب ان سے ملنے کے لئے باہر آیا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں دو یا تین اشرفیاں تھیں جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے دیں کہ امّاں جان کو دے دیں۔ مجھے اس وقت یادنہیں کہ وہ کیا کہا کرتے تھے، اماں جان یا اماں جی مگر بہرحال ماں کے مفہوم کا لفظ ضرور تھا۔ اس کے بعد انہوں نے رونا شروع کیا اور چیخیں مار مار کر اس شدت کے ساتھ رونے لگے کہ ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ اگرچہ مجھے یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد انہیں رلا رہی ہے مگر وہ کچھ اس بے اختیاری سے رو رہے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس میں کسی اور بات کا بھی دخل ہے۔ غرضیکہ وہ دیر تک کوئی پندرہ بیس منٹ بلکہ آدھا گھنٹہ تک روتے رہے۔ مَیں پوچھتا رہا کہ کیا بات ہے۔ وہ جواب دینا چاہتے مگر رقت کی وجہ سے جواب نہ دیتے۔ آخر جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب بیعت کی اس وقت میری تنخواہ سات روپیہ تھی اور اپنے اخراجات میں ہر طرح سے تنگی کر کے اس کے لئے کچھ نہ کچھ بچاتا کہ خود قادیان جا کر حضور کی خدمت میں پیش کروں اور بہت سا رستہ مَیں پیدل طے کرتا تا کہ کم سے کم خرچ کر کے قادیان پہنچ سکوں۔ پھر ترقی ہو گئی اور ساتھ اس کے یہ حرص بھی بڑھتی گئی یعنی دینے کی۔ آخر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کی خدمت میں سونا نذر کروں۔ جو تھوڑی سی تنخواہ میں سے علاوہ چندہ کے پیش کرنا چاہتا تھا لیکن جب تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ جمع کر لیتا تو پھر گھبراہٹ سی پیدا ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے اس لئے قبل اس کے کہ سوناحاصل کرنے کے لئے رقم جمع ہوقادیان چلا آتا اور جو کچھ پاس ہوتا حضور کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ آخر یہ تین پاؤنڈ جمع کئے تھے اور ارادہ تھا کہ خود حاضر ہو کر پیش کروں گا کہ آپ کی وفات ہو گئی۔ گویا ان کے تیس سال اس حسرت میں گزر گئے۔ انہوں نے اس کے لئے محنت بھی کی لیکن جس وقت اس کی توفیق ملی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے تھے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد14 صفحہ178تا180)
یہ تھا ان لوگوں کا اخلاص اور وفا اور قربانی۔
عربی کے بعض حروف ایسے ہیں جن کی خاص ادائیگی ہے اور غیر عرب اس کا صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے۔ ایک دفعہ ایک عرب نے یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی گفتگو کے دوران کیا کہ آپ صحیح ادائیگی نہیں کر سکتے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا۔ آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا کہ قرآن میں یوں آتا ہے۔ پنجابی لہجے میں چونکہ ’ق‘ اور ’ق‘ اچھی طرح ادا نہیں ہو سکتااور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح ق کی آواز گلے سے نہیں نکالتے بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جو ’’ق‘‘ اور ’’ک‘‘ کے درمیان درمیان ہوتی ہے۔ آپ نے بھی قرآن کا لفظ اس وقت معمولی طور پر ادا کر دیا۔ اس پر وہ شخص کہنے لگا کہ بڑے نبی بنے پھرتے ہیں۔ قرآن کا لفظ تو کہنا آتا نہیں اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے۔ جونہی اس نے یہ فقرہ کہا اس مجلس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسے تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاً ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسری طرف مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے۔ دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہے اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام نہ لیں تو بتلائیں یہ اور کیا کریں۔ اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے) کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی۔ یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور (صاحبزادہ صاحب کو فرمایا کہ) آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں۔ (الفضل 9 مارچ 1938ء صفحہ7 نمبر55 جلد26)
ایک جگہ ’’ض‘‘ کی ادائیگی کا بھی ذکر ملتا ہے اور یہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے، اور جگہ بھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ہی موقع پر ’’ق‘‘ اور ’’ض‘‘ دونوں کی ادائیگی کے بارے میں اس نے کہا ہو کیونکہ دونوں جگہ پے حوالے تقریباً ایک طرح کے ہی ہیں۔ حضرت مصلح موعودنے ’’ض‘‘ کے حوالے سے واقعہ بیان کرتے ہوئے خود لکھا ہے کہ عرب کہتے ہیں کہ ’’ض‘‘ لفظ ہماری طرح کوئی ادا نہیں کر سکتا جب پتا ہے کہ کوئی اور نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کیسا؟
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ پنجابیوں میں سب سے قریب ترین ’’ض‘‘ کو میرا خیال ہے مَیں ادا کرتا ہوں لیکن آپ نے فرمایا کہ میرا تلفظ بھی صحیح نہیں ہوتا۔ (ماخوذ ازالفضل 11 اکتوبر 1961ء صفحہ3 نمبر235 جلد50/15)
تو میں نے دونوں چیزوں کی یہ وضاحت اس لئے کر دی ہے کہ ’’ق‘‘ اور ’’ض‘‘ دونوں کے واقعات ملتے ہیں اور ’’ض‘‘ عام طور پر جماعت میں شاید زیادہ جانا جاتا ہے۔ اس لئے لوگ پھر مجھے لکھنا بھی شروع کر دیں گے کہ یہ ’’ق‘‘ کا واقعہ نہیں تھا ’’ض‘‘ کا واقعہ تھا۔ اس لئے وضاحت کر دی ہے کیونکہ پھر بلا وجہ ڈاک بڑھ جائے گی اور ڈاک کی ٹیم پہلے ہی پریشان رہتی ہے کہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
پھر صبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ آپ کے صبر کی کیا حالت تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ دشمنان احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پڑھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ رکھے ہوئے تھے صبر سے کام لیتے تھے اور فرماتے ہیں کہ پھر یہ خطوط ایسی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے۔ میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بیرنگ آتے ہیں اور واپس کر دئیے جاتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہر ہفتے میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پُر ہوا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اتفاقاً ان خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے جسم کا خون کھولنے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو۔ اس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جمع تھے۔ لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں آپ یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے۔ کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی مگر پھر بہت سے جمع ہو جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمنوں کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں۔ پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر جھوٹے اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا۔ پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی ہے۔ یہ باتیں تو ہمارے تقویٰ کو مکمل کرنے کے لئے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ناراضگی اور جوش کی کون سی بات ہے۔ آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے۔ دشمن کے دل میں چونکہ گند ہے اس لئے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی اور تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں۔ اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو پھر تم اس مجلس سے اٹھ کر چلے آؤ۔ یہی خدا کا حکم ہے۔ (ماخوذ از الفضل 9 مارچ 1938ء صفحہ 7 نمبر55 جلد26)
ایک جگہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نشان نمائی کے لئے نبیوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز میں برکت رکھ دیتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کریں۔ پس ان برکات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اخبار بدر میں بھی چھپا ہوا موجود ہے اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ دہلی تشریف لے گئے تو آپ مختلف اولیاء کی قبروں پر دعا کرنے کے لئے گئے۔ چنانچہ خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ کے مزارات پر بھی آپ نے دعا فرمائی۔ اس وقت آپ نے جو کچھ فرمایا تو جہاں تک مجھے یاد ہے گو ڈائری اس طرح چھپی ہوئی نہیں، یہ ہے کہ دلّی والوں کے دل مردہ ہو چکے ہیں۔ ہم نے چاہا کہ ان وفات یافتہ اولیاء کی قبروں پر جا کر ان کے لئے، ان کی اولادوں کے لئے اور خود دہلی والوں کے لئے دعائیں کریں تا کہ ان کی روحوں میں جوش پیدا ہو اور وہ بھی ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعائیں کریں۔ ڈائری میں صرف اس قدر چھپا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم نے قبروں پر ان کے لئے بھی دعا کی اور اپنے لئے بھی دعا کی ہے اور بعض امور کے لئے بھی دعا کی ہے۔ (بدر8 نومبر1905ء)
اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خالی ان لوگوں کے لئے دعا نہیں کی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبر پرجا کر صرف مرنے والے کے لئے ہی دعا کرنی چاہئے، اس کا اس ڈائری سے ردّ ہوتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہم نے ان کے لئے بھی دعا کی اور اپنے لئے بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور اور کئی امور کے لئے بھی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ڈائری ہے جو بدر میں چھپی ہوئی موجود ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ گورداسپور ایک مقدمے پر جانے سے پیشتر اس کتاب کو (تذکرۃ الشہادتین کو) مکمل کر لوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت میں نے اپنے گھر والوں یعنی حضرت اُمّ المومنین سے یہ کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں۔ چنانچہ اس وقت میں نے صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الٰہی اس شخص نے تیرے لئے قربانی کی ہے اور میں اس کی عزت کے لئے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں تُو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’قَسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ74-75)
اب دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمے پر جا رہے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ اس سے پیشتر کتاب مکمل ہو جائے مگر آپ سخت بیمار ہوگئے۔ اس پر آپ نے حضرت شہید مرحوم کی روح کو جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم تھے اپنے سامنے رکھ کر دعا کی کہ الٰہی اس کی خدمت اور قربانی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ کتاب لکھنی چاہی تھی۔ تُو مجھے اپنے فضل سے صحت عطا فرما۔ اور پھر خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرمایا۔ چنانچہ آپ نے اس واقعہ کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا ہے کہ ’’ایک جدید کرامت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی‘‘۔ صلحاء و اتقیاء کے طریق سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس رنگ میں کئی بار دعا فرمائی۔ جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ مردہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہمیں کوئی چیز دے گا۔ یہ امر صریح ناجائز ہے اور اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے۔ باقی رہا اس کا یہ حصہ کہ ایسے مقامات پر جانے سے رقّت پیدا ہوتی ہے یا یہ حصہ کہ انسان ان وعدوں کو یاد دلا کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کئے ہوں دعا کرے کہ الٰہی اب ہمارے وجود میں تُو ان وعدوں کو پورا فرما۔ یہ نہ صرف ناجائز نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے اور مومن کا فرض ہے کہ وہ برکت کے ایسے مقامات سے فائدہ اٹھائے۔ مثلاً جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کے لئے جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ الٰہی یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ تیرا یہ وعدہ تھا کہ میں اس کے ذریعہ اسلام کو زندہ کروں گا۔ تیرا وعدہ تھا کہ میں اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ پس اس کو تو پورا فرما۔ (ماخوذ از الفضل 14 مارچ 1944ء صفحہ7 جلد32 نمبر61)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حصہ بنتے ہوئے آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ہوں اور اسلام کی حقیقی شکل اور غلبے کو دنیا کو دکھانے والے بھی ہوں اور دیکھنے والے بھی ہوں۔ نماز کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھوں گا جو کہ مولوی محمد یوسف صاحب درویش مرحوم (قادیان) کا ہے۔ 22؍جولائی 2015ء کو 94سال کی عمر میں یہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ آپ کو لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں قرآن کریم اور حدیث پڑھانے کا موقع ملا۔ بہت سادہ منکسر المزاج اور احساس ذمہ داری کے ساتھ خدمت بجا لانے والے مخلص اور باوفا انسان تھے۔ آپ کا تعلق قصبہ موکل تحصیل چونیاں ضلع لاہور اور حال ضلع قصورسے تھا۔ آپ نے بچپن کی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد 1939ء میں لاہور کی ایک اہلحدیث درسگاہ سے حدیث کی ابتدائی کتب پڑھنے کا موقع ملا۔ وہاں ان کی ملاقات ایک احمدی سے ہوئی جن سے احمدیت کا علم ہوا۔ بعد میں تحقیق حق کے لئے متعدد مرتبہ قادیان آتے رہے۔ کتب کا مطالعہ کرتے رہے۔ آخر 1944ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پھر دینی تعلیم کے حصول کے لئے قادیان آ گئے اور اپریل 1947ء میں آپ کا داخلہ مبلغین کلاس میں ہوا۔ پڑھائی کے دوران ہی تقسیم ملک اور قادیان سے ہجرت کا سانحہ پیش آیا مگر انہوں نے ہر حال میں قادیان میں رہنے کو ترجیح دی اور درویشانہ زندگی اختیار کر لی۔ 1949ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد پر کہ قادیان میں علماء کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مبلغین کلاس میں سے بعض کو منتخب کر کے مزید تعلیم دلوائی جائے، آپ کو بھی مزید تعلیم کے لئے منتخب کیا گیا جس کا عرصہ چار سال تھا۔ اس تعلیم کے مکمل ہونے پر آپ کو مئی 1955ء میں قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد مقرر کیا گیا۔ نومبر 1958ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ایک لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پھر سینئر شاہد گریڈ حاصل کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے لیکن اس کے بعد بھی لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں خدمت بجا لاتے رہے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند عالم با عمل وجود تھے۔ اپنے شاگردوں سے والد کی طرح محبت کرتے تھے۔ مدرسہ احمدیہ میں سالہا سال طلباء کو علم حدیث سے روشناس کرواتے رہے۔ احادیث کی کتب کا گہرا مطالعہ تھا اور حسن بیان ایسا تھا کہ درس طلباء کے ذہن نشین ہو جاتا تھا۔ تاریخ احمدیت جلدنمبر 11میں درویشان کی جو فہرست طبع شدہ ہے اس میں آپ کا نمبر 153ہے۔ آپ نے درویشی کا طویل عرصہ باوجود مشکلات کے انتہائی صبر و شکر سے بسر کیا۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک ربیب اور ایک بیٹا یادگار چھوڑے ہیں یعنی ایک سوتیلا بیٹا ہے۔ آپ کے بیٹے مکرم جمیل احمد صاحب ناصر ایڈووکیٹ مشیر قانونی اور ناظم تشخیص جائیداد موصیان ہیں اور ربیب مکرم بدرالدین مہتاب صاحب بطور اسسٹنٹ مینیجر فضل عمر پریس میں کام کر رہے ہیں۔ بیٹی عائشہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر نصیر احمد صاحب حافظ آبادی کی اہلیہ ہیں اور اس وقت نصرت ویمن کالج کی پرنسپل کے طور پر خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مامور کی باتوں پر عمل کرنا مومنوں کا فرض ہے۔ اور اس کو سمجھنا چاہئے اور اپنی توجیہیں کرنے کی بجائے لفظاً عمل کیا جائے تو ایمان ضائع نہیں ہوتا۔
کسی بھی بات کے متعلق رائے قائم کرنی ہو تو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالکل خلوت نشین تھے اور جو غیر مسلم آپ کے واقف تھے ان پر آپ کی عبادت اور زُہد کا اتنا اثر تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے مزار پر آتے تھے۔
اگر ہم دعاؤں کا حق ادا کرتے رہے تو انشاء اللہ تعالیٰ موجودہ بھی اور آئندہ بھی ہونے والی سب مخالفتیں خود اپنی موت مر جائیں گی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی اروڑے خانصاحب رضی اللہ عنہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عشق و محبت کا ایمان افروز تذکرہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مخالفین کی سب و شتم اور ایذا رسانیوں پر بے نظیر صبر اور آپؑ کے اخلاق عالیہ کا بیان۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ متفرق واقعات کا دلچسپ تذکرہ۔
مکرم مولوی محمد یوسف صاحب درویش قادیان کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 24؍جولائی 2015ء بمطابق 24وفا 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔