قرآن کریم پڑھنے کا شوق۔ تقویٰ و طہارت، ذکر الٰہی، درود اور تہجد
خطبہ جمعہ 31؍ جولائی 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ دنوں کسی نے ایک چھوٹی سی ویڈیو دکھائی کہ ایک افریقن مولوی بڑی عمر کے لوگوں کو قرآن پڑھا رہا ہے اور ذرا سی غلطی پر سوٹیوں سے مار مار کر ان کا برا حال کیا ہوا تھا۔ اب جس کی ایک تو زبان نہ ہو اور پھر سترہ اٹھارہ سال یا اس سے بھی زیادہ بڑی عمر ہو جائے تو وہ کس طرح قاریوں کی طرح ہر حرف کی صحیح ادائیگی کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ قرآن پڑھنے سے ہی بھاگتے ہیں اور یہی وجہ ہے مسلمانوں میں سے جو غیر عرب لوگ ہیں، بہت سوں کو قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں آتا۔ پس اگر قرآن پڑھانا ہے تو ایسے طریقے سے پڑھانا چاہئے جس سے شوق اور محبت پیدا ہو۔
گزشتہ دنوں ایک جاپانی خاتون جو یہاں رہتی ہیں ملنے آئیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی۔ انہوں نے بتایا کہ تین سال میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف مکمل کر لیا ختم کرلیا، اور وہ کچھ سنانا بھی چاہتی تھیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے سنائیں۔ تو انہوں نے آیۃ الکرسی اس طرح ڈوب کر پڑھی کہ حیرت ہوتی تھی۔ تواصل چیز یہی ہے کہ قرآن کریم سے ایسی محبت ہو کہ اس میں ڈوب کر اسے پڑھا جائے۔ صرف دکھاوے کے لئے قاریوں کی طرح گلے سے آوازیں نکال لینا تو مقصدنہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ترتیل سے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور جس حد تک بہترین تلفّظ ادا ہو سکتا ہے ادا کر کے پڑھا جائے۔ اگر ہم کہیں کہ ہم عربوں کی طرح الفاظ کی ادائیگی کر سکتے ہیں تو یہ مشکل ہے۔ بعض حروف کی صحیح ادائیگی غیر عرب کر ہی نہیں سکتے۔ سوائے اس کے کہ عربوں میں پلے بڑھے ہوں۔ جاپانی قوم ہے وہ بھی بعض حروف کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔ مثلاً یہ جو پڑھنے والی تھیں وہ بھی ’خ‘ کو جس طرح ادا کر رہی تھیں اس میں ’ح‘ زیادہ ابھر کر سامنے آتی تھی۔ ’خ‘ اور ’ح‘ کا فرق نہیں تھا۔ ان جاپانی خاتون سے سن کر مجھے یہ تأثر ملا ہے کہ اگر تمام جاپانی نہیں تو ان خاتون کی طرح بہت سے ایسے ہوں گے جن کے لئے بعض حروف کی ادائیگی مشکل ہو گی۔ لیکن بہرحال اصل چیز تو خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت ہے۔ اسے حتی الوسع صحیح رنگ میں ادا کرنا چاہئے۔ اس کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ صرف قاری بننا اور دکھاوے کے لئے مقابلوں میں حصہ لینا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَشْھَدُ کے بجائے اَسْھَدُ کہنے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی جو پیار کی نظر تھی اس کا کوئی قاری یا عرب مقابلہ نہیں کر سکتا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد15 صفحہ470)
پس جماعت میں غیر مسلموں سے بھی لوگ شامل ہو رہے ہیں، اسلام لا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت جیسا کہ مَیں نے کہا قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی۔ افریقہ میں ہمارے مبلغین کو بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں جہاں نئے سرے سے قرآن کریم پڑھانا پڑتا ہے۔ نئے سرے سے قرآن کریم کیا بلکہ ابتدا سے قاعدہ پڑھانا پڑتا ہے۔ تو ان لوگوں کو بھی قرآن کریم پڑھانا ہے۔ اس لئے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کو اس طریق سے پڑھانا چاہئے کہ قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ اس پاکستانی خاتون کو بھی اجر دے جنہوں نے ان جاپانی خاتون کو نہ صرف قرآن کریم پڑھایابلکہ لگتا تھا کہ قرآن کریم کی محبت بھی پیدا کی ہے۔
پس اصل چیز قاری کی طرح قراءت نہیں اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر اس طرح الفاظ ادا نہ کر سکیں تو قرآن کریم پڑھنا ہی چھوڑ دیں۔ قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن صرف اس بات پر کہ بعض الفاظ ہم ادا نہیں کر سکتے یا مشکل ہیں، قرآن کریم کو پڑھنا ہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے بلکہ تلاوت کی طرف روزانہ ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے۔ ہاں یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل کے جتنا قریب ترین ہو کر آسانی سے الفاظ کی ادائیگی ہو سکے، کی جائے اور پھر اس میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یہ کوشش کہ ہم قاری کی طرح ہی ہر لفظ کو ادا کریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت خدا تعالیٰ نے ہمیں نہیں بخشی جو غیر عرب ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری مرحومہ بیوی اُمِّ طاہر بیان کرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے لڑکوں (اپنے بچوں) کو پڑھانے کے لئے استاد رکھے ہوئے تھے اور لڑکی کو بھی قرآن پڑھانے کے لئے اسی کے سپرد کیا ہوا تھا۔ اُمِّ طاہرؓ بتاتی ہیں کہ وہ استاد بہت مارا کرتے تھے اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال کر، (درخت کی چھوٹی ٹہنیاں پنسل کی طرح لے کر، بعض لوگ پنسلیں بھی ڈالتے تھے، استاد شاخیں انگلیوں میں ڈال کر) انہیں دباتے تھے۔ مارتے تھے۔ پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم صحیح طور پر تلفّظ کیوں ادا نہیں کرتے۔ ہم پنجابی لوگوں کا لہجہ بھی ایسا ہی ہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادا نہیں کر سکتے۔ (ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961ء صفحہ 3-2 جلد 50/15 نمبر235)
حضرت مصلح موعودنے پھر اس عرب کا بھی واقعہ بیان کیا جس کو مَیں گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے آیا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو تین دفعہ ’ض‘ کا استعمال کیا تو کہنے لگا آپ کس طرح مسیح موعود ہو سکتے ہیں آپ کو تو ضاد بھی کہنا نہیں آتا۔ اس عرب نے یہ بڑی لغو حرکت کی تھی۔ ہر ملک کا اپنا لہجہ ہوتا ہے۔ عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں۔ ہندوستانی اسے ادا نہیں کر سکتے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ اسے یا تو ’دواد‘ کر کے پڑھتے ہیں یا ’ضاد‘ کر کے پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اور ہیں۔ پس جب عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں اور کوئی صحیح طور پر اسے ادا نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کرنے کی بات ہی کیا ہوئی؟ (ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961ء صفحہ 3 جلد 50/15 نمبر235)
پس عرب احمدیوں کو بھی اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے۔ عموماً اکثریت تو اس بات کو سمجھتی ہے لیکن بعض کی طبیعتوں میں کچھ فخر کی حالت بھی ہوتی ہے۔ ایک پاکستانی عورت ایک عرب سے بیاہی ہوئی ہے وہ بھی اپنی طرف سے حلق سے آواز نکال کر سمجھتی ہے کہ میں نے صحیح تلفّظ ادا کر دیا حالانکہ وہ صحیح نہیں ہوتا۔ اگر اس کی ذات تک ہی بات ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی اور مجھے کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن مجھے پتا چلا ہے کہ بعض مجالس میں بیٹھ کر استہزاء کے رنگ میں یہ بات کرتی ہے کہ بعض حروف کی ادائیگی پاکستانیوں کو نہیں آتی، قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا۔ عربی کے الفاظ صحیح ادا نہیں کر سکتے اور عرب بیٹھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ عربوں میں سے ہر ایک ایسا ہو گا جو مذاق اڑاتا ہو۔ ہو سکتا ہے جن عربوں میں یہ بیاہی ہوئی ہیں وہ مذاق اڑاتے ہوں۔ اسلام میں تو ہر قوم کے دل جیت کر انہیں اللہ تعالیٰ کے کلام سے نہ صرف آشنا کروانا ہے بلکہ اسے پڑھنے کے لئے ان کے دلوں میں محبت بھی پیدا کرنی ہے اور ہر ایک کا الگ الگ لہجہ ہے۔ ہر ایک قرآن کریم کی محبت کی وجہ سے اسے بہترین رنگ میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی بھی چاہئے اور یقینا ترتیل کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور جو اس بارے میں نئے مسلمان ہونے والوں کی مدد کر سکتے ہیں اور جنہیں صحیح طرح تلفّظ کے ساتھ پڑھنا آتا ہو۔ انہیں مدد بھی کرنی چاہئے لیکن مذاق اڑانے کی اجازت نہیں ہو سکتی۔
پس جن کو صحیح تلفّظ اگر آتا بھی ہے تو ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مختلف قومیں ہیں، مختلف لوگ ہیں، ہر ایک کا اپنا اپنا لہجہ ہے اور عربی کے ہر لفظ کی ادائیگی ہر ایک سے نہیں ہو سکتی۔
اب مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بعض اور واقعات بھی بیان کرتا ہوں۔ آپ مسلمانوں کی حالت کے بارے میں کہ کیا حالت ہو رہی ہے۔ ایک جگہ ایک مثال سے بیان فرماتے ہیں کہ ’’مثل مشہور ہے کہ کوئی بزدل آدمی تھا اسے وہم ہو گیا کہ وہ بہت بہادر ہے۔ وہ گودنے والوں کے پاس گیا۔ (Tattoo جو کرتے ہیں) پرانے زمانے میں یہ رواج تھا کہ بہادر اور پہلوان لوگ اپنے بازو پر اپنے کیریکٹر اور اخلاق کے مطابق نشان کھدوا لیتے تھے۔ (یہاں یورپ میں بھی اس کا بڑا رواج ہے۔) یہ بھی (بہرحال) گودنے والے کے پاس گیا۔ گودنے والے نے پوچھا تم کیا گدوانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں۔ جب وہ شیر گودنے لگا، جسم پر اس کی شکل بنانے لگاتو اس نے سوئی چبھوئی۔ سوئی چبھونے سے درد تو ہونا ہی تھا۔ وہ دلیر تو تھا نہیں۔ (خیال تھا کہ میں بہت بہادر ہوں۔ ) اس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہا کہ شیر گودنے لگا ہوں۔ اس نے پوچھا شیر کا کونسا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا دُم گودنے لگا ہوں۔ اس آدمی نے کہا کہ اگر شیر کی دُم کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا؟ گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے۔ کہنے لگا اچھا پھر دُم چھوڑ دو، دوسرا کام کرو۔ اس نے پھر سوئی ماری تو بولنے لگا اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ اب دایاں بازو گودنے لگا ہوں۔ اس آدمی نے کہا کہ شیر کا لڑائی یا مقابلہ کرتے وقت دایاں بازو کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا۔ اس نے کہا شیر تو رہتا ہے۔ کہنے لگا پھر اسے بھی چھوڑ دو اور آگے چلو۔ اس طرح وہ بایاں بازو گودنے لگا تو اس نے اسے بھی رہنے دیا کہ کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا۔ پھر ٹانگ گودنی چاہی تو پھر اس نے یہی کہا۔ آخر وہ گودنے والا جو تھا وہ بیٹھ گیا۔ اس آدمی نے جو گودوانے گیا تھا اور سمجھتا تھا میں بڑا بہادر ہوں کہا کہ کام کیوں نہیں کرتے۔ گودنے والے نے کہا اب کچھ رہ نہیں گیا۔ میں کروں کیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہی آجکل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر مسلمان علماء اور لیڈروں کا یہی کام ہے۔ یہ نعرے تو بہت لگاتے ہیں اور عمل کچھ نہیں ہے اور جس بات کی دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اس کا اسلام کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی چھوڑ دو، یہ بھی چھوڑ دو، وہ بھی چھوڑ دو۔ اپنے لئے تو ہر ایک چیز وہ چھڑواتے چلے جاتے ہیں۔ اس تعلق میں آپ ایک اور مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چُلبلی سی تھی۔ آپ میر درد کے نواسے تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے۔ وہاں آم بھی ہوتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب والدہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آموں کے موسم میں آم چوسنے لگتے تو میں جو میٹھا آم ہوتا تھا اس کو کھٹّاکھٹّا کہہ کر الگ رکھ لیتا تھااور باقی آم ان کے ساتھ مل کر کھا لیتا تھا۔ آم چوسنے کے لئے پہلے ایک دفعہ تو چکھنا پڑتا ہے ناں تو چکھتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ کھٹّا ہے حالانکہ وہ میٹھا ہوتا تھا۔ جب آم ختم ہو جاتے تو پھر مَیں کہتا کہ میرا تو پیٹ نہیں بھرا۔ اچھا میں یہ کھٹّے آم ہی کھا لیتا ہوں اور سارے آم کھا لیتا تھا۔ ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدّی نشین ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا بھی پیٹ نہیں بھرا۔ میں بھی آج کھٹے آم چوس لیتا ہوں۔ فرماتے تھے کہ میں نے انہیں بہتیرا زور لگایا مگر وہ باز نہ آئے۔ آخر انہوں نے آم چوسے اور کہا آم تو بڑے میٹھے ہیں تم یونہی کہتے تھے کھٹّے ہیں۔ جس طرح وہ آم چُوستے وقت میٹھے آم الگ کر لیا کرتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چُوس لیتے تھے اور بعد میں کھٹّے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے، حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا ہے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیا جائے ان کا اگر یہ حال ہو تو ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کو جانتے ہی نہیں۔ اسلام کی شریعت نافذ کرنے والے بھی اسی طرح کرتے ہیں کہ دھوکہ دہی سے اپنے لئے علیحدہ چیزیں رکھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تو ان کا بچپنا تھا۔ لیکن یہاں جان بوجھ کر غلط باتیں کی جاتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ دوسرے لوگ جو اسلام کو نہیں جانتے وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ (ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961ء صفحہ 3 جلد 50/15 نمبر235) ہر چیز کو اسی طرح کھا جائیں گے چاہے وہ غلط بھی ہو۔
پس آجکل بھی علماء اپنے لئے جو جواز پیدا کر کے اس طرح کی لوٹ مار کر رہے ہیں اور جو ہر طرف ہمیں نظر آتی ہے تو اس زمانے میں یہی اسلام کے لئے ایک بہت بڑا لمیہ ہے۔ اور ان علماء کی وجہ سے باقیوں نے بھی اسلام کے نام پر لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔ انہی علماء کی وجہ سے مختلف تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جنہوں نے ظلم و تعدی کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے۔
پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح ہمیں اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اپنے ایمان میں اضافہ کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہئے، حضرت مصلح موعودنے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ اگر آپ لوگ تقویٰ و طہارت اپنے اندر پیدا کریں اور دعاؤں اور ذکر الٰہی کی عادت ڈالیں اور تہجد اور درود پر التزام رکھیں تو اللہ تعالیٰ یقینا آپ لوگوں کو بھی رؤیائے صادقہ اور کشوف میں سے حصہ دے گا اور اپنے الہام اور کلام سے مشرف کرے گا۔ اور زندہ معجزہ درحقیقت وہی ہوتا ہے جو انسان کو اپنی ذات میں ظاہر ہو۔ بیشک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں مگر جہاں تک انسان کی اپنی ذات کا سوال ہوتا ہے اس کے لئے وہی معجزہ بڑا ہوتا ہے جس کا وہ اپنی ذات میں مشاہدہ کرتا ہے۔ آجکل بھی لوگ یہی سوال کرتے ہیں۔ اگر معجزے دیکھنے ہیں تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔
ایمان میں زیادتی اور ذاتی نشان کی مثال دیتے ہوئے آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو دیکھ لو۔ انہوں نے جب احمدیت قبول کی اور قادیان میں کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد کابل واپس گئے تو وہاں کے گورنر نے انہیں بلایا اور کہا کہ توبہ کر لو۔ انہوں نے کہا کہ میں توبہ کس طرح کروں۔ جب میں قادیان سے چلا تھا تو اسی وقت مَیں نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ مجھے ہتھکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ پس جب خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ تمہیں اس راہ میں ہتھکڑیاں پہننی پڑیں گی تو اب میں ان ہتھکڑیوں کو اتروانے کی کس طرح کوشش کروں۔ یہ ہتھکڑیاں میرے ہاتھوں میں پڑی رہنی چاہئیں تا کہ میرے رب کی بات پوری ہو۔ اب دیکھو انہیں یہ وثوق اور یقین اس لئے حاصل ہؤا کہ انہوں نے خود ایک خواب دیکھا تھا۔ اسی طرح خواہ کوئی کتنا ہی قلیل علم رکھتا ہو اگر وہ کوئی خواب دیکھ لے تو بزدلی کی وجہ سے وہ اس کو چھپا لے تو اَور بات ہے ورنہ اپنی جھوٹی خواب پر بھی اسے اس سے زیادہ یقین ہوتا ہے۔ (الفضل 22 جولائی 1956ء صفحہ5 جلد45/10 نمبر169)
پس اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان دنیاداروں سے نہیں ڈرتا۔
اس کی ایک اور مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی بہت بڑے بزرگ تھے اور اپنے زمانے کے نیک لوگوں میں سے تھے۔ ایک دفعہ مہاراجہ جمّوں نے ان کو دعوت دی کہ آپ جمّوں آ کر میرے لئے دعا کریں۔ مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ اگر آپ دعا کرانا چاہتے ہیں تو میرے پاس یہاں آئیں۔ (ماخوذ از الفضل 30-27 مارچ 1928ء صفحہ9 جلد15 نمبر77-76) مَیں آپ کے پاس کیوں چل کر جاؤں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو جتنا مرضی کوئی بڑا آدمی ہو انسان اس سے نہیں ڈرتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لوگوں کی پہلے کس قدر عقیدت تھی اس کا اور پھر آپ کے دعوے کے بعد کیا حالت ہو گئی، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا کہ دیکھو ’’براہین احمدیہ کی شہرت کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں آدمی آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک کی تو شہادت بھی موجود ہے جو دعوے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ یعنی حضرت صوفی احمد جان صاحب (جن کا ابھی پہلے ذکر ہوا ہے جنہوں نے راجہ کو کہا تھا کہ دعا کروانی ہے تو یہاں آؤ۔ صوفی احمد جان صاحب) لدھیانوی نے دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ (پہلے بھی ہم کئی دفعہ سن چکے ہیں۔ آپ کا ایک شعر ہے کہ)
سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
یہ تو ایک دُوربین ولی اللہ کی نظر تھی۔ (صوفی احمد جان صاحب تو ایک ولی اللہ تھے۔ ان کی ایک دُوربین نظر تھی جنہوں نے دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی مسیح موعود ہیں۔ چاہے دعویٰ ہے یا نہیں۔ ) مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن کی نگاہ اتنی دُوربین نہ تھی وہ بھی سمجھتے تھے کہ اسلام کی نجات آپ سے وابستہ ہے۔ مگر جب وہ ہتھیار آپ کو دیا گیا (یعنی وہ ہتھیار جس نے اسلام کو فتح کرنا تھا) جس سے دشمن پامال ہو سکتا تھا۔ وہ آب حیات دیا گیا جس سے مسلمانوں کی زندگی مقدر تھی تو بڑے بڑے مخلص آپ سے متنفر ہو گئے اور کہنے لگے جسے ہم سونا سمجھتے تھے افسوس وہ تو پیتل نکلا۔ ایسے لاکھوں انسان یکدم بدظن ہو گئے۔ حتی کہ جب آپ نے بیعت کا اعلان کیا تو پہلے روز صرف چالیس اشخاص نے بیعت کی۔ یا تو لاکھوں لوگ اخلاص رکھتے تھے اور (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) پرانے لوگ سناتے ہیں کہ کس طرح بڑے بڑے علماء کہتے تھے کہ اسلام کی خدمت اسی شخص سے ہو سکتی ہے اور خود لوگوں کو آپ کے پاس بھیجتے تھے حتی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ براہین کے شائع ہونے پر میں مرزا صاحب کی زیارت کے لئے پیدل چل کر قادیان گیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے آخر میں اپنا سارا زور مخالفت میں صَرف کر دیا انہوں نے بھی لکھا کہ تیرہ سو سال کے عرصے میں کسی نے اسلام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی اس شخص نے کی ہے۔ (ماخوذ از الفضل 15 مارچ 1934ء صفحہ6 جلد21 نمبر110)
آجکل بھی مختلف نام نہاد اسلامی ٹی وی چینل اسی حوالے سے بڑی باتیں کرتے ہیں کہ اُس وقت خدمت کی۔ ضرورت تھی۔ لیکن بعد میں نعوذ باللہ بگڑ گئے۔ لیکن اصل میں تو یہ لوگ وہ ہیں جو دلوں کے اندھے ہیں اور جس کو خدا تعالیٰ نے سونا بنایا ہے اسے یہ لوگ پیتل سمجھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کی طرف دیکھنے کی بجائے یہ لوگ اپنے نفسوں کے اندھیروں میں ڈوب گئے ہیں اور کم علم رکھنے والے مسلمانوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو عقل دے۔
ایک دفعہ جب 1931ء کی شوریٰ میں دارالبیعت لدھیانہ کا ذکر ہوا۔ تو حضرت مصلح موعودنے وہاں نمائندگان کو کہا کہ میرے نزدیک یہ یعنی دارالبیعت لدھیانہ کا معاملہ نہایت اہم معاملہ ہے۔ ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت سے اس کا ذکر کیا ہے بلکہ لدھیانہ کو بابِ لُدّ قرار دیا ہے جہاں دجّال کے قتل کی پیشگوئی ہے۔ (وہ جگہ جہاں دشمنوں کا خاتمہ ہو گا، دجال کا خاتمہ ہوگا) ایسے مقام کے لئے جہاں قادیان سے بیعت لینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے گئے جماعت میں (اس جگہ کا) خاص احساس ہونا چاہئے۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ سے بیعت لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا یہاں نہیں بیعت لی جائے گی۔ (یعنی قادیان میں نہیں لی جائے گی) پھر لدھیانہ میں بیعت لی۔ وہاں کے پیر احمد جان صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے دعوے سے پہلے ہی آپ پر ایمان لانے کی توفیق دی تھی (جیسے پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ ) انہوں نے اپنی وفات کے وقت اپنے سب خاندان کو جمع کیا اور کہا کہ حضرت مرزا صاحب مسیحیت کا دعویٰ کریں گے تم سب ایمان لے آنا۔ چنانچہ یہ سب خاندان ایمان لے آیا۔ پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب آپ کے لڑکے ہیں اور حضرت خلیفۃ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ ان کی لڑکی ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ ہے کہ اس مقام کا خاص طور پر نقشہ بنایا جائے اور بیعت کے مقام پر ایک علیحدہ جگہ تجویز کی جائے اور نشان لگا دیا جائے اور اس موقع پر وہاں جلسہ کیا جائے۔ چالیس آدمیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ بیعت لی تھی ان سب کے نام اس جگہ لکھ دئیے جائیں۔ (رپورٹ مجلس مشاورت 1931ء صفحہ107-106)
لدھیانہ کا گھر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پاس ہے وہاں جماعت نے کس حد تک اس پر عمل کیا ہے، اس پر کیا ہو رہا ہے، اس کا ریکارڈاس وقت میرے پاس نہیں ہے بہرحال پتا لگ جائے گا۔ تو اس کو یادگار بنانے کی کوشش بہرحال کی جا رہی ہے۔
پھر لدھیانہ اور پیشگوئی مصلح موعود کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ لایا گیا ہے اور پھر آپ کو بتایا گیا کہ یہ ابوجہل کے لئے ہے۔ اس کی تعبیر یہ تھی کہ اس کے بیٹے عکرمہ کو جنت ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ پھر آپؓ نے واقعہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے لڑکے کو ایسا نیک کیا کہ اس نے دین کے لئے شاندار قربانیاں کیں۔ ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا۔ عیسائی تیر انداز تاک تاک کر مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر مارتے تھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم شہید ہوتے جاتے تھے۔ عکرمہ نے کہا مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا۔ (یہ ابوجہل کے بیٹے تھے۔ ) اور اپنی فوج کے افسر سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان پر حملہ کروں اور ساٹھ بہادروں کو ساتھ لے کر دشمن کے لشکر کے قلب پر (مرکز میں جاکے) حملہ کر دیا اور ایسا شدید حملہ کیا کہ اس کے کمانڈر کو جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا جس سے دشمن کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ یہ جان باز ایسی بہادری سے لڑے کہ جب اسلامی لشکر وہاں پہنچا تو تمام کے تمام یا تو شہید ہو چکے تھے یا سخت زخمی پڑے تھے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سخت زخمی تھے۔ ایک افسر پانی لے کر زخمیوں کے پاس آیا اور اس نے پہلے عکرمہ کو پانی دینا چاہا۔ مگر آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیل بن عمر پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے اس افسر کو کہا کہ پہلے سہیل کو پانی پلاؤ پھر میں پیوں گا۔ مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا بھائی پیاس کی حالت میں پاس پڑا رہے اور میں پانی پی لوں۔ وہ سہیل کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اس کے پاس حارث بن ہشام زخمی پڑے تھے۔ سہیل نے کہا کہ پہلے حارث کو پانی پلاؤ۔ وہ حارث کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے۔ پھر وہ واپس سہیل کے پاس آیا تو وہ بھی وفات پا چکے تھے اور جب وہ عکرمہ کے پاس پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کر چکی تھی۔ تو یہ عکرمہ ابوجہل کے لڑکے تھے۔
پس اگر کوئی شخص شریر ہو، بے دین ہو اور جھوٹا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی ضرور اس جیسا ہی ہو گا۔ مگر خدا تعالیٰ کے کلام میں ایسی شہادتیں ہوتی ہیں جو اس کی صداقت کو واضح کر دیتی ہیں اور جس میں شہادت نہ ہو وہ ماننے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں وہ کس طرح پوری ہوتی ہیں حالانکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھی، رؤیا دیکھا تو آپ بڑے پریشان ہوئے تھے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابوجہل جنت میں ہو اور میں اس کو انگوروں کا خوشہ دے رہا ہوں۔ تو اس سے مراد اصل میں یہی تھی کہ ان کے بیٹے ایمان لے آئیں گے اور اسلام کی خاطر غیر معمولی قربانی کریں گے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی میں بھی (یعنی مصلح موعود والی پیشگوئی میں بھی) دوسری پیشگوئیوں کی طرح بہت سی شہادتیں موجود ہیں۔ آپ نے ایسے وقت میں جب قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہ جانتے تھے یہ پیشگوئی فرمائی۔ قادیان کے کئی بوڑھے لوگوں نے سنایا ہے کہ ہم آپ کو جانتے ہی نہ تھے۔ ہم سمجھا کرتے تھے کہ غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا ہے جس کا نام مرزا غلام قادر ہے۔ تو ایسا شخص جو خود گمنام ہو، جسے اس کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں، یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اولاد دے گا جو زندہ بھی رہے گی اور اس کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا ایسا ہو گا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اس کے ذریعہ اس کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گی۔ کون ہے جو اپنے پاس سے ایسی بات کہہ سکے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ اس کے یہ معنی بھی تھے کہ وہ اس پیشگوئی سے چوتھے سال میں پیدا ہوگا۔ چنانچہ آپ نے یہ پیشگوئی 1886ء میں کی اور (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میری پیدائش 12؍جنوری 1889ء (eighteen eighty-nine) میں ہوئی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23؍مارچ 1889ء کولدھیانہ میں پہلی بیعت لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ہماری جماعت میں بھی اور باہر بھی بہت چرچا ہے۔ عموماً یہ سوال کیا جاتا تھا کہ وہ لڑکا کون ہے؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ پیشگوئی میں اس لڑکے کا نام محمود بھی بتایا گیا تھا اس لئے بطور تفاؤل کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرا نام محمود بھی رکھا۔ اور چونکہ اس کا نام بشیر ثانی بھی تھا اس لئے میرا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا۔ جہاں تک اولاد ہونے اور اس کے زندہ رہنے کا تعلق تھا یہ پیشگوئی تو پوری ہوئی اور ایک بیٹے کا نام محمود رکھنے کی توفیق بھی آپ کو ملی۔ مگر دنیا انتظار کر رہی تھی کہ پیشگوئی کس لڑکے کے متعلق ہے؟ چنانچہ آج میں یہی بتانے کے لئے لدھیانہ آیا ہوں (آپ لدھیانہ گئے تھے)۔ آپ فرماتے ہیں کہ لدھیانہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کئی رنگ میں تعلق ہے۔ لدھیانہ کی جو اہمیت جماعت کی تاریخ کے ساتھ ہے اس کے کئی پہلو ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت اسی شہر میں لی۔ (ایک تعلق) آپ کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے اور ان کی شادی لدھیانہ میں ہی حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے ہاں ہوئی تھی (یہ دوسرا تعلق) اور اس پیشگوئی میں جس لڑکے کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بیوی کے بطن سے پیدا ہوا جو لدھیانہ میں بھی رہی ہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کچھ عرصہ مَیں یہاں بھی رہا ہوں۔ میں اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کوئی خاص باتیں تو اس زمانے کی یادنہیں ہیں کیونکہ اس وقت میری عمر دو اڑھائی سال کی تھی۔ (اب دیکھیں اس عمر میں بھی بعض باتیں جو یاد ہیں عموماً یادنہیں رہتیں لیکن آپ وہ باتیں بھی بیان کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ) صرف ایک واقعہ یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ سڑک کے سر پر تھا اور سیدھی سڑک تھی۔ میں اپنے مکان سے باہر آیا تو ایک چھوٹا سا لڑکا دوسری طرف سے آ رہا تھا۔ اس نے میرے پاس آ کر ایک مری ہوئی چھپکلی مجھ پر پھینکی۔ میں اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ روتا ہؤا گھر کی طرف بھاگا۔ اس بازار کا نقشہ مجھے یاد ہے۔ وہ سیدھا بازار ہے گو اب میں نہیں جانتا کہ وہ کونسا تھا۔ ہمارا مکان ایک سرے پر تھا۔ تو میں نے کئی ماہ اپنے بچپن کی عمر کے یہاں گزارے ہیں۔ پس اس شہر کا کئی رنگ میں احمدیت کے ساتھ تعلق ہے۔ (ماخوذ از اہالیان لدھیانہ سے خطاب۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ257تا259)
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اس شہر کی بڑی خصوصیت ہے جیسا کہ بیان کی ہوئی باتوں سے ظاہر ہے۔ لیکن فرماتے ہیں کہ میں سوچ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے ان کی مخالفت لوگ ضرور کرتے ہیں اور پیشگوئی مصلح موعود کا اعلان کیا گیا تھا۔ لاہور میں لدھیانہ سے پہلے جلسہ ہو گیا تھا، ہوشیارپور میں ہوگیا تھا لیکن مخالفت نہیں ہوئی تھی۔ تو فرماتے ہیں کہ باوجود میرے اس اعلان کے بعد کہ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے، میرے پر مخالفت نہیں ہو ئی تھی۔ معلوم نہیں کسی نے مخالفت کیوں نہیں کی۔ لیکن لدھیانہ آئے۔ کہتے ہیں یہاں آ کر جب مَیں شہر میں سے گزر رہا تھا تو لوگوں کا جلوس نعرے لگاتا ہوا گزر رہا تھا کہ نعوذباللہ مرزا مر گیا، مرزا مر گیا۔ تو بہرحال ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے یہ استہزاء کیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری چمک کے ساتھ پوری ہوئی ہے۔ آگے حضرت مصلح موعودنے یہ دعا بھی کی ہے کہ اللہ کرے کہ لدھیانہ کے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوماننے کی توفیق بھی عطا ہو اور آج جو مخالفت میں نعرے لگا رہے ہیں کل حق میں نعرے لگانے والے ہوں۔ (ماخوذ از اہالیان لدھیانہ سے خطاب۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ260)
آپ کے ایک صحابی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کے عشق اور تعلق کا ذکر کرتے ہوئے آپ (حضرت مصلح موعودؓ ) بیان فرماتے ہیں کہ میاں عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے۔ اس لئے جب میاں عبداللہ صاحب سنوری کی چھٹی ختم ہو گئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جانے کے لئے اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا ابھی ٹھہر جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوا دی مگر محکمے کی طرف سے جواب آیا کہ اَور چھٹی نہیں مل سکتی۔ انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔ چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آ سکتا۔ اس پر محکمے والوں نے انہیں dismissکر دیا۔ (سرکاری محکمہ تھا) چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے۔ پھر جب واپس آ گئے تو محکمے نے یہ سوال اٹھا دیا کہ جس افسر نے انہیں dismissکیا تھا اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں dismiss کرتا۔ چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو قادیان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی۔
اسی طرح ایک اور مثال آپ نے دی۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں ڈلہوزی کا سفر کر رہا تھا۔ کل رستے میں مجھے میاں عطاء اللہ صاحب وکیل نے یہ سنایا۔ یہ واقعہ الحکم میں بھی 1934ء میں پہلے چھپ چکا ہے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ) اس لئے میں منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کر دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں جب سررشتہ دار ہو گیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دفعہ مسلیں وغیرہ بند کر کے قادیان چلا آیا۔ تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے) فرمایا ابھی ٹھہریں۔ پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے۔ اس پر ایک مہینہ گزر گیا۔ ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں۔ کام بند ہو گیا اور سخت خطوط آنے لگے۔ مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق وہم بھی نہ آتا تھا۔ (کہتے ہیں میں سب کچھ بھول گیا۔ خطوط آتے ہیں آتے رہیں۔) حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری کے جانے کا خیال تھا اور نہ ہی کسی بازپرسی کا اندیشہ۔ آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا۔ کہتے ہیں میں نے وہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے پڑھا اور فرمایا لکھ دو ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ (ہم نہیں ابھی آ سکتے۔ ) میں نے وہی فقرہ لکھ دیا۔ اس پر ایک مہینہ اور گزر گیا تو ایک دن فرمایا کتنے دن ہو گئے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ ہی گننے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں۔ میں چلا گیا اور کپور تھلہ پہنچ کر لالہ ہرچندداس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا۔ (مجسٹریٹ کی عدالت میں ہی ملازمت تھی) تاکہ معلوم کروں کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ (نوکری میں رکھنا ہے، نکال دیا ہے، جرمانہ کرنا ہے، کیا ہؤا؟ جب ان کے گھر گیا تو) انہوں نے کہا منشی جی آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہو گا۔ (یہی بات مجسٹریٹ نے کی) میں نے کہا ہاں۔ تو مجسٹریٹ صاحب کہنے لگے ان کا حکم مقدم ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا۔) تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میاں عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اس قدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لکھ دو کہ ہم نہیں آ سکتے تو میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھجوا دئیے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ ایک گروہ تھا جس نے عشق کا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اپنی پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی نہیں ہو سکتیں۔ ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں، کتنی ہی غفلتیں ہوں لیکن اگر حضرت موسیٰ کے صحابی ہمارے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں تو ہم ان کے سامنے اس گروہ کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عیسیٰ کے صحابی اگر قیامت کے دن اپنے اعلیٰ کارنامے پیش کریں تو ہم فخر کے ساتھ ان کے سامنے اپنے ان صحابہ کو پیش کر سکتے ہیں۔ اور یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میری امّت اور مہدی کی امّت میں کیا فرق ہے تو درحقیقت ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے فرمایا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی طرح ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی دیکھ لو۔ ان کو خدا نے چونکہ خود جماعت میں ایک ممتاز مقام بخش دیا ہے اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا ورنہ ان کی قربانیوں کے واقعات بھی حیرت انگیز ہیں۔ آپ جب قادیان میں آئے تو اس وقت بھیرہ میں آپ کی پریکٹس جاری تھی، مطب کھلا تھا اور کام بڑے وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب آپ نے واپس جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کیا جانا ہے، آپ اسی جگہ رہیں۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اسباب لینے کے لئے بھی نہیں گئے۔ (اپنا سامان لینے نہیں گئے) بلکہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر بھیرہ سے اپنا اسباب منگوایا۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جو جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور ممتاز کیا کرتی ہیں اور یہی وہ مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر شخص کو جدوجہد کرنی چاہئے۔ خالی فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آ سکتا۔ انسان کے کام آنے والا وہی ایمان ہے جس میں عشق اور محبت کی چاشنی ہو۔ فلسفی اپنی محبت کے کتنے ہی دعوے کرے ایک دلیل بازی سے زیادہ ان کی وقعت نہیں ہوتی کیونکہ اس نے صداقت کو دل کی آنکھ سے نہیں بلکہ محض عقل کی آنکھ سے دیکھا ہوتا ہے۔ مگر وہ جو عقل کی آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی صداقت اور شعائر اللہ کو پہچان لیتا ہے اسے کوئی شخص دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے کہ دماغ کی طرف سے فلسفہ کا ہاتھ اٹھتا ہے اور دل کی طرف سے عشق کا ہاتھ اٹھتا ہے۔ (ماخوذ از الفضل 28 اگست 1941ء صفحہ7-6 جلد29 نمبر196) اللہ تعالیٰ ہمیں دل کی آنکھ سے زمانے کے امام کو پہچاننے اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ ہم شعائر اللہ کو پہچاننے والے ہوں اور کبھی شیطان ہمیں دھوکہ نہ دے سکے۔
نماز کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گاجو ایک ہمارے درویش بھائی کا ہے۔ مکرم مولوی خورشید احمد صاحب پربھاکر ابن مکرم چوہدری نواب الدین صاحب۔ 28؍جولائی 2015ء کو 94سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ لائلپور کے (یہ آجکل فیصل آباد کہلاتا ہے) اس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ 1936ء میں پندرہ سال کی عمر میں پہلی بار قادیان کی زیارت کے لئے آئے اور مسجد مبارک کی چھت پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک مجلس سوال و جواب میں شامل ہوئے۔ واپسی کا کرایہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے قادیان سے امرتسر اور وہاں سے لاہور تک قریباً 95کلو میٹر کا فاصلہ پیدل کیا۔ 19سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہو گئے۔ 1937ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ تحریک جدید کی شمولیت کی میعاددسمبر 1936ء میں ختم ہو چکی ہے۔ میں اُس وقت طالبعلم تھا۔ اب مجھے کچھ آمد ہے۔ مجھے بھی استثنائی طور پر تحریک جدید میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے آپ کو اور ان تمام بیروزگار طلباء کو جو برسرروزگار ہو گئے تھے اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر مولوی خورشید احمد صاحب پربھاکر نے سندھ میں بھی جماعتی زمینوں پر کام کیا۔ 1947ء کے شروع میں زندگی وقف کر کے قادیان پہنچ گئے۔ اسی سال ہندوستان تقسیم ہوا جس کے نتیجہ میں درویشی کی سعادت نصیب ہوئی۔ دَورِ درویشی کو انتہائی صبر اور شکر اور وفا کے ساتھ نبھایا۔ دیہاتی مبلغ کے طور پر بھارت کے صوبہ یوپی میں دعوت و تبلیغ کا کام بہت اچھے رنگ میں کیا۔ میدان تبلیغ سے واپس قادیان آنے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ قادیان میں بطور استاد خدمت کی توفیق پائی۔ نظارت دعوت تبلیغ کے تحت تین سال تک ہندی کی تعلیم حاصل کی اور رتن، بھوشن اور پربھاکر ہندی کی تین ڈگریاں حاصل کیں۔ وید، بائبل، گیتا، گرو گرنتھ صاحب کا اچھا مطالعہ رکھتے تھے۔ ہندوازم، سکھ ازم اور عیسائی ازم پر تحقیقی مضامین لکھتے رہے اور قرآن کریم کا ہندی ترجمہ کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ ہفت روزہ اخبار بدر قادیان میں آپ کے مضامین اس وقت سے طبع ہونے شروع ہوئے جب 1952ء میں تقسیم ملک کے بعد اخبار دوبارہ جاری ہوا اور یہ سلسلہ 2013ء تک جاری رہا۔ گویا یہ سلسلہ مضامین ساٹھ سال پر محیط ہے۔ اس کے علاوہ سلسلے کے دیگر رسائل جن میں مشکوۃ، راہ ایمان شامل ہیں ان میں بھی وقتاً فوقتاً آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ نیز دیگر ملکی اخبارات میں بھی آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے جن میں روزنامہ ہندسماچار، ملاپ اور کشمیر کے اخبارات شامل ہیں۔ مرحوم کا ایک کتابچہ ’حکومت وقت اور احمدی مسلمان‘ 1963ء میں نظارت دعوت و تبلیغ کے تحت شائع ہوا اور بہت مقبول ہوا۔ آپ کے مضامین اور نظمیں بڑی اعلیٰ پائے کی ہوتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بھی ان کی بڑی تعریف کی اور واقعی پڑھنے میں پتا لگتا تھا کہ دل سے نکل رہی ہے۔ علمی مضامین ہوتے تھے۔ آپ بہت خوددار انسان تھے۔ کبھی کسی کا محتاج بننا پسندنہیں کیا۔ اپنا کام خود کرتے رہے۔ علمی کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کو ساتھ لے کر زمینداری اور مویشیوں کے پالنے کا کام بھی جاری رکھا اور صاحب جائیداد ہو کر بچوں کے لئے ذاتی رہائش کا انتظام کر کے جماعتی مکان انجمن کو واپس کر دیا۔ یہ ان کا بہت بڑا نمونہ ہے۔ سخت بیماری کے ایام میں بھی باقاعدگی سے مسجد میں نماز ادا کرتے رہے۔ موصوف کو سچی خوابیں آتی تھیں جو آپ خلفاء کرام کو لکھتے اور بھیجتے رہے۔ وفات سے ایک ماہ قبل اپنے چھوٹے بیٹے ابراہیم کو اپنی وفات کا بتا دیا تھا اور پھر ایک ہفتہ قبل یاددہانی بھی کروائی۔ آپ کی دو شادیاں ہوئیں۔ پہلی شادی محترمہ عالم بی بی صاحبہ سے 1944ء میں ہوئی جن سے آپ کا ایک بیٹا منیر احمد پاکستان میں ہے۔ دوسری شادی 1956ء میں عائشہ بیگم صاحبہ بنت عبدالرزاق صاحب آف ہبلی کرناٹک سے ہوئی جن سے اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں۔ ان کے بیٹوں میں اسرائیل احمد، کرشن احمد، ابراہیم احمد اور داماد شکیل احمد اور محمود احمد صاحب سلسلے کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولادوں کو اور نسلوں کو بھی خلافت سے اور جماعت سے وابستہ رہنے کی ہمیشہ توفیق عطا فرماتا رہے۔
اگر قرآن پڑھانا ہے تو ایسے طریقے سے پڑھانا چاہئے جس سے شوق اور محبت پیدا ہو اصل چیز تو خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت ہے۔ اسے حتی الوسع صحیح رنگ میں ادا کرنا چاہئے۔
اس کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ صرف قاری بننا اور دکھاوے کے لئے مقابلوں میں حصہ لینا۔
قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کو اس طریق سے پڑھانا چاہئے کہ قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔
اصل چیز قاری کی طرح قراءت نہیں اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر اس طرح الفاظ ادا نہ کر سکیں تو قرآن کریم پڑھنا ہی چھوڑ دیں۔ قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے۔ تلاوت کی طرف روزانہ ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے۔
یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے کہ اصل کے جتنا قریب ترین ہو کر آسانی سے الفاظ کی ادائیگی ہو سکے، کی جائے اور پھر اس میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔
اگر آپ لوگ تقویٰ و طہارت اپنے اندر پیدا کریں اور دعاؤں اور ذکر الٰہی کی عادت ڈالیں اور تہجد اور درود پر التزام رکھیں تو اللہ تعالیٰ یقینا آپ لوگوں کو بھی رؤیائے صادقہ اور کشوف میں سے حصہ دے گا اور اپنے الہام اور کلام سے مشرف کرے گا۔
جماعت کی تاریخ میں دار البیعت لدھیانہ کی اہمیت کا تذکرہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحابہ کی آپؑ سے بے پناہ محبت اور اطاعت کے روح پرور واقعات کا بیان۔
مکرم مولوی خورشید احمد صاحب پربھاکر درویش قادیان کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 31؍جولائی 2015ء بمطابق 31 وفا 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔