حضرت مصلح موعودؓ: صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق واقعات
خطبہ جمعہ 7؍ اگست 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ان کی نیک فطرت، ان کی صداقت کی پہچان کے لئے تڑپ، ان کی جان مال قربان کرنے کے لئے تڑپ اور کوشش اور ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت کے اپنے اپنے ذوق اور سمجھ کے مطابق معیار اور اس کا اظہار نظر آتا ہے۔ غرضیکہ یہ وہ آخرین تھے جو پہلوں سے ملنے کے لئے اپنے اپنے رنگ میں حق ادا کرنے والے بننے کے لئے کوشش کرنے والے تھے۔ ہر ایک کا اپنا انداز تھا اور ان کو دیکھنے والوں اور ان سے قریبی تعلق والوں نے بھی ان صحابہ کے ہر انداز اور اخلاق و کردار سے اپنے اپنے رنگ میں نصیحت حاصل کی یا بعض باتوں سے نتائج اخذ کئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو خود بھی صحابہ میں سے تھے اور تقریباً تمام صحابہ سے یا جن کے واقعات آپ بیان فرماتے ہیں ان سے آپ کا ذاتی تعلق بھی تھا۔ آپ جب صحابہ کے حوالے سے بات کر کے ان سے نتائج اخذ کر کے نصیحت کرتے ہیں تو ان نصائح کا دل پر ایک خاص اثر بھی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ہم کسی واقعہ سے ایک پہلو لیتے ہیں لیکن جب غور کریں تو مختلف پہلو سامنے نظر آتے ہیں اور ایک ہی واقعہ مختلف رنگ میں نصیحت بن جاتا ہے۔ مثلاً مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا واقعہ ہے۔ ان کی بیعت کا جو واقعہ تھا اس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رنگ میں بیان فرمایا ہے۔
مولوی برہان الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو پہلی دفعہ ملاقات کی ہے وہ بھی حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ’’ایک لطیفہ ہی ہے۔ کہتے تھے کہ میں قادیان میں آیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے اس لئے وہاں گیا۔ جس مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے اس کے ایک طرف باغ تھا۔ حامد علی (مرحوم) دروازے پر بیٹھا تھا۔ (یہ وہ بیان کرتے ہیں ) تو اس نے مجھے(یعنی مولوی صاحب کو) اندر جانے کی اجازت نہ دی۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ میں چُھپ کر دروازے تک پہنچ گیا۔ آہستگی سے دروازہ کھول کر جو دیکھا تو حضرت صاحب ٹہل رہے تھے اور جلدی جلدی لمبے لمبے قدم اٹھاتے تھے۔ (یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ ہم سن چکے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب کہتے ہیں کہ) مَیں جھٹ پیچھے کو مڑا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص صادق ہے جو جلدی جلدی ٹہل رہا ہے ضرور اس نے کسی دُور کی منزل پر ہی پہنچنا ہے تبھی تو یہ جلدی جلدی چل رہا ہے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) وہابی ہو کر (حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی وہابی تھے) مولوی صاحب کا اس قسم کا خیال کرنا عجیب ہی بات ہے ورنہ عموماً یہ لوگ خشک ہوتے ہیں‘‘۔ (یعنی وہابی لوگ عموماً خشک ہوتے ہیں۔ شدت پسند ہی ہوتے ہیں۔) (الفضل 17؍اپریل 1922ء صفحہ 6جلد 9نمبر 81)
اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو صداقت کی پہچان کروانی تھی تو نہ ان کو کسی قرآنی دلیل کے سمجھنے کا خیال آیا، نہ کسی حدیث کی دلیل کے سمجھنے کا، نہ کسی اور قسم کی دلیل کا خیال آیا۔ وہابی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بڑی شدت سے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ وحی و الہام کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ پھر ایسے خیالات بھی ہیں کہ نعوذ باللہ نبی یا ولی کو ہم پر کیا فضیلت ہے۔ جس طرح ہم ہیں، جس طرح باقی لوگ ہیں اسی طرح نبی بھی انسان ہے، ولی بھی انسان ہے۔ میں مختصر بیان بھی کر دوں شاید بعضوں کو نہ پتا ہو۔
ان کے اس غلط تصور کو ردّ کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے۔ وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے۔ خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دنیا کے لئے اس میں برکات ہوتے ہیں۔ اپنے جیسا سمجھ لینا (یعنی وہابیوں کا یہ خیال کہ وہ ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں۔ انسان ہیں ) ظلم ہے۔ اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد5 صفحہ213حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اب یہ خاص چیز ہے کہ انبیاء اور اولیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے۔ بہر حال حضرت مولوی برہان الدین صاحب کی نیک فطرت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیز چلنے کو ہی صداقت کا نشان سمجھ لیا۔ اللہ تعالیٰ کے خاص پیار کی نظر تھی جو حضرت مولوی صاحب پر پڑی ورنہ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دلائل سن کر، نشان دیکھ کر پھر بھی نہیں مانتے۔ یہ بھی درست نہیں کہ ہم یہ کہہ دیں کہ سارے وہابی سخت دل ہو گئے ہیں یا ہوتے ہیں۔ افریقہ میں ہزاروں ایسے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے قائل ہوئے اور آپ کی بیعت میں آئے۔ وحی و الہام کی ہر وقت ضرورت کا ان لوگوں کو احساس ہوا اور یہ بھی پتا چلا کہ اولیاء اور انبیاء بارش کی طرح ہیں جن کے آنے سے زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے۔ پس روحانی سرسبزی کے لئے الہام کا جاری رہنا بھی ضروری ہے۔
پھر آپ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جو حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کے اخلاص اور قربانی کا ہے۔ ’’سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں احمدی ہوئے۔ ان میں بڑا اخلاص تھا اور خوب تبلیغ کرنے والے تھے۔ ان کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑے درد سے سنایا کرتے تھے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے بھی جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو ان کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے۔ ابتدا میں ان کی مالی حالت بڑی اچھی تھی اور اس وقت وہ دین کے لئے بڑی قربانی کرتے تھے۔ تین سو، چار سو، پانچ سو روپے تک ماہوار چندہ بھیجتے تھے۔ خدائی قدرت وہ بعض کام غلط کر بیٹھے (یعنی تجارتی لحاظ سے انہوں نے غلط کام کئے۔ اور جو فیصلے تھے وہ غلط کئے) اور اس وجہ سے ان کی تجارت بالکل تباہ ہو گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام انہیں کے متعلق ہوا تھا کہ
قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بنا وے
بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھیدنہ پاوے
جب یہ الہام ہوا تو پہلے مصرعہ کی طرف ہی خیال گیا اور ’’قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے‘‘ سے یہ سمجھا گیا کہ سیٹھ صاحب کا کاروبار پھر درست ہو جائے گا اور دوسرے مصرعہ ’بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھیدنہ پاوے‘‘، کی طرف(کسی کا)ذہن نہ گیا کہ پہلے کام بنے گا اور پھر بگڑ بھی جائے گا۔ بلکہ اسے ایک عام اصول سمجھا گیا۔ سیٹھ صاحب کے کاروبار کو دھکا لگنے کے بعد دو تین سال حالت اچھی ہو گئی۔ (جب یہ الہام ہوا اس کے بعد کاروبار پھر چمک اٹھا۔ حالت اچھی ہو گئی) مگر پھر(دوبارہ) خراب ہو گئی اور یہاں تک حالت پہنچ گئی کہ بعض اوقات کھانے پینے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہ ہوتا تھا۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عجیب محبت کے رنگ میں ان کا ذکر کیا۔ فرمایا سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کا اخلاص کتنا بڑھا ہوا تھا۔ پانچ سو روپے کی رقم تھی جو انہوں نے اس موقع پر بھیجی تھی۔ (کوئی رقم آئی تھی اس کو دیکھ کر ذکر ہوا تھا) کسی دوست نے ان کی مشکلات کو دیکھ کر دو تین ہزار روپیہ انہیں دیا کہ کوئی تجارتی کام شروع کر دیں یا برتنوں کی دکان کھولیں۔ اس میں سے پانچ سو روپیہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھجوا دیا اور لکھا کہ مدت سے میں چندہ نہیں بھیج سکا۔ اب میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے ایک رقم بھجوائی ہے تو میں اس میں سے دین کے لئے کچھ نہ دوں۔ غرض خدمت دین کے لئے ان کا اخلاص بہت بڑھا ہوا تھا۔‘‘ (خطبات محمود جلد 3صفحہ 542)
پھر ان کے بارے میں مزید ایک جگہ تفصیل بیان کرتے ہوئے کہ ان کو اپنی مالی قربانی کا درد کس قدر تھا یعنی کس قدر درد سے قربانی کیا کرتے تھے اور نہ کرنے پر کس قدر بے چین ہوتے تھے۔ ان کی کیا حالت ہوتی تھی؟ اور اس کا اظہار وہ دوسرے سے بھی کس طرح کیا کرتے تھے؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’جب ان کی مالی حالت بہت خراب ہو گئی جیسا کہ ذکر ہوا کہ بعض دفعہ کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور بعض دوست ان کی مدد کرتے تھے۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک غیر احمدی کا منی آرڈر آیا جس نے لکھا تھا کہ سیٹھ عبدالرحمن میرے بڑے دوست تھے مجھے ان پر بہت حسن ظنی ہے اور ان کو بزرگ سمجھتا ہوں اور ان کا عقیدت مند ہوں۔ (یہ غیر احمدی لکھتے ہیں کہ) ایک روز میں نے ان کو بہت افسردہ دیکھا(سیٹھ صاحب کو) اور اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ جب میرے پاس روپیہ تھا تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں دین کے لئے بھیجا کرتا تھا مگر اب نہیں بھیج سکتا۔ (یہ غیر احمدی کہتے ہیں کہ) ان کی اس بات کا میری طبیعت پر بڑا اثر ہوا اور میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کو دو یا تین سو روپیہ ماہوار بھیجا کروں گا۔ چنانچہ اس غیراحمدی نے آپ کو روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) ایک دفعہ سیٹھ صاحب کی طرف سے ایک منی آرڈر آیا جو شاید تین یا چار سو کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھاتو فرمایا۔ یہ منی آرڈر سیٹھ صاحب کا ہے ان کی مالی حالت تو بڑی خطرناک ہے۔ (پھر کس طرح بھیج دیا ہے؟) بعد میں ان کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ مجھ پر کچھ قرض ہو گیا تھا جسے اتارنے کے لئے میں نے اپنے دوست سے کچھ روپیہ لیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کچھ آپ کو بھی بھیج دوں۔ چنانچہ کچھ تو قرض اتار دیا اور کچھ آپ کو بھیج رہا ہوں‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد23صفحہ402) تو یہ ان کا اخلاص اور وفا اور قربانی کا جذبہ تھا۔
پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہ کس طرح آپ کے دعوے کے بعد کہ آپ مسیح موعود ہیں اور اس لحاظ سے نبی اور رسول بھی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کو یہ مقام ملا ہے، نہ کہ اپنی کسی قابلیت کی وجہ سے پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہو گئی۔ اب تک ہم یہی نظارہ دیکھتے ہیں۔ پھر حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ آپ نے تمام مذاہب کو جو چیلنج کیا تو اس کی وجہ سے عیسائی بھی اور ہندو بھی آپ کے خلاف ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تذلیل کی بڑی کوششیں کی گئیں۔ آپ پر مقدمات قائم کئے گئے حتی کہ متواتر تین ماہ تک عام سرکاری رخصتوں کے علاوہ برابر روزانہ کئی کئی گھنٹے آپ کو عدالت میں کھڑا رہنا پڑتا۔ ایک دن مجسٹریٹ نے اپنی دشمنی کی وجہ سے آپ کو پانی تک پینے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہم آج ان باتوں کو بھول گئے ہیں مگر اس زمانے کے مخلصین کے لئے یہ ایک بہت بڑا ابتلاء تھا۔ وہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ سنتے تھے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور تیرے نہ ماننے والے دنیا میں ادنیٰ اقوام کی طرح رہ جائیں گے۔ مگر دوسری طرف دیکھتے تھے کہ ایک معمولی چارپانچ سو تنخواہ لینے والا ہندو مجسٹریٹ آپ کو کھڑا رکھتا ہے اور پانی تک پینے کی اجازت نہیں دیتا۔ حتی کہ آپ کا کھڑے کھڑے سر چکرا جاتا اور پاؤں تھک جاتے۔ کمزور ایمان والے حیران ہوتے ہوں گے کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس قدر وعدے ہیں۔ غرضیکہ یہ بھی ابتلاء تھے۔ بعض کے لئے اس لحاظ سے کہ یہ کتنی بیچارگی ہے اور بعض کے لئے اس لحاظ سے کہ وہ اپنے ایمان کا یہی اقتضاء سمجھتے تھے۔ ان کے ایمان کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے مخالفین کو مار ہی ڈالیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے وہ نظارہ یاد ہے جس دن ایک کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا کہ ہماری جماعت میں ایک دوست تھے جن کو پروفیسر کہا جاتا تھا۔ پہلے جب وہ احمدی نہیں تھے تو تاش وغیرہ کے کھیل بڑے اعلیٰ پیمانے پر کھیلا کرتے تھے یعنی جوأ کھیلتے تھے۔ اچھے ہوشیار آدمی تھے اور اسی طرح تاش کے کھیل سے چار پانچ سو روپیہ ماہوار کما لیتے تھے۔ مگر احمدی ہونے پر انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔ (یہ بھی احمدیوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔ اگر پہلے جوا ٔ کی عادت تھی تو احمدی ہونے پر یہ کام چھوڑ دیا) اور معمولی دکان کر لی تھی۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا اور اس وجہ سے غربت کو بڑے اخلاص سے برداشت کرتے تھے۔ ان کے اخلاص کی ایک مثال حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مَیں سناتا ہوں کہ ’’انہوں نے لاہور میں جا کر کوئی دکان کی۔ جو گاہک آتے انہیں تبلیغ کرتے ہوئے لڑپڑتے۔ اگر گاہک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کوئی ایسی بات کر دیتا تو لڑ پڑتے۔ ایک دن خواجہ کمال الدین صاحب نے آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محبت سے انہیں کہا کہ پروفیسر صاحب ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو۔ خدا تعالیٰ کی یہی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھاتے جاتے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ سرخ ہوتا جاتا تھا۔ ادب کی وجہ سے وہ بیچ میں تو نہ بولے مگر سب کچھ سن کر یہ کہنے لگے کہ میں اس نصیحت کو نہیں مان سکتا۔ پھر کہنے لگے کہ آپ کے پیر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی ایک لفظ بھی کہے تو آپ مباہلے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں مگر ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو اگر گالیاں دیں تو چپ رہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) بظاہر یہ بے ادبی تھی مگر اس سے ان کے عشق کا پتا ضرور لگ سکتا ہے۔ (بہرحال مقدمے کا ذکر ہو رہا تھا جس دن مجسٹریٹ نے فیصلہ سنانا تھا) جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو لوگوں کو یقین تھا کہ مجسٹریٹ ضرور سزا دے دے گا اور بعیدنہیں کہ قید کی ہی سزا دے۔ ادھر جو احمدی مخلصین تھے ان کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس دن عدالت کی طرف سے بھی زیادہ احتیاط کی گئی تھی۔ پہرہ بھی زیادہ تھا(یعنی پولیس بہت زیادہ تھی۔) جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام (عدالت کے) اندر تشریف لے گئے تو دوستوں نے پروفیسر صاحب کو باہر روک لیا کیونکہ ان کی طبیعت تیز تھی۔ پروفیسر صاحب نے ایک بڑا سا پتھر ایک درخت کے نیچے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک دیوانہ چیخ مارتا ہے زار زار روتے ہوئے دفعۃً وہ درخت کی طرف بھاگے اور وہاں سے پتھر اٹھا کر بے تحاشا عدالت کی طرف دوڑے اور اگر جماعت کے لوگ راستہ میں نہ روکتے تو وہ مجسٹریٹ کا سر پھوڑ دیتے۔ انہوں نے خیال کر لیا کہ مجسٹریٹ ضرور سزا دے دے گا اور اسی خیال کے اثر کے ماتحت وہ اسے مارنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 15صفحہ 66۔ 67)
پس ایسے حالات میں بعض لوگوں کے ایسے ردّعمل ہوتے ہیں۔ کمزور ایمان والے مرتد ہو جاتے ہیں۔ (جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی ہی حالت تھی) اور مخلصین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بہت زیادہ جذباتی رنگ رکھنے والے جیسا کہ پروفیسر صاحب تھے، تھوڑے سے جذباتی بھی اور غصیلے بھی اور وہ ایسی سوچ رکھنے والے خود بدلہ لینے کی بھی سوچ لیتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تعلیم ہے اور تربیت ہے جو ہمارے لئے اسوہ ہے اور ایک لائحہ عمل ہے اسے ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے ہمیشہ صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے۔ آج بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ انجامکار تو انشاء اللہ تعالیٰ وہی ہونا ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور صبر اور دعا سے کام لینے والے انشاء اللہ اس کے نظارے بھی دیکھیں گے۔ بعض دنوں کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ کوئی دن اچھا ہے کوئی منحوس ہے۔ کسی دن سفر کرو کسی میں نہ کرو۔ بعض لوگ سوال کرتے رہتے ہیں، مجھ سے بھی پوچھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ بھی بعض دفعہ پیش کر دیا جاتا ہے یا حضرت امّاں جان کا حوالہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت امّاں جان کا حوالہ یہ تھا کہ حضرت مصلح موعودنے لکھا کہ منگل والے دن یا بعض اَور دنوں میں انہوں نے مجھے سفر کرنے سے روکا۔ ان کی کوئی خواب تھی یا وہم تھا تو وہ اس کا تقاضا تھا جس کی وجہ سے حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے۔ اصل میں تو دن کی کوئی اہمیت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بھی آپ نے اس کی ایک وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے کسی نے کہا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے کسی دن کو منحوس کہا ہے۔ کہنے والے نے حضرت مصلح موعود کو کہا کہ ’’آپ ہی نے تو کسی تقریب میں کہا تھا کہ منگل کے دن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شاید کوئی الہام ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ آپ اسے ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے تو ایک روایت کی تشریح کی تھی یہ تو نہیں کہا تھا کہ منگل کا دن منحوس ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جاتی ہے۔ اس لئے میں نے بتایا تھا کہ اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے کہ شاید منگل کے دن سے آپ کو اس لئے تخویف کرائی گئی ہو کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی۔ مگر بعض لوگوں نے اس مخصوص بات کو جو محض آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی وسیع کر کے اسے ایک قانون بنا لیا اور منگل کی نحوست کے قائل ہو گئے۔ حالانکہ جو چیز خدا کی طرف سے ہو اس کو نحوست قرار دینا بڑی بھاری نادانی ہوتی ہے۔ باقی رہی وہ روایت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہے اگر وہ درست ہے تو اس نحوست سے مراد صرف وہ نحوست تھی کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی ورنہ جب خدا تعالیٰ نے خود تمام دنوں کو بابرکت کیا ہے اور تمام دنوں میں اپنی صفات کا اظہار کیا ہے تو اس کی موجودگی میں اگر کوئی روایت اس کے خلاف ہمارے سامنے آئے گی تو ہم کہیں گے کہ یہ روایت بیان کرنے والے کو غلطی لگی ہے۔ ہم ایسی روایت کو تسلیم نہیں کر سکتے اور یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہر ایک انسان کو بشریت کی وجہ سے بعض دفعہ کسی بات میں وہم ہو جاتا ہے ممکن ہے کہ ایسا ہی کوئی وہم منگل کی کسی دہشت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہو گیا ہو۔ مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ دن منحوس ہے۔ ہم اس روایت میں یا تو راوی کو جھوٹا کہیں گے یا پھر یہ کہیں گے کہ شاید بشریت کے تقاضے کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو اس دن کے بارے میں اپنے لئے بیان فرمایا۔ ورنہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں مسئلے کے طور پر یہی حقیقت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ سارے کے سارے دن بابرکت ہوتے ہیں مگر مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے ایک ایک کر کے دنوں کو منحوس کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامل طور پر نحوست اور ادبار کے نیچے آ گئے۔ (ماخوذ ازالفضل 21ستمبر1960ء صفحہ3-2 جلد49/14نمبر217)
بعض لوگ اپنی عاجزی میں ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے اور بعض اپنی نظریات کی سختی میں زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ مزاج رکھنے والے دو اشخاص تھے جو اکٹھے ہو گئے۔ ان کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے۔ قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جوشیلے احمدی تھے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اہلحدیث میں رہ چکے تھے کیونکہ ان کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی۔ وہ ایک دفعہ جلسے پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جا رہے تھے کہ راستے میں خدا تعالیٰ کی خشیت کے بارے میں باتیں شروع ہو گئیں۔ کسی شخص نے کہا کہ اللہ کی شان تو بہت بڑی ہے۔ ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں۔ پتا نہیں کہ خدا ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ ہمارے روزے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ ہماری زکوۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے۔ میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن بھی ہوں یا نہیں۔ پشاور کے رہنے والے یہ حافظ محمد صاحب ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ یہ باتیں سنتے ہی اس شخص سے مخاطب ہوئے جس نے یہ کہا تھا پتا نہیں میں مومن بھی ہوں یا نہیں۔ اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں۔ اس نے کہا میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں۔ حافظ صاحب کہنے لگے کہ اچھا اگر یہ بات ہے تو میں نے آج سے تمہارے پیچھے نماز ہی نہیں پڑھنی۔ باقیوں نے کہا کہ حافظ صاحب اس کی بات ٹھیک ہے ایمان کا مقام تو بہت بلند ہے۔ کہنے لگے اچھا پھر آج سے تم سب کے پیچھے میری نماز بند۔ جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہو سکتی ہے۔ غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے۔ میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں۔ آخر جب فساد زیادہ بڑھ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں (جو انہوں نے کہا تھا ناں کہ تم کہتے ہو میں مومن نہیں)۔ مگر صرف یہی نہیں کہ ٹھیک کہتے ہیں تو نماز نہیں پڑھنی۔ فرمایا مگر یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ انہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے۔ ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے۔ جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کو فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے۔ (حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا) مگر یہ کہ مومن ہونے سے انکار کر دے یہ غلط طریق ہے۔ (تعلق باللہ۔ انوار العلوم جلد23صفحہ145-144)
آجکل گرمیوں میں تو یورپ میں ننگ ہی ننگ نظر آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو لباس کو زینت بھی قرار دیا ہے اور ہم آجکل معاشرے میں دیکھتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا عریانی کو ہی فیشن سمجھ لیا گیا ہے۔ اب انتہا یہاں تک ہو گئی ہے کہ گزشتہ دنوں یہ خبر تھی کہ کسی جگہ مسلمان لڑکیوں کا گروپ سائیکل چلا رہا تھا۔ سائیکل چلاتے ہوئے گرمی محسوس کی تو انہوں نے کپڑے ہی اتار دئیے۔ گویا اب وہ زمانہ بھی آ گیا ہے جب جسم کے بعض حصے اخلاقاً اور طبعاً ننگے رکھنا مسلمانوں کے لئے بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ کیا کبھی تو وہ زمانہ تھا کہ کم از کم اور خاص طور پر مسلمانوں میں اخلاقاً اور طبعاً ایک بہت بڑا طبقہ اس چیز کو معیوب سمجھتا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو شاید عریانی آج کی نسبت ستّر فیصد، اسّی فیصدسے بھی کم ہو گی۔ لیکن اس وقت کے ایک مصور جو تصویریں بناتا تھا، پینٹنگ کرتا تھا اس کا بیان حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے کہ ایک مشہور انگریز مصوّر نے مضمون لکھا ہے جس میں اس نے عورتوں کو مخاطب کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آجکل یورپ کی عورتوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ ننگا کرتی چلی جاتی ہیں۔ بہرحال وہ مشہور مصور لکھتا ہے کہ میں ایک مصور کی حیثیت سے عورتوں اور مردوں کے ننگے جسم دیکھنے کا اس قدر عادی ہوں کہ کسی دوسرے کو اس قدر دیکھنے کا کم موقع ملتا ہے۔ اس لئے میں ایک ماہر فن کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ ننگا جسم خوبصورتی پیدا نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات ایسی عورت مرد کی نگاہ میں بدصورت سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے عورتیں اگر اپنے جسموں کو اس لئے ننگا رکھتی ہیں کہ حسن کی تعریف ہو تو بعض دفعہ تعریف کے بجائے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ ایک ماہر فن کی رائے ہے جو یورپ کا رہنے والا ہے اور یہ رائے جو ہے بڑی وزن دار ہے اور بڑی معقول ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد15 صفحہ152-153)
اسی طرح مرد بھی اپنے عجیب و غریب حلیے بنا لیتے ہیں اور لباس پہنتے ہیں جن سے ان کا وقار بھی ضائع ہوتا ہے اور بدصورتی بھی نمایاں ہوتی ہے۔ لیکن آجکل تو آزادی کے نام پر چار آدمی اگر جمع ہو کر کوئی اظہار کر دیں تو اس بیہودہ اظہار کو اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ مجموعی طور سے بداخلاقی اور گراوٹ کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج سے ستّر برس پہلے یا اسّی برس پہلے یہ ایک مصوّر کا حق کا اظہار تھا۔ آج کا مصوّر بھی شاید اپنے اس اظہار کا اظہار نہ کر سکے۔ ایماندارانہ رائے اور مشورہ نہ دے اور نہ کہ مصور بلکہ کسی میں بھی جرأت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اخلاقی طور پر انحطاط ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خوبصورتی کی پہچان عریانی بنتی جا رہی ہے۔
پس یاد رکھنا چاہئے کہ خوبصورتی کی پہچان عریانی یا ظاہری حالت نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو صحابہ کی ایک بحث کا ذکر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کے درمیان آپس میں اس بات پر بحث چھڑ گئی۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے تھے کہ خوبصورتی کا پہچاننا آسان نہیں ہے۔ ہر شخص کی نگاہ حسن کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتی۔ یہ صرف طبیب ہی پہچان سکتا ہے کہ کون خوبصورت ہے اور کون بدصورت۔ مگر مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے تھے کہ یہ کون سی مشکل بات ہے۔ ہر آنکھ انسانی خوبصورتی کو پہچان سکتی ہے۔ ظاہری طور پر جب دیکھ لو تو پہچان سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول کا نقطۂ نگاہ یہ تھا کہ بیشک ہر نگاہ حسن کو اپنے طور پر پہچان لیتی ہے مگر اس شناخت میں بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور طبیب ہی سمجھ سکتا ہے کہ کون واقعہ میں خوبصورت ہے اور کون محض اوپر سے خوبصورت نظر آ رہا ہے۔ اسی گفتگو میں حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ کیا آپ کے نزدیک یہاں کوئی مرد خوبصورت بھی ہے۔ انہوں نے (مولوی عبدالکریم صاحب نے) ایک نوجوان کا نام لیا جو اتفاقاً اس وقت سامنے آ گیا جب وہ بحث ہو رہی تھی۔ کہنے لگے میرے خیال میں یہ خوبصورت ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ آپ کی نگاہ میں تو یہ خوبصورت ہے مگر دراصل اس کی ہڈیوں میں نقص ہے۔ شکل دیکھ کے پہچان لیا۔ پھر آپ نے(حضرت خلیفہ اوّل نے) اسے قریب بلایا اور فرمایا میاں ذرا قمیص تو اٹھانا۔ اس نے قمیص جو اٹھائی تو ٹیڑھی ہڈیوں کی ایک ایسی بھیانک شکل نظر آئی کہ مولوی عبدالکریم صاحب کہنے لگے کہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ۔ مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کی بناوٹ میں یہ نقص ہے۔ میں تو اس کا چہرہ دیکھ کر اسے خوبصورت سمجھتا تھا۔‘‘ (خطبات محمود جلد 15صفحہ 154۔ 155)
پس ظاہری حسن بعض دفعہ نظر آتا ہے جو اندر سے حسن نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے اگر بعض برائیوں کو ڈھانپنے کے لئے لباس کا حکم دیا ہے تو وہ اس لئے کہ کچھ نہ کچھ انسان کی زینت بنی رہے۔ اور انسان اسی سے دُور ہٹتا چلا جا رہا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جن کا سحری کے اوقات کے بارے میں اپنا ایک نظریہ تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی کس طرح رہنمائی فرمائی وہ بھی عجیب ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتے تھے جسے لوگ فلاسفر کہتے تھے۔ اب وہ فوت ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔ (فرماتے ہیں کہ) اسے بات بات میں لطیفے سوجھتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہؤا کرتے تھے۔ فلاسفر اسے اسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا۔ ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا۔ کہنے لگا کہ انہوں نے (یعنی مولویوں نے یا فقہ کے ماہرین نے) یہ محض ایک ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا۔ بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اس نے پانچ منٹ بعد سحری کھا لی تو کیا حرج ہؤا۔ مولوی جھٹ سے فتویٰ دیتے ہیں کہ اس کا روزہ ضائع ہو گیا۔ غرض اس نے اس پر خوب بحث کی۔ صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آیا۔ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی بات ہے) مگر چونکہ حضرت خلیفہ اوّل ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آ جایا کرتے تھے۔ آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی۔ آپ نے فرمایا کیا ہؤا؟ کہنے لگا کہ رات کو میں بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا ہووہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو کیا حرج ہے۔ اس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہم نے تانی لگائی ہوئی ہے۔ فلاسفر جولاہا تھا۔ اس لئے خواب میں بھی اسے اپنے پیشہ کے مطابق یاد آئی۔ رسّی، دھاگہ جو کپڑا بنانے کے لئے کھینچتے ہیں تو کہتے ہیں) دونوں طرف میں نے کیلے گاڑ دئیے اور تانی کو پہلے ایک کیلے سے باندھا اور پھر میں اسے دوسرے کِیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا۔ جب کِیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی ورے سے تانی ختم ہو گئی۔ میں بار بار کھینچتا کہ کسی طرح اسے کِیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہو سکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ۔ دو انگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ (وہ دھاگہ جو تھا خراب ہو رہا ہے۔) اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی۔ جب میں جاگا تو میں سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو انگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہوجاتی ہے تو روزے میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو۔ اس کے ہوتے ہوئے کس طرح روزہ قائم رہ سکتا ہے‘‘۔ (تعلق باللہ۔ انوار العلوم جلد23 صفحہ178-177)
انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اس نے کہیں نہ کہیں اپنا تعلق جوڑنا ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مصلح موعود اس طرح فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مجلس میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ کیا کسی نے گندم کی روٹی کھائی ہے؟ ان دنوں لوگ زیادہ تر باجرہ، جوار اور جَو کھاتے تھے۔ گندم شاذ ہی ملتی تھی اور اگر پتا لگ جاتا کہ کسی کے پاس گندم ہے تو سِکھ اس سے چھین لیتے۔ تمام لوگوں نے کہا کہ ہم نے گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ صرف ایک شخص نے کہا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے۔
دوسروں نے پوچھا کیا تم نے گندم کی روٹی کھائی ہے؟ اس نے کہا میں نے کھائی تو نہیں لیکن گندم کی روٹی ایک شخص کو کھاتے دیکھا ہے۔ کھانے والے چٹخارے لے لے کر کھاتا ہے جس سے میں سمجھا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے۔ (الفضل17 فروری1955ء صفحہ3 جلد44/9 نمبر41) (تو ابھی تو یہ ذکر فرما رہے ہیں کہ کھانے کا بعض لوگوں کو بڑا شوق ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ) بعض لوگ مرغا کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی میرے بچپن کے دوست ہیں۔ انہیں مرغے کی ٹانگ بڑی پسند تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی۔ اور ایک دوست جو فوت ہو گئے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مرغے کی ٹانگ ملتی رہے تو اسے اور کیا چاہئے۔ لیکن(بہرحال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے پسندنہیں (اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ دانتوں میں کوئی تکلیف تھی۔ فرمایا کہ) بہرحال بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اگر وہ چیزیں انہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں۔ لیکن وہ چیزیں بہت ادنیٰ اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر ان چیزوں کے حصول کے لئے بھی اَور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ پر ہمیں یقین ہو اور اگر خدا تعالیٰ ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اور کی کیا ضرورت ہے۔ (ماخوذ از تعلق باللہ۔ انوار العلوم جلد23 صفحہ127)
خدا تعالیٰ کے ملنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تُو کسی کے دامن سے چمٹ جا یا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے۔ یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا تو تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہی ’’طِیْن‘‘ سے پیداکرنے کا مفہوم ہے (کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے جس میں وہ اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے۔) یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اس کے دل میں گدگدیاں پیدا کرنے لگتا ہے۔ بلوغت تو کئی سالوں کے بعد آتی ہے لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو وہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میرا گڈا میری گڑیا، تیری گڑیا۔ پھر ان کا آپس میں تعلق، ہمارے معاشرے میں گڈا گڈی کا بیاہ بھی بچے کرتے ہیں۔ پھر وہ لڑکیاں ماؤں کی نقل کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اٹھائے پھرتی ہیں۔ انہیں پیار کرتی ہیں جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اور جس طرح وہ ان کو اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہیں تو یہ تو ہر معاشرے میں نظر آتا ہے۔ کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں یا کوئی ہمارا ہو جائے۔ اسی طرح لڑکوں کو دیکھ لو۔ جب تک ان کا بیاہ نہیں ہوتا ہر وقت ماں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ بیاہ ہو جاتا ہے تو پھر بیوی۔ تو اللہ تعالیٰ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَلَق۔ کہ انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے۔ (ماخوذ از تعلق باللہ۔ انوار العلوم جلد23 صفحہ137-136) اس کے بغیر اس کے دل کو تسلی نہیں ہوتی اور سب سے بہترین طریقہ کسی کا ہونے کا یہ ہے جس سے دین و دنیا دونوں ملتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اور اس کے لئے کوشش کرے۔ پھر حضرت مصلح موعود عشق کے معیار اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گو مثال تو ایک پاگل کی ہے پھر ایسے پاگل کی جو اَب فوت ہو چکا ہے اور گو وہ ایک ایسے پاگل کی مثال ہے جو میرا استاد بھی تھا مگر بہرحال اس سے عشق کی حالت نہایت واضح ہو جاتی ہے۔ ایک میرے استاد تھے جو سکول میں پڑھایا کرتے تھے بعد میں وہ نبوت کے مدعی بھی بن گئے۔ ان کا نام مولوی یار محمد صاحب تھا۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسی محبت تھی کہ اس کے نتیجے میں ہی ان پر جنون کا رنگ غالب آ گیا۔ ممکن ہے پہلے بھی ان کے دماغ میں کوئی نقص ہو مگر ہم نے تو یہی دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت بڑھتے بڑھتے انہیں جنون ہو گیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرنے لگے۔ پھر ان کا یہ جنون یہاں تک بڑھ گیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قریب ہونے کی خواہش میں بعض دفعہ ایسی حرکات بھی کر بیٹھتے جو ناجائز اور نادرست ہوتیں۔ مثلاً وہ نماز میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم پر اپنا ہاتھ پھیرنے کی کوشش کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی اس حالت کو دیکھ کر بعض آدمی مقرر کئے ہوئے تھے تا کہ جن ایام میں انہیں دورہ ہو وہ خیال رکھیں کہ کہیں وہ آپ کے پیچھے آ کر نہ بیٹھ جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ گفتگو فرماتے یا لیکچر دیتے تو اپنے ہاتھ کو رانوں کی طرف اس طرح لاتے جس طرح کوئی آہستہ سے ہاتھ مارتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اس طرح ہاتھ ہلاتے تو مولوی یار محمد صاحب محبت کے جوش میں فوراً کود کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتے۔ اور جب کسی نے پوچھنا کہ مولوی صاحب یہ کیا؟ (آپ نے یہ کیا کیا؟) تو وہ کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اشارہ سے بلایا تھا‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 15صفحہ 531۔ 532)۔ تو حضرت مصلح موعودنے یہ مثال دے کر فرمایا کہ یہ دیوانگی اور عشق کی حالت ہے کہ جب نہیں بھی توجہ دی جا رہی(تو ایک انسان جو جنونی ہو جاتا ہے وہ) تب بھی محبوب کے غیر ارادی طور پر ہلنے والے ہاتھ کو اپنے قریب بلانے کا اشارہ سمجھتا ہے۔ لیکن ہم خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس کی طرف سے واضح اعلان کے باوجود کہ نماز کی طرف آؤ اور فلاح کی طرف آؤ نہ نمازوں کی طرف دوڑ کر جاتے ہیں نہ جمعوں پر بڑے اہتمام سے باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد15 صفحہ532-531)
پس اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے واضح بلاوے پر لبّیک کہتے ہوئے اس مجذوب یا عاشق کی طرح پھلانگ کر آگے آنا چاہئے اور مسجدوں کو آباد کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ابھی تو چُھٹیاں ہیں بچے بھی اپنے ماں باپ کو لے آتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ حاضری کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے یاد دہانی بھی کروا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری نمازوں کی حفاظت اور ادائیگی کے حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرماتا رہے۔
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیک فطرت، ان کی صداقت کی پہچان کے لئے تڑپ، ان کی جان مال قربان کرنے کے لئے تڑپ اور کوشش اور ان کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و لسلام سے عشق و محبت کے اپنے اپنے ذوق کے مطابق معیار اور اس کے اظہار سے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ واقعات کا تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب کو اہم نصائح۔
فرمودہ مورخہ 07؍اگست 2015ء بمطابق 07ظہور 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔