جمعہ اور جلسہ سالانہ

خطبہ جمعہ 21؍ اگست 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کا باقاعدہ آغاز ہو گا یعنی جلسے کے پروگرام کے مطابق جو پہلاسیشن شروع ہونا ہے لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جمعے کی بھی ایک اہمیت ہے۔ اس لئے اس اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور آج جلسے کی وجہ سے اس حق کی ادائیگی کے لئے یا اس حق کی ادائیگی کے دوران جو دعائیں کریں اس میں جلسے کے بابرکت ہونے کی دعائیں بھی کرتے رہیں۔ جمعہ کی اہمیت کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب فضل یوم الجمعۃ و لیلۃ الجمعۃ1047)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جب مومن اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے جو دعا مانگے وہ قبول کی جاتی ہے اور آپ نے فرمایا کہ یہ بہت چھوٹی سی گھڑی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ935)

پس یہ اہمیت ہے جمعہ کی اور اگر ہم آج کے دن آج کی عبادت اور خطبہ سننے کے دوران کیونکہ خطبہ بھی جمعہ کی عبادت کا ایک حصہ ہے، اس میں درود پڑھیں۔ سب دعاؤں سے زیادہ اہم جو دعا ہے وہ یہ ہے کہ درود پڑھیں۔ غور کر کے درود پڑھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہہ رہے ہوں تو اس فہم اور ادراک اور سوچ کے ساتھ کہہ رہے ہوں کہ اے اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرکے، آپ کے خوبصورت پیغام اور تعلیم کو کامیابی اور غلبہ عطا فرما کر، آپ کی لائی ہوئی شریعت کو حقیقی رنگ میں قائم فرما کر اس کی عظمت اور برتری دنیا پر ثابت کر دے اور ہمیں اس کے پھیلانے میں مددگار بننے کی توفیق عطا فرما کر آپ کی امت کے لئے مقدر انعاموں میں سے حصہ دار بنا دے۔ اور جب ہم اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہہ رہے ہوں تو اس سوچ کے ساتھ کہ اے اللہ ہماری یہ بھی دعا ہے کہ تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بھی عزت و عظمت اور عظیم شان اور بزرگی مقدر فرمائی ہوئی ہے اس کو قائم فرما کر اور دشمن کو خائب و خاسر کر کے ہمیں بھی اسے دیکھنے اور اس کا حصہ بننے کی توفیق عطا فرما کہ جب ہم یہ نظارے کامیابی کے دیکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قائم کیا جانے والا ہر مکر اور کوشش دشمن پر پڑے۔ اور آج جب ہم جمع ہو کر یہ دعا مجموعی طور پر کر رہے ہوں گے تو یہ ایسی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں یقینا پیار اور قبولیت کی نظر پاتی ہے اور دیکھی جاتی ہے اور ہم اس کی قبولیت سے فیض بھی پاتے ہیں اور پھر اس کے جاری فیض سے ہم حصہ دار بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔ آپؐ کو جب آپؐ کے ماننے والوں کی یہ دعائیں پیش کی جاتی ہیں، آپؐ پر درود پیش کیا جاتا ہے تو پھر آپؐ کی دعاؤں کے فیض بھی ہمیں ملتے ہیں اور یوں برکات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

ہمارے جلسوں کا ایک بہت بڑا مقصد تو یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا اور بیعت کی غرض بھی یہ بیان فرمائی کہ ’’اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے‘‘۔ (آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 صفحہ351)

دل پر محبت تو اس وقت غالب آ سکتی ہے جب ہم آپؐ پر دل کی گہرائی سے درود بھیجیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ حکم ہے اور پھر اپنی حالتوں کو بھی اس کے مطابق ڈھالیں اور ڈھالنے کی کوشش کریں جس کا اسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ آپؐ کی محبت کی وجہ سے آپؐ پر درود اور آپؐ کی اتباع پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھی حاصل کرنے والا بنائے گی۔ پس جمعہ کے دوران بھی، جمعہ کے بعد بھی خاص طور پر اور باقی دو دنوں میں بھی ایک توجہ کے ساتھ درود اور ذکر الٰہی میں ہر ایک کو وقت گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمارے مخالفین کے تمام منصوبوں کو ان پر الٹائے۔

پھر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں حقوق العباد کے بھی عظیم الشان نمونے نظر آتے ہیں۔ اس کے لئے بھی ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اسے اپنے اوپر لاگو کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ آپس میں محبت پیار اور رحم کے جذبات رکھتے ہوئے زندگی گزارنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اُسوہ نظر آتا ہے اور جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے بھی کھینچا ہے کہ عَزِیْزٌ عَلَیْہِِ مَا عَنِتُّمْ(التوبۃ: 128) کہ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے۔ پس آپ کو مومنین کے لئے جو محبت تھی اس کی وجہ سے آپ کو برداشت نہیں تھا کہ ان کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے۔ مومنوں کو پہنچنے والی ذرا سی تکلیف بھی آپ کو بے چین کر دیتی تھی۔ پس یہ اُسوہ ہے جو ہمارے سامنے رکھا گیا کہ ایک دوسرے کی تکلیف تمہیں بے چین کرنے والی ہونی چاہئے اور یہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب حقیقی رنگ میں ایک دوسرے کے لئے رحم اور محبت کے جذبات ہوں۔ جلسے کے منعقد کرنے کے مقاصد میں سے ایک مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ’’جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ281 اشتہار نمبر91)

اور تعلقات اخوت تبھی مضبوط ہوتے ہیں جب بے نفس ہو کر ایک دوسرے کی خاطر انسان قربانی کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔ شروع کے جلسوں میں، ابتدائی جلسوں میں جب ابھی تربیت کے وہ معیار حاصل نہیں ہوئے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں اور قربانی کا وہ جذبہ نہیں تھا بیشک عقیدے کے لحاظ سے مضبوطی پیدا ہو گئی تھی لیکن ماحول کے زیر اثر حقوق العباد اور محبت اور بھائی چارے کے وہ معیار عملی طور پر پیدا نہیں ہوئے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ تو آپ نے جب یہ شکایات سنیں کہ ایک دوسرے کا جلسے میں خیال نہیں رکھا گیا۔ ہر شخص نے یا بعض لوگوں نے اپنے آرام کو دوسرے کے آرام پر ترجیح دی ہے۔ آپ اس بات پر بڑے سخت ناراض ہوئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے پھر ایک سال جلسہ بھی منعقدنہیں ہوا۔ آپ نے بڑی سختی سے فرمایا کہ

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔‘‘ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)

پس یہ دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلی جذبات اپنی جماعت کے افراد میں بھائی چارہ اور محبت اور پیار دیکھنے کے لئے۔ آپ اس بات پر بے چین ہو جاتے ہیں کہ کیوں میرے ماننے والے ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس نہیں کرتے۔ پس جلسے پر آنے والوں کو جہاں جلسے کا مقصد پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنی ہے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور بھائی چارے کے جذبات کو بھی بڑھانا ہے۔ اپنے دینی علم میں بھی اضافہ کرنا ہے۔

آپ نے ایک جگہ اس کیفیت کا جو جلسے کا مقصد ہے اور جو جلسے میں شامل ہونے والوں میں پیدا ہو گی یا ہونی چاہئے اس طرح نقشہ کھینچا ہے اور بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے۔ اور اس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں۔ اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی۔ اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہو گا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتۂ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا۔ …اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرتِ عزتِ جلّشانہٗ کوشش کی جائے گی۔ اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے‘‘۔ (آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 صفحہ352-351)

پس ہم میں سے ہر ایک کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے یہاں ان دنوں میں جلسے کے مقاصد کو پورا کرنا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ دنیاوی میلوں کی طرح میلہ نہیں سمجھنا۔ (مأخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ395) اور جیسا کہ اس اقتباس سے ظاہر ہے ہماری توجہ ان دنوں میں ربّانی باتوں کے سننے کی طرف رہنی چاہئے۔ آپس کی مجلسوں اور خوش گپیوں میں وقت نہیں گزارنا چاہئے۔ نہ ہی اپنے وقت کا زیادہ حصہ بازاروں میں گزار کر وقت ضائع کریں۔ کچھ عرصے کے لئے جانا ہے تو جائیں لیکن بعضوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ مستقل باہر پھرتے رہیں گے یا اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہیں گے۔

جلسے میں شامل ہونے والوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے کے پروگراموں کے علاوہ بعد میں بھی یعنی یہ جو جلسے کے مین سیشن ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی بعض پروگرام ہوتے ہیں۔ جلسے کے پروگراموں کے علاوہ جو وقت باقی بچے اپنا وہ وقت دینی باتوں یا ذکر الٰہی میں گزاریں یا جو دوسرے پروگرام ہیں ان کو دیکھیں۔ پھر بعض ایسی چیزیں ہیں کہ بجائے ادھر ادھر پھرنے کے وقت گزارنے کے یا بازاروں میں پھرنے کے جماعتی طور پر یہاں بعض انتظامات کئے گئے ہیں جس سے انسان کے ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً مخزن تصاویر ہے انہوں نے یہاں نمائش لگائی ہوئی ہے۔ جماعت کی ایک تاریخ ہے اسے دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کریں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو اور آپ سے کئے گے وعدوں کو پورا فرما رہا ہے اور کس طرح جماعت کا تعارف اور تبلیغ دنیا کے کناروں تک پھیل رہی ہے؟ پھر وہاں شہدائے احمدیت کی تصاویر ہیں ان کو دیکھ کر ان کے درجات کی بلندی اور اپنے ایمانوں کی مضبوطی اور ان کے خاندانوں اور جماعت کے افراد کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ جماعت کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

پھر اشاعت کی طرف سے ایک سٹال ہوتا ہے۔ ان کی بھی ایک مارکی ہے وہاں جا کر اس سال چھپنے والی جو کتب اور لٹریچر ہے اس کو دیکھیں۔ جو خرید سکتے ہیں خریدیں۔ پھر پہلا لٹریچر جن کے پاس نہیں ہے یہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ریویو آف ریلیجنز نے بھی اس سال ان کا جو یہاں سٹال ہے یا جو جگہ ہے اس کو وسعت دی ہے اور کفن عیسیٰ کے بارے میں اس دفعہ وہاں بڑی معلومات ہیں۔ اس کو بھی دیکھیں اور ان چیزوں کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو سچائی اور صداقت مزید ظاہر ہوتی ہے اس سے اپنے ایمان میں اضافہ کریں۔ اسی طرح جلسے کے مین پروگرام کے علاوہ مختلف زبانوں میں جو باقی پروگرام ہوتے ہیں ان سے بھی جو استفادہ کر سکتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں انہیں استفادہ کرنا چاہئے۔ جلسے کے مین پروگرام کے بعد آپس میں تعارف وغیرہ حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کو ملیں۔ جلسے کے بعد کئی نئے آنے والے احمدی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری زبان مختلف ہونے کے باوجود جب ہم مختلف قوموں کے احمدیوں کو ملتے ہیں تو اشاروں کی زبان سے ہی جو محبت اور پیار کے جذبات پیدا ہو رہے ہوتے ہیں اور بڑھتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہو اور روحانی طور پر سب بھائی ایک ہوں اور خشکی اور اجنبیت اور نفاق اٹھا دینے کے لئے کوشش ہو اور اس کے لئے دعا بھی ہو تو بے غرض تعلق کا اظہار اور ایک دوسرے کے لئے دعا ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جس کی مثال صرف ہمارے انہی جلسوں میں نظر آتی ہے۔ پس ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس تعلق اور تعارف کو حاصل کرے اور بڑھائے اور محض للہ یہ تعلق ہو۔

اسی طرح یہ بھی ہر ایک کو کوشش اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ تمام روحانی فوائد جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عمومی طور پر ذکر فرمایا ہے کہ ’’اور بھی بہت سے روحانی فوائد اور منافع ہوں گے‘‘ جن تک ہماری سوچ جا سکتی ہے یا نہیں یا جو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھے کہ میرے ماننے والوں کو یہ روحانی فوائد ہوں، ان سب سے ہم حصہ لینے والے ہوں۔ یہ بھی دعا کرنی چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

پس ان دنوں میں اس کے لئے، جیسا کہ میں نے کہا، دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں۔ ہر ایک کو اپنی استعداد کے مطابق اس میں حصہ لینا چاہئے۔ جلسے کے پروگراموں کو سننے اور اس غرض سے سننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اس پر ہم نے عمل بھی کرنا ہے۔ اس بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے‘‘۔ (جب باتیں کی جائیں، تقریریں کی جائیں۔ ) ’’اور پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے۔ اس میں غفلت، سستی اور عدم توجہ بہت بُرے نتیجے پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا‘‘۔ اگر وہ غور سے نہیں سنو گے تو جیسا مرضی بیان ہو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ فرمایا کہ: ’’ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں۔ دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑی غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ143-142۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس ان پروگراموں کو بھی توجہ سے سنیں اور اس نیت سے سنیں کہ ان باتوں سے ہم نے صرف علمی حظّ نہیں اٹھانا بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہے۔ اسے اپنے ایمان اور ایقان میں اضافہ اور فائدہ کا ذریعہ بھی بنانا ہے۔

آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: ’’میں اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہوں کہ صرف مقرر کی لفاظی اور خطابت کو ہی دیکھا جائے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں ادبار اور زوال اور ذلت صرف اس لئے ہوئی ہے کہ مغز کو نہیں دیکھا جاتا۔ جو اصل چیز ہے اس کو نہیں دیکھا جاتا۔ صرف ظاہری خوبصورتی اور کھوکھلے پن کو دیکھا جاتا ہے۔ نفس مضمون کو نہیں دیکھا جاتا۔ جو باتیں ہوتی ہیں ان پر غور نہیں کیا جاتا، ان پر عمل کرنے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں مقرر بہت اچھا بولا، فلاں اس طرح مجمع پر چھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سب باتیں ایسی ہیں جو بے فائدہ ہیں اور بے مقصد ہیں۔ (مأخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ398تا401مطبوعہ ربوہ)

آپ نے اپنے ماننے والوں کو نصیحت کی کہ تم ان مجلسوں میں آنے والوں اور بولنے والوں کی طرح نہ بنو بلکہ اخلاص پیدا کرو۔ ایسے نہ بنو جو فائدہ نہیں اٹھاتے۔ مسلمانوں کی عمومی طور پر ترقی کے بجائے تنزّلی کی یہی وجہ ہے کہ مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے۔ بڑی بڑی مجلسیں ہوتی ہیں لیکن وہاں اخلاص نہیں ہوتے۔ ظاہری باتیں ہوتی ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اخلاص کے ساتھ ان سارے پروگراموں کو سنیں ورنہ آپ لوگوں کا اتنا خرچ کر کے یہاں آنا اور پھر جماعت کا بھی اس بڑے وسیع انتظام کے لئے اتنا زیادہ خرچ کرنا بے فائدہ ہے۔

پس آنے والے مہمان تمام شاملین جلسہ اپنے جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو سامنے رکھیں اور زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز انتظامی لحاظ سے بھی چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں۔ انتظامیہ جہاں آپ کی خدمت کے لئے ہے وہاں آپ کے فائدے کے لئے ہے اور اگر تعاون ہو گا تو صحیح انتظام چلیں گے۔ چاہے وہ مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی، بچوں والی ماؤں کے لئے بھی جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی ہدایات ہیں یا کھانا کھانے کی مارکیوں میں کھانے کے اوقات میں جانے اور ایک نظام کے تحت کھانا کھانے کی ہدایات ہیں، ان پر عمل کریں۔ لیکن کھانا کھلانے کی انتظامیہ جو ہے ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بعض لوگوں کو اپنی بیماری کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے، بعض دفعہ دیر سے آنے کی وجہ سے اور بعض بچوں والی عورتوں کو کسی وجہ سے کھانے کے اوقات کے علاوہ بھی کھانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے یا مارکی میں جانا پڑتا ہے اس لئے وہاں کچھ نہ کچھ انتظام ہر وقت بھی رہنا چاہئے کیونکہ بازار تو پھر بند ہوتے ہیں۔ لیکن عام طور پر آپ کو، مہمانوں کو یہ خیال رکھنا چاہئے اور ہر ایک شخص جو ہے وہ جلسے کے اوقات میں اس بات کا خیال رکھے کہ اس نے جلسے سے فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ تھوڑی سی اجازت ہے تو انتظامیہ کو بلا وجہ تنگ بھی کرنا شروع کر دیں۔ عمومی کوشش کریں کہ بچوں والی مائیں اپنے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ کھانا ساتھ لے کر آئیں اور علیحدہ ہو کر پھر ان کو کھلا دیں۔ ان کی مارکیاں بھی علیحدہ ہیں۔ اسی طرح ٹریفک کی انتظامیہ سے بھی بھرپور تعاون کریں۔ ٹریفک کی وجہ سے بہت دفعہ پروگرام لیٹ ہو جاتے ہیں۔ جہاں پارکنگ کے لئے کہا جائے وہاں اپنی گاڑیاں کھڑی کریں۔ سکیننگ (scanning) کی صورت زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر وقت پر کوئی دقّت بھی ہو تو برداشت کریں اور وہاں بھی گیٹوں میں داخل ہونے سے پہلے انتظامیہ سے بھرپور تعاون کریں۔ یہ سیکیورٹی کے لئے بھی ضروری ہے اور آپ کی آسانی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح تعاون کی وجہ سے پھر جلدی سے جلدی گزر سکیں گے۔ اسی طرح سیکیورٹی کے عمومی انتظام سے بھی بھرپور تعاون کریں اور خود بھی ہوشیاری سے ہر ایک کو، ہر احمدی کو اپنے دائیں بائیں نظر رکھنی چاہئے۔ یہ بھی ہمارا سیکیورٹی کا بہت بڑا نظام ہے۔ دنیا کے حالات بھی ایسے ہیں اور جماعت کی ترقی سے حاسدین کی شرارتوں میں بھی تیزی آئی ہے اور اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ پس اس لئے اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر تو حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے بچنے کے لئے ان دنوں میں بہت دعائیں کریں جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہہ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسے کو بابرکت فرمائے۔ جلسے کے پروگرام بھی ہر ایک کو دئیے جاتے ہیں اس پر باقی ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان کو غور سے پڑھیں اور عمل کریں۔

نمازوں کے بعد میں کچھ غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے تعلق میں ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ جو بھائی اس عرصے میں سرائے فانی سے انتقال کر جاتے ہیں ان کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی(مأخوذ از آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 صفحہ352) تو میں اس وقت دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا جن میں سے ایک ہمارے ایک شہیدنوجوان کا جنازہ ہے اور ایک دیرینہ اور بہت پرانے خادم سلسلہ کا جنازہ ہے۔ ان کے ساتھ عمومی طور پر اس سال رخصت ہونے والوں کو بھی شامل رکھیں۔ عام طور پر تو دعاؤں میں رخصت ہونے والوں کو شامل کیا جاتا ہے لیکن کیونکہ آج جنازے ہو رہے ہیں اس لئے یہ بھی شامل رکھیں۔ پہلا جنازہ جیسا کہ میں نے کہا شہید کا ہے۔ مکرم اکرام اللہ صاحب شہید ابن مکرم کریم اللہ صاحب، یہ تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان کے تھے۔ ان کو مخالفین نے مؤرخہ19؍اگست 2015ء کو بعدنماز مغرب ان کے میڈیکل سٹور پر آ کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ وقوعہ کے روز 19؍اگست2015ء کو شہید مرحوم اپنے میڈیکل سٹور پر تھے کہ دو موٹر سائیکلوں پر چار مسلح افرادنے سٹور پر آ کر فائرنگ کر دی اور فرار ہو گئے۔ حملہ آور جاتے ہوئے ہوائی فائرنگ بھی کرتے رہے اور اللہ اکبر کے نعرے بھی لگاتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم نے کافر کو مار دیا۔ شہید مرحوم کو جسم کے مختلف حصوں پر گیارہ گولیاں لگیں۔ ایک گولی آنکھ پر لگی اور آر پار ہو گئی جس سے موقع پر ہی شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم سردار فیض اللہ خان صاحب نتکانی کی ہمشیرہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہلے تحریری بیعت بھجوائی اور بعد ازاں 1905ء میں اپنے خاوند کے ہمراہ قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد مکرم سردار فیض اللہ صاحب نے بھی بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ مکرم سردار فیض اللہ صاحب امیر ضلع ڈیرہ غازی خان رہ چکے ہیں۔ دس سال قبل یہ تونسہ کے قریب ایک جگہ ہے وہاں سے تونسہ شفٹ ہوئے تھے۔ اکرام اللہ صاحب 1978ء میں رکھ مور جھنگی ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ شہید مرحوم نے گرایجویشن کی، ڈسپنسر کا کورس کیا اور تعلیم کے بعد اپنی ڈسپنسری کھول لی۔ اور پھر نو سال قبل تونسہ شریف میں اپنا میڈیکل سٹور بنایا۔ اور کچھ عرصہ انہوں نے ملازمت بھی کی تھی۔ 2009ء میں ان کی شادی ہوئی۔ انتہائی ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے۔ سیلاب کی وجہ سے پورا علاقہ متاثر ہوا جس کی بناء پر ان کو نمایاں خدمت کا موقع ملا۔ شہید مرحوم اکثر غریبوں کو مفت ادویات دیا کرتے تھے۔ خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ پیچھے رہ کر خدمت کا جذبہ نمایاں تھا۔ والدین کی بھرپور خدمت کرنے والے تھے۔ شہید مرحوم خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اس وقت بحیثیت سیکرٹری امور عامہ تونسہ شریف خدمت کی توفیق پا رہے تھے اور اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ میں بھی مختلف جگہوں پر ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔

11؍جولائی 2015ء کو وہاں کچھ لوگوں نے تونسہ شریف کی جماعت کی مسجد پر حملہ کیا تھا اور فائرنگ کرکے وہ لوگ فرار ہو گئے تھے۔ تو یہ اس کیس کی بھی پیروی کر رہے تھے۔ ان کو مستقل دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ جماعت کے خلاف بھی، ان کے خلاف بھی مخالفانہ اشتہارات آویزاں کئے جا رہے تھے۔ لیکن بہرحال اس کے باوجود یہ بڑی جرأت، بہادری سے سب کا سامنا کر رہے تھے۔ سماجی لحاظ سے بھی نمایاں اثر و رسوخ کے مالک تھے اور علاقے میں صاحب اثر تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بلا توقّف آ جائیں۔ شہید مرحوم نے پسماندگان میں بھائی بہنوں کے علاوہ والدہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ، اہلیہ (فوزیہ یاسمین صاحبہ) اور دو بچیاں ایک بیٹی رافعہ مریم عمر چار سال اور بیٹا عزیزم کاشف عمر دو سال چھوڑے ہیں۔ دونوں بچے وقف نو تنظیم میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید بھائی کے درجات بلند فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرم و محترم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم اے کا ہے جو آجکل وکیل التصنیف تحریک جدید تھے۔ 14؍اگست 2015ء کو ان کی وفات ہوئی۔ تعلیمی ریکارڈ کے مطابق ان کی پیدائش 1917ء کی ہے۔ چھوٹی عمر میں ان کو احمدیت سے تعارف ہوا۔ زمانہ طالبعلمی میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب مربی بخارا کے اسلام کے دفاع میں ایک پنڈت سے کئے گئے مناظرہ سے آپ پر احمدیت کا اچھا اثر پڑا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران محترم قاضی محمد اسلم صاحب جو وہاں پروفیسر تھے، صدر شعبہ فلاسفی بھی تھے ان کی شخصیت اور اوصاف حمیدہ اور دعوت الی اللہ کی وجہ سے 1941ء میں آپ کو نوجوانی میں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ پھرآخری دم تک سلسلے کی خدمت میں مصروف رہے۔ آپ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے گاؤں میں بھی اکیلے احمدی تھے۔ بڑی جوانمردی سے آپ نے ان تمام حالات کا مقابلہ کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلاسفی کیا۔ پھر آپ نے 9؍اپریل 1944ء کو وقف زندگی کی درخواست حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی۔ اور حضرت مصلح موعودنے درخواست کو ازراہ شفقت منظور فرمایا۔ اس کے بعد تعلیم الاسلام کالج قادیان میں فلاسفی کے لیکچرر کے طورپر آپ کی تقرری ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد آپ پہلے لاہور میں اور پھر ربوہ میں اسی کالج سے وابستہ رہے۔ اس طرح آپ تعلیم الاسلام کالج کے بانی اساتذہ میں شامل ہوتے ہیں۔ کالج میں آپ فلسفہ، نفسیات، ادب اور انگریزی زبان پڑھاتے رہے۔ جون 1967ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ اسی طرح یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے دورہ افریقہ اور یورپ کے دوران بھی آپ کے ساتھ تھے۔ ان کو معیت کا شرف حاصل ہوا۔ 1984ء میں آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ میں بطور انگریزی کے پروفیسر کے ہوا جہاں آپ نے شعبہ انگریزی کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح اس دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم کی سعادت بھی آپ کو ملی۔

جب وکالت وقف نو کا قیام ہوا تو چوہدری محمد علی صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے پہلا وکیل وقف نو مقرر فرمایا۔ پھر 1998ء میں تراجم کے کام کی وسعت کے پیش نظرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی طرف سے آپ کو وکیل التصنیف مقرر فرمایا گیا۔ اور آخر دم تک آپ اس خدمت پر مامور رہے۔ آپ نے سلسلے کی بہت سی کتب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی توفیق پائی۔ اس طرح آپ کو تقریباً 71سال سلسلہ کی خدمات کی توفیق ملی۔ ایک طویل عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز کے ممبر رہے۔ یہ بہت ہی بڑا اعزاز ہے۔ آپ اردو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی زبان کے بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے۔ بڑے محنتی منتظم تھے۔ ہمدرد استاد تھے۔ مشفق نگران تھے۔ خلافت کے سچے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ نظام جماعت کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے۔ ریا کاری سے پاک، نرم خو، نرم زبان، انسانیت کے ہمدرد اور نیک انسان تھے۔ اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ 13؍اگست کو بھی آپ دفتر تشریف لائے اور تمام وقت دفتری امور کی انجام دہی کے بعد گھر گئے جہاں ان کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 13اور 14؍اگست 2015ء کی درمیانی شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ پسماندگان میں ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ مکرم چوہدری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ کہتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا۔ قادیان میں چھٹی ساتویں کا طالبعلم تھا۔ اس وقت فضل عمر ہوسٹل کی بنیاد رکھی جانی تھی اور یہ خبر مشہور ہوئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لارہے ہیں۔ بہرحال حضرت خلیفۃ المسیح الثانی وہاں تشریف لائے اور ہوسٹل کے صحن میں کھڑے کھڑے تقریر فرمائی۔ کہتے ہیں مَیں چھوٹا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ حضور نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی جالندھر سے تعلق رکھتے تھے۔ یعنی وہ مولوی محمد علی صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بیعت کی تھی اور پھر بعد میں خلافت سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ حضرت خلیفہ ثانی نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی جالندھر سے تعلق رکھتے تھے اور چوہدری محمد علی صاحب جن کو اب میں ہوسٹل کا وارڈن مقرر کر رہا ہوں یہ بھی جالندھر سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی آرائیں قوم سے تعلق رکھتے تھے اور چوہدری محمد علی صاحب بھی آرائیں قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور پھربعض نیک توقعات چوہدری محمد علی صاحب سے وابستہ کیں اور یہ حضرت مصلح موعود کی دعائیں اور نیک توقعات تھیں جن کی وجہ سے چوہدری محمد علی صاحب کو مولوی محمد علی صاحب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی اور پھر ترجمہ بھی بڑا اعلیٰ معیار کا آپ نے کیا۔ بڑی گہرائی میں بغیر کسی لفظ یا فقرے اور مضمون کو چھوڑے اس حق کو ادا کرنے کی آپ نے کوشش کی جو ترجمے کا حق ہوتا ہے۔

مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ 1939ء کے جلسے میں آپ چھُپ کر شامل ہوئے اور 1940ء میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی۔ (یہ 1941ء ہے ویسے۔) آگے لکھتے ہیں کہ روز اوّل سے ہی خلافت کے عاشق تھے۔ حضرت مصلح موعود کے بارے میں فرمایا تھا کہ

اے جانِ حسنِ مطلق اے حسنِ آسمانی

اے مست رو محبت، اے تیز رو جوانی

کہتے ہیں کہ ان کی یہ مست رو محبت ہر خلافت کے ساتھ ایک تیز روطغیانی کی شکل اختیار کر گئی۔ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی اور ان سے نشست خواہ کتنی ہی مختصر ہوتی ان کی صحبت میں بیٹھنے والا خلافت کی محبت سے سرشار ہو کر اٹھتا۔ اور بلا استثناء اس بات کا ہر ایک نے اظہار کیا ہے۔

ریاض احمد ڈوگر صاحب مبلغ سلسلہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں خاکسار کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کہنے کو تو انگلش کے استاد تھے لیکن آپ نے ہمیں انگلش ہی نہیں وقف کی اہمیت، اخلاقیات، خلافت سے وفا، بزرگوں کا احترام، سلسلے کا وقار، سب کچھ سکھانے کی بھرپور کوشش کی۔ کہتے ہیں جب میں جامعہ سے فارغ ہو کر میدان عمل میں جانے لگا تو جامعہ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آپ ایک درخت کے سائے تلے کھڑے ہیں۔ آپ نے مجھے آواز دے کر بلایا اور بٹھا کر کہنے لگے۔ کیا کر رہے ہو، میدان عمل میں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں جی۔ کہنے لگے کہ میری دو باتیں یاد رکھنا۔ اور یہ ہر مبلغ کے لئے، ہر مربی کے لئے بڑی ضروری ہیں۔ کہ تم فلیڈ میں جا رہے ہو چوہدری صاحب نے انہیں کہا کہ وہاں ریاض ڈوگر کو کوئی نہیں جانتا۔ احباب جماعت تمہارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمائندہ سمجھ کر آئیں گے اور حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ۔ کہ لوگوں سے اکتانا نہیں۔ ایسا ہو گا کہ تم تھکے ہو گے تمہارا سر درد کر رہا ہو گا تمہارا سونے کو دل چاہ رہا ہو گا۔ ایک آدمی کو نیندنہیں آ رہی ہو گی وہ تمہارے پاس آ جائے گا۔ اس کے سامنے بھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کرنا یعنی تمہاری جیسی مرضی حالت ہو اگر کوئی شخص بھی آتا ہے وہ کسی وجہ اور پریشانی کی وجہ سے آتا ہے یا جس وجہ سے بھی آتا ہے کبھی تم نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کرنا۔ پھر کہنے لگے کہ دوسری بات یاد رکھو۔ تم جماعتوں میں جاؤ گے بعض لوگ تمہاری کمزوریوں کی نشاندہی کریں گے اور نشاندہی کریں تو بشاشت کے ساتھ قبول کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ بعض لوگ مقامی عہدیداروں پر تنقید کریں گے۔ کہنے لگے یہ بہت بُری بات ہے۔ نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن سنی جا سکتی ہے۔ سن لینا برداشت کر لینا۔ آگے کہنے لگے لیکن اگر کوئی خلافت یا خلیفۃ المسیح پر اعتراض کرے تو تمہاری برداشت کی تمام حدیں ختم ہو جانی چاہئیں۔ پھر کوئی برداشت نہیں کرنی۔ کہنے لگے میری یہ دو باتیں یاد رکھنا انشاء اللہ میدان عمل میں سارے کام آسان ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر نوری صاحب کہتے ہیں کہ چوہدری محمد علی صاحب کو جب یہ جان لیوا ہارٹ اٹیک ہوا اور آپ کو ہسپتال لے جایا گیا تو اس دوران آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور مسلسل خدا تعالیٰ کی حمد میں مصروف رہے۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں جب شروع ہوا ہے تو اس وقت آپ رجسٹر ہونے والے پہلے مریض تھے۔ ان کو پرانی دل کی بیماری تھی۔ کئی دفعہ ہسپتال داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا دی جس کے بعد آپ پھر خدمت میں مصروف ہو جاتے۔ ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس اہم کام کو سرانجام دینے کی توفیق دے اور ہمت دے جو خلیفۂ وقت نے میرے سپرد کیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھرّا جاتی اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہ بخش دے۔ میری کمزوریاں بخش دے۔ ساری خطائیں معاف کر دے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کا قرب مجھے عطا ہو۔

مظفر درانی صاحب مربی لکھتے ہیں کہ جب میں آنے لگا تو ملنے گیا۔ انہوں نے پوچھا تو بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے مجھے سلام پہنچانے کے لئے کہا۔ کہتے ہیں آپ کو خلافت سے سچی اور حقیقی محبت تھی۔ جس خلیفہ کا بھی تذکرہ کرتے تو نہایت محبت سے ذکر کرتے اور ذاتی تعلقات کے واقعات بیان کرتے چلے جاتے۔ جس خلیفہ کا بھی ذکر شروع ہو جاتا تو ایسے لگتا کہ آپ اسی کے عاشق ہیں۔ لکھتے ہیں کہ خاکسار آپ کی ملاقاتوں اور صحبت کے نتیجے میں عرض کرتا ہے کہ آپ خلافت کے سچے فدائی تھے اور تمام خلفاء کے عاشق تھے اور یہی ایک حقیقی مومن اور حقیقی احمدی کی نشانی ہے۔

پروفیسر ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ چوہدری محمد علی صاحب خلافت احمدیہ کی ایک زندہ تاریخ تھے جن کی زندگی کا واحد مقصد خلافت کی جاں نثاری تھا اور جن کا فخریہ شعر تھا

کریں نہ کریں وہ تمہیں قتل مضطر

جھکا دینا تم اپنا سر احتیاطاً

مبارک صدیقی صاحب کہتے ہیں ایک دفعہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دو تین دفعہ یہ موقع ملا تھا اور ان کو کہا کہ انتخاب سخن پروگرام میں آپ کی فلاں فلاں نظموں کی لوگ بڑی فرمائش کرتے ہیں۔ اس بات پر آپ کہنے لگے میرے کلام کاکوئی ہنر نہیں ہے۔ یہ سب خلافت کی برکات ہیں۔ مَیں تو صرف احمدیوں کے دلوں کی ترجمانی کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو اچھا لگتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان جیسے مخلص اور فدائی، خلافت کے شیدائی اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ عطا کرتا چلا جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 21؍ اگست 2015ء شہ سرخیاں

    ہمارے جلسوں کا ایک بہت بڑا مقصد تو یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا اور بیعت کی غرض بھی یہ بیان فرمائی کہ ’’اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے‘‘۔ دل پر محبت تو اس وقت غالب آ سکتی ہے جب ہم آپؐ پر دل کی گہرائی سے درود بھیجیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ حکم ہے اور پھر اپنی حالتوں کو بھی اس کے مطابق ڈھالیں اور ڈھالنے کی کوشش کریں جس کا اسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔

    جلسے پر آنے والوں کو جہاں جلسے کا مقصد پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنی ہے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور بھائی چارے کے جذبات کو بھی بڑھانا ہے۔ اپنے دینی علم میں بھی اضافہ کرنا ہے۔

    جلسے میں شامل ہونے والوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے کے جو مین سیشن ہوتے ہیں اس کے علاوہ جو وقت باقی بچے وہ دینی باتوں یا ذکر الٰہی میں گزاریں یا جو دوسرے پروگرام ہیں ان کو دیکھیں۔ آنے والے مہمان تمام شاملین جلسہ اپنے جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو سامنے رکھیں اور زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

    جلسہ کے مختلف انتظامات کو مزید بہتر بنانے کے سلسلہ میں انتظامیہ کو اہم ہدایات۔

    مکرم اکرام اللہ صاحب شہید ابن مکرم کریم اللہ صاحب آف تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان(پاکستان) اور مکرم چوہدری محمد علی صاحب وکیل التصنیف تحریک جدید ربوہ (پاکستان) کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 21؍اگست 2015ء بمطابق 21ظہور 1394 ہجری شمسی،  بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور