ایمان اور اسلام
خطبہ جمعہ 11؍ ستمبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
ایک شخص جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے مسلمان ہونے کی خوبصورتی تبھی ظاہر ہو گی جب وہ ایمان میں مضبوط ہو اور اسلام کی حقیقت کو سمجھتا ہو۔ ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہواور اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بھی ہر شر سے بچا کر رکھے اور دوسروں کے لئے بھی سلامتی کے سامان کرے۔
پس یہ خلاصہ ہے ایمان اور اسلام کا۔ اگر مسلم دنیا اس چیز کو سمجھ لے، اس بات کو سمجھ لے تو دنیا میں پائیدار امن اور سلامتی قائم کرنے اور بکھیرنے کے ایسے نظارے نظر آئیں جو دنیا کو جنت بنا دیں۔ اس زمانے میں اس حقیقی ایمان کو دلوں میں قائم کرنے اور حقیقی اسلام کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کی طرف منسوب ہونے کے بعد یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ حقیقی ایمان کو قائم کرتے ہوئے اور اسلام کا صحیح نمونہ بنتے ہوئے اس کام میں آپ کے ممد و معاون بنیں۔ دنیا کو ایمان کی حقیقت بتائیں اور سلامتی پھیلانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اپنے نظام کے ذریعہ سے دنیا میں ہر جگہ یہ کام تو کر ہی رہی ہے لیکن ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا نمونہ بنائے تا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری ادا کرنے والا بنے۔
آجکل مسلمان دنیا میں بدقسمتی سے جو فساد برپا ہے اس نے اسلام کے نام کو بدنام کیا ہؤا ہے۔ کاش کہ مسلمان ممالک اس بات کو سمجھیں کہ ان کے ذاتی مفادات نے اسلام کو کس قدر زَد پہنچائی ہے اور شدت پسند گروہ اور تنظیمیں بھی اس وجہ سے ابھری ہیں کہ ہر سطح پر مفاد پرستی زور پکڑ رہی ہے۔ ملکوں کے امن برباد ہو رہے ہیں۔ نہ خود امن میں ہیں، نہ دوسروں کو سلامتی پہنچا رہے ہیں۔ نہ حکومت رعایا کے ساتھ انصاف کر رہی ہے، نہ رعایا حکومت کے حق ادا کر رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ان دونوں کی بے اعتدالیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
’’جب تک یہ دونوں پہلو (یعنی حکومت کے فرائض اور رعایا کے فرائض) اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اُس ملک میں امن رہتا ہے اور جب کوئی بے اعتدالی رعایا کی طرف سے یا بادشاہوں کی طرف سے ظہور میں آتی ہے تبھی ملک میں سے امن اٹھ جاتا ہے‘‘۔ (چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ33)
بدقسمتی سے یہی کچھ ہم آجکل اکثر مسلمان ممالک میں دیکھ رہے ہیں اور پھر اسلام دشمن قوتیں بھی اس سے اپنے مفادات حاصل کر رہی ہیں۔ ایک طرف تو دونوں کی جھگڑے بڑھانے میں مدد کی جاتی ہے تو دوسری طرف شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں کو شہرت دے کر پریس اور میڈیا بے انتہا کوریج دیتا ہے اور یہ کوریج دے کر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے۔
مَیں نے بعض انٹرویوز جو میڈیا کو دئیے ان میں ایک بات یہ بھی انہیں کہی تھی کہ اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے شدت پسند اور دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کرنے میں تم جو میڈیا والے ہو تمہارا بھی ہاتھ ہے۔ میڈیا انصاف سے کام نہیں لیتا۔ کسی گروہ کے یا ملک کے حکمرانوں کے، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، سیاسی عزائم کو تم مذہب کا نام دے کر پھر اسلام کی تعلیم کو بدنام کرتے ہو۔ اور پھر اس کو اتنی شہرت دیتے ہو کہ تم نے دنیا میں رہنے والے لوگوں کی اسلام کے متعلق سوچیں ہی بدل دی ہیں۔ یا جو اسلام کو جانتے نہیں ان کے ذہنوں میں اسلام کا ایسا تصور پیدا کر دیا ہے، ایسا ہوّا کھڑا کر دیا ہے کہ ان کے چہرے اسلام کا نام سن کر ہی متغیر ہو جاتے ہیں۔ اور جہاں تمہارے اپنے مفادات ہوں وہاں خبریں دبا بھی دیتے ہو۔ مثلاً کچھ عرصہ پہلے آئرلینڈ میں جب شدت پسندی کے واقعات علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہوئے تو پریس نے فیصلہ کر لیا کہ خبریں نہیں دینی یا پریس کو مجبور کیا گیا کہ خبریں نہیں دینی اور نتیجۃً وہیں مقامی سطح پر ہی تھوڑا سا ابال اٹھا اور حکومت نے اسے دبا دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمان ممالک میں حکومت مخالف گروہوں کی کارروائیاں زیادہ سخت ہوں، جو مسلمان ممالک میں علیحدگی پسند گروہ ہیں یا شدت پسند گروہ ہیں ان کی کارروائیاں ان کی نسبت شاید زیادہ سخت ہوں لیکن ان کو تسلسل سے یہ کارروائیاں کرنے کی کس طرح توفیق مل رہی ہے یا کس طرح وہ یہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کو اسلحہ کی صورت میں جو ایندھن ہے وہ تو باہر سے ہی مہیا کیا جاتا ہے۔
مَیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ حالات سے تنگ اور بے چین لوگ جب شدت پسند گروہوں میں شامل ہوتے ہیں تو اس کا بے انتہا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اتنے لوگ یہاں سے چلے گئے، اتنے لوگ وہاں سے چلے گئے اور پھر اسلام کو بھی کسی نہ کسی طریق سے نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے مزید بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ہزاروں لاکھوں مسلمان جو امن کی بات کرتے ہیں ان کا ذکر میڈیا نہیں کرتا یا انہیں وہ پذیرائی نہیں ملتی جو منفی رویّے دکھانے والوں کو ملتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر تو جماعت احمدیہ ہے جو محبت اور پیار کی اسلامی تعلیم پھیلاتی ہے اور تمام دنیا میں ایک لگن سے اس کام پر لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امن کے جھنڈے تلے امن پھیلانے اور سلامتی بکھیرنے کے لئے لاکھوں لوگ ہر سال جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہم تمہیں بتائیں بھی تو تم اتنی توجہ نہیں دیتے بلکہ بالکل بھی توجہ نہیں دیتے۔ کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ اور دنیا کے سامنے بعض مسلمانوں کے یا مسلمان گروہوں کے عمل کی غلط تصویر ہی پیش کی جاتی ہے، منفی تصویر پیش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی غیر مسلم آبادی سمجھتی ہے کہ اسلام کا صرف ایک ہی رخ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ شدت پسندی ہے اور نا انصافی ہے اور یہی اسلام کا حقیقی چہرہ ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا دنیا میں، غیر مسلموں میں اسلام سے نفرت بڑھتی جاتی ہے۔
بہرحال پریس بھی کیونکہ اب ایک کاروباری چیز ہے ان کا کاروبار ہے اور مسالے دار خبریں لگانا ان کا کام ہے جو وہ اس لئے لگاتے ہیں کہ ان کو مالی فوائد حاصل ہوں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ لاکھوں لوگ امن اور سلامتی کے جھنڈے تلے ہر سال جمع ہوتے ہیں۔ جلسے کی رپورٹ میں بھی ان کا ذکر ہوتا ہے، مَیں نے کیا تھا۔ بعض مثالیں میں نے جلسے میں دوسرے دن پیش کی تھیں۔ تو اِس وقت میں ایسے ہی چند لوگوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں جنہوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھا اور ان کے دلوں پر اثر ہوا۔ ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں اور مسلمان بھی شامل ہیں اور پھر بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تصویر کو دیکھ کر اسلام قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ عہد کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور صحیح اسلامی تعلیم کے اظہار کی حتی المقدور کوشش کریں گے اور یہ پیغام آگے پھیلائیں گے جو اسلام کا خوبصورت پیغام ہے، جو امن اور سلامتی کا پیغام ہے اور بعض نے یہ بھی اظہار کیا کہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کی دنیا کو ضرورت ہے اور میڈیا نے اسلام کے بارے میں منفی تاثر دے کر ہماری سوچوں پر تالے لگا دئیے تھے۔ جماعت احمدیہ کی جو یہ کوششیں ہیں انہوں نے پھر ان کی ان غلط سوچوں کو دور کیا۔ ایک عیسائی پادری نے ایک جگہ برملا اس بات کا اظہار کیا۔ بینن میں ایک چھوٹی سی جماعت چِیْرِیْمَان ہے وہاں مسجد کا افتتاح تھا تو اپاسٹلک(Apostalic) چرچ کے پادری نے کہا کہ آج کا دن میری زندگی کا ایک عجیب دن ہے۔ آج مسلمان اور مسیحی ایک جگہ بیٹھے ہیں۔ مَیں پہلے بھی مسلمانوں کے علاقے میں کام کر چکا ہوں لیکن کبھی کوئی ایسی تقریب نہیں دیکھی جس میں مسلمان اور عیسائی اکٹھے ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ نے ہم سب کو اکٹھا کیا ہے۔ میں احمدیت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ پھر انصاف پسند سیاستدان جو ہیں ان پر بھی جماعت کے اِن کاموں کا بڑا اثر ہے۔ یہاں جلسے کے دنوں میں بھی آپ کے سامنے بعضوں نے اظہار کیا ہو گا۔ دنیا میں ہر جگہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جو اسلامی تعلیم پیش کرتی ہے اور جو کام کر رہی ہے، جو عملی تصویر ہے اس کو سراہا جاتا ہے۔ جماعت کی خدمات کو لوگ پسند کرتے ہیں اور اظہار کرتے ہیں کہ کیسی خوبصورت تعلیم ہے۔
بینن کے ہی گاؤں گان زُوْگُو (Ganzougo) میں مسجد کا افتتاح تھا۔ اس میں ایک مہمان آئے ہوئے تھے جو وہاں منسٹر آف ٹرانسپورٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہمارے لئے کوئی نئی جماعت نہیں اور ان کی خدمات انسانی کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ ہم گورنمنٹ کے نمائندے ہر ایک تنظیم اور گروپ کی تحقیق کرتے ہیں اور ان کے منشور، مقاصد اور مشن پر گہری نظر رکھنا ہمارا کام ہے۔ اور احمدیت کی انسانی خدمات جو بینن میں ہیں اور جو امن کی اور محبت کی کوشش جماعت احمدیہ نے کی ہے وہ ملک بینن میں اوّل نمبر پر ہے۔ مَیں امن اور محبت کی کاوشوں میں احمدیت کی خدمات کو سلام کرتا ہوں اور یہ محبت ہی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ کے چیف سے لے کر تمام حکومتی مشینری آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے کیونکہ آپ کا جو نعرہ ہے ’محبت سب سے، نفرت کسی سے نہیں‘ اور جو اسلامی تعلیم آپ پیش کرتے ہیں وہ ایسی چیز ہے کہ ہم مجبور ہیں کہ آپ کا ساتھ دیں۔ پھر میڈیا کا کردار ایک طرف تو اتنا زیادہ ہے کہ بڑے تو بڑے بچوں کو بھی اسلام سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ بعض جگہ سکولوں میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ بعض دفعہ غیر مسلم بچے مسلمانوں بچوں سے ایسا سلوک کر رہے ہوتے ہیں جس سے لگ رہا ہوتا ہے کہ نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ دوسری طرف جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کے اس اثر کو زائل کرتا ہے اس کا ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ کبابیر میں ہماری مسجد ہے۔ وہاں جماعت ہے۔ وہاں کے مشنری لکھتے ہیں کہ چند دن قبل ہماری مسجد کے سامنے ایک یہودی ٹیچر اپنے سکول کے بچوں کو لے کر جماعت کا تعارف کرا رہے تھے۔ وہ ٹیچر غالباً عربی بھی جانتے تھے۔ ہماری مسجد کے دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔ وہ ٹیچر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کر کے بچوں کو سمجھا رہے تھے کہ اس جملے کا مطلب ہے کہ جو اس میں داخل ہو گا وہ امن میں رہے گا۔ کہنے لگا یہ الفاظ تو سارے مسلمان ادا کرتے ہیں، پڑھتے ہیں، قرآن شریف میں ہے۔ بچوں کو کہتا ہے کہ مگر آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ اس جملے کا عملی نمونہ صرف احمدیوں کی مسجد میں ہی دیکھنے کو ملے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی توجہ جماعت کی طرف پھیرتا ہے۔ برکینا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے فرنچ علاقہ ہے۔ وہاں ایک جگہ کَالَمْباگَو (Kalambago) میں مسجد تعمیر ہوئی۔ مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایک دوست نے کہا کہ میرا جماعت احمدیہ سے دس سال قبل تعارف ہوا تھا لیکن میں جماعت احمدیہ کو مسلمانوں کی ایک عام سی تنظیم سمجھتا تھا- اس لئے نہ میں نے احمدیت قبول کی اور نہ ہی اپنے اس علاقے میں اس کا ذکر کیا مگر آج جماعت احمدیہ کی یہاں اپنے گاؤں میں مسجد دیکھ کر مجھے علم ہؤا ہے کہ جس جماعت کو میں نے مسلمانوں کی عام تنظیم سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا وہی جماعت اسلام کی حقیقی خدمت کر رہی ہے اور آج میرے گاؤں میں بھی اس جماعت نے مسجد بنا دی ہے۔ آج مجھ پر واضح ہو گیا کہ یہ جماعت یقینا سچی ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی تائید ہے۔
پھر مُویُوں (Mougnoun) ایک جگہ بینن میں ہے جہاں مشرکین آباد ہیں۔ سب مشرکین ہیں۔ ہمارے مشنری وہاں تبلیغ کے لئے گئے۔ جماعت کا تعارف کرانے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہے تو کرے۔ اس پر ایک بزرگ کہنے لگے کہ میں تو اسلام کے بارے میں بُرے خیالات رکھتا تھا۔ آپ کو دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ بوکو حرام ہم میں داخل ہو گئے ہیں۔ (بوکوحرام ایک شدت پسند، دہشت گرد تنظیم ہے جن کا آجکل نائیجیریا میں خاص طور پر بڑا زور ہے۔ ) لیکن جب مَیں نے آپ کی تقریر سنی تو میرے اسلام کے بارے میں تمام خدشات دور ہو گئے اور میں پہلا شخص ہوں جو ان مشرکین میں سے اسلام اور احمدیت کو قبول کرتا ہوں۔ پھر اس کے بعد اس گاؤں سے چالیس افراد اسلام احمدیت میں داخل ہوئے اور یہاں مشرکین کے گاؤں میں، اس جگہ میں ایک نئی جماعت قائم ہو گئی۔ پھر ان کی کچھ روایات ہیں۔ جب آدمی فوت ہوتا ہے تو اس کے لئے بڑا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جب تک پورا اہتمام نہ ہو جائے، لاکھوں فرانک خرچ نہ کئے جائیں اس وقت تک اس کو دفنایا نہیں جاتا۔ بڑے اہتمام سے دفنایا جاتا ہے۔ بڑا فنگشن ہوتا ہے اور چاہے مہینہ رکھنا پڑے مارچری میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ احمدی ہوئے تو اس بزرگ نے اعلان کیا کہ میں جب مر جاؤں تو مجھے اس طرح نہ دفنانا بلکہ جو مسلمانوں کا طریقہ ہے اس کے مطابق میری تدفین ہو۔ یہ رسم و رواج اب آئندہ سے ختم ہوں تو فوری تبدیلی ان میں یہ پیدا ہوئی کہ رسم و رواج کو بھی انہوں نے فوری طور پر چھوڑ دیا۔ پھر ایک دن ہمارے معلم کو کہنے لگے کہ احمدی ہونے کے بعد میرے جسم میں ایک نئی روح آ گئی ہے۔ میں جہاں بھی ہوں چاہے اپنے فارم پہ کام کر رہا ہوں، میری روح میرے ضمیر کو جگاتی ہے اور کہتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ تو یہ پابندی ان لوگوں میں نماز کے لئے بھی پیدا ہو چکی ہے اور کہتے ہیں کہ اس طرح میں نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور میری روح کو سکون اور جسم کو راحت ملتی ہے۔ کہتے ہیں اب میں اپنے اندر بڑی تبدیلی محسوس کرنے لگ گیا ہوں۔ پس ہم میں سے بھی جو نماز میں سست ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ نئے آنے والے عبادتوں کی طرف بھی رجحان رکھنے والے ہیں اور بڑی توجہ سے نمازیں پڑھتے ہیں۔ آج اسلام کی حقیقی تعلیم جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی دنیا کو پہنچ سکتی ہے۔ اس کا ذکر اکثر رپورٹس میں ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے اور کس طرح لوگوں پہ اثر ہوتا ہے۔ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ یہ گنی کناکری ملک کا ہے وہاں کا ایک شہر فارانا (Farana) ہے جووہاں کے کیپیٹل سے تقریباً پانچ سو کلو میٹر دُور ہے۔ وہاں ہمارے لوگ جب تبلیغ کے لئے پہنچے تو وہاں پر موجود ہمارے ایک احمدی دوست ابوبکر صاحب نے تبلیغی نشستوں کا اہتمام کیا۔ یہ مربی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام ان لوگوں کو پہنچایا۔ ابھی تبلیغ کا سلسلہ جاری تھا کہ وہاں ایک مولوی شر پھیلانے کے لئے پہنچ گیا۔ کچھ دیر تو خاموشی سے باتیں سنتا رہا۔ اس کے بعد بڑے غصّے میں کہا کہ تمہیں یہاں تبلیغ کی اجازت نہیں ہے اور میں تمہیں پولیس کے ذریعہ سے ابھی یہاں بند (گرفتار) کرواتا ہوں۔ وہاں کے نوجوان کھڑے ہو گئے اور اس مولوی کو بڑے غصے سے کہا کہ تم اتنے عرصے سے یہاں ہو تم نے تو کبھی یہ باتیں نہیں بتائیں جو باتیں آج ہمیں سننے کو مل رہی ہیں اور یہی باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جو ہمارے دل پر اثر کر رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کو خوبصورتی سے پیش کرنے کا یہ انداز ہے جو ہمارے دلوں کو گھائل کر رہا ہے اور ہمیں اس سے سکون مل رہا ہے۔ تم تو ابھی تک ہمیں گمراہ کرتے چلے آئے ہو۔ اس لئے فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ مولوی بڑا شرمندہ ہو کر وہاں سے گیا اور وہاں جو مجلس لگی تھی اس کے نتیجہ میں پندرہ افراد جماعت میں شامل ہو گئے۔
پھر گنی کناکری کا ہی ایک واقعہ ہے۔ دارالحکومت سے کوئی دو سو کلو میٹر دور ایک قصبے میں تبلیغ کے لئے جب گئے تو وہاں ایک شخص نے کہا کہ آپ سے پہلے بھی تبلیغی جماعت کے لوگ یہاں آئے تھے لیکن ان کے رویّے کیا تھے۔ وہ لوگ آئے تو تبلیغ کرنے تھے۔ انہوں نے بھی اللہ اور رسول کی باتیں کی تھیں لیکن پھر انہوں نے اس گاؤں میں کچھ ایسی بیہودگیاں کی ہیں کہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ تم لوگ بھی وہی کچھ کرنے آئے ہو۔ اس لئے بہتر ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہیں مار مار کر نکال دیں۔ اِنہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کہنے دو۔ وہاں کے ایک بزرگ نے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ یہ لوگ مجھے ان لوگوں سے کچھ مختلف لگتے ہیں، ذرا ان کی باتیں تو سن لو۔ چنانچہ کہتے ہیں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد بیان کیا اور آپ کی آمد کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانے کی یہ علامات ہوں گی اور اس میں مسیح موعود ظاہر ہوں گے۔ بہرحال لوگوں پر اس بات کا غیر معمولی اثر ہوا۔ لوکل مشنری کو وہاں چھوڑ آئے جنہوں نے تبلیغ جاری رکھی اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ہفتے میں نہ صرف وہ گاؤں اپنے امام اور مسجد سمیت احمدیت میں داخل ہوا بلکہ قریب کے چار پانچ گاؤں بھی بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور مزید رابطے جاری ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ مسلسل ہمیں پیغام مل رہے ہیں کہ لوگ بے چینی سے حقیقی اسلام میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمان علماء اور لیڈروں نے بھی جیسا کہ مَیں نے مثال بھی دی ہے اسلام سے دور کرنے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ہر جگہ جو غیر مسلم ہیں ان کو بھی جرأت پیدا ہوئی کہ اسلام کو بدنام کریں۔ جماعت احمدیہ کس طرح کوشش کر کے بگڑے ہوئے مسلمانوں یا ان مسلمانوں کو جن کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے واپس دین کی طرف لاتی ہے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ افریقہ میں ایک جگہ ایک بکسٹال لگایا گیا۔ قرآن کریم کی نمائش تھی۔ پورتونووو بینن کا شہر ہے وہاں سے دو مسلمان نوجوان آئے۔ انہیں جب احمدیت کا تعارف کروایا گیا اور بتایا گیا کہ امام مہدی علیہ السلام آ چکے ہیں اور وہی اس زمانے کے امام ہیں تو وہ فوراً بولے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیین ہیں۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی آئے گا۔ اس پر انہیں فرنچ زبان میں کتاب صداقت مسیح موعود علیہ السلام پڑھنے کے لئے دی گئی اور آخری زمانے میں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پیش کی گئیں۔ مسیح کی آمد ثانی کا ذکر کیا گیا۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلام کیا ہے۔ یعنی وہ حقیقی اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ جس میں محبت ہے، امن ہے اور آشتی کی تعلیم ہے۔ آج تو مسلمانوں نے اس کی شکل بگاڑ دی ہے۔ اس پر وہ دونوں نوجوان کہنے لگے کہ ہم عقیدے کے اعتبار سے مسلمان تو ضرور ہیں لیکن مسلمانوں کی بربریت اور دہشت گردی سے اتنے تنگ آ گئے تھے کہ ہم تو عیسائی ہونے لگے تھے۔ لیکن اب جماعت احمدیہ کی باتیں سن کر تسلی ہوئی ہے کہ اسلام ایسا نہیں جیسا یہ مُلّاں لوگ پیش کرتے ہیں۔ مبلغ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے ہمیں عیسائی ہونے سے بچا لیا، اسلام چھوڑنے سے بچا لیا۔
غیر مسلموں کے دلوں میں بھی حقیقی اسلام کو دیکھ کر اس پیغام کو پھیلانے کا شوق پیدا ہو تا ہے وہ بھی ہمارا ساتھ دینے لگ جاتے ہیں۔ جاپان کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک بدھسٹ جاپانی ہمارے سٹال پر آئے اور کہنے لگے کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات بہت کم ہیں۔ جب انہیں اسلام کا تعارف کروایا گیا اور دیگر مذاہب کے بارے میں اسلامی تعلیم کے نمونے قرآن کریم کی آیات سے دکھائے تو انہوں نے نہ صرف ہمارا شکریہ ادا کیا بلکہ کہنے لگے کہ یہ خوبصورت تعلیم اس لائق ہے کہ دنیا کو بتائی جائے اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ موصوف کہنے لگے کہ اگر مجھے اجازت دیں تو میں بھی ایک دن آپ لوگوں کے ساتھ مل کر امن کا پیغام تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے مبلغ لکھتے ہیں چنانچہ حسب وعدہ ایک دن وہ ہمارے سٹال پر آئے اور صبح دس بجے سے شام چار بجے تک باوجود اس کے کہ وہ بدھسٹ تھے بلند آواز سے یہ اعلان کرتے رہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور لوگوں میں فولڈر تقسیم کرتے رہے۔
اسی طرح انڈیا میں صوبہ کرناٹک میں ایک جگہ گدک میں ایک بکسٹال لگایا گیا۔ اس بکسٹال پر ایک غیر مسلم دوست آئے اور بعد میں کہنے لگے کہ ہم نے اس سے قبل بھی بہت سے بک سٹال دیکھے ہیں لیکن امن اور شانتی کا پیغام دینے والے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے والے ایسے لوگ میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ وہ بہت متاثر ہوئے اور ہمارے اس بک سٹال سے بہت ساری کتابیں خرید کر لے گئے۔
لکسمبرگ کے ایک شہر میں نمائش کے موقع پر جماعت کی طرف سے بکسٹال کا انعقاد کیا گیا۔ شہر کے میئر بھی سٹینڈ پر آئے اور مختلف کتابیں دیکھیں۔ اس کے بعد لکسمبرگ جماعت کے صدر نے انہیں جماعت کا مختصر تعارف کروایا۔ ان کو ایک کتاب بھی تحفۃً دی۔ اس پر میئر نے کہا کہ آپ کی کمیونٹی بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ آپ کو چاہئے کہ اسلام کی اس خوبصورت تصویر کو جلد از جلد دنیا میں پھیلائیں۔ ایک دل شکستہ نومسلم کا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ امیر صاحب ہالینڈ نے لکھا ہے بلال صاحب ایک ڈچ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی حالت زار سے بہت دل شکستہ ہو گئے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے بچے کے لئے تحفہ خریدنے کی نیت سے بازار گئے تو راستے میں ایک بک سٹال پر رک گئے۔ یہ جماعت احمدیہ کا بک سٹال تھا۔ انہوں نے جماعت کا شائع شدہ قرآن کریم پہلی مرتبہ دیکھا۔ سٹال پر موجود احمدی خادم سے بات چیت بھی کی اور جماعت کا کچھ لٹریچر اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ کچھ عرصے بعد جب ان سے دوبارہ رابطہ ہوا تو کہنے لگے کہ میں جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے جب خوشی خوشی اپنے سنّی مسلمان دوستوں سے جماعت کا ذکر کیا اور انہیں بتایا کہ میرے پاس جماعت احمدیہ کا لٹریچر بھی ہے تو اس پر بہت غصے ہوئے اور لڑنے پر اتر آئے۔ کہتے ہیں کہ میری بیوی جو کہ مراکش کی ہیں وہ بھی بہت غصّہ میں آ گئیں۔ گھر میں احمدیت کا ذکر کرنا بھی ناممکن ہو گیا۔ بہرحال کہتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ میں چھپ کر احمدیت کے بارے میں تحقیق کروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری دوبارہ اس نوجوان کے ساتھ ملاقات کروا دی جو مجھے بک سٹال پر ملا تھا۔ اس نے مجھے جلسہ سالانہ ہالینڈ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ میں دو دن جلسے میں شامل رہا۔ اس دوران مجھے یوٹیوب پر بھی ڈچ زبان میں کچھ ویڈیو دیکھنے کو مل گئیں جس کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ ہوا بلکہ میری بیوی نے بھی ان ویڈیوز کو دیکھ کر احمدیت کے بارے میں اپنی رائے بدل لی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احمدیت کی صداقت ظاہر کی اور مجھے بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ اب میں جماعتی پروگرام میں شامل ہوتا ہوں اور روحانی طور پر ترقی محسوس کرتا ہوں۔ جو پہلے بے چینی تھی وہ بھی ختم ہو رہی ہے۔
پھر قرآن کریم کی تعلیم کا غیروں پر کس طرح اثر ہوتا ہے۔ کینیڈا سے ہمارے ایک داعی الی اللہ دوست لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک تبلیغی بکسٹال لگایا۔ ایک انگریز کینیڈین میاں بیوی ہمارے سٹال پر آئے اور قرآن مجید دیکھ کر کہنے لگے مجھے بتائیں کہ اس کتاب کی کیا خصوصیات ہیں؟ کہتے ہیں میں نے انہیں قرآن مجید کا مختصر تعارف کروایا۔ اس کے بعد وہ صاحب قرآن کریم خریدنے لگے۔ لیکن بیوی بڑی کٹّر عیسائی تھی۔ وہ اس بات پر بضد رہی اور خاوند کو کہتی رہی کہ قرآن کریم نہیں خریدنا۔ بہرحال وہ صاحب کہنے لگے کہ میری بیوی جو ہے اس کو قرآن کریم کی کوئی ایسی بات بتائیں کہ وہ قرآن کریم لینے پر آمادہ ہو جائے۔ خود تو خریدنا چاہتے تھے لیکن مجبوری بھی تھی، لڑائی نہ پڑ جائے گھر میں۔ ہمارے وہ احمدی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہاکہ قرآن مجید میں ایک سورۃ ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے۔ ان کے بارے میں ایسی تفصیل ہے جو آپ کو بائبل میں نہیں ملے گی اور وہ جگہ نکال کر ان کے آگے رکھ دی۔ ترجمہ تھا۔ ان کی اہلیہ پڑھنے لگیں۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد کہنے لگیں کہ واقعی بہت دلچسپ کتاب ہے۔ ہم نے تو پریس میں پڑھا تھا یعنی میڈیا نے ہمیں یہ بتایا ہوا تھا، اخباروں نے ہمیں یہ بتایا ہوا تھا کہ قرآن نفرت سے بھرا ہوا ہے لیکن اس میں تو عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کا بہت محبت سے ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے قرآن کریم خرید لیا۔ چند ہفتوں کے بعد وہ دوبارہ ہمارے سٹال پر سے گزرے تو شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے قرآن کریم پڑھا ہے۔ میڈیا میں اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے اگر کوئی قرآن کریم پڑھے یا اس پر سرسری نگاہ ہی ڈال لے تو اس کی ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں مَیں تو اپنے بہت سارے عیسائی دوستوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کا کہتا ہوں۔ بینن میں ایک بک سٹال کے موقع پر گورنمنٹ کے ایک سکول ٹیچر آئے اور جماعت کی محبت اور امن کی تعلیم پڑھی تو کہنے لگے مجھے اپنے طالبعلموں کے لئے بھی لٹریچر دیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس لٹریچر کا مطالعہ کریں اور معاشرہ امن اور محبت سے بھر جائے۔ امن اور محبت سے بھرنے کے لئے معاشرے کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر ہے۔ چنانچہ وہ لٹریچر لے گئے اور جا کر اپنے طالبعلموں کو دیا اور بعد میں سکول کے کچھ سٹوڈنٹس آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ لٹریچر ہمیں ٹیچر سے مل چکا ہے۔
نیک فطرت مسلمانوں پر بھی جماعت احمدیہ کے نظام کو دیکھ کر جو عین اسلامی نظام ہے اثر ہوتا ہے۔ اور یہی بات پھر ان کے لئے ہدایت کا باعث بن جاتی ہے۔ برکینا فاسو کے مربی کہتے ہیں کہ ایک جگہ ہے سِلابُوبُو (Silaboubo) وہاں تبلیغ کے لئے گئے۔ لوگوں نے بڑا اچھا استقبال کیا۔ سارے مرد عورتیں تبلیغ سننے کے لئے جمع ہو گئے اور رات دو بجے تک سوال و جواب ہوتے رہے۔ آخر پر کہتے ہیں کہ میں نے انہیں بتایا کہ ہماری جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہے اور ہمارے چندے کا بھی ایک نظام ہے جو باقاعدہ عالمی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جماعت کا ایک بیت المال ہے جو خلیفۂ وقت کے تحت ہے۔ اسی بیت المال میں چندہ جاتا ہے اور اسی میں سے نکل کر خرچ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں صبح نماز کے بعد ایک دوست زکریا صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھی تھی کہ میں چندہ دے رہا ہوں اور ایک آواز آتی ہے کہ چندہ ایسے اسلامی گروپ کو دو جس کا ایک بیت المال ہو۔ میں کافی عرصے سے یہ اسلامی گروپ ڈھونڈ رہا تھا لیکن رات کو جب مربی صاحب نے جماعت کے مالی نظام کے بارے میں بتایا تو مجھے ان الفاظ کی تعبیر مل گئی جو میں نے خواب میں سنے تھے۔ چنانچہ موصوف نے اسی وقت دس ہزار فرانک سیفہ نکال کر ادا کئے۔ رسید بک بھی ہمارے پاس تھی۔ کہتے ہیں اسی وقت ہم نے رسید بک نکال کر رسید کاٹ دی۔ جب لوگوں نے اس خواب کے بارے میں سنا اور یہ بھی دیکھا کہ باقاعدہ چندے کی ایک رسید بک ہوتی ہے جس پر سارا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تو بڑے متاثر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد اس گاؤں میں 282افرادنے بیعت کر لی اور باقاعدہ یہ سب لوگ جماعت کے چندے کے نظام میں شامل ہیں۔ گوئٹے مالا ساؤتھ امریکہ کا ملک ہے۔ وہاں فلائر کی تقسیم کے دوران ایک نوجوان یوسف سے رابطہ ہوا۔ مشن ہاؤس آئے۔ احمدیت قبول کی۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ غیر از جماعت مسجد میں جا کر دلی سکون نہیں ملا۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں۔ ایک دن جب میں دعا کر کے سویا تو خواب میں ایک بزرگ دیکھے جو نہایت روحانی شکل و صورت کے مالک تھے۔ ایک راستہ ہے جس پر راکھ ہی راکھ ہے۔ یہ بزرگ میرے سامنے چلنے لگ جاتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ میرے پیچھے چلو۔ اس بزرگ کے چلنے سے راکھ والا راستہ صاف ہوتا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں خواب میں صرف یہ بات ہی سمجھ لگتی ہے کہ یہ سبق کل تک یاد رکھو۔ اگلے دن آپ لوگوں کو اسلام احمدیت کا پیغام لوگوں میں تقسیم کرتے دیکھا۔ میں نے پڑھا تو دل کو یوں محسوس ہوا کہ یہی اصل اسلام ہے اور میں ویب سائٹ پر تمام معلومات حاصل کر کے باقاعدہ بیعت کی غرض سے اب یہاں آیا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہی وہ بزرگ تھے جو انہیں خواب میں راستہ دکھا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات نے ان کو ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا ہے۔
فرانس کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع دوست کمال صاحب نے بتایا کہ میں کئی سال سے روایتی مسلمان تھا اور علماء کی طرف سے قرآن کریم کی جو تشریحات کی جاتیں ان پر مطمئن نہیں تھا۔ میں دو مختلف انتہاؤں میں زندگی گزار رہا تھا۔ ایک طرف وہ چیز جس پر میرا ایمان تھا لیکن دوسری طرف میرا دماغ جو بعض باتوں کو ردّ کرتا تھا اور دلیل مانگتا تھا۔ اس کی وجہ سے عجیب کشمکش میں تھا۔ لیکن اچانک میری اندھیری روحانی زندگی میں ایک شمع نمودار ہوئی جس نے مجھے جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف نیا راستہ دکھا دیا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے بہنوئی کے ساتھ کسی مذہبی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا تو انہوں نے جماعت احمدیہ کا ذکر کیا اور مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر پڑھنے کو کہا۔ میں نے جب تفسیر پڑھی تو میں دنگ رہ گیا کہ اتنی سادہ اور شفاف تفسیر چودہ سو سال میں کسی اور نے کیوں نہیں لکھی۔ اس کے بعد میرے بہنوئی نے مجھے ایم ٹی اے کے بارے میں بتایا۔ انٹرنیٹ کا لنک دیا جس پر میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی کتب پڑھیں اور کئی پروگرامز دیکھے۔ جو لوگ بھی یہ پروگرام کرتے تھے میں نے ان کو مخلص اور دلیل سے بات کرنے والا پایا۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہے اور میری روح کو آزادی مل گئی ہے۔ میرے تمام وساوس دور ہو گئے اور حقیقی اسلام کو جان لیا چنانچہ بیعت کر لی۔
دنیا کے مختلف حصوں میں جب جماعت کے ذریعہ سے اسلام کا پیغام پہنچتا ہے جو محبت اور امن اور سلامتی کا پیغام ہے تو نیک فطرت اسے قبول کرتے ہیں۔ ابھی میں نے فرانس کا واقعہ کا بیان کیا ہے تو ایک واقعہ ساؤتھ امریکہ کا بھی ہے کہ کس طرح لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ مبلغ انچارج گوئٹے مالا لکھتے ہیں کہ لیف لیٹس کی تقسیم کے نتیجے میں 91افراد کو قبول اسلام کی توفیق ملی۔ احمدیت قبول کرنے والوں میں ایک پادری ہیں جو 33سال تک کیتھولک چرچ اور پانچ سال پروٹسٹنٹ فرقے سے منسلک رہے۔
اسی طرح ایک اور ڈومنگو (Domingo) صاحب ہیں جو میونسپلٹی میں بطور جج کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جامعہ کینیڈا کے فارغ التحصیل جو طلباء تھے ان کو ایک ماہ کے لئے وہاں بھجوایا گیا تھا جنہوں نے گوئٹے مالا میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ لیف لیٹس تقسم کئے، پمفلٹ تقسیم کئے، مختلف علاقوں میں گئے۔ یہ جو جج تھے ان کو بھی ایک فولڈر ملا۔ چنانچہ مشن ہاؤس آئے اور مشنری انچارج سے دو تین گھنٹے ان کی اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے معلومات حاصل کیں اور بڑے متاثر ہوئے اور دوتین سو فولڈرز اپنے ہمراہ بھی لے گئے اور کہا کہ میں اپنے علاقے میں تقسیم کروں گا۔ پھر کچھ عرصے بعد اپنے علاقے سے سات افراد پر مشتمل ایک وفد لے کر آئے اور پھر قریباً دس دن مشن ہاؤس میں قیام کیا۔ اسلام اور عیسائیت کا موازنہ، تثلیث اور کفّارہ کے مسئلے زیر بحث آئے۔ نیز اسلام کی تعلیمات کی خوبصورتی اور برتری سے آگاہ کر کے جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈومنگو صاحب اور ان کی اہلیہ نے بیعت فارم پُر کر کے احمدیت قبول کر لی اور اپنے علاقے میں واپس جا کر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ یہاں اپنے علاقے میں جولائی میں تبلیغی پروگرام بھی انہوں نے بنایا۔ کہتے ہیں مَیں پہنچا تو سکول کے ہال میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا۔ ارد گرد کے دیہاتوں کے لوگوں کو مدعو کیا ہوا تھا۔ بڑی تفصیل سے وہاں اسلامی تعلیم بیان کی گئی۔ احمدیت کی تبلیغ کی گئی۔ گوئٹے مالا کے احمدیوں نے اپنی قبول احمدیت کے واقعات سنائے۔ سوال و جواب ہوئے۔ کہتے ہیں یہ مجلس سات گھنٹے جاری رہی۔ مجلس کے اختتام سے قبل جملہ حاضرین نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا جن کی تعداد 89تھی۔ ان میں مرد عورتیں سب شامل تھے۔
یہاں یورپ سوئٹزرلینڈ سے غالباً ایک صاحب نے لکھا کہ آپ کا فلائر مجھے بہت اچھا لگا۔ آپ جو کام کر رہے ہیں یہ خزاں کے موسم کو بہار میں بدلنے کے مترادف ہے۔ کبھی نہ کبھی تو ضرور بہار آئے گی۔ یہ غیروں کے تأثر ہیں۔ اسی طرح ایک سوئس باشندے نے کہا کہ جو لیف لیٹ میرے لیٹر بکس میں ڈالا گیا اس کا مضمون مجھے بہت پسند آیا۔ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میری بڑے عرصے سے یہ خواہش تھی کہ کاش مسلمانوں میں سے بھی کوئی ایسا ہو جو اس طرح امن کی مہم چلائے۔ آپ لوگوں نے میری خواہش پوری کر دی ہے۔
پھر سوئٹزرلینڈ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ زیورخ ایک چرچ میں جیکب (Jakob) صاحب ہیں۔ جماعت کی خدمات کے بڑے معترف ہیں اور جماعت کو پسند کرتے ہیں۔ اس چرچ نے جماعت کے ماٹو ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ کو لیا ہؤا ہے اور سال 2015ء کا 33واں ہفتہ اس حوالہ سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لئے جو معلوماتی لیف لیٹ انہوں نے شائع کیا ہے اس میں انہوں نے بڑے اچھے انداز میں جماعت احمدیہ کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے دو بنیادی اصول ہیں۔ ایک یہ فقرہ کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اور دوسرا یہ فقرہ کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ان دونوں اصولوں پر چلنے سے امن قائم ہو سکتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں اسلام کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی ہوا ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود کھڑا کر رہا ہے۔
اسلامی تعلیم کا شکریہ غیر لوگ کس طرح ادا کرتے ہیں۔ کونگو کنشاسا سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہمارے ریڈیو پروگراموں کو سن کر آرتھوڈوکس چرچ کے ایک پادری نے کہا کہ میں آپ کے انداز تبلیغ اور اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اسلام میں داخل ہو جاؤں گا اور سب سے پہلے اپنے بچے کو اسلام احمدیت میں داخل کروں گا۔ چنانچہ ان کا بیٹا مقامی جماعت میں بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہو چکا ہے۔
باندوندو (Bandundu) کونگو سے ہی ایک مربی لکھتے ہیں کہ ریڈیو باندوندو ایف ایم کے ڈائریکٹر نے جماعت احمدیہ کے ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگراموں کے متعلق کہا کہ ہمارے ریڈیو پر عیسائی پادری بھی تبلیغ کرتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کا تبلیغ کرنے کا طریقہ سب سے نرالا ہے۔ آپ کے پروگراموں میں کسی پر کیچڑ نہیں اچھالا جاتا۔ آپ لوگ اسلامی تعلیم کے محاسن پر گفتگو کرتے ہیں اور انسان کو معاشرے کا مفید حصہ بنانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ نائیجیریا کے ایک استاد جو مسلمان ہیں کہتے ہیں کہ آپ کی ساری جماعت میں پر امن اسلام کی عمدہ خوبیاں ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ آپ کو ملاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے خلیفہ کی دعائیں اسلام کے حق میں قبول فرمائے۔
پھر بینن سے ہمارے مربی لکھتے ہیں کہ ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر کنگ آف داسو (King of Dasso) بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں میں تو سب کو کہوں گا کہ احمدی ہو جاؤ۔ یہی سچے لوگ ہیں اور غُوں زبان کے ایک شاعر جو وہاں کی ایک مقامی زبان ہے انہوں نے اس موقع پر چند شعر بھی کہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا لگایا ہوا پودا اگر پانی نہ ملے تو جل جاتا ہے لیکن خدا کے لگائے ہوئے پودے کو اس کی حاجت نہیں۔ احمدیت خدا کا لگایا ہوا پودا ہے اور اس مسجد کی تعمیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور میرا گھر اس مسجد کے قریب ہے تو میں کیوں عبادت کے لئے دُور کسی چرچ میں جاؤں۔ کیوں نہ مسجد میں جاؤں۔ پس یہ پودا اسلام کا پودا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا پودا ہے اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس کی آبیاری کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور تاقیامت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پاتے ہوئے، آپ کے فیض کے طفیل اللہ تعالیٰ اس کو پانی مہیا کرتا بھی رہے گا روحانی طور پر بھی جو پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مہیا کیا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور ہمیشہ یہ پودا انشاء اللہ سرسبز و شاداب رہے گا۔
دنیا کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلانے کے لئے اور سلامتی اور محبت بکھیرنے کے لئے ہزاروں واقعات میں سے یہ چند واقعات میں نے پیش کئے ہیں جو سامنے آتے رہتے ہیں اور ہمارے ایمان کو تقویت بخشتے ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے سینے کھولتا ہے۔ کس طرح غیروں کے منہ سے ہمارے حق میں باتیں نکلواتا ہے۔ کوئی افریقہ کا رہنے والا ہے تو کوئی عرب کا۔ کوئی یورپ کا کوئی ساؤتھ امریکہ کا۔ لیکن اثر سب پر یکساں ہے۔ اس لئے کہ عالمگیر تعلیم صرف ایک ہی ہے اور وہ اسلام کی تعلیم ہے۔ ہر انصاف پسند چاہے وہ فوری طور پر اسلام کو قبول کرے یا نہ کرے لیکن اس بات کے کہنے پر مجبور ہے کہ دنیا کے امن کی اسلام ہی ضمانت ہے۔ کوئی انصاف پسند، خودغرض مسلمان لیڈروں یا مفاد پرست شر پسند گروہوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم کا حصہ نہیں مانتا۔ وہی کہے گا جس میں انصاف نہیں ہے۔ اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کریں لیکن اسلام نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن اور سلامتی مہیا کرنی ہے۔ آج نہیں تو کل دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام ہی دنیا کے امن اور سلامتی کی ضمانت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس کامیابی کا حصہ بننے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کئی گنا بڑھ کر دیکھنے والے ہوں اور اپنے عملوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے ہوں۔
اس زمانے میں حقیقی ایمان کو دلوں میں قائم کرنے اور حقیقی اسلام کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کی طرف منسوب ہونے کے بعد یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ حقیقی ایمان کو قائم کرتے ہوئے اور اسلام کا صحیح نمونہ بنتے ہوئے اس کام میں آپ کے ممد و معاون بنیں۔ دنیا کو ایمان کی حقیقت بتائیں اور سلامتی پھیلانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اپنے نظام کے ذریعہ سے دنیا میں ہر جگہ یہ کام تو کر ہی رہی ہے لیکن ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا نمونہ بنائے تا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری ادا کرنے والا بنے۔
اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے شدّت پسند اور دہشتگرد مذہب کے طور پر پیش کرنے میں میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ میڈیا انصاف سے کام نہیں لیتا۔ ہزاروں لاکھوں مسلمان جو امن کی بات کرتے ہیں ان کا ذکر میڈیا نہیں کرتا یا انہیں وہ پذیرائی نہیں ملتی جو منفی رویّے دکھانے والوں کو ملتی ہے۔ اور دنیا کے سامنے بعض مسلمانوں کے یا مسلمان گروہوں کے عمل کی غلط تصویر ہی پیش کی جاتی ہے
اِس وقت میں ایسے چند لوگوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں جنہوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھا اور ان کے دلوں پر اثر ہوا۔ ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ اور مسلمان بھی شامل ہیں۔ اور پھر بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تصویر کو دیکھ کر اسلام قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ عہد کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور صحیح اسلامی تعلیم کے اظہار کی حتی المقدور کوشش کریں گے اور یہ پیغام آگے پھیلائیں گے جو اسلام کا خوبصورت پیغام ہے، جو امن اور سلامتی کا پیغام ہے اور بعض نے یہ بھی اظہار کیا کہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کی دنیا کو ضرورت ہے
دنیا کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلانے کے لئے اور سلامتی اور محبت بکھیرنے کے لئے ہزاروں واقعات میں سے یہ چند واقعات میں نے پیش کئے ہیں جو سامنے آتے رہتے ہیں اور ہمارے ایمان کو تقویت بخشتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کی مساعی کے نیک اثرات اور غیر مسلموں کے تأثرات کا دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ
اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کریں لیکن اسلام نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن اور سلامتی مہیا کرنی ہے۔ آج نہیں تو کل دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام ہی دنیا کے امن اور سلامتی کی ضمانت ہے۔
فرمودہ مورخہ 11؍ستمبر 2015ء بمطابق 11تبوک 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔