عبادت میں ذوق و شوق اور مستقل مزاجی
خطبہ جمعہ 25؍ ستمبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ عبادت میں شوق کس طرح پیدا ہو؟ ہم کوشش کرتے ہیں تب بھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ بندہ کا کام یہ ہے کہ مستقل مزاجی سے کوشش کرتا رہے۔ اس ایمان پر قائم ہو کہ جو کچھ ملنا ہے خدا تعالیٰ سے ہی ملنا ہے، تب ہی وہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور پھر عبادت کے شوق کو بڑھاتی ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی کسی نے پوچھا کہ عبادت میں شوق کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ:
’’اعمال صالحہ اور عبادت میں ذوق و شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا۔‘‘ خود انسان کہے کہ میرے اندر پیدا ہو جائے۔ مَیں خود اپنی کوشش سے پیدا کر لوں، یہ نہیں ہو سکتا۔ ’’یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے۔‘‘ تھک کے بیٹھ نہ جائے بلکہ مستقل دعائیں کرتا رہے ’’اور ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے۔ جب انسان اس طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کردیتا ہے جس کے لئے اس کے دل میں تڑپ اور بیقراری ہوتی ہے۔ یعنی عبادت کے لئے ایک ذوق و شوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے‘‘۔ عبادت کی ایک مٹھاس جسے کہتے ہیں وہ اسے حاصل ہونی شروع ہو جاتی ہے، ایک مزہ آنے لگ جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے اور وہ یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے گا یا عبادت کا شوق پیدا ہو جائے گا یا کسی کے قریب چلا جائے تو وہ انسان اسے پھونک مار کر عابد بنا دے گا، یہ نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنّت نہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے‘‘۔ آخر نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ مارا جاتا ہے، خدا سے دُور ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے‘‘۔ اسلام سے ہٹ جائے ’’یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے‘‘۔ دین سے دُور چلا جائے۔ ’’اس لئے ہر وقت اس کے فضل کے لئے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو‘‘۔ اس سے مدد مانگو ’’تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے۔ جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔‘‘ جہاں اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہوئے، اللہ تعالیٰ کو چھوڑا، اللہ تعالیٰ کو بھولے، وہیں سے شیطان نے حملہ کیا اور شیطان ہو گئے۔ فرمایا کہ ’’اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تا کہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ استغفار اس کا علاج ہے کہ استغفار کرو تا کہ اس زہر سے بچو جو شیطان کے قریب کرتا ہے اور انسان کو ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد8 صفحہ155-154۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس مستقل مزاجی شرط ہے اور یہ ایمان کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ جب سب راستے بند کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے تبھی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو عبادت کا شوق بھی دلاتی ہے۔ مستقل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا پڑتا ہے۔ مستقل اس سے مدد مانگنی پڑتی ہے۔ شیطان کیونکہ ہر وقت حملے کے لئے تیار ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے استغفار کرنا بھی ضروری ہے۔ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے استغفار کرنا بہت ضروری ہے۔ انسان استغفار کر کے جب شیطان کو اپنے سے دُور بھگائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لئے تڑپ کر دعا بھی کرے گا۔ استغفار بھی تڑپ کر ہو رہی ہو گی اور مزید ترقی کرنے کے لئے اس کے قرب کے راستے تلاش کرنے کی دعا بھی ہو رہی ہو گی۔ جب ایسی حالت انسان کی ہو جائے، یہ کیفیت طاری ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عبد بننے اور نیکیاں بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عبادت میں ذوق و شوق خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتا ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور مستقل مزاجی سے کوشش اور دعائیں ضروری ہیں۔ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے استغفار بہت ضروری ہے۔
فرمودہ مورخہ 25؍ستمبر 2015ء بمطابق 25تبوک 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد فضل لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔