نقصانات، مصائب اور مشکلات میں مومنین کا ردّعمل
خطبہ جمعہ 2؍ اکتوبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْا َمْوَالِ وَالْا َ نْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ: 156۔ 157)ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ ان لوگوں کو جن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اُسی کی طرف لَوٹ کر جانے والے ہیں۔ ان آیات میں مومنوں کی ان خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ مشکلات اور مصائب یا کسی بھی قسم کے نقصان کے ہونے پر دکھاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک حقیقی مومن کا اسی وقت پتا چلتا ہے جب وہ ان خصوصیات کا حامل بنے۔ مومنین کو کبھی تو ذاتی طور پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی جماعتی طور پر نقصان ہوتا ہے لیکن حقیقی مومن ہر طرح کے نقصان سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہو کر نکلتا ہے اور اسے نکلنا چاہئے۔ اس مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف تحریرات اور ارشادات میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مختلف زاویوں سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ اِس وقت میں اس تعلق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دو حوالے پیش کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مصیبتوں کو بُرا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ مصیبتوں کو برا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْا َمْوَالِ وَالْا َ نْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو ان کو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں تو ان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ غرض مصیبت کے وقت قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا چاہئے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرے‘‘۔
فرمایا کہ مومن کی زندگی کے دو حصے ہیں۔ ’’جو نیک کام مومن کرتا ہے اس کے لئے اجر مقرر ہوتا ہے۔ مگر صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا ثواب بے حد و بے شمار ہے‘‘۔ (نیکی کا اجر ہے لیکن صبر کا ثواب بہت زیادہ ہے۔) ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ صابر ہیں یہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھ لیا۔ خدا تعالیٰ ان لوگوں کی زندگی کے دو حصّے کرتا ہے جو صبر کے معنی سمجھ لیتے ہیں۔ اوّل جب وہ دعا کرتا ہے (یعنی صبر کرنے والا) تو خدا تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے جیسا کہ فرمایا اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المؤمنون: 61) أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان (البقرۃ: 187)۔ دوم بعض دفعہ اللہ تعالیٰ مومن کی دعا کو بعض مصلحت کی وجہ سے قبول نہیں کرتا تو اس وقت مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ تنزل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن سے دوست کا واسطہ رکھتا ہے۔ جیسا کہ دو دوست ہوں ان میں سے ایک دوسرے کی بات تو کبھی مانتا ہے اور کبھی اس سے منواتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس تعلق کی مثال ہے جو وہ مومن سے رکھتا ہے۔ کبھی وہ مومن کی دعا کو قبول کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المؤمن: 61)۔ اور کبھی وہ مومن سے اپنی باتیں منوانی چاہتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ۔ پس اس بات کو سمجھنا ایمانداری ہے کہ ایک طرف زور نہ دے‘‘۔
فرمایا ’’مومن کو مصیبت کے وقت میں غمگین نہیں ہونا چاہئے۔ وہ نبی سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ایک محبت کا سرچشمہ جاری ہو جاتا ہے۔ مومن کو کوئی مصیبت نہیں ہوتی جس سے اس کو ہزارہا قسم لذّت نہیں پہنچتی‘‘۔
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کے پیاروں کو گناہ سے مصائب نہیں پہنچتے‘‘۔ (یعنی گناہ کی وجہ سے مصیبتیں نہیں آتیں ) آپ فرماتے ہیں کہ ’’مومن کے جوہر بھی مصائب سے کھلتے ہیں۔ چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھوں اور نصرت کے زمانے پر آپ کے اخلاق کو کس طرح ظاہر کیا۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف نہ پہنچتے تو اب ہم ان کے اخلاق کے متعلق کیا بیان کرتے۔ مومن کی تکالیف کو دوسرے بیشک تکالیف سمجھتے ہیں مگر مومن اس کو تکالیف نہیں خیال کرتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنی سچی توبہ پر قائم رہے اور یہ سمجھے کہ توبہ سے اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ اور اگر توبہ کے ثمرات چاہتے ہو تو عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرو۔ دیکھو جب مالی بوٹا لگاتا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے اور اس سے اس کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح ایمان ایک بوٹا ہے اور اس کی آبپاشی عمل سے ہوتی ہے اس لئے ایمان کی تکمیل کے لئے عمل کی از حد ضرورت ہے۔ اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہوں گے تو بوٹے خشک ہو جائیں گے اور وہ خائب و خاسر رہ جائیں گے‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلداول صفحہ604-603و، البدر20 مارچ 1903 نمبر9 جلد 2صفحہ67)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’تم مومن ہونے کی حالت میں ابتلا کو برا نہ جانو اور برا وہی جانے گا جو مومن کامل نہیں ہے۔ قرآن شریف فرماتا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْا َمْوَالِ وَالْا َ نْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ: 157) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کبھی تم کو مال سے یا جان سے یا اولاد سے یا کھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کریں گے مگر جو ایسے وقتوں میں صبر کرتے اور شاکر رہتے ہیں تو ان لوگوں کو بشارت دو کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہ اور ان پر خدا کی برکتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یعنی ہم اور ہمارے متعلق کُل اشیاء یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کار ان کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے۔ کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتا اور وہ لوگ مقام رضا میں بودوباش رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خدا نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’بعض لوگ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دعا کو قبول نہیں کرتا یا اولیاء لوگوں پر طعن کرتے ہیں (یعنی جو اولیاء اللہ ہوتے ہیں ان پر لوگ طعن کرتے ہیں، ان کو طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں ) کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی۔‘‘ فرمایا کہ ’’اصل میں وہ نادان اس قانون الٰہی سے ناآشنا محض ہوتے ہیں۔ جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑا ہو گا وہ خوب اس قاعدہ سے آگاہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دو نمونے پیش کئے ہیں انہی کو مان لینا ایمان ہے۔ تم ایسے نہ بنو کہ ایک ہی پہلو پر زور دو۔ ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کر کے اس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنے والے بنو‘‘۔ (ملفوظات جلد5 صفحہ199-198۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کے واسطے ترقی کرنے کے دو ہی طریق ہیں۔ اوّل تو انسان تشریعی احکام یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ تکالیف شرعیہ کی پابندی سے جو کہ خدا کے حکم کے موجب خود بجا لا کر کرتا ہے مگر یہ امور چونکہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں اس لئے کبھی ان میں سستی اور تساہل بھی کر بیٹھتا ہے اور کبھی ان میں کوئی آسانی اور آرام کی صورت ہی پیدا کر لیتا ہے۔ لہٰذا دوسرا وہ طریق ہے جو براہ راست خدا کی طرف سے انسان پر وارد ہوتا ہے اور یہی انسان کی اصلی ترقی کا باعث ہوتا ہے کیونکہ تکالیف شرعیہ میں انسان کوئی نہ کوئی راہ بچاؤ یا آرام و آسائش کی نکال ہی لیتا ہے۔ دیکھو کسی کے ہاتھ میں تازیانہ دے کر اگر اسے کہا جاوے کہ اپنے بدن پر مارو تو قاعدہ کی بات ہے کہ آخر اپنے بدن کی محبت دل میں آ ہی جاتی ہے۔ کون ہے جو اپنے آپ کو دکھ میں ڈالنا چاہتا ہے؟ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے انسانی تکمیل کے واسطے ایک دوسری راہ رکھ دی اور فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْا َمْوَالِ وَالْا َ نْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ: 157-156) ہم آزماتے رہیں گے تم کو کبھی کسی قدر خوف بھیج کر، کبھی فاقہ سے، کبھی مال، جان اور پھلوں پر نقصان وارد کرنے سے۔ مگر ان مصائب شدائد اور فقر وفاقہ پر صبر کر کے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے والے کو بشارت دے دو کہ ان کے واسطے بڑے بڑے اجر، خدا کی رحمتیں اور اس کے خاص انعامات مقرر ہیں۔ دیکھو ایک کسان کس محنت اور جانفشانی سے قلبہ رانی کر کے زمین کو درست کرتا۔ پھر تخم ریزی کرتا۔ آبپاشی کی مشکلات جھیلتا ہے۔ آخر جب طرح طرح کی مشکلات، محنتوں اور حفاظتوں کے بعد کھیتی تیار ہوتی ہے تو بعض اوقات خدا کی باریک در باریک حکمتوں سے ژالہ باری ہو جاتی یا کبھی خشک سالی ہی کی وجہ سے کھیتی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے۔ غرض یہ ایک مثال ہے ان مشکلات کی جن کا نام تکالیف قضا و قدر ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو جو پاک تعلیم دی گئی ہے وہ کیسی رضا بالقضا کا سچا نمونہ اور سبق ہے اور یہ بھی صرف مسلمانوں ہی کا حصہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد10 صفحہ414-413۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ نہ ہمارے اپنے دل میں کبھی یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے بڑے نقصانوں اور ابتلاؤں سے ہمیں گزارتا ہے اور نہ ہی کسی مخالف کے ہنسی ٹھٹھا کرنے یا یہ کہنے پر ہم پریشان ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو پھر تمہارا نقصان کیوں ہوتا ہے۔
ان اقتباسات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے جو باتیں بیان فرمائی ہیں ان کے بعض اہم نکات مَیں پھر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ جب تکالیف اور مشکلات رسولوں پر یا اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر آتی ہیں اور اس حوالے سے انبیاء کی جماعتوں پر بھی آتی ہیں جو ان کی صحیح تعلیم پر چلنے والے ہوں تو بہرحال جب اللہ تعالیٰ کے پیارے ان تکالیف سے گزرتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں کسی مشکل، مصیبت میں ڈالنے کے لئے یا سزا دینے کے لئے تکالیف میں سے نہیں گزارتا بلکہ ان کو انعامات کی خوشخبری دیتا ہے۔ اور جب اس قسم کی تکالیف خدا تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی جماعت کے مخالفین پر آتی ہیں اور بدوں پر آتی ہیں تو وہ ان کی تباہی بن کر آتی ہیں اور انہیں تباہ کر دیتی ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مشکلات پر صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے بے حد و حساب ثواب کے وارث بنتے ہیں۔ پس ایک مومن کو صبر کے معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صبر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کسی نقصان پر افسوس نہ کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نقصان، کسی تکلیف کو اپنے اوپر اتنا واردنہ کر لے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھے اور مایوس ہو کر بیٹھ جائے اور اپنی عملی طاقتوں کو استعمال میں نہ لاوے۔ پس ایک حد تک کسی نقصان پہ افسوس بھی ٹھیک ہے، کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئے عزم کے ساتھ اگلی منزلوں پر قدم مارنے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کا عزم اور عمل ضروری ہے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کرنے والے کو ہی دعا کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ دعا فوری قبول کر لیتا ہے تو کبھی اللہ تعالیٰ کسی مصلحت کی وجہ سے دعا قبول نہیں کرتا۔ لیکن مومن کا کام ہے کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر شکوہ نہ کرے۔ یہی حقیقی صبر ہے اور جب ایسی صبرکی حالت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب نوازتا ہے، انعامات دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے مشکلات کے وقت میں بھی لذّت اٹھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ان مشکلات کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات اور فضل چلے آ رہے ہیں۔ پس آپ نے فرمایا کہ مومن کو مصائب اور مشکلات ان کے گناہوں کی وجہ سے نہیں پہنچتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہوتا ہے تا کہ دنیا کو بھی پتا چل جائے کہ خدا تعالیٰ کے بندے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیارا وجود اللہ تعالیٰ کو جو ہے یا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی لیکن آپؐ کو بھی بیشمار تکالیف پہنچیں بلکہ ذاتی تکالیف بھی پہنچیں اور جماعتی تکالیف بھی پہنچیں اور یہ تکالیف جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ہیں کسی اور کو نہیں پہنچیں۔ لیکن ہر طرح کی تکلیف میں آپ کے صبر اور راضی برضا رہنے کا نمونہ دنیا میں ہمیں کہیں اور نظر بھی نہیں آتا اور یہی وہ اعلیٰ خُلق ہے جو تمام مسلمانوں کے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بھی سچی توبہ کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بھی تمہاری کامیابیوں اور امتحانوں میں سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ پس مومن کا کام ہے کہ عمل کے ساتھ ساتھ توبہ کی طرف بھی توجہ دے۔ یعنی ہر مشکل اور امتحان کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرے اور پھر نیک اعمال سے اپنی اصلاح کے تسلسل کو جاری رکھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک مالی پودا لگا کر پھر اسے پانی دیتا ہے، اسے پالتا ہے، اسے سینچتا ہے اسی طرح مومنوں کو بھی چاہئے کہ ایمان کے پودے کو نیک اعمال کا پانی لگائیں۔ اگر یہ کرو گے تو یہی ایک مومن کی کامیابی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بہت سارے لوگ باتیں کرتے ہیں۔ لوگ تو اولیاء اللہ پر بھی اعتراض کرتے آئے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی، فلاں قبول نہیں ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے اعتراض کرنے والے دراصل قانون الٰہی سے ہی لاعلم ہیں۔ ایک مومن تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو مان لیتا ہے اور کبھی منواتا ہے یہی اس کا قانون ہے۔ آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ تم ایسے نہ بنو جو اس قانون کو توڑنے والے ہوتے ہیں۔ یہ جو یہاں آگ لگنے کا ہی واقعہ ہو رہا تھا اس وقت ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ان کے ایک غیر احمدی دوست کہنے لگے کہ اگر تم لوگوں کی اتنی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو یہ آگ لگی کیوں؟ یہ مشکل تمہارے پہ آئی کیوں؟ خیر اس نے اس کو دلیل دی۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکلات نہیں آئی تھیں یا مومنین پر نہیں آتیں۔ لیکن بہرحال یہ اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تم ایسے نہ بنو جو قانون کو توڑنے والے ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مومنین کے لئے مصائب اور مشکلات ہمیشہ نہیں رہتے۔ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ پس صبر اور دعا اور اپنے عملوں سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنو اور جب بھی مشکلات میں سے گزرو، جب بھی مصائب آئیں تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو پھر اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے۔ جب انسان اِنَّا لِلّٰہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ پس جب ہم مصائب یا نقصان دیکھ کر اِنَّا لِلّٰہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جب اللہ تعالیٰ کے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی تباہ و بربادنہیں کرے گا۔ اگر کوئی مشکل آئی ہے تو شاید اللہ تعالیٰ ہمیں پہلے سے بڑھ کر انعام دینے کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے اور اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر پھر ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھک کر یہ کہتے ہیں کہ آئندہ کے بڑے انعام میں ہماری وجہ سے پھر کوئی روک نہ پیدا ہو بلکہ اے اللہ! ہم تیری طرف جھکتے ہوئے یہ انعام مانگتے ہیں اور ہمیشہ تیرے فضلوں کے ہی طلبگار ہیں۔ پس ہمیں صابر بھی بنا اور ہمیں اپنے عملوں کو بہتر کرنے والا بھی بنا اور ہمیں اپنی طرف ہمیشہ جھکا رہنے والا بھی بنا اور جب ہم یہ حالت پیدا کریں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ترقیات بھی ہوں گی اور پہلے سے بڑھ کر جماعتی ترقیات ہمیں نظر آئیں گی۔ دشمن کی دشمنی اور ان کا ہنسی ٹھٹھا ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق ہے، حقیقی تعلق ہے۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا گزشتہ دنوں یہاں مسجد کے متّصل دو ہالوں میں آگ کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا۔ بڑی خوفناک آگ تھی۔ اس پر جب مختلف ٹی وی چینلز اور دوسرے میڈیا نے خبر دی ہے تو بعض بغض و کینہ میں بڑھے ہوئے لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ ایک مثال مَیں نے پہلے بھی دی کہ اچھا ہوا یہ مسجد جل رہی ہے۔ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہے ہی نہیں کیونکہ یہ مسلمان نہیں اس لئے ان کی جو بھی عبادت کی جگہ ہے وہ جل رہی ہے۔ ان لوگوں نے پہلے تو خوشی منائی پھر افسوس کا جو اظہار کیا وہ اس بات پر نہیں کہ کیوں حصہ جلا بلکہ اس بات پر افسوس کیا کہ ان کے صرف دو ہال جلے ہیں، مسجد کیوں نہیں جلی۔ اس بات پر ہمیں بڑا افسوس ہے۔ تو یہ آجکل کے بعض مسلمانوں کا حال ہے۔ لیکن سارے ایسے نہیں ہیں۔ بعض علاقوں سے مسلمانوں نے ہمارے سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایک علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے یہ ہمدردی کا پیغام بھی آیا کہ ہمیں افسوس ہے کہ آپ کی مسجد کا کچھ حصہ جلا یا اس کا ہال جلا۔ انہوں نے کہا کہ چند مہینے پہلے ہماری مسجد بھی جلی تھی۔ وہاں آگ لگ گئی تھی اور کئی مہینے سے یہ مسجد بند تھی۔ اب چند دن پہلے کھلی ہے۔ بعض لا علم مقامی انگریزوں نے بھی یہ اظہار کیا کہ اچھا ہوا کیونکہ مسلمانوں کے خلاف ویسے ہی بعض جگہوں پر نفرت پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے ہمسائے اور وہ لوگ جو جماعت کو جانتے ہیں انہوں نے ہی ان غیر مسلموں کو بھی اور غیر احمدیوں کو بھی خود ہی جواب دیا اور کہا کہ تم لوگوں کو شرم آنی چاہئے یہ تو ایسی جماعت ہے جو صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرتی ہے۔ اور پھر دنیا میں مختلف چینلز نے اور دوسرے ذرائع نے بھی اس خبر کو دیا۔ یہ خبر دی کہ اس طرح یورپ کی سب سے بڑی مسجد میں آگ لگنے کا واقعہ ہؤا ہے۔ پھر اس پر تبصرے بھی ہوتے رہے کہ یہ کیسی جماعت ہے، یہ کون لوگ ہیں۔ گویا اس واقعہ نے دنیا میں جماعت کا ایک وسیع تعارف بھی کروا دیا۔ گو ہمیں تو افسوس ہؤا، ہم نے صبر بھی دکھایا اور اِنَّا لِلّٰہ بھی پڑھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نقصان اور امتحان میں بھی جماعت کے حق میں لوگوں کو کھڑا کر کے دنیا کو بتا دیا کہ میں ان کے ساتھ ہوں۔ آگ کی وجہ کیا ہوئی؟ یہ تو پولیس کو ابھی تک واضح نہیں ہؤا۔ انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ آگ کچن کے ساتھ سٹور سے شروع ہوئی تھی جہاں پلاسٹک کا سامان تھا اور بعض دوسری چیزیں پڑی ہوئی تھیں جس سے جلد آگ بھڑک اٹھی اور پھر چھتوں کی لکڑیوں کے ذریعہ یا اے سی (AC) کی ڈکٹ (Duct) کے ذریعہ سے آگے چلتی چلی گئی۔ بہرحال جو بھی وجہ ہوئی یہ بات ہمارے یہاں مسجد کا جو اسٹاف ہے، عملہ ہے اور انتظامیہ ہے اس کی کمزوری کی طرف بھی نشاندہی کرتی ہے اور ان کو بھی استغفار کی ضرورت ہے۔ ان کو بہت زیادہ استغفار کرنی چاہئے۔
جس طرح آگ بھڑکی تھی نقصان اس سے بہت زیادہ ہو سکتا تھا۔ فائر بریگیڈ والے بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہاری بہت بچت ہو گئی ہے کیونکہ ایسی آگ اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا ہوا تپش اور ٹمپریچر اس میں بہت نقصان ہو سکتا تھا۔ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نقصان نہیں ہوا۔
مَیں ذکر کر رہا تھا کہ غیروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح جماعت کا اثر قائم کیا یا کس طرح غیروں کے ذریعہ جماعت کا اثر ڈالتا ہے۔ پریس کو بھی بڑھا چڑھا کر خبریں لگانے اور سنسنی پھیلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ ایسی خبریں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی دوران جب یہ واقعہ ہو رہا تھا ایک پریس کا نمائندہ یہاں آیا اور ہمارے سیکرٹری اشاعت سے باہر سڑک پر کھڑے ہو کے انٹرویو لینے لگا۔ اندر آنے کی تو اجازت نہیں تھی۔ اس نے اس سے یہ سوال کیا کہ آپ کے ہمسایوں سے کیسے تعلقات ہیں اور ان کے کیا تأثرات ہیں؟ ابھی یہ سوال کررہا تھا کہ اسی دوران ایک کار آ کے رکی اور اس میں سے ایک انگریز خاتون اتریں اور قریب آ کر یہ کہا کہ میں آپ کی ہمسائی ہوں۔ یہیں مسجد کے ساتھ ہی رہتی ہوں اور پھر اپنی مدد کی پیشکش کی۔ اسی طرح بہت سے اور لوگ آئے، چرچ کے نمائندے آئے، تو بہرحال ہمسایوں کے یہ تاثرات براہ راست سن کر وہ نمائندہ کہنے لگا کہ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔ مجھے اب آپ سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔ تو ایک طرف تو یہ رویّہ ہے اُس اکثریت کا جو مسلمان بھی نہیں ہے اور ایک طرف بعض مسلمانوں کا یہ رویّہ کہ خوشی منا رہے ہیں اور سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے آج یہ سبحان اللہ استہزاء کے رنگ میں اور اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑکانے کے لئے پڑھ رہے ہیں تو پڑھیں لیکن انشاء اللہ جلد ہی اس سے بہتر اور خوبصورت تعمیر کر کے ہم حقیقی سبحان اللہ پڑھیں گے اور ماشاء اللہ بھی پڑھیں گے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا آزمایا جانا تو اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے۔ یہ بھی کہا ابھی یہ تو نہیں پتا کہ اس کی وجہ کیا بنی اور کس طرح یہ سب کچھ ہوا۔ اگر یہ کوئی سازش اور شرارت تھی تو ان باتوں سے جماعت کی ترقی نہیں رک سکتی۔ ہاں جیسا کہ مَیں نے کہا ہے انتظامیہ کو اپنی کمزوریاں دیکھنے اور ان پر غور کرنے کے لئے اس واقعہ کو ہوشیار کرنے والا ہونا چاہئے۔
جیسا کہ مَیں نے عید کے خطبے میں کہا تھا کہ نقصان پہنچانے اور آگیں بھڑکانے کا مقصد جماعت کو یا نبی کے مقاصد کو ختم کرنا ہوتا ہے اس میں تو یہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی کا بد ارادہ تھا بھی تو اس سے معمولی نقصان تو ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی معمولی نقصان پہنچتا ہے تو اللہ صبر کرنے والوں کو بشارت کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے ہی آپ کے خلاف سازشیں اور آگیں لگانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن کیا ہو رہا ہے، کیا نتیجہ نکل رہا ہے۔ جماعت کی ترقی ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ایک آگ تو ظاہری آگ ہے لیکن ایک آگ انسان کے اندر کی حسد، کینہ اور بغض کی آگ بھی ہے۔ گو بظاہر تو ہماری مسجد سے متّصل ایک حصے کو آگ لگی لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہمارا تو یہ نقصان انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو جائے گا اور انشاء اللہ ہم اللہ تعالیٰ کی بشارتوں سے حصہ بھی لینے والے ہوں گے اور یہ صبر اور دعا ہمیں اللہ تعالیٰ کی ٹھنڈک اور ٹھنڈی چھاؤں کی آغوش میں لے لے گا لیکن اس ظاہری آگ سے بھی مخالفین کی حسد کی آگیں بھی بھڑک رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا بہت سے لوگ آگ لگنے پر خوش ہیں لیکن پھر اس بارے میں افسوس کرنے لگ گئے کہ ان کی مسجد کیوں نہیں جلی، ان کااتنا تھوڑا نقصان کیوں ہوا ہے، اس سے بہت زیادہ نقصان ہونا چاہئے تھا۔ گویا جو ظاہری آگ ہمارے خلاف بھڑکائی تھی وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کو جلا رہی ہے حسد کی صورت میں، کینہ کی صورت میں، بُغض کی صورت میں۔ جماعت احمدیہ کے کام تو اُس وقت بھی نہیں رکے تھے جب آگ لگنے کا واقعہ ہو رہا تھا۔ لندن سے باہر یا یوکے (UK) سے باہر کی بات نہیں ہے بلکہ یہاں لندن میں ہم اپنے کام کئے جا رہے تھے۔ بعض ہمارے ورکر پریشان ضرور تھے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ افسوس تو نقصان پر ہوتا ہے، ایک فطری امر ہے لیکن افسوس سر پر سوار نہیں کر لیا جاتا۔ ایم ٹی اے کے انتظام کا ایک حصہ بھی یہیں ہے بلکہ بہت بڑا حصہ یہاں ہے۔ اُس دن راہِ ہدیٰ کا لائیو پروگرام تھا تو پروگرام والوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب ایم ٹی اے سٹوڈیو تک ہماری پہنچ نہیں ہے اور پتا نہیں وہاں کیا حالات ہیں، اُس میں جایا بھی نہیں جا سکتا اس لئے آج ریکارڈنگ دکھا دیں گے، ٹرانسمشن میں لائیو پروگرام نہیں کریں گے۔ جب مجھے پتا چلا تو میں نے کہا مسجد فضل سے لائیو پروگرام ہو گا۔ کوئی اس میں روک کی بات نہیں۔ اور ایسے فیصلے مجھ سے پوچھے بغیر ان کو خود کرنے بھی نہیں چاہئیں۔ ان کو چاہئے تھا کہ فوراً مجھ سے پوچھتے کہ اس لائیو پروگرام کے لئے اب کیا کیاجائے۔ بند کرنے کا جو ان کا ارادہ تھا یا مایوسی تھی یا وہ فوری فیصلہ نہیں کر سکے تو اگر لائیو پروگرام نہ ہوتا تو یہ احمدیوں کو بھی اور دنیا کو بھی یہ پیغام دے رہے ہوتے کہ ہمارا سارا نظام اس واقعہ سے درہم برہم ہو گیا، جو نہیں ہوا۔ چنانچہ فوری طور پر مسجد فضل کے سٹوڈیو سے راہ ہدیٰ کا لائیو پروگرام ہؤا۔ لوگوں کی کالیں آئیں، ان کے جواب بھی دئیے گئے، اس سے ان کی تسلی تشفی بھی ہوئی۔ تو ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ نقصان پر مایوس ہو کر بیٹھ جائیں یا اپنی جگہیں چھوڑ کر صرف تماشا دیکھنے کے لئے وہاں جا کر کھڑے ہو جائیں۔ بہت سارے لوگ یہاں کھڑے تھے حالانکہ ان کو اپنے اپنے کاموں پر جانا چاہئے تھا بلکہ فوری طور پر ہر ممکن متبادل کوشش ہونی چاہئے تھی اور کرنی چاہئے اور پھر باقی اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے۔ میر محمود احمد صاحب اُن دنوں میں یہاں تھے انہوں نے بتایا کہ جب ہجرت کے بعد ربوہ آئے ہیں اور اس کی آبادکاری شروع ہوئی تو اس وقت جماعت کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی اور ایک نیا شہر بنانے کا چیلنج تھا۔ جماعتی عمارات کی تعمیرات کرنی تھیں، مساجد بنانی تھیں۔ بہرحال ایک بیابان جگہ پر ایک شہر ہی بسانا تھا۔ سب کچھ نئے سرے سے تعمیر کرنا تھا۔ اُس وقت جب مسجد مبارک تیار ہوئی تو یہ مشہور ہو گیا کہ مسجد کی تعمیر صحیح طور پر نہیں ہوئی۔ غالباً چھت کے بارے میں یہ تھا کہ صحیح میٹیریل (material) استعمال نہیں ہوا اور یہ گر جائے گی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے لئے تشریف لائے۔ آپ دروازے کے اندر کھڑے ہوئے، دیکھا اور پھر فرمایا کہ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ گر سکتی ہے۔ اس کا جائزہ لیں۔ اگر تو یہ بات صحیح ہے کہ اتنی کمزور عمارت ہے یا چھت ہے کہ یہ گر سکتی ہے اور دوبارہ بنانی پڑے گی تو پھر ٹھیک ہے جہاں اور آزمائشیں ہیں ایک یہ بھی سہی۔ اس زمانے میں پارٹیشن کے بعد تو بڑی آزمائشیں تھیں۔ اس وقت جماعت کی مالی حالت کا اندازہ جن کو ہے وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ آج کے اور اُس وقت کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ تو بہرحال ان باتوں سے ہمیں کبھی گھبراہٹ نہیں ہوئی اور نہ ہونی چاہئے۔ اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے اور پھر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ہم دعائیں کرتے ہوئے اس آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے۔ مالی لحاظ سے بھی اب جماعت پر اللہ تعالیٰ کابہت بڑا فضل ہے۔ انشاء اللہ اس نقصان کی بہتر رنگ میں تلافی ہو گی۔ یہ نقصان چاہے کسی طرح بھی پہنچا ہے، کسی نے بھی پہنچایا ہے۔ ہماری نااہلی کی وجہ سے ہؤا ہے، بے احتیاطی کی وجہ سے ہوا ہے یا حادثاتی طور پر یہ واقعہ ہؤا ہے۔ جو بھی اس کی وجہ ہے، انشاء اللہ اس کو ہم نے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ خوبصورت شکل میں واپس لانا ہے۔ فی الحال مجھے اس کے لئے جماعت کو کسی علیحدہ تحریک کے لئے کہنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن لوگوں نے بغیر کہے، از خود اس کے لئے رقم بھیجنی شروع کر دی ہے۔ بچوں نے خاص طور پر اس کے لئے چندہ دینا شروع کیا ہؤا ہے۔ بغیر کہے خود بچے اپنی جو بگھیاں ہیں وہ پیش کر رہے ہیں بلکہ سالم بگھیاں ہی بھیج دی ہیں جن میں جتنے سکّے جمع تھے سب دے دئیے۔ سات آٹھ سال کی ایک بچی نے اپنے باپ کو کہا جب اس نے تفصیل پوچھی کہ ان ہالوں میں تو ہم جا کے کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ کھیلتے بھی تھے، فنکشن بھی کرتے تھے تو ہمیں اس کو دوبارہ بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ اس لئے میرے پاس جو پیسے جمع ہیں مَیں دیتی ہوں اور اپنی بگھی اٹھا کر لے آئی۔ یہ بچی کے جذبات ہیں۔ پس جب قوم کے بچے بھی ایسا عزم رکھتے ہوں تو پھر ان کو کون مایوس کر سکتا ہے، یہ معمولی نقصان کیا کہہ سکتے ہیں۔ پھر ہمارے اپنے ہمسائے ہیں وہ بھی اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امیر صاحب نے بتایا کہ یہاں سکول کے ہیڈ ماسٹر کا پیغام آیا کہ سکول کے بچے اس عمارت کی دوبارہ تعمیر کے لئے کچھ رقم اکٹھی کر کے چندہ دینا چاہتے ہیں۔ یہ اعلیٰ اخلاق جو مسلمانوں کو دکھانے چاہئیں، یہ غیر مسلم دکھا رہے ہیں۔ چاہے ہم لیں یا نہ لیں بہرحال انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ہمیں ان کے جذبات کی قدر کرنی چاہئے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آگ کی شدت بہت زیادہ تھی۔ بعض لوہے کے گارڈر اور فریم اس طرح چُر مُر ہو گئے ہیں جس طرح تنکوں کو مروڑا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض دفاتر بچ بھی گئے ہیں۔ ان کے ریکارڈ بھی محفوظ ہیں۔ وصیت کا دفتر ہے، قضا کا دفتر ہے یا اور دفاتر ہیں۔ اسی طرح ایم ٹی اے کا تمام حصہ بچ گیا۔ وہاں بڑا قیمتی سامان بھی تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب آج وہاں کام شروع بھی ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ حصہ ان ہالوں کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا اس لئے جب مجھے اطلاع ملی تو فکر بھی پیدا ہوئی بلکہ دعا بھی حقیقت میں اس کے لئے ہی شروع ہوئی، اس کے بعد ہی شرو ع ہوئی کیونکہ یہاں آگ پہنچنے کا مطلب تھا کہ اب اصل مسجد کی طرف بھی آگ بڑھ سکتی تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان کی لائبریری کو نقصان تو پہنچا ہے لیکن اس کا بھی ستّر فیصد حصہ ہم نے دوسری جگہ محفوظ کر لیا ہؤا تھا۔ اسی طرح لائبریری کا ٹرانسلیشن والا حصہ جو تھا وہ بھی تقریباً سو فیصد محفوظ ہے۔ میرے نزدیک جو بعض تفصیلی ٹیپوں (tapes) کا نقصان ہوا ہے جن میں دوروں وغیرہ کی تفصیلات تھیں وہ ایسا نقصان نہیں ہے جسے کہا جائے کہ ہماری تاریخ اس سے ضائع ہو گئی کیونکہ اس کے بھی چنیدہ حصے محفوظ ہیں۔ ایم ٹی اے کے حصے کا بچنا بھی ایک معجزہ ہی ہے کیونکہ ساتھ کی چھت کو جلا کر ہی آگ واپس ہوئی ہے یا بجھانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ وہ اس پر قابو پا لیں۔ اسی طرح طاہر ہال اور مسجد کا حصہ بھی بالکل محفوظ رہا جیسا کہ میں نے بتا دیا۔ آپ دیکھ بھی رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جانی نقصان سے بھی محفوظ رکھا۔
ایک صاحب لائبریری میں بیٹھے ہوئے کام کر رہے تھے اور ان کو پتا نہیں چلا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں اپنا کام ختم کر کے جب مَیں دروازہ کھول کے باہر نکلا تو ایک کالے دھوئیں کا بگولہ اندر داخل ہوا ہے۔ میں پریشان ہو گیا۔ باہر نکلا۔ بھاگنے کی کوشش کی تو اندھیرا اور بالکل کالا سیاہ دھوآں تھا۔ سب کچھ بند تھا اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور میرا سانس رکنا شروع ہو گیا۔ کہتے ہیں خیر مشکلوں سے اس وقت مَیں نے گلی کی دیوار کو ٹٹولا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ دعا بھی مانگتا جا رہا تھا کیونکہ ہمت جواب دیتی جا رہی تھی، دھوئیں کی وجہ سے سانس رک رہا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا ہے کہ آگ تیرے غلاموں کی غلام ہے تو میں بھی غلام ہوں تُو بچا لے۔ کہتے ہیں اسی طرح دو تین مواقع ایسے آئے کہ جب لگتا تھا کہ نیچے گر جاؤں گا اور اگر چند سیکنڈ کے لئے بھی یہ نیچے گرتے تو تپش اتنی زیادہ تھی کہ جلا کے بالکل بھون کے رکھ دینا تھا۔ لیکن بہرحال ہمت کرتے ہوئے اس اندھیرے دھوئیں میں سے نکلتے چلے گئے اور باہر جب دروازے پر پہنچے ہیں، روشنی نظر آئی۔ کہتے ہیں جب میں نے کُلّی کی ہے اور صفائی کی ہے کو تو منہ میں سے بھی کلّی کرنے سے اس طرح کالے رنگ کا پانی نکلا ہے جس طرح سیاہی بھری ہوتی ہے۔ تو یہ ان کا حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر انہیں بچا لیا۔ ان کے لئے تو یہ بھی بڑا معجزہ ہے۔ چند سیکنڈ کی دیر بھی ان کو جلا کے رکھ سکتی تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے۔ حاسدوں کے حسد تو اور بڑھیں گے اس لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دیں۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوُرِھِمْ۔ کی دعا پڑھیں اور رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار کی دعا پڑھنی چاہئے۔ اگر یہ واقعہ میں ہماری نااہلی اور کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے تو استغفار بھی بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیں اپنی ذمہ داریاں صحیح رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کمزوریوں کو دور فرمائے۔ اور اگر یہ آزمائش ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سے بھی کامیابی سے گزارے اور اپنے انعامات پہلے سے بڑھ کر عطا فرمائے اور ان صابرین میں ہمارا شمار فرمائے جن کو خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہم ترقیات دیکھیں۔
نماز کے بعد میں کچھ غائب جنازے پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ جو ہے وہ مکرم چوہدری محمود احمد صاحب مبشر مرحوم درویش قادیان کا ہے جو حضرت چوہدری غلام محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ 18؍ستمبر کو تقریباً 97سال کی عمر میں قادیان میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ پھر یہ 1934ء میں قادیان مدرسہ احمدیہ میں آئے۔ 1943ء میں فوج میں بھرتی ہوئے۔ وہاں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد انہوں نے زندگی وقف کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر قادیان آ گئے اور قادیان میں آپ مختلف ادارہ جات میں کام کرتے رہے۔ قائمقام آڈیٹر اور نائب آڈیٹر کی خدمت بجا لاتے رہے۔ شاہجہاں پور میں انجمن کے مختار عام کے طور پر بھی کام کیا۔ قادیان کے دفتر جائیداد میں زمینوں کی نگرانی بھی کرتے رہے۔ خدمت کی ان کو کافی توفیق ملی۔ قاضی سلسلہ بھی تھے۔ دفتر دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت میں بھی خدمت کرتے رہے اور پھر وہیں سے یہ انجمن کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ لوگوں کے جذبات کا اپنے شعروں میں اظہار کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور ملنسار تھے۔ مہمان نوازی کا بڑا شوق تھا۔ قادیان میں غیر مسلم طبقے میں اپنے حسن معاشرت کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ کافی تعداد میں ان کے جنازے میں غیرمسلم بھی شامل ہوئے ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائی تھیں۔ دو بیٹے قادیان میں ہیں جبکہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پاکستان میں ہیں۔ جو بھی مہمان قادیان آتا اس کی بڑی خدمت کرتے چاہے واقف ہو یا ناواقف ہو۔ درویشی کا عرصہ بھی انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے سے گزارا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
دوسرا جنازہ مکرم خالد سلیم عباس ابوراجی صاحب (سیریا) کا ہے جن کی 27؍اگست 2015ء کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ سیریا کے پرانے مخلص احمدیوں میں شامل تھے۔ منیر الحصنی صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں 1927ء میں آپ نے احمدیت کو قبول کیا۔ صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند، سادہ مزاج، نہایت صاف گو، مہمان نواز، محنتی، دیانتدار، اطاعت گزار، نیک اور مخلص انسان تھے۔ پیشے کے لحاظ سے نجّار تھے۔ خلافت کے عاشق تھے۔ نظام جماعت اور مربیان کرام کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہر ایک سے عزت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے اور باوجود اس کے کہ ان کا گھر جمعہ پر آنے والوں میں سب سے دُور تھا پھر بھی بالعموم سب سے پہلے آیا کرتے تھے اور اذان دینے کا ان کو بہت شوق تھا۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بڑے جوان ہمّت تھے اور خود چل کر پرانے احمدیوں سے ملنے جایا کرتے تھے۔ خطبات اور خطابات باقاعدگی سے سنتے، لوگوں تک پہنچاتے۔ آخر دم تک اپنے عہد بیعت کو نبھایا۔ اور اخلاص و وفا کے ساتھ نبھایا۔ جلسہ سالانہ ربوہ اور یوکے میں بھی شامل ہو چکے ہیں۔ تمام مربّیان جو بھی ان کے ساتھ رہے، اَور جو لوگ بھی رہے انہوں نے ان کے غیر معمولی اخلاص اور مربیان سے حسن سلوک کی بڑی تعریف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی شاید صرف ایک بیٹی احمدی ہے باقی بچّے احمدی نہیں۔ اس بات کا ان کو بڑا افسوس تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی دعاؤں اور نیک خواہشات کو ان کی اولاد کے حق میں پورا فرمائے۔ ان کے احمدیت قبول کرنے کا واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص ایک مولوی کے ساتھ بحث کر رہا ہے۔ اس کو اللہ اور رسول کا واسطہ دے کر کچھ بتا رہا ہے اور مولوی اس کو کافر کافر کہے جا رہا ہے۔ آخر پتا لگا کہ جس کو کافر کہا جا رہا ہے وہ شخص احمدی تھا تو ان کو یہ خیال آیا کہ ایک شخص اللہ اور رسول کی بات کر رہا ہے اور اس کو یہ کافر کہہ رہا ہے تو اس بات سے پھر انہوں نے آخر اسی سے رابطہ کر کے جماعت کے بارے میں معلومات لیں اور پھر آہستہ آہستہ علم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
اس وقت تیسرا جنازہ ایک سیرین احمدی دوست کا ہی ہے۔ ان کا نام مکرم احمد الرحال صاحب تھا۔ آجکل جو وہاں جنگی حالات ہیں اس میں ان کو بم کے ٹکڑے لگے جس کی وجہ سے شہید ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اور سیریا کے حالات کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں بھی بہتری پیدا فرمائے۔ تمام مسلمان ممالک کو ہی عقل اور سمجھ دے اور وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی بجائے حقیقی مسلمان بنیں اور آپس میں رحم ان میں پیدا ہو اور زمانے کے امام کو ماننے کی اللہ تعالیٰ انہیں توفیق عطا فرمائے۔
مومنین کو کبھی تو ذاتی طور پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی جماعتی طور پر نقصان ہوتا ہے لیکن حقیقی مومن ہر طرح کے نقصان سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔
اس مضمون پر قرآنی آیات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی مختلف تحریرات و ارشادات کے حوالہ سے بصیرت افروز رہنمائی اور احباب کو اہم نصائح۔
اس بات کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ نہ ہمارے اپنے دل میں کبھی یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے بڑے نقصانوں اور ابتلاؤں سے ہمیں گزارتا ہے اور نہ ہی کسی مخالف کے ہنسی ٹھٹھا کرنے یا یہ کہنے پر ہم پریشان ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو پھر تمہارا نقصان کیوں ہوتا ہے۔
مومنین کے لئے مصائب اور مشکلات ہمیشہ نہیں رہتے۔ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ پس صبر اور دعا اور اپنے عملوں سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنو اور جب بھی مشکلات میں سے گزرو، جب بھی مصائب آئیں تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کو پھر اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے۔
دشمن کی دشمنی اور ان کا ہنسی ٹھٹھا ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق ہے، حقیقی تعلق ہے۔
مسجد بیت الفتوح سے متّصل دو ہالوں میں آگ لگنے کے واقعہ پر غیر احمدی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مختلف ردّعمل اور میڈیا میں اس کی تشہیر کے حوالہ سے تذکرہ۔
گو بظاہر تو ہماری مسجد سے متّصل ایک حصے کو آگ لگی لیکن ہمارا تو یہ نقصان انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو جائے گا اور انشاء اللہ ہم اللہ تعالیٰ کی بشارتوں سے حصہ بھی لینے والے ہوں گے اور یہ صبر اور دعا ہمیں اللہ تعالیٰ کی ٹھنڈک اور ٹھنڈی چھاؤں کی آغوش میں لے لے گا لیکن اس ظاہری آگ سے بھی مخالفین کی حسد کی آگیں بھی بھڑک رہی ہیں۔ حاسدوں کے حسد تو اور بڑھیں گے اس لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دیں۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوُرِھِمْ کی دعا پڑھیں اور رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار۔ کی دعا پڑھنی چاہئے۔ اگر یہ واقعہ میں ہماری نااہلی اور کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے تو استغفار بھی بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیں اپنی ذمہ داریاں صحیح رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کمزوریوں کو دور فرمائے۔ اور اگر یہ آزمائش ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سے بھی کامیابی سے گزارے اور اپنے انعامات پہلے سے بڑھ کر عطا فرمائے اور ان صابرین میں ہمارا شمار فرمائے جن کو خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہم ترقیات دیکھیں۔
مکرم چوہدری محمود احمد صاحب مبشر درویش قادیان، مکرم خالد سلیم عباس ابو راجی صاحب سیریا اور ایک اور سیرین احمدی دوست مکرم احمد الرحال صاحب کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 02؍اکتوبر 2015ء بمطابق 02اخاء 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔