ایک سچا احمدی مسلمان ہونے کی شرائط
خطبہ جمعہ 9؍ اکتوبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یہاں احمدیوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو پیدائشی احمدی ہیں یا وہ لوگ جن کے گھر میں انتہائی بچپن میں احمدیت آئی اور ان کی پروان احمدی ماحول میں چڑھی اور ان میں سے بھی اکثریت پاکستانیوں کی ہے جن کو اس ملک میں اس لئے رہنے اور یہاں کا شہری بننے کی اجازت ملی کہ آپ نے یہاں آ کر اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان میں آپ کو آزادانہ طور پر اپنے مذہب کے مطابق، اسلامی تعلیمات کے مطابق اظہار اور عمل کی اجازت نہیں تھی یا نہیں ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جن پر براہ راست مقدمات بھی بنے ہوں۔ پس اس اکثریت کو یہاں رہنے کی اجازت یا یہاں کی حکومت کی شفقت اس وجہ سے ہے کہ آپ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں۔ پس یہ احمدی ہونے کا اعلان آپ پر کچھ ذمہ داری ڈالتا ہے اور اس ذمہ داری سے وہ احمدی بھی باہر نہیں ہیں جو اپنی تعلیمی یا کسی اور قسم کی ماہرانہ صلاحیت کی وجہ سے اس ملک میں آئے اور یہاں آ کر اپنی تعلیمی صلاحیتوں اور مہارت کو مزیدنکھارنے کے موقع ملے اور اپنے آپ کو جماعت احمدیہ سے منسوب بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح نومبائعین ہیں وہ جب بیعت کرتے ہیں اور جماعت میں اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کی سچائی پر انہیں یقین ہے تو بیعت کے بعد ان پر بھی اس بیعت کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ ان کو بھی اس وجہ سے اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کر دے گا کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم نے پیدائشی احمدیوں کو یا پرانے احمدیوں کو جس طرح کرتے دیکھا اس طرح کیا۔
اس زمانے میں ہماری تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قرآن و سنت کے بارے میں تفسیروں، تشریحات کو، تحریرات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ان کو دیکھنا اور پڑھنا ضروری ہے اور یہ چیزیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ پس کسی کے لئے بھی کوئی عذر نہیں ہے۔ لیکن پرانے احمدیوں کو مَیں یہ بھی کہوں گا کہ آپ کے نمونے دیکھ کر اگر کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو آپ اس غلطی اور گناہ میں حصہ دار ضرور بنتے ہیں۔ پس پرانے احمدی جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ ان کے باپ دادا احمدی ہوئے یا انہیں بچپن میں ہی احمدیت مل گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے یہاں آ کر انہیں بہتر حالات میسر آئے انہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ وہ جماعت کے زیر احسان ہیں اور اس احسان کے شکرانے کے طور پر انہیں اپنی حالتوں میں غیر معمولی پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے اس احسان کے بارے میں بتاتے رہنا چاہئے اور یہ بھی کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے اور یہ کہ آپ کے باپ دادا نے جماعت میں شامل ہو کر جو عہد بیعت کیا تھا اسے کس طرح ہم نے ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے نبھانے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ یہاں آ کر معاشی بہتری جو پیدا ہوئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے ہم نے اپنی نسلوں میں بھی اس تعلیم کو جاری رکھنا ہے۔ بچوں کو بتانا ہے کہ تمہیں اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو بہتر طور پر نکھارنے کے جو مواقع ملے ہیں اس پر خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہوئے ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھنا ہے۔ خلافت احمدیہ سے ہمیشہ وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا ہے۔
اسی طرح ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتا ہے تو ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھے اور خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا اس پر فرض ہے کیونکہ یہی بیعت کرتے ہوئے عہد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نئے شامل ہونے والے، خاص طور پر وہ جنہوں نے پورے یقین کے ساتھ علی وجہ البصیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سمجھ کر قبول کیا وہ اپنے عہد بیعت اور اس کی شرائط پر غور بھی کرتے رہتے ہیں۔ بہت سارے لوگ مجھے خطوط بھی لکھتے رہتے ہیں۔ لیکن بہت سے وہ جو پیدائشی احمدی ہیں یا جن کے ماں باپ نے ان کے بچپن میں احمدیت کو قبول کیا اور جو یہاں آ کر دنیاوی معاملات میں زیادہ لگ گئے ہیں وہ نہ ہی عموماً شرائط بیعت پر غور کرتے ہیں، نہ بیعت کے عہد کو سمجھتے ہیں، نہ احمدیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد رکھتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اب تو ہر جگہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعت کی کارروائی بھی دیکھی جاتی ہے اور سنی جاتی ہے اس طرف توجہ کر کے بیعت کی حقیقت کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی طرح خلافت سے اپنے تعلق کو اس طرح جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو اس کا حق ہے۔ اس میں صرف ان ملکوں میں اسائلم لے کر آنے والے ہی نہیں ہیں بلکہ ہر قسم کے احمدی ہیں۔ میں نے اسائلم والوں کی مثال اس لئے دی ہے کہ اس وقت میرے سامنے اکثریت اسائلم والوں کی بیٹھی ہے اور آج ان کی بہتر حالت جماعت کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ ایسے لوگ ہر جگہ اور ہر طبقے میں موجود ہیں۔ پس ہر ایک جب اپنا جائزہ لے گا تو خود بخود اسے پتا چل جائے گا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ اس وقت مَیں اس جائزے کے لئے صرف ایک شرط بیعت سامنے رکھتا ہوں۔ اس کو صرف سرسری طور پر نہ دیکھیں بلکہ غور کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں۔ اگر تو اس جائزے کا جواب اثبات میں ہے، ہاں میں ہے تو وہ خوش قسمت ہیں اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہیں۔ اگر کمزوری ہے تو اصلاح کی کوشش کریں۔ بیعت کی دسویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوّت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوّت میں ایسا اعلیٰ درجے کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)
پس یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں آپ علیہ السلام سے بے غرض اور بے انتہا محبت اور تعلق قائم کرنے کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ آپ ہم سے عہد لے رہے ہیں۔ کیا عہد لے رہے ہیں؟ کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر مجھ سے محبت، تعلق اور بھائی چارے کے اعلیٰ معیار قائم کرو۔ یہ عہد لے رہے ہیں کہ یہ اقرار کرو کہ آپ کے ہر معروف فیصلے کو مانوں گا۔ یعنی ہر وہ بات جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو مامور فرمایا ہے۔ ہر وہ بات جس کی اسلام کی تعلیم کی روشنی میں آپ ہمیں ہدایت فرمائیں گے۔ اور پھر صرف اس کا ماننا ہی نہیں ہے، اس کی کامل اطاعت ہی نہیں ہے بلکہ مرتے دم تک اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا اور عمل کروں گا۔ اور یہ عہد بھی کہ جو تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہو گا اس کا معیار ایسا اعلیٰ درجے کا ہو گا کہ جس کی مثال دنیوی رشتوں اور تعلقوں میں نہ ملتی ہو گی۔ نہ ہی اس تعلق کی مثال اس حالت میں ملتی ہو گی جب انسان کسی سے وفا کی وجہ سے خالص ہو کر تعلق رکھتا ہے۔ نہ اس کی مثال اس صورت میں ملے جب انسان کسی کے زیر احسان ہو کر اپنے آپ کو اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ پس اس دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اعلیٰ معیار کی محبت اگر کسی سے ہو سکتی ہے تو وہ آپ کے غلام صادق سے ہو۔ پس یہ معیار ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد آپ سے تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ ان باتوں کی روشنی میں ہر ایک اپنا جائزہ خود لے سکتا ہے کہ کیا ہمارے یہ معیار ہیں؟ یا جب دنیاوی معاملات ہمارے سامنے ہوں، دنیاوی منفعتیں ہمارے سامنے ہوں، دنیاوی فوائد ہمارے سامنے ہوں تو ہم یہ باتیں بھول جاتے ہیں، دنیاوی تعلقات اور دنیاوی اغراض اس محبت کے تعلق اور اطاعت پر حاوی ہو جاتے ہیں؟ انسان کسی بھی کام کو یا تو اپنے فائدے اور مفاد کے لئے کرتا ہے یا اگر مرضی کا کام نہیں ہے تو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ خوف کی وجہ سے بھی کرتا ہے کہ مجبوری ہے۔ نہ کیا تو پوچھا بھی جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ سزا بھی مل جائے۔ یا محبت اور اخلاص اور وفا کے جذبے کے تحت کرتا ہے۔ اگر دین کا صحیح فہم و ادراک ہو تو دین کے کام انسان محبت اور اخلاص و وفا کے جذبے کے تحت ہی کرے گا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے یہ توقع رکھی ہے کہ آپ کی بیعت میں آ کر اس جذبے کو بڑھائیں۔ جب تک یہ اطاعت اور خلوص کا جذبہ اور اخلاص کا تعلق اگر پیدا نہیں ہو گاتو جو نصائح کی جاتی ہیں ان کا بھی اثر نہیں ہو گا۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہیں ہو گی۔ پس اگر نصائح پر عمل کرنا ہے، آپ کی باتوں کو ماننا ہے، اپنے عہد بیعت کو نبھانا ہے تو اپنے اطاعت اور اخلاص اور وفا کے معیاروں کو بھی بڑھانا ضروری ہے۔ کیا کوئی احمدی کبھی یہ تصور کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی بات قرآن و سنّت کے منافی کی ہو گی؟ یقینا نہیں۔ پس جب نہیں تو پھر ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ معروف اطاعت کا مطلب ہے کہ محبت و اخلاص کو انتہا پر پہنچا کر کامل اطاعت کرنا اور کامل اطاعت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب جس کی اطاعت کی جا رہی ہے اس کے ہر حکم کی تلاش اور جستجو بھی ہو۔ پس ہم پر فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے جو توقعات رکھی ہیں، جو حکم دئیے ہیں ان کو تلاش کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ورنہ تو صرف دعویٰ ہو گا کہ ہم ہر بات مانتے ہیں۔ باتوں کا ہمیں پتا ہی نہیں کہ کیا ہیں اور کس کو مانا جاتا ہے تو ماننی کیا ہیں۔ پس احمدی ہونے کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جس تعلق کو قائم کیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بڑھایا جائے اور خالص ہو کر اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں، جماعت کے افراد سے جو توقعات رکھی ہیں وہ آپ کی مختلف کتب اور ارشادات میں موجود ہیں۔ اس وقت ان میں سے چند ایک میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ صرف لفّاظی پر نہ رہیں‘‘۔ ظاہر پر نہ رہیں، صرف باتیں ہی نہ ہوں۔ ’’بلکہ بیعت کے سچے منشاء کو پورا کرنے والی ہو‘‘۔ سچا منشاء کیا ہے؟ فرمایا: ’’اندرونی تبدیلی کرنی چاہئے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے بوجھ کو اٹھائے اور اپنے وعدے کو پورا کرے‘‘۔
پس صرف اعتقادی طور پر اپنے آپ کو درست کر لینا، بیعت کر لینا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو مان لینا، مسائل اور بحث میں دوسروں کے منہ بند کر دینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا اگر عملی تبدیلی نہیں ہے، عملی حالتیں اگر بہتر نہیں ہو رہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ کوشش کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے عمل سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70)۔ میں شامل ہو جاؤ۔ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ188)
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ان کو کیا ہوتا ہے لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) کہ ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔
اس کی ایک جگہ مزید وضاحت فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جو شخص نہایت لاپرواہی سے سستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے۔ جو سستی کر رہا ہے وہ مستفیض نہیں ہو سکتا‘‘۔ فرمایا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ سستی کرنے والا خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے ’’جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کو ڈھونڈتا ہے۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 566حاشیہ نمبر11)
پس جب آپ ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ میری مانو اور میرے پیچھے چلو اور مجھ سے اطاعت کا تعلق رکھو تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈھنے کی راہیں ہمیں دکھائیں، ہمیں بتائیں کہ تم کس طرح اللہ تعالیٰ کو پا سکتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے فیض سے ہمیں حصہ لینے والا بنائیں۔ اپنی نمازوں کو وقت پر اور صحیح رنگ میں ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کی طرف بھی توجہ دیں۔ گویا کہ آپ سے تعلق اور اطاعت کا رشتہ ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھا رہا ہے۔
پھر آپ نے ایک جگہ یہ نصیحت فرمائی کہ تم دو باتوں کا خیال رکھو۔ پہلی بات یہ کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسری بات یہ کہ اس کی یعنی اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد8 صفحہ323۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تبلیغ کرو۔ یہ پیغام پہنچاؤ۔ جب ہمارا اپنا علم کمزور ہو گا، جب ہماری اپنی عملی حالتیں قابل فکر ہوں گی تو ہم سچے مسلمان کا کیا نمونہ بنیں گے؟ ہم اسلام کے پیغام اور اس کے کمالات کو دنیا کو کیا بتائیں گے اور پھیلائیں گے؟
پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’ہماری جماعت یہ غم کُل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 35۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) ہماراسب سے بڑا غم یہ ہونا چاہئے۔ پس اس کے لئے کسی لمبی چوڑی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر ایک خود اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ دنیا کا غم اسے زیادہ ہے یا دین کی بہتری کا غم اور یہ غم نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی ہے یا نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف توجہ ہے یا نہیں ہے۔ یا جب دنیاوی معاملات ہوں تو خدا تعالیٰ کی رضا پیچھے چلی جاتی ہے۔
آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ روزمرہ کے معاملات میں بھی ناجائز غضب اور غصے سے بچنا تقویٰ کی ایک شاخ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 36۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر غصے میں آ جاتے ہیں انہیں خود ہی اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے کہ وہ بھی تقویٰ سے دور ہو رہے ہیں۔ یہ چند ایک نصائح میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمائی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جب ہم غور کریں تو ہمیں آپ علیہ السلام سے تعلق اور محبت میں یہ چیزیں بڑھاتی ہیں۔ کس طرح اور کس درد کے ساتھ آپ کو ہماری دنیا و عاقبت کی فکر ہے۔ ایک باپ سے زیادہ آپ ہمارے لئے فکر مند ہیں۔ ایک ماں سے زیادہ آپ ہمارے لئے بے چین ہیں۔ بار بار ہمیں نصیحت فرماتے ہیں اس لئے کہ کسی طرح ہمیں غلط راستوں سے نکال کر خدا تعالیٰ کی رضا کے راستوں پر ڈال دیں۔ اس فکر اور پیار کے اظہار کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہر احمدی کہلانے والا بھی آپ سے تعلق و اطاعت کے اعلیٰ معیار نہ قائم کرے تا کہ اپنی دنیاو عاقبت سنوار سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسانہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعدنظام خلافت کو ہم میں قائم کیا اور خلافت کے نظام نے بھی اسی کام کو آگے بڑھانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد اللہ تعالیٰ نے کیا تھا۔ اس حوالے سے خلافت کے ساتھ بھی اخلاص اور اطاعت کے تعلق کو جوڑ کر ہم اپنی منزلوں کی طرف سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا سچے مسلمان کا نمونہ بننا اور اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر بھی ہر احمدی عہد بیعت باندھتا ہے۔ پس اس عہد کو پورا کرنا بھی ضروری ہے اور اس کے لئے خلافت کی طرف سے جو ہدایات آتی ہیں، جو نصائح کی جاتی ہیں، جو پروگرام دئیے جاتے ہیں ان پر عمل کر کے ہی اس عہد کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
بیعت کے وقت ہر احمدی یہ عہد کرتا ہے کہ ان شرائط کی پابندی کرے گا جو بیعت کی شرائط ہیں اور خلیفۂ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرے گا اور جیسا کہ مَیں نے کہا خلیفۂ وقت کا کام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام اور آپ کی نصائح کو آگے پھیلانا ہے۔ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے پہ پھیلانا ہے۔ پس جب ہر احمدی اس سوچ کے مطابق اپنے آپ کو بنائے گا تب ہی حقیقی اطاعت کے معیار قائم ہوں گے۔ تب ہی جماعت کی اِکائی قائم ہو گی۔ تب ہی تبلیغ کے میدان کھلیں گے۔ اگر ہر ایک یہ کہہ کر کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اخوّت اور عقیدت ہے اور میں آپ کی اطاعت کرتا ہوں اپنے اپنے راستے متعین کرنے لگ جائے تو کبھی ترقی نہیں ہو سکتی۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس میں نظام خلافت قائم ہے اور جو تعلق ہر احمدی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس وجہ سے ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں تو اس تعلق کو آگے خلافت کے لئے بھی رکھنا ضروری ہے۔
پرسوں المیرے (Almere) میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ وہاں جو مَیں نے مختصراً مسجد کے حوالے سے باتیں کیں۔ اسلام کی تعلیم، مسجد کی اہمیت اور احمدیوں کی ذمہ داریوں کے متعلق بتایا تو اس پر ایک لوکل مہمان عورت نے اس بات کا اظہار کیا کہ خلیفہ کی باتیں تو بڑی اچھی ہیں لیکن اب دیکھتے ہیں کہ یہاں رہنے والے احمدی ان پر کس حد تک عمل کرتے ہیں اور امن اور پیار اور محبت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ پس لوگوں کی بھی آپ پر نظر ہے۔ اس لئے اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ لوگ خلافت کے حوالے سے زیادہ نظر رکھیں گے۔ اس لئے صرف عہد بیعت کافی نہیں ہے۔ اپنی اصلاح کے لئے بھی اور تبلیغ کے لئے بھی عمل کی ضرورت ہے۔ ہر جگہ اور ہر سطح پر اپنی اِکائی کو قائم رکھنے اور ایک ہاتھ پر اٹھنے اور بیٹھنے کے لئے خلافت کی اطاعت کی بھی ضرورت ہے۔
اس زمانے میں احمدی خوش قسمت ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے جدید سہولتیں اور ایجادات پیدا فرمائیں وہاں احمدیوں کو بھی ان سے نوازا۔ دین کی اشاعت کے لئے جماعت کو بھی یہ سہولت مہیا فرمائی۔ ٹی وی، انٹرنیٹ اور ویب سائٹس وغیرہ پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام آج موجود ہے جس پر ہم جب چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔ مختلف بڑی زبانوں میں ان کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں وہاں خلیفۂ وقت کے نصائح اور خطابات بھی وہاں سن پڑھ سکتے ہیں جو قرآن، حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ اور انہی پر بنیاد ہے اس کی جو دنیا میں آج ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہر جگہ پہنچ رہا ہے۔ جس نے جماعت کو اِکائی بننے کا ایک نیا انداز دیا ہے۔ پس آپ میں سے ہر ایک کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے اور اس کی ہر ایک کو ضرورت ہے کہ ایم ٹی اے سے اپنا تعلق جوڑیں تا کہ اس اکائی کا حصہ بن سکیں۔ ہر ہفتہ کم از کم خطبہ سننے کی طرف خاص توجہ دیں۔ ہر گھر اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا گھر کے ہر فردنے یہ سنا ہے یا نہیں۔ اگر بیوی سنتی ہے اور خاوندنہیں تو تب بھی فائدہ نہیں اگر باپ سنتا ہے اور ماں اور بچے نہیں سن رہے تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔ یہ انتظام جو اللہ تعالیٰ نے ایک اکائی بننے کے لئے پیدا فرمایا ہے اس کے لئے ایک وقت میں دنیا کے ہر کونے میں خلیفۂ وقت کی آواز پہنچ جاتی ہے اس کا حصہ بننے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔ پس اس طرف توجہ کریں۔ اگر یہ پتا نہیں کہ کیا کہا جا رہا ہے تو اطاعت کس طرح ہو گی۔ باتیں سنیں گے تو اطاعت کے قابل ہوں گے۔ پس ان باتوں کی تلاش کریں جن کی اطاعت کرنی ہے ورنہ تو یہ صرف دعویٰ ہے اور صرف ظاہری اعلان ہے کہ آپ جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا یا عورت ہے تو ضروری سمجھوں گی۔ یا اجتماعوں پر کھڑے ہو کر یا بیعت کے وقت یہ اعلان کر دیں کہ خلافت احمدیہ کے استحکام کی ہم کوشش کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر گھر اس طرف توجہ دینے والا ہو اور اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے جو سہولت مہیا فرمائی ہے ہم اس سے بھرپور استفادہ کرنے والے ہوں۔ اور صرف تربیت ہی نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو پھیلانے میں بھی یہ (MTA) بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر کسی وجہ سے لائیو نہیں بھی سن سکتے تو ریکارڈنگ سنی جا سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر یہ پروگرام موجود ہے۔ اور خاص طور پر اس میں خطبات اور بہت سارے اَور بھی خاص خاص پروگرام ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ جہاں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص تعلق جوڑنے والے ہوں وہاں آپ کے بعد جاری نظام خلافت سے بھی پختہ تعلق ہو اور اطاعت کے نمونے دکھانے والے ہوں اور یہی تعلق اور اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے گزارتے ہوئے خداتعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ49 مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر7330 عالم الکتب بیروت مطبوعہ1998ء)
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے مربی سلسلہ مکرم حافظ محمد اقبال وڑائچ صاحب کا ہے۔ آپ 2؍اکتوبر کو ایک حادثے میں 49سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 2؍اکتوبر کو یہ صبح اکیلے اپنے آبائی گاؤں چک پنیار اپنے چچا کو ملنے کار پر جا رہے تھے۔ بھلوال کے نزدیک ریلوے پھاٹک پر کراس کرتے ہوئے انہوں نے شاید دیکھا نہیں، ٹرین آئی اور ٹرین کی زد میں آ گئے۔ کار گھسیٹتی چلی گئی۔ بہرحال ظاہری طور پر تو ان کو چوٹیں نہیں تھیں۔ پولیس بھی پہنچ گئی۔ پولیس نے ایمبولینس منگوائی یا گاڑی منگوائی اس میں بٹھا کر ہسپتال پہنچایا لیکن ہسپتال جا کر جانبر نہ ہو سکے۔ حافظ محمد اقبال صاحب کے دادا کا نام چوہدی فضل احمد صاحب تھا۔ آپ کے پڑدادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے جن کا نام چوہدری اللہ بخش صاحب تھا۔ 1901ء میں ان کے پڑدادا نے بیعت کی تھی۔ ان کے پڑدادا کا نام پہلے رسول بخش تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بدل کے اللہ بخش رکھ دیا تھا۔ ان کے والد چوہدری محمد ظفر اللہ وڑائچ صاحب بھی ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کر کے بڑا لمبا عرصہ ربوہ میں مختلف دفاتر میں کام کرتے رہے۔ حافظ صاحب، مربی صاحب کی ابتدائی تعلیم ربوہ کی ہے۔ اس کے بعد آپ نے حفظ کیا۔ سکول کی تعلیم حاصل کی پھر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عربی فاضل اور اردو فاضل بھی کیا۔ مختلف جگہوں پر پاکستان میں تعینات رہے۔ اس وقت بطور سیکرٹری کفالت یکصد یتامیٰ خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ ان کے پانچ بچے ہیں۔ تین بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ دو بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ سترہ سال اور دس سال۔ ان کے بھائی مکرم طاہر مہدی امتیاز صاحب بھی مربی سلسلہ ہیں اور اس وقت ضیاء الاسلام پریس ربوہ کے مینیجر ہیں لیکن الفضل پر جو پابندیاں لگی ہیں تو ان پر بھی مقدمہ قائم ہوا اور کافی مہینوں سے یہ جیل میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے کیونکہ عدالتیں ہی بڑی بزدل ہیں۔ جج نے پہلے ضمانت دی اور پھر مولویوں کے ڈر سے کینسل کر دی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور معصوموں کو، احمدیوں کو جو اندر بند کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔
سعداللہ پور کے ایک صدر جماعت محبوب احمد راجیکی صاحب ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ 2003ء میں سعداللہ پور میں جب جماعتی حالات بہت خراب ہوئے تو یہاں حافظ اقبال صاحب کی مربی کے طور پر پوسٹنگ ہوئی۔ انہوں نے غیر احمدی مخالفین سے تعلقات بڑھائے اور اس کی وجہ سے نہ صرف مخالفین مخالفت سے باز آئے بلکہ ایک بہت بڑے مخالف نے جو سرکردہ تھا احمدیت کی مخالفت پر معافی بھی مانگی۔ تو اس لحاظ سے بھی بڑے تعلق رکھنے والے اور اپنے تعلقات کو بڑھانے والے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں خوف کی وجہ سے، مُلّاں کے خوف کی وجہ سے، معاشرے کے خوف کی وجہ سے بہت بڑا طبقہ باوجود اس کے کہ احمدیت کو پسند کرتا ہے یا کم از کم اس کے خلاف جو پروپیگنڈہ ہے اس کو غلط سمجھتا ہے لیکن کھل کر کہہ نہیں سکتا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے علاقے میں ایسے سامان پیدا فرماتا رہتا ہے کہ جہاں لوگ کھل کر بھی بات کر جاتے ہیں۔ اس وقت جہاں کام کر رہے تھے، جس دفتر میں خدمت سرانجام دے رہے تھے وہاں کے ایک کارکن مجید صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ حافظ صاحب جہاں جہاں بطور مربی سلسلہ رہے وہاں کے افراد سے وفات تک رابطے میں رہے۔ لوگ ان سے ملتے آتے رہے اور مشورے لیتے تھے۔ ان کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ ان کی یہ بھی بڑی خوبی تھی بڑی کوشش یہ ہوتی تھی کہ مرکز کا پیسہ صحیح جگہ خرچ ہو اور بیوگان کے مکان بنانے کے لئے حتی الوسع جو کوشش ہو سکتی تھی کرتے تھے اور یہ بھی کوشش کہ کم پیسوں میں مکان بن جائیں۔ پھر بعض دفعہ جب تعمیر ہو رہی ہوتی تھی اور یہ وہاں پہنچے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ خود جا کر کام کرنے والوں کے ساتھ لگ جاتے تھے۔
لندن کے ہمارے رشین ڈیسک کے خالد صاحب کہتے ہیں کہ یہ ان کے کلاس فیلو تھے اور بڑے مہمان نواز اور مخلص تھے۔ کہتے ہیں ایک خاص بات جو میرے تجربے میں آئی وہ یہ کہ تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا اور ایک لگن تھی۔ وہ غالباً جب صادق آباد یا سعد اللہ پور میں متعین تھے تو وہاں ایک رشین کمپنی کسی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی۔ باوجود اس کے کہ رشین زبان سے ناآشنا تھے پھر بھی آپ ان کو تبلیغ کرتے تھے اور خالد صاحب نے کیونکہ رشیا میں رہ کر زبان سیکھی ہوئی ہے اس لئے جب یہ پاکستان گئے تو ان کے پیچھے پڑ کے آپ نے کچھ الفاظ سیکھے۔ پھر خود ہی انہوں نے رشین زبان کے کچھ الفاظ اردو رسم الخط میں اس لئے لکھے ہوئے تھے کہ تبلیغ کر سکیں۔ تو یہ ان کا تبلیغ کا جوش تھا۔ اللہ تعالیٰ سب مربّیان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ جیسے بھی ماحول ہوں اور حالات ہوں تبلیغ کے نئے نئے رستے تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم حافظ صاحب سے مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں اپنانے کی توفیق دے۔
ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتا ہے تو ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھنا اور خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا اس پر فرض ہے کیونکہ یہی بیعت کرتے ہوئے عہد کیا تھا۔
شرائط بیعت میں سے ایک شرط کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کی خلافت سے محض لِلّٰہ عقد ِاخوّت، طاعت در معروف اور محبت اور اخلاص میں بے نظیر تعلق قائم کرنے کی تاکیدی نصیحت۔
معروف اطاعت کا مطلب ہے کہ محبت و اخلاص کو انتہا پر پہنچا کر کامل اطاعت کرنا اور کامل اطاعت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب جس کی اطاعت کی جا رہی ہے اس کے ہر حکم کی تلاش اور جستجو بھی ہو۔ پس ہم پر فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے جو توقعات رکھی ہیں، جو حکم دئیے ہیں ان کو تلاش کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ورنہ تو صرف دعویٰ ہو گا کہ ہم ہر بات مانتے ہیں۔ پس احمدی ہونے کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جس تعلق کو قائم کیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بڑھایا جائے اور خالص ہو کر اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں، جماعت کے افراد سے جو توقعات رکھی ہیں وہ آپ کی مختلف کتب اور ارشادات میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعدنظام خلافت کو ہم میں قائم کیا اور خلافت کے نظام نے بھی اُسی کام کو آگے بڑھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد کیا تھا۔ اس حوالے سے خلافت کے ساتھ بھی اخلاص اور اطاعت کے تعلق کو جوڑ کر ہم اپنی منزلوں کی طرف سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا سچے مسلمان کا نمونہ بننا اور اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے۔
المیرا (ہالینڈ) میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر افراد جماعت کو کی گئی نصائح کے حوالہ سے اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی طرف خصوصی توجہ کی تاکید۔
ہر ایک کو ضرورت ہے کہ ایم ٹی اے سے اپنا تعلق جوڑیں تا کہ اس اکائی کا حصہ بن سکیں۔ ہر ہفتہ کم از کم خطبہ سننے کی طرف خاص توجہ دیں۔ ہر گھر اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا گھر کے ہر فردنے یہ سنا ہے یا نہیں۔ اگر کسی وجہ سے لائیو نہیں بھی سن سکتے تو ریکارڈنگ سنی جا سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پریہ پروگرام موجود ہے۔ اور خاص طور پر اس میں خطبات اور بہت سارے اَور بھی خاص خاص پروگرام ہوتے ہیں۔
مکرم حافظ محمد اقبال وڑائچ صاحب مربی ٔسلسلہ کی ایک حادثہ میں وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 09؍اکتوبر 2015ء بمطابق 09اخاء 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت النور، نن سپیٹ، ہالینڈ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔