ہالینڈ اور جرمنی کے سفر میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت
خطبہ جمعہ 23؍ اکتوبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہر سفر میں اپنی تائیدو قدرت کے نشانات دکھاتا ہے۔ بعض دفعہ فکر ہوتی ہے کہ بعض جماعتیں بعض پروگرام بنانے میں تجربہ نہیں رکھتیں اور ایسے پروگرام بنا لیتی ہیں جو جماعت کے اپنے پروگرام نہیں ہوتے بلکہ غیروں کے ساتھ پروگرام ہوتے ہیں اور جو غیروں کے ساتھ پروگرام ہوں ان کو ظاہر ہے پہلے ان ذرائع کے ذریعہ سے جو غیروں کے ہیں مشتہر بھی کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ جماعت مخالف بعض شرارتی عنصر پروگرام میں کوئی بدمزگی پیدا نہ کریں۔ پھر یہ بھی کہ اگر کسی لحاظ سے بھی پروگرام کم معیار کا ہو تو شماتتِ اعداء کا باعث نہ بن جائے۔ بہرحال بہت سی فکریں پیدا ہوتی ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا ہے۔ ایسے نظارے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے وعدے ہر دفعہ ایک نیا رنگ دکھاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو غیروں کے اس طرح اظہار ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ پروگرام کو اس طرح سراہتے ہیں کہ ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں، انتظام کرنے والے خود سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا واقعی ہم نے ایسا اچھا پروگرام کیا تھا جو غیر اس قدر تعریف کر رہے ہیں۔ پھر صرف ظاہری تعریف نہیں ہوتی بلکہ لگتا ہے کہ غیر لوگوں کے، مہمانوں کے، جو غیر مہمان آئے ہوتے ہیں ان کے جذبات دل سے نکل رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں بتا رہی ہوتی ہیں، ان کے چہرے ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں واقعی وہ ان کے دل کی آواز ہے اور یہ چیزیں دیکھ کر پھر انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی اور پروگرام کامیاب ہوا۔
گزشتہ دنوں مَیں ہالینڈ اور جرمنی کے سفر پر تھا۔ جرمنی میں تو بڑی جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منظم ہے اور وہاں جماعت کے افراد کے ہر طبقے سے تعلقات بھی ہیں۔ میڈیا بھی ان کو اچھی طرح جانتا ہے۔ بہت وسیع طور پہ کوریج دیتا ہے۔ بعض اخبارات یا دوسرے میڈیا کے ذرائع جماعت کی ترقی دیکھ کے منفی خبریں بھی جماعت کے بارے میں لکھتے ہیں یا بعض سیاستدان جو عموماً ایشین نژاد ہیں اپنی سستی شہرت کے لئے وہاں جماعت کے خلاف مہم بھی وقتاً فوقتاً چلاتے رہتے ہیں۔ لیکن عموماً جرمن سیاستدان بھی اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اور جرمن لوگ بھی جو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت سے تعارف رکھتے ہیں جماعت کے لئے اچھے خیالات رکھتے ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی بھی حقیقی تصویر انہیں مل رہی ہوتی ہے۔ پس یہ بھی اسلام اور احمدیت کے تعارف کا ایک ذریعہ ہے جو جرمنی میں مختلف پروگرام کرکے احمدی کروا رہے ہیں جو بعض دفعہ غیر جماعتی پروگرام بھی ہوتے ہیں، لیکن ہالینڈ میں تو جماعت بھی چھوٹی سی ہے اور اب تک اتنی فعّال کوشش بھی انہوں نے نہیں کی جس سے میڈیا کے ذریعہ ملک کے وسیع حصہ میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا تعارف ہوا ہو۔ پھر ممبران پارلیمنٹ سے بھی اور پڑھے لکھے طبقے سے اور ڈپلومیٹس وغیرہ سے بھی ان کے کوئی ایسے تعلقات نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ جماعت کو جانتے ہوں اور اسلام کی نمائندہ جماعت سمجھتے ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نن سپیٹ کا علاقہ جہاں ہمارا سینٹر ہے وہاں کے ایک ممبر پارلیمنٹ جن سے دو تین سال پہلے جماعت کا تعارف ہوا تھا اور وہ مجھے بھی ہالینڈ کے ایک جلسے میں مل چکے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک فنکشن کروانے کا اللہ تعالیٰ نے سامان کر دیا۔ یہ جو ممبر آف پارلیمنٹ ہیں ان دنوں میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ کی جو فارن افیئرز کی کمیٹی ہے اس کے قائمقام چیئرمین بھی تھے یا اب بھی ہیں بہرحال ان کے ذریعہ سے فارن افیئرز کمیٹی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک ہال میں ایک پروگرام کا انتظام کیا اور مجھے امیر صاحب نے لکھا کہ اس طرح انتظام ہو رہا ہے اور آپ وہاں آئیں۔ چنانچہ مَیں گیا۔ میرا خیال تھا کہ چند ایک لوگ ہوں گے۔ جماعت کا اتنا تعارف ملک میں نہیں ہے، لوگ نہیں آئیں گے۔ پھر جماعت کو بھی اس قسم کے کام کرنے کا تجربہ نہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہالینڈ جماعت کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو میرے خیال میں ان کا کافی اچھا فنکشن ہو گیا۔
اس تقریب میں 89سرکردہ افراد شامل ہوئے جن میں ڈچ پارلیمنٹ کے ممبران کے علاوہ سپین، آئرلینڈ، سویڈن، کروشیا، مونٹی نیگرو، البانیا، فرانس، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، جرمنی، انڈیا، فلپائن، ڈنمارک اور سائپرس سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ، ایمبیسیڈرز اور بعض دوسرے سرکاری حکام اور نمائندگان شامل تھے۔ جیسا کہ میں نے کہا جرمنی کی جماعت کے اکثر جگہوں پر اچھی سطح کے لوگوں سے تعلقات ہیں لیکن ابھی تک وہ اس سطح کا پروگرام نہیں کروا سکے۔ وہاں ہمارے فنکشنز میں تو بیشک بڑے بڑے لوگ آتے ہیں اور ہماری خدمات کو سراہتے ہیں۔ اسلام کی تصویر جو حقیقی تصویر ہے اسے دیکھ کر وہ اظہار خیال کرتے ہیں لیکن وہاں ابھی تک کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوا اور پروگرام نہ کرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ جرمنی بڑا ملک ہے اور ہالینڈ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ بہرحال مجھے امید ہے کہ ہالینڈ کی جماعت نے اب جو قدم اٹھایا ہے اور تعلقات بنائے ہیں، اخبارات سے رابطے کئے ہیں، میڈیا سے رابطے کئے ہیں، وہ اسے مزید آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی اور اب تک جو کام انہوں نے کر دیا اس کو اپنی انتہا نہیں سمجھیں گے۔
وہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں جو فنکشن تھا وہاں میں نے اٹھارہ بیس منٹ میں مختصراً اسلام کی تعلیم اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جو مسائل ہیں وہ بیان کئے۔ عموماً جہاں بھی مَیں اسلام کی تعلیم کے حوالے سے، قرآن کریم کے حوالے سے کچھ کہوں لوگ سمجھتے ہیں اور اظہار بھی کر دیتے ہیں کہ ان کے سوالوں کے کافی جواب مل گئے ہیں لیکن یہاں اس فنکشن میں تین چار پارلیمنٹیرین جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم نے اب سوال بھی کرنے ہیں۔ میں نے انہیں کہا ٹھیک ہے تسلی نہیں ہوئی تو کر لیں۔ اس پر انہوں نے بعض ایسے سوال کئے جو سوائے انہی باتوں کو دہرانے کے اور کچھ نہیں تھے۔ لگتا تھا کہ مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں یا کسی نہ کسی موقع پر کہوں کہ اسلام کی تعلیم غلط ہے نعوذ باللہ یا کوئی ایسی بات میرے منہ سے نکل جائے جس سے ان کو اسلام پر کچھ کہنے کا موقع مل جائے اور یہ بات دوسرے ممالک سے آئے ہوئے پارلیمنٹیرین نے بھی محسوس کی اور بعد میں اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا کہ ان ایک دو کا یہ رویّہ ٹھیک نہیں تھا بلکہ بعض ڈچ جو یہ پروگرام دیکھ رہے تھے یا وہاں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بھی اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنی شرمندگی کا بھی اظہار کیا۔ لیکن بہرحال ہمیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شاید مجھے غصہ دلانا چاہتے تھے لیکن بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس قسم کی برداشت اللہ نے مجھے بہت دی ہوئی ہے۔ لگتا ہے ان میں سے ایک کو خود بھی یہ احساس ہو گیا تھا کیونکہ جب میرے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لئے آئے توکہنے لگے کہ اگر میرے سوال مناسب نہیں تھے تو میں اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ بہرحال اس پروگرام کی تو ایک لمبی تفصیل ہے۔ ایم ٹی اے پر آپ نے سن لی ہو گی۔ دیکھ بھی لی ہو گی یا رپورٹ میں پڑھ لیں۔ اس وقت تو یہ سب کچھ یہاں بیان نہیں ہو سکتا۔ لیکن بہر حال اس پروگرام میں شامل مہمانوں اور پروگرام سننے والے جو غیر تھے ان پر اسلام کی تعلیم کا اچھا اثر پڑا ہے۔ بعض دفعہ یہ خیال بھی بعد میں آتا ہے کہ فلاں سوال کا اس طرح جواب زیادہ مناسب ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا ایسا فضل فرمایا کہ جو بھی جواب دئیے گئے تھے انہوں نے ہی غیروں پر اچھا اثر ڈالا اور اس بات کا انہوں نے اظہار بھی کیا کہ ایسے سوالوں کے اسی قسم کے جواب تھے جو بہترین رنگ میں دے دئیے گئے۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اسی لئے وہ دلوں پر قبضہ کر کے رعب ڈال دیتا ہے۔ انسانی کوششیں تو کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔ یہ پروگرام منعقد ہونا بذات خود اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ورنہ ہالینڈ کی جماعت اگر کہے کہ کسی کی کوشش سے ہوا ہے یا جماعت کی کوشش سے ہوا ہے، کسی شخص کی کوشش سے ہوا ہے تو وہ غلط ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر یہی کہیں گے کہ ہمیں تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہو کیسے گیا۔ اس پروگرام کے معیاری ہونے کے بارے میں جن ممبر پارلیمنٹ نے اسے منظم کروایا تھا انہوں نے ہمارے ایک احمدی کو بعد میں کہا کہ اس کی میڈیا میں بہت زیادہ کوریج ہونی چاہئے تھی۔ حالانکہ ہمارے خیال میں کافی ہو گئی لیکن ان کے نزدیک اس سے زیادہ ہونی چاہئے تھے اور پہلے صفحہ کی سرخی ہونی چاہئے تھی تا کہ ملک کے لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم کا پتا چلتا۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ میری تسلی نہیں ہوئی۔ جتنا ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہوا۔
انہوں نے ہی اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھ سے بہت سے ممبران پارلیمنٹ نے پوچھا کہ یہ پروگرام کس طرح تم نے منعقد کروا لیا؟ (تو صرف اپنے نہیں غیروں کے نزدیک بھی یہ بہت مشکل تھا کہ ایک چھوٹی سی جماعت کے پروگرام اس طرح پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کروائے جاتے۔ ) یہ ممبر آف پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ یہ جو پروگرام تھا حاضری وغیرہ کے لحاظ سے اور جو نفس مضمون بیان ہوا ہے اس کے لحاظ سے میری امید سے بہت زیادہ کامیاب رہا اور یہ کہتے ہیں کہ اب اس کے دور رَس نتائج نکلیں گے کیونکہ امام جماعت احمدیہ نے اپنا پیغام نہایت مؤثر رنگ میں دیا۔ ہالینڈ کے لوگوں کا یہ حق ہے کہ ان کو اسلام کا امن پسند چہرہ بھی دکھایا جائے۔ ان کو اس پیغام کی ضرورت ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ خلیفۃ المسیح کے ساتھ پارلیمنٹ کی یہ تقریب پہلا قدم تھا۔ اب ہم مزید ایسے پروگراموں کا انعقاد کریں گے۔ بلکہ یہ اظہار انہوں نے وہاں آخر میں بھی کیا تھا۔
پھر اور بھی بہت سے معزز مہمانوں نے اس پروگرام کو سراہتے ہوئے اسلام کی حقیقی تعلیم کا چہرہ دکھانے پر شکریہ ادا کیا۔ ہالینڈ کے سابق وزیر دفاع بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ فنکشن کے بعد بھی وہ میرے ساتھ بڑی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پیغام سے اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مجھے کہا کہ اب یہ خواہش ہے کہ آپ بار بار ہالینڈ آئیں تا کہ لوگوں کے دل سے اسلام کا ڈر نکل جائے۔ پھر کہتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی کے سوالات پر آپ کے جوابات کسی بھی مناسب سوچ رکھنے والے شخص کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی تھے۔
اس تقریب میں سپین کے ایمبیسیڈر بھی آئے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ بالخصوص جس طرح امام جماعت نے freedom of speech، برداشت اور دوسرے مذاہب کے لئے عزت و احترام جیسے حساس سوالات کے جوابات دئیے وہ نہایت موزوں تھے اور پھر یہ بھی کہ تقریر کے دوران برداشت، مذہبی آزادی اور اخوت کے بارے میں جو باتیں اسلام کی تعلیم کے مطابق بیان کیں، کہتے ہیں یہ دل کو لگتی ہیں اور میں ان کی بڑی حمایت کرتا ہوں۔ کیونکہ بین المذاہب ہم آہنگی اور دنیا کے امن کے لئے ان اقدار کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
سپین کے ممبر آف پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ انسانیت کے لئے امن، آزادی اور خدا تعالیٰ جو تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے اس سے محبت کا پرکشش پیغام سن کر خوشی ہوئی۔ ایک ایسی دنیا کے لئے جہاں جنگوں اور مذہب کے نام پر کئے جانے والے مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ اس قسم کے امن کے پیغام پر ہم کو مشکور ہونا چاہئے۔ آج پہلے سے بڑھ کر ان سب لوگوں کو جو امن چاہتے ہیں اور مذہب پر عمل کرتے ہیں انہیں متحد ہونا چاہئے۔ ہمیں ان باتوں پر توجہ دینی چاہئے جو ہمارے درمیان یکساں ہیں بجائے اس کے کہ ہم اپنے درمیان پائے جانے والے تضادات پر زور دیں۔ پھر مونٹی نیگرو سے بھی تین احباب آئے تھے۔ ان میں ایک ممبر آف نیشنل پارلیمنٹ تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ تقریب جماعت کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ ان کے امام نے اسلام کی حقیقی تعلیم نہایت اعلیٰ سطح پر پیش کی۔ ہالینڈ کے ممبران پارلیمنٹ کے سوالات نہایت جارحانہ تھے لیکن انہوں نے جوابات نہایت مدلّل اور حقائق پر مبنی دئیے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ امام جماعت جرأت اور خود اعتمادی کے ساتھ دلیل سے بات کرتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ آج کی پُرخطر دنیا میں ایسی تقریبات کی اشد ضرورت ہے۔
پھر ہیومن رائٹس ڈیفنس کی دو ممبرخواتین وہاں تھیں وہ بھی کہتی ہیں کہ یہ پیغام جو پارلیمنٹ میں دیا گیا یہ تمام پالیسی میکرز تک پہنچایا جانا چاہئے۔
پھر کروشیا سے ان کی برسر اقتدار پارٹی کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ امام جماعت نے اسلامی تعلیمات کو بڑے ہی واضح اور مؤثر رنگ میں بیان کیا۔ دنیا میں امن کے قیام کے لئے اسلامی تعلیمات بہت مؤثر ہیں۔ اگر تمام مسلمان ان تعلیمات پر صدق دل سے عمل کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ freedom of speechکے بارے میں جماعت احمدیہ کے سربراہ نے جو دو ٹوک مؤقف دیا وہ بہت ہی متاثر کرنے والا تھا خصوصا ہولوکوسٹ (Holocaust) کے بارے میں بعض ممالک میں جو پابندیاں ہیں اس کے حوالے نے ان کے مؤقف کو مزید تقویت دی۔ پھر کہتے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم ہوئے ہیں جماعت احمدیہ کے سربراہ نے پاکستان پر براہ راست تنقید کرنے سے گریز کیا اور عمدہ انداز میں حقیقی اسلامی تعلیم پر مسلمانوں کو عمل کرنے کی تلقین کی جو کہ بہت ہی متاثر کن تھی۔ پھر کہتے ہیں ہتھیاروں پر پابندی اور فنڈنگ روکنے پر جو مؤقف دیا وہ بہت ہی حقیقت پسندانہ تھا۔ واقعی اگر دنیا کے طاقتور ممالک ان نکات پر سنجیدگی اور دیانتداری سے عمل کریں تو دنیا امن کی جانب لَوٹ سکتی ہے۔
پھر سویڈن سے آنے والے ممبر آف پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ خطاب بڑا اچھا تھا۔ اثر کرنے والا تھا اور مذہبی لیڈر ہونے کی حیثیت سے آپ نے دنیا کے صاحب اختیار لوگوں کو جھنجھوڑا ہے۔ خطاب میں ایک سچائی تھی۔ کوئی مصلحت نہیں تھی۔ امن، انصاف، برداشت، انسانیت، محبت اور بھائی چارے سے متعلق امام جماعت نے بڑے آسان فہم الفاظ میں توجہ دلائی ہے اور دنیا کو ایک پیغام دیا ہے۔
فارن افیئرز کمیٹی کے ممبران کی طرف سے آزادی اظہار کے متعلق سوالات پر کہتے ہیں کہ ان کے جوابات مدلل اور فراست سے بھرپور تھے۔ یہودیوں کاریفرینس دینے سے بھی وہ امام جماعت کا اشارہ نہیں سمجھے جبکہ ہمارے ملک سویڈن میں نازیوں کا بیج لگانا بھی قانونی طور پر منع ہے اور لگانے پر سزا اور جرمانہ ہے۔
پھر البانیا سے ترانہ جو ان کا کیپیٹل ہے وہاں کے میئر کے مشیر اعلیٰ ہیں اور ان کی گورنمنٹ کی مذہبی امور کی ایک کمیٹی ہوتی ہے اس کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ ایسے عظیم الشان طریق پر اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے نہایت اعلیٰ پیرائے میں اور بہت دلکش انداز میں اسلامی تعلیمات کی عکاسی کی ہے۔
Amsterdam Universityکے پروفیسر جو بدھ ازم اور اسلام اور دیگر مذاہب کے ماہر ہیں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت نے اسلام کی امن کے حوالے سے تعلیم کا جس واضح انداز میں ذکر کیا ہے اس سے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ ہمارے انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے پروگراموں میں جماعت کی نمائندگی ناگزیر ہے۔ اب جماعت کو ہمارے پروگراموں میں ضرور شریک ہونا چاہئے تا کہ اسلام کی اصل اور حقیقی تصویر ہمارے سامنے آ سکے۔
اس کے علاوہ بھی وہاں ہالینڈ میں چار پانچ دن جو پروگرام رہے ان میں تو روزانہ ہی کسی نہ کسی اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے آ کر انٹرویو لیتے رہے تھے۔ کافی لمبی ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ آدھے گھنٹے سے لے کر تیس پینتیس منٹ تک، چالیس منٹ تک بھی ایک ایک انٹرویو ہوا جس میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام، دعویٰ، اسلام کی تعلیم، دنیا کا امن، خلافت وغیرہ کے موضوع پہ بتایا گیا۔ تفصیلات تو آپ لوگ پڑھ ہی لیں گے یا دیکھ لیں گے۔ بہرحال اس ذریعہ سے جماعت کا وہاں کافی وسیع تعارف ہوا ہے وہاں اور جیسا کہ پروفیسر صاحب نے بھی کہا کہ اس ملک میں بھی اب پڑھے لکھے طبقے میں لوگوں کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ اگر اسلام کے بارے میں حقیقی تعلیم کو جاننا ہے تو پھر احمدیوں کو بہرحال بیچ میں شامل کرنا ہو گا۔
جیسا کہ میں نے انٹرویوز کے بارے میں کہا پہلا انٹر ویو 5؍ اکتوبر کو نن سپیٹ کے ریڈیو چینل آر۔ ٹی۔ وی نن سپیٹ کے جرنلسٹ نے لیا جو وہاں بیت النور مسجد سے ہی لائیو نشر کیا گیا۔ اور اس کی لائیو سٹریمنگ (live streaming) (کے ذریعہ) پوری دنیا میں سنا گیا۔ پھر 5؍اکتوبر کو ہی ہالینڈ کے ایک ریجنل ٹیلیویژن سٹیشن گلڈرلینڈ (Gelderlaand) کے جرنلسٹ نے انٹرویو لیا اور اس ٹی وی سٹیشن کے ذریعہ سے بھی اس علاقے میں تقریباً دو ملین سے زیادہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچا ہے بلکہ وہ جرنلسٹ خود ہی کہنے لگا کہ یہاں ہماری اہمیت وہی ہے جو آپ کے ہاں بی بی سی کی ہے۔
پھر 6؍اکتوبر کو ہالینڈ کی نیشنل اخبار کے جرنلسٹ نے انٹرویو لیا اور اس اخبار کی پرنٹ اشاعت تو تھوڑی پچاس ہزار ہے لیکن انٹرنیٹ پر پڑھنے والوں کی تعداد جو ہے وہ لاکھوں میں ہے۔ 7؍اکتوبر کو پھر ایک ریجنل اخبار کے جرنلسٹ آئے انہوں نے انٹرویو لیا۔ اس اخبار کی اشاعت بھی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ پھر 9؍اکتوبر کو ہالینڈ کے اخبار کے جرنلسٹ نے انٹرویو لیا اور اس کی تعداد بھی سنا جاتا ہے کافی ہے۔ یہ ایک مذہبی اخبار بھی ہے۔ ان انٹرویوز اور میڈیا کے ذریعہ سے جو کوریج ہوئی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی تھی۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ پہلی دفعہ ہالینڈ جماعت نے اتنا وسیع رابطہ کیا ہے اور اس لحاظ سے ان کا پروگرام بہت اچھا تھا۔ ہالینڈ کے تین نیشنل اور 9ریجنل اخبارات نے دورے کے حوالے سے خبریں دیں اور رپورٹس شائع کیں۔ 9اخبارات نے اپنے انٹرنیٹ کے ایڈیشن میں خبریں دیں۔ اخبارات کے ذریعہ سے کل تین ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ آر۔ ٹی۔ وی ریڈیو جس کا میں نے ذکر کیا ہے یہ(انٹرویو) بھی کے۔ پی۔ این ٹی وی نیٹ ورک کے ذریعہ ملکی سطح پر اور ویب سٹریم کے ذریعہ تمام دنیا میں نشر کیا گیا۔ نیشنل ریڈیو نے 7؍اکتوبر کو رات 9بجے دورے کے حوالے سے پانچ منٹ کا پروگرام بھی نشر کیا۔ اس طرح ریڈیو کے ذریعہ بھی قریباً نصف ملین تک پیغام پہنچا۔ پھر ان کا جو ٹی وی چینل ہے اس نے بھی دورہ کے حوالے سے پانچ منٹ کی خبر دی جس میں پارلیمنٹ کا اور مسجد کی بنیاد کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ ملک کے نیشنل ٹی وی پر بھی خبریں نشر کی گئیں۔ اس طرح ان دونوں ٹی وی چینلز کے ذریعہ بھی ان کا خیال ہے کہ پانچ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا تو مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سے ان کی اس دفعہ پہلی کوشش میں ہالینڈ میں آٹھ ملین افراد تک یہ پیغام پہنچا ہے۔
ہالینڈ میں جماعت ہالینڈ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی بھی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر بھی جلد مکمل کروائے۔ 60سال کے بعد وہاں جماعت باقاعدہ مسجد بنا رہی ہے۔ سینٹر تو ہیں، ایک دو سینٹر لئے تھے مگر باقاعدہ مسجدنہیں تھی اور یہ وقت کی بڑی ضرورت تھی کہ مسجد ہوتی۔ سنگ بنیاد کی تقریب میں شامل مہمانوں کی مجموعی تعداد 102 تھی۔ ان مہمانوں میں المیرے شہر جہاں یہ مسجد بن رہی ہے وہاں کے میئر، ججز، وکلاء، ڈاکٹرز، آرکیٹکٹس، مذہبی لیڈر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔ اس کے علاوہ البانیا، مونٹی نیگرو، کروشیا، سویڈن، سپین اور سوئٹزرلینڈ کے جو مہمان ایک دن پہلے فنکشن پہ آئے ہوئے تھے وہ بھی شامل ہو گئے۔
المیرے کے میئر صاحب نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی جو بھی باتیں مسجد کے بارے میں کی گئی ہیں، سن کر دل پر بڑا اثر ہوا ہے اور یہ پیغام جو آپ نے دیا ہے ایک پر امن فضا قائم کرنے کے لئے نہایت اثر انگیز ہے اور ہم سب کو مل کر اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ مسجد کے ذریعہ امن کا یہ پیغام ضرور پھیلے گا۔
پھر وہاں کی ایک لوکل کونسل کے ممبر کونسلر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ پیغام جو ہے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ ایک سیاسی پارٹی لبرل پارٹی ہے۔ اس کے لیڈر کہتے ہیں کہ لگتا ہے مستقبل میں آپ کی جماعت ہی اس دنیا میں امن کی ضامن ہے۔ پھر وہاں ایک مسلم ریڈیو بھی نیشنل مسلم ریڈیو کے نام سے چلتا ہے۔ جس روز مسجد کے سنگ بنیاد کا پروگرام تھا اسی روز نیشنل مسلم ریڈیو نے ساڑھے چار منٹ کی رپورٹ المیرے مسجد کی تعمیر کے پروگرام کے بارے میں نشر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں بتایا اور میرے بارے میں بھی بتایا گیا کہ مسیح موعود کے خلیفہ ہیں اور المیرے میں مسجد کے سنگ بنیاد کے لئے تشریف لائے ہیں۔ پھر اس رپورٹ میں وہاں مسجد (کے سنگ بنیاد) کے موقع پہ جو خطاب تھا اس کے بعض حصے بھی سنائے۔ اس کے علاوہ بھی میڈیا نے اس حوالے سے بہت ساری خبریں دیں۔ اس کے بعد جرمنی میں دو مساجد کی بنیاد رکھی۔ وہاں بھی شہر کے معززین اور پڑھا لکھا طبقہ آیا ہوا تھا۔ یہاں بھی اچھے فنکشن ہوئے۔ جماعت کا تعارف تو وہاں ہے۔ مزید بڑھا۔ ہالینڈ سے جرمنی جاتے ہوئے نورڈہارن (Nordhorn) میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ پھر وہاں ایک ٹی وی چینل نے انٹرویو بھی لیا۔ اس کی خبر بھی دی۔ ایک سابق میئر بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ فنکشن کے بعد وہ کہنے لگے کہ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہہ دیا ہے کہ اس اتوار کو تمہیں چرچ جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ہمارے لئے ضروری تھا وہ ان کے خلیفہ نے کہہ دیا ہے۔ تو اس طرح بھی بعض لوگ اظہار خیال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حقیقت میں بھی ان کے دل کھولے اور حقیقت میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھ کر قبول کرنے والے ہوں۔ ایک جرمن خاتون کہنے لگی کہ حقیقت میں یہ بہت اچھی تقریب تھی۔ میں اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی لیکن آج جس طرح خلیفۃ المسیح نے مجھے سمجھایا ہے مجھے اس کا صحیح علم ہوا ہے۔
پھر ایک جرمن کہتے ہیں کہ میں مذہباً کیتھولک ہوں اور آج میں نے ایک اور خوبصورت مذہب یعنی اسلام کے بارے میں سیکھا ہے۔ خلیفہ کی تقریر سے مجھے اسلام پر زیادہ تحقیق کرنے کا شوق ہوا ہے۔ انہوں نے ہمیں اسلام کی حقیقت کا بتایا۔ کہتے ہیں کہ مجھے پتا چلا ہے کہ اسلام کی بنیاد محبت، آزادی اور امن پر قائم ہے۔ مجھے سب سے اچھی بات یہ لگی کہ انہوں نے کہا ہے کہ اسلام ہمسایوں کے حقوق پر بہت زور ڈالتا ہے۔ ایک جرمن خاتون کہتی ہیں کہ میں مذہبی نہیں ہوں اور نہ میں کسی مذہب پر ایمان رکھتی ہوں بلکہ مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ دنیا میں ایک خلیفہ ہے لیکن آج جب میں نے اس خلیفہ کو دیکھا اور سنا ہے تو کہتی ہیں کہ اس کے بعد آج میں اسلام کے بارے میں بہترین رائے لے کر جا رہی ہوں۔ میں نے سیکھا ہے کہ مسجدصرف عبادت کے لئے نہیں ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کے لئے بھی ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ مسجد ہمسایوں کا خیال رکھنے کی بھی جگہ ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ مسجد امن پھیلانے کا مقام ہے۔ اسلام کے بارے میں تمام سوالات یا خوف جو کسی انسان کو ہو سکتے ہیں امام جماعت کے خطاب سے دور ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک مہمان جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ اس تقریب کے بعد میں امام جماعت کا انٹرویو کروں گا۔ لیکن کہتے ہیں خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر کسی قسم کے انٹرویو کی ضرورت نہ رہی کیونکہ انسان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں جو بھی ممکنہ خوف یا سوالات آ سکتے تھے ان سب کا جواب خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں دے دیا۔
ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے خاوند بھی ساتھ آئے ہوئے تھے لیکن انہوں نے جب انہیں کہا کہ اندر آ جاؤ تو انہوں نے کہا کہ میں تو اندر نہیں جاؤں گا۔ ان کو وہیں کار سے ڈراپ کر کے تو پارکنگ میں چلے گئے کہ یہ مسلمانوں کا فنکشن ہے اور کہتے ہیں کہ میرا دل کہتا ہے کہ یہاں آج دھماکہ ہو جانا ہے اس لئے مجھے تو اپنی جان بڑی پیاری ہے۔ تمہیں مرنا ہے تو تم جاؤ۔ میں تو نہیں جاتا۔ کہتی ہیں اب میں جا کے انہیں بتاؤں گی کہ تم نے آج کے دن کا جو ایک بہترین پروگرام تھا وہ miss کر دیا کیونکہ وہاں تو سوائے امن اور پیار اور محبت کے کچھ بھی نہیں تھا۔ تو لوگ ایسی بھی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک جرمن خاتون بھی اس موقع پر آئی ہوئی تھیں۔ خطاب سنا اور خطاب سننے کے دوران ہر بات پر یہی کہتی رہی کہ یہ سچ ہے، سچ ہے۔ اس کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں پہلی دفعہ اس پروگرام میں آئی ہوں اور آپ کے انتظامات دیکھ کر حیران ہوں۔ آپ کا جو نظام ہے اس میں ہر انسان ایک سلجھا ہوا انسان دکھائی دے رہا ہے۔
اب یہ جو لوگوں کے تاثرات ہوتے ہیں یہ ہمیں یہ یاد کرانے کے لئے بھی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ اپنا رویّہ ایسا رکھنا چاہئے کہ سلجھے ہوئے دکھائی بھی دیں۔ یہ صرف عارضی موقعوں پہ نہیں بلکہ اپنے یہ رویّے ہمیشہ مستقل بنائیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم جرمن اس سے عاری ہو چکے ہیں جو اخلاق سکھائے جاتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں جو اخلاقی قدریں گھر میں اپنے بچوں کو سکھانا چاہتی ہوں انہی قدروں کے خلاف سکول میں تعلیم دی جا رہی ہے لیکن مجھے تو یہاں انسان کی حقیقی عزت دکھائی گئی ہے۔
پس یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آزادی کے نام پر بچوں کو یہ تعلیم دی جا رہی ہے جو بہت کچھ ہے۔ یہاں کے رہنے والے لوگ خود ان باتوں سے بڑے پریشان ہیں۔ اس لئے اپنے بچوں کو ہمیں بھی خاص طور پر گھروں میں سمجھانا چاہئے کہ ان کی ہر بات جو ہے سچ نہیں ہے بلکہ تمہیں اسلامی قدروں کی طرف دیکھنا بہت ضروری ہے اور ان کا خیال رکھو۔
اسی طرح ایک مہمان مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ میں یہاں آ کر بہت خوش ہوں۔ کہتے ہیں عیسائیت تو مردہ مذہب ہو چکا ہے صرف اوپر اوپر سے باتیں ہیں کوئی روح نہیں ہے لیکن یہاں تو مجھے زندہ مذہب نظر آیا ہے۔
پھر جب میں نے افریقہ کا ذکر کیا کہ وہاں پانی بھی نہیں ملتا تو کہتے ہیں جب آپ نے ذکر کیا کہ افریقہ میں تو پینے کا پانی موجودنہیں تو وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں جب ان کو پتا لگا کہ جماعت احمدیہ افریقہ میں پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے لئے کیا کچھ کر رہی ہے تو ایک عورت اپنے سات آٹھ سالہ بیٹے کے کان میں کہنے لگی کہ پانی کو ضائع بالکل نہیں کرنا چاہئے اور پھر اس کے ساتھ تین چار اور بچے بھی تھے ان کو انگلی کے اشارے سے کہہ رہی تھی کہ ان کی باتیں سنو تا کہ تمہیں سمجھ آئے۔
اسی طرح ایک میاں بیوی وہاں بیٹھے ہوئے تھے وہاں ایک احمدی سے پردے سے متعلق بحث شروع ہو گئی۔ انہوں نے پوچھا کہ عورتیں کیوں نہیں ہیں، صرف مرد کیوں نظر آ رہے ہیں۔ عورتوں کے لئے علیحدہ مارکی کیوں ہے۔ جب انہوں نے میرا خطاب سن لیا اور پھر انہیں پردے کی روح بھی بتائی گئی کہ کیا وجہ ہے تو پھر کہنے لگیں کہ مغرب میں عورت کی آزادی صرف سطحی طور پر ہے اور یہ صحیح آزادی نہیں۔ کہتی ہیں کہ اب آپ نے پردے کا جو conceptمجھے سمجھایا ہے تو اب مجھے سمجھ میں آیا ہے کہ اسی میں عورت کی شان ہے۔ پس غیروں کو اسلامی تعلیم کی سمجھ آ رہی ہے۔ اس لئے ہماری عورتوں میں بھی بعض دفعہ پردے کے بارے میں جو complex ہو جاتا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور ان کا اعتماد بڑھنا چاہئے نہ کہ کسی قسم کی جھینپ یا بناوٹ ہو۔
ایک خاتون اپنے خاوند کے ساتھ آئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ آج کی تقریب میں ہر چیز مجھے بہت پسند آئی۔ میں اسلام کے بارے میں بہت زیادہ تجسّس رکھتی تھی اور آج مجھے سمجھ آئی ہے کہ اسلام صرف اچھائی کا ہی نام ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت کی یہ بات پسند آئی کہ ہمیں ایک دوسرے سے مل جل کر امن کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ ہم سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہیں۔ ان باتوں کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہے۔ موصوفہ کے خاوندنے کہا کہ مجھے بھی بہت تجسس تھا کہ آج آپ کے خلیفہ کس قسم کی باتیں کریں گے لیکن خلیفہ کی تقریر سن کر میں یہی کہوں گا کہ میں ان کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ مجھے اب پتا چل گیا ہے کہ مساجد تو امن کے گھر ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو بھی کہا ہے وہ امن کے متعلق ہی کہا ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے ڈرنے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں اب یہ باتیں سن کر میرے اندر اس مسجد کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خوف باقی نہیں رہا۔ پھر ایک دوست وہاں آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں میں دہریہ اور مذہب کا مخالف ہوں لیکن آپ کے خلیفہ نے آج یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر قسم کے لوگوں کے لئے برداشت کا مادہ رکھتے ہیں اور ان کے عمل سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام برداشت کا مذہب ہے۔ خلیفہ کا پیغام تھا کہ ہمیں اپنی رنجشیں اور لڑائیاں ختم کر دینی چاہئیں۔ میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ خلیفہ نے جو بھی باتیں بیان فرمائیں ان کی آج سخت ضرورت ہے۔
ایک خاتون کہتی ہیں کہ امام جماعت نے جو باتیں کیں ان کی سخت ضرورت تھی۔ آج دنیا تقسیم کا شکار ہے لیکن امام جماعت کا پیغام ایسا تھا جو ہم سب کو متحد کر سکتا ہے۔ صرف مسلمانوں کو ہی خلیفۃ المسیح کی باتیں نہیں سننی چاہئیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں اور تمام لوگوں کو آپ کی باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ کہتے ہیں کہ اس سارے خطاب کو سن کے میرا اسلام کے بارے میں منفی نظریہ تبدیل ہو گیا اور بالکل مثبت ہو گیا۔
یہاں اخباروں نے بھی خبریں دیں۔ نورڈہورن (Nordhorn) کے ایک مقامی اخبار نے مسجد کی بنیاد کی تفصیلی خبر شائع کی اور یہ لکھا کہ حقیقی مسلمان امن اور محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے۔ میرے خطاب کے حوالے سے باتیں کیں۔ اس کی اشاعت کافی ہے۔ ان اخباروں کے ذریعہ تین لاکھ بیس ہزار کے قریب لوگوں تک پیغام پہنچا۔
پھر مسجد صادق جو یہیں نورڈہورن کی ہے۔ یہاں اس کے علاقے کے ٹی وی نے اس حوالے سے دومنٹ کی خبر دی اس کو بھی کئی ملین لوگ دیکھتے ہیں۔ اخبارات نے خبریں شائع کیں۔ وہاں کے جو مقامی اخبار ہیں ان اخبارات کی مجموعی اشاعت ایک لاکھ ستّر ہزار ہے اور سب سے بڑے روزنامہ بِلڈ (Bild) کے دو علاقائی ایڈیشنوں میں بھی یہ خبر شائع ہوئی اور بنیاد کے حوالے سے پہلے بھی اس میں دو دفعہ خبریں شائع ہوئیں۔ پھر نورڈہورن کی مسجد کی خبر ریڈیو نے بھی دی۔ تو مجموعی طور پر وہاں جو دو مسجدوں کے سنگ بنیاد رکھے گئے ان کی اخباروں میں جو اشاعت ہوئی ہے اس کے مطابق یہ چار لاکھ نوّے ہزار کی اشاعت والے اخبار تھے جن کے ذریعہ سے مسجد کی بنیاد کی یہ خبریں پہنچیں اور اسلام کا پیغام پہنچا۔ اور اس کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی جو تعداد ہے کہتے ہیں کہ ان کو سننے والوں کی تعداد تو کئی ملینز میں ہے۔
جامعہ احمدیہ جرمنی کی پہلی کلاس بھی سات سال پورے کر کے اپنا کورس مکمل کر کے اس دفعہ پاس ہوئی ہے۔ وہاں 16مربیان، مبلغین تیار ہوئے ہیں اور ان کا سالانہ کانووکیشن بھی تھا۔ اصل مقصد جرمنی جانے کا تو یہی تھا۔ وہاں یہ جامعہ 2008ء میں بیت السبوح کی چھوٹی سی بلڈنگ میں چند کمروں میں شروع ہوا تھا۔ اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے جامعہ کی باقاعدہ عمارت تعمیر کی ہے جس میں ساری سہولیات ہیں۔ کلاس رومز، ہالز، لائبریری، ہاسٹل وغیرہ سارا کچھ ہے اور اچھی خوبصورت بلڈنگز ہیں تو وہاں کانووکیشن تھی، ان کا فنکشن تھا۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان فارغ ہونے والے مربیان کو صحیح رنگ میں خدمت دین کی توفیق بھی عطا فرمائے اور وفا کے ساتھ اپنے وقف کو نبھانے کی توفیق بھی دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں۔ کوئی انسانی عقل یا دور اندیشی یا دنیوی اسباب ان وعدوں تک ہم کو نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اسباب مہیا کر دے گا تب یہ کام انجام کو پہنچے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ431-430۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’مَیں جانتا ہوں کہ خدا نے اس سلسلے کو قائم کیا ہے اور اس کے فضل سے اس کا نشوونما ہو رہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کا نشوونما ہو سکتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کے لئے چاہتا ہے تو وہ بیج کی طرح ہو جاتی ہے۔ جیسے قبل از وقت بیج کے نشوونما اور اس کے آثار کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس قوم کی ترقیوں کو بھی محال اور ناممکن سمجھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ431-430 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (جس طرح بیج کا نہیں پتا کہ اُگنا ہے کہ نہیں لیکن جب اُگتا ہے تو پھل پھول لاتا ہے اسی طرح فرمایا کہ اس قوم کی ترقیوں کو بھی لوگ پہلے یہی سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں ہو گی کہ نہیں ہو گی)۔ پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر جب فیصلہ کرتی ہے کہ یہ ہو تو وہ کام ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وعدہ ہے اور یہ اس کی تقدیر ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت نے پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے۔ اور یہی کچھ سلوک اللہ تعالیٰ کا ہر جگہ ہمیں جماعت کے ساتھ نظر بھی آتا ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ رپورٹ جو میں نے بیان کی ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ کسی کی ذات کا یا چند انتظامیہ کے ممبران کا کمال نہیں ہے۔ اس پروگرام کو اگر کوئی کامیابی ہوئی ہے تو اللہ کے فضل سے ملی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو سمجھتے ہوئے ہم سے جو کوشش ہو سکتی ہے ہمیں کرنی چاہئے تا کہ ہم بھی اس کا حصہ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز جمعہ کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم مرزا اظہر احمد صاحب کا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ 14؍اکتوبر 2015ء کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں میں سے یہ آخری بیٹے حیات تھے جن کی وفات ہو گئی۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے لڑکوں کی یہ نسل جو دوسری نسل تھی ان کی وفات کے بعد یہ دوسری نسل تو اب ختم(ہو گئی ہے)۔ اللہ کرے تیسری نسل اور چوتھی نسل اور آئندہ نسلیں بھی دین پر قائم رہنے والی ہوں۔ 17؍ اکتوبر1930ء کو یہ قادیان میں حضرت اُمِّ ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے قادیان سے حاصل کی۔ وہیں میٹرک کیا۔ پارٹیشن کے بعد آپ نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال کے لئے آپ نے تحریک جدید میں بطور انچارج مشن کام کیا۔ اس کے بعد آپ کی تقرری 21؍اکتوبر 1961ء کو صدر انجمن احمدیہ میں بطور نائب افسر خزانہ ہوئی۔ حضرت مصلح موعودنے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا کوئی بیٹا جماعت کے مالی معاملات میں بھی معاونت کرے۔ اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ شاید اسی وجہ سے حضرت مصلح موعودنے خزانے میں ان کا تقرر فرمایا تھا۔ ساری زندگی ان کی دفتر خزانہ میں خدمت کرتے ہوئے گزری اور 1992ء میں وہاں سے ریٹائر ہوئے تھے۔ فرقان بٹالین میں بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ خلافت سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا۔ اور میرے ماموں تھے لیکن بڑا احترام کا تعلق انہوں نے رکھا۔ پہلے جلسے پر 2003ء میں مَیں نے دیکھا کہ لوگوں کے رَش میں کھڑے تھے اور جب میرے پر ان کی نظر پڑی یا میری ان پر نظر پڑی ہے تو بڑے جذباتی انداز میں انہوں نے ہاتھ ہلایا اور ایک خالص وفا، تعلق اور خلوص ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ غریب پروری کرنے والے بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور شفقت کا سلوک فرمائے۔
1956ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان کا نکاح قیصرہ خانم صاحبہ بنت خان سعید احمد خان صاحب سے پڑھا تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ ایک داماد ان کے ربوہ میں ہی واقف زندگی ہیں اور ایک داماد ڈاکٹر عرفان یہاں لندن میں بھی رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ تاریخی بات ہے اس لئے مَیں خطبہ میں کچھ حصہ بیان بھی کر دیتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ان کے خطبہ نکاح میں فرمایا تھا کہ آج جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ میرے لڑکے مرزا اظہر احمد کا ہے جو خان سعید احمد خان مرحوم کی لڑکی قیصرہ خانم سے قرار پایا ہے۔ قیصرہ خانم پہلے ہی ہماری دوہری رشتہ دار تھیں لیکن اب اس نکاح کی وجہ سے ان کا ہم سے تہرہ رشتہ ہو گیا ہے۔ ان کا ایک رشتہ تو یہ ہے کہ وہ کرنل اوصاف علی خان کی پوتی ہیں اور کرنل اوصاف علی خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب کے بہنوئی اور خالہ زاد بھائی تھے۔ گویا یہ اس شخص کے بہنوئی کی پوتی ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی لڑکی کا رشتہ دیا بلکہ بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانے میں ان کے بیٹے کو آپ کی دوسری لڑکی کا رشتہ دے دیا گیا۔ دوسرا رشتہ جس کی بنا خدا تعالیٰ کے ایک الہام پر ہے یہ ہے کہ یہ خان محمد خان صاحب کپورتھلوی کے بیٹے عبدالمجید خان صاحب کی نواسی ہیں اور خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت پرانے صحابی تھے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ افسوس ہے کہ ہماری جماعت اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں نہایت سست واقع ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی اور قوم ایسی ہو جو اپنی تاریخ کو یاد رکھنے میں اتنی سست ہو جتنی ہماری جماعت ہے۔ عیسائیوں کو لے لو انہوں نے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی سستی سے کام نہیں لیا اور مسلمانوں نے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے حالات کو اس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اس موضوع پر بعض کتابیں کئی کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں لیکن ہماری جماعت باوجود اس کے کہ ایک علمی زمانے میں پیدا ہوئی ہے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں سخت غفلت سے کام لے رہی ہے۔ پس اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ لوگوں کو توجہ دینی چاہئے۔ پہلے بھی توجہ دلائی ہوئی ہے کہ اپنی تاریخ کو، اپنی خاندانی تاریخ کو یاد رکھنے کی کوشش کریں اور جو صحابہ ہیں ان کا ذکر ہونا چاہئے۔ ان کے بارے میں لکھا جانا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے بتایا ہے کہ خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلے سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری 1904ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے۔ حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ پھر یہ الہام کس شخص کے متعلق ہے؟ آپ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کل فوت ہو گئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے۔ پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعزیت کرنا اور یہ کہنا کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روحانی رنگ میں اہل بیت میں ہی شامل تھے۔ پس قیصرہ خانم کا ہم سے یہ دوسرا رشتہ ہے کہ وہ اس شخص کے ایک بیٹے کی نواسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت میں سے قرار دیا ہے۔ (خطبات محمود جلد3 صفحہ678-677)
اس کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے ہی مجھے خیال آیا اور مَیں نے یہ کچھ حصہ بیان کیا ہے۔ ان کی اہلیہ کی چند سال پہلے وفات ہوئی تھی۔ اس میں بھی مَیں نے بیان کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہر سفر میں اپنی تائیدو قدرت کے نشانات دکھاتا ہے۔ بعض دفعہ فکر ہوتی ہے کہ بعض جماعتیں بعض پروگرام بنانے میں تجربہ نہیں رکھتیں اور ایسے پروگرام بنا لیتی ہیں جو جماعت کے اپنے پروگرام نہیں ہوتے بلکہ غیروں کے ساتھ پروگرام ہوتے ہیں اور جو غیروں کے ساتھ پروگرام ہوں ان کو ظاہر ہے پہلے ان ذرائع کے ذریعہ سے جو غیروں کے ہیں مشتہر بھی کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ جماعت مخالف بعض شرارتی عنصر پروگرام میں کوئی بدمزگی پیدا نہ کریں۔ پھر یہ بھی کہ اگر کسی لحاظ سے بھی پروگرام کم معیار کا ہو تو شماتتِ اعداء کا باعث نہ بن جائے۔ بہرحال بہت سی فکریں پیدا ہوتی ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا ہے۔ ایسے نظارے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے وعدے ہر دفعہ ایک نیا رنگ دکھاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہالینڈ اور جرمنی کے سفر کے دوران مختلف پروگراموں کے نہایت کامیاب و بابرکت انعقاد اور ان کے غیروں پر گہرے نیک اثرات اور ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی کے ذریعہ وسیع پیمانے پر اسلام احمدیت کے پیغام کی تشہیر اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ایمان افروز نظّاروں کا تذکرہ۔
ہالینڈ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں فارن افیئرز کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں مختلف ممالک کے ممبرانِ پارلیمنٹ، ایمبیسیڈرز اور بعض دیگر سرکاری حکام اور نمائندگان کی شمولیت۔
یہ پروگرام منعقد ہونا بذات خود اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ورنہ ہالینڈ کی جماعت اگر کہے کہ کسی کی کوشش سے ہوا ہے یا جماعت کی کوشش سے ہوا ہے، کسی شخص کی کوشش سے ہوا ہے تو وہ غلط ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر یہی کہیں گے کہ ہمیں تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہو کیسے گیا۔
ہالینڈ میں 60 سال کے بعد جماعت کی دوسری باقاعدہ مسجد کی تعمیر کے لئے المیرے(Almere) میں سنگ بنیاد کی مبارک تقریب۔
جماعتی پروگراموں کے انتظامات کا غیروں پر اچھا اثر اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو ہمیشہ اپنے رویّوں کو سلجھا ہوا رکھنے کی نصیحت۔
جرمنی میں مساجد کا سنگ بنیاد اور پریس میڈیا کوریج۔
جامعہ احمدیہ جرمنی سے شاہد کا امتحان پاس کرنے والی پہلی کلاس کے مبلغین کی کانووکیشن کی تقریب۔
مکرم مرزا اظہر احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 23؍اکتوبر 2015ء بمطابق 23؍اخاء 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔