سیرت حضرت مسیح موعودؑ: حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ بعض روایات

خطبہ جمعہ 30؍ اکتوبر 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات اور آپ کے حوالے سے جو آپ نے بعض حکایات بیان کیں ان کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مختلف تقاریر میں بیان کیا ہوا ہے ان کو مختلف جگہوں سے لے کے میں آج بیان کروں گا۔ ہر واقعہ یا حکایت علیحدہ علیحدہ اپنے اندر ایک نصیحت کا پہلو رکھتی ہے۔ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ افراد جماعت کو اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے۔ دینی علم رکھنے والے حالات حاضرہ سے بھی واقفیت رکھیں اور تاریخ سے بھی واقفیت رکھیں۔ خاص طور پر وہ جن کے سپرد تبلیغ کا کام ہے۔ مربّیان ہیں، مبلغین ہیں ان کو چاہئے کہ خاص طور پر توجہ دیں۔ آج کل کی دنیا میں تو یہ معلومات فوری طور پر بڑی آسانی سے مہیا ہو جاتی ہیں۔ بہرحال ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہے جو علمی استعداد بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ موقع محل کے مطابق اپنی علمی صلاحیت کے اندر رہنے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور حقیقی بزرگی کے معیار کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے یہ واقعہ سنا ہوا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا۔ کسی بادشاہ کا وزیر اتفاقاً اس کا معتقد ہو گیا اور اس نے ہر جگہ اس شخص کی بزرگی اور اس کی ولایت کا پروپیگنڈا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ بڑے بزرگ اور خدارسیدہ انسان ہیں۔ یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرورزیارت کریں۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا اچھا فلاں دن میں اس بزرگ کے پاس جاؤں گا۔ جو بنا ہوا بزرگ ہے یا جسے تم بزرگ کہتے ہو۔ بہرحال وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کو پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا۔ آپ اس سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہو جائے اور وہ بھی آپ کا معتقد ہو جائے۔ اگر بادشاہ معتقد ہو گیا تو پھر باقی رعایا بھی پوری توجہ دے گی۔ بہرحال آپ لکھتے ہیں کہ معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر جو آگے واقعات ہیں ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ بیوقوف ضرور تھا۔ جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسے باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت! آپ کو انصاف کرنا چاہئے۔ دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ کیسا عادل اور منصف تھا اور اس کا آج تک کتنا شہرہ ہے۔ حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے ہو چکا تھا مگر اس نے سکندر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہؤا تھا کیونکہ سکندر خلافت اربع کے زمانے میں تو ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے۔ بنو عباس کے ابتدائی ایام خلافت میں بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت بھی وہی رُوئے زمین کے حکمران تھے۔ پس اگر سکندر مسلمان تھا تو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہو سکتا ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے۔ تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کا بادشاہ تھا اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی امت میں سے قرار دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے بادشاہ پہ اثر تو کیا ڈالنا تھا، بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو گیا اور فوراً اٹھ کر چلا آیا۔ تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں ہے مگر یہ مصیبت تو اس خودساختہ بزرگ نے خود اپنے اوپر سہیڑی۔ اسے کس نے کہا تھا کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کر دے۔‘‘ (مأخوذ از خطبات محمود جلد19صفحہ631تا633)

تو اس لئے علم صحیح ہونا چاہئے اور جو بھی بات انسان کرے اس کے بارے میں یہ تسلّی ہونی چاہئے کہ اگر وہ تاریخی لحاظ سے ہے تو تاریخ کا صحیح علم ہو اور کوئی علمی بات ہو تو اس کا صحیح علم ہو۔ اس شخص کو اس کی نفس کی خواہش نے ہلاک کر دیا۔ جب انسان سچائی سے ہٹ کر نام نہاد بزرگی اور علم کا چولہ پہنے یا اس کو پہننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اسی طرح ذلیل ہوتا ہے یہی انجام ہوتا ہے۔

پھر ایک جگہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی نرمی اور امّت کے لئے درد بلکہ انسانیت کے لئے بھی درد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ کسی کو بددعا دینے کی لوگوں کو بڑی جلدی ہوتی ہے۔ ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ آخر انہوں نے ہی ایمان لانا ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں چوبارے میں رہتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمرے کے اوپر آپ نے ان کے لئے ایک اور کمرہ بنوایا تھا اور اوپر رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکان کے نچلے حصے میں تھے کہ ایک رات نچلے حصے سے مجھے اس طرح رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردِ زہ کی وجہ سے چلّاتی ہو۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے کان لگا کر آواز کو سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا! طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اے خدا! اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا۔

اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ طاعون کے نشان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتا چلتا ہے۔ لیکن جب طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے طاعون آتی ہے خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ! اگر یہ لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا۔ پس مومن کو عام لوگوں کے لئے بددعا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ ایک مومن دنیا کو بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر وہ ان کے لئے بددعا کرے گا تو وہ کس کو بچائے گا؟ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے۔ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے اور ان کی عظمت انہیں واپس دلائے۔ بنو اُمیّہ کے زمانے میں مسلمانوں کو جو شوکت اور عظمت حاصل تھی حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں آج وہی شوکت و عظمت احمدیت مسلمانوں کو اس شرط کے ساتھ دینا چاہتی ہے کہ بنو عباس اور بنو اُمیّہ کی خرابیاں ان میں نہ آئیں۔ پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے ان کے لئے ہم بددعا کیسے کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

اے دل تو نیز خاطر اینان نگاہ دار

کاخر کنند دعوئے حبّ پیمبرمؐ

کہ اے میرے دل تو ان لوگوں کے خیالات، جذبات اور احساسات کا خیال رکھا کر تا ان کے دل میلے نہ ہوں۔ یہ نہ ہو کہ تنگ آ کر تُو بددعا کرنے لگ جائے۔ یعنی اپنے آپ کو کہہ رہے ہیں۔ آخر ان کو تیرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور اسی محبت کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یہ تمہیں گالیاں دیتے ہیں۔ (مأخوذ از خطبات محمود جلد33صفحہ222-221)

پس عوام الناس تو لا علم ہے۔ ان کو جو مولوی پڑھاتے ہیں وہ آگے اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔ آج بھی کئی احمدی اپنے واقعات بھیجتے ہیں کہ جب کسی طرح احمدیت کی حقیقت مخالفین کو بتائی گئی یا کسی شخص کو بتائی گئی جو مخالف تھا تو اس کی کایا پلٹ گئی۔ اسی طرح مجھے بھی بعض غیر از جماعت خط لکھتے ہیں کہ کس طرح ان کو احمدیت کی حقیقت معلوم ہوئی اور اب ہمیں پتا چلا ہے کہ مولوی ہمیں کس طرح گمراہ کر رہے تھے۔ افریقہ میں کئی ایسے واقعات ہیں جہاں بعد میں جماعتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے اظہار کیا کہ ہمیں مولویوں نے غلط رنگ میں احمدیت کے بارے میں بتایا تھا۔ پس ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امّت کو علماء سوء اور غلط لیڈروں سے بچائے اور عوام الناس کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ حقیقی مسلمان کے لئے یہ مقدر ہے کہ مصائب اور مشکلات اور خطرات پیدا ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بہتری کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ حضرت مولانا روم کا شعر ہے کہ

ہَرْ بَلاکِیْں قوم رَا اُو دَادَہ است

زِیرِآں یَکْ گَنجْ ہَا بَنِہادَہ است

کہ اس خدا نے قوم پر جو بھی مشکل ڈالی اس کے نیچے اس نے ایک بہت بڑا خزانہ رکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی قوم یا جماعت واقع میں مسلمان بن جائے تو اس کے تمام مصائب اور تمام خطرات جن میں وہ گرفتار ہو اس کے لئے موجب نجات و ترقی ہو جاتے ہیں اور اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی جس کا نتیجہ اس کے لئے سُکھ نہیں ہوتا۔ یعنی ہر مصیبت جو آتی ہے ہرمشکل جو آتی ہے اس کے پیچھے سُکھ اور آسانیاں ہوتی ہیں۔ (مأخوذ از خطبات محمود جلد9 صفحہ167-166)

پس اس وقت تمام مسلم اُمّہ میں سے حقیقی مسلمان وہی ہے جو زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ ہمارے لئے اگر مشکلات کھڑی ہوتی ہیں تو مستقبل کی خوشخبریاں دینے کے لئے ہیں اور یہ سچائی کو ماپنے کا بہت بڑا معیار ہے کہ مشکلات کے بعد سُکھ آتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر ابتلا ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے سامان لے کر آتا ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ بد خیالات کا اثر بغیر ظاہری اسباب کے صرف صحبت سے بھی ہو جاتا ہے۔ کوئی کسی کو کسی برائی میں پڑنے کی ترغیب دے یا نہ دے اگر کسی برے کی صحبت میں انسان وقت گزار رہا ہو تو وہ برائی لاشعوری طور پر اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ برے انسان کا اثر لاشعوری طور پر اس پر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک سکھ طالبعلم نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص کا تعلق رکھتا تھا حضرت صاحب کو کہلا بھیجا یا دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے کہلا کے بھیجا (مأخوذ از اپنے اندر یکجہتی پیدا کرو … انوار العلوم جلد24 صفحہ422) کہ پہلے مجھے خدا پر یقین تھا مگر اب میرے دل میں اس کے متعلق شکوک پڑنے لگ گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کہلا بھیجا کہ جہاں تم کالج میں جس سیٹ پر بیٹھتے ہو اس جگہ کو بدل لو۔ چنانچہ اس نے جگہ بدل لی اور پھر بتایا کہ اب خدا تعالیٰ کے بارے میں کوئی شک پیدا نہیں ہوتا۔ جب یہ بات حضرت صاحب کو سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس پر ایک شخص کا اثر پڑ رہا تھا جو اس کے پاس بیٹھتا تھا اور وہ دہریہ تھا۔ جب جگہ بدلی تو اس کا اثر پڑنا بند ہو گیا اور شکوک بھی نہ رہے۔ تو برے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بھی بِلا اس کے کہ وہ کوئی لفظ کہے اثر پڑتا ہے اور اچھے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بِلا اس کے کہ وہ کچھ کہے اچھا اثر پڑتا ہے۔‘‘ (مأخوذ ازملا ئکۃ اﷲ۔ انوار العلوم جلد 5صفحہ537)

پس دنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتا نہیں لگتا۔ پس خاص طور پر نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ان کی دوستیاں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ایسے لوگوں سے ہو جو اُن پر بد اثر نہ ڈالیں۔ اسی طرح ٹی وی پروگرام ہیں۔ اس بارے میں بڑوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بچوں کو پروگرام دیکھنے سے روکتے ہیں تو وہ اگر بچوں کو ایسے پروگرام نہ بھی دیکھنے دیں جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتے ہیں یا پروگراموں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچوں کی عمر کے لئے نہیں ہیں، اس عمر کے بچوں کے لئے نہیں لیکن خود گھروں میں اگر ماں باپ دیکھ رہے ہوں تو ایک تو یہ بات ہے کہ کبھی نہ کبھی بچوں کی نظر اس پروگرام پر پڑ جاتی ہے جب ماں باپ دیکھ رہے ہوں۔ دوسرے لاشعوری طور پر ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت بھی خراب ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے ماں باپ جو ایسے پروگرام دیکھتے ہیں یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ خود یہ پروگرام دیکھنے کے بعد بالکل تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں پر قائم ہوں۔ بعض دیر تک دیکھتے ہیں اور پھر صبح فجر پہ نمازوں کے لئے بھی نہیں جاگتے۔ پس والدین کا بھی فرض ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو پاک صاف رکھیں کیونکہ لاشعوری طور پر ان چیزوں کا بھی بچوں پر اثر پڑتا ہے اور تربیت پر اثر پڑتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ دعا کے لئے تعلق کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض لوگوں کو کہہ دیا کرتے تھے کہ تم ایک نذر مقرر کرو میں دعا کروں گا۔ یہ طریق اس لئے اختیار کرتے تھے کہ تعلق بڑھے۔ اس کے لئے حضرت صاحب نے بارہا ایک حکایت سنائی ہے کہ ایک بزرگ سے کوئی شخص دعا کرانے گیا۔ اس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا۔ مکان کے جو کاغذات تھے وہ گم گئے تھے۔ اس نے کہا مَیں دعا کروں گا پہلے میرے لئے حلوہ لاؤ۔ وہ شخص حیران تو ہؤا کہ میں دعا کے لئے گیا ہوں اور یہ مجھے حلوہ کا کہہ رہے ہیں۔ مگر بہرحال اس کو دعا کی ضرورت تھی حلوہ لینے چلا گیا اور حلوائی کی دکان سے حلوہ لیا۔ اور جب حلوہ اس نے لیا اور حلوائی اس کو ایک کاغذ میں ڈال کر دینے لگا جو کاغذ حلوائی کے پاس پڑا ہوا تھا تو اس نے شور مچا دیا کہ اس کاغذ کو نہ پھاڑنا۔ یہی تو میرے مکان کے کاغذات ہیں۔ اسی کے لئے تو میں دعا کروانا چاہتا تھا۔ غرض وہ حلوہ لے کر گیا اور بتایا کہ مجھے قبالہ یا وہ کاغذات مل گئے ہیں تو اس بزرگ نے کہا کہ میری غرض حلوہ سے صرف یہ تھی کہ تمہارے سے ایک تعلق پیدا ہو اور وہ تعلق دعا کے لئے تو پیدا ہونا ہی تھا تمہیں ظاہری فائدہ بھی ہو گیا۔ (مأخوذ از منصب خلافت۔ انوار العلوم جلد2صفحہ49-50)

تو بہت سے ایسے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے ملتے ہیں جب کسی مخلص کے کاروبار کی بہتری یا اس کی صحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص درد کے ساتھ اس لئے دعا کی کہ وہ آپ کے مشن، آپ کے اشاعت اسلام کے کاموں کے لئے مالی مدد بہت زیادہ کرتے تھے یا غیر معمولی کرتے تھے۔ پس ان قربانیوں کی وجہ سے خاص تعلق ان سے پیدا ہو گیا تھا۔

نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک دفعہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دو صحابیوں کے بارے میں سناتے تھے۔ ایک صحابی بازار میں گھوڑا بیچنے کے لئے لایا۔ دوسرے نے اس سے قیمت دریافت کی۔ اس نے کچھ بتائی لیکن خریدنے والے نے کہا نہیں اس کی قیمت یہ ہے اور جو اس نے بتائی وہ بیچنے والے کی بتائی ہوئی قیمت سے زیادہ تھی۔ لیکن بیچنے والا کہے کہ مَیں وہی قیمت لوں گا جو مَیں نے بتائی ہے اور خریدنے والا یہ کہہ رہا تھا کہ میں وہی قیمت دوں گا جو مَیں نے قرار دی ہے۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو صحابہ کا ایک معمولی واقعہ ہے۔ ان کی دیانت کا، ایمانداری کا یہ معیار تو ایک معمولی واقعہ ہے۔ وہ لوگ تو ہر ایک نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتے تھے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو۔ اگر ایک دین کا کوئی کام کرے تو تم کوشش کرو کہ اس سے بھی بڑھ کر کرو اور دوسرے کے مقابلے میں اپنے نفس کو قربان کرو۔‘‘ (مأخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ445)

اگر ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو جائے کہ بجائے اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے وہ نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ سچائی پر قائم رہنے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں تو جہاں یہ بات ہماری اپنی تربیت کے لئے، اپنے ثواب پہنچانے کے لئے فائدہ مند ہو گی ہماری نسلوں کی تربیت کرنے والی بھی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی جماعت کی ترقی کا بھی باعث بنے گی۔ پس یہ ایمانداری کے معیار ہیں جو ہمیں قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر ایک اور اہم بات جس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے، یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ تمام خوبیوں کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی طرح کسی کو ہدایت دینا بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد ایک کام کیا ہے کہ ہدایت کی اشاعت کرو۔ پیغام پہنچاؤ۔ لیکن ہدایت دینا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ ہمیں جس حد تک ممکن ہو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہئے اور نتائج پھر اللہ تعالیٰ خود عطا فرماتا ہے۔ یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اگر فلاں شخص ہدایت پا جائے اور احمدی ہو جائے تو جماعت ترقی کرے گی۔ بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص احمدی ہو جائے تو یہ احمدیت کی ترقی ہو گی اور ہم بھی احمدی ہو جائیں گے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آتے اور کہتے کہ ہمارے گاؤں میں فلاں شخص ہے اگر وہ احمدی ہو جائے تو ہم گاؤں کے لوگ احمدی ہو جائیں گے حالانکہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ شخص مان بھی لے تب بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو نہیں مانتے اور تکذیب سے باز نہیں آتے۔ چنانچہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تین مولوی تھے وہاں کے لوگ کہتے تھے کہ اگر ان میں سے کوئی مرزا صاحب کو مان لے تو ہم سب کے سب مان لیں گے۔ ان میں سے ایک نے بیعت کر لی۔ (اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل کیا اور اس نے بیعت کر لی) تو سب لوگوں نے کہہ دیا کہ ایک نے مان لیا تو کیا ہؤا۔ اس کی تو عقل ماری گئی ہے۔ ابھی دو نے نہیں مانا۔ دوسرے دو تو ایسے ہی ہیں ناں جنہوں نے نہیں مانا۔ یہ تین ہمارے ایسے بزرگ ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں اگر یہ مان لیں تو مانے جائیں گے۔ ایک نے مانا ہے تو کیا پتا اس کی عقل ماری گئی ہو۔ پھر ایک اور نے بیعت کر لی۔ پھر مخالفین نے یہی کہا کہ ان دونوں مولویوں کا کیا ہے، یہ تو بیوقوف لوگ ہیں۔ ایک نے ابھی تک بیعت نہیں کی اس لئے ہم نہیں مانتے۔ تو ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں لیکن جن لوگوں کا تجربہ وسیع نہیں ہوتا وہ اسی دُھن میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں شخص مان لے تو سب لوگ مان لیں گے مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (مأخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 451-450)

پس ہماری توجہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی طرف ہونی چاہئے۔ ہمارا انحصار اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئے اور جو کام ہم نے کرنا ہے اس کو کرنا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف ہم نظر رکھیں۔ بہت سارے لوگ ہیں جن پر بعض لوگ بعض دفعہ انحصار کرتے ہیں لیکن وہ جن پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے وہ خود ہی بعض دفعہ مشکل اور ابتلا میں آجاتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس کے لئے یہ شرائط کہی ہیں۔ اس کے لئے دعا کریں کہ اس کی یہ شرطیں پوری ہو جائیں تو وہ احمدی ہو جائے گا اور جب وہ احمدی ہو جائے گا تو ہمارے علاقے میں انقلاب آ جائے گا۔ حالانکہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ جماعت کو عطا فرمائے جو اخلاص و وفا میں بڑھنے والے ہوں اور دینی ترقی میں آگے قدم بڑھانے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو انسانیت کو گمراہی سے بچانے کے لئے کتنا درد تھا اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک اَن پڑھ اور ادنیٰ عورت آئی۔ وہاں ہندوستان میں تو ذاتوں کا بڑا دیکھا جاتا ہے۔ تو بڑی ادنیٰ ذات کی عورت تھی اور کہنے لگی کہ حضور میرا بیٹا عیسائی ہو گیا۔ آپ دعا کریں کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ آپ نے فرمایا تم اسے میرے پاس بھیجا کرو کہ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سنا کرے۔ وہ بیمار تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس علاج کے لئے آیا ہوا تھا۔ کیونکہ وہ قادیان میں تھا تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے علاج کروا رہا ہے۔ اس کو میرے پاس بھی بھیج دیا کرو۔ آپ فرماتے ہیں اس لڑکے کو سِل کی بیماری تھی (یعنی ٹی بی کی بیماری تھی۔) چنانچہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آتا تو اسے نصیحت کرتے رہے اور اسلام کی باتیں سمجھاتے رہے لیکن عیسائیت اس کے اندر اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ جب آپ کی باتوں کا اثر اس کے دل پر ہونے لگا تو اس نے خیال کیا کہ میں کہیں مسلمان ہی نہ ہو جاؤں۔ چنانچہ ایک رات وہ اپنی ماں کو غافل پا کر بٹالہ کی طرف بھاگ گیا۔ رات کو گھر سے، قادیان سے دوڑ گیا۔ اور بٹالہ میں جہاں عیسائیوں کا مشن تھا وہاں چلاگیا۔ جب اس کی ماں کو پتا لگا تو وہ راتوں رات بٹالہ پیدل گئی اور اسے پکڑ کر پھر قادیان واپس لے آئی۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ عورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پَیروں پر گر جاتی تھی اور کہتی تھی مجھے اپنا بیٹا پیارا نہیں مجھے اسلام پیارا ہے۔ میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے مگر میری خواہش یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو جائے پھر بیشک مر جائے۔ جو بیماری ہے اس سے اگر نہیں بچتا تو مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس عورت کی التجا قبول کر لی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے کے چند دن بعد (بیچارہ) فوت بھی ہو گیا۔ (مأخوذ از الفضل 10فروری 1959ء صفحہ3 جلد48/13 نمبر35)

اس عورت کو بھی یہ پتا تھا کہ اگر دین میں واپس لانے کے لئے کوئی آخری حیلہ، انسانی وسیلہ ہو سکتا ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں کیونکہ انہی میں اسلام کا حقیقی درد ہے اور وہی حقیقی درد کے ساتھ دوسرے کو پیغام بھی پہنچا سکتے ہیں، تبلیغ بھی کر سکتے ہیں، قائل بھی کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصلاح کے طریق کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ اب اصلاح میں بھی بعض لوگ بعض دفعہ غلط رنگ میں ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ لوگ بجائے اصلاح کے بگڑ جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ’’حضرت صاحب کی اصلاح کا طرز بڑا لطیف اور عجیب تھا۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا۔ اس کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ وہ باتوں باتوں میں یہ بیان کرنے لگا کہ اس کمی کی وجہ سے ریلوے ٹکٹ میں اس رعایت کے ساتھ آیا ہوں اور وہ طریقہ شاید کچھ غلط طریقہ تھا۔ آپ نے ایک روپیہ اس کو دے دیا(اس زمانے میں روپے کی بڑی ویلیو تھی) اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ امید ہے جاتے ہوئے ایسا کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ اس کو یہ بھی سمجھا دیا کہ جو جائز چیز ہے اس کو ہمیشہ کرنا چاہئے۔ (مأخوذ ازجماعت قادیان کو نصائح۔ انوار العلوم جلد4 صفحہ23)

پھر افراد جماعت کو ہنر سیکھنے اور محنت کرنے کی طرف حضرت مصلح موعودنے بہت توجہ دلائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ایک واقعہ اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے نوجوان تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس رہتا تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک لڑکا تھا جس کا نام فجّا تھا۔ اسے آپ نے کسی معمار کے ساتھ لگا دیا اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ معمار بن گیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس میں سمجھ بہت کم تھی مگر مخلص اور دیندار تھا۔ وہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں آیا تھا اور بعد میں احمدی ہو گیا تھا۔ اس کی عقل کا (یعنی معمولی عقل کا جو واقعہ ہے وہ آپ یہ بیان فرماتے ہیں کہ) یہ حال تھا کہ ایک دفعہ بعض مہمان آئے۔ اس وقت لنگر خانے کا کام علیحدہ نہیں تھا۔ شروع شروع کی بات تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر ہی سے مہمانوں کے لئے کھانا جاتا تھا۔ شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرّح عنبری قادیان آئے اور ایک دوست اَور بھی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے لئے چائے تیار کروائی اور فجّے کو کہا کہ ان مہمانوں کو چائے پلا آئے۔ اور اس خیال سے کہ وہ کسی کو چائے دینا بھول نہ جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تاکید کی کہ دیکھو پانچوں کو چائے دینی ہے۔ یہ نہ ہو کسی کو بھول جاؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اَور پرانے ملازم چراغ تھے ان کو بھی آپ نے ساتھ کر دیا اور جب یہ دونوں چائے لے کر گئے تو پتا لگا کہ وہ جہاں باہر کمرے میں تھے وہاں نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ وہ تو سارے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس ان کی ملاقات کے لئے چلے گئے تھے۔ چنانچہ وہ چائے لے کر یہ لوگ وہاں پہنچ گئے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ چراغ تو پرانا ملازم تھا اس نے پہلے چائے کی پیالی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے سامنے رکھی کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بزرگی اور حفظ مراتب کا خیال تھا۔ اس لئے انہوں نے ان کے سامنے رکھی۔ لیکن فجّے صاحب نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ چراغ نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا اور کہنی ماری اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بیشک آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا نام نہیں لیا تھا لیکن آپ ان سب سے زیادہ معزز ہیں اس لئے چائے پہلے آپ کے سامنے ہی رکھنی چاہئے۔ لیکن وہ یہ بات کہے جاتا تھا کہ حضرت صاحب نے صرف پانچ کے نام لئے تھے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں گویا ان کا عقل کا معیار اس قدر تھا کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ لیکن وہ جب معمار کے ساتھ لگایا گیا تو معمار بن گئے۔‘‘ (مأخوذ از خطبات محمود جلد35 صفحہ290-289)

پس حضرت مصلح موعود اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جو لوگ نکمّے بیٹھے رہتے ہیں بعض دوسرے ممالک میں، غریب ملکوں میں بھی اور یہاں بھی آ کر بعض لوگ بیٹھے رہتے ہیں وہ اگر ذرا بھی توجہ کریں تو کوئی نہ کوئی ہنر اور کام سیکھ سکتے ہیں اور روپیہ کما سکتے ہیں بلکہ رفاہِ عامہ کے کاموں میں، خدمت خلق کے کاموں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہتے ہیں کہ یہاں ایک شخص تھے بعد میں وہ بہت مخلص احمدی ہو گئے اور حضرت صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا مگر احمدی ہونے سے قبل حضرت صاحب ان سے بیس سال تک ناراض رہے۔ وجہ یہ کہ حضرت صاحب کو ان کی ایک بات سے سخت انقباض ہو گیا اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک لڑکا مر گیا (فوت ہو گیا۔ ) حضرت صاحب اپنے بھائی کے ساتھ ان کے ہاں ماتم پرسی کے لئے گئے۔ ان میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور اس سے ان کے بہت دوستانہ تعلقات ہوتے تو اس سے بغلگیر ہو کر روتے اور چیخیں مارتے۔ اسی کے مطابق انہوں نے حضرت صاحب کے بڑے بھائی سے بغلگیر ہو کر روتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ نعوذباللہ۔ یہ سن کر حضرت صاحب کو ایسی نفرت ہو گئی کہ ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ بعد میں خدا تعالیٰ نے اس شخص کو توفیق دی اور وہ ان جہالتوں سے نکل آئے اور احمدیت قبول کر لی۔‘‘ (مأخوذ از تقدیرالٰہی۔ انوار العلوم جلد4 صفحہ 545-544)

حضرت مصلح موعود ہستی باری تعالیٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ’’حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ ایک دہریہ پڑھا کرتا تھا۔ یعنی ہستی باری تعالیٰ کا کیا ثبوت ہے اس کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ زلزلہ جو آیا تو اس کے منہ سے بے اختیار ’رام رام‘ نکل گیا۔ پہلے ہندو تھا۔ دہریہ ہو گیا تو میر صاحب نے جب اس سے پوچھا کہ تم تو خدا کے منکر ہو پھر تم نے رام رام کیوں کہا۔ کہنے لگا غلطی ہو گئی۔ یونہی منہ سے نکل گیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مگر اصل بات یہ ہے دہریے جہالت پر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والے علم پر۔ اس لئے مرتے وقت یا خوف کے وقت دہریہ کہتا ہے کہ ممکن ہے مَیں ہی غلطی پر ہوں۔ ورنہ اگر وہ علم پر ہوتا تو اس کے بجائے یہ ہوتا کہ مرتے وقت دہریہ دوسروں کو کہتا کہ خدا کے وہم کو چھوڑ دو کوئی خدا نہیں۔ مگر اس کے الٹ نظارے نظر آتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی ہستی کی یہ بہت زبردست دلیل ہے کہ ہر قوم میں یہ خیال پایا جاتا ہے۔‘‘ (مأخوذ از ہستی باری تعالیٰ۔ انوار العلوم جلد 6 صفحہ 286)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت پر آپ علیہ السلام کی دلی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس حالت اور اس کیفیت کا اندازہ اس نوٹ سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اپنی ایک پرائیویٹ نوٹ بک میں لکھا اور جسے مَیں نے نوٹ بک سے لے کر شائع کر دیا۔ وہ تحریر آپ نے دنیا کو دکھانے کے لئے نہ لکھی تھی کہ کوئی اس میں کسی قسم کا تکلّف اور بناوٹ خیال کر سکے۔ وہ ایک سرگوشی تھی اپنے ربّ کے ساتھ اور وہ ایک عاجزانہ پکار تھی اپنے اللہ کے حضور جو لکھنے والے کے قلم سے نکلی اور خدا تعالیٰ کے حضور پہنچی۔ آپ نے وہ تحریر نہ اس لئے لکھی تھی کہ وہ دنیا میں پہنچے اور نہ پہنچ سکتی تھی اگر میرے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے تحت نہ ڈال دیتا اور میں اسے شائع نہ کر دیتا۔ اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: اے خدا! میں تجھے کس طرح چھوڑ دوں جبکہ تمام دوست و غمخوار مجھے کوئی مددنہیں دے سکتے اُس وقت تو مجھے تسلی دیتا اور میری مدد کرتا ہے۔ یہ اس کا مفہوم ہے۔ (مأخوذ ازافتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1927ء۔ انوار العلوم جلد10صفحہ 60)

ہر احمدی کے اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ ہونا چاہئے۔ اس کی بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تلقین فرمائی ہے۔ اس بارے میں آپ کا اپنا نمونہ کیا تھا اور مخالفین سے بھی آپ کس طرح حسن سلوک فرمایا کرتے تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ہندوؤں میں سے ایک شخص شدید مخالف کی بیوی سخت بیمار ہو گئی۔ طبیب نے اس کے لئے جو دوائیں تجویز کیں ان میں مُشک بھی پڑتا تھا۔ جب کہیں اور سے اسے کستوری نہ ملی تو وہ شرمندہ اور نادم سا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا اور آ کر عرض کیا کہ اگر آپ کے پاس مُشک ہو تو عنایت فرمائیں۔ غالباً اسے ایک یا دو رَتّی مُشک کی ضرورت تھی مگر اس کا اپنا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مُشک کی شیشی بھر کر لے آئے اور فرمایا آپ کی بیوی کو بہت تکلیف ہے یہ سب لے جائیں۔ (مأخوذ از خطبات محمود جلد 15صفحہ124)

اشتعال انگیزی سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا تعلیم ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ طاعون طعن سے نکلا ہے اور طعن کا معنی نیزہ مارنا ہیں۔ پس وہی خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت آپ کے دشمنوں کے متعلق قہری جلوہ دکھایا وہی اب بھی موجود ہے اور اب بھی ضرور اپنی طاقتوں کا جلوہ دکھائے گا اور ہرگز خاموش نہ رہے گا۔ ہاں ! ہم خاموش رہیں گے اور جماعت کو نصیحت کریں گے کہ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ایک ایسی جماعت بھی دنیا میں ہو سکتی ہے جو تمام قسم کی اشتعال انگیزیوں کو دیکھ اور سن کر امن پسند رہتی ہے۔ (مأخوذ از حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات۔ انوار العلوم جلد 13صفحہ512-511)

یہ دعا کا قصہ پہلے بھی سنا چکا ہوں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام درد سے دعا کرتے تھے تو ایک تو بددعا نہیں دینی۔ دوسرے ہر فتنے کی صورت میں ہم نے امن پسند رہنا ہے۔ دعا میں خاص حالت پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رہنمائی فرمائی ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ دعا کے وقت حقیقی تضرع اس میں پیدا نہیں ہوتا تو وہ مصنوعی طور پر رونے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے نتیجہ میں حقیقی رقّت پیدا ہو جائے گی۔‘‘ (خطبات محمود جلد 15صفحہ166)

پھر دعا میں کیسی حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری بعض معاملات میں ناکامیاں اور دشمنوں میں اس طرح گھرے رہنا صرف اس لئے ہے کہ ہمارا ایک حصہ ایسا ہے جو دعا میں سستی کرتا ہے۔ (اور آج بھی یہ حقیقت ہے) اور بہت ایسے ہیں جو دعا کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ دعا کیا ہے؟ (انقلاب انقلاب کی باتیں تو ہم کرتے ہیں لیکن اس میں بہت کمزوری ہے۔ ) اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا موت قبول کرنے کا نام ہے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے جو منگے سو مر رہے جو مرے سو منگن جائے۔ یعنی کسی سے سوال کرنا یا مانگنا ایک موت ہے اور موت وارد کئے بغیر انسان مانگ نہیں سکتا۔ جب تک وہ اپنے اوپر ایک قسم کی موت واردنہیں کر لیتا وہ مانگ نہیں سکتا۔ پس دعا کا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے کیونکہ جو شخص جانتا ہے کہ مَیں یہ کام کر سکتا ہوں وہ کب مدد کے لئے کسی کو آواز دیتا ہے۔ کیا یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑے پہننے کے لئے محلّے والوں کو آوازیں دیتا پھرے کہ آؤ مجھے کپڑے پہناؤ یا تھالی دھونے کے لئے، (پلیٹ دھونے کے لئے) دوسروں سے کہتا پھرے کہ مجھے آکے پلیٹ دھلوا دو یا قلم اٹھانے کے لئے دوسرے کا محتاج بنتا ہے۔ انسان دوسروں سے اس وقت مدد کی درخواست کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ ورنہ جس کو یہ خیال ہو کہ میں خود کر سکتا ہوں وہ دوسروں سے مددنہیں مانگا کرتا۔ وہی شخص دوسروں سے مدد مانگتا ہے جو یہ سمجھے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی وہی شخص مانگ سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے سامنے مرا ہوا سمجھے اور اس کے آگے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا ظاہر کرے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان میرے رستے میں جب تک مر نہ جائے اس وقت تک دعا دعا نہ ہو گی کیونکہ پھر تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص قلم اٹھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہو دوسروں کو مدد کے لئے آوازیں دے۔ کیا اس کا ایسا کرنا ہنسی نہ ہو گا۔ جب ایک شخص جانتا ہو اس میں اتنی طاقت ہے کہ قلم اٹھا سکے تو اس کی مددنہیں کرے گا۔ اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں خود فلاں کام کر سکتا ہوں وہ اگر اس کے لئے دعا کرے تو اس کی دعا دراصل دعا نہیں ہوگی۔ دعا اسی کی دعا کہلانے کی مستحق ہو گی جو اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ کو بالکل ہیچ سمجھتا ہے۔ جو انسان یہ حالت پیدا کرے وہی خدا کے حضور کامیاب اور اسی کی دعائیں قابل قبول ہو سکتی ہیں۔‘‘ (مأخوذ از خطبات محمود جلد 9صفحہ104)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اندر اخلاق کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ ہمیں مقبول دعاؤں کی بھی توفیق دے اور اس کا حق ادا کرنے والا بنائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ اکتوبر 2015ء شہ سرخیاں

    افراد جماعت کو اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے۔ دینی علم رکھنے والے حالات حاضرہ سے بھی واقفیت رکھیں اور تاریخ سے بھی واقفیت رکھیں۔ خاص طور پر وہ جن کے سپرد تبلیغ کا کام ہے۔

    مربّیان ہیں، مبلغین ہیں ان کو چاہئے کہ خاص طور پر توجہ دیں۔ ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت کو علماء سوء اور غلط لیڈروں سے بچائے اور عوام الناس کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

    جماعت احمدیہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر ابتلا ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے سامان لے کر آتا ہے۔

    دنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتا نہیں لگتا۔ پس خاص طور پر نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ان کی دوستیاں، ان کا اٹھنا بیٹھنا ایسے لوگوں سے ہو جو اُن پر بد اثر نہ ڈالیں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو جائے کہ بجائے اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ سچائی پر قائم رہنے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں تو جہاں یہ بات ہماری اپنی تربیت کے لئے، اپنے ثواب پہنچانے کے لئے فائدہ مند ہو گی ہماری نسلوں کی تربیت کرنے والی بھی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی جماعت کی ترقی کا باعث بھی بنے گی۔

    یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ جماعت کو عطا فرمائے جو اخلاص و وفا میں بڑھنے والے ہوں اور دینی ترقی میں آگے قدم بڑھانے والے ہوں۔ جو لوگ نکمّے بیٹھے رہتے ہیں بعض دوسرے ممالک میں، غریب ملکوں میں بھی اور یہاں بھی آ کر بعض لوگ بیٹھے رہتے ہیں وہ اگر ذرا بھی توجہ کریں تو کوئی نہ کوئی ہُنر اور کام سیکھ سکتے ہیں اور روپیہ کما سکتے ہیں بلکہ  رفاہِ عامہ کے کاموں میں خدمت خلق کے کاموں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ایک ایسی جماعت بھی دنیا میں ہو سکتی ہے جو تمام قسم کی اشتعال انگیزیوں کو دیکھ اور سن کر امن پسند رہتی ہے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے واقعات یا آپ علیہ السلام کی بیان فرمودہ حکایات کا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر کے حوالہ سے تذکرہ اور ان واقعات و حکایات کی روشنی میں احباب جماعت کو اہم نصائح۔

    فرمودہ مورخہ 30؍اکتوبر 2015ء بمطابق 30؍اخاء 1394 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور