حضرت مسیح موعودؑ اور اسلام کی پُر امن تعلیم
خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ دنوں یہاں ایک اخباروں میں کالم لکھنے والے نے لکھا اور اسی طرح ایک آسٹریلین سیاستدان نے بھی کہا کہ اسلام کی تعلیم میں جو جہاد اور بعض دوسرے احکامات ہیں انہی کی وجہ سے مسلمان شدت پسند بنتے ہیں۔ اسلامی احکامات کے بارے میں گزشتہ دنوں یوکے (UK) کے بھی ایک حکومتی سیاستدان نے یہی کہا تھا کہ اسلام میں کچھ نہ کچھ تو شدت پسندی کے احکامات ہیں، سختی کرنے کے احکامات ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کا شدت پسندی کی طرف رجحان ہے۔ آجکل جو اسلام کے نام پر عراق اور شام میں شدت پسند گروہ نے کچھ علاقے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے اس نے مغربی ممالک کو بھی نہ صرف دھمکیاں دی ہیں بلکہ بعض جگہ ظالمانہ حملے کر کے معصوموں کو قتل بھی کیا ہے۔ اس کا میں گزشتہ خطبوں میں ذکر بھی کر چکا ہوں۔ اس چیز نے جہاں عوام کو خوفزدہ کیا ہے وہاں ان لوگوں کو جو بعض ملکوں کے لیڈر ہیں لا علمی کی وجہ سے یا اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے اسلام کے خلاف کہنے کا موقع بھی دیا ہے۔ کہنے اور لکھنے والے یہ بھی لکھتے ہیں کہتے بھی ہیں کہ ٹھیک ہے دوسرے مذاہب کی تعلیم میں بھی سختی ہے۔ بعض احکامات ایسے ہیں لیکن ان کے ماننے والے یا تو اس پر اب عمل نہیں کرتے یا اس میں حالات کے مطابق تبدیلیاں کر لی ہیں اور زمانے کی ضرورت کے مطابق اس تعلیم کو کر لیا ہے۔ اور اس بات پر ان کا زور ہے کہ لہٰذا اب قرآن کریم کے احکامات کو بھی اس زمانے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
بہرحال اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ان کے مطابق ان کی تعلیم اب خدا کی بھیجی ہوئی نہیں رہی بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی تعلیم رہ گئی ہے۔ اور یہ ہونا تھا کیونکہ ان تعلیموں کے قائم رہنے یا ان پر تاقیامت عمل کرنے والے پیدا ہونے کا خدا تعالیٰ کا وعدہ نہیں۔ لیکن قرآن کریم میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) یعنی اس ذکر یعنی قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ تو اس کی حفاظت کے پھر سامان بھی فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی مختلف موقعوں پر مختلف کتابوں میں تفسیر فرمائی ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ عادت ہے کہ جب ایک قوم کو کسی فعل سے منع کرتا ہے تو ضرور اس کی تقدیر میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے اس فعل کے ضرور مرتکب ہوں گے جیسا کہ اس نے توریت میں یہودیوں کو منع کیا تھا کہ تم توریت اور دوسری خدا کی کتابوں کی تحریف نہ کرنا۔ سو آخر ان میں سے بعض نے تحریف کی (اس کو بدلا) مگر قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم قرآن کریم کی تحریف نہ کرنا (اس کو نہ بدلنا) بلکہ یہ کہا گیا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10)۔ (ماخوذ از نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 419)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ (یہ آیت) ’’صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہو گی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 267)
پس وقتاً فوقتاً یہ لوگ قرآنی تعلیم پر اعتراض کر کے اس تعلیم کو مٹانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی تعلیم یا مٹ گئی ہے یا صرف کتاب کی حد تک رہ گئی ہے۔ یہ مختلف طریقے آجکل میسج (Message) بھیجنے کے یا ٹوِیٹ (Tweet) کرنے کے ہیں۔ ان میں واٹس اَیپ (WhatsApp) وغیرہ بھی ہے۔ گزشتہ دنوں اس پر ایک چھوٹی سی فلم چل رہی تھی جس میں دو لڑکے ایک کتاب میں سے جس کے باہر قرآن لکھا ہوا تھا لوگوں کو بعض آیات یا حصے پڑھ کر سنا رہے تھے کہ یہ کیسی تعلیم ہے اور سڑک پر مختلف لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھ رہے تھے، ان کا انٹرویو لے رہے تھے، ان کو بتاتے تھے۔ تو ہر ایک کو جب یہ پتا لگتا تھا کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے کیونکہ باہر لکھا ہوا تھاتو ہر ایک اسلام کی تعلیم کی برائیاں کر رہا تھا کہ دیکھو یہ ثابت ہو گیا کہ اسلامی تعلیم ہی ایسی ہے جس کی وجہ سے مسلمان ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ان لڑکوں نے اس کتاب کا کور (cover) اتار دیا اور دکھایا کہ یہ اسلام کی نہیں یہ بائبل کی تعلیم ہے کیونکہ یہ بائبل ہے جو ہم پڑھ رہے تھے۔ تو کسی نے اس پر کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا۔ اسلام کا نام آتا ہے تو فوراً منفی تبصرہ ہوتا ہے لیکن یہاں سارے بس ہنس کر چپ ہو گئے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں مرد بھی تھے۔ تو ایک عورت نے کہا کہ اچھا بڑی حیرانی کی بات ہے۔ میں نے تو کرسچین سکول میں تعلیم حاصل کی اور بائبل پڑھی ہے مجھے تو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ تو یہ تو ان کا حال ہے۔ اگر ایک مسلمان غلط حرکت کرتا ہے تو اسلام کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اگر کوئی دوسرے مذہب والا کرتا ہے تو کہتے ہیں بیچارا معذور ہے پاگل ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بعض مسلمان گروہوں کے غلط عمل نے اسلام کو بدنام کیا ہے لیکن اس پر قرآن کریم کی تعلیم کو نشانہ بنانا اور انتہا تک چلے جانا بھی اسلام کے خلاف دلوں کے بغض اور کینے کا اظہار ہے۔ اس کا ایک انتہائی اظہارتو آجکل امریکہ کے ایک صدارتی امیدوار کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولنا ہے۔
بہرحال یہ اسلام کے متعلق جو چاہے بولتے رہیں لیکن اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ نہ کسی مذہب کی تعلیم کر سکتی ہے اور نہ ہی ان کے اپنے بنائے ہوئے قانون کر سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حالات کے مطابق قانون بدل دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھی اپنے وعدے کے مطابق قرآن کریم کی حفاظت کے لئے ایک فرستادے کو بھیجا جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم سے ہمیں آگاہ فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اُس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیاتھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدۂ واثقہ کی رو سے کہ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جوآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) کا مصداق اور موعود ہے۔ وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 97۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جو اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) کا وعدہ دے کر قرآن اور اسلام کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہے مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچا لیا اور فتنے میں پڑنے نہ دیا۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اس سلسلے کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ95۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ یعنی آپ کی جماعت میں شامل ہوئے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق… قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 193۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرمایا کہ ’’قرآن کریم کی تائیدیں اور نصرتیں ہمارے شامل حال ہیں۔ یہ آج کسی اور مذہب کے پیرو کو نصیب نہیں‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 2 صفحہ 770، الحکم جلد 5 نمبر 25 مؤرخہ 10 جولائی 1901ء صفحہ 2)
پس یہ باتیں جہاں مخالفین اسلام کے اعتراضات کا شافی جواب ہیں وہاں ان کا یہ کہنا ہی کہ دوسرے مذاہب زمانے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال چکے ہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ مذہب مردہ ہو چکے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس پرشوکت کلام میں مسلمانوں کو بھی دعوت ہے کہ اس زمانہ میں اسلام پر میڈیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ سے جو حملے ہو رہے ہیں ان کا توڑ کرنے کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی عظمت سے ان مخالفین کا منہ بند کریں جو اسلام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں۔ جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، تلوار کے ذریعہ سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت میں وہ اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں واضح طور پر بتا دیا کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے اور تلوار کے جہاد کی اجازت بھی ان مشروط حالات کی وجہ سے ملی تھی جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں پیدا ہوئے تھے کہ دشمن اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ اسلام امن اور پیار کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے۔ یعنی قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا ہوا ہے۔ پس آج اس زمانے میں اس تعلیم کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے اور ہر احمدی کو اس تعلیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی اپنے احمدی ہونے کا بھی ہم حق ادا کر سکتے ہیں۔ آج ہم احمدیوں نے ہی مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو حقیقت سے آشکار کرنا ہے۔ جو لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اور ہم نے ان کو ان کی جہالت کا حال دکھانا ہے۔ اسلام کی تعلیم تو امن اور سلامتی کی تعلیم ہے۔ قرآن کریم کی روشنی میں ہی ہم نے یہ تعلیم دنیا کو دکھانی ہے۔ ان لوگوں کو بتانا ہے کہ تم جو بغیر علم کے کہہ دیتے ہو کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے اسی لئے مسلمان بھی شدت پسند بنتے ہیں یہ تمہاری لاعلمی اور جہالت ہے۔ مسلمانوں کو بھی بتانا ہو گا کہ آپس کے قتل و غارت اور فرقہ بندی سے تم اسلام کو بدنام کر رہے ہو۔ گو ہمارے پاس زیادہ وسائل تو نہیں ہیں لیکن جس حد تک ہم پریس میڈیا اور مختلف ذرائع سے یہ کام کر سکتے ہیں ہر ملک میں اور ہر شہر میں کرنے چاہئیں۔ اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی قریباً ہر جگہ اس طرف توجہ ہے لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ لگاتار اس بارے میں میڈیا کو استعمال کیا جاتا رہے۔ ان سے تعلق اور رابطہ رکھا جائے۔ ان کے ذریعہ سے عوام الناس کو بتایا جائے۔ اللہ کے فضل سے امریکہ میں بھی اس معاملے میں ان کا کافی تعلق اور رابطہ ہے۔ باقی ملکوں میں بھی اور یہاں بھی کچھ رابطے ہیں۔ جرمنی میں بھی ہیں۔ تو ان کو وسیع تر کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں برٹش پارلیمنٹ میں گلاسگو کی ایک ایم پی (MP) نے اسلام کی حقیقت کے بارے میں جماعت احمدیہ کے حوالے سے یہ بتا کر کہا کہ اسلام کی امن اور سلامتی کی تعلیم پر عمل کرنے والے احمدی مسلمان ہیں اور مَیں گلاسگو میں ان کے ایک پیس سمپوزیم میں شامل ہوئی تھی اور اس نے بڑی تعریف کی۔ اس پر وہیں بیٹھی ہوئی وزیر داخلہ، ہوم سیکرٹری نے بھی کہا کہ جو اسلام احمدی پیش کرتے ہیں وہ واقعی اس سے بالکل مختلف ہے جو اسلامی شدت پسند دکھاتے ہیں۔ اور حقیقت میں احمدی امن پسند شہری ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ احمدی کوئی نئی تعلیم پیش نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کی تعلیم پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک واقعہ ہو کر اگر خاموشی ہو گئی تو کچھ دیر کے بعد لوگ یہ کہہ کر بھول جائیں گے کہ ہاں جی برٹش پارلیمنٹ میں ایک سوال اٹھا تھا اور مسئلہ ختم ہو گیا۔ اس کو تو ہر وقت تازہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ پریس نے ایک دفعہ خبر دے دی اور ہم خاموش ہو گئے۔ لیکن شدّت پسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے یا نہیں بھی ہوتا تو ان کے حوالے سے اخبار میں شَہ سرخیاں دی جاتی ہیں۔ پھر اسلام مخالف لوگوں کو اسلام کے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں جب میں جاپان میں تھا تو وہاں بھی پڑھے لکھے طبقے کا یہ اظہار تھا۔ بلکہ ایک عیسائی پادری نے بھی کہا کہ اسلام کی تعلیم جو تم قرآن کریم کی روشنی میں بتا رہے ہو اس کو جاننے کی جاپانیوں کو بہت ضرورت ہے بلکہ دنیا کو ضرورت ہے۔ اس نے کہا لیکن اس کا فائدہ تبھی ہو گا کہ اب اس بات کو اس فنکشن تک محدودنہ کریں جس میں آپ بول رہے ہیں بلکہ جاپان میں مسلسل کوشش سے یہ تعلیم لوگوں کو بتائیں۔ پس اب انصاف پسند غیر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ خاموش نہ بیٹھ جاؤ بلکہ لگاتار دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتے رہو تبھی فائدہ ہو گا۔ اب یہ جاپان جماعت کا بھی کام ہے کہ جامع منصوبہ بندی کر کے اس بات کو تازہ رکھیں۔ اسی طرح یہاں اس ملک یوکے(UK) میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ادراک جس طرح ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہوا ہے اسے پھیلائیں۔ اس خوبصورت تعلیم کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ سب باتیں قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہمیں آپ نے بتائی ہیں اور آگے جماعت کے لٹریچر میں بھی بہت ساری جگہوں پہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صحیح تشریح اور تفسیر کے پہنچانے، اس کے معنوں کی صحیح تشریح کرنے کے لئے اور قرآن کریم کی حفاظت کے لئے آپ علیہ السلام کو بھیجا جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات اور تقاریر میں اس کاخوب حق ادا کیا ہے۔
پس اس زمانے میں قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے کام لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کام لیا ہے۔ اور یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ ہر طبقے اور ہر مزاج تک اس پیغام کو پہنچائیں اور ہر جگہ اس کام کو سرانجام دیتے ہوئے آپ علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کریں۔ اس وقت مَیں بعض مثالیں پیش کرتا ہوں جو اسلام کی امن کی تعلیم کی خوبصورتی ظاہر کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ: 257) کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ پھر فرمایا: وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْا َرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (یونس: 100) اور اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہی مشیئت کو نازل کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ پس جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا تو کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْا َرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پھر ہر ایک زمین پر جو موجود ہے وہ ایمان لے آتا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ تمہارے کہنے سے بھی یہ نہیں ہو گا۔
پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور یہی ایک تعلیم ہے جو بڑے واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں جبر نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا۔ اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تدبّر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبراً پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ کیا اُس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ: 257) یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں۔ کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو۔ ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزر گئی اور دین اسلام کے مٹادینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الٰہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں۔ ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے‘‘۔ (اگر جبر میں ہو تو دل سے سچائی نہیں دکھائی جا سکتی، وفا کا تعلق نہیں ظاہر کیا جا سکتا) فرمایا ’’لیکن ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 11-12)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں‘‘۔ یعنی تین قسم کی لڑائیاں ہیں جب اسلام میں سختی ہوئی یا سختی کرنے کی اجازت ہے۔ ’’دفاعی طور پر یعنی بہ بطریق حفاظت خودمختیاری۔ (اگر تم پر کوئی حملہ کرے تو اس وقت اپنی حفاظت اور دفاع کرنے کے لئے ہتھیار اٹھایا جا سکتاہے)۔ ’’بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون‘‘۔ (اس وقت جب کسی کو سزا دینی ہو اور دوسروں نے حملہ کیا ہے خون بہایا ہے تو بہرحال سزا کے طور پر چاہے وہ جنگ ہے یا عام حالات ہیں اس وقت ہتھیار استعمال کیا گیا ہے یا سزا دی گئی ہے یا قتل کیا گیا ہے) اور نمبر تین’’بطور آزادی قائم کرنے کے۔ یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 12)
اب وہ دشمن لوگ جو اس بات پر قتل کرتے تھے کہ تم مسلمان کیوں ہو گئے؟ تم نے مذہب بدل لیا اس لئے مسلمان ہونے کی وجہ سے تمہیں قتل کرتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اس لئے ان کے خلاف بھی تلوار اٹھائی جا سکتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ان تین وجوہات کے علاوہ کوئی وجہ نہیں جہاں تلوار اٹھائی جائے یا سختی کی جائے۔ فرمایا کہ
’’قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو۔ اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصدنہ تھا۔‘‘ (ستارہ قیصرہ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 120-121)
فرمایا: ’’جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں‘‘۔ (اس کا اعتراف نہیں کرتے) ’’اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے‘‘۔ (جانور ہیں )۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 167 حاشیہ)
پس قرآن کریم کا جبر سے دین میں شامل نہ کرنے کا یہ اعلان معترضین کے اعتراض کے ردّ کے لئے کافی ہے اور جو عقلمند ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو غلط طریق پر بدنام کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں حتی کہ عیسائی پادری نے بھی یہ کہا کہ اسلام کی یہ پرامن تعلیم جو ہے اس کا بہت زیادہ پرچار کرو۔ اور جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا پرچار کرو تو اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات پوری ہو رہی ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ جب ان کو پتا لگتا ہے کہ اصل تعلیم کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں بھی آپ علیہ السلام نے توجہ دلائی کہ ’’دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو‘‘۔ دین کی خوبیوں کو پیش کرو اور وہ تبھی پیش ہو سکتی ہیں جب خود علم ہو۔ اپنے علم کو بڑھاؤ۔ اور دوسرا فرمایا ’’اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو‘‘۔ اپنے نیک نمونے قائم کرو تاکہ ہمیں دیکھ کے لوگ ہماری طرف آئیں۔ پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور پھر اپنے نیک نمونے قائم کر کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں اور یہی علم اور عمل ہے جس سے اس زمانے میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آتے ہوئے قرآن کریم اور اسلام کی حفاظت کے کام میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اگر دنیا میں حقیقی امن قائم کرنا ہے تو قرآن کریم کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔
قرآن کریم نے ایک جگہ اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ وَقَالُوْا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا (القصص: 58) اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ہدایت کی جو تجھ پر اتری ہے اتباع کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں۔ پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض اس لئے نہیں ہے کہ ظلم اور جبر کی تعلیم ہے بلکہ قبول نہ کرنے والے اسلام کی تعلیم پر جو اعتراض کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ہم تیری تعلیم پر عمل کریں جو امن والی تعلیم ہے جو سلامتی والی تعلیم ہے تو ارد گرد کی قومیں ہمیں تباہ کر دیں۔ پس اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تعلیم ہے۔ امن اور سلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے۔ امن اور محبت کا پیغام دینے کی تعلیم ہے۔ اگر بعض مسلمان گروہ عمل نہیں کرتے تو ان کی بدقسمتی ہے۔ قرآن بیشک اصل الفاظ میں ان کے پاس موجود ہے لیکن عمل نہیں ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی اور قرآن کریم کے احکامات کی جو حفاظت کرنی تھی یا کرنی چاہئے وہ یہ لوگ نہیں کر رہے۔ اس کی حفاظت تو مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت نے ہی کرنی ہے۔ دنیا کو ہم نے اپنے علم اور عمل سے بتانا ہے کہ دنیا کو اپنی سلامتی اور امن کا خطرہ اسلام سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو اسلام کے خلاف ہیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں بھی فرمایا ہے جو میں نے پڑھا کہ یہ لوگ جو اسلام کو بدنام کرتے ہیں وہ جھوٹ اور بہتان سے کام لیتے ہیں۔ اور ان کا یہ جھوٹ اور بہتان اصل میں دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ لوگ اپنے مفادات کے لئے، دنیا میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی برتری حاصل کرنے کے لئے فساد برپا کئے ہوئے ہیں۔ مسلمان ممالک کے فساد میں بھی بعض بڑے ممالک کا حصہ ہے۔ اور اب تو مختلف مغربی میڈیا پر خود ان کے اپنے لوگ ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ شدت پسند تنظیمیں ہماری حکومتوں کی پیداوار ہیں جو ہم نے عراق کی جنگ کے بعد یا شام کے حالات کے بعد پیدا کی ہیں۔ اس بات سے میں مسلمانوں اور ان لوگوں کو جو اسلام کے نام پر مسلمان کہلاتے ہوئے شدت پسندی کا اور اسلام کی غلط تعلیم کے اظہار کا مظاہرہ کر رہے ہیں بری الذمہ نہیں کرتا لیکن اس آگ کو بھڑکانے میں بڑی طاقتوں کا بہرحال حصہ ہے۔ انصاف سے کام نہ لینے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کسی بڑی طاقت کی طرف سے ایک بیان آ گیا اور دنیا نے تسلیم کر لیا بلکہ ہر تجزیہ نگار کا میڈیا کے ذریعہ ہر جگہ پہنچنا یا اپنے خیالات پہنچانا اب آسان ہو گیا ہے۔ ابھی بھی ایک طرف تو شدت پسند لوگوں کو ختم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں، ان پر بم گرائے جاتے ہیں اور دوسری طرف ان کو اسلحہ پہنچانے والوں اور غلط ذریعہ سے مال پہنچانے والوں یا مالی ٹرانزیکشن (Transaction) کرنے والوں کی طرف سے ان لوگوں نے باوجود علم ہونے کے کہ کس طرح یہ سب کچھ ہو رہا ہے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ پس دنیا کے امن اور سلامتی کو برباد کرنے والے صرف یہ مسلمان گروہ ہی نہیں ہیں جو اسلامی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ظلم و فساد کر رہے ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہیں جو اپنے مفادات کو اولیت دیتی ہیں اور دنیا کا امن ان کے نزدیک ضمنی اور ثانوی چیز ہے۔
ایک حقیقی مسلمان تو یہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ سلام ہے وہ اپنی مخلوق کے لئے سلامتی چاہتا ہے اور حقیقی مسلمانوں میں یقینا احمدی ہی ہیں جو اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو سلامتی دینے اور دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لئے کتنے احکامات دئیے ہیں، کتنی زیادہ رہنمائی فرمائی ہے۔
خدا تعالیٰ ایک جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۔ فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (الزخرف90-89: )۔ اور جب اس نے کہا کہ اے میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس تو ان سے درگزر کر اور اتنا کہہ دے کہ سلام۔ (تم پر سلامتی ہو) پس عنقریب وہ جان جائیں گے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔
پس یہ ہے قرآن کریم کی تعلیم کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں تو سننے والے انکار کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے اللہ! میں تو ان کو امن اور سلامتی کی طرف بلا رہا ہوں اور یہ انکار کر رہے ہیں۔ یہ صرف انکار ہی نہیں کر رہے، یہ ایسی قوم ہیں جو نہ صرف ایمان نہیں لاتی سلامتی کے پیغام کو نہیں سمجھتی بلکہ الٹا مجھے امن نہیں دیتی۔ ہم مسلمانوں کی سلامتی کو بھی برباد کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاصْفَحْ عَنْہُمْ۔ کہ ان سے درگزر کر۔ ان کو سمجھ نہیں ہے، یہ عقل نہیں رکھتے۔ بیوقوف لوگ ہیں۔ غصہ میں آ جاتے ہیں۔ ان کی یہ باتیں سن کر کہہ دے کہ مَیں تو تمہارے لئے سلامتی لایا ہوں اور میرا پیغام سلامتی کا ہے اور یہی پیغام میں پہنچاتا رہوں گا۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا کہ اسلام مخالفین کی تمام زیادتیاں دیکھ کر اور سَہہ کر صرف یہ جواب دے کہ میں تمہیں سلامتی کا پیغام ہی دیتا ہوں اور دیتا رہوں گا تا کہ دنیا میں امن قائم ہو۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ حکم ہے تو پھر ہر مسلمان کے لئے یہ حکم کتنا ضروری ہے۔ آج بھی جب یہ حالات ہیں تو ہمارا یہی فرض ہے کہ اسی طرح پیغام پہنچائیں۔ ہمارا کام امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانا ہے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اسلام کی طرف سے کبھی تلوار اٹھائی گئی تو وہ بھی حفاظت کے لئے اور امن قائم کرنے کے لئے اٹھائی گئی، کبھی ظلم کے لئے نہیں اٹھائی گئی۔ پس یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قرآن کریم نے کبھی بھی اور کہیں بھی یہ حکم دیا ہو کہ جو تمہاری بات نہیں مانتا اس کے خلاف تلوار اٹھاؤ اور اسے تہہ تیغ کر دو۔ اگر کوئی مسلمان گروہ یا مسلمان سربراہ اپنے عمل سے اس کی نفی کر رہا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں امن قائم کر رہے ہیں تو وہ حقیقی اسلام نہیں ہے۔ وہ ان کے اپنے ذاتی مفادات ہیں جن کا وہ اظہار کر رہے ہیں یا بڑی طاقتوں کے مفادات ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو آلہ کار بنایا ہوا ہے۔ اور پھر اسلام پر ہی الزام کہ اس کی تعلیم ایسی ہے۔
ایک حقیقی مسلمان اور عبد رحمان کی تو پہچان ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (الفرقان: 64) اور جب جاہل لوگ ان سے لڑتے ہیں تو وہ بجائے لڑنے کے کہتے ہیں ہم تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پس یہ قرآنی تعلیم ہے اور یہی تعلیم ہے جو ہر سطح پر امن اور سلامتی قائم کرنے اور اس کے لئے کوشش کرنے کا حکم دیتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اسلام ہے اور صرف اسلام ہے جو دنیا میں امن وسلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اور یہ قرآن کریم ہے اور صرف قرآن کریم ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے کی اور شدت پسندی کے خاتمے کی تعلیم دیتا ہے۔ پس اس تعلیم کا ادراک حاصل کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تعلیم پر عمل کریں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی حفاظت کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی ہے اور یہ اس کا فضل ہے۔ قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح ہی اس کی معنوی حفاظت بھی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور ہمیں آپ علیہ السلام کو ماننے کی توفیق دے کر اس کام کے لئے ہمیں بھی چن لیا، ہمیں بھی توفیق دی۔ پس یہ خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانے کا کام سرانجام دینا ہر احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہر احمدی لڑکے لڑکی، مرد عورت کو کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا اس وقت آگ کے گڑھے کے جس دہانے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی ایسے حالات ہو سکتے ہیں کہ وہ اس میں گر جائے۔ ایسے وقت میں دنیا کو اس آگ میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرنا اور امن اور سلامتی دینے کا کام کرنا ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور احمدی ہی کر سکتے ہیں۔ پس اس کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی چیز اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا ہے، اس کے آگے جھکنا ہے، اس کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ اس کا تقویٰ اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ تبھی ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بھی اور دنیا کو بھی امن اور سلامتی دے سکتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لئے اور ان حالات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ:
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار
(درثمین صفحہ 154 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پس اس ذوالعجائب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے پیار میں بڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا داروں کو بھی عقل دے کہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچیں۔
نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ حاضر اور دو غائب پڑھاؤں گا۔ جنازہ حاضر مکرم عنایت اللہ احمدی صاحب کا ہے۔ 9؍دسمبر کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ بڑا لمبا عرصہ مبلغ سلسلہ رہے۔ ان کے والد کا نام اللہ بخش صاحب تھا جو قادیان کے اللہ بخش سٹیم پریس کے مالک تھے۔ عنایت اللہ احمدی صاحب کی پیدائش جنوری 1920ء کی ہے۔ پانچ سال کی عمر میں آپ قادیان آ گئے۔ تعلیم الاسلام سکول قادیان میں داخل ہوئے۔ 1936ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے ہی میٹرک پاس کیا۔ پھر 1939ء میں مشرقی افریقہ میں ملٹری میں کلرک بھرتی ہوئے اور جولائی 1946ء کو فارغ ہوئے۔ 30؍مئی 1944ء کو چوبیس سال کی عمر میں آپ نے وقف کیا اور جولائی 1946ء سے مشرقی افریقہ میں بطور مبلغ کام شروع کیا اور دسمبر 1979ء تک بعمر ساٹھ سال ریٹائر ہوئے۔ 1946ء سے دسمبر 73ء تک 23 سال تین مہینے آپ نے بیرون پاکستان بطور مبلغ خدمت کی توفیق پائی۔ چار سال چار ماہ کینیا میں، اٹھارہ سال گیارہ مہینے تنزانیہ میں بطور مبلغ کام کیا۔ اس کے بعد ریٹائرمنٹ تک پاکستان میں سیالکوٹ اور جھنگ کے اضلاع میں بطور مربی اور مربی ضلع کام کی توفیق ملی۔ ان کی اولاد میں چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے حبیب اللہ احمدی صاحب ہیں جن کو بطور وقف خدمت کی توفیق ملی۔ جب تنزانیہ میں تبلیغی کاموں میں وسعت پیدا ہوئی تو 1947ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم کی مدد کے لئے جو مبلغین بھیجے تھے ان میں چوہدری عنایت اللہ صاحب بھی شامل تھے۔ وہاں مختلف جگہوں پر انہوں نے خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح جب شیخ مبارک احمد صاحب قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ کر رہے تھے تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ان کو جو مددگار مہیا کئے ان میں بھی چوہدری عنایت اللہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب قمر کو شامل کیا۔ اس طرح آپ کو قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ میں کام کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ دارالسلام میں تین سال آپ کو مشنری انچارج کے طور پر خدمت کی توفیق بھی ملی۔
ایک دفعہ آپ اپنی ایک جماعت پنگالے (Pangalay) کی مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے سائیکل پر جا رہے تھے تو احمدی احباب نے بتایا کہ غیر احمدی امام اور دیگر لوگوں کا منصوبہ ہے اور امام نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے کہ مسجد کو جلانا ہے اور وہاں بلوہ کرنا ہے اس لئے آپ پنگالے نہ جائیں۔ اس پر آپ نے بڑا دلیرانہ جواب دیا کہ میں ضرور جاؤں گا اور بہرحال سفر جاری رکھا۔ جیسا کہ میں نے کہا سائیکل پر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ پنگالے کا چیف ملا اور اس نے آپ کو سائیکل پر دیکھا تو اپنی کار روکی اور کار میں بیٹھنے کی دعوت دی تو آپ نے کہا کہ نہیں میں سائیکل پر جا رہا ہوں، ٹھیک ہوں۔ بہرحال چیف کے اصرار پر آپ اس کی کار میں بیٹھ گئے اور چیف گاؤں میں لے کر آیا اور راستے میں آپ نے چیف کو بتایا کہ جو گاؤں کی صورتحال کی خبر ان کو پہنچی ہے۔ اس پر چیف نے تمام لوگوں کو بلایا اور کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اور مہمانوں سے بہرحال برا سلوک نہیں ہو گا اور میں ایسا نہیں کرنے دوں گا اور جو بھی ان کی مدد ہووے گی میں کروں گا اور امام کو بھی کافی سرزنش کی۔ بلکہ یہ بھی کہا کہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ چنانچہ جب نماز کا وقت آیا تو چیف نے ان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ علاقے کے لوگوں پہ بھی ان کا بہت اثر تھا اور بڑے تعلقات وسیع تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل کو بھی جماعت اور خلافت سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کی توفیق دے۔
دوسرا جنازہ غائب ہے جو مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانہ مرحوم درویش قادیان کا ہے۔ 87سال کی عمر میں 7؍دسمبر کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانہ مرحوم اخبار بدر کے درویش نمبر میں شائع شدہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ خاکسار کے گاؤں کے ایک دوست مکرم محمد احمد صاحب کالا افغانہ قادیان آ گئے تھے۔ میں ڈیرہ بابا نانک میں امتحان دے کر ملازمت کی تلاش میں تھا کہ مکرم محمد احمد صاحب نے پیغام بھجوایا کہ میں چونگی کی ملازمت چھوڑ کر دفتر الفضل میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ تم میری جگہ چونگی میں لگ جاؤ۔ یہ اس وقت احمدی نہیں تھے۔ 1946ء کی بات ہے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار اپنے گاؤں سے قادیان آ گیا اور چونگی میں ملازمت شروع کر دی۔ جس وقت میں قادیان ملازمت کے لئے آیا اس وقت مجھے احمدیت کے تعلق سے زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ کہتے ہیں میں نے ایک غیر مسلم دوست کو کہا کہ مجھے نماز کے لئے کوئی ایسی مسجد بتاؤ جو قادیانیوں کی نہ ہو۔ میں ان کی مسجد میں نہیں جا سکتا۔ اس غیر مسلم نے مجھے مسجد اقصیٰ کا راستہ بتا دیا۔ کہتے ہیں مَیں وہاں گیا۔ دیکھا کہ بہت بڑی مسجد ہے کوئی نماز پڑھ رہا ہے کوئی تلاوت کر رہا ہے، خوبصورت منارہ ہے۔ میں دل ہی دل میں خوش ہوا کہ ہماری مسجد تو بہت اچھی ہے، اب میں قادیانیوں کی مسجد میں نہیں جاؤں گا۔ تو ایک روز پتا چلا کہ یہ احمدیوں کی مسجد ہے۔ کہتے ہیں ایک دن احراریوں کی مسجد میں بھی گیا لیکن وہاں کی حالت دیکھ کر عہد کر لیا کہ اب ہمیشہ میں مسجد اقصیٰ میں ہی نماز ادا کروں گا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کا ایک احمدی دوست سے تعارف ہوا۔ انہوں نے ان کو جماعتی معلومات دیں اور کتاب ’’تبلیغ ہدایت‘‘ اور دیگر رسائل دئیے جس کے نتیجہ میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی۔ 1947ء میں ملک کی تقسیم ہوئی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر خدام دور دور سے حفاظت مرکز کے لئے آنے لگے۔ اس موقع پر کہتے ہیں کہ خاکسار نے بھی اپنا نام حفاظت مرکز کے لئے پیش کر دیا جس کی منظوری ہوئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے درویشی میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ کہتے ہیں بیعت کرنے کے بعد میرے عزیز و اقارب اور خاص طور پر والدین نے بہت مخالفت کی اور پھر تقسیم ملک کے موقع پر بھی مجھے کہا کہ ہمارے ساتھ آ جاؤ اور میرے احمدی ہونے پر بڑا افسوس کرتے رہے۔ لیکن میرے انکار پر بڑا رو رو کر میرے والد اور والدہ نے کوشش کی لیکن بہرحال میں نہیں گیا۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ بلکہ کہتے ہیں کہ میری والدہ کی میرے اس غم میں بینائی جاتی رہی۔ 1952ء میں ان کی شادی حیدرآباد کے ظہور الدین صاحب کی بیٹی اخترالنساء صاحبہ سے ہوئی۔ ان سے ان کے دو بیٹے محمود احمد صاحب اور شعیب احمد صاحب ہیں۔ شعیب صاحب واقف زندگی ہیں اور اس وقت قادیان میں ناظر بیت المال خرچ ہیں۔ اسی طرح ان کے ایک داماد قاری نواب صاحب واقف زندگی ہیں۔ انہوں نے دیہاتی مبلغ کے طور پر مہاراشٹر، کرناٹک میں خدمت کی توفیق پائی۔ تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا۔ کسی بورڈ یا تختی پر لکھتے تھے کہ امام مہدی علیہ السلام آ گئے ہیں تا کہ سب لوگ پڑھ لیں اور پھر تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور اسی طرح مختلف دفاتر میں بھی ان کو کام کی توفیق ملی۔ مینیجر اخبار البدر بھی رہے اور اسی طرح لنگر خانے میں اور دوسری جگہوں پر بھی کام کیا۔ ان کے بھی محکموں کے ساتھ افسران کے ساتھ بڑے وسیع تعلقات تھے اور ان کا بڑا عزت و احترام کرتے تھے۔ باوجود پیرانہ سالی کے ہمیشہ مسجد میں آ کر نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے حتی کہ وفات والے دن بھی نماز ظہر اور عصرمسجد میں ادا کی اور مسجد مبارک کا جو پرانا حصہ تھا اس میں کھڑے ہو کے خاص طور پر نمازیں پڑھتے تھے۔ صاحب رؤیاو کشوف تھے۔ دعا گو شخص تھے، بہت ملنسار تھے اور اکثر جو نئے واقفین زندگی نوجوان ہیں وہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر کافی فیض پایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی دعاؤں اور نیکیوں کا وارث بنائے۔
تیسرا جنازہ مکرمہ سیدہ قانتہ بیگم صاحبہ کا ہے۔ اڑیسہ کی ہیں۔ ہمارے واقف زندگی ڈاکٹر طارق احمد صاحب جو اس وقت نور ہسپتال قادیان کے انچارج ہیں ان کی والدہ تھیں۔ 16؍اکتوبر کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بڑی قناعت پسند، سادہ مزاج، صابرہ اور شاکرہ، غریب پرور، خوددار، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور اچھی تربیت کا انہوں نے بہت خیال رکھا۔ ان کے خاوند سرکاری ملازم تھے اور ان کی محدود تنخواہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے غریب اور ضرورتمند عزیزوں کی بہت خدمت کرتے تھے اور اس سلسلے میں مرحومہ قانتہ صاحبہ کا بھی ان سے بہت تعاون تھا۔ کبھی انہوں نے اعتراض نہیں کیا بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رہیں۔
اس زمانہ میں اسلام پر میڈیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ سے جو حملے ہو رہے ہیں ان کا توڑ کرنے کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی عظمت سے ان مخالفین کا منہ بند کریں جو اسلام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں۔ جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، تلوار کے ذریعہ سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت میں وہ اسلام مخالف طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ آج ہم احمدیوں نے ہی مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو حقیقت سے آشکار کرنا ہے۔ ان لوگوں کو بتانا ہے کہ تم جو بغیر علم کے کہہ دیتے ہو کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے اسی لئے مسلمان بھی شدّت پسند بنتے ہیں، یہ تمہاری لاعلمی اور جہالت ہے۔ مسلمانوں کو بھی بتانا ہو گا کہ آپس کے قتل و غارت اور فرقہ بندی سے تم اسلام کو بدنام کر رہے ہو۔ اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے۔ دنیا کو ہم نے اپنے علم اور عمل سے بتانا ہے کہ دنیا کو اپنی سلامتی اور امن کا خطرہ اسلام سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو اسلام کے خلاف ہیں۔ آیات قرآنیہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے اسلام کی پُر امن تعلیم کی خوبصورتی کو ظاہر کرنے والی تعلیمات کا تذکرہ۔
مسلمان ممالک کے فساد میں بھی بعض بڑے ممالک کا حصہ ہے۔ اور اب تو مختلف مغربی میڈیا پر خود ان کے اپنے لوگ ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ شدت پسند تنظیمیں ہماری حکومتوں کی پیداوار ہیں۔ پس دنیا کے امن اور سلامتی کو برباد کرنے والے صرف یہ مسلمان گروہ ہی نہیں ہیں جو اسلامی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ظلم و فساد کر رہے ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہیں جو اپنے مفادات کو اولیت دیتی ہیں اور دنیا کا امن ان کے نزدیک ضمنی اور ثانوی چیز ہے۔
یہ اسلام ہے اور صرف اسلام ہے جو دنیا میں امن وسلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اور یہ قرآن کریم ہے اور صرف قرآن کریم ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے کی اور شدت پسندی کے خاتمے کی تعلیم دیتا ہے۔ پس اس تعلیم کا ادراک حاصل کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تعلیم پر عمل کریں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی حفاظت کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی ہے اور یہ اس کا فضل ہے۔ پس یہ خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانے کا کام سرانجام دینا ہر احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہر احمدی لڑکے لڑکی، مرد عورت کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور سب سے بڑی چیز اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا ہے، اس کے آگے جھکنا ہے، اس کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ اس کا تقویٰ اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ تبھی ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بھی اور دنیا کو بھی امن اور سلامتی دے سکتے ہیں۔
مکرم عنایت اللہ احمدی صاحب سابق مبلغ سلسلہ افریقہ کی نماز جنازہ حاضر۔ مکرم مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانہ (درویش قادیان) اور مکرمہ سیدہ قانتہ بیگم صاحبہ آف اڑیسہ (انڈیا) کی نماز جنازہ غائب۔ مرحومین کا ذکر خیر۔
فرمودہ مورخہ 11؍دسمبر 2015ء بمطابق 11؍فتح 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔