تحریرات حضرت مسیح موعودؑ: آنحضرتﷺ کی اعلیٰ و ارفع شان اور بلند مقام
خطبہ جمعہ 18؍ دسمبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا اُس وقت سے لے کر آج تک مخالفین احمدیت یا نام نہاد علماء آپ پر بہت سے اعتراضات کرتے چلے آ رہے ہیں اور الزامات لگاتے چلے آ رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو ان کی عادت ہے کرتے رہیں گے اور اس وجہ سے عامّۃ المسلمین کو گمراہ کر رہے ہیں یا گمراہ کرنے کی کوشش کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑا الزام جو یہ لوگ مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور انہیں انگیخت کرنے کے لئے لگاتے ہیں یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان علماء کی اپنے مقاصد کے حاصل کرنے کے لئے جھوٹ اور ظلم کی یہ انتہا ہے کہ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض ایسے الفاظ کہے ہیں جن سے آپؐ کی ہتک ہوتی ہے۔ اور یہی الزام یہ لوگ آج جہاں جہاں ان کو موقع ملتا ہے جہاں ان کی طاقت ہے افرادِ جماعت احمدیہ پر بھی لگاتے ہیں کہ احمدی نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں۔ جن سعید فطرت لوگوں نے جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں، جماعت کا لٹریچر پڑھا یا آپ کے ارشادات سنے انہیں فوری طور پر یہ بات سمجھ آ گئی کہ ان نام نہاد اور فتنہ گر علماء نے صرف فتنہ پیدا کرنے کے لئے یہ الزامات لگائے ہیں، یہ باتیں کی ہیں۔ اِس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کروں گا جو آپ کی مختلف کتب میں موجود ہیں۔ اس وقت نہ ہی اس حوالے سے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کیا سمجھا آپ کے سب اقتباسات پیش کئے جا سکتے ہیں، نہ ہی آپ کی تمام کتب کے حوالے بیان کئے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس وقت مَیں اُس وقت سے کہ جب آپ نے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی اور اپنی وفات کے وقت تک یا اس سے کچھ پہلے جو آپ نے آخری کتاب تصنیف فرمائی اس کے حوالے پیش کروں گا جن میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے متعلق بیان فرمایا۔ براہین احمدیہ کے ہر چار حصے 1880ء سے لے کر 1884ء تک آپ نے تصنیف فرمائے جو روحانی خزائن کی جلدنمبر ایک میں جمع کر دئیے گئے ہیں۔ اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 558-557 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
یعنی اس بات پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قرآن شریف کی عظمت پر یقین قائم ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
پھر براہین احمدیہ میں ہی آپ فرماتے ہیں: ’’اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ594 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پھر 1886ء میں اپنی تصنیف سرمہ چشمِ آریہ میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’غرض وحی الٰہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے‘‘۔ (یعنی جو دل کی صفائی ہے، انبیاء کی جو بھی اندرونی حالت ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ اور جس نبی پر یہ اترتا ہے ہر ایک کے رتبہ کے مطابق نظر آتا ہے۔ فرمایا کہ) ’’اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا وصدق و صفا وتوکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلیٰ و اصفا تھے اس لئے خدائے جلّ شانہٗ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا (سب سے حصہ زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پایا) اور وہ سینہ اور دل جو تمام اوّلین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 71 حاشیہ)
پھر 1891ء میں اپنی تصنیف توضیح مرام میں وحی الٰہی کے انتہائی درجہ کی تجلی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے (یعنی وحی الٰہی کی اعلیٰ درجہ کی تجلّی کی جو کیفیت ہے وہ ایک ہی انسان کو ملی ہے) جو انسان کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے۔ اور دائرہ استعدادت بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے (جتنی بھی انسانی طاقتیں تھیں، استعدادیں تھی وہ کمال کو پہنچی ہیں) اور وہ درحقیقت پیدائش الٰہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بھی انسانی پیدائش کی ہے اس کی جو انتہا ہے اگر لکیر کھینچی جائے تو اس کا آخری سرا ہے) جو ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا ہے۔ (جو انتہائی اونچے مقام پر پہنچا ہوا ہے۔ فرمایا کہ) حکمت الٰہی کے ہاتھ نے ادنیٰ سے ادنیٰ خلقت سے اور اسفل سے اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلی درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا۔ یعنی کمالات تامہ کا مظہر۔ سو جیسا کہ فطرت کے رو سے اس نبی کا اعلیٰ اور ارفع مقام تھا ایسا ہی خارجی طور پر بھی اعلیٰ و ارفع مرتبہ وحی کا اس کو عطا ہوا اور اعلیٰ و ارفع مقام محبت کا ملا‘‘ فرمایا کہ ’’یہ وہ مقام عالی ہے کہ مَیں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اور مسیح (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) دونوں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے‘‘۔ (توضیح مرام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 64)
پھر 1892-93ء کی تصنیف ’آئینہ کمالات اسلام‘ ہے جو روحانی خزائن کی جلد پانچ میں ہے۔ اس کے دو حصّے ہیں۔ اردو اور عربی حصہ ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قوی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو) اور پھر انسان کامل برطبق آیت (یعنی اس آیت کے مطابق کہ) اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا (النساء: 59) اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امانتیں اس کے اہل کو ادا کرو اور سب سے زیادہ ذمہ داریاں جو اللہ تعالیٰ خود ہی امانتیں دیتا ہے اور ان امانتوں کی ادائیگی کا سب سے زیادہ حق اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اس کے حق، حقوق اللہ ادا کئے جائیں۔ اور یہ امانتیں جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر کے اس کو ادا کی گئیں، واپس کی گئیں اس میں سب سے بڑا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ فرمایا کہ اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے) ’’یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کو یہ امانتیں واپس دینا کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں فانی ہو کر، اس میں فنا ہو کر اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے وقف کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کے پھیلانے کے لئے دین کی اشاعت کے لئے اس کی عبادت کے لئے اور اس کے حکم کے مطابق حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے وقف کر دے۔ فرمایا)’’جیسا کہ ہم مضمون حقیقت اسلام میں بیان کر چکے ہیں اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (الانعام: 163۔ 164) وَاَنَّ ھَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۔ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ۔ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام: 154) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران: 32) فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلّٰہِ (آل عمران: 21) وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(المومن: 67)‘‘
حضرت مسیح موعود ان آیات کی جو مختلف سورتوں کی ہیں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ سارا ترجمہ آپ نے نہیں کیا۔ کچھ تھوڑا سا ترجمہ فرمایا ہے) ’’یعنی ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالَموں کا ربّ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اوّل المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتدا سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہو۔‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔) (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 162-160)
پھر 1894ء میں اپنی تصنیف ’نور الحق حصہ اول‘ میں آپ فرماتے ہیں۔ یہ روحانی خزائن کی جلد 8 ہے۔ عربی کی یہ عبارت ہے کہ:
’’طُوْبیٰ لِلَّذِیْ قَامَ لِاِعْلَآءِ کَلِمَۃِ الدِّیْنِ وَنَھَضَ یَسْتَقْرِی طُرُقَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ النَّصِیْرِ الْمُعِیْن۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ رُسُلِہٖ۔ مبارک وہ جو دین کی مدد کے لئے کھڑا ہو گیا اور ربّانی رضا مندی کی راہوں کو ڈھونڈھتا ہوا اٹھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمام تعریفیں خدا کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے اور درود اور سلام اس کے نبیوں کے سردار پر۔ (نور الحق۔ الحصۃ الاولیٰ روحانی خزائن جلد8 صفحہ2)
پھر روحانی خزائن کی جلد 8میں ہی ’اتمام الحجۃ‘ ہے۔ یہ بھی 1894ء کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائِ دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحيٰ اور ذکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اُس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ۔‘‘ (اتمام الحجۃ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ308)
پھر 1895ء کی اپنی تصنیف آریہ دھرم میں آپ فرماتے ہیں:
’’ہمارے مذہبی مخالف (یعنی اسلام کے مخالف) صرف بے اصل روایات اور بے بنیاد قصوں پر بھروسہ کر کے جو ہماری کتب مسلّمہ اور مقبولہ کی رُو سے ہرگز ثابت نہیں ہیں بلکہ منافقوں کے مفتریات ہیں (منافقوں کے جھوٹ ہیں) ہمارا دل دکھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہتک کرتے ہیں اور گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں جن کا ہماری معتبر کتابوں میں نام و نشان نہیں۔ اس سے زیادہ ہمارے دل دکھانے کا اور کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد افتراؤں کو پیش کر کے ہمارے اس سید و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر (نعوذ باللہ) زنا اور بدکاری کا الزام لگانا چاہتے ہیں جس کو ہم اپنی پوری تحقیق کی رو سے سید المعصومین اور ان تمام پاکوں کا سردار سمجھتے ہیں جو عورت کے پیٹ سے نکلے اور اس کو خاتم الانبیاء جانتے ہیں کیونکہ اس پر تمام نبوتیں اور تمام پاکیزگیاں اور تمام کمالات ختم ہو گئے۔‘‘ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 84)
پھر 1897ء کی آپ کی تصنیف ہے ’سراج منیر‘۔ اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمردنبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مُرسَلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘۔ (سراج منیر۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 82)
پھر 1898ء کی آپ کی تصنیف ہے ’کتاب البریہ‘۔ اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نشان اور معجزات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو آنجناب کے ہاتھ سے یا آپ کے قول یا آپ کے فعل یا آپ کی دعا سے ظہور میں آئے اور ایسے معجزات شمار کے رو سے قریب تین ہزار کے ہیں۔ اور دوسرے وہ معجزات ہیں جو آنجناب کی امّت کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور ایسے نشانوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور ایسی کوئی صدی بھی نہیں گذری جس میں ایسے نشان ظہور میں نہ آئے ہوں۔ چنانچہ اس زمانہ میں اس عاجز کے ذریعہ سے خداتعالیٰ یہ نشان دکھلا رہا ہے۔ ان تمام نشانوں سے جن کا سلسلہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوتا۔ ہم یقیناجانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ دوسرے نبیوں کی اُمّتیں ایک تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں اور صرف گذشتہ قصے اور کہانیاں ان کے پاس ہیں مگر یہ اُمّت ہمیشہ خداتعالیٰ سے تازہ بتازہ نشان پاتی ہے۔ لہٰذا اس اُمّت میں اکثر عارف ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو خداتعالیٰ پر اس درجہ کا یقین رکھتے ہیں کہ گویا اس کو دیکھتے ہیں۔ اور دوسری قوموں کو خداتعالیٰ کی نسبت یہ یقین نصیب نہیں۔ لہٰذا ہماری روح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ہے۔ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کچھ نہیں دیکھا۔ اگر قرآن شریف گواہی نہ دیتا تو ہمارے لئے اور ہر ایک محقق کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو سچا نبی سمجھتا کیونکہ جب کسی مذہب میں صرف قصے اور کہانیاں رہ جاتی ہیں تو اس مذہب کے بانی یا مقتدا کی سچائی صرف ان قصوں پر نظر کر کے تحقیقی طور پر ثابت نہیں ہو سکتی۔ وجہ یہ کہ صدہا برس کے گذشتہ قصے کذب کابھی احتمال رکھتے ہیں بلکہ زیادہ تر احتمال یہی ہوتا ہے کیونکہ دنیا میں جھوٹ زیادہ ہے۔ پھر کیونکر دلی یقین سے ان قصوں کو واقعات صحیحہ مان لیا جائے۔ لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات صرف قصوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خود ان نشانوں کو پالیتے ہیں۔ لہٰذا معائنہ اور مشاہدہ کی برکت سے ہم حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ سو اس کامل اور مقدس نبی کی کس قدر شان بزرگ ہے جس کی نبوت ہمیشہ طالبوں کو تازہ ثبوت دکھلاتی رہتی ہے۔ اور ہم متواتر نشانوں کی برکت سے اس کمال سے مراتب عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ گویا خداتعالیٰ کو ہم آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ پس مذہب اسے کہتے ہیں اور سچا نبی اس کا نام ہے جس کی سچائی کی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے۔ محض قصوں پر جن میں ہزاروں طرح کی کمی بیشی کا امکان ہے بھروسہ کرلینا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ دنیا میں صدہا لوگ خدا بنائے گئے۔ اور صدہا پرانے افسانوں کے ذریعہ سے کراما تی کر کے مانے جاتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو۔ سو وہ شخص ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ خداتعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے۔ دیکھو آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آ رہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ۔ یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ 154تا 157حاشیہ)
پھر سن 1900ء میں اپنے رسالہ ’اربعین نمبر ایک‘ میں جو روحانی خزائن کی جلد 17 میں ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک اُمّت کے سچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے۔ بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ (اربعین نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ346)
پھر 1902ء کی اپنی تصنیف ’کشتی نوح‘ میں آپ فرماتے ہیں:
’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے‘‘۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ14-13)
پھر 1902ء کی ہی اپنی ایک تصنیف ’نسیم دعوت‘ میں آپ فرماتے ہیں:
’’اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اس کے تصرف سے نہ اس کی خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا‘‘ (یعنی خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو اوپر بیان کی گئی ہیں اس زندہ خدا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پایا جس میں یہ صفات ہیں۔ ) ’’جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجودنہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا اور بے شمار احسان والا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں‘‘۔ (نسیم دعوت۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ363)
اور یہ خدا ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ملا۔
پھر 1903ء کی اپنی تصنیف ’لیکچر سیالکوٹ‘ میں آپ فرماتے ہیں۔ :
’’غرض یہ تمام بگاڑ کہ ان مذاہب میں پیدا ہوگئے جن میں سے بعض ذکر کے بھی قابل نہیں اور جو انسانی پاکیزگی کے بھی مخالف ہیں یہ تمام علامتیں ضرورتِ اسلام کے لئے تھیں‘‘۔ (پرانے مذہبوں میں جو بگاڑ پیدا ہوئے وہ اس لئے تھے کہ اسلام کے آنے کی ضرورت تھی) فرمایا کہ ’’ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کوکھو چکے تھے۔ پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جب کہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے۔ اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو (جانوروں کی طرح جیسی قوم تھی ان کو) انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا (جانوروں کو انسان بنایا) اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار وبر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تأخّر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے اور چونکہ آپ صفات الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دونام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتدا سے تمام دنیا کے لئے ہے‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ207-206)
پھر 1905ء کی اپنی تصنیف ’براہین احمدیہ‘ جلد پنجم میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ہزار ہزار شکر اس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدادانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی۔ اور ہزارہادروداس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے۔ اور ہزارہا رحمتیں نبی کریمؐ کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اِس باغ کی آب پاشی کی‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ25)
پھر براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ہی آپ فرماتے ہیں:
’’نوح میں وہی حسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جَلّ شانُہٗ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ (حضرت نوح کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا اس وجہ سے کہ وہ نبی تھے۔ فرمایا) پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا۔ پھر سب کے بعد سید الانبیاء وخیرالوریٰ مولٰنا و سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے: دَنیٰ فَتَدَلّیٰ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ (النجم: 10-9)۔ یعنی وہ نبی جناب الٰہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا۔ اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا۔ یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور اس طرح اس کا وجود واقع ہوا۔ … اس حسن کو ناپاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ آپ کے حسن کو ناپاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا) جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ (الاعراف: 199) یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تُو انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ221-220)
پھر 1907ء کی آپ کی تصنیف ’حقیقۃ الوحی‘ ہے۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ:
’’پس مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدانے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریّتِ شیطان ہے‘‘۔ (یہ کہتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا مقام رکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ میں آخر میں آیا اور میں نبی ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریّت شیطان ہے۔ ایسے لوگوں کو جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو باہر سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ ذریّت شیطان ہے۔ ) ’’کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ119-118)
پھر ’حقیقۃ الوحی‘ میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اب اس تمام بیان سے ہماری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔ چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اس طرح پر کہ خود اس کے دل میں محبت الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الٰہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22ص68-67)
لیکن یہ ملتا انہی کو ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں۔ پھر ’حقیقۃ الوحی‘ میں ہی آپ فرماتے ہیں:
’’سو مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا۔ اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔ اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّیٰ اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی خود فرماتا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ (آل عمران: 32) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ65-64)
پھر 1908ء کی اپنی تصنیف ’چشمہ معرفت‘ میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کانام ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 57) ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کاذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خودنہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ و ہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقیناسمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہم کلا م ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے:
محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا۔ وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹا یا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو۔‘‘ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 301تا 303)
پھر ’چشمہ معرفت‘ میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اب سوچنا چاہئے کہ کیا یہ عزت، کیا یہ شوکت، کیا یہ اقبال، کیا یہ جلال، کیا یہ ہزاروں نشان آسمانی، کیا یہ ہزاروں برکات ربّانی جھوٹے کو بھی مل سکتی ہیں۔ ہمیں بڑا فخر ہے کہ جس نبی علیہ السلام کا ہم نے دامن پکڑا ہے خدا کا اس پر بڑا ہی فضل ہے۔ وہ خدا تو نہیں مگر اس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اس کا مذہب جو ہمیں ملا ہے خدا کی طاقتوں کا آئینہ ہے۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو اس زمانہ میں اس بات کا سمجھنا محال تھاکہ نبوت کیا چیز ہے اور کیا معجزات بھی ممکنات میں سے ہیں اور کیا وہ قانون قدرت میں داخل ہیں۔ اس عقدے کو اُسی نبی کے دائمی فیض نے حل کیا اور اسی کے طفیل سے اب ہم دوسری قوموں کی طرح صرف قصہ گو نہیں ہیں بلکہ خدا کا نو ر اور خدا کی آسمانی نصرت ہمارے شامل حال ہے۔ ہم کیا چیز ہیں جو اس شکر کو ادا کر سکیں کہ وہ خدا جو دوسروں پر مخفی ہے اور وہ پوشیدہ طاقت جو دوسروں سے نہاں در نہاں ہے۔ وہ ذوالجلال خدا محض اس نبی کریم کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر ہوگیا۔‘‘ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 381)
پس ان علماء کو آپ پر یہ اعتراض ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی اور عشق کی وجہ سے کلام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیوں کلام کیا اور مخفی اور پوشیدہ طاقت عطا فرما کر اپنے قرب سے نوازا۔ طاقت کے ذریعہ سے اپنے قرب سے نوازا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا جماعت احمدیہ نہیں بلکہ یہ نام نہاد علماء اس الزام کے نیچے آتے ہیں کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض جاری نہیں ہے۔ اور نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں اور صفات محدود ہو گئی ہیں۔ پس اگر الزام لگتا ہے تو ان لوگوں پہ لگتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں اب بھی کام کر رہی ہیں۔ پھر ’چشمہ معرفت‘ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور آپ کے جاری فیض کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’پھر جب ہمارے بزرگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے تو ایک انقلاب عظیم دنیا میں آیا اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ جزیرۂ عرب جو بجزبت پرستی کے اور کچھ بھی نہیں جانتا تھا ایک سمندر کی طرح خدا کی توحید سے بھر گیا۔ علاوہ اس کے یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان اور معجزات ملے وہ صرف اس زمانہ تک محدودنہ تھے بلکہ قیامت تک ان کا سلسلہ جاری ہے۔ اور پہلے زمانوں میں جو کوئی نبی ہوتا تھا وہ کسی گذشتہ نبی کی امّت نہیں کہلاتا تھا گو اس کے دین کی نصرت کرتا تھا اور اس کو سچا جانتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی امّت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الٰہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ اُمّتی کہلاتا ہے، نہ کوئی مستقل نبی۔‘‘ (پس اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے لئے امّتی نبی ہونے کا اعلان فرمایا۔ پھر فرماتے ہیں کہ) ’’اور رجوع خلائق اور قبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج کم سے کم بیس کروڑ ہر طبقہ کے مسلمان آپ کی غلامی میں کمربستہ کھڑے ہیں‘‘ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کی تعداد بتا رہے ہیں جو آپ کے زمانے میں تھی) ’’اور جب سے خدا نے آپ کو پیدا کیا ہے بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو ایک دنیا کو فتح کرنے والے تھے آپ کے قدموں پر ادنیٰ غلاموں کی طرح گرے رہے ہیں اور اس وقت کے اسلامی بادشاہ بھی ذلیل چاکروں کی طرح آنجناب کی خدمت میں اپنے تئیں سمجھتے ہیں اور نام لینے سے تخت سے نیچے اتر آتے ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 381-380)
پس یہ مقام آپ بیان فرما رہے ہیں اور یہ جو آپ پر الزام ہے کہ آپ نعوذ باللہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ تو آپ فرما رہے ہیں کہ صرف احمدی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمان جو ہیں وہ آپ کی غلامی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پس یہ مقام و مرتبہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا اور دنیا کو بتایا اور اپنے ماننے والوں کو اس کا ادراک عطا فرمایا۔ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے نہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور فضیلت اور ارفع مقام کی گہرائی کو ہم کبھی نہ جان سکتے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شروع میں کچھ اور کہتے تھے اور بعد میں اپنی سوچ بدل لی اور نعوذ باللہ ذاتی مفادات حاصل کرنے لگ گئے۔ یہ سب تحریرات جو میں نے 1880ء سے لے کر 1908ء تک جو آپ کی وفات کا سال ہے پیش کی ہیں ان تحریرات میں کہیں بھی ایک جگہ بھی ایسا جھول نہیں ہے کوئی بھی ایسا فقرہ نہیں ہے جو ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ ہر جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو پہلے سے بڑھ کر آپ نے بیان فرمایا ہے۔ اپنے آپ کو اگر کہیں نبی کہا بھی ہے تو آپؐ کی غلامی میں۔ اللہ تعالیٰ ان مفاد پرستوں کے چنگل سے اُمّت مسلمہ کو بچائے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں اور یہی ایک طریقہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جو اُمّتِ مسلمہ کی ساکھ کو دوبارہ قائم کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب و ارشادات پڑھنے اور انہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں اپنے تک پہنچنے کا صحیح ادراک بھی عطا فرمائے اور توفیق بھی عطا فرمائے۔
مخالفین احمدیت یا نام نہاد علماء حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کی جماعت پر سب سے بڑا الزام جو مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور انہیں انگیخت کرنے کے لئے لگاتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑا سمجھتے ہیں اور یہ کہ نعوذ باللہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بعض ایسے الفاظ کہے ہیں جن سے آپؐ کی ہتک ہوتی ہے۔
سعید فطرت لوگوں نے جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں، جماعت کا لٹریچر پڑھا یا آپ کے ارشادات سنے انہیں فوری طور پر یہ بات سمجھ آ گئی کہ ان نام نہاد اور فتنہ گر علماء نے صرف فتنہ پیدا کرنے کے لئے یہ الزامات لگائے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی تصنیف سے لے کر آخری تصنیف تک متعدد کتب میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اعلیٰ و ارفع شان اور بلند مقام سے متعلق غیر معمولی جذب و تاثیر رکھنے والی پُر معارف تحریرات کا انتخاب۔
اللہ تعالیٰ ان مفاد پرستوں کے چنگل سے اُمّت مسلمہ کو بچائے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں اور یہی ایک طریقہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جو اُمّتِ مسلمہ کی ساکھ کو دوبارہ قائم کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب و ارشادات پڑھنے اور انہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں اپنے تک پہنچنے کا صحیح ادراک بھی عطا فرمائے اور توفیق بھی عطا فرمائے۔
فرمودہ مورخہ 18؍دسمبر 2015ء بمطابق 18؍فتح 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔