سال ۲۰۱۶ء اور ہماری ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ یکم جنوری 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور یہ جمعۃ المبارک کے بابرکت دن سے شروع ہو رہا ہے۔ حسب روایت نئے سال کے شروع ہونے پر ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ مجھے بھی نئے سال کے مبارکباد کے پیغام احباب جماعت کی طرف سے موصول ہو رہے ہیں۔ آپ بھی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہوں گے۔ مغرب میں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں نئے سال کی رات، ساری رات ہاہُو، شراب نوشی ہلّڑبازی اور پٹاخے اور پھلجڑیاں جسے فائر ورکس (Fireworks) کہتے ہیں، سے نئے سال کا آغازکیا جاتا ہے بلکہ اب مسلمان ممالک میں بھی نئے سال کا اسی طرح استقبال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کل دبئی میں بھی اسی طرح کے فائرورکس کی خبریں آ رہی تھیں۔ جہاں یہ سب تماشے دکھا رہے تھے، وہیں اس کے ساتھ ہی ایک 63منزلہ عمارت کو لگی ہوئی آگ کے نظارے بھی دکھائے جا رہے تھے جو راکھ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔ لیکن ٹی وی پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس عمارت میں یہ آگ لگی ہے تو لگی رہے۔ تباہی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ ہم تو اس جگہ کے سامنے اس کے قریب ہی اپنے پروگرام کے مطابق پھلجڑیاں چھوڑیں گے اور تماشے کریں گے۔
ویسے تو اِس وقت اکثر مسلمان ملکوں کی حالت بری ہے لیکن بہرحال یہ ایک اظہار ہے۔ ان ملکوں سے دنیاداری کے اظہار ہو رہے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے۔ اگر آگ وہاں نہ بھی لگی ہوتی تو اس حالت کا یہ تقاضا تھا کہ مسلمان امیر ملک یہ اعلان کرتے کہ ہم ان فضول چیزوں میں پیسہ برباد کرنے کی بجائے جو بہت سارے مسلمان متاثرین ہیں ان کی مدد کریں گے لیکن یہاں تو اپنی تعلیم بھول کر ان کا یہ حال ہے کہ کچھ دن پہلے دبئی سے ہی یہ بھی خبر آ رہی تھی کہ ان کا جو سب سے بڑا ہوٹل ہے اس میں دنیا کا مہنگا ترین کرسمس ٹری (Christmas Tree) لگایا گیا ہے جس کی مالیت گیارہ ملین ڈالر کی تھی۔ تو یہ تو اب امیر مسلمان ملکوں کی ترجیحات ہو چکی ہیں۔ لیکن احمدیوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی رات عبادت میں گزار دی یا صبح جلدی جاگ کر نفل پڑھ کر نئے سال کے پہلے دن کا آغاز کیا۔ بہت سی جگہوں پر باجماعت تہجد بھی پڑھی گئی لیکن اس سب کے باوجود ہم ان مسلمانوں کی نظر میں غیر مسلم ہیں اور یہ ہلّڑ بازی کرنے والے، رقموں کا ضیاع کرنے والے، غیر مذاہب کی رسومات کو بڑے اہتمام سے منانے والے یہ لوگ مسلمان ہیں۔ بہرحال ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور ہمیں کسی کی سند کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر ہم کسی سند کے خواہشمند ہیں تو وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مسلمان بن کر سند لینے کی ہے اور اس کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم نے سال کے پہلے دن انفرادی یا اجتماعی تہجد پڑھ لی یا صدقہ دے دیا یا نیکی کی کچھ اور باتیں کر لیں اور اس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا حق دار بنا دیا۔ بیشک یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہو سکتی ہے لیکن تب جب اس میں استقلال بھی پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ تو مستقل نیکیاں اپنے بندے سے چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ مستقل اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو۔ نیکیاں بجا لانے والا ہو۔ نمازوں اور تہجد کے ساتھ دلوں میں ایک پاک انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے تب خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ کسی قسم کی ایسی نیکی جو صرف ایک دن یا دو دن کے لئے ہو وہ نیکی نہیں ہے۔
پس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کس قسم کے عمل اور رویے ہمیں اپنانے ہیں یا اپنانے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائیں۔ اس کے لئے مَیں نے آج زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی بعض نصائح کو لیا ہے جو آپ نے مختلف وقتوں میں اپنی جماعت کو کی ہیں تا کہ مستقل مزاجی اور ایک تسلسل کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ یہی باتیں ہیں جو صرف سال کے پہلے دن ہی نہیں بلکہ سال کے بارہ مہینوں اور 365دنوں کو بابرکت کریں گی اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اب دنیا کی حالت کودیکھو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور یا اب دنیامیں مسلمان موجود ہیں۔ کسی سے کہا جاوے کہ کیا تُو مسلمان ہے؟ تو کہتاہے الحمدللہ۔ جس کاکلمہ پڑھتا ہے اُس کی زندگی کا اصول تو خدا کے لئے تھا مگر یہ دنیا کے لئے جیتا‘‘۔ (کہتے تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہیں لیکن فرمایا کہ اللہ کے بجائے دنیا کے لئے جیتا ہے) ’’اور دنیا ہی کے لئے مرتا ہے۔ اس وقت تک کہ غرغرہ شروع ہوجاوے (موت آ جائے) دنیا ہی اس کو مقصود، محبوب اور مطلوب رہتی ہے۔ پھر کیونکر کہہ سکتا ہے کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں‘‘۔
فرمایا کہ: ’’یہ بڑی غورطلب بات ہے اس کو سرسری نہ سمجھو۔ مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرو مطمئن نہ ہو۔ یہ صرف چھلکا ہی چھلکا ہے اگر بدوں اتباع مسلمان کہلاتے ہو‘‘۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتے، آپ کے اُسوہ پر نہیں چلتے، قرآن کریم کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے) فرمایا کہ ’’نام اور چھلکے پر خوش ہونا دانشمند کاکام نہیں ہے‘‘۔ (پس اگر یہ اتباع نہیں کر رہے تو پھر تو چھلکا ہی ہے) فرمایا کہ ’’کسی یہودی کو ایک مسلمان نے کہا کہ تُو مسلمان ہوجا۔ اس نے کہا تُو صرف نام ہی پر خوش نہ ہوجا۔ (یہودی کہنے لگا کہ) مَیں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا اور شام سے پہلے ہی اسے دفن کر دیا‘‘۔ (اب خالد کا مطلب یہ ہے لمبا رہنے والا۔ ہمیشہ رہنے والا۔ لیکن اس نام سے تو اس کو زندگی نہیں مل گئی۔ اس کی زندگی تو ایک دن بھی نہ رہی) فرمایا کہ ’’پس حقیقت کوطلب کرو۔ نرے ناموں پر راضی نہ ہوجاؤ۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسان عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمَّتی کہلا کرکافروں کی سی زندگی بسر کرے۔ تم اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھاؤ۔ وہی حالت پیدا کرو اور دیکھو اگر وہی حالت نہیں ہے تو تم طاغوت کے پیَرو ہو‘‘۔ (شیطان کے پیچھے چل رہے ہو۔) ’’غرض یہ بات اب بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہونی چاہئے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو اور خدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا اور یہ امر پیدا نہیں ہوتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور متابعت نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو تا کہ تم خدا کے محبوب بنو‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 187-188، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
اسلام دنیا کی نعمتوں سے منع نہیں فرماتا بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تلقین فرماتا ہے۔ اس بارے میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے۔ یہ بزدلوں کا کام ہے۔ مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتاہے اور دنیا اس کا مال وجاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیاجاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتی ہے، نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر‘‘۔
فرمایا کہ: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً (البقرۃ: 202) اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے۔ لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کو، جو آخرت میں حسنات کا موجب ہوجاوے‘‘۔ (ایسی دنیا کو پہلے رکھا ہے، مقدم کیا ہے کہ اس کی حسنات حاصل کرو جو دنیا آخرت کی حسنات کا موجب بنے) ’’اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حَسناتُ الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آ گیا جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عار اور شرم کاباعث ہو۔ ایسی دنیا بے شک حسنۃ لآخرۃ کا موجب ہوگی‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 91-92، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پس فرمایا کہ ایسی دنیا تلاش کرو جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ جس سے ہم جنسوں میں کسی شرم اور عار کا باعث نہ بن جاؤ تو پھر تمہاری ایسی دنیا جو ہے وہ آخرت کے لئے حسنات کا موجب ہے اور ایسی دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے۔
پھر فرمایا کہ ’’سمجھنا چاہئے کہ جہنم کیا چیز ہے؟ ایک جہنم تو وہ ہے جس کا مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے۔ دوسرے یہ زندگی بھی اگر خدا تعالیٰ کے لئے نہ ہو تو جہنم ہی ہے۔‘‘ (اگر اس میں حسنات نہیں ہیں تو پھر یہ دنیا بھی جہنم بن جاتی ہے۔) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے اور آرام دینے کے لئے متولّی نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ ’’یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہری دولت یا حکومت، مال و عزت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان، سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دمِ نقد بہشت ہی ہوتا ہے۔‘‘(یعنی یہ دنیا میں بہشتی بن جاتا ہے۔) ’’ہرگز نہیں۔ وہ اطمینان اور وہ تسلی اور وہ تسکین جو بہشت کی انعامات میں سے ہیں ان باتوں سے نہیں ملتی۔ وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے جس کے لئے انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیھما السلام کی یہی وصیت تھی کہ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ لذات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں‘‘۔ (صرف دنیا کی لذتیں تو ایک حرص پیدا کرتی ہیں جس سے پیاسے کی پیاس بیماری کی طرح بھڑکتی ہے اور اُسے بڑھا دیتی ہیں ) فرمایا کہ ’’استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بے جا آرزوؤں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اسی جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں و پیچاں رکھتی ہے‘‘۔ فرمایا ’’اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے‘‘(یعنی احمدیوں کی نظر سے) یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسا دیوانہ اور ازخودرفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے۔‘‘ (یعنی دوری پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ختم ہو جائے۔)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ سے یہ ثابت ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے ساری صفتیں سزاوار ہیں جو ربّ العالمین ہے۔ یعنی ہر عالم میں، نطفہ میں، مضغہ وغیرہ سارے عالموں میں، غرض ہر عالم میں۔ پھر رحمن ہے پھر رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے۔ اب اِیَّاکَ نَعْبُدُ جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت صفات کا پر تَو انسان کو اپنے اندر لینا چاہئے‘‘۔ (یہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہیں ان کو اپنے اندر بھی اختیار کرنا چاہئے) فرمایا کہ ’’کمال عبد انسان کا یہی ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَ خْلَاقِ اللّٰہِ یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے‘‘ (ان صفات کو اپنائے) ’’اور جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جاوے تھکے نہ ہارے۔ اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت الٰہی کی طرف اسے لے جاتا ہے‘‘۔ (یہ حالتیں، یہ صفات پیدا ہوں گی تو پھر عبادت الٰہی کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور عبادت الٰہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے) ’’اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْ مَرُوْنَ کی ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 132-133، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
اس بارے میں فرماتے ہوئے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اس لئے ہمیشہ اپنی موت کو سامنے رکھو۔ تبھی اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل بھی ہو سکتا ہے۔ تبھی انسان ان صفات کو بھی اپنا سکتا ہے فرمایا کہ:
’’کسی کو کیا معلوم ہے کہ ظہر کے بعد عصر کے وقت تک زندہ رہے۔ بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ یکدفعہ ہی دورانِ خون بند ہو کر جان نکل جاتی ہے۔ بعض دفعہ چنگے بھلے آدمی مر جاتے ہیں‘‘۔ (ایک واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ) ’’وزیر محمد حسن خان صاحب ہوا خوری کر کے آئے تھے اور خوشی خوشی زینے پر چڑھنے لگے۔ ایک دو زینے چڑھے ہوں گے کہ چکّر آیا، بیٹھ گئے۔ نوکر نے کہا کہ مَیں سہارا دوں۔ کہا نہیں۔ پھر دو تین زینے چڑھے پھر چکّر آیا اور اسی چکر کے ساتھ جان نکل گئی‘‘۔ ایسا ہی (ایک اور شخص کا ذکر فرمایا) ’’غلام محی الدین کونسل کشمیر کا ممبر یکدفعہ ہی مر گیا‘‘۔ فرمایا ’’غرض موت کے آ جانے کا ہم کو کوئی وقت معلوم نہیں ہے کہ کس وقت آجاوے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اس سے بے فکر نہ ہوں۔ پس دین کی غم خواری ایک بڑی چیز ہے جو سَکرات الموت میں سرخرو رکھتی ہے۔ قرآن شریف میں آیا ہے۔ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ (الحج: 22) ساعت سے مراد قیامت بھی ہو گی ہم کو اس سے انکار نہیں مگر اس میں سکرات الموت ہی مراد ہے کیونکہ انقطاعِ تام کا وقت ہوتا ہے۔ انسان اپنے محبوبات اور مرغوبات سے یکدفعہ الگ ہوتا ہے اور ایک عجیب قسم کا زلزلہ اس پر طاری ہوتا ہے۔ گویا اندر ہی اندر وہ ایک شکنجہ میں ہوتا ہے‘‘ (جب موت کی ایسی حالت ہوتی ہے۔) ’’اس لئے انسان کی تمام تر سعادت یہی ہے کہ وہ موت کا خیال رکھے‘‘۔ (جب موت کا وقت قریب ہوتا ہے، نزع کی حالت میں ہوتا ہے یا ویسے ہی حالت طاری ہوتی ہے تو اصل چیز فرمایا یہی ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے اس کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور فرمایا کہ سعادت یہی ہے کہ وہ موت کا خیال رکھے) ’’اور دنیا اور اس کی چیزیں اس کی ایسی محبوبات نہ ہوں جو اس آخری ساعت میں علیحدگی کے وقت اس کی تکالیف کا موجب ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 146-147، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
اور جب یہ یاد ہو گا تو پھر انسان نیکیاں بجا لانے کی کوشش کرے گا۔ پھر بلاوجہ کے تماشوں میں نہ پیسہ ضائع کرے گا نہ وقت ضائع کرے گا۔ نہ بے جا خواہشات کی تکمیل کے لئے ان چیزوں کا ضیاع کرے گا۔
پھر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:
’’پس بے خوف ہو کر مت رہو۔ استغفار اور دعاؤں میں لگ جاؤ اور ایک پاک تبدیلی پیدا کرو۔ اب وہ غفلت کا وقت نہیں رہا۔ انسان کو نفس جھوٹی تسلی دیتا ہے کہ تیری عمر لمبی ہو گی۔ موت کو قریب سمجھو۔ خدا کا وجود برحق ہے۔ جو ظلم کی راہ سے خدا کے حقوق کسی دوسرے کو دیتا ہے وہ ذلت کی موت دیکھے گا‘‘۔
فرمایا: ’’اب جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں تین گروہ کا ذکر ہے ان تین کا ہی مزہ چکھا دے گا۔ اس میں جو آخر تھے وہ مقدم ہوگئے یعنی ضالّین۔ (یعنی کہ ضالّین جو سورۃ فاتحہ میں آخر میں آتا ہے لیکن یہاں مسلمانوں کی مثال دیتے ہوئے آپ فرما رہے ہیں کہ وہ پہلے ہو گئے اور اس بارے میں مثال یہ فرما رہے ہیں کہ) ’’اسلام وہ تھا کہ ایک شخص مرتد ہو جاتا تھا تو قیامت برپا ہو جاتی تھی مگر اب (آپ کے زمانے میں ) بیس لاکھ عیسائی ہو چکے ہیں (اسلام چھوڑ کے) اور خودناپاک ہو کر (اسلام چھوڑنے کی وجہ سے خودناپاک ہوئے ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنی ناپاکی کا احساس ہو) پاک وجود کو گالیاں دی جاتی ہیں‘‘۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولا جاتا ہے۔ ) پھر فرمایا’’پھر مغضوب کا نمونہ طاعون سے دکھایا جا رہا ہے‘‘۔ (یہ جو طاعون ہے یہ بھی آفت ہے۔ یہ ان لوگوں پر پڑتی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو۔ آجکل اس زمانے میں بھی طوفان ہیں، زلزلے ہیں اور اَور مختلف قسم کی آفتیں ہیں۔ یہ سب اگر انسان سوچے تو اللہ تعالیٰ کے غضب نازل ہو رہے ہیں اور یہی چیزیں پھر انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آتی ہیں، احساس دلاتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے اور اس غضب کی حالت سے بچے۔)
فرمایا کہ ’’اس کے بعد اَنْعَمْتَ عَلْیَھِمْ کا گروہ ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے اور خدا کی قدیم سے سنت چلی آتی ہے کہ جب وہ کسی قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یہ کام نہ کرنا تو اس قوم میں سے ایک گروہ ضرور خدا کی خلاف ورزی کرتا ہے‘‘۔ (جب قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یا اب بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگ کام کریں گے۔ پہلے اللہ تعالیٰ وارننگ دے رہا ہے کہ تم یہ کرو گے لیکن نہ کرنا کیونکہ اس کی سزا ملے گی۔)
فرمایا: ’’کوئی قوم ایسی دکھاؤ کہ جس کو کہا گیا کہ تم یہ کام نہ کرو اور اس نے نہ کیا ہو‘‘۔ (یعنی اگر کسی قوم کو کہا ہے کہ کام نہ کرو تو وہ ضرور کرتے ہیں۔ )’’خدا نے یہودیوں کو کہا کہ تحریف نہ کرو‘‘۔ (بائبل میں تورات میں انہوں نے تحریف کی۔) ’’قرآن کی نسبت یہ نہیں کہا (کہ تحریف نہ کرو) بلکہ یہ کہا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) غرض دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے گروہ میں داخل کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 265-266، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پس اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے گروہ میں داخل ہونے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے اور مستقل دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ایک یا دو دن کی دعاؤں کی نہیں۔ پھر پاک تبدیلی اور آخرت کی فکر تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی انسان کو آخرت میں سرخرو کرتا ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ والے پر خدا کی ایک تجلی ہوتی ہے۔ وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے مگر چاہئے کہ تقویٰ خالص ہو اور اس میں شیطان کا کچھ بھی حصہ نہ ہو ورنہ شرک خدا کو پسندنہیں اور اگر کچھ حصہ شیطان کا ہو تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ سب شیطان کا ہے۔ خدا کے پیاروں کو جو دکھ آتا ہے وہ مصلحت الٰہی سے آتا ہے۔ (خدا کے پیاروں کو بھی تکلیفیں یا پریشانیاں آتی ہیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے) ورنہ ساری دنیا اکٹھی ہو جائے تو ان کو ایک ذرہ بھر تکلیف نہیں دے سکتی‘‘۔ فرمایا ’’چونکہ وہ دنیا میں ایک نمونہ قائم کرنے کے واسطے ہیں۔ اس واسطے ضروری ہوتا ہے کہ خدا کی راہ میں تکالیف اٹھانے کا نمونہ بھی وہ لوگوں کو دکھائیں ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس سے بڑھ کر تردّدنہیں ہوتا کہ اپنے ولی کی قبض روح کروں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ اپنے ولی کو فوت کرے۔) ’’خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے ولی کو کوئی تکلیف آوے مگر ضرورت اور مصالح کے واسطے وہ دکھ دئیے جاتے ہیں اور اس میں خود ان کے لئے نیکی ہے کیونکہ ان کے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘ (دکھ دئیے جاتے ہیں تو اس دکھ میں، تکلیف میں اُن سے بجائے جزع فزع کرنے کے، شور مچانے کے ان کے اعلیٰ اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔)
فرمایا کہ ’’انبیاء اور اولیاء اللہ کے لئے تکلیف اس قسم کی نہیں ہوتی… جس میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی مگر دیکھو جنگ اُحد میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت ظاہر ہو جبکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہوگئے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ صرف اتنے پر وہ مغرور نہ ہو جائے کہ ہم نماز روزہ کرتے ہیں یا موٹے موٹے جرائم مثلاً زنا چوری وغیرہ نہیں کرتے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ان خوبیوں میں تو اکثر غیر فرقہ کے لوگ مشرک وغیرہ تمہارے ساتھ شامل ہیں‘‘۔ (مشرک بھی بہت سارے ایسے ہیں جو ایسی نیکیاں کرتے ہیں ان کے اخلاق بہت اچھے ہیں۔) فرمایا کہ ’’تقویٰ کا مضمون باریک ہے اس کو حاصل کرو۔ خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ۔ جس کے اعمال میں کچھ بھی ریاکاری ہو خدا اس کے عمل کو واپس الٹا اس کے منہ پر مارتا ہے۔ متقی ہونا مشکل ہے۔ مثلاً اگر کوئی تجھے کہے‘‘ (مثال دے رہے ہیں آپ) ’’کہ تُو نے قلم چرایا ہے تو تُو کیوں غصہ کرتا ہے‘‘۔ (اگر کسی پہ کوئی جھوٹا الزام لگا دیتا ہے مثلاً چھوٹا سا الزام ہی ہے کہ میں نے یہاں قلم رکھا تم نے اس کو اٹھا لیا اس پہ دوسرے کو غصہ آ جاتا ہے۔ فرمایا کیوں، غصے کی کیا ضرورت ہے۔) فرمایا کہ ’’تیرا پرہیزتو محض خدا کے لئے ہے‘‘۔ (اس چیز پر غصے سے بچنا تو خدا کے لئے ہے۔) ’’یہ طیش اس واسطے ہوا کہ رُوبحق نہ تھا۔‘‘ (جو غصہ تمہیں آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے تمہارا تعلق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے بعض لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر غصہ آجاتا ہے۔ اگر اللہ سامنے یاد رہے تو کبھی غصہ نہ آئے۔ ) فرمایا ’’جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا۔ معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کی فرع ہیں۔ اصل تقویٰ ہے۔‘‘ (اس چیز کو یاد رکھو۔) فرمایا کہ ’’اس واسطے تم الہامات اور رؤیا کے پیچھے نہ پڑو‘‘۔ (کسی کو الہام ہو گیا، کسی کو رؤیا ہوا، کوئی سچی خوابیں آ گئیں، کشف ہو گیا) ’’بلکہ حصول تقویٰ کے پیچھے لگو۔‘‘ (یہ نہ دیکھو کہ کس کو کیا سچی خوابیں آ رہی ہیں کہ نہیں آ رہیں۔ یہ دیکھو کہ تقویٰ ہے کہ نہیں۔) ’’جو متقی ہے اُسی کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں تو الہامات بھی قابل اعتبار نہیں۔‘‘ (جتنے مرضی کوئی الہام سناتا رہے۔ اگر اس میں تقویٰ نہیں ہے، لوگوں کے حق مار رہا ہے، ذرا ذرا سی بات پر غصہ میں آ جاتا ہے تو وہ چاہے جتنی مرضی سچی خوابیں سنائے کوئی سچی خواب نہیں۔ ) فرمایا کہ ’’ان میں شیطان کا حصہ ہو سکتا ہے۔ کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو اور اندازہ کرو۔ سب طرف سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کے منازل کو طے کرو۔ انبیاء کے نمونہ کو قائم رکھو۔ جتنے نبی آئے ہیں سب کا مدّعا یہی تھا کہ تقویٰ کی راہ سکھلائیں۔ اِنْ اَوْلِیَآؤُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال: 35)‘‘ (اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حقیقی والی جو ہیں وہ متقیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ ) ’’مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے۔ کمال نبی کا کمالِ اُمّت کو چاہتا ہے‘‘۔ (نبی کا کمال اس کی اُمّت کے کمال کو چاہتا ہے۔ ) فرمایا کہ ’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات نبوت ختم ہوئے۔ کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختمِ نبوت ہوا۔ جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے اور معجزات دیکھنا چاہے اور خوارق عادت دیکھنا منظور ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بنا لے۔ (جو خاتم النبیین ہے تو اس خاتم النبیین کو ماننے والے کو خود بھی تقویٰ کے وہ معیار حاصل کرنے چاہئیں جو اعلیٰ ترین معیار ہوں اس لئے فرمایا کہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بناؤ)۔
فرمایا کہ ’’دیکھو امتحان دینے والے محنتیں کرتے ہیں۔ مدقوق کی طرح بیمار اور کمزور ہو جاتے ہیں‘‘۔ (اس طرح پڑھ پڑھ کے بیچارے کمزور ہو جاتے ہیں جس طرح کوئی ٹی بی کا مریض ہو۔) ’’پس تقویٰ کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہو جاؤ‘‘۔ (تقویٰ بھی ایک امتحان ہے اس کے لئے بھی محنت کرنا پڑتی ہے۔) ’’جب انسان اس راہ پر قدم اٹھاتا ہے تو شیطان اس پر بڑے بڑے حملے کرتا ہے لیکن ایک حد پر پہنچ کر آخر شیطان ٹھہر جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کی سفلی زندگی پر موت آ کر وہ خدا کے زیر سایہ ہو جاتا ہے۔ وہ مظہر الٰہی اور خلیفۃ اللہ ہوتا ہے۔ مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 301-302، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پھر تقویٰ کے ہی حوالے سے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے‘‘۔ (تقویٰ کے ذریعہ سے ہمیں بلا وجہ غصہ جو آ جاتا ہے یا بلا وجہ کسی کا غصہ ہمارے پر ہو اس کا مقابلہ کرنا ہے۔) ’’بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچناہی ہے‘‘۔ (کسی کے غصے سے خود مغلوب الغضب نہ ہو جاؤ اور وہی حرکت خودنہ شروع کر دو) فرمایا کہ ’’عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (تکبر اور غرور جو ہیں یہ بھی غصے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں) ’’اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب وپندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘(تکبر و غرور ہو تو انسان کو غصہ آتا ہے۔ کسی نے کچھ کہہ دیا تو ذرا سی بات پہ غصہ چڑھ گیا۔ صرف وجہ یہی ہے کہ اس میں تکبر ہے) فرمایا ’’کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ (کسی کو کم سمجھیں) خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یاچھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندرحقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت کا بیج بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔‘‘ (جو اپنے آپ کو کسی بھی لحاظ سے بڑا سمجھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دوسرے کی تحقیر کر رہا ہے اور دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھ رہا ہے اور یہ حقارت سے دوسرے کو دیکھنا، فرمایا کہ ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے) ’’بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں‘‘۔ (بڑا آدمی ہو، امیر آدمی ہو تو بڑے ادب سے ملتے ہیں۔ بڑا عزت احترام کرتے ہیں) ’’لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔‘‘ (کسی مسکین اور غریب آدمی کی بات کو سنے اور بڑے آرام سے سنے، توجہ سے سنے) ’’اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چڑ کی بات منہ پرنہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۔ بِئْسَ الْاِ سْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الحجرات: 12) تم ایک د وسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسّاق وفُجّار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مر ے گا جبتک وہ خود اسی طرح مبتلانہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم ومعظم کوئی دنیاوی اصول سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات: 14)۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 36، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پھر تقویٰ کے بارے میں جماعت کو مزیدنصیحت کرتے ہوئے، اس کے مختلف پہلو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں‘‘ (جس قدر قوتیں انسان کو دی ہیں) ’’وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دئیے گئے۔ ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے‘‘۔ (ان کو انصاف سے اور جائز جگہ پر استعمال کرنا یہی ان کا صحیح استعمال ہے۔ اس سے وہ بہتر ہوتے ہیں۔ نشوونما پاتے ہیں۔ بڑھتے ہیں۔ صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ مزیدنیکی اجاگر ہوتی ہے۔) فرمایا ’’اسی لئے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا‘‘۔ (جنسی قویٰ جو ہیں یا آنکھ جو ہے یہ کسی بد کام کے لئے نہیں دئیے گئے۔ آنکھ سے بدنظری کرنے کا نہیں کہا۔ یہ سارے قویٰ دئیے ہیں لیکن فرمایا کہ ان کا جائز استعمال کرو تو تزکیۂ نفس ہو گا۔) ’’جیسے فرمایا۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المؤمنون: 2) اور ایسے ہی یہاں بھی فرمایا۔ متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔ (یہ اس کی تشریح بیان کر رہے ہیں۔ ) ’’یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں۔ ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ نماز ڈگمگاتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں۔‘‘ (لوگ کہتے ہیں نماز میں توجہ نہیں رہتی تو بہتوں کے ساتھ یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ ڈگمگاتی ہے تو اسے کھڑا کرتے ہیں۔) ’’خدا کے دئیے ہوئے سے دیتے ہیں۔ باوجود خطرات نفس بلا سوچے سمجھے گزشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں‘‘۔ (پہلے ایمان بالغیب ہوتا ہے آخر پھر وہی ایمان بالغیب جو ہے وہ یقین تک لے جاتا ہے اور ) ’’یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں۔ وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جا رہی ہے‘‘۔ (یعنی مسلسل کوشش کرنے والے لوگ جو ہیں وہی پھر اس سڑک پر چلتے ہیں جو ہدایت کی طرف لے جانے والی ہے۔) ’’اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے۔ پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں۔ اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دئیے‘‘۔ (یہ سارا بیان کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں ) ’’سو ہماری جماعت یہ غم کُل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پرلگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 35، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو۔ عقل سے کام لو اور کلام الٰہی کی ہدایات پر چلو۔ خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ۔ تب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔ ایک فارسی شعر کا مصرعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ:
سخن کز دل بروں آیدنشیند لا جرم بر دل‘‘ (کہ جو بھی بات دل سے نکلتی ہے وہ دل پر ضرور بیٹھتی اور اثر کرتی ہے۔ پس ایک مومن کی ہر بات دل سے نکلنی چاہئے اور دوسروں کے لئے بھی فلاح کا موجب ہونی چاہئے اور یہی پھر اپنی فلاح کا بھی باعث بنتی ہے۔ ) فرمایا ’’پس پہلے دل پیدا کرو۔ اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو‘‘۔ (اگر دوسروں کے دلوں پر اثر کرنا ہے تو پہلے اپنے اندر عملی طاقت پیدا کرو۔ اپنے دل کو پہلے اس قابل بناؤ کہ ساری نیکیاں اس میں قائم ہو جائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرو۔) فرمایا ’’کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ زبان سے قیل و قال کرنے والے تو لاکھوں ہیں۔ بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تکبر، غرور اور بدکاریوں سے بچو مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دل پر کہاں تک ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 67، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کہنے سے پہلے خود عمل کرو۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 3) کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خودنہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 67، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پس اس پر اگر قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرنا ہے تو اس طرف بھی غور کرنا ہو گا۔ پھر اس نصیحت کو خاص طور پر ہمیں چاہئے کہ ہم خود پہلے اپنا جائزہ لیں اور ہر ایک کو لینا چاہئے اور یہ بنیادی نصیحت خاص طور پر عہدیداروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے جو دوسروں سے تو اپنے اندر تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں، ان کو نصائح کرتے ہیں لیکن اگر اپنے معاملہ میں ایسی صورتحال پید اہو جائے تو بالکل اس کے الٹ کرتے ہیں یا اس میں حیل و حجّت کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکموں کو اور اس کے رسول کے حکموں کو پھر ثانوی حیثیت دے دیتے ہیں۔ کئی ایسے معاملے سامنے آ جاتے ہیں۔ پھر مزید قول و فعل میں تطابق کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حصے میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 67-68، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
اور یہی ہمیں حکم ہے کہ آپ کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کریں۔ پھر صرف ایک اور بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے جو جماعت کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے اور ماں باپ کے لئے بھی ضروری ہے اور جو نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کے لئے بھی ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’آجکل کے تعلیم یافتہ لوگوں پر ایک اور بڑی آفت جو آکر پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو دینی علوم سے مطلق مسّ نہیں ہوتا‘‘۔ (کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس طرف صحیح طرح توجہ نہیں پھیرتے۔) ’’پھر جب وہ کسی ہیئت دان یا فلسفہ دان کے اعتراض پڑھتے ہیں تو اسلام کی نسبت شکوک اور وساوس ان کو پیدا ہو جاتے ہیں‘‘۔ (کسی فلاسفر کے یا کسی scientist کے خدا کے بارے میں یا دین کے بارے میں اعتراض جب پڑھتے ہیں تو شکوک اور وساوس شروع ہو جاتے ہیں۔) ’’تب وہ عیسائی یا دہریہ بن جاتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’ایسی حالت میں ان کے والدین بھی ان پر بڑا ظلم کرتے ہیں کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے ذرا سا وقت بھی ان کو نہیں دیتے اور ابتدا ہی سے ایسے دھندوں اور بکھیڑوں میں ڈال دیتے ہیں جو انہیں پاک دین سے محروم کر دیتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 70، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پس والدین کو بچوں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور نوجوانوں کو خود اپنا علم حاصل کرنے کے لئے دینی علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور جماعت احمدیہ میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف، اس کی تفاسیر، اس کثرت سے لٹریچر موجود ہے کہ اس کو اگر پڑھا جائے تو تمام اعتراضات اور وساوس بڑے آرام سے دور ہو جاتے ہیں۔ پھر باہمی اخوت اور اتفاق اور محبت کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر مَیں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہمت اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود و احد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحادنہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے‘‘۔ (پھر مقصد پورے نہیں ہوں گے اگر آپس میں اختلافات ہوئے۔ اس لئے اختلافات کو ختم کرو۔ اتحاد پیدا کرو۔ ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو‘‘۔ (محبت کا تقاضا کیا ہے کہ تم چاہے جانتے ہو یا نہیں جانتے ایک تو اس کے لئے دعا کرو اور دوسرے کسی کو بتائے بغیر اس کے لئے دعا کرو) اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو‘‘۔ (دوسرے کو نہیں پتا کہ کون کس کے لئے دعا کر رہا ہے لیکن جب اس طرح کوئی کرتا ہے تو فرشتہ اس کے لئے دعا کرتا ہے) فرمایا ’’کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو‘‘۔
فرمایا: ’’مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ (آل عمران: 104) یاد رکھو تألیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جبتک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے (بلکہ فرمایا کہ) وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہو گی۔ باہمی عداوت کا سبق کیا ہے۔ بخل ہے۔ رعونت ہے۔ خود پسندی ہے اور جذبات ہیں۔‘‘ (بڑی تکلیف سے آپ فرما رہے ہیں کہ جو بخل بھی رکھتے ہیں۔ رعونت ہے۔ خودپسندی ہے اور اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے۔ ان لوگوں کو فرمایا۔ ) ’’ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روز مہمان ہیں جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخوں کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر اس کو سرسبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو۔ میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 48-49، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
چاہے اس کا ظاہر میں کسی کو پتا ہو یا نہ پتا ہو لیکن جو شخص بھی کمزور ہے وہ ان باتوں سے فیضیاب نہیں ہو گا یا پھر ان دعاؤں سے حصہ نہیں پا سکے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے افراد کے لئے کی ہیں۔ پس اس بارے میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ (آل عمران: 56) یہ تسلی بخش وعدہ ناصرت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا‘‘۔ (یعنی ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پرجنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک میں بالا دست کرنے والا ہوں، فوقیت دوں گا۔ )
فرمایا کہ یہ وعدہ تو بیشک ابن مریم سے ہوا تھا۔ ’’مگر مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔‘‘ (فرمایا کہ) ’’اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اَمّارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کاربند ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تو یاد رکھو اور دل سے سن لو۔ مَیں پھر ایک بار لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبردست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر نہ صرف میری ذات تک بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسان کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی مگر اس پر بس نہیں ہوتی اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفّرین پر غالب رہو گے) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی مَیں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 103 تا 105، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
پھر قبولیت دعا کی شرائط کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات بھی بحضور دل سن لینی چاہئے کہ قبول دعاکے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو دعا کرنے والے کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض دعا کرانے والے کے متعلق۔ دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مدّنظر رکھے اور اس کے غنائِ ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے اور صلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنا لے۔ تقویٰ اور راستبازی سے خدا تعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دعا کے لئے باب استجابت کھولا جاتا ہے اور اگر وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے تو اس کی شرارتیں اور غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سدّ اور چٹان بن جاتی ہیں۔ (ایک روک بن جاتی ہیں ) اور استجابت کا دروازہ اس کے لئے بند ہو جاتا ہے۔ پس ہمارے دوستوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کوضائع ہونے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں جو ان کی ناشائستہ حرکات سے پیدا ہو سکتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 108، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
فرمایا ’’چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔ اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا۔ (وعدہ خلافی کوئی نہیں ہوتی۔) جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (آل عمران: 10)۔
پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لئے ایک غیر منفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمانی کا حصہ لے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 108-109، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
فرمایا: ’’یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے۔ مغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے۔ مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی، جو کسی کام نہیں آ سکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں۔ ہاں ایک دو منٹ تک کسی بچے کے کھیل کا ذریعہ ہو تو ہو۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونو باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا تو اسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 167، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
فرمایا ’’اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا مَیں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی، اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ۔ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں واردنہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 167، مطبوعہ انگلستان۔ ایڈیشن 1985ء)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی زندگیوں کو آپ علیہ السلام کی خواہش کے مطابق ڈھالنے والے ہوں اور ہمارے قدم ہر آن نیکیوں کی طرف بڑھنے والے قدم ہوں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ ان دعاؤں کا وارث بنیں جو آپ علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں۔ اس دعا کے ساتھ میں آپ سب کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے ذاتی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بیشمار برکات کا باعث بنائے۔
آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور یہ جمعۃ المبارک کے بابرکت دن سے شروع ہو رہا ہے۔ حسب روایت نئے سال کے شروع ہونے پر ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ مجھے بھی نئے سال کے مبارکباد کے پیغام احباب جماعت کی طرف سے موصول ہو رہے ہیں۔ آپ بھی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہوں گے۔ مغرب میں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں نئے سال کی رات ساری رات ہاہُو، شراب نوشی ہلّڑبازی اور پٹاخے اور پھلجڑیاں جسے فائر ورکس(Fireworks) کہتے ہیں، سے نئے سال کا آغازکیا جاتا ہے بلکہ اب مسلمان ممالک میں بھی نئے سال کا اسی طرح استقبال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کل دبئی میں بھی اسی طرح کے فائرورکس کی خبریں آ رہی تھیں۔ جہاں یہ سب تماشے دکھا رہے تھے، وہیں اس کے ساتھ ایک 63منزلہ عمارت کو لگی ہوئی آگ کے نظارے بھی دکھائے جا رہے تھے جو راکھ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔
کچھ دن پہلے دبئی سے ہی یہ بھی خبر آ رہی تھی کہ ان کا جو سب سے بڑا ہوٹل ہے اس میں دنیا کا مہنگا ترین کرسمس ٹری (Christmas Tree) لگایا گیا ہے جس کی مالیت گیارہ ملین ڈالر کی تھی۔ تو یہ تو اب امیر مسلمان ملکوں کی ترجیحات ہو چکی ہیں۔ احمدیوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی رات عبادت میں گزار دی یا صبح جلدی جاگ کر نفل پڑھ کر نئے سال کے پہلے دن کا آغاز کیا۔ بہت سی جگہوں پر باجماعت تہجد بھی پڑھی گئی لیکن اس سب کے باوجود ہم ان مسلمانوں کی نظر میں غیر مسلم ہیں اور یہ ہلّڑ بازی کرنے والے، رقموں کا ضیاع کرنے والے، غیر مذاہب کی رسومات کو بڑے اہتمام سے منانے والے یہ لوگ مسلمان ہیں۔ بہرحال ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور ہمیں کسی کی سند کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر ہم کسی سند کے خواہشمند ہیں تو وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مسلمان بن کر سند لینے کی ہے اور اس کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم نے سال کے پہلے دن انفرادی یا اجتماعی تہجد پڑھ لی یا صدقہ دے دیا یا نیکی کی کچھ اور باتیں کر لیں اور اس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا حق دار بنا دیا۔ بیشک یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہو سکتی ہے لیکن تب جب اس میں استقلال بھی پیدا ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اپنی جماعت کو نصائح میں سے ایک انتخاب۔ یہی باتیں ہیں جو صرف سال کے پہلے دن ہی نہیں بلکہ سال کے بارہ مہینوں اور 365 دنوں کو بابرکت کریں گی۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی زندگیوں کو آپ علیہ السلام کی خواہش کے مطابق ڈھالنے والے ہوں اور ہمارے قدم ہر آن نیکیوں کی طرف بڑھنے والے قدم ہوں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں بلکہ ان دعاؤں کا جو آپ علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں ہمیشہ وارث بنیں۔ اس دعا کے ساتھ میں آپ سب کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے ذاتی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بیشمار برکات کا باعث بنائے۔
فرمودہ مورخہ یکم؍جنوری 2016ء بمطابق یکم ؍صلح 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔