عفو اور درگزر
خطبہ جمعہ 22؍ جنوری 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (الشوریٰ: 41) اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا۔
اسلام میں کسی غلط حرکت کرنے والے، نقصان پہنچانے والے سے چاہے وہ چھوٹی سطح پر نقصان پہنچانے والا ہو یا بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے والا ہو یا دشمن ہو ہر ایک سے ایسا سلوک کرنے کی تعلیم ہے جو اس کی اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہو۔ اسلام میں سزا کا تصور ضرور ہے لیکن ساتھ معافی اور درگزر کا بھی حکم ہے۔
اس آیت میں بھی جیسا کہ آپ نے سنا یہی حکم ہے کہ بدی اور برائی کرنے والے کو سزا دو لیکن اس سزا کے پیچھے بھی یہ محرّک ہونا چاہئے کہ اس سزا سے بدی کرنے والے یا نقصان پہنچانے والے اور جرم کرنے والے کی اصلاح ہو۔ پس جب اصلاح مقصد ہے تو پھر سزا دینے سے پہلے یہ سوچو کہ کیا سزا سے یہ مقصد حل ہو جاتا ہے۔ اگر سوچنے کے بعد بھی، مجرم کی حالت دیکھنے کے بعد بھی اس طرف توجہ پھرتی ہے کہ اس مجرم کی اصلاح تو معاف کرنے سے ہو سکتی ہے تو پھر معاف کر دو یا اگر سزا دینے سے ہو سکتی ہے تو سزا دو۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ معاف کرنا بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین اجر کا وارث بنائے گا۔ آخر پر اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر سزا میں حد سے بڑھنے کی کوشش کرو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ بہرحال یہ بنیادی قانون اور اصول سزا اور اصلاح کا قرآن شریف میں پیش ہوا ہے جو ہماری انفرادی زندگی کے معاملات پر بھی حاوی ہے اور حکومتی معاملات میں بھی بلکہ بین الاقوامی معاملات میں، معاشرے کی اصلاح کے لئے بھی یہ بنیاد ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کسی مجرم کو سزا دینے کا اصل مقصد اصلاح ہے اور اخلاقی بہتری ہے۔ پس اسلام کہتا ہے کہ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف سزا پر زور نہ دو بلکہ اصلاح پر زور دو۔ اگر تو سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اصلاح ہو گی تو معاف کر دو۔ اگر حالات و واقعات یہ کہتے ہیں کہ سزا دینے سے اصلاح ہو گی تو سزا دو۔ لیکن سزا میں اس بات کا بہرحال خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ سزا جرم کی مناسبت سے ہو وگرنہ اگر جرم سے زیادہ سزا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہے اور ظلم اور زیادتی کو خدا تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔
پس اسلام میں پہلے مذاہب کی طرح افراط اور تفریط نہیں ہے۔ اس کے اعلیٰ ترین نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ مجرم کی اصلاح ہو گئی ہے تو اپنے انتہائی ظالم دشمن کو بھی معاف فرما دیا۔ آپؐ پر، آپؐ کی اولاد پر، آپؐ کے صحابہ پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے لیکن جب دشمن معافی کا طالب ہوا اور خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ بھول کر معاف فرما دیا۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکّہ سے ہجرت کے وقت ایک ظالم شخص ھبار بن اسودنے نیزہ سے قاتلانہ حملہ کیا۔ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ اس حملے کی وجہ سے آپ کو زخم بھی آئے اور آپ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ آخر کار یہ زخم آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوئے۔ اس جرم کی وجہ سے اس شخص کے خلاف قتل کا فیصلہ دیا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا۔ لیکن بعد میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے تو ھبار مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا۔ جرم میرے بہت بڑے بڑے ہیں۔ میرے قتل کی سزا آپ دے چکے ہیں۔ لیکن آپ کے عفو اور رحم کے حالات پتا چلے تو یہ چیز مجھے آپ کے پاس لے آئی ہے۔ مجھ میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی کہ باوجود اس کے کہ مجھ پر سزا کی حد لگ چکی ہے لیکن آپ کا عفو، معاف کرنا اتنا وسیع ہے کہ اس نے مجھ میں جرأت پیدا کی اور مَیں حاضر ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اے اللہ کے نبی ہم جاہلیت اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خدا نے ہماری قوم کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں اور جرموں کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری جہالت سے صرفِ نظر فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بھی معاف فرما دیا اور فرمایا جا ھبار اللہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق دی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 22صفحہ 431 مسند النساء ذکر سن زینب… حدیث 1051 والسیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 131-132 ذکر مغازیہﷺ فتح مکۃ … دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002)
اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شاعر کعب بن زھیر تھا جو مسلمان خواتین کے بارے میں بڑے گندے اشعار کہا کرتا تھا اور ان کی عصمت پر حملے کیا کرتا تھا۔ اس کی بھی سزا کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ جب مکّہ فتح ہوا تو کعب کے بھائی نے اسے لکھا کہ مکہ فتح ہو چکا ہے بہتر ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ چنانچہ وہ مدینے آ کر اپنے ایک جاننے والے کے ہاں ٹھہرا اور فجر کی نماز مسجدنبوی میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اور پھر اپنا تعارف کرائے بغیر کہا کہ یا رسول اللہ کعب بن زھیر تائب ہو کر آیا ہے اور معافی چاہتا ہے۔ اگر اجازت ہو تو اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ آپؐ کیونکہ اس کی شکل سے واقف نہیں تھے۔ اسے جانتے نہیں تھے یا ہو سکتا ہے اس وقت کپڑا اوڑھا ہو اور باقی صحابہ نے بھی نہ پہچانا ہو۔ بہرحال وہاں کسی نے اسے پہچانا نہیں۔ اس لئے آپ نے فرمایا ہاں آ جائے تو اس نے کہا کہ مَیں ہی کعب بن زھیر ہوں۔ اس پر ایک انصاری اٹھے اور اسے قتل کرنے لگے کیونکہ اس کے جرموں کی وجہ سے اس پر بھی قتل کی حد لگ چکی تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے فرمایا کہ اب اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے۔ پھر اس نے ایک قصیدہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک خوبصورت چادر انعام کے طور پر اسے دے دی۔
پس یہ دشمن جس کی سزا کا حکم جاری ہو چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے نہ صرف جان بخشوا کر گیا بلکہ انعام لے کر بھی لوٹا۔ تو اس طرح کے اور بہت سارے واقعات ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتے ہیں۔ جب آپ نے اصلاح کے بعد اپنے ذاتی دشمنوں کو بھی معاف فرمایا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے دشمنوں کو بھی معاف فرمایا اور اسلام کے دشمنوں کو بھی معاف فرمایا۔ لیکن جہاں اصلاح کے لئے سزا کی ضرورت تھی، اگر سزا کی ضرورت پڑی تو آپ نے سزا بھی دی۔ تو اس اہم حکم کی اہمیت کے پیش نظر اصل مقصد یہ ہے کہ تم نے اصلاح کرنی ہے نہ کہ انتقام لینا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ شوریٰ کی اس 41 ویں آیت کی اپنی کتب اور ارشادات میں کئی جگہ وضاحت فرمائی ہے۔ آپ کی تقریباً 13کتب میں اس کے حوالے نظر آتے ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ ہوں۔ اور ان میں اکیس بائیس جگہ پر مختلف جگہوں پر اس حوالے سے آپ نے بات کی ہے۔ اسی طرح اپنی مجالس میں بھی کئی جگہ اس کا ذکر فرمایا۔ ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ میں آپ نے سزا اور معافی کا فلسفہ اور روح بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔‘‘ (اس آیت کی روشنی میں ) ’’لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔ نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔‘‘(یعنی بخشنے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پائے گا) فرمایا کہ ’’اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے‘‘ (بعض جگہ شر کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے) ’’اور شریرو ں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے۔ بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا۔ پس مجرم کے حق میں اور نیز عامّہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے‘‘۔ فرمایا کہ ’’بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اَور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو۔‘‘(یہی نہیں ہے کہ بغیر دیکھے ہم نے گناہ بخشنے ہیں اور صرف یہی ایک کام رہ گیا ہے بلکہ اس حکم پر غور کرو کہ اصلاح تمہارے مدنظر ہو) فرمایا ’’بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پردادوں کے کینوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگذر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے اِفراط سے دیّوثی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسی قابل شرم حلم اور عفو اور درگذر ان سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیّت اور غیرت اور عفّت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگذر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔ انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خُلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی گئی ہے اور ایسے خُلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 351۔ 352)
پس یہ بنیادی بات اسلام کی سزاؤں کے فلسفے میں ہے کہ نیکی کیا ہے۔ یہ تم نے تلاش کرنی ہے اور اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔ بعض دفعہ معاف کرنا نیکی بن جاتا ہے جس سے اصلاح ہو گئی لیکن بعض دفعہ معاف کرنا برائی بن جاتا ہے کہ غلطی کرنے والا اپنی غلطیوں پر اَور بھی شیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ سزا دینا نیکی بن جاتا ہے۔ یہ اس شخص پر نیکی کرنا بھی ہے کیونکہ سزا کے ذریعہ سے اسے برائیوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ برائیوں سے بچ کر اپنی آئندہ زندگی کو برباد ہونے سے بچائے۔
جو دو مثالیں میں نے دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنہیں معاف فرمایا ان میں ہمیں نظر آتا ہے کہ بڑی تبدیلی پیدا ہوئی۔ جو اسلام کے دشمن تھے، جو غلط کام کرنے والے تھے، اپنی اصلاح کے بعدنیکیوں کے کرنے والے بن گئے اور اسلام کی خدمت کرنے والے بن گئے۔ پس اسلام ایک ایسا سمویا ہوا مذہب ہے جو ہر زمانے میں اپنے احکامات کی اہمیت منواتا ہے۔ مجرم کے حق میں جو بہتر ہے وہ کرو۔ آجکل جو لوگ انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں وہ ایک طرف چلے گئے۔ کسی کا کتنا ہی بڑا قصور ہو، انسانی ہمدردی کے نام پر مجرموں کو بھی اتنی شَہ دی جاتی ہے کہ بہت سے جو مجرم ہیں ان میں جرموں کا احساس ہی مٹ گیا ہے۔ قاتل ہیں، پیشہ ور قاتل ہیں یا تکبر و غرور میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے سوا کسی کی زندگی کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی۔ ایسے لوگوں کی سزا تو قتل ہی ہونی چاہئے سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثاء خود معاف کر دیں۔ لیکن مغربی دنیا میں اکثر جگہ انسانی حقوق کے نام پر یہ سزا نہیں دی جاتی۔ ملکوں نے اپنے قوانین میں ترمیم کر کے اس سزا کو ختم کر دیا ہے جبکہ ایسے لوگوں کی اصلاح بھی نہیں ہو رہی ہوتی اور وہ ظلم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یا پھر دوسری انتہا نظر آتی ہے کہ جن میں مسلمان ممالک کے سربراہان کے خلاف مقامی لوگوں نے تحریک چلائی اور انہیں ان کے تخت سے اتار دیا اور پھر بجائے اس کے کہ اگر وہ سزاوار ہیں تو ان پر مقدمہ چلا کر ان کی جو بھی سزا بنتی ہے انہیں دی جائے۔ انہیں مقامی لوگوں کی مدد کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر مارا گیا اور یہ مقامی لوگ جب اپنے ان لیڈروں پر ظلم کرتے ہیں تو پیچھے بعض طاقتوں کی شہ ہوتی ہے جس پر یہ سب کچھ کیا جا رہا ہوتا ہے۔
اسلام تو ہر قسم کی اِفراط اور تفریط سے روکتا ہے اور سزا کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو پھر اس میں ہر امیر غریب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہے۔ اور فرمایا اتنی ہی سزا دو جتنا اس نے کیا اور سزا کے کچھ اصول و قواعد بناؤ۔ اور اس پر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کی اور اس کے بعد خلفاء نے اس پر عمل کر کے دکھایا کہ کس طرح سزا ملنی چاہئے اور سزا کا مقصد کیا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ صرف یہی نہیں دیکھنا کہ مجرم کے حق میں کیا بہتر ہے۔ صرف مجرم کا ہی خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ عام معاشرے میں کیا بہتر ہے۔ چھوٹی چیز کو بڑی کے لئے قربان کرنا یا معاشرے کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھنا یہ بعض دفعہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی سزا کے فیصلے کے وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرے پر مجموعی طور پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ بعض دفعہ معاف کرنا معاشرے میں غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ دیکھو اتنا بڑا مجرم ایک غلط کام کر کے پھر بچ گیا۔ تو شرارتی طبع لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بھی غلط کام کر کے معافی مانگ کر بچ جائیں گے۔ یہ صورتحال پھر مجرموں کو اپنے برے افعال کرنے کے لئے جرأت پیدا کرتی ہے اور تقویت دیتی ہے۔ اسی طرح شرفاء خوفزدہ ہونا شروع ہوتے ہیں یا عمومی طور پر لوگ بے چینی محسوس کرتے ہیں اور اس بے چینی کو دُور کرنے کے لئے پھر اپنی ترکیبیں سوچتے ہیں۔ اکثریت بے شک خود حفاظتی کا انتظام کرتی ہے اگر ایسی لاقانونیت کا دور ہو لیکن کچھ عدم تحفظ کی وجہ سے اگر لاقانونیت نہ بھی ہو اور عدم تحفظ ہو تو پھر خود ہی قانون بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے باوجود ایسی خوبصورت تعلیم کے ہمیں ایسی صورتحال مسلمان ممالک میں اکثر نظر آتی ہے۔ سزا اور معافی کے غیر منصفانہ عمل نے مجرموں کو پیدا کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے پھر دوسرے بھی وہی حرکتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ سزا دینے اور معاف کرنے میں یہ ایک بہت بڑی بات پیش نظر ہونی چاہئے کہ سزا یا معافی سے معاشرہ کیا اثر لیتا ہے۔ اگر معافیاں مجرموں کو دلیر کر رہی ہیں تو پھر سزاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ معافیوں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا توریت اور انجیل سے مقابلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’انجیل میں لکھا ہے کہ تو بدی کا مقابلہ نہ کر‘‘۔ فرمایا کہ ’’انجیل میں لکھا ہے کہ تُو بدی کا مقابلہ نہ کر۔ غرض انجیل کی تعلیم تفریط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور بجز خاص حالات کے ماتحت ہونے کے انسان اس پر عمل کر ہی نہیں سکتا۔ دوسری طرف توریت کی تعلیم کو دیکھا جاوے تو وہ اِفراط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت توڑ دیا جاوے۔ اس میں عفو اور درگذر کا نام تک بھی نہیں لیا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کتابیں مختص الزمان اور مختص القوم ہی تھیں‘‘۔ (یعنی ایک خاص زمانے کے لئے اور ایک خاص قوم کے لئے تھیں ) ’’مگر قرآن شریف نے ہمیں کیا پاک راہ بتائی ہے جو اِفراط اور تفریط سے پاک اور عین فطرت انسانی کے مطابق ہے۔ مثلاً مثال کے طور پر قرآن شریف میں فرمایا ہے: جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشوریٰ: 41) یعنی جتنی بدی کی گئی ہو اسی قدر بدی کرنی جائز ہے۔‘‘ (یعنی اتنی سزا دینی جائز ہے) ’’لیکن اگر کوئی معاف کر دے اور اس معافی میں اصلاح مدنظر ہو۔ بے محل اور بے موقعہ عفو نہ ہو بلکہ برمحل ہو تو ایسے معاف کرنے والے کے واسطے اس کا اجر ہے جو اسے خدا سے ملے گا۔ دیکھو کیسی پاک تعلیم ہے۔ نہ اِفراط، نہ تفریط۔ انتقام کی اجازت ہے مگر معافی کی تحریص بھی موجود ہے۔‘‘ (بدلہ لینے کا حکم ہے لیکن ساتھ ہی معافی کے لئے توجہ دلائی گئی ہے بلکہ حرص دلائی گئی ہے کہ اس سے تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام ملے گا) فرمایا کہ ’’بشرط اصلاح یہ ایک تیسرا مسلک ہے جو قرآن شریف نے دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ اب ایک سلیم الفطرت انسان کا فرض ہے کہ ان میں خود موازنہ اور مقابلہ کر کے دیکھ لے کہ کون سی تعلیم فطرت انسانی کے مطابق ہے اور کونسی تعلیم ایسی ہے کہ فطرت صحیح اور کانشس اسے دھکّے دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 10صفحہ 401-402۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
پس اسلام کی تعلیم ہی ہے جو ہر زمانے میں دنیا کے مسائل کا حل ہے چاہے وہ سزا کے لئے ہوں یا دوسرے مسائل ہوں۔ اسلام کہتا ہے کہ جب تم ایک دفعہ معاف کر دو تو پھر کینوں اور بغضوں کو بھی دل سے نکال دو۔ آپ نے فرمایا بعض لوگوں کے دلوں میں اتنے کینے ہوتے ہیں کہ دادوں پڑدادوں کے زمانے کی باتیں بھی یاد رکھتے ہیں اور معاف نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا ’’یہ مومن کی شان نہیں ہے کہ کینے دلوں میں رکھے جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا اُسوہ اس بارہ میں ہمارے سامنے ہے۔ جنگ اُحد میں ابو سفیان کی بیوی ہندنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا۔ ناک کان اور دوسرے اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ان کا کلیجہ نکال کر چبا لیا۔ ظلم اور بربریت کی انتہا کی۔ دوسری طرف اس سب کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ کیا ہے کہ فتح مکہ پر ہندنقاب اوڑھ کر آپ کی مجلس میں آ گئی۔ کھلے طور پر آ نہیں سکتی تھی کیونکہ اس جرم کی وجہ سے اس کے لئے بھی قتل کی سزا مقرر ہوئی ہوئی تھی۔ آپ کی مجلس میں آ کر اس نے بیعت کی۔ مسلمان ہو گئی اور اس دوران بعض استفسارات کئے۔ بعض سوالات پوچھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آواز پہچان گئے۔ آپ نے پوچھا کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ۔ لیکن یا رسول اللہ! اب تو مَیں دل سے مسلمان ہو چکی ہوں۔ جو پہلے ہو چکا اس سے درگذر فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا۔ اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ مزید اس کی کایا پلٹ گئی۔ گھر جا کر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کے لئے کھانا تیار کیا اور دو بکرے بھون کر آپ کی خدمت میں بھیجے اور کہا کہ آج جانور کم ہیں اس لئے یہ معمولی تحفہ بھیج رہی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعا دی کہ اے اللہ! ہند کی بکریوں میں برکت ڈال دے۔ چنانچہ کہتے ہیں اس کے نتیجہ میں اس کا اتنا بڑا ریوڑ ہو گیا تھا کہ سنبھالا نہیں جاتا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک طبقہ تو وہ ہے جو معاف کرنا جانتا ہی نہیں اور جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے دادوں پڑدادوں کے وقت کی رنجشیں بھی یاد رکھی ہوئی ہیں۔ اور دوسری طرف ایسے بے غیرت اور دیوث لوگ ہیں کہ نیک چلنی پر ایک داغ ہیں۔ معافی کے نام پر بے غیرتی دکھاتے ہیں۔ پس بے غیرتی بھی نہیں ہونی چاہئے اور ظلم بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی کسی کی بیٹی بہن کی عزت پر حملہ کرتا ہے، عصمت پر حملہ کرتا ہے تو قانون کے دائرے میں کارروائی کرنی چاہئے۔ وہاں معافی کا سوال نہیں ہے۔ پس معافی اور بے غیرتی میں فرق بھی معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن قانون ہاتھ میں نہیں لینا یہ بہرحال شرط ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ اس حوالے سے وضاحت فرمائی ہے۔ آپ کے بعض مزید حوالے بھی پیش کرتا ہوں۔ بظاہر حوالوں کو دیکھنے سے یہ لگتا ہے کہ ایک ہی مضمون نظر کے سامنے آ رہا ہے لیکن ہر موقع پر آپ نے اس حوالے سے جو ارشاد فرمایا ہے اس میں مختلف رنگ اور مختلف نصیحت ہے۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ:
’’بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی گئی لیکن جو شخص عفو کرے اور گناہ بخش دے اور اس عفو سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو، نہ کوئی خرابی تو خدا اس سے راضی ہے اور اسے اس کا بدلہ دے گا۔ پس قرآن کے رُو سے نہ ہر ایک جگہ انتقام محمود ہے‘‘ (نہ انتقام لینا قابل تعریف ہے) ’’اور نہ ہر یک جگہ عفو قابل تعریف ہے۔ بلکہ محل شناسی کرنی چاہئے۔ اور چاہئے کہ انتقام اور عفو کی سیرت بپابندی محل اور مصلحت ہو، نہ بے قیدی کے رنگ میں۔ یہی قرآن کا مطلب ہے‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 30)
پس فرمایا خدا اس شخص سے راضی ہوتا ہے جس کی نیت نیک ہے اور اس کے فعل اور کام کا مقصد اصلاح ہے۔ دیوث شخص کے معاف کرنے سے خدا راضی نہیں ہو گا۔ نہ اس سے راضی ہوتا ہے جو انتقام کی نیت رکھتا ہو۔ یہ دونوں چیزیں سامنے ہونی چاہئیں۔ نہ اتنی نرمی ہو کہ بالکل بے غیرت ہو جائے، اس سے بھی اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اور نہ انتقام کی نیت ہو۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے۔ پس ہر دو حدود کو سامنے رکھتے ہوئے معافی اور سزا کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس بارے میں جماعتی عہدیداروں اور نظام کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ عموماً تو خیال رکھا جاتا ہے لیکن بعض کے خلاف جو فیصلے ہوتے ہیں یا سفارش مجھے آتی ہے تو مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ انتقام کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ ضرور بعض دفعہ ہوتا ہے کہ سفارش کرنے والے کا طبعاً رجحان سختی کی طرف ہوتا ہے اور بعض ضرورت سے زیادہ نرمی اور معافی کا رجحان رکھتے ہیں جس سے پھر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس نہ سزا دینا پسندیدہ ہے، نہ معاف کرنا قابل تعریف ہے۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور یہ اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب اصلاح مقصد ہو اور اس کے لئے متعلقہ محکموں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں چاہے وہ امور عامہ ہے یا قضا ہے کہ بڑی گہرائی میں جا کر سفارش اور فیصلے کرنے چاہئیں تا کہ وہ حقیقی نظام اور حالات ہم اپنے میں اور جماعت میں پیدا کر سکیں جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب بھی کوئی فیصلہ ہو دعا کے ساتھ ہو اور پھر خلیفۂ وقت کے پاس سفارش ہونی چاہئے تا کہ ہر قسم کے بداثرات سے وہ شخص بھی محفوظ رہے جس کے خلاف شکایت کی جا رہی ہے اور نظام جماعت بھی محفوظ رہے اور وہ فیصلہ جماعت میں کسی بھی قسم کی بے چینی کا باعث نہ بنے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ اپنی کتاب ’نسیم دعوت‘ میں اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے کہ اسلام کے معترضین اور غیر مسلموں کو اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا علم ہونا چاہئے۔ آپ نے یہ بڑا کھول کے بتایا کہ یہ ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’اگر کوئی تمہیں دکھ پہنچاوے مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کردو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیداہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے۔ یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے‘‘ (اصلاح ہو جائے، مجرم آئندہ باز آ جائے) ’’تو اِس صورت میں معاف کرنا ہی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا۔
اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلوؤں کی رعایت رکھی گئی ہے۔ اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ (مصلحت وقت یہ ہے کہ موقع اور محل کے مطابق کام ہو) ’’سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے۔ رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقعہ گرم اور سرد غذائیں بدلتے رہتے ہیں‘‘ (گرمیوں میں خوراک کے لئے ہماری اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ سردیوں میں اَور ہوتی ہیں۔ بیلنسڈ ڈائٹ (Balanced Diet) کی باتیں کی جاتی ہیں تو فرمایا کہ یہ جو ہر جگہ قدرت کا اصول ہے یہاں بھی کام آنا چاہئے) فرمایا ’’اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں۔ پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے‘‘۔ (جس طرح قدرت کا قانون یہ ہے کہ ہماری خوراک بھی ادلتی بدلتی رہے۔ اور خوراک موسموں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے پیدا بھی فرمائی ہے۔ اسی طرح گرمی سردی کے موسم میں کپڑوں کا ادلنا بدلنا ہے یہ ساری چیزیں بھی قانون قدرت کے مطابق ہیں۔ فرمایا اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔)
لباس کے بارے میں ضمناً مَیں یہ بھی بتا دوں کہ گرمیوں میں یہاں تو عورتوں کا خاص طور پہ بالکل ننگا لباس ہو جاتا ہے اور سردیوں میں سکارف سے سر بالکل لپیٹا ہوتا ہے، کوٹ پہنا ہوتا ہے اور بڑا مناسب لباس ہوتا ہے۔ لیکن یہی لباس اگر مسلمان عورتیں، حجاب لینے والی عورتیں سردیوں کا لباس تو نہیں لیکن سر ڈھانکنے کی حد تک گرمیوں میں سر ڈھانک لیں تو ان کے خلاف یہ حد لگ جاتی ہے کہ یہ عورتوں کے حقوق ختم کئے جا رہے ہیں۔ بلکہ اب اس میں یہاں تک حکومت نے دخل اندازی شروع کر دی ہے اور یہ بھی ایک دوسری طرح کی دخل اندازی ہے جس کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔ پچھلے دنوں میں وزیر اعظم صاحب کا بیان تھا کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر عورتیں یا کام کرنے والی عورتیں جو کسی بھی پیشہ کی ہیں پبلک جگہوں پر حجاب لے کر آئیں گی تو ان کو کام سے نکال دیا جائے گا۔ تو یہ جو چیزیں اور دنیاوی قانون ہیں یہ ایک دوسری طرف چلے گئے ہیں، ایک دوسری extreme پر چلے گئے ہیں جس سے پھر فساد پیدا ہوتا ہے، بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ ایسے قانون نہ بناؤ، ایسے فیصلے نہ کرو جن سے بے چینیاں پیدا ہوں بلکہ وہ فیصلے کرو جو بہتر ہوں، معاشرے کے لئے بہتر ہوں، اس شخص کے لئے بہتر ہوں۔ اور ایسے فیصلے جو ہوں گے پھر اس سے خدا تعالیٰ بھی راضی ہو گا۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔ ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے۔ وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے۔ اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے۔ پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے۔ نہ انسان۔ اور وحشی ہے، نہ مہذب۔‘‘ (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 437۔ 438)
موقع اور محل اور وقت کی مصلحت کے مطابق کام کرنے کے لئے آپ نے قانون قدرت کے مطابق مثال دی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا۔ غذاؤں میں توازن بھی ضروری ہے اور ایک ہی قسم کی غذائیں انسان استعمال نہیں کرتا۔ آجکل کے بھی جو نیوٹریشن (Nutrition) کے ماہر ہیں اپنے مریضوں کو بڑے بڑے چارٹ بنا کر دیتے ہیں کہ اس کے مطابق غذا کھاؤ اور اس سے ہی، یعنی غذا سے ہی علاج ہوتے ہیں۔ اسی طرح موسمی حالات کے مطابق ہمارے کپڑے ہیں۔ تو بہرحال آپ نے فرمایا کہ یہ قانون قدرت اخلاقی حالت پہ بھی حاوی ہے۔ فرمایا کہیں تو نرمی اور درگذر سے کام بگڑتا ہے۔ کہیں رعب دکھانے سے، سختی کرنے سے کام بگڑتا ہے۔ پس انسان کی اس فطرت کو ہر جگہ لاگو کرنے کی ضرورت ہے کہ جو تبدیلیاں ہیں اس کی طبیعت کے مطابق ہوں۔ اصلاح کے لئے جو تجویز کیا گیا ہو وہ کسی بھی انسان کی طبیعت کے مطابق ہو اور یہی انسان اور حیوان میں فرق ہے۔
پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ’’قرآن شریف نے بے فائدہ عفو اور درگزر کو جائز نہیں رکھا۔ کیونکہ اس سے انسانی اخلاق بگڑتے ہیں اور شیرازہ نظام درہم برہم ہو جاتا ہے بلکہ اس عفو کی اجازت دی ہے جس سے کوئی اصلاح ہو سکے‘‘۔ (چشمۂ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 346۔ حاشیہ)
پس یہ بہت اہم بات ہے۔ عفو اور درگذر اگر بلا وجہ ہو تو نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور انسان کے اندر بے قیدی پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنی حدود سے باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ نظام قائم نہیں رہتا۔ پس جن کو اصلاح کے لئے سزا ملتی ہے وہ بجائے ڈھٹائی دکھانے کے اس بات کی طرف زیادہ توجہ دیں کہ ہم نے اپنی اصلاح کس طرح کرنی ہے۔ اس کے لئے استغفار کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ جماعت میں کوئی سزا کسی انتقام کی وجہ سے نہیں دی جاتی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا۔ اصلاح کے لئے دی جاتی ہے اور یہی کوشش ہونی چاہئے اور ہوتی ہے۔ صرف عہدیداروں کے لئے ہی یہ نہیں ہے۔ صرف عہدیداروں کا ہی قصور نہیں بلکہ افراد کے بھی قصور ہوتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے روز مرہ کے معاملات میں اور آپس کے تعلقات میں اپنا جائزہ لے کہ وہ دوسروں کے متعلق کس طرح سوچتا ہے اور اپنے متعلق کیا سوچتا ہے تو اس سے معاشرے میں ایک خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ پس اصل چیز یہی ہے کہ ہر وقت یہ خیال رہے کہ ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ جب یہ ہو گا تبھی اصلاح ہو گی۔
ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی عفو کرے مگر وہ عفو بے محل نہ ہو بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جاوے تو وہ دلیر ہو کر ڈاکہ زنی کرے گا اس کو سزا ہی دینی چاہئے۔ لیکن اگر دو نوکر ہوں ایک ان میں سے ایسا ہو کہ ذرا سی چشم نمائی ہی اس کو شرمندہ کر دیتی ہے۔ (ذرا سا غور سے اس کے غلط کام کو دیکھا تو وہ اس کو شرمندہ کر دے اور وہ اپنی اصلاح کر لے۔) اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے تو اس کو سخت سزا مناسب نہیں۔ (بعض صرف اشارے سے سمجھ جاتے ہیں اس لئے ان کو کچھ کہنا بھی نہیں پڑتا۔ ان کو دیکھنے سے ہی ان کی اصلاح ہو جاتی ہے) مگر دوسرا عمداً شرارت کرتا ہے اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے۔ اس کو سزا ہی دی جاوے (تو تبھی ٹھیک ہے۔) تو بتاؤ مناسب حکم وہ ہے جو قرآن کریم نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے۔ قانون قدرت کیا چاہتا ہے۔ وہ تقسیم و رؤیت محل چاہتا ہے۔ یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مدّنظر ہو ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدّن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدبّر اور فراست بڑھتی ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو‘‘۔ اب کہتے ہیں جی اسلام پابندیاں لگا دیتا ہے، غور پہ روک دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ جو چیزیں ہیں اس ایک حکم میں ہی دیکھ لو۔ کیسا حکم ہے کہ اس سے تدبر اور فراست کی قوت بڑھتی ہے۔ اجتہاد کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا کہ ’’اگر عفو سے فائدہ ہو تو معاف کرو لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو پھر جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا پر عمل کرو اسی طرح پر اسلام کی دوسری پاک تعلیمات ہیں جو ہر زمانے میں روز روشن کی طرح ظاہر ہیں۔‘‘ (الحکم جلد 4۔ نمبر 14 مورخہ 17اپریل 1900 صفحہ 5 و 6۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 4 صفحہ 109)
پس ان دو باتوں کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور اس لئے سامنے رکھنا چاہئے کہ ہم نے اصلاح کرنی ہے اور برائیوں کو روکنا ہے۔ معاشرے میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے کیونکہ وہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنی احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم بلال محمود صاحب ولد مکرم ممتازاحمد صاحب سندھی دارالیمن غربی شکر ربوہ کا ہے۔ بلال محمود صاحب ابن ممتاز سندھی صاحب مرحوم کو مورخہ 11؍جنوری 2016ء کی رات کو ربوہ میں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ رات کے وقت اپنے گھر جا رہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ تفصیل کے مطابق یہ ہے کہ تقریباً نو بجے رات اپنی دوکان واقع بلال مارکیٹ نزد پھاٹک سے گھر واپس جا رہے تھے کہ درّہ کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں بلال صاحب کو پانچ گولیاں لگیں جن میں سے دو گولیاں سر میں لگیں۔ ان کو فضل عمر ہسپتال پہنچایا گیا۔ وہاں سے ابتدائی طبی امداد کے بعد الائیڈ ہسپتال فیصل آباد بھیج دیا گیا جہاں پر ڈاکٹر ابھی طبیعت سنبھلنے کا انتظار کر رہے تھے اور گولیاں نکالنے کے لئے آپریشن نہیں کیا تھا کہ اس دوران ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
1989ء میں یہ گوٹھ بلال نگر نزدنو کوٹ ضلع میر پور خاص میں پیدا ہوئے تھے۔ وقف نَو کی بابرکت تحریک میں شامل تھے۔ میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ 2003ء میں والد کی وفات ہو گئی، پھر یہ خاندان ربوہ شفٹ ہو گیا۔ 2008ء میں تجدید وقف کر کے دفتر وصیت صدر انجمن احمدیہ کے نئے کارکن کے طور پر تعینات ہوئے۔ وہیں وفات تک خدمت سرانجام دیتے رہے۔ شام کے وقت تھوڑی دیر کے لئے اپنی چھوٹی سی دوکان تھی اس میں بھی جاتے تھے۔ اپنے حلقہ میں ان کو مختلف حیثیتوں سے جماعتی کام کرنے کی توفیق ملی اور آجکل اپنے محلے کے سیکرٹری وصایا بھی تھے۔ مرحوم کی شادی 2015ء کے اپریل میں ہوئی تھی اور اب ان کی اہلیہ بھی امید سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل فرمائے اور آنے والی اولاد پر بھی فضل فرمائے۔ انتہائی شریف النفس، ہمدرد اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے کام میں سنجیدہ، محنتی، اطاعت گزار تھے۔ خلافت سے گہرا تعلق تھا۔ ہر ایک سے احترام اور ادب سے، محبت سے پیش آنے والے تھے۔ عزیز رشتے داروں کے ساتھ بھی اور والدہ اور بہنوں کے ساتھ بہت محبت کا تعلق رکھتے تھے۔
پسماندگان میں اہلیہ مبشرہ بلال صاحبہ اور والدہ مبارکہ ممتاز صاحبہ کے علاوہ ایک بھائی اور دو ہمشیرگان سوگوار چھوڑے ہیں۔ ان کے پہلے سیکرٹری مجلس کارپرداز اور موجودہ بھی ان دونوں نے اسی بات کو لکھا ہے کہ بڑے ہونہار اور نہایت محنت سے کام کرنے والے تھے اور کبھی یہ نہیں ہؤا کہ کسی موقع پر کوئی سُستی یا کوتاہی دکھائی ہو اور ہمیشہ مسکراتے بھی رہتے تھے۔ دفتر وقت پہ آتے۔ جو کام کہو بھاگ کر کرنے والے تھے۔ ایسے کارکن کم ہی ملتے ہیں جو ہر وقت مسکراتے رہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ اطاعت اور فرمانبرداری میں نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور نصیر صاحب جو موجودہ سیکرٹری کارپرداز ہیں لکھتے ہیں کہ خلافت سے شہید کا ایسا تعلق تھا کہ اسے دیکھ کے ہمیں رشک آتا تھا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
اسلام میں کسی غلط حرکت کرنے والے، نقصان پہنچانے والے سے، چاہے وہ چھوٹی سطح پر نقصان پہنچانے والا ہو یا بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے والا ہو یا دشمن ہو، ہر ایک سے ایسا سلوک کرنے کی تعلیم ہے جو اس کی اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہو۔ اسلام میں سزا کا تصور ضرور ہے لیکن ساتھ معافی اور درگزر کا بھی حکم ہے۔
کسی مجرم کو سزا دینے کا اصل مقصد اصلاح ہے اور اخلاقی بہتری ہے۔ پس اسلام کہتا ہے کہ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف سزا پر زور نہ دو بلکہ اصلاح پر زور دو۔ اگر تو سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اصلاح ہو گی تو معاف کر دو۔ اگر حالات و واقعات یہ کہتے ہیں کہ سزا دینے سے اصلاح ہو گی تو سزا دو۔ لیکن سزا میں اس بات کا بہرحال خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ سزا جرم کی مناسبت سے ہو وگرنہ اگر جرم سے زیادہ سزا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہے اور ظلم اور زیادتی کو خدا تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے عفو اور درگزر کی بعض درخشندہ مثالیں۔ آجکل جو لوگ انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں وہ ایک طرف چلے گئے۔ کسی کا کتنا ہی بڑا قصور ہو انسانی ہمدردی کے نام پر مجرموں کو بھی اتنی شَہ دی جاتی ہے کہ بہت سے جو مجرم ہیں ان میں جرموں کا احساس ہی مٹ گیا ہے۔
یا پھر دوسری انتہا نظر آتی ہے کہ جن میں مسلمان ممالک کے سربراہان کے خلاف مقامی لوگوں نے تحریک چلائی اور انہیں ان کے تخت سے اتار دیا اور پھر بجائے اس کے کہ اگر وہ سزاوار ہیں تو ان پر مقدمہ چلا کر ان کی جو بھی سزا بنتی ہے انہیں دی جائے۔ انہیں مقامی لوگوں کی مدد کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر مارا گیا اور یہ مقامی لوگ جب اپنے ان لیڈروں پر ظلم کرتے ہیں تو پیچھے بعض طاقتوں کی شہ ہوتی ہے جس پر یہ سب کچھ کیا جا رہا ہوتا ہے۔
سزا اور معافی کے غیر منصفانہ عمل نے مجرموں کو پیدا کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہوا ہے۔
اگر معافیاں مجرموں کو دلیر کر رہی ہیں تو پھر سزاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ معافیوں کی۔
اسلام کہتا ہے کہ جب تم ایک دفعہ معاف کر دو تو پھر کینوں اور بغضوں کو بھی دل سے نکال دو۔
’’خدا اس شخص سے راضی ہوتا ہے جس کی نیت نیک ہے اور اس کے فعل اور کام کا مقصد اصلاح ہے۔ دیوث شخص کے معاف کرنے سے خدا راضی نہیں ہو گا۔ نہ اس سے راضی ہوتا ہے جو انتقام کی نیت رکھتا ہو‘‘۔ یہ دونوں چیزیں سامنے ہونی چاہئیں۔ نہ اتنی نرمی ہو کہ بالکل بے غیرت ہو جائے اس سے بھی اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اور نہ انتقام کی نیت ہو۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے۔ پس ہر دو حدود کو سامنے رکھتے ہوئے معافی اور سزا کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس بارے میں جماعتی عہدیداروں اور نظام کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔
اسلام کہتا ہے کہ ایسے قانون نہ بناؤ، ایسے فیصلے نہ کرو جن سے بے چینیاں پیدا ہوں بلکہ وہ فیصلے کرو جو بہتر ہوں معاشرے کے لئے بہتر ہوں، اس شخص کے لئے بہتر ہوں۔ اور ایسے فیصلے جو ہوں گے پھر اس سے خدا تعالیٰ بھی راضی ہو گا۔
عفو اور درگذر اگر بلا وجہ ہو تو نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور انسان کے اندر بے قیدی پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنی حدود سے باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ نظام قائم نہیں رہتا۔ پس جن کو اصلاح کے لئے سزا ملتی ہے وہ بجائے ڈھٹائی دکھانے کے اس بات کی طرف زیادہ توجہ دیں کہ ہم نے اپنی اصلاح کس طرح کرنی ہے۔ اس کے لئے استغفار کریں اور اپنی اصلاح کریں۔
مکرم بلال محمود صاحب ولد مکرم ممتاز احمد صاحب آف ربوہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 22؍جنوری 2016ء بمطابق22صلح 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔