سیرت حضرت مسیح موعودؑ: حضرت مصلح موعودؓکے بیان فرمودہ بعض واقعات

خطبہ جمعہ 29؍ جنوری 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ مخفی ہے مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دعا کے ذریعہ سے اس کی ہستی کا پتہ لگتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’کوئی بادشاہ یا شہنشاہ کہلائے۔ ہر شخص پر ضرور ایسے مشکلات پڑتے ہیں جن میں انسان بالکل عاجز رہ جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ اس وقت دعا کے ذریعہ سے مشکلات حل ہو سکتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 08 صفحہ 35۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف طریقوں سے، مختلف زاویوں سے بیشمار جگہ اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے اس کا ایسا اِدراک حاصل کیا اور آپ علیہ السلام کی صحبت کی وجہ سے ان کا دعاؤں پر ایسا یقین تھا اور ایسا ایمان تھا کہ غیروں پر بھی ان کی دھاک تھی اور غیر مذہب والے بھی جو احمدیوں سے تعلق رکھنے والے تھے، سمجھتے تھے کہ ان کی دعائیں بڑی قبول ہوتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا گیا جس پر آپ بہت ہنسے۔ حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کا واقعہ ہے۔ حضرت منشی صاحب شروع میں قادیان بہت زیادہ آیا کرتے تھے۔ بعد میں کیونکہ بعض اہم کام آپ کے سپرد ہو گئے اس لئے جلدی چھٹی ملنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے بچے ہؤا کرتے تھے تو ان کا آنا ایسا ہی ہؤا کرتا تھا جیسے مدتوں کا بچھڑا ہوا بھائی سال کے بعد اپنے کسی عزیز سے آ کر ملے۔ باوجود اس کے کہ جلدی جلدی آتے تھے پھر بھی اس محبت اور خلوص سے ملا کرتے تھے کہ جس طرح ہم سالوں بعد مل رہے ہیں۔ غرض کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بیان ہوا جو حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں سنایا گیا۔ اس دوست نے بتایا کہ منشی اروڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ جو مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں۔ پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا کہ مَیں قادیان جانا چاہتا ہوں مجھے چھٹی دے دیں۔ اس نے انکار کر دیا۔ اس وقت حضرت منشی صاحب سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا قادیان میں نے ضرور جانا ہے مجھے آپ چھٹی دے دیں۔ وہ کہنے لگا کام بہت ہے اِس وقت آپ کو چھٹی نہیں دی جا سکتی۔ منشی صاحب کہنے لگے بہت اچھا۔ آپ کا کام ہوتا رہے۔ ٹھیک ہے۔ آپ یہ کہتے ہیں کام بہت ہے۔ کریں، کروا لیں مجھے چھٹی نہ دیں لیکن میں آج سے بددعا میں لگ جاتا ہوں۔ کام جو آپ کہنا چاہتے ہیں وہ کام کبھی نہ سنورے۔ آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں۔ آخر مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا اور اس کے بعد اس مجسٹریٹ پہ یہ اثر ہوا کہ جب بھی ہفتے کا دن آتا تھا وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کر دینا کیونکہ منشی اروڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائے گا۔ یعنی ٹرین پر انہوں نے قادیان جانا ہے۔ اس لئے جلدی بند کرو کہ وقت نہ نکل جائے۔ اس طرح وہ مجسٹریٹ جب بھی منشی صاحب کا قادیان آنے کا ارادہ ہوتا آپ ہی انہیں چھٹی دے دیتا۔ تو وہ ان کی دعا سے ایسا ڈرا۔ تو یہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی بزرگی اور دعاؤں کا اثر غیروں پر بھی ڈالا ہوا تھا اور یہی چیز ہے جسے آج بھی ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنا چاہئے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 22 صفحہ 429-430)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بعض اَور باتیں بیان کرتا ہوں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہیں اور ہماری روحانیت میں ترقی اور تربیت کے لئے بہت ضروری ہیں۔ دنیا میں مختلف طبیعتوں اور احساسات کے حامل انسان ہوتے ہیں۔ بعض کی حسّیں تیز ہوتی ہیں، بعض کی کم۔ بعض خاص حالات کی وجہ سے کسی موسم کے یا حالات کے عادی ہو جاتے ہیں اور بعض کے لئے وہ حالات سخت ہوتے ہیں گویا وہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے حسّاس ہوتے ہیں یا ان کی طبیعت زیادہ حساس ہوتی ہے۔ پس سردی گرمی، خوشبو اور بدبو کا احساس حسّوں کے کم یا زیادہ ہونے سے ہوتا ہے۔ اور یہ انسان کی حسّیں ہیں جو اس فرق کو ظاہر کرتی ہیں اور انسانوں کی اکثریت اس لحاظ سے حسّاس ہوتی ہے جن کو سردی گرمی کا بھی احساس ہوتا ہے، خوشبو بدبو کا بھی احساس ہوتا ہے اور بعض احساسات ہوتے ہیں۔ اور جن کو احساس نہیں ہوتا وہ یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ ان چیزوں کے اثرات نہیں ہیں یا یہ کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ سردیوں میں بھی جب لوگوں کے پاؤں ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں، موٹی جرابیں پہنی ہوتی ہیں تو برف میں رہنے والا یا بعض لوگ جن کو سردی کم لگتی ہے وہ بغیر جراب کے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پاؤں بڑے گرم ہیں۔ اسی طرح بعض اور احساسات ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سردی نہیں ہے یا سردی اثر نہیں کرتی کیونکہ اکثریت حسّاس ہوتی ہے۔ پس ان چیزوں کے اثرات ہوتے ہیں اور اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ فرق بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔

بہرحال حضرت مصلح موعودؓ احساس کے اس فرق کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے ایک دنیاوی مثال بھی دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ کسی شہر میں چند شہری آپس میں ذکر کر رہے تھے کہ تِل بہت گرم ہوتے ہیں۔ ایک پاؤ تِل کوئی نہیں کھا سکتا۔ اگر کھائے تو فوراً بیمار ہو جائے۔ (اکثریت کی یہی حالت ہو گی۔) یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی پاؤ بھر تِل کھائے اور بیمار نہ ہو جائے۔ اس گفتگو کے دوران ایک نے کہا کہ اگر کوئی اتنے تِل کھائے تو مَیں اسے پانچ روپے انعام دوں۔ کوئی زمیندار وہاں سے گزر رہا تھا۔ (ان لوگوں کو کچی چیزیں کھانے کی بھی اور زیادہ کھانے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد کام بھی کر لیتے ہیں یا بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں تو وہ) زمیندار بھی کوئی اَکّھڑقسم کا زمیندار تھا۔ وہ نہایت تعجب سے اور حیرت سے ان کی یہ باتیں سنتا رہا اور خیال کر رہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ ایسے مزے کی چیز کھانے پر پانچ روپے انعام بھی ملتے ہیں (کہ تِل کھانے ہیں اور پانچ روپے انعام ملیں گے۔) اس نے آگے بڑھ کے پوچھا کہ ٹہنیوں سمیت کھانے ہیں یا بغیر ٹہنیوں کے۔ یہ اس لئے پوچھا کہ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ بغیر ٹہنیوں کے پاؤ بھر تل کھانے سے پانچ روپے انعام کس طرح ہو سکتا ہے۔ گویا وہ ٹہنیوں سمیت بھی کھانے کے لئے تیار تھا حالانکہ باتیں کرنے والے اتنے تِل کھانا ناممکن خیال کر رہے تھے۔ اب ان دونوں کے احساس میں کتنا بڑا فرق ہے۔ ایک تو وہ ہیں کہ پاؤ بھر تِل کھانے ناممکن خیال کرتے ہیں اور ایک وہ ہے کہ جو بمع ٹہنیاں کھانے کے لئے تیار ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ بغیر ٹہنیوں کے تو یہ معمولی مزے کی بات ہے۔ اس پر کب پانچ روپے انعام مل سکتا ہے۔ پس دنیا میں جس قدر فرق ہیں یہ احساسات کے فرق ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 9 صفحہ 82 تا 86) اور یہی قانون روحانی دنیا میں بھی چلتا ہے۔ کسی پر نماز کا زیادہ اثر ہوتا ہے، کسی پر کم اثر ہوتا ہے۔ بعض ایسے ہیں جو صرف نمازیں پڑھتے ہیں یا ظاہراً نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ٹکّریں ماریں اور چلے گئے۔ نماز کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا ہوتا۔ روحانی حسّوں کے ثبوت کے لئے انہی کی شہادت قبول ہو گی جن میں یہ حسّ زیادہ ہو۔ جن کو اثر زیادہ ہوتا ہو، جو عبادت کرتے ہوں اور عبادت کا اثر بھی ان پر ظاہر ہوتا ہو۔

پس جماعت میں ایسے افراد کی اکثریت ہونی چاہئے کہ جن کی حسّیں ایسی ہوں جو روحانی اثرات کو زیادہ سے زیادہ قبول کرنے والی ہوں اور پھر دنیا کو بتانے والی ہوں کہ حقیقی نماز کیا چیز ہے۔ حقیقی عبادت کیا چیز ہے۔ اور اس کے لئے کس قسم کی حس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو اسے ایک اور حوالے سے بیان فرمایا ہے لیکن اس واقعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جب نیک فطرت بڑے بڑے متبحّر عالم بھی آتے تھے تو یہ عالم آپ کی بیعت کا شرف بھی حاصل کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک عالم دین جو صَرف و نحو کے متبحر عالم تھے اور سارے ہندوستان میں ان کی علمیت کا شہرہ تھا بہت سادہ طبع تھے۔ اور اگر انہیں کوئی ایسا شخص دیکھتا جو ان کو پہلے سے نہ جانتا تو وہ یہی سمجھتا کہ یہ گھاس کاٹ کر آ رہے ہیں، کوئی عام مزدور آدمی ہیں۔ ان کا نام مولوی خان ملک صاحب تھا۔ وہ کہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق خبر سن کر قادیان آئے اور آپ کی باتیں سن کر ایمان لے آئے۔ واپسی پر جب وہ لاہور پہنچے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ مولوی غلام احمد صاحب سے ملتے چلیں۔ مولوی غلام احمد صاحب شاہی مسجد میں درس دیتے تھے اور وہ مولوی خان ملک صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔ مولوی غلام احمد صاحب بھی بہت مشہور عالم تھے اور چونکہ لاہور کے لوگ اچھے متموّل تھے اس لئے مولوی غلام احمد صاحب کی مالی حالت بہت اچھی تھی اور سینکڑوں طالبعلم ان کے پاس پڑھتے تھے۔ جب مولوی خان ملک صاحب شاہی مسجد میں پہنچے تو وہاں کے طلباء کو تو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ کس پائے کے آدمی ہیں۔ انہوں نے ان کے معمولی لباس اور ظاہری صورت سے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کوئی معمولی آدمی ہیں۔ مولوی غلام احمد صاحب نے مولوی خان ملک صاحب سے پوچھا کہ فرمائیے کہاں سے تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاقادیان سے۔ انہوں نے حیران ہو کے پوچھا قادیان سے؟ انہوں نے کہا ہاں قادیان سے۔ انہوں نے کہا کیوں؟ تو کہنے لگے کہ مرزا صاحب کا مرید ہونے کے لئے گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اتنے بڑے عالم ہیں۔ آپ نے ان میں کیا خوبی دیکھی کہ ان کے مرید ہونے کے لئے چلے گئے۔ مولوی خان ملک صاحب نے پنجابی میں انہیں کہا کہ ’’تُو اپنا کم کر تَینوں تے قَالَ یَقُوْلُ وِی چنگی طرح نہیں آندا‘‘۔ یعنی تم اپنا کام کرو۔ تجھے تو ابھی قَال یَقُوْلُ بھی اچھی طرح نہیں آتا۔ کیونکہ مولوی غلام احمد صاحب بھی بڑے مشہور عالم تھے اس لئے جب مولوی خان ملک صاحب نے یہ الفاظ کہے تو مولوی غلام احمد صاحب کے شاگردوں کو سخت غصہ آیا اور انہوں نے مولوی خان محمد صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ بُڈھے تُو نے یہ کیا بات کہی ہے۔ مولوی غلام احمد صاحب نے ان کو منع کیا اور کہا خاموش رہو۔ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ288-289)۔ تو ایسے سعید فطرت لوگ بھی تھے جو جاتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوتے تھے۔ ان کو کوئی ضد، علم پہ زعم نہیں تھا۔

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک عرب آیا۔ یہ لوگ چونکہ عام طور پر سوالی ہوتے ہیں وہ جب کچھ دنوں کے بعد یہاں سے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرائے کے طور پر اسے کچھ دیا مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ اور کہا میں نے سنا تھا کہ آپ نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے آیا تھا۔ کچھ لینے کے لئے نہ آیا تھا۔ چونکہ یہ ایک نئی بات تھی کیونکہ اس علاقے کا شاید اب تک کوئی بھی ایسا شخص نہیں آیا جو سوالی نہ ہو۔ (اُس زمانے میں جب یہ لوگ جاتے تھے۔ ) اس بات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کچھ دن اور ٹھہر جائیں۔ وہ ٹھہر گیا اور بعض لوگوں کو آپ نے مقرر کیا کہ اسے تبلیغ کریں۔ کئی دن اس سے گفتگو ہوتی رہی مگر اسے کوئی اثر نہ ہوا۔ آخر تبلیغ والے دوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا۔ یہ بڑا جوشیلا ہے۔ یہ سوالی لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ اسے صداقت کی طلب معلوم ہوتی ہے۔ (جس طرح آجکل اکثر عرب جواحمدی ہو رہے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ طلب ہے) اس لئے اس کے لئے دعا کی جائے۔ تبلیغ سے تو ان کو سمجھ نہیں آ رہی۔ آپ نے دعا کی اور آپ کو بتایا گیا کہ اسے ہدایت نصیب ہو جائے گی۔ خدا کی قدرت اسی رات اسے کسی بات سے ایسا اثر ہوا کہ صبح اس نے بیعت کر لی اور پھر چلا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حج کے موقع پر مجھے بتایا گیا کہ کئی قافلوں کو اس نے تبلیغ کی۔ ایک قافلے والے اسے مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے تو وہ ہوش آنے پر اٹھ کر دوسرے قافلے کے پاس چلا جاتا اور تبلیغ کرتا۔ تو بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب سینے کھولے تو کھلتے ہیں‘‘ اور پھر ایسا مثالی جوش پیدا ہوتا ہے کہ پھر کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ457)

اسی طرح آپ ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں امریکہ میں سب سے پہلے ایک انگریز نے یا امریکن نے اسلام قبول کیا۔ الیگزینڈر رَسَل وَیب اس کا نام تھا اور امریکن ایمبیسی میں فلپائن میں کام کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انگریزی اشتہارات کی جب یورپ اور امریکہ میں اشاعت ہوئی تو اس کے دل میں اسلام قبول کرنے کی تحریک پیدا ہوئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خط و کتابت کرنی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور اسلام کی اشاعت کے لئے اس نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ بعد میں وہ ہندوستان میں بھی آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس نے ملنے کی خواہش کی۔ مگر مولویوں نے اسے کہا۔ (وہ لاہور وغیرہ یا کسی بڑے شہر میں جہاں آیا تھا۔ وہاں کے مولویوں سے جب ملا تو انہوں نے اسے کہا) کہ اگر مرزا صاحب سے ملے تو مسلمان تمہیں چندہ نہیں دیں گے۔ (تبلیغ کرنا چاہتے ہو۔ اپنا planپھیلانا چاہتے ہو۔ تبلیغ کی جو منصوبہ بندی تم نے کی ہے اس کے لئے پھر مسلمانوں سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ) چنانچہ وہ ان کے بہکانے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہ ملا مگر آخر بہت مایوسی سے وہ یہاں سے واپس گیا۔ ان مسلمانوں نے بھی کوئی مددنہ کی۔ اسے تو کہا گیا تھا کہ دوسرے مسلمان تمہاری مدد کریں گے اور تمہیں اشاعت اسلام کے لئے بڑا چندہ دیں گے۔ مگر دوسرے مسلمانوں نے اس کی کوئی مددنہ کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے قریب اس نے آپ کو خط لکھا کہ مَیں نے آپ کی نصیحت کو نہ مان کر بہت دکھ اٹھایا ہے۔ آپ نے مجھے بروقت بتایا تھا کہ مسلمانوں کے اندر خدمت دین کا کوئی شوق نہیں پایا جاتا مگر میں نے اسے نہ مانا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مَیں آپ کی ملاقات سے محروم ہو گیا۔

بہرحال وہ آخر وقت تک مسلمان رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے مخلصانہ تعلقات قائم رہے۔ تو سب سے پہلا مسلمان امریکہ میں وہی ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اب بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی یورپین ملکوں کی نسبت امریکہ میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔ بعض یورپین ممالک میں بھی احمدیت پھیل رہی ہے اور وہ بھی مغربی علاقے میں ہی ہیں مگر امریکہ میں ترقی کے زیادہ آثار پائے جاتے ہیں۔ (ماخوذ از الفضل 21 اگست 1957ء صفحہ3)

اللہ تعالیٰ کرے کہ امریکہ کی جماعت ایسے نیک فطرت لوگوں کی تلاش کرے اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کرے اور اس کے لئے ٹھوس اور مربوط کوشش ہو۔ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس امید کا اظہار کیا ہے وہ حقیقت بن جائے۔ ویسے بھی ایک زمانے میں امریکہ میں بہت احمدی ہوئے تھے اور بڑی مضبوطی سے احمدیت پہ قائم رہے لیکن ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی آگے جو نسلیں ہیں وہ دنیا داری کی وجہ سے یا رابطوں میں کمی کی وجہ سے یا اور وجوہات تھیں، احمدیت پر قائم نہیں رہ سکیں۔ اس کے لئے بھی جماعت امریکہ کو کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کے ساتھ کس طرح تعلق رکھتے تھے اور کس طرح ان کی تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے، اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ صحیح تربیت کا طریق وہی ہے جو اسے کھیل کود سکھائے۔ (یعنی کھیلتے کودتے ہی تربیت ہو جائے۔ ) پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔ بڑے آدمی کے لئے خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ کبھی حضرت یوسفؑ کا قصہ بیان فرماتے۔ کبھی حضرت نوحؑ کا قصہ سناتے اور کبھی حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ بیان فرماتے۔ مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں۔ گو وہ تھے سچے واقعات۔ ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلہ میں ہے وہ بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ سچا ہے یا جھوٹا بہرحال اس میں ایک مفید سبق ہے۔ اسی طرح ہم نے کئی ضرب الامثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے سنی ہیں۔ پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں۔ گوبعض کہانیاں بے معنی اور بیہودہ ہوتی ہیں مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں۔ اور جب بچے کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیزیں کھیلیں ہیں۔ (بعض والدین آ جاتے ہیں کہ یہ کھیلتا بہت ہے۔ اگر ٹی وی گیموں پر نہیں کھیل رہا اور باہر جا کر کھیلتا ہے تو بچے کو کھیلنے دینا چاہئے۔ ) کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 28 مارچ 1939ء صفحہ نمبر 2 جلد 27 نمبر 71)

پس باپوں کو بھی بچوں کو وقت دینا چاہئے۔ اگر ماں باپ دونوں مل کر بچوں کی تربیت پر زور دیں۔ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں۔ ان کی صحیح تربیت کریں۔ ان کو اپنے ساتھ جوڑیں تو یقینا بہت سے تربیت کے مسائل حل ہو جائیں جس کی ماں باپ کو شکایت رہتی ہے۔

پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں ان کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے۔ (یہ بھی ایک مقصد ہوتا ہے۔) اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔‘‘

آجکل تو ماں باپ اس بات سے بچنے کے لئے کہ بچے شور نہ کریں اور علیحدہ بیٹھے رہیں ان کے ہاتھوں میں یا آئی پیڈ (iPad) پکڑا دیتے ہیں یا کمپیوٹر پہ بٹھا دیتے ہیں یا ٹی وی پہ بٹھا دیتے ہیں اور وہاں اگر تو اچھی کہانیاں کوئی آ رہی ہوں تو ٹھیک، نہیں تو بعض دفعہ صرف وقت ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ اور چھوٹے بچوں کو تو ویسے بھی ان پہ نہیں بٹھانا چاہئے کیونکہ ایک تو نظر پہ اثر پڑتا ہے اگر لمبا عرصہ بیٹھے رہیں۔ دوسرے دو سال سے کم بچے کو تو ویسے بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کی سوچ میں فرق پڑ جاتا ہے اور پھر وہ ایک طرف لگ جاتا ہے۔ بعض دفعہ برے اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے، کہانیاں سنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا۔ اگر اس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کام نہ کر سکتے تھے۔ پس یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہمیں کہانیاں سنا کر چپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ جب بھی فارغ ہوں کہانیاں سنایا کرتے تھے تا ہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں۔ بچے کو کیا پتا ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ اسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سو جاتے ہیں۔‘‘

اس زمانے میں تو یہ چیزیں نہیں تھیں۔ ماں باپ محنت بھی کرتے تھے۔ اب جیسا کہ میں نے کہا بعض چیزیں ایسی آ گئی ہیں جس کی وجہ سے ماں باپ ایک تو تربیت پہ محنت نہیں کرتے، دوسرے ان کے تعلق بچوں کے ساتھ کم ہو گئے ہیں۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ’’کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے۔ گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچے کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے۔ ماں باپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔ اس لئے وہ اسے لٹا کر کہانیاں سناتے ہیں یا ان میں سے ایک اسے سناتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے یا پھر ایک سناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے۔ اگر اس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سنائی جائیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے مگر ہم اس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہئے کہ ایسی کہانیاں سنائیں کہ اس وقت بھی فائدہ ہو۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 28 مارچ 1939ء صفحہ نمبر 2 جلد 27 نمبر 71)

اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ دوستیاں ہمیشہ ایسی ہونی چاہئیں جو بربادی کا موجب نہ ہوں، حضرت مصلح موعودؓ نے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے (یہ پرانی حکایت ہے) کہ ایک شخص کا ریچھ سے دوستانہ تھا۔ اس نے اسے پالا تھا یا کسی مصیبت کے وقت اس پر احسان کیا تھا۔ اس وجہ سے وہ اس کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ یہ گویا ایک حکایت ہے جو حقیقت بیان کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے۔ اگرچہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی ریچھ وغیرہ جانوروں کو پال کر اپنے ساتھ ہلا لیتا ہے۔ مگر جب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی حکایت روایت کرتا ہوں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت بیان کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے۔ (یعنی ایک نصیحت کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے۔) یہ مَیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تا دشمن یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ ایسے بیوقوف لوگ ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ ریچھ انسانوں کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں۔ یہ پرانی حکایتیں سبق حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں اور ان سے مراد ایسے خصائل رکھنے والے انسان ہوتے ہیں۔ (یعنی بعض لوگ ایسے خصائل رکھتے ہیں کہ وہ وہی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔) مثلاً پرانی حکایتوں میں بادشاہ کے دربار کو شیر کا دربار اور اس کے امراء و وزراء کو دوسرے جانوروں کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا اور اس طرح وہ بادشاہ بھی جس کے متعلق بات ہوتی نہایت مزے لے کر پڑھتا۔ خیر، تو ریچھ اس آدمی کا دوست تھا اور اس کے پاس آتا تھا۔ ایک دن اس کی والدہ بیمار پڑی تھی اور وہ پاس بیٹھا پنکھا ہلا رہا تھا اور مکھیاں اڑا رہا تھا۔ اتفاقاً اسے کسی ضرورت کے لئے باہر جانا پڑا اور اس نے ریچھ کو اشارہ کیا کہ تم ذرا مکھیاں اڑاؤ۔ مَیں باہر ہو آؤں۔ ریچھ نے اخلاص سے یہ کام شروع تو کر دیا مگر انسان اور حیوان کے ہاتھ میں فرق ہوتا ہے اور حیوان ایسی آسانی سے ہاتھ نہیں ہلا سکتا جتنی آسانی سے انسان ہلا سکتا ہے۔ وہ مکھی اڑائے لیکن وہ پھر آ بیٹھے۔ پھر اڑائے پھر آ بیٹھے۔ اس نے خیال کیا کہ مکھی کا بار بار بیٹھنا میرے دوست کی ماں کی طبیعت پر بہت گراں گزرتا ہو گا۔ چنانچہ اس کا علاج کرنے کے لئے اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور اسے دے مارا تا کہ مکھی مر جائے۔ مکھی تو مر گئی مگر ساتھ ہی اس کی ماں بھی کُچلی گئی۔ یہ ایک مثال ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض نادان کسی سے دوستی کرتے ہیں مگر دوستی کرنے کا ڈھنگ نہیں جانتے۔ وہ بعض دفعہ خیر خواہی کرتے ہیں مگر ہوتی دراصل تباہی ہے۔ اگر اپنے دوست کے سچے خیر خواہ ہوتے تو بے ایمانی کی طرف نہ لے جاتے بلکہ اگر اسے اس طرف مائل بھی دیکھتے تو اسے روکتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی کا نقشہ کیا خوب کھینچا ہے۔ فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ کیا بات ہے؟ کیا ہم ظالم کی مدد بھی کیا کریں۔ آپؑ نے فرمایا: جب تُو ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکے تو تُو اس کی مدد کرتا ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 13 صفحہ 204-205)

پس اصل مطلب یہ نہیں کہ اپنے دوست کی ہر حال میں مدد کرو اور اس کی مرضی کے مطابق چلو بلکہ اصل دوستی یہ ہے کہ دوست کے فائدے کے لئے اس کے خلاف بھی چلنا پڑے تو چلو۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو اسے تباہ کرتے ہو یا کسی اور ذریعہ سے اسے نقصان پہنچاتے ہو۔ اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں۔ حضرت مصلح موعودنے وہاں قادیان کی ایک مثال دی جب یہ فرمایا تھا کہ کسی شخص کا کسی سے جھگڑا ہوا۔ اس کے ایک دوست نے بغیر سوچے سمجھے، ناحق دوستی کا حق ادا کرنے کے لئے یا دوستی کا حق ادا کرنے کے دھوکے میں اس جھگڑے میں خوب حصہ لیا۔ پہلا شخص تو اپنی فطری نیکی کی وجہ سے پھر اپنی جگہ پر آ گیا، جھگڑا ختم ہو گیا، صلح ہو گئی اور یہ دوست جس نے اس کی خاطر اس میں حصہ لیا تھا اس جھگڑے میں مرتد ہو گیا۔ پس دوستیاں جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہیں، دوستوں کو فائدہ دلاتی ہیں، وہاں بعض دفعہ دوستوں کی تباہی و بربادی بھی کرتی ہیں اور اپنی بھی کرتی ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہمیشہ دوستیوں کے حق ادا کرنے کے لئے عقل بھی استعمال کرنی چاہئے اور جذبات کو بھی کنٹرول رکھنا چاہئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی ریچھ تھا۔ اس کا ایک آدمی سے دوستانہ تھا۔ اس کی بیوی ہمیشہ اسے طعن کیا کرتی تھی کہ تُو بھی کوئی آدمی ہے تیرا ریچھ سے دوستانہ ہے۔ ایک دن اس کی دل آزار گفتگو اس قدر بڑھ گئی اور ایسی بلند آواز سے اس نے کہنا شروع کیا کہ ریچھ نے بھی سن لیا۔ ریچھ نے تب ایک تلوار لی اور اپنے دوست سے کہا کہ یہ تلوار میرے سر پر مارو۔ (اس گفتگو کے متعلق حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ صرف ایک کہانی ہے یہ بتانے کے لئے کہ کوئی آدمی ریچھ کی شکل کا ہوتا ہے اور کوئی انسان کی صورت کا۔ ہر ایک کی فطرت ہوتی ہے۔ انسانوں میں بھی کئی ریچھ ہوتے ہیں۔ کئی انسان کہلا کر بھی دوسرے حیوان بنے ہوتے ہیں۔) اس شخص نے بہتیرا انکار کیا مگر ریچھ نے کہا کہ ضرور میرے سر پر مار۔ آخر اس نے تلوار اٹھائی اور ریچھ کے سر پر ماری۔ وہ لہولہان ہو گیا اور جنگل کی طرف چلا گیا۔ ایک سال کے بعد پھر اپنے دوست کے پاس آیا اور کہنے لگا میرا سر دیکھ۔ کہیں زخم کا نشان ہے؟ اس نے دیکھا تو کہیں زخم کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ تب ریچھ نے کہا کہ بعض جنگل میں بوٹیاں ہوتی ہیں۔ مَیں نے علاج کیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ لیکن تیری بیوی کے قول کا زخم، (جو تیری بیوی میرے خلاف باتیں کرتی تھی اس کا زخم) آج تک میرے دل میں ہرا ہے۔ تو بعض اوقات تلوار کے زخم سے زبان کا زخم بہت شدید ہوتا ہے اور یہ تلوار ایسا زخم لگاتی ہے جو کبھی بھولنے میں نہیں آتا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 32)

پس معاشرے کے امن کے لئے، سکون کے لئے، اس بات کا بھی ہر ایک کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور بلا وجہ ایسی زبانوں کے تیر نہ چلائیں جو ان کے زخم پھر ہمیشہ ہرے رہیں۔ اور یہ ایساسبق ہے جسے ہمیشہ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے کے بعد اپنے ایمان کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے اور بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہیں جو ایمان کو ضائع کر دیتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ایک شخص اپنے دوست کی مددکرنے کی وجہ سے بعد میں پھر ایمان سے ہی جاتا رہا اور مرتد ہو گیا۔ بعض دفعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف باتیں کی جائیں تو ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت موسیٰ کے قصے میں اس کی مثال موجود ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس قصے کو بارہا بیان فرمایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ جب مصر سے نکلے تو راستے میں عمالیق سے مقابلہ آن پڑا۔ (یہ حضرت نوح کی اولاد میں سے ایک قبیلہ تھا جو کہا جاتا ہے اسرائیلیوں کے بڑا خلاف تھا۔ بہرحال) ان کے بادشاہ کو خطرہ ہوا کہ ہم شکست کھا جائیں گے۔ ان کے ہاں ایک بزرگ تھا۔ بادشاہ نے اس سے دعا کی درخواست کی۔ اس نے دعا کی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ موسیٰ خدا کا نبی ہے۔ اس کے خلاف دعا نہیں کرنی چاہئے۔ اس نے بادشاہ کو کہہ دیا کہ موسیٰ کے خلاف دعا نہیں ہو سکتی۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا کہ میری کوئی بات کارگر نہیں ہوتی تو اس نے وہی چال چلی جو آدم کو جنت سے نکلوانے کے لئے شیطان نے چلی تھی۔ (ہمیشہ سے شیطان کا یہی اصول رہا ہے۔) حوّا کے ذریعہ سے پھسلایا تھا اسی طرح اس نے بھی بہت سے زیورات وغیرہ تیار کرائے اور موسیٰ کے برخلاف دعا کرانے کے لئے اس بزرگ کی بیوی کو دئیے۔ اس نے تحریک کی مگر اس بزرگ نے جواب دیا کہ موسیٰ خدا کا مقرب ہے۔ اس لئے اس کے خلاف بددعا نہیں ہو سکتی۔ مَیں نے کی تھی مگر وہاں سے جواب مل گیا ہے۔ لیکن وہ مُصِر ہوئی اور کہا کہ کیا ضرور ہے کہ اب بھی وہی حالات ہوں تم بددعا تو کرو۔ آخر وہ رضامند ہو گیا۔ اس کو ایک جگہ لے گئے۔ اس نے کہا کہ یہاں سینہ نہیں کھلتا۔ اور اس طرح دو تین جگہ بدلی گئیں۔ آخر چونکہ اس بزرگ کا ایمان جانا تھا اس نے بددعا کی۔ کہتے ہیں کہ جونہی اس نے بددعا کی موسیٰ کی قوم میں تباہی پڑ گئی کیونکہ اس کے پہلے ایمان کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ (یعنی کہ ان کی جو ایمان کی کمزوری تھی۔ اس قوم میں تباہی ان کے اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہوئی۔ انہوں نے ایک عارضی طور پہ نقصان اٹھایا۔) اور ادھر یہ بزرگ جو بنا ہوا تھا اس کا ایمان کبوتر کی شکل میں اڑ گیا۔ اس کا ایمان بھی ختم ہو گیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا کہ دعا نہیں کرنی لیکن دعا کی اور اس کو سزا یہ ملی کہ آئندہ سے موسیٰ کے خلاف دعا کرنے کی وجہ سے اس کی بزرگی کا جو رتبہ تھا، مقام تھا وہ ختم ہو گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور قرب کا جو اعزاز تھا وہ بھی ضائع ہو گیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ بیشک یہ ایک قصہ ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کبوتر ہاتھ سے نکل جاتا ہے اسی طرح ایمان اس کے دل سے نکل گیا۔ (پس چونکہ ایمان محنت سے آتا ہے اور جاتا ایک فقرہ میں ہے۔ ایمان لانا، قبول کرنا، کسی چیز کو تسلیم کرنا، اور پھر اس ایمان میں بڑھنا اس پہ بڑی محنت لگتی ہے۔ لیکن ایک معمولی سی بات ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ایک فقرہ ہے، ایک بات ہے جِس سے پھر ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔) اس لئے ضرورت ہے کہ انسان ہر وقت ہوشیار رہے‘‘۔ اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 6 صفحہ 340-341)

ذکر الٰہی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی بزرگ کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ دست در کار ودل بایار۔ یعنی انسان کے ہاتھ تو کاموں میں مشغول ہونے چاہئیں لیکن اس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ مَیں کتنی دفعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کروں۔ انہوں نے کہا کہ محبوب کا نام لینا اور پھر گن گن کر۔ تو اصل ذکر وہی ہے جو اَن گنت ہو۔ مگر ایک معیّن وقت مقرر کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اُس وقت اپنے محبوب کے لئے اَور کاموں سے بالکل الگ ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ دونوں حالتیں ضروری ہیں اس لئے صحیح طریق یہی ہے کہ معیّن رنگ میں بھی ذکر الٰہی کیا جائے (آجکل دنیاداری میں پڑے ہوئے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ اس لئے ان کو بہرحال وقت نکالنا چاہئے۔ وقت بھی نکالیں ) اور غیر معیّن طور پر بھی اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے اور اس کے فضلوں اور احسانات کا بار بار ذکر کیا جائے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 309)

دین کی باتوں کو غور سے سننا، انہیں یاد رکھنے کی کوشش کرنا اور پھر اس پرعمل کرنا یہ ایک احمدی کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ خطبوں کو سن لینا، تقریروں کو سن لینا، اجلاسوں میں شامل ہو جانا یا وقتی طور پر کسی کتاب کو پڑھ لینا اور اس کا وقتی اثر لینا، اس کو یادنہ رکھنا یا عمل نہ کرنا یہ انسان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں ان کی تربیت کے لئے مختلف لیکچر دینے شروع کئے اور کئی دن تک آپ لیکچر دیتے رہے۔ ایک دن آپ نے فرمایا کہ ہمیں عورتوں کا امتحان بھی لینا چاہئے تا معلوم ہو کہ وہ ہماری باتوں کو کہاں تک سمجھتی ہیں۔ باہر سے ایک خاتون آئی ہوئی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے پوچھا۔ بتاؤ مجھے آٹھ دن لیکچر دیتے ہو گئے ہیں۔ مَیں نے ان لیکچروں میں کیا بیان کیا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ یہی خدا اور رسول کی باتیں آپ نے بیان کی ہیں اَور کیا بیان کیا ہے۔ آپ کو اس جواب سے اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ نے لیکچروں کے اس سلسلے کو بھی بند کر دیا اور فرمایا کہ ہماری عورتوں میں بھی اس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ بہت ابتدائی تعلیم کی محتاج ہیں۔ اعلیٰ درجہ کی روحانی باتیں سننے کی ان میں استعداد ہی نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہی بعض مَردوں کا حال ہے۔‘‘ (بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ بہت سے مَردوں کا اب یہ حال ہے۔ اب بعض جگہ تو اس کے الٹ بھی ہو رہا ہے کہ بعض عورتیں مردوں سے زیادہ علم رکھتی ہیں اور جب اپنے مردوں کو یاد کرواتی ہیں کہ یہ دین کی بات ہے اس پر عمل کرو تو بعض ایسی شکایتیں بھی آتی ہیں کہ مردوں کا جواب ہوتا ہے کہ دین تو بہت کچھ کہتا ہے ہم تو اسی طرح رہیں گے اور اسی طرح کریں گے جو ہماری مرضی ہو۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ جب اس قسم کی ڈھٹائی آ جائے تو پھر گراوٹ ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر انسان دین سے بالکل دُور ہٹ جاتا ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ) ’’اس کے مقابلے پر صحابہ کو دیکھو۔ وہ کس طرح رات اور دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سنتے اور ان پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ انہوں نے آپ کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو لیا اور دنیا میں نہ صرف اس کو پھیلا دیا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں ہیں۔ ان کو پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی جماعت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ مگر یاد رکھو صرف لذت حاصل کرنے کے لئے تم ایسا مت کرو بلکہ فائدہ اٹھانے اور عمل کرنے کی نیت سے تم ان امور کی طرف توجہ کرو۔ تم لذت حاصل کرنے کے لئے سارا قرآن پڑھ جاؤ تو تمہیں کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہوئے اس کی محبت کے جوش میں ایک دفعہ بھی سُبحان اللہ کہہ لو تو وہ تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ مجلس میں بیان فرمایا کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کرتے ہیں تو ایک تسبیح سے ہی ہم کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ مَیں اس مجلس میں موجودنہیں تھا۔ ایک نوجوان نے یہ بات سنی تو وہاں سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ خبر نہیں آج حضرت صاحب نے یہ کیا کہا ہے۔ وہ صاحبِ تجربہ نہیں تھا مگر مَیں اس عمر میں بھی صاحبِ تجربہ تھا حالانکہ میری عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی۔ میں نے جب اس سے یہ بات سنی تو مَیں نے کہا ہاں ایسا ہوتا ہے۔ کہنے لگا کس طرح؟ مَیں نے کہا کئی دفعہ مَیں نے دیکھا ہے کہ مَیں نے اپنی زبان سے ایک دفعہ سبحان اللہ کہا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے میری روحانیت اُڑ کر کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے۔ وہ دل سے نکلی ہوئی سبحان اللہ ہوتی ہے۔ صرف منہ سے نہیں ہوتی۔ تو وہ یہ سنتے ہی نہایت تحقیر سے کہنے لگا کہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اس نے کبھی سنجیدگی سے سُبحان اللہ کے مضمون پر غور ہی نہیں کیا۔ اسے سارا سارا دن سبحان اللہ کہہ کر کچھ نہیں ملتا تھا مگر میں اپنے ذاتی تجربے کی وجہ سے جانتا تھا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب میں نے سبحان اللہ کہا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ پہلے میں اَور تھا اور اب میں کچھ اَور بن گیا ہوں۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مضمون کو کس عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے حالانکہ میں نے اس وقت تک بخاری نہیں پڑھی تھی مگر میرا تجربہ صحیح تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلٰی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ۔ دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمان کو بہت پیارے ہیں۔ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ۔ زبان پر بڑے ہلکے ہیں۔ انسان ان الفاظ کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال سکتا ہے۔ کوئی بوجھ اسے محسوس نہیں ہوتا۔ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ۔ لیکن قیامت کے دن جب اعمال کے وزن کا سوال آئے گا تو وہ بڑے بھاری ثابت ہوں گے اور جس پلڑے میں وہ ہوں گے اسے بالکل جھکا دیں گے اور وہ کیا ہیں کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’مجھے ان کلمات کے پڑھنے کی بڑی عادت ہے اور مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ ایک مرتبہ ہی ان کلمات کو کہنے سے میری روح اڑ کر کہیں کی کہیں جا پہنچتی ہے‘‘۔ تو اصل چیز یہی ہے کہ ہم سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر غور کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحہ 118 تا 121)

پس یہی حقیقت ہے کہ بعض دفعہ دل سے تسبیح اور تحمید جو ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنا اثر دکھا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے جو جہاں ہمارے اندر قوت عملیہ پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائے وہاں ہم ایسی تسبیح و تحمید کرنے والے ہوں جو ہماری روح کو بلندیوں پر لے جائے اور ہمیں خدا تعالیٰ کا قُرب مل جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 29؍ جنوری 2016ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ مخفی ہے مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دعا کے ذریعہ سے اس کی ہستی کا پتا لگتا ہے‘‘۔ بیشمار جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف طریقوں سے، مختلف زاویوں سے اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے اس کا ایسا اِدراک حاصل کیا اور آپ علیہ السلام کی صحبت کی وجہ سے ان کا دعاؤں پر ایسا یقین تھا اور ایسا ایمان تھا کہ غیروں پر بھی ان کی دھاک تھی اور غیر مذہب والے بھی جو احمدیوں سے تعلق رکھنے والے تھے، سمجھتے تھے کہ ان کی دعائیں بڑی قبول ہوتی ہیں۔ جماعت میں ایسے افراد کی اکثریت ہونی چاہئے کہ جن کی حسّیں ایسی ہوں جو روحانی اثرات کو زیادہ سے زیادہ قبول کرنے والی ہوں اور پھر دنیا کو بتانے والی ہوں کہ حقیقی نماز کیا چیز ہے۔ حقیقی عبادت کیا چیز ہے۔ اور اس کے لئے کس قسم کی حس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

    حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اب بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی یورپین ملکوں کی نسبت امریکہ میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔ اور وہ بھی مغربی علاقے میں ہی ہیں مگر امریکہ میں ترقی کے زیادہ آثار پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ امریکہ کی جماعت ایسے نیک فطرت لوگوں کی تلاش کرے اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کرے اور اس کے لئے ٹھوس اور مربوط کوشش ہو۔ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس امید کا اظہار کیا ہے وہ حقیقت بن جائے۔

    بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں۔ گوبعض کہانیاں بے معنی اور بیہودہ ہوتی ہیں مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں۔ اور جب بچے کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیزیں کھیلیں ہیں۔ اگر ماں باپ دونوں مل کر بچوں کی تربیت پر زور دیں۔ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں۔ ان کی صحیح تربیت کریں۔ ان کو اپنے ساتھ جوڑیں تو یقینا بہت سے تربیت کے مسائل حل ہو جائیں جس کی ماں باپ کو شکایت رہتی ہے۔

    دوستیاں جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہیں، دوستوں کو فائدہ دلاتی ہیں، وہاں بعض دفعہ دوستوں کی تباہی و بربادی بھی کرتی ہیں اور اپنی بھی کرتی ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہمیشہ دوستیوں کے حق ادا کرنے کے لئے عقل بھی استعمال کرنی چاہئے اور جذبات کو بھی کنٹرول رکھنا چاہئے۔

    معاشرے کے امن کے لئے، سکون کے لئے اس بات کا بھی ہر ایک کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور بلا وجہ ایسی زبانوں کے تیر نہ چلائیں جو ان کے زخم پھر ہمیشہ ہرے رہیں۔ اور یہ ایساسبق ہے جسے ہمیشہ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے کے بعد اپنے ایمان کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے اور بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہیں جو ایمان کو ضائع کر دیتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف باتیں کی جائیں تو ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔

    دین کی باتوں کو غور سے سننا، انہیں یاد رکھنے کی کوشش کرنا اور پھر اس پرعمل کرنا یہ ایک احمدی کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ خطبوں کو سن لینا، تقریروں کو سن لینا، اجلاسوں میں شامل ہو جانا یا وقتی طور پر کسی کتاب کو پڑھ لینا اور اس کا وقتی اثر لینا، اس کو یادنہ رکھنا یا عمل نہ کرنا یہ انسان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں ہیں ان کو پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی جماعت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ مگر یاد رکھو صرف لذت حاصل کرنے کے لئے تم ایسا مت کرو بلکہ فائدہ اٹھانے اور عمل کرنے کی نیت سے تم ان امور کی طرف توجہ کرو۔

    حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ روایات کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ اور ان کی روشنی میں احباب جماعت کو اہم نصائح۔

    فرمودہ مورخہ 29؍جنوری 2016ء بمطابق29صلح 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور