جھوٹ سے بچنے اور سچائی پر قائم رہنے کی تاکیدی نصائح
خطبہ جمعہ 5؍ فروری 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک جلسے پر ایک صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اس قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم کا زندہ آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ وفات پا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا امر نہیں جو ہمارے درمیان اور ان کے درمیان قابل نزاع ہو۔ کیونکہ اس بات سے بہت سی باتیں اور آپ کی بعثت کا مقصد واضح نہیں ہوتا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باوجود طبیعت کی خرابی کے اس دن اس بات کا نوٹس لیا کہ صرف اتنا فرق نہیں ہے۔ آپ نے 27؍دسمبر 1905ء کو خود اس بات کی وضاحت کے لئے ایک تقریر فرمائی جس میں آپ نے فرمایا کہ میری بعثت کا مقصد صرف اتنے سے فرق کو ظاہر کرنا نہیں ہے۔ اتنی سی بات کے لئے، اتنے چھوٹے کام کے لئے اللہ تعالیٰ کو سلسلہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس میں آپ نے بہت سی باتیں بیان فرمائیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 334-335۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان) فرمایا ٹھیک ہے وفات مسیح کے عقیدہ کا ایک فرق ہے۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی عملی حالت بھی بگڑ چکی تھی اور اس بارے میں پھر آپ نے تفصیل سے فرمایا۔ ان عملی حالتوں کے بارے میں جو باتیں آپ نے بیان فرمائیں جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بن رہی ہیں اور جن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے ان میں سے ایک جھوٹ سے بچنا اور سچائی کا قیام ہے۔ اور آپ نے جماعت کو اس حوالے سے نصیحت کی کہ اپنے سچائی کے معیاروں کو بلند کرو اور اپنے اور غیر میں اس فرق کو ظاہر کرو۔ صرف ایمان لے آنا اور آپ کی بعثت کو سچا مان لینا کچھ کام نہیں آتا۔
آپ کے الفاظ میں یہ باتیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اگر ہم میں سے ہر ایک انصاف سے اپنا جائزہ لے تو بہت سے ایسے ہیں جن کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ جو معیار حاصل کرنے کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے جس کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے وہ معیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی حقیقی مومنوں کی یہی نشانی بتائی ہے کہ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان: 73) کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ پھر شرک اور جھوٹ کے بارے میں بتایا کہ ان سے بچو۔ اکٹھا کیا شرک اور جھوٹ کو۔ گویا جھوٹ کا گناہ بھی شرک کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ جیسا کہ مَیں نے پڑھا ’’زُور‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں جھوٹ، غلط بیانی، غلط گواہی، خداتعالیٰ کے شریک ٹھہرانا، ایسی مجلسیں یا جگہیں جہاں جھوٹ عام بولا جاتا ہو۔ اسی طرح گانے بجانے اور فضولیات اور غلط بیانیوں کی مجالس یہ ساری زُور کے معنوں میں آتی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے مومن بندے وہ ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے۔ جو ایسی جگہوں پر نہیں جاتے جہاں فضولیات اور جھوٹ بولنے والوں کی مجلس جمی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں بناتے۔ نہ ہی ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں مشرکانہ کام ہو رہے ہوں۔ اور پھر کبھی جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔ پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرح جھوٹ سے بچے تو ایک ایسی تبدیلی وہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے جو حقیقی مومن بناتی ہے۔
بہرحال اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطاب کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جس میں جھوٹ کے بارے میں آپ نے فرمایا۔ اس کو غور سے سنیں۔ آج ہم میں سے بھی بہت یا کافی تعداد تو ایسی ہے جس کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے بگڑنے اور ان کے تفرقے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حُبِّ دنیا ہی ہوئی ہے‘‘۔ (حُبِّ دنیا کا پیچھے سے ایک ذکر چل رہا ہے۔ اس بارے میں آپ نے فرمایا یہ حُبّ دنیا ہی ہے جو مسلمانوں میں پھاڑ ڈالنے کا موجب ہے) ’’کیونکہ اگر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کرکے ایک ہوجاتے۔ اب جبکہ حُبِّ دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جاسکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں‘‘ ہے۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا(کہ) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا۔ اب اس حُبّ اللہ کی بجائے اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حُبّ الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔‘‘(آپ سوال اٹھاتے ہیں کہ) ’’کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے؟‘‘ (دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف ڈوب جاؤ) ’’کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیادار تھے؟ کیا وہ سُود لیاکرتے تھے؟ یا فرائض اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ میں معاذ اللہ نفاق تھا؟ مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو۔ اِتباع تو یہ ہے کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے نقش قدم پر چلو‘‘ (آپ تو دین کو دنیا پر مقدم کرتے تھے نہ کہ دنیا کو دین پر) ’’اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’آپ کے نقش قدم پر چلو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے۔ صحابہؓ نے وہ چلن اختیار کیا تھا۔ پھر دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا۔ انہوں نے دنیا پر لات ماردی تھی اور بالکل حُبِّ دنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی۔ اب تم اپنی حالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔ کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 348-349۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا۔ وہ مجسٹریٹ تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میرے پاس ایک شخص آیا جس کو مَیں جانتا تھا۔ تاریخ تھی گواہوں کی پیشی ہونی تھی۔ اس نے کہا کہ مجھے اگلی تاریخ دے دیں میرے گواہ نہیں حاضر ہوئے۔ تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اسے مذاق سے کہا کہ مَیں تو تمہیں بڑا عقل مند سمجھتا تھا تم تو بڑے بیوقوف نکلے۔ گواہ کہاں سے تم نے لانے ہیں۔ باہر جاؤ کسی کو آٹھ آنے روپیہ دو وہ تمہارے گواہ بن کے آ جائیں گے۔ خیر وہ شخص باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو تین آدمی گواہ لے آیا اور گواہ سے جب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جرح کرتے تھے تو وہ جواب دیتا ہاں مَیں نے دیکھا اس طرح واقعہ ہوا ہے، اس طرح واقعہ ہوا ہے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کہتے ہیں کہ مَیں دل دل میں ہنس رہا تھا بلکہ اس کے سامنے ہی ہنس رہا تھا کہ میرے کہنے پہ یہ باہر گیا ہے، گواہ لے کے آیا ہے اور گواہ کتنی صفائی سے میرے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں اور خدا کی قسم کھا کر، قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ تو اس کے بعد جب انہوں نے گواہی دے دی۔ مَیں نے انہیں کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ قرآن ہاتھ میں پکڑ کر قرآن کے اوپر گواہی دے رہے ہو اور میرے سامنے لے کے آئے ہو۔ (ماخوذ از’اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو‘، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 291)
تو یہ گواہوں کا حال ہے اور آج بھی یہی حال ہے۔ جماعت کے خلاف تو مقدمات میں ہمیں اکثر نظر آتا ہے کہ بہت سارے لوگ جو موجود بھی نہیں ہوتے وہ گواہ بن کے کسی کے مقدمے میں پیش ہو جاتے ہیں۔ تو بہرحال فرماتے ہیں کہ ’’آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔ جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں۔ جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں‘‘۔ (سارے کاغذات documents جھوٹے بنا لئے جاتے ہیں۔ کسی سرکاری افسر کو پیسے دئیے اور جھوٹے بنا لئے) ’’کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے۔‘‘ (یعنی سچ سے دُور ہی رہیں گے اور آجکل تو یہ حالت پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے) ’’اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟‘‘ (سلسلے کی ضرورت کے بارے میں آپ نے ان اخلاق کو پیش کیا اور بتایا کہ کیا صرف اتنا ہی کہہ دینا کہ مسیح آسمان پر نہیں ہے اور زمین میں فوت ہو چکے ہیں اور اب جس نے آنا تھا وہ آگیا ہے کافی ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو قائم کرنے ہوں گے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔ فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے‘‘۔ فرمایا ’’جیسااحمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بُت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ توکہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں۔ مگر مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 349-350۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ:
’’ستائیس اٹھائیس سال کا عرصہ گزرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رَلیارام تھا اور وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا‘‘۔ (اب یہ واقعہ ہم میں سے کئی لوگوں نے سنا ہوا ہے۔ بیان بھی کرتے ہیں۔ لیکن صرف بیان کرتے ہیں۔ عمل ہم میں سے بھی بعض نہیں کر رہے ہوتے) فرمایا کہ ’’اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید بھی تھی اس لیے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لیے یہ موقعہ ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے۔ سو اُس نے مخبربن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا۔ اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رَلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لیے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تَل کر واپس بھیج دیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام آسکتی ہے۔
غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لیے مشورہ لیا گیاانہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے (جھوٹ بولنے کے)او رکوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رَلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا۔ اور نیز بطور تسلّی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہو جائے گی‘‘۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وکیل مشورہ دے رہے ہیں کہ جھوٹے گواہ پیش کرو)۔ ’’ورنہ‘‘ (وکیلوں نے کہا کہ) ’’صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی (کا) نہیں (ہے)۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ) ’’مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جو ہوگا سو ہوگا۔ تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بِلا توقّف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط او رمیر اہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصاں رسانی محصول کے لیے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا‘‘ (حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے، اس کے پیسے ہضم کرنے کے لئے یہ کام نہیں کیا تھا) ’’بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نَج کی بات تھی۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا او ر میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریر یں انگریزی میں کیں جن کو مَیں نہیں سمجھتا تھا۔ مگر اس قدر مَیں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو (No,No) کرکے اس کی سب باتوں کو ردّ کر دیتا تھا۔ انجام کارجب وہ افسر مدعی اپنی تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطریا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لیے رخصت‘‘(ہے)۔ ’’یہ سن کرمیں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ اُس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے؟ تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا کہ خیر ہے، خیر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 350 تا 353 حاشیہ۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’مَیں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں۔ سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارہ نہیں۔ مَیں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے‘‘۔ (یہ ڈاکخانے والا واقعہ، عدالت والا واقعہ)فرمایا کہ ’’مَیں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہوگئی۔ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق: 04)‘‘۔ (جو اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یقینایاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طو رپر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں۔ مگر مَیں کیونکر اس کو باور کروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں‘‘(ایک لفظ) ’’بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟‘‘ (یہ کس طرح ہو سکتا ہے) ’’اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی‘‘۔ (اگر کسی نے سچ بولا اور کسی مقدمہ میں یا کسی وجہ سے اس کو اگر کوئی سزا ملی ہے تو اس وجہ سے نہیں ملی کہ اس نے یہ سچ بولا تھا اور اگر وہ جھوٹ بولتا تو سزا نہ ملتی بلکہ فرمایا) ’’وہ سزا اُن کی بعض اَور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے‘‘ (جو دوسرے گناہ کئے ہوتے ہیں، چھپے ہوئے گناہ کئے ہوتے ہیں بعض دفعہ ان کی سزا ہوتی ہے) ’’اور کسی اور جھوٹ کی (سزا) ہوتی ہے۔ خد اتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پالیتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کس طرح بعض دفعہ دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے اس کی سزا بڑی مل رہی ہوتی ہے۔ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’میرے ایک استاد گل علی شاہ بٹالے کے رہنے والے تھے۔ وہ شیر سنگھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شیر سنگھ نے اپنے باورچی کو محض نمک مرچ کی زیادتی پر بہت مارا تو چونکہ وہ بڑے سادہ مزاج تھے‘‘ (یہ استاد جو تھے گل علی شاہ صاحب) ’’انہوں نے کہاکہ آپ نے (اس کو مار کے) بڑا ظلم کیا‘‘۔ (بیچارے نے کھانے میں نمک ہی زیادہ ڈالا تھا ناں ) ’’اس پر شیر سنگھ نے کہا۔ مولوی جی کو خبر نہیں اس نے میرا سو بکرا کھایا ہے۔ اسی طرح پر انسان کی بدکاریوں کا ایک ذخیرہ ہوتاہے اور وہ کسی ایک موقعہ پر پکڑا جاکر سزا پاتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’جو شخص سچائی اختیار کرے گا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ذلیل ہو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کی حفاظت جیسااور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں‘‘ (ہے)۔ لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدت بھوک کے وقت ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا۔ بالکل نہیں۔ بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھانا نہ کھالے تسلی نہ ہوگی۔ اسی طرح پر جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ ناقص اعمال اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے اور نہ وہ بابرکت ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو۔ پھر مَیں برکت دوں گا‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’غرض یہ باتیں دنیا دار خود ہی بنالیتے ہیں کہ جھوٹ اور فریب کے بغیر گزارہ نہیں۔ کوئی کہتا ہے فلاں شخص نے مقدمہ میں سچ بولا تھا اس لیے چار برس کو دھراگیا۔ مَیں پھر کہوں گا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جو عدم معرفت سے پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
فرمایا ’’کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘۔ (یعنی کمال حاصل کر تا کہ تو دنیا کا پیارا بن جائے۔ یہ اپنی کمزوریاں ہیں جو جھوٹ بلواتی ہیں۔ اگر نیکیوں کی طرف توجہ ہو اور انسان اس پر بڑھنے کی کوشش کرے، اللہ تعالیٰ پر توکل ہو تو پھر یہ سزائیں اس طرح نہیں ملا کرتیں۔ ) فرمایا ’’یہ نقص کے نتیجے ہیں‘‘۔ (یہ اپنی کمزوریوں کے جو نقص ہیں اس کے نتیجے ہیں کہ سزائیں ملتی ہیں ) ’’کمال ایسے ثمرات پیدانہیں کرتا۔ ایک شخص اگر موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپا بھرے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا‘‘۔ (یعنی کوئی ٹانکا لگا دے کھدر کی چادر میں تو اس سے اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا اچھا درزی ہے، اس کو سینا آتا ہے) ’’اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا۔ اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کردے گا‘‘۔ فرمایا ’’پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں۔ خد اتعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قدر نہیں۔ لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں۔ اگر اخلاص ہو تو اللہ تعالیٰ تو ایک ذرّہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے تو خود فرمایا ہے۔ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ (الزلزال: 8)‘‘۔ (کہ جس نے ذرہ بھر بھی نیکی کی ہو گی وہ اس کا نتیجہ دیکھے گا اور پھل پائے گا) فرمایا ’’اس لئے اگر ذرہ بھربھی نیکی ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کرکے پھل نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیاہے۔ اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البیّنۃ: 6) یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرو۔ ) (ملفوظات جلد 8 صفحہ 351 تا 355۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اب یہ سب باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں اور بڑے درد کے ساتھ بیان فرمائی ہیں اور جیسا کہ مَیں نے بتایا اس حوالے سے بیان فرمائی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے آنے یا نہ آنے کے عقیدے سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو شرک سے بکلی پاک کرو اور اپنی عملی حالتوں کو ایسا بناؤ کہ شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ سچائی کو قائم کرو اور جھوٹ سے نفرت کرو۔ اب ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر احمدی جائزہ لے مثلاً بعض باتیں ایسی ہیں۔ چند بیان کرتا ہوں۔ مقدمات میں یہ جائزہ لیں کہ مقدمات میں ہم غلط بیانیوں سے کام تو نہیں لیتے۔ پھر ہم کاروباروں میں منافع کی خاطر غلط بیانی سے کام تو نہیں لیتے۔ پھر ہم رشتہ طے کرتے وقت غلط بیانیاں تو نہیں کرتے۔ کیا ہر طرح سے قول سدید سے کام لیتے ہیں؟ لڑکے کے بارے میں اور لڑکی کے بارے میں سب معلومات دی جاتی ہیں؟ حکومت سے سوشل اور ویلفیئر الاؤنس لینے کے لئے جھوٹ کا سہارا تو نہیں لیتے۔ اس بارے میں تو بہت سے لوگوں کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا ہے کہ اپنی آمد چھپا کر حکومت سے الاؤنس لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ٹیکس کی ادائیگی بھی نہیں کی جاتی۔ یہاں ٹیکس بھی چوری ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اب جو عمومی معاشی حالات دنیا کے ہیں ہر حکومت مسائل کا شکار ہو رہی ہے یا ہو گئی ہے اور اگر نہیں ہوئی تو ہو جائے گی۔ اس لئے اب حکومتیں گہرائی میں جا کر حقیقت جاننے کی کوشش کرتی ہیں اور کر رہی ہیں۔ پس اگر حکومت کے سامنے کوئی غلط معاملہ آ جاتا ہے تو جہاں یہ باتیں اس شخص کے لئے مشکلات پیدا کریں گی وہاں احمدیت کی بدنامی کا باعث بھی بنیں گی اگر یہ پتا ہو کہ وہ شخص احمدی ہے۔
پس جو اس لحاظ سے کسی بھی غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں وہ دنیاوی فائدے کو نہ دیکھیں۔ تھوڑے سے میں گزارہ کر کے جھوٹ سے بچ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ پھر اسائلم کے معاملات ہیں اس میں اپنے جائزے لیں کہ غلط بیانی سے کام تو نہیں لیا جا رہا۔ یقینا وکیل اس کے لئے ابھارتے ہیں اور یہ ہمیشہ سے وکیلوں کا وطیرہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ آپ کو بھی کہا کہ جھوٹ بولیں اور جھوٹے گواہ پیش کر دیں۔ اسی طرح عہدیدار بھی اپنے جائزے لیں کہ کیا وہ اپنی رپورٹس میں غلط بیانی تو نہیں کرتے یا کوئی ایسی بات تو نہیں چھوڑ دیتے جس کی اہمیت ہو۔ پہلے بھی میں نے ایک دفعہ ایک خطبہ میں کہا تھا کہ پوری طرح قول سدید سے اگر کام نہ لیا جائے تو وہ بھی غلط ہے۔ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے معاملات نپٹائے جانے چاہئیں۔ (خطباتِ مسرور جلد 10 صفحہ 539 خطبہ فرمودہ 7 ستمبر 2012ء) پس بہت گہرائی میں جا کر معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنے مفادات سے باہر نکل کر اپنی اَناؤں سے باہر نکل کر خدا تعالیٰ کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معاملات نپٹائے اور اس طرح اپنے معاملات نپٹانے چاہئیں۔ اگر یہ سب کچھ نہیں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ سب کچھ حُبِّ دنیا کا اظہار ہے اور حُبِّ دنیا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے تفرقہ کی طرف لے کر جاتی ہے اور تفرقہ سے پھر ظاہر ہے جماعت کی اکائی بھی قائم نہیں رہتی یا کم از کم اس معاشرے میں اس حلقے میں ایک فتنہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اکائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا کرنے آئے تھے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ حُبِّ دنیا کی وجہ سے ہی باقی فرقے بنے تھے۔ اسی طرح کا پھر ایک فرقہ بن جائے گا۔ گویا کہ ایک برائی سے کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ برائیاں پھر بچے دیتی چلی جاتی ہیں۔ پس احمدی ہو کر ہم پر بہت ذمہ داریاں پڑ رہی ہیں جنہیں ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ حقیقی احمدی تو وہی ہے جو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کی کوشش کرے اور خدا تعالیٰ کا بننے کی کوشش کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اسی تسلسل میں جو پیچھے میں نے بیان کیا ہے فرماتے ہیں کہ ’’یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خد اتعالیٰ کے لیے ہو جاوے خد اتعالیٰ اس کا ہو جاتاہے اور خدا تعالیٰ کسی کے دھوکے میں نہیں آتا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ریاکاری اور فریب سے خدا تعالیٰ کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے۔ وہ خود ہی دھوکا کھارہا ہے۔ دنیا کی زیب، دنیا کی محبت ساری خطاکاریوں کی جڑ ہے‘‘۔ (دنیا کی خوبصورتی اور دنیا کی محبت جو ہے یہ سب خطاکاریوں کی جڑ ہے) ’’اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہئے تھا۔ جس حالت میں عقلمند انسان کسی کے دھوکہ میں نہیں آسکتا تو اللہ تعالیٰ کیونکر کسی کے دھوکہ میں آسکتا ہے۔ مگر ایسے افعالِ بد کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور سب سے بڑا گناہ جس نے اس وقت مسلمانوں کو تباہ حال کر رکھا ہے اور جس میں وہ مبتلا ہیں وہ یہی دنیا کی محبت ہے۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت لوگ اسی غم و ہم میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس وقت کا لحاظ اور خیال بھی نہیں کہ جب قبر میں رکھے جاویں گے۔ ایسے لوگ اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور دین کے لیے ذرا بھی ہمّ و غم رکھتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھا لیتے‘‘۔ فرمایا ’’سعدی (جو فارسی کا شاعر ہے) کہتا ہے: ع گر وزیر از خدا بترسیدے (کاش وزیر خدا سے ڈرتا۔) ملازم لوگ تھوڑی سی نوکری کے لیے اپنے کام میں کیسے چست و چالاک ہوتے ہیں لیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو ذرا ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی باتیں کیوں پید اہوتی ہیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں ہوتی۔ اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اور یقین ہو تو ساری سستی اور غفلت جاتی رہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہئے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہئے۔ اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے۔ وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے۔ لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہاں تک کہ لَا یَخَافُ عُقْبٰھَا (الشمس: 16)۔ پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا۔ برخلاف اِس کے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو عزت دیتا اور خود اُن کے لیے ایک سپر ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ۔ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جاوے اللہ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ جو لوگ اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف آنا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہتھیلی پرسرسوں جمادی جاوے۔ وہ نہیں جانتے کہ دین کے کاموں میں کس قدر صبر اور حوصلہ کی حاجت ہے۔ اور تعجب تو یہ ہے کہ وہ دنیا جس کے لیے وہ رات دن مرتے اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لیے توبرسوں انتظار کرتے ہیں۔ کسان بیج بوکر کتنے عرصہ تک منتظر رہتا ہے۔ لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دو اور پہلے ہی دن چاہتے ہیں کہ عرش پر پہنچ جاویں۔ حالانکہ نہ اس راہ میں کوئی محنت اور مشقت اٹھائی اور نہ کسی ابتلا کے نیچے آیا‘‘۔
فرمایا کہ ’’خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون اور آئین نہیں ہے۔ یہاں ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا کہ ہم کہہ دیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں۔ چنانچہ اس نے فرمایا ہے (کہ) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ (العنکبوت: 03) یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنا ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو۔ یہ امر سنّت اللہ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی اللہ بنادیا جاوے۔ اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایساہی کرتے اور پھر اپنے جان نثار صحابہ کو پھونک مار کر ولی بنا دیتے۔ ان کو امتحان میں ڈلوا کر ان کے سر نہ کٹواتے اور خدا تعالیٰ ان کی نسبت یہ نہ فرماتا کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۔ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا (الاحزاب: 24)‘‘ (پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں۔)
آپ نے فرمایا: ’’پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجیب بے وقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوۂ بے دود سمجھتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے۔ بایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی۔ ہندوؤں میں دیکھو کہ ان کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں ان کی کمریں ماری جاتی ہیں۔ کوئی ناخن بڑھاتا ہے۔ ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی۔ اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیۂ نفس کیا۔ یعنی جس نے ہر قسم کی بدعت، فسق وفجور نفسانی جذبات سے خد اتعالیٰ کے لیے الگ کر لیا۔ اور ہر قسم کی نفسانی لذّات کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا۔ ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلّفات کو چھوڑتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 355 تا 357۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے اندر عملی تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں۔ سچائی کے معیار کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر صرف اپنے مونہوں سے نہیں بلکہ حقیقت میں آپ کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں اور اسے پورا کرنے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی بھرپور کوشش کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم کر کے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم قاسم تورے صاحب مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ کا ہے۔ یہ وہاں کے مقامی باشندے تھے۔ 25؍جنوری 2016ء کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے 1986ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ قبول احمدیت سے قبل آپ ایک ذاتی مدرسہ چلاتے تھے اور احمدیت میں داخل ہونے کے بعد آپ نے وہ اپنا مدرسہ جماعت کو پیش کر دیا جسے بعد میں پرائمری سکول میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1990ء میں جامعہ احمدیہ آئیوری کوسٹ سے مشنری کورس جو مربی کا کورس ہے، معلم کا کورس ہے مکمل کیا اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک آئیوری کوسٹ کے طول و عرض میں تبلیغی دورہ جات کئے۔ بیشمار شہروں اور دیہاتوں میں احمدیت کا پودا لگایا۔ آپ کو دس سال تک بسّم ریجن میں بطور ریجنل مشنری کام کرنے کی بھی توفیق ملی۔ آپ نے تقریباً ایک سال اردو زبان سیکھنے کے لئے صَرف کیا اور پھر وفات تک جُولا زبان میں خطبات جمعہ کے ترجمہ کا کام بھی جاری رکھا۔ مرحوم موصی تھے۔
وہاں کے مبلغ باسط صاحب لکھتے ہیں کہ آپ سے خاکسار کا تعارف 1996ء میں ہوا تھا۔ 86ء سے لے کر اب تک گزشتہ تیس سال سے ان کو جماعتی خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ جماعت سے وفاداری، خلافت سے محبت، کلام امام سے محبت اور اَن تھک محنت ان کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپ نے اپنے شوق سے اردو لکھنی پڑھنی سیکھی تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے براہ راست استفادہ کر سکیں۔ اس کے لئے دو دفعہ قادیان بھی گئے تا کہ اردو سیکھ سکیں۔ واپس آ کر بڑے شوق سے کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں میرے ساتھ اکثر ٹیلیفون پر رابطہ ہوتا تھا۔ مختلف محاورات اور مشکل الفاظ کے بارے میں پوچھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام بھی بڑے شوق اور عشق کے جذبے سے پڑھتے تھے اور اس کا ترجمہ جاننے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوش الحانی عطا کی تھی۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک سفر کے دوران انہوں نے خاکسار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فارسی کلام سیکھنے کی فرمائش کی۔ کہتے ہیں میں نے انہیں ’جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است‘کے تقریباً پانچ اشعار ترنم کے ساتھ سکھائے۔ چنانچہ جب ہم گاؤں میں پہنچے جہاں دورے پہ جا رہے تھے تو وہاں جلسے میں انہوں نے وہ اشعار ترنم سے سنائے۔ اور پھر جُولا زبان میں ان کا ترجمہ بھی کیا۔ اسلام احمدیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ظہور امام مہدی کے بارے میں عربی، جولا اور فرنچ زبان میں بیشمار نظمیں خود انہوں نے کمپوز کیں اور خود ہی ترنم سیپڑھتے بھی تھے جو کہ لوگوں میں بے حد مقبول ہوئیں۔ 2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کے بعدنارتھ ریجن میں جو باغیوں کے کنٹرول میں تھا اور عملاً ملک سے کٹا ہوا تھا وہاں جماعت کے مخالفین نے یہ جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ان کے خلیفہ کی وفات ہو گئی ہے اور اس کے بعد اب جماعت ختم ہو گئی ہے جس سے اس علاقے کے احمدیوں میں بے چینی پھیل گئی۔ جب یہ خبر مرکز میں پہنچی تو قاسم تورے صاحب کو اس جھوٹے پراپیگنڈے کے قلع قمع کے لئے بھیجا گیا۔ ان دنوں میں نارتھ ریجن کا سفر بہت مشکل تھا لیکن قاسم صاحب بس پر، ٹریکٹر ٹرالی پر، موٹر سائیکل پر، گدھا گاڑی پر، پیدل سفر کرتے کراتے جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے ان جماعتوں میں پہنچے۔ وہاں اس علاقے میں دوبارہ تبلیغ کی اور بتایا کہ خلافت کا نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے۔ پھر اس سے احمدیوں کا مورال بلند ہوا۔ چنانچہ اس دورے کے نتیجہ میں بہت سی جماعتوں میں زندگی کی نئی روح پیدا ہوئی اور یوں انہیں جھوٹے پراپیگنڈے کو ختم کرنے کی توفیق ملی۔ تبلیغ کی خاطر آپ اکثر ایک ایک ماہ کے مسلسل دورے کیا کرتے تھے اور بڑی محنت کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی جماعت کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت کا مقصد صرف مسیح ابن مریم کی وفات کو ثابت کرنا نہیں بلکہ عملی حالتوں کی اصلاح ہے۔
وہ باتیں جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بن رہی ہیں اور جن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے ان میں سے ایک جھوٹ سے بچنا اور سچائی کا قیام ہے۔
خدا تعالیٰ کے مومن بندے وہ ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے۔ جو ایسی جگہوں پر نہیں جاتے جہاں فضولیات اور جھوٹ بولنے والوں کی مجلس جمی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں بناتے۔ نہ ہی ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں مشرکانہ کام ہو رہے ہوں۔ اور پھر کبھی جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔ پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرح جھوٹ سے بچے تو ایک ایسی تبدیلی وہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے جو حقیقی مومن بناتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جھوٹ سے بچنے اور سچائی پر قائم رہنے کی بابت تاکیدی نصائح۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے آنے یا نہ آنے کے عقیدے سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو شرک سے بکلی پاک کرو اور اپنی عملی حالتوں کو ایسا بناؤ کہ شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ سچائی کو قائم کرو اور جھوٹ سے نفرت کرو۔ اب ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر احمدی جائزہ لے۔
مکرم قاسم تورے صاحب معلّم آئیوری کوسٹ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 05؍فروری 2016ء بمطابق05تبلیغ 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔