حضرت مصلح موعودؓ: حضرت مسیح موعودؑ کی بیان کردہ بعض سبق آموز باتیں اور کہانیاں

خطبہ جمعہ 12؍ فروری 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مختلف خطبات اور خطابات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان کردہ بعض سبق آموز باتیں اور کہانیاں بیان فرماتے ہیں۔ مَیں مختلف اوقات میں یہ بیان کرتا رہا ہوں۔ آج بھی یہی بیان کروں گا۔

ایک خطبہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ مضمون بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنی طرف سے کھڑا کرتا ہے یا انبیاء بھیجتا ہے تو ان کی تائید و نصرت بھی فرماتا ہے اور اگر صداقت ظاہر کرنے کے لئے دنیا کی کثیر آبادی کو ان کے غلط کاموں کی وجہ سے سزا دینا چاہے تو پرواہ نہیں کرتا اور سزا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک کہانی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بچپن میں ہمیں کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہتے تو آپ ہمیں ایسی کہانیاں سناتے جنہیں سن کر عبرت حاصل ہوتی۔ (یہ مضمون بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں) انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی مجھے اس وقت یاد آ گئی۔ جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے مَیں نے سنا۔ آپ فرماتے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں طوفان اس وجہ سے آیا کہ لوگ اس وقت بہت گندے ہو گئے تھے اور گناہ کرنے لگ گئے تھے۔ وہ جوں جوں اپنے گناہوں میں بڑھتے جاتے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی قیمت گرتی جاتی۔ یہ کہانی ہے کہ آخر ایک دن ایک پہاڑی کی چوٹی پر کوئی درخت تھا اور وہاں گھونسلے میں چڑیا کا ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس بچے کی ماں کہیں گئی اور پھر واپس نہ آ سکی۔ شاید مر گئی یا کوئی اور وجہ ہوئی کہ نہ آئی۔ بعد میں اس چڑیا کے بچے کو پیاس لگی اور وہ پیاس سے تڑپنے لگا اور اپنی چونچ کھولنے لگا۔ تب خدا تعالیٰ نے یہ دیکھ کر اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور زمین میں پانی برساؤ اور اتنا برساؤ کہ اس پہاڑی کی چوٹی پر جو درخت ہے اس کے گھونسلے تک پہنچ جائے تا کہ چڑیا کا بچہ پانی پی سکے۔ فرشتوں نے کہا خدایا وہاں تک پانی پہنچانے میں تو ساری دنیا غرق ہو جائے گی۔ خدا تعالیٰ نے جواب دیا کہ کوئی پرواہ نہیں۔ اس وقت دنیا کے لوگوں کی میرے نزدیک اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی اس چڑیا کے بچے کی حیثیت ہے۔ (ماخوذ ازخطباتِ محمود جلد 17 صفحہ678-679)

پس گو یہ کہانی ہے لیکن اس کہانی میں یہ سبق ہے کہ صداقت اور راستی سے خالی دنیا ساری کی ساری مل کر بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک چڑیا کے بچے جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔

پس آج اس کہانی سے جہاں ہم یہ سبق لیتے ہیں کہ صداقت پر کھڑا ہونا چاہئے۔ اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے مانا کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں۔ اپنے اندر کی برائیاں دور کریں گے اور نیکیوں کو قائم کریں گے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری حالت میں اگر ترقی کے بجائے انحطاط ہو رہا ہے، نیچے گر رہی ہے تو ہم اپنے مقصد سے دُور ہٹ رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو بھی ہماری کوئی پرواہ نہیں ہو گی۔

اسی طرح یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ دنیا کی کیا حالت ہو رہی ہے۔ بہت سارے ممالک میں نہ عوام اور نہ حکومتیں ایک دوسرے کا حق ادا کر رہی ہیں۔ فتنہ و فساد ہے۔ اور جہاں بظاہر فتنہ و فساد کی حالت نہیں یا بہت زیادہ خراب حالت نہیں وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف نہ صرف اللہ تعالیٰ سے دُور ہو کر بلکہ اس کے خلاف بدزبانی کر کے، غلط باتیں کر کے اس کی ہتک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہاں غلاظتوں میں بھی اتنے ڈوب رہے ہیں کہ غیر فطری کاموں کو قانوناً نافذ کیا جا رہا ہے بلکہ کہا جاتا ہے جو غلیظ کاموں کی حمایت نہیں کرتا وہ قانون کا مجرم ہے۔ یہ زلزلے، یہ طوفان یہ فسادات، بے انتہا بارشیں جنہوں نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ گناہوں کی انتہا ہو رہی ہے اور یہ تو ابھی وارننگ ہے جو اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تنبیہ کر رہا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی احمدیوں کا بہت بڑا کام ہے کہ دنیا کو ہوشیار کریں اور بتائیں کہ اگر اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بہت زیادہ تباہ کن آفات لا سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ دنیا کو عقل آئے۔

پھر آجکل کی باتوں میں سے ایک بات ہم دیکھتے ہیں اور ہمیشہ سے یہ ہے کہ دنیا میں اپنے حق لینے کے لئے باتیں ہوتی ہیں چاہے اس سے دوسرے کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ ایک حقیقی مسلمان کی اس بارے میں کیا سوچ ہونی چاہئے؟ اس بارے میں یہ واقعہ بہترین رہنما ہے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک صحابی اپنا گھوڑا دوسرے صحابی کے پاس فروخت کرنے کے لئے لایا اور اس کی قیمت مثلاً دو سو روپے بتائی۔ دوسرے صحابی نے کہا کہ مَیں اس قیمت میں گھوڑا نہیں لے سکتا کیونکہ اس کی قیمت دوگنی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دوسرے کو کہا کہ لگتا یہ ہے کہ آپ کوگھوڑوں کی قیمت سے واقفیت نہیں۔ لیکن مالک نے زیادہ قیمت لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب میرا گھوڑا زیادہ قیمت کا نہیں تو مَیں کیوں زیادہ قیمت لوں۔ اور اس پر ان کی تکرار ہوتی رہی یہاں تک کہ ثالث کے ذریعہ سے انہوں نے فیصلہ کرایا۔ یہ اسلامی روح تھی جو ان دو صحابہ نے دکھائی۔ اسلام کا حکم یہی ہے کہ ہر شخص بجائے اپنا حق لینے کے اور اس پر اصرار کرنے کے دوسرے کے حق کو دینے اور اس کو قائم کرنے کی کوشش کرے۔ (اُس زمانے میں بعض ہڑتالیں ہو رہی تھیں۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ) جس وقت یہ روح قائم ہو جائے اس وقت ساری strikes خودبخود بند ہو جاتی ہیں۔ مگر کم سے کم نیکی یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے اپنے حق کا سوال پیدا ہو تو اسے وہ حق دے دیا جائے اگر وہ اس کا حق بنتا ہے۔ یہ غیر اسلامی روح ہے کہ چونکہ دوسرے کے حق پر ہم ایک لمبے عرصے سے قائم ہیں، اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس حق کو اپنا حق سمجھنے کی ایک عادت ہمیں ہو گئی ہے اس لئے ہم دوسرے کو وہ حق نہیں دے سکتے۔ (ماخوذ ازخطباتِ محمود جلد 17 صفحہ137) یہ انتہائی غلط چیز ہے جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔

مثلاً آجکل کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہ ہڑتالوں کا جو حق دیا گیا ہے وہ بھی بغیر سوچے سمجھے ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی حدود کیا ہونی چاہئیں۔ مثلاً آجکل اس ملک میں، یوکے (UK) میں جونیئر ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے جس سے مریض پریشان ہو رہے ہیں۔ اپنا حق لینے کے لئے مریضوں کو نہ صرف علاج کی سہولت کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ بعض دفعہ ان کی زندگیوں سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے اس دفعہ جاپان کے دورے میں ایک عیسائی پادری جو بڑے شریف النفس انسان ہیں، مجھ سے انہوں نے سوال کیا کہ امن کی کیا تعریف ہے، کس طرح قائم کیا جائے۔ کہنے لگے کہ مجھے ابھی تک تسلی بخش جواب کہیں سے نہیں ملا کہ امن کی کیا تعریف ہے۔ تو مَیں نے انہیں یہ بتایا جو مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ اسلام کہتا ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہ دوسرے کے لئے پسند کرو۔ جب ایسا کرو گے تو ایک دوسرے کے حق قائم کر رہے ہو گے اور جب حق قائم کرو گے تو امن ہو گا۔ ایک دوسرے کے لئے پھر تم لوگ سلامتی بھی بھیج رہے ہو گے۔ کہنے لگا یہ تعریف میرے دل کو بڑی لگی ہے۔ یہ پہلی دفعہ سنی ہے۔

پس آج اسلام ہی ہر معاملے کے حقیقی راستے دکھا سکتا ہے لیکن اس کے عملی نمونے دکھائے بغیر ہم دنیا کو قائل نہیں کر سکتے۔ ناجائز حق لینے کا تو سوال ہی نہیں اگر ہم جائز حق بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں اس لئے کہ امن قائم کرنا ہے تو امن قائم ہو گا۔ ہم جائز حق بھی چھوڑ دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور جب یہ ہو گا تو کیونکہ ایک معاشرے میں دونوں طرف سے حقوق ادا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی تو دوسرا فریق بھی اگر مومن ہے تو وہ بھی ناجائز حق نہیں لے گا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی دوسرے کا ناجائز حق لے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعض دفعہ قضاء میں ایسے معاملات آتے ہیں کہ ہماری جماعت میں بھی بھائی بھائی کا حق دبا رہا ہوتا ہے یا دوسرے عزیزوں کے حق دبا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس طرف توجہ کریں تو ہمارے قضاء کے بھی بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے ختم کرنے کے لئے اسلام کیا سوچ ہمیں دیتا ہے اور صحابہ کے کیا نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے درمیان کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ بھائیوں بھائیوں میں بعض دفعہ ناراضگی کی کوئی بات ہو جاتی ہے، بحث ہو جاتی ہے۔ حضرت امام حسن کی طبیعت بہت سلجھی ہوئی اور نرم تھی لیکن حضرت امام حسین کی طبیعت میں جوش پایا جاتا تھا۔ ان میں جو جھگڑا ہوا اس میں حضرت امام حسین کی طرف سے زیادہ سختی کی گئی لیکن حضرت امام حسن نے صبر سے کام لیا۔ اس جھگڑے کے وقت بعض اور صحابہ بھی موجود تھے۔ جب جھگڑا ختم ہو گیا تو دوسرے دن ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت امام حسن جلدی جلدی کسی طرف جا رہے ہیں۔ اس نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت حسن کہنے لگے کہ مَیں حُسین سے معافی مانگنے چلا ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ معافی مانگنے جا رہے ہیں۔ مَیں تو خود اس جھگڑے کے وقت موجود تھا اور میں جانتا ہوں کہ حسین نے آپ کے متعلق سختی سے کام لیا۔ پس یہ ان کا کام ہے کہ وہ آپ سے معافی مانگیں، نہ یہ کہ آپ ان سے معافی مانگنے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت حسن نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ مَیں اس لئے تو ان سے معافی مانگنے جا رہا ہوں کہ انہوں نے مجھ پر سختی کی تھی کیونکہ ایک صحابی نے مجھے سنایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ جب دو شخص آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں سے جو پہلے صلح کرتا ہے وہ جنت میں دوسرے سے پانچ سو سال پہلے داخل ہو گا۔ تو میرے دل میں یہ سن کر یہ خیال پیدا ہوا کہ کل میں نے حُسین سے برا بھلا سنا اور انہوں نے مجھ پر سختی کی۔ اب اگر حسین معافی مانگنے کے لئے میرے پاس پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے صلح کر لی تو میں تو دونوں جہان سے گیا کہ یہاں بھی مجھ پر سختی ہو گئی اور اگلے جہان میں بھی مَیں پیچھے رہا۔ چنانچہ مَیں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھ پر جو سختی ہو گئی وہ تو ہو گئی اب مَیں اُن سے پہلے معافی مانگ لوں گا تا کہ اس کے بدلے میں مجھے جنت تو پانچ سو سال پہلے مل جائے۔ (ماخوذ از الفضل 23مئی 1944ء صفحہ 4 کالم 2-3 جلد 32 نمبر 119) پس یہ وہ سوچ ہے جسے ہمیں اپنے پر لاگو کرنا چاہئے۔

حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک لطیفہ سنا ہوا ہے جو شاید مقامات حریری یا کسی اور کتاب کا قصہ ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی مہمان کسی جگہ نہانے کے لئے گیا۔ حمام کے مالک نے مختلف غلاموں کو خدمت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا۔ بعض ملکوں میں حمام ہوتے ہیں جہاں خادم ہوتے ہیں جو مہمانوں کو مالش کرتے ہیں، نہلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت مالک موجودنہ تھا۔ جب وہ نہانے کے لئے حمام میں داخل ہوا تو تمام غلام اسے آ کر چمٹ گئے اور چونکہ سر کو آسانی سے ملا جا سکتا ہے اس لئے یکدم سب سر پر آ گرے۔ ایک کہے کہ میرا سر ہے۔ دوسرا کہے یہ میرا سر ہے۔ جس پر آپس میں لڑائی شروع ہو گئی اور ایک نے دوسرے کے چاقو مار دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ شور ہونے پر پولیس بھی آ گئی اور معاملہ عدالت تک پہنچا۔ عدالت کے سامنے بھی ایک غلام یہ کہہ رہا تھا کہ یہ میرا سر ہے۔ دوسرا کہے کہ یہ میرا سر تھا۔ عدالت نے نہانے والے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا حضور! یہ تو بے سر تھے۔ بیوقوف تھے۔ ان کی باتوں پر تو مجھے تعجب نہیں۔ تعجب یہ ہے کہ آپ نے بھی یہ سوال کر دیا۔ حالانکہ سر نہ اِس کا ہے نہ اُس کا ہے۔ سر تو میرا تھا۔

تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال اس لئے دیا کرتے تھے کہ دنیا کے جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں۔ میرا کیا اور تیرا کیا۔ غلام کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو جب اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں عبداللہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا کچھ بھی نہیں۔ ایک حقیقی مسلمان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے اور یہ واقعہ اس تناظر میں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ہوتا ہے وہ میرا یا تیرے کا سوال نہیں کرتا۔ وہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں عبداللہ ہوں۔ اب اس کا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے۔ حقیقی مومن جب بنتا ہے تو پھر کہتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اس کے بعد میرے تیرے کا سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھ کر دیکھ لو۔ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی عبداللہ رکھا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے ’’لَمَّا قَامَ عَبْدُاللّٰہ‘‘۔ تو خدا تعالیٰ کا غلام ہوتے ہوئے ہماری کوئی چیز نہیں رہتی بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجیدنے بالوضاحت بتایا ہے کہ ہم نے مومنوں سے مال و جان لے لی۔ دوست، عزیز، رشتہ دار سب جان کے تحت آتے ہیں اور باقی مملوکات مال کے تحت آتی ہیں اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کا انسان مالک ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوں چیزیں مومنوں سے لے لیں۔ ان کی جان بھی لے لی اور ان کا مال بھی لے لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں یہ جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں کہ یہ چیزیں میری ہیں۔ اور یہ چیز میری ہے اور وہ اس کی۔ یہ جھگڑے نہ کرو۔ میرے اور تیرے کا سوال نہیں یہاں ہوتا۔ تم اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے زور لگاؤ اور چھوڑ دو ان باتوں کو کہ تم کہو کہ فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنا۔ (اب یہاں انتخابات کی بات ہو گئی، عہدیداروں کی بات ہو گئی۔ بعض لوگ جھگڑے پیدا کرتے ہیں کہ فلاں کیوں امام الصلوٰۃ بن گیا ہم اس کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھیں گے۔ ) فلاں پریذیڈنٹ کیوں بن گیا۔ فلاں کیوں نہ بنا۔ فلاں سیکرٹری کیوں بن گیا۔ فلاں کیوں نہ ہؤا۔ یا جب تک فلاں شخص امام نہ بنے ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 16 صفحہ270-271)

یہ باتیں صرف سننے کے لئے نہیں ہیں۔ شاید بعضوں کا خیال ہو کہ حضرت مصلح موعود کے زمانے میں شاید ایسے لوگ تھے اور اب ایسے نہیں ہیں۔ اب بھی ایسی شکایتیں ملتی رہتی ہیں۔ اس زمانے میں تو صحابہ بھی تھے جو ایسے ٹیڑھے لوگوں کی اصلاح بھی کر دیا کرتے تھے۔ لیکن ہم جو نبوت کے زمانے سے دُور جا رہے ہیں اور آئندہ مزید دور جاتے رہیں گے اس زمانے میں ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ پہلے بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ ہمیں بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ہمیں پہلے سے زیادہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کس طرح عبداللہ بننے کا حق ادا کرنا ہے اور اپنی ضد اور اَنانیت چھوڑنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ انتخابات کے موقع پر بھی ایسے سوال اٹھتے رہتے ہیں اگر بعض دفعہ بعض حالات میں جب اکثریت ووٹ کے خلاف فیصلہ دیا جائے تو اس قسم کے سوال لوگ لکھتے رہتے ہیں۔ یہ سال بھی انتخابات کا سال ہے۔ جماعتی لحاظ سے اس سال میں انتخاب ہونے ہیں اس لحاظ سے بھی ہر ایک کو اپنی سوچوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ دعا کے بعد ہر تعلق کو اور ہر رشتے کو چھوڑ کر اپنا حق جو ہے وہ صحیح استعمال کریں، اپنی رائے دیں اور اس کے بعد جو فیصلہ ہو جائے اس کو قبول کرلیں۔ مکمل طور پر اپنی ذاتیات سے بالا ہو کر اپنے فیصلے کریں۔ ذیلی تنظیموں میں بھی ایسے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے ہی ایک ملک میں ایک مجلس کی لجنہ کا انتخاب ہوا وہاں سے مجھے خط آ گیا کہ کیوں فلاں کو بنایا گیا ہے، فلاں کو کیوں نہیں بنایا گیا۔ وہ تو ایسی ہے، وہ ویسی ہے۔ تو اس قسم کی بیہودگیوں سے ہمیں بچنا چاہئے اور جو بھی بنا دیا جائے اس عرصے کے لئے جب تک وہ بنایا گیا بہرحال اس سے مکمل تعاون کرنا چاہئے۔

پھر ایک بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا۔ ایک بات یہ ہے کہ مومن کو چاہئے کہ مصمّم ارادے کے ساتھ کوشش کرے اور اسے انجام تک پہنچائے اور بجائے دوسروں پر انحصار کرنے کے چاہے وہ افسر ہوں یا عہدیدار ہوں وہ صرف اپنے ماتحتوں پر انحصار نہ کیا کریں بلکہ خود بھی براہ راست ہر کام میں نگرانی رکھیں اور involve ہونے کی کوشش کریں۔ تبھی کام صحیح رنگ میں انجام تک پہنچ سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر آدمی تھا اس کا ایک بڑا لنگر تھا جس سے محتاج لوگ کثیر تعداد میں روزانہ کھانا کھاتے تھے لیکن بڑی خرابی یہ تھی کہ بدنظمی بہت زیادہ تھی۔ امیر آدمی تھا، خود اس شخص میں نگرانی کی رغبت نہیں تھی، اس طرف توجہ نہیں دیتا تھا اور ملازم خائن اور بددیانت تھے۔ کچھ تو سودا لانے والے بہت مہنگا سودا لاتے تھے اور کم مقدار میں لاتے تھے اور کچھ استعمال کرنے والے اپنے گھروں کو لے جاتے تھے اور پھر کھانا تیار کرنے والے کچھ خود کھا جاتے تھے کچھ اپنے رشتے داروں کو کھلا دیتے تھے اور کچھ ادھر ادھر ضائع کر دیتے تھے۔ اسی طرح سٹور روم کھلے رہتے اور ساری رات کتّے اور گیدڑ وغیرہ سامان خوراک کھاتے اور ضائع کرتے رہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت مقروض ہو گیا اور بیس سال کی بدنظمی کے بعد اسے بتایا گیا کہ تم مقروض ہو چکے ہو۔ اس شخص کی طبیعت میں سخاوت تھی اس لئے لنگر کا بند کرنا اس نے گوارا نہ کیا۔ لیکن ادھر قرض اتارنے کی بھی فکر اسے تھی۔ اس نے اپنے دوستوں کو بلایا۔ ان سب کو بتایا کہ اس طرح میں مقروض ہو گیا ہوں۔ اپنا نقص تو کوئی بتایا نہیں اور نہ کوئی بتاتا ہے۔ ان سب نے کہا کہ سٹور روم کا کوئی دروازہ نہیں ہے۔ ساری رات گیدڑ اور کتے وغیرہ سامان خوارک جو ہے وہ خراب کرتے رہتے ہیں اس لئے بہت سا سامان ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر سٹور کو دروازہ لگا دیا جائے تو بہت حد تک بچت ہو سکتی ہے۔ اس نے حکم دیا کہ دروازہ لگا دیا جائے چنانچہ وہ لگا دیا گیا۔ یہ کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے اور کہانیوں میں کتے اور گیدڑ، جانور بھی بولا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رات کو گیدڑوں اور کتوں نے سٹور روم کو دروازہ لگا ہوا دیکھا تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ اچانک کوئی بڈھا اور بڑا خرانٹ قسم کا گیدڑ یا کتا آیا۔ اس نے دریافت کیا تم شور کیوں مچاتے ہو۔ باقیوں نے کہا کہ سٹور روم کو دروازہ لگ گیا ہے ہم کھائیں گے کہاں سے۔ ہمارے تو علاقے کے سارے کتے اور گیدڑ یہیں سے کھایا کرتے تھے۔ اس نے کہا تم یونہی روتے ہو، شور مچا رہے ہو، اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ جس شخص نے بیس سال تک اپنا گھر لٹتے دیکھا اور اس کا کوئی انتظام نہ کیا اس کے سٹور کا دروازہ بھلا کس نے بند کرنا ہے۔ خود تو اس نے نگرانی نہیں کرنی۔ اس لئے گھبراؤ نہیں۔ تو اس کہانی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’اگر چاہیں‘‘ اور ’’چاہیں‘‘ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کتوں اور گیدڑوں نے شور مچایا کہ اگر اس نے چاہا اور دروازہ بند کر دیا تو ہم کھائیں گے کہاں سے اور ان کا جو تجربہ کار اور خرانٹ لیڈر تھا اس نے کہا کہ اس نے یعنی جو امیر آدمی ہے اس نے چاہنا ہی نہیں۔ اس نے تو جہ ہی نہیں دینی تو پھر شور مچانے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اگر ہماری جماعت نے چاہنا ہی نہیں تو کچھ نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ چاہیں تو بڑے بڑے مشکل کام بھی دنوں میں کر سکتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہماری بچپن کی کہانیوں میں سے الٰہ دین کے چراغ کی کہانی بہت مشہور تھی۔ الٰہ دین ایک غریب آدمی تھا۔ اسے ایک چراغ مل گیا۔ وہ جب اس چراغ کو رگڑتا تھا تو ایک جن ظاہر ہوتا تھا۔ (یہ بچوں کی کہانی بنائی ہوئی ہے۔) جنّ کو وہ جو کچھ کہتا وہ فوراً تیار کر کے سامنے رکھ دیتا۔ مثلاً اگر وہ اسے کوئی محل بنانے کا کہہ دیتا تو وہ آناً فاناً محل تیار کر دیتا۔ فرماتے ہیں کہ بچپن میں تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ الہ دین کا چراغ ایک سچا واقعہ ہے، جب عقل نہیں تھی۔ لیکن جب بڑے ہوئے تو سمجھا کہ یہ محض واہمہ اور خیال ہے۔ یہ کہانی ہے۔ لیکن اس کے بعد جب جوانی سے بڑھاپے کی طرف آئے تو معلوم ہوا کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ (یہاں بیٹھے لوگ بڑے حیران ہو رہے ہوں گے کہ حضرت مصلح موعودنے کہا کہ بڑھاپے کی طرف آئے تو پتا لگا کہ یہ بات ٹھیک ہے۔) الہٰ دین کا چراغ ضرور ہوتا ہے۔ لیکن فرماتے ہیں کہ وہ تیل کا چراغ نہیں ہوتا بلکہ عزم اور ارادے کا چراغ ہوتا ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ وہ چراغ بخش دے وہ اس کو حرکت دیتا ہے اور بوجہ اس کے کہ عزم اور ارادہ خدا تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ کُنْ کہتا ہے اور کام ہونے لگ جاتا ہے اسی طرح جب اس کی اتباع میں اس کے مقرر کردہ اصول کے ماتحت، اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے (یہ ساری شرطیں ہیں یاد رکھیں) اس سے دعائیں کرتے ہوئے اور اس سے مدد مانگتے ہوئے کوئی انسان کُنْ کہتا ہے تو وہ ہو جاتاہے۔ غرض بچپن میں ہم الہ دین کے چراغ کے قائل تھے۔ جوانی میں ہمارا یہ خیال متزلزل ہو گیا مگر بڑھاپے میں ایک لمبے تجربے کے بعد معلوم ہوا کہ الٰہ دین کے چراغ والی کہانی سچی ہے۔ لیکن یہ ایک تمثیلی حکایت ہے اور چراغ پیتل کا نہیں بلکہ عزم اور ارادے کا چراغ ہے۔ جب اسے رگڑا جاتا ہے تو خواہ کتنا بڑا کام کیوں نہ ہو وہ آناً فاناً ہو جاتا ہے۔ (ماخوذ از الفضل 24 جنوری 1962ء صفحہ 2-3 جلد51/16 نمبر 20)

پس یہ ہم میں سے ہر ایک کی سوچ ہونی چاہئے کہ ہم نے صرف اگر چاہنے تک نہیں رہنا بلکہ چاہنا ہے اور چاہنے کے ساتھ ہی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس کام کو کرنا ہے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے بھی ہیں لیکن بعض دفعہ چاہنے کے باوجود بعض کام نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ وہ چاہنا جو ہے وہ بے دلی سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ تمام لوازمات جو بیان کئے گئے ہیں وہ نہیں ہوتے۔ عزم نہیں ہوتا، حوصلہ نہیں ہوتا، محنت نہیں کی جاتی۔ صرف دل میں سوچا جاتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں۔ اس بات کو خاص طور پر مَیں دیکھتا ہوں جب نمازوں کا سوال آتا ہے۔ کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کریں ہم چاہتے ہیں کہ نمازوں میں باقاعدہ ہو جائیں لیکن باقاعدہ نہیں۔ باقی کاموں کو جب چاہتے ہیں تو وہ کر لیتے ہیں لیکن نماز کو کیونکہ بے دلی سے چاہتے ہیں، اپنی تمام تر صلاحیتیں اس پر استعمال نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ سے مددنہیں مانگتے اس لئے نمازوں کی عادت بھی نہیں پڑتی۔ ایسے لوگوں کا چاہنا جو ہے وہ اصل میں نہ چاہنا ہوتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان چاہے بھی اور کام نہ ہو سکے۔ نماز ان کے لئے حقیقت میں ایک ضمنی چیز ہوتی ہے۔ دنیاوی کام پہلی ترجیح ہوتی ہے جو ایک غلط طریقہ ہے، اس لئے چاہنے پر عمل نہیں ہوتا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان چاہے بھی، ایک پکّا ارادہ بھی ہو، اس کے کرنے کا مصمّم ارادہ بھی ہو اور وہ کام نہ ہو۔ پس یہ اپنی سستیاں ہوتی ہیں اور بے رغبتی ہوتی ہے جس کو بلا وجہ چاہنے کا نام دے دیا جاتا ہے۔

ایک واقعہ آپ بیان کرنے سے پہلے فرماتے ہیں کہ ہم بچپن میں ایک قصہ سنا کرتے تھے جسے سن کر ہنسا کرتے تھے حالانکہ درحقیقت وہ ہنسنے کے لئے نہیں بلکہ رونے کے لئے بنایا گیا تھا اور اس میں موجودہ مسلمانوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ مگر اس قصے کے بنانے والے نے اشارے کی زبان میں مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا ہے تا کہ مولوی اس کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ (اور اگر کوئی احمدی بھی ایسی حرکتیں کرتا ہے تو اس کو بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا۔) وہ قصہ یہ ہے کہ کوئی لونڈی(کسی کی نوکر، ملازمہ) تھی جو سحری کے وقت باقاعدہ اٹھا کرتی تھی۔ لیکن روزہ نہیں رکھتی تھی۔ مالکہ نے سمجھا کہ شاید وہ کام میں مدد دینے کے لئے اٹھتی ہے۔ مگر چونکہ وہ روزہ نہیں رکھتی تھی اس لئے مالکہ نے خیال کیا کہ اسے خواہ مخواہ سحری کے وقت تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس وقت کا کام میں خود کر لیا کروں گی۔ چنانچہ دو چار دن کے بعد مالکہ نے اس سے کہا کہ لڑکی تو سحری کے وقت نہ اٹھا کر، ہم خود اس وقت کام کر لیا کریں گے۔ تمہیں اس وقت تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات سن کر اس لڑکی نے نہایت حیرت سے اپنی مالکہ کی طرف دیکھا کہ یہ مجھ سے کیا کہہ رہی ہے اور کہنے لگی بی بی نماز مَیں نہیں پڑھتی، روزہ مَیں نہیں رکھتی، اگر سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں۔ درحقیقت یہ تصویری زبان میں مسلمانوں کی حالت ہے (یا ان لوگوں کی حالت ہے جو نمازوں پہ توجہ نہیں دیتے۔) فرماتے ہیں کہ دوسرے لفظوں میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اگر کسی مسلمان کو کہا جائے، (جمعۃ الوداع کے حوالے سے بات کی ہے، لیکن ہر جمعہ اور ہر نماز پہ یہ حالت ہوتی ہے) کہ میاں ! جمعۃ الوداع سے کیا بنتا ہے۔ تم کیوں خوامخواہ اس کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہو۔ باقی جمعے نہیں پڑھے تو یہ بھی نہ پڑھو۔ تو وہ حیرت سے تمہارے منہ کو دیکھنے لگ جائے گا۔ کہے گا بھائی جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ روزانہ نمازوں کے لئے مَیں مسجد میں نہیں آتا، روزے مَیں نہیں رکھتا، اگر جمعۃ الوداع بھی نہ پڑھوں تو کافر ہی ہو جاؤں۔ پس یہ بھی ایک ہنسی ہی ہے کہ ایک وقت آ کر نماز پڑھ لی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ فرائض ادا ہو گئے۔ (یا ان لوگوں کے لئے بھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں آ کر ایک نماز پڑھ لی اور فرض ادا ہو گیا۔ بس کافی ہے۔) (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 23 صفحہ438-439)

پس وہ لوگ جو نمازوں کی طرف باقاعدگی سے توجہ نہیں دیتے وہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پانچ نمازیں ہر بالغ عاقل مسلمان پر فرض ہیں اور مَردوں پر یہ مسجدوں میں باجماعت فرض ہیں اور اس کے لئے انتظام ہونا چاہئے۔ یا تو یہ کہہ دیں کہ ہم بالغ نہیں۔ یا یہ کہہ دیں کہ بے عقل ہیں، تو ٹھیک ہے۔ اور جب یہ دونوں چیزیں نہیں تو پھر باجماعت نماز کی ہر جگہ کوشش ہونی چاہئے۔

ایک روایت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خود سنا ہے۔ (آپ کی تحریروں میں بھی یہ ہے۔) کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر کسی جگہ جاتا ہے تو اس کا اَردلی بھی ساتھ جاتا ہے۔ جو بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے اندر جانے کی اجازت طلب کرنی نہیں پڑتی۔ آجکل بھی دیکھ لیں منسٹر آتے ہیں، دوسرے لوگ آتے ہیں ان کے جوپروٹوکول افسر ہیں یا ان کے حفاظت کرنے والے ہیں سارے ساتھ جاتے ہیں۔ ان کی اجازت نہیں لی جاتی کہ وہ بھی ساتھ آئیں گے۔ مثلاً اگر وائسرائے کسی گورنر کو بلائے۔ (اُس زمانے میں ہندوستان پاکستان کے علاقے میں جو انگریزوں کی حکومت تھی اس میں وائسرائے تھا۔ ) اگر وائسرائے گورنر کو بلائے تو گورنر کا جو اردلی ہے وہ بغیر کسی دعوت کے اس کے پاس جائے گا اور وہاں دعوت میں اس کے محافظ اور خادم بھی شامل ہوں گے۔ فرمایا کہ اس لئے تمہاری حالت کتنی بھی ادنیٰ ہو، اگر تم فرشتوں سے تعلقات پیدا کر لو تو وہ جہاں بھی جائیں گے تم ان کے ساتھ جاؤ گے۔ (اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو گا تو اس کے فرشتوں کے ساتھ تعلق پیدا ہو گا۔) تم ان کے اَردلیوں اور چپڑاسیوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ اگر وہ لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں جائیں گے تو تم بھی ان کے ساتھ جاؤ گے۔ پس فرماتے ہیں کہ تم اس عظیم الشان طاقت کو سمجھو جسے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے بنایا ہے۔ تمہاری قوت روحانیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ تم اسے مضبوط بنانے کے لئے فرشتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلقات پیدا کرو تا تمہیں لوگوں کے قلوب تک پہنچ حاصل ہو جائے۔ اگر تمہیں لوگوں کے قلوب تک پہنچ حاصل ہو جائے تو سارے پردے دُور ہو جائیں گے اور جہاں خدا تعالیٰ کا نور پہنچے گا تم بھی وہاں پہنچ جاؤ گے۔

حضرت مصلح موعودنے اس وقت جلسے پر آنے والوں کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور جس شوق سے تم یہاں آئے ہو اسے پورا کرنے کے سامان پیدا کرو۔ اس طرح نہ ہو کہ جس طرح کُشتی دیکھنے کے لئے کچھ لوگ پہلے آ جاتے ہیں تم بھی یہاں آ گئے ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی وجہ سے اس کے فرشتوں سے تعلق پیدا ہو گا اور یہ روحانیت جو ہے وہ پھر لوگوں کے دماغوں پر جب اثر ڈالے گی تو تمہارے کام فرشتے کر رہے ہوں گے اور جہاں وہ پہنچیں گے وہاں تمہارا نام بھی پہنچا دیں گے کیونکہ تمہاری نیت نیک ہے۔ تمہاری روحانیت میں ترقی ہے۔ تم خدا تعالیٰ کے لئے کام کر رہے ہو گے۔ (ماخوذ از الفضل 9 جنوری 1955ء صفحہ 3کالم 1 جلد 44/9 نمبر 8)

پس اس بنیادی اصول کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، چاہے وہ جلسے ہوں یا اجتماع ہوں۔ جب روحانیت کی ترقی کے لئے جمع ہوتے ہیں تو پھر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی مجالس کو صرف عارضی طور پر روحانی مجلس نہ بنائیں بلکہ ایسی بنائیں کہ روحانی مجالس کے جو بھی اثرات ہیں وہ مستقل طور پرقائم رہیں اور پھر فرشتے بھی ہر جگہ ہماری مدد کرنے والے بن جائیں اور جہاں بھی ہم کوشش کریں وہاں فرشتے داخل ہو کر اس پر اثر ڈالیں اور ہماری کوششوں کو کامیاب بنانے والے ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ایک نیک کام کرتا ہے تو پہلے سے زیادہ عاجزی اور استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مزیدنیک کاموں کی دعا مانگتا ہے تا کہ یہ سلسلہ چلتا رہے اور اس کا انجام بھی بخیر ہو۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں کرتے دیکھتے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ جیسے ایک ہنڈیا جوش سے ابل رہی ہے۔ پس اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور تقویٰ و طہارت پیدا کرو اور مت سمجھو کہ تم نیک کام کر رہے ہو کیونکہ نیک سے نیک کام میں بھی بے ایمانی پیدا ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ نامعلوم کیا بات ہے کہ آج کل لوگ حج کر کے آتے ہیں تو ان کے قلوب میں آگے سے زیادہ رعونت اور بدی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ نقص اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ حج کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور بجائے روحانی لحاظ سے کوئی فائدہ اٹھانے کے محض حاجی بن جانے کی وجہ سے تکبر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک لطیفہ بھی سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا سردی کے دنوں میں رات کے وقت سٹیشن پر بیٹھی تھی۔ کسی نے اس کی چادر اٹھا لی۔ جب اسے سردی لگی اور اس نے چادر اوڑھنی چاہی تو اسے گم پایا۔ یہ دیکھ کر وہ آواز دے کر کہنے لگی کہ بھائی حاجی میری تو ایک ہی چادر تھی اس کی مجھے ضرورت ہے وہ مجھے واپس کر دو۔ وہ چادر لے جانے والا قریب ہی بیٹھا تھا، لے کے نہیں گیا۔ یہ سن کر اس شخص نے جس نے چادر اٹھائی تھی شرمندہ ہوا اور وہ چادر اس کے پاس رکھ دی مگر ساتھ ہی اس نے پوچھا کہ تجھے یہ پتا کس طرح چلا کہ چادر چرانے والا چور کوئی حاجی ہے۔ وہ کہنے لگی کہ اس زمانے میں اس قدر سنگدلی حاجی ہی کر سکتے ہیں۔ پس یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں، یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک ارادے رکھتے ہیں۔ کتنا ہی نیک کام انسان کر رہا ہو اس میں سے بدی پیدا ہو سکتی ہے اور کتنا ہی نیک ارادہ انسان رکھتا ہو وہ اس کے ایمان کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ ایمان ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں آتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں آتا ہے۔ (یہ بنیادی چیز ہے، یاد رکھنی چاہئے۔ ) ہمارے اعمال جتنے بھی ہوں اگر اللہ تعالیٰ کا رحم نہیں ہے، اس کا فضل نہیں تو پھر ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ پس تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رحم پر نگاہ رکھو اور تمہاری نظر ہمیشہ اس کے ہاتھوں کی طرف اٹھے کیونکہ وہ سوالی جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دروازے سے اٹھنے کے بعد میرے لئے کوئی اور دروازہ نہیں کھل سکتا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر لیتا ہے۔ پس تمہاری نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ہی طرف اٹھنی چاہئے۔ جب تک تم اپنی نگاہ اس کی طرف رکھو گے تم محفوظ رہو گے کیونکہ جس کی خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ اٹھ رہی ہو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مگر جونہی نظر کسی اور کی طرف پھیری جائے اور انسان اس کے دروازے سے قدم اٹھا لے (یعنی اللہ تعالیٰ کے دروازے سے قدم اٹھا لے) پھر خواہ کتنے ہی نیک ارادے اور کتنے ہی اچھے کام کرے اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا بلکہ وہ شیطان کی بغل میں جا کر بیٹھتا ہے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 17 صفحہ216تا 218) پس مستقل توبہ اور استغفار اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگنا، اس کے رحم کو مانگنا اور اس کو جذب کرنے کی کوشش کرنا یہی چیزیں ہیں جو انجام بخیر کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے، فرماتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں (مجھے صحیح یادنہیں) چوری ہو گئی اور ان کا کچھ زیور چرایا گیا۔ ان کا ایک نوکر تھا وہ شور مچاتا تھا کہ ایسے کمبخت بھی دنیا میں موجود ہیں جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کے ہاں چوری کرتے ہوئے بھی شرم نہیں کرتے۔ وہ نوکر چوری کرنے والے پر بے انتہا لعنتیں ڈال رہا تھا اور یہ کہے کہ خدا اس کا پردہ فاش کرے اور اسے ذلیل کرے۔ آخر تحقیقات کرتے کرتے پتا لگا کہ ایک یہودی کے ہاں وہ زیور گروی رکھا گیا ہے۔ جب اس یہودی سے پوچھا گیا کہ یہ زیور کہاں سے تمہیں ملا تو اس نے اسی نوکر کا نام بتایا جو بڑا شور مچا رہا تھا اور چور پر لعنتیں ڈالتا پھرتا تھا۔

تو منہ سے لعنتیں ڈال دینا یا زبان سے فرمانبرداری کا دعویٰ کرنا کوئی چیز نہیں۔ عمل اصل چیز ہوتی ہے۔ ورنہ محض منہ سے اطاعت کا دعویٰ کرنے والا بعض دفعہ سب سے بڑا منافق بھی ہو سکتا ہے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 17 صفحہ 516)

پس بڑے فکر کا مقام ہے یہ اور ہمیں اس بات کی طرف ہمیشہ توجہ دینی چاہئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ ایک معاند احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے جس نے آپ کے سامنے یہ بڑ ماری تھی اور کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم احمدیت کو کچل دیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں بھی اسے ایسا جواب دے سکتا تھا کہ تم کچل کے تو دیکھو۔ لیکن مَیں نے اسے کہا کہ کسی کو مٹانا یا نہ مٹانا یا قائم رکھنا یہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اگر تو وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) ہمیں مٹانا چاہے تو آپ لوگوں کو کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ خود ہی مٹا دے گا۔ لیکن اگر وہ ہمیں قائم رکھنا چاہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اور تقویٰ ہی ہے جو انسان کو ایسے دعووں سے بچاتا ہے کہ مَیں یہ کر دوں گا اور وہ کر دوں گا۔ مَیں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ تقویٰ ہی ہے جو صحیح جواب سجھاتا ہے۔ اس لئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ ہم تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہمیں قائم رکھنا چاہتا ہے تو تم کچھ بھی نہیں کر سکتے اور ہم کوئی نہیں مٹ سکتے۔) فرمایا کہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کو ایسے دعووں سے بچاتا ہے کہ مَیں یہ کر دوں گا اور وہ کر دوں گا۔ ایسے دعووں کا کیا فائدہ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں یا شاید کسی اور جگہ سخت ہیضہ پھوٹا۔ ایک جنازے کے موقع پر ایک شخص کہنے لگا یہ لوگ خود مرتے ہیں۔ ہیضہ پھیلا ہوا ہے مگر لوگ کھانے پینے سے باز نہیں آتے۔ خوب پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں۔ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ہیضے کے دن ہیں۔ وہ شخص جو بڑا بول رہا تھا کہنے لگا دیکھو ہم تو صرف ایک پُھلکا کھاتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی چپاتی کھاتے ہیں۔ مگر یہ کمبخت لوگ جو ہیں ٹھونستے جاتے ہیں اور پھر ہیضے سے مرتے جاتے ہیں۔ دوسرے روز ایک اور جنازہ آیا تو کسی نے پوچھا کہ یہ کس کا ہے۔ تو وہاں بہت سارے لوگ اس کی باتیں سن سن کے تنگ آئے ہوئے تھے۔ کسی دل جلے نے کہہ دیا کہ یہ جنازہ ہے ایک پُھلکا کھانے والے کا۔ پس اس قسم کے دعووں کا کیا فائدہ کہ ہم یوں کر دیں گے، وُوں کر دیں گے۔ ہاں اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے وہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یُوں ہو جائے گا۔ انکسار کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے اسے بھی چھپائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلۃ: 22)  کہ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ہم اور ہمارے رسول غالب ہوں گے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تمہیں پِیس دیں گے تو مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر تو میری طاقت کا سوال ہے تو مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اگر یہ الفاظ احمدیت کے متعلق کہے گئے ہیں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ احمدیت ضرور غالب ہو کر رہے گی انشاء اللہ۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 17 صفحہ343) خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ہمیں اتنا یقین ہے کہ جتنا اپنی جان پر بھی نہیں ہے۔ پس احمدیت نے تو غالب آنا ہے چاہے ہماری زندگیوں میں آئے یا بعد میں آئے۔ لیکن ہمیں اس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے تقویٰ پر قائم رہنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ نسلاً بعدنسل ٍیہ چیز قائم رہے اور اگر ہمارے زمانے میں نہیں تو ہماری نسلیں اس کو دیکھنے والی ہوں۔ دعائیں کس طرح کرنی چاہئیں اور احمدیوں پر جو مشکل حالات ہیں ان سے کس طرح نکلنا چاہئے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے یا ماں کو اپنے بچے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہو جاتا ہے مگر جب بچہ روتا ہے تو دودھ اتر آتا ہے۔ پس جس طرح بچے کے روئے بغیر ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اتر سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت کو بندے کے رونے اور چِلّانے سے وابستہ کر دیا ہے۔ جب بندہ چِلّاتا ہے تو رحمت کا دودھ اترنا شروع ہو تاہے۔ اس لئے جیسا کہ مَیں نے بتایا ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں۔ مگر وہ کوشش نہیں جو منافق مراد لیا کرتے ہیں اور اس کے بعد جس حد تک زیادہ سے زیادہ دعاؤں کو لے جا سکتے ہیں ہمیں لے جانا چاہئے۔

حضرت مصلح موعودنے اس وقت بھی تحریک کی تھی کہ سات روزے رکھیں اور دعائیں کریں۔ چند سال ہوئے مَیں نے بھی کہا تھا کہ جماعت کو روزے رکھنے چاہئیں (خطباتِ مسرور جلدنہم صفحہ 501-502) اور جماعت میں ابھی تک بعض ایسے ہیں جو اس پر قائم ہیں، اور روزے رکھتے ہیں۔ کم از کم اب ہمیں چاہئے کہ چالیس روزے ہفتہ وار ہی رکھیں۔ یعنی چالیس ہفتوں تک خاص طور پر روزے رکھیں، دعائیں کریں، نفل ادا کریں اور صدقات دیں۔ کیونکہ بعض جگہ جماعت کے جو حالات ہیں ان میں بہت زیادہ سختی اور شدّت آتی جا رہی ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور چِلّائیں گے تو جس طرح بچے کے رونے سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتر آتا ہے، آسمان سے ہمارے رب کی نصرت انشاء اللہ تعالیٰ نازل ہو گی اور وہ روکیں اور مشکلیں جو ہمارے راستے میں ہیں وہ دُور ہو جائیں گی۔ پہلے بھی دُورہوتی رہیں اور اب بھی انشاء اللہ دُور ہوں گی۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا دُور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم دشمن کی زبان کو بندنہیں کر سکتے اور اس کے قلم کو نہیں روک سکتے۔ ان کی زبان اور قلم سے وہ کچھ نکلتا ہے جسے سننے اور پڑھنے کی ہمیں تاب نہیں ہوتی۔ (اور آجکل تو ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں انتہائی غلیظ الفاظ استعمال کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف اشتہارات بھی لگائے جاتے ہیں۔ حکومت کو اُس وقت بھی توجہ دلائی جاتی تھی حالانکہ اُس وقت تو انگریز حکومت تھی لیکن بات نہیں سنی جاتی تھی۔ اسی طرح سنتے تھے جس طرح بہرے سنتے ہیں۔) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ وہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اُس زمانے میں کہی جاتی تھیں اگر کسی اور کے متعلق کہی جائیں تو ملک میں آگ لگ جائے۔ مگر وہ باتیں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں لیکن کہنے والوں پر کوئی گرفت نہیں ہوتی حتی کہ ہمیں یہاں تک رپورٹ ملی ہے(اُس زمانے کی یہ بات ہے) کہ بعض مخالفوں کے حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں افسروں نے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو چاہو لکھو کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 17 صفحہ152-153)

تو یہ تو ہمیشہ سے جماعت کے ساتھ سلوک ہوتا آیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر روک کے مقابلے میں جماعت ترقی کرتی چلی گئی ہے۔ یہ تو اُس وقت کی حکومت کا حال تھا جس نے اس بارے میں کوئی قانون پاس نہیں کیا ہوا تھا۔ پاکستان میں تو احمدیوں کے خلاف قانون بھی ہے اور قانون ان مخالفین کی مدد کرتا ہے اور وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں جو منہ میں آتا ہے، جو بکواس، دریدہ دہنی کرنی ہوتی ہے وہ کر جاتے ہیں۔ احمدیوں کو مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کورٹس جو ہیں وہ بھی اب ذرا ذرا سی بات پر سزائیں دینے پر تُلی ہوئی ہے۔ پس اس کے لئے تو ہمیں بہت زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور چِلّانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ نوافل ادا کریں۔ صدقات دیں۔ روزے رکھیں۔ دعاؤں کے بغیر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لائے بغیر ہمارے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خاص طور پر ان احمدیوں کو، جہاں یہ ظلم ہو رہے ہیں، جن جن ملکوں میں ہو رہے ہیں یا جن جگہوں پر ہو رہے ہیں، ایسی دعاؤں کی توفیق دے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلانے والی ہوں۔ اور عام طور پر تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی جماعت کی ترقی کے لئے اور مظالم سے بچنے کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 12؍ فروری 2016ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنی طرف سے کھڑا کرتا ہے یا انبیاء بھیجتا ہے تو ان کی تائید و نصرت بھی فرماتا ہے اور اگر صداقت ظاہر کرنے کے لئے دنیا کی کثیر آبادی کو ان کے غلط کاموں کی وجہ سے سزا دینا چاہے تو پرواہ نہیں کرتا اور سزا دیتا ہے۔

    اسلام کا حکم یہی ہے کہ ہر شخص بجائے اپنا حق لینے کے اور اس پر اصرار کرنے کے دوسرے کے حق کو دینے اور اس کو قائم کرنے کی کوشش کرے۔

    یہ غیر اسلامی روح ہے کہ چونکہ دوسرے کے حق پر ہم ایک لمبے عرصے سے قائم ہیں، اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس حق کو اپنا حق سمجھنے کی ایک عادت ہمیں ہو گئی ہے اس لئے ہم دوسرے کو وہ حق نہیں دے سکتے۔ یہ انتہائی غلط چیز ہے جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ افسوس ہے کہ بعض دفعہ قضاء میں ایسے معاملات آتے ہیں کہ ہماری جماعت میں بھی بھائی بھائی کا حق دبا رہا ہوتا ہے یا دوسرے عزیزوں کے حق دبا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس طرف توجہ کریں تو ہمارے قضاء کے بھی بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں۔ میرا کیا اور تیرا کیا۔ غلام کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو جب اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں عبداللہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں پہلے سے زیادہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کس طرح عبداللہ بننے کا حق ادا کرنا ہے اور اپنی ضد اور اَنانیت چھوڑنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

    جماعتی لحاظ سے اس سال میں انتخاب ہونے ہیں اس لحاظ سے بھی ہر ایک کو اپنی سوچوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ دعا کے بعد ہر تعلق کو اور ہر رشتے کو چھوڑ کر اپنا حق جو ہے وہ صحیح استعمال کریں، اپنی رائے دیں اور اس کے بعد جو فیصلہ ہو جائے اس کو قبول کرلیں۔ مکمل طور پر اپنی ذاتیات سے بالا ہو کر اپنے فیصلے کریں۔ افسر ہوں یا عہدیدار ہوں وہ صرف اپنے ماتحتوں پر انحصار نہ کیا کریں بلکہ خود بھی براہ راست ہر کام میں نگرانی رکھیں اور involve ہونے کی کوشش کریں۔ تبھی کام صحیح رنگ میں انجام تک پہنچ سکتا ہے۔

    بعض دفعہ چاہنے کے باوجود بعض کام نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ وہ چاہنا جو ہے وہ بے دلی سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ تمام لوازمات جو بیان کئے گئے ہیں وہ نہیں ہوتے۔ عزم نہیں ہوتا، حوصلہ نہیں ہوتا، محنت نہیں کی جاتی۔ صرف دل میں سوچا جاتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں۔ اس بات کو خاص طور پر مَیں دیکھتا ہوں جب نمازوں کا سوال آتا ہے۔ کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کریں ہم چاہتے ہیں کہ نمازوں میں باقاعدہ ہو جائیں لیکن باقاعدہ نہیں۔ باقی کاموں کو جب چاہتے ہیں تو وہ کر لیتے ہیں لیکن نماز کوکیونکہ بے دلی سے چاہتے ہیں، اپنی تمام تر صلاحیتیں اس پر استعمال نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ سے مددنہیں مانگتے اس لئے نمازوں کی عادت بھی نہیں پڑتی۔ ایسے لوگوں کا چاہنا جو ہے وہ اصل میں نہ چاہنا ہوتا ہے۔ یہ اپنی سستیاں ہوتی ہیں اور بے رغبتی ہوتی ہے جس کو بلا وجہ چاہنے کا نام دے دیا جاتا ہے۔

    یہ بھی ایک ہنسی ہی ہے کہ ایک وقت آ کر نماز پڑھ لی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ فرائض ادا ہو گئے۔ یا ان لوگوں کے لئے بھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں آ کر ایک نماز پڑھ لی اور فرض ادا ہو گیا بس کافی ہے۔ پس وہ لوگ جو نمازوں کی طرف باقاعدگی سے توجہ نہیں دیتے وہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پانچ نمازیں ہر بالغ عاقل مسلمان پر فرض ہیں اور مَردوں پر یہ مسجدوں میں باجماعت فرض ہیں اور اس کے لئے انتظام ہونا چاہئے۔ یا تو یہ کہہ دیں کہ ہم بالغ نہیں۔ یا یہ کہہ دیں کہ بے عقل ہیں، تو ٹھیک ہے۔ اور جب یہ دونوں چیزیں نہیں تو پھر باجماعت نماز کی ہر جگہ کوشش ہونی چاہئے۔

    ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ایک نیک کام کرتا ہے تو پہلے سے زیادہ عاجزی اور استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مزیدنیک کاموں کی دعا مانگتا ہے۔

    ایمان ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں آتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں آتا ہے۔ یہ بنیادی چیز ہے، یاد رکھنی چاہئے۔ ہمارے اعمال جتنے بھی ہوں اگر اللہ تعالیٰ کا رحم نہیں ہے، اس کا فضل نہیں تو پھر ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔

    زبان سے فرمانبرداری کا دعویٰ کرنا کوئی چیز نہیں۔ عمل اصل چیز ہوتی ہے۔ ورنہ محض منہ سے اطاعت کا دعویٰ کرنے والا بعض دفعہ سب سے بڑا منافق بھی ہو سکتا ہے۔

    احمدیت نے تو غالب آنا ہے چاہے ہماری زندگیوں میں آئے یا بعد میں آئے۔ لیکن ہمیں اس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے تقویٰ پر قائم رہنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ نسلاً بعدنسل ٍیہ چیز قائم رہے اور اگر ہمارے زمانے میں نہیں تو ہماری نسلیں اس کو دیکھنے والی ہوں۔ چند سال ہوئے مَیں نے کہا تھا کہ جماعت کو روزے رکھنے چاہئیں اور جماعت میں ابھی تک بعض ایسے ہیں جو اس پر قائم ہیں اور روزے رکھتے ہیں۔ کم از کم اب ہمیں چاہئے کہ چالیس روزے ہفتہ وار ہی رکھیں۔ یعنی چالیس ہفتوں تک خاص طور پر روزے رکھیں، دعائیں کریں، نفل ادا کریں اور صدقات دیں۔ کیونکہ بعض جگہ جماعت کے جو حالات ہیں ان میں بہت زیادہ سختی اور شدت آتی جا رہی ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور چِلّائیں گے تو جس طرح بچے کے رونے سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتر آتا ہے، آسمان سے ہمارے رب کی نصرت انشاء اللہ تعالیٰ نازل ہو گی اور وہ روکیں اور مشکلیں جو ہمارے راستے میں ہیں وہ دُور ہو جائیں گی۔ پہلے بھی دُورہوتی رہیں اور اب بھی انشاء اللہ دُور ہوں گی۔

    ہمیں بہت زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور چِلّانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ نوافل ادا کریں۔ صدقات دیں۔ روزے رکھیں۔ دعاؤں کے بغیر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لائے بغیر ہمارے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خاص طور پر ان احمدیوں کو، جہاں یہ ظلم ہو رہے ہیں، جن جن ملکوں میں ہو رہے ہیں یا جن جگہوں پر ہو رہے ہیں، ایسی دعاؤں کی توفیق دے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلانے والی ہوں۔ اور عام طور پر تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی جماعت کی ترقی کے لئے اور مظالم سے بچنے کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے۔

    فرمودہ مورخہ 12؍فروری 2016ء بمطابق12تبلیغ 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور