حضرت مصلح موعودؓ کی روایات کے حوالہ سے تذکرہ اور اہم نصائح

خطبہ جمعہ 26؍ فروری 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

دنیا میں بہت سی باتیں بہت سے لوگ لغو اور بلا وجہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ مذاق میں کسی کو کوئی لغو بات کہہ دیتے ہیں جس سے جھگڑے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسی باتیں مجلسوں میں کی جاتی ہیں جو بے فائدہ ہوتی ہیں۔ بات برائے بات صرف کی جاتی ہے اور بعض دفعہ ایسی طنزیہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں جس سے دوسرے کو تکلیف بھی پہنچتی ہے یا ایسی بے فائدہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہوتیں۔ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔

لغو کے لغوی معنی فضول اور بے فائدہ گفتگو کے ہیں یا بغیر سوچے سمجھے بولنے کے ہیں۔ ناکارہ اور بیوقوفوں والی باتیں کرنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کو ایسی باتوں سے روکا ہے جو لغو ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مثال بیان فرماتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ فرمایا کہ

وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا (الفرقان: 73) مومن کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ جب وہ کوئی لغو دیکھتا ہے تو اس کے پاس سے گزر جاتا ہے۔ لیکن اب کہتے ہیں کہ نہایت افسوسناک بات ہے۔ مثال تو یہ عورتوں کی دی ہے کہ عورت ہمیشہ لغویات کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ گو کہ آجکل مَردوں کا بھی یہ حال ہے۔ مثلاً بلا وجہ دوسری سے پوچھتی رہتی ہیں کہ یہ کپڑا کتنے کا لیا ہے۔ یہ زیور کہاں سے بنوایا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ یہ بھی لغویات ہی ہیں۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو صرف دنیاداری کی باتیں ہیں جن میں کوئی فائدہ نہیں اور بعض دفعہ ساتھ بیٹھی ہوئی عورتوں پہ اس کے بُرے اثرات بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب تک اس کی ساری ہسٹری معلوم نہ کر لے عورت کو چین نہیں آتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ سونے کی بڑی خوبصورت انگوٹھی تھی۔ اس نے تنگ آ کر اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ لوگوں نے پوچھا کچھ بچا بھی؟ اس نے کہا سوائے اس انگوٹھی کے کچھ نہیں بچا۔ ایک عورت نے پوچھا کہ بہن تم نے یہ انگوٹھی کب بنوائی تھی یہ تو بہت خوبصورت ہے۔ تو وہ کہنے لگی اگر یہی بات تم مجھ سے پہلے پوچھ لیتی تو میرا گھر کیوں جلتا۔ تو حضرت مصلح موعود بھی فرما رہے ہیں کہ یہ عادت صرف عورتوں تک مخصوص نہیں ہے بلکہ مَردوں میں بھی ہے۔ بلا وجہ کے سوال جواب بھی بعض دفعہ کر لیتے ہیں۔ السلام علیکم کے بعد پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو؟کہاں جاؤ گے؟ آمدنی کیا ہے؟ بھلا دوسرے کو اس معاملے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر آپ مغربی قوموں کی یہ مثال دیتے ہیں کہ انگریزوں میں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ تُو کہاں ملازم ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ تنخواہ کیا ملتی ہے؟ وہ کریدنے کا خیال نہیں کرتے۔ (ماخوذ از مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 397)

پس لغو صرف ایسی چیز نہیں جو دوسرے کو نقصان پہنچانے والی ہو بلکہ ہر بے فائدہ بات لغو بات ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اس کی یوں بھی وضاحت فرماتے ہیں کہ ’’ایسا فعل صادر ہو جس سے کوئی خاص حرج اور نقصان نہیں پہنچتا‘‘۔ (ماخوذ از اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 349) یعنی وہ باتیں لغو ہیں جن سے کوئی خاص حرج اور نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ یہ اس کا مطلب ہے۔

پس مومن کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کی گفتگو ہمیشہ بامقصد ہو اور ہر قسم کی لغویات سے پرہیز ہو۔ لیکن ہم جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ بلا وجہ بعض باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اب بعض اور سبق آموز مثالیں جو مختلف جگہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں اور جنہیں حضرت مصلح موعودؓ نے پیش فرمایا ہے وہ پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی چوہڑا لاہور کے پاس سے ایک مرتبہ گزرا۔ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ بوجھ اٹھانے کے کام کیا کرتا تھا یا گند اٹھانے کے کام کیا کرتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہر میں کہرام مچ رہا ہے۔ بڑا شور مچا ہوا ہے۔ ہندو مسلمان مرد عورت سب رو رہے ہیں۔ اس نے کسی سے اس کی وجہ دریافت کی تو اسے بتایا گیا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ مر گیا ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں یوں تو سکھوں کی حکومت بہت بدنام ہے۔ اس زمانے میں بعض ایسے بھی راجے آئے تھے جو بڑے بدنام تھے مگر اس میں شبہ نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی مَیں نے بارہا سنا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں امن قائم ہو گیا تھا اور اس نے خرابیوں کو بہت حد تک دُور کر دیا تھا۔ مسلمانوں پر سکّھوں کے مظالم کے جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں وہ دوسرے زمانے کے ہیں جب ملک کی حکومت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی، لوٹ مار ہو رہی تھی اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کوشش ہمیشہ یہی رہتی تھی کہ امن قائم ہو اور وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایک حد تک اچھا سلوک کرتے تھے۔ (آپ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ) ان کے وزراء میں مسلمان بھی تھے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد یعنی ہمارے دادا بھی ان کے جرنیلوں میں سے تھے اور کئی مسلمان بھی بڑے بڑے عہدوں پر تھے۔ پس اس امن کو دیکھتے ہوئے جو ان کی وجہ سے ملک کو حاصل ہوا تھا اور اس فساد کو یاد کر کے جو ان سے قبل پایا جاتا تھا ان کی موت کا سب کو صدمہ تھا اور لوگ رو رہے تھے۔ چوہڑے نے اس کہرام کی وجہ دریافت کی تو کسی نے اسے بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گئے ہیں۔ وہ بڑی حیرت سے اس شخص کا منہ دیکھنے لگا اور دریافت کرنے لگا کہ لوگ ان کی وفات پر اتنے بے تاب کیوں ہیں۔ میرے باپ جیسے لوگ مر گئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کس شمار میں ہیں۔ یہ لطیفہ بیان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جسے کسی چیز کی قدر ہوتی ہے وہی اس کے نزدیک بڑی ہوتی ہے۔ اس چوہڑے کا باپ اس سے حسن سلوک کرتا تھا اس لئے وہ اسے پیارا تھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا حسن سلوک گو لاکھوں سے ہو مگر چونکہ وہ ان لاکھوں میں سے نہ تھا، نہ اس کی نظر اتنی وسیع تھی کہ وہ سمجھتا کہ ملک کا فائدہ اور امن و امان بڑی چیز ہے۔ انفرادی فائدے کی اس کے مقابل پر کوئی حقیقت نہیں۔ اس لئے اس کا یہی خیال تھا کہ اصل چیز جو قدر کی ہے میرا باپ تھا جس کی مجھے قدر کرنی چاہئے۔ جب وہ فوت ہو گیا تو پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گیا تو کیا ہوا۔ (ماخوذ از الفضل مورخہ 6 جون 1952ء جلد 24/6 نمبر 135 صفحہ 5) تو دنیا میں اپنی ضرورت کی اہمیت کی وجہ سے بعض چھوٹی چیزیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور بعض بڑی چیزوں کو عدمِ علم کی وجہ سے انسان نظر انداز کر دیتا ہے۔ بچے کو اگر قیمتی سے قیمتی ہیرا بھی دے دیا جائے تو وہ اس کی قدر کیا کرے گا۔

پس ایک مومن کو اپنے رویّوں سے، اپنے سلوک سے، دوسروں کے کام آنے سے، دوسروں پر احسان کرنے سے اپنی قدر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کی صرف محدود قدر نہ ہو کہ اس کے قریبی ہی صرف اس پہ رونے والے ہوں بلکہ جہاں وہ رہتا ہے، جس معاشرے میں رہتا ہے وہاں اس کی قدر قائم ہو۔ ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ ہے۔ اسی دائرے میں کسی احمدی کا تعارف اور نیک تعارف صر ف اس کی ذات تک محدودنہیں رہتا یا اسے فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ جماعت کی نیک نامی کا باعث ہوتا ہے اور یوں تبلیغ کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ دنیا کو پتا چلتا ہے۔ اگر ایک احمدی اپنا اثر ڈالنے والا ہو تو دنیا کو پتا چلے گا کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے اور دنیا کی امن و سلامتی کے لئے اس زمانے میں اسلام کی تعلیم ہی حقیقی تعلیم ہے جو حقیقی امن پیدا کر سکتی ہے۔ پس دنیا کا جو عدم علم ہے یا علم کا نہ ہونا جو ہے وہ علم دلانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں کوشش کرنی چاہئے۔ بعض لوگ معمولی قربانی کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا ہے یا بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر قربانی کے اپنے خیالات میں قربانی کرنے والے بن جاتے ہیں یا دوسروں پر احسان کرنے والے بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ’’ایک آدمی نے کسی شخص کی دعوت کی اور اپنی طاقت کے مطابق اس کی تواضع میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ جب مہمان جانے لگا تو اس سے گھر والا جو تھا معذرت کرنے لگا کہ میری بیوی بیمار تھی، کچھ اور بھی مجبوریاں بتلائیں۔ اس لئے میں آپ کی پوری طرح خدمت نہیں کر سکا۔ امید ہے کہ آپ معاف کریں گے، درگزر کریں گے۔ یہ سن کر مہمان کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں تم کس غرض سے کہہ رہے ہو۔ تمہارا منشاء یہ ہے کہ مَیں تمہاری تعریف کروں اور تمہارا احسان مانوں۔ اب یہ مہمان کے خیالات ہیں۔ لیکن مہمان صاحب کہنے لگے تم مجھ سے یہ امیدنہ رکھو بلکہ تمہیں میرا احسان ماننا چاہئے۔ میزبان نے کہا میرا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ آپ کے اوپر کوئی احسان جتاؤں۔ مَیں واقعی شرمسار ہوں کہ پوری طرح آپ کی خدمت نہیں کر سکا۔ اگر آپ کا مجھ پر کوئی احسان ہے تو وہ مجھے بتا دیں مَیں اس کا بھی شکریہ ادا کر دیتا ہوں۔ اس پر مہمان نے کہا کہ خواہ تم کچھ کہو مَیں تمہارے دل کی منشاء کو خوب سمجھتا ہوں۔ (یعنی دلوں کا حال بھی جاننے لگے۔ مہمان یہ کہنے لگا) لیکن یاد رکھو کہ تم نے مجھے کھانا ہی کھلایا ہے۔ (اس سے زیادہ تم نے میرے پہ اور کیا احسان کیا ہے؟)۔ میرا تم پر بہت بڑا احسان ہے۔ تم ذرا اپنے کمرے کو دیکھو۔ (یہ کمرہ جہاں مجھے بٹھایا ہوا ہے، ڈرائنگ روم، اس میں کئی ہزار کا سامان پڑا ہوا ہے۔ جب تم میرے لئے کھانا لینے اندر گئے تھے میں چاہتا تو دیا سلائی دکھا کے یہ سب کچھ جلا دیتا۔ تم ہی بتاؤ کہ اگر میں آگ لگا دیتا تو ایک پیسے کا بھی سامان باقی رہ جاتا؟ مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ مہمان کہنے لگا کیا میرا تم پر یہ احسان کم ہے۔ یہ سن کر گھر والے نے کہا کہ واقعی آپ نے بہت بڑا احسان کیا ہے۔ میں اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میرا گھر نہیں جلایا۔ تو دیکھ لو ایک انسان ایسا بھی ہوتا ہے کہ بجائے محسن کا احسان پہچاننے اور شکریہ ادا کرنے کے یہ سمجھتا ہے کہ مَیں احسان کر رہا ہوں‘‘۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 13صفحہ 592)

پس ایک مومن کو حقیقی طور پر احسان کرنے والے کا شکرگزار ہونا چاہئے، نہ کہ اس شخص کی طرح احسان فراموش۔ ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے مربیان کو بھی نصیحت فرمائی ہے اور ایک مثال دی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرمایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جو کسی پِیر کا بڑا معتقد تھا اور اپنے وزیر کو کہتا رہتا تھا کہ میرے پیر سے ملو۔ وزیر چونکہ اس پیر کی حقیقت جانتا تھا اس لئے ٹلاتا رہتا تھا۔ آخر ایک دن جب بادشاہ پیر کے پاس گیا تو وزیر کو بھی ساتھ لیتا گیا۔ پیرصاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ بادشاہ سلامت! دین کی خدمت بڑی اچھی چیز ہے۔ سکندر بادشاہ نے دین اسلام کی خدمت کی اور وہ اب تک مشہور چلا آتا ہے۔ (یہ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ کسی اور حوالے سے بیان کر چکا ہوں۔) تو یہ سن کر وزیر نے کہا کہ دیکھئے حضور! پیر صاحب کی ولایت کے ساتھ ان کو تاریخ دانی کا بھی بہت ملکہ ہے۔ سکندر تو اسلام سے پہلے گزرا ہے اس کے بارے میں پیر صاحب باتیں کر رہے ہیں۔ یعنی آپ کے یہ پیر صاحبصرف ولی اللہ ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو بڑے تاریخ دان بھی لگتے ہیں۔ نئی تاریخ انہوں نے بنا دی ہے۔ اس پر بادشاہ کو اس پیر سے نفرت ہو گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ قصہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ علمِ مجلس بھی نہایت ضروری ہے۔ جب تک انسان اس سے واقف نہ ہو دوسروں کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آداب مجلس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً ایک مجلس مشورے کی ہو رہی ہو اور کوئی بڑا عالم ہو مگر اس مجلس میں جا کر سب کے سامنے لیٹ جائے تو کوئی اس کے علم کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی نسبت لوگوں پر برا اثر پڑے گا۔ پس یہ نہایت ضروری ہے کہ جو بھی مجلس ہو، جس قسم کی مجلس ہو مبلغ کو، مربی کو جب وہ ایسی مجلس میں جائے اس کا علم ہونا ضروری ہے۔ ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ وہ جغرافیہ، تاریخ، حساب، طب، آدابِ گفتگو، آداب مجلس وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے ہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں۔‘‘ (ماخوذ از ہدایات زریں۔ انوار العلوم جلد 5صفحہ 584۔ 585) اس کے علاوہ بھی آجکل ہمارے مربّیان سے اس زمانے کے حالات کے مطابق حالات حاضرہ کے متعلق سوال کئے جاتے ہیں اور بعض دفعہ کیونکہ اخبار وغیرہ باقاعدہ نہیں پڑھتے، علم نہیں ہوتا یا خبریں نہیں سنتے، علم نہیں ہوتا یا کسی بارے میں کسی معاملے کی گہرائی میں نہیں گئے ہوتے اس لئے بعض دفعہ جو دنیا دار لوگ ہیں وہ پھر برا اثر بھی لے لیتے ہیں۔ بعض جگہ سے ایسی شکایتیں آتی بھی ہیں۔ اس لئے حالات حاضرہ سے واقفیت اور جس مجلس میں جائیں اس کی ضروری واقفیت حاصل کر کے جانا چاہئے۔

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مثال بیان کی ہے۔ فرماتے تھے کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ اس نے اپنا مال ان میں بانٹ دیا۔ چھوٹا بیٹا اپنا سارا مال لے کر دور دراز چلا گیا اور وہاں اس نے سارا مال بدچلنی میں ضائع کر دیا۔ آخر وہ ایک شخص کے ہاں چرواہے کے طور پر ملازم ہو گیا۔ (سب کچھ لٹ گیا آخر مزدوری کرنی پڑی۔) اس حالت میں اُس نے خیال کیا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی بڑی کھلی ملتی ہے۔ افراط سے ملتی ہے۔ مگر مَیں یہاں مزدوری کرنے کے باوجود بھوکا مر رہا ہوں۔ کیوں اس کے پاس جا کر یہ نہ کہوں کہ مجھے بھی اپنے مزدوروں کی طرح رکھ لے۔ اس پر وہ اپنے باپ کے پاس گیا۔ باپ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے گلے لگا لیا اور نوکروں سے کہا خوب موٹا تازہ بچھڑا لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھائیں اور خوشی منائیں۔ جب اس کا دوسرا بیٹا آیا (اس کو بھی دولت دی تھی اور وہ اپنا کاروبار بڑا اچھا کر رہا تھا) تو اسے یہ بات بہت بری لگی(کہ جو سب کچھ لٹا کر آ گیا ہے اس کی اتنی خاطر داری ہو رہی ہے) اور اپنے باپ کو اس نے کہا کہ مَیں اتنے برس سے تمہاری خدمت کر رہا ہوں اور کبھی تمہاری حکم عدولی نہیں کی مگر تم نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی مجھے نہیں دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی منا لو۔ لیکن جب تمہارا یہ بیٹا آیا ہے جس نے تمہارا مال عیش و عشرت میں ضائع کر دیا اس کے لئے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کروا دیا۔ باپ نے کہا کہ تُو ہمیشہ میرے پاس ہے اور میرا جو کچھ ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن تیرے اس بھائی کے آنے پر اس لئے خوشی منائی گئی کہ یہ مردہ تھا اب زندہ ہوا ہے۔ کھویا ہوا تھا اب ملا ہے۔ پس جو شخص کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے جب وہ غلطی کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور جاتا ہے، اس کے آگے جھکتا ہے اور اپنے قصور کا اعتراف کرتا ہے اور اعتراف کرتے ہوئے ندامت کا اظہار کرتا ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور پہلے سے زیادہ اس پر رحم کرتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 12صفحہ 375)

پس ایک مومن کو بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپناتے ہوئے جہاں وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ سلوک کرے تو ان صفات کو اپناتے ہوئے جہاں بھی وہ دیکھیں کہ ان کے جو اپنے بھائی ہیں جنہوں نے قصور کئے ہوئے ہیں، اگر وہ سچے دل سے معافی مانگنے آتے ہیں اور قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں تو اُسے ان سے صَرف نظر کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے جو معافی نہیں بھی مانگ رہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھی اور ہماری بھی غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہم سے صَرف نظر کرے۔ انسان کا کردار ہر حالت میں مضبوط ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ کبھی ادھر ہو گئے اور کبھی ادھر ہو گئے۔

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک راجہ نے ایک دفعہ بینگن کھائے تو اسے بہت ہی مزہ آیا۔ (بہت سے لوگوں نے قصہ سنا ہوا ہے۔) وہ جب دربار میں آیا تو کہنے لگا کہ بینگن کیا ہی اچھی چیز ہے۔ اس کا ایک مصاحب تھا اس نے بھی بینگن کی تعریف شروع کر دی۔ کہنے لگا اور تو اَور اس کی شکل ہی دیکھئے کیسی عمدہ شکل ہے۔ سر تو ایسا ہے جیسے کسی پیر نے سبز پگڑی باندھی ہوئی ہو۔ نیلگوں لباس ہے تو آسمان کی رنگت کو مات کر رہا ہے۔ پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شہزادہ جھولا جھول رہا ہو۔ (ایسی ایسی تعریفیں کیں۔) طبّی طور پر جتنی اس کی خوبیاں تھیں ساری کی ساری گن گن کے بیان کر دیں۔ یہ باتیں سن کر راجہ کو شوق پیدا ہوا اور اس نے کچھ دن بینگن ہی کھانا شروع کر دئیے۔ بینگن چونکہ گرم ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے حدّت پیدا کی(اور وہ) بیمار ہو گئے۔ تو راجہ نے ایک دن کہا بینگن بہت بری چیز ہے۔ اس پر اسی مصاحب نے اس کی برائیاں شروع کر دیں۔ کہنے لگا شکل دیکھئے کتنا کالا منہ ہے۔ نیلے پاؤں ہیں اس سے بھی زیادہ اور کیا اس کی برائی ہو سکتی ہے کہ الٹا لٹکا ہوا ہے جیسے کسی نے پھانسی پہ لٹکایا ہو۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے چونکہ ہر شئے کی خوبیاں بھی ہوتی ہیں، خامیاں بھی ہوتی ہیں، برائیاں بھی ہوتی ہیں تو اس موقع پر مصاحب نے اس کی تمام برائیاں جو طبی طور پر تھیں وہ بھی بیان کر دیں۔ پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ یہ کیا ہے۔ کل اس وقت تم تعریفیں کر رہے تھے، آج اس کی برائیاں کر رہے ہو۔ کم از کم سچ تو بولا کرو۔ تو کہنے لگا کہ میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 10 صفحہ 77-78)

آجکل کی مسلمان دنیا میں عموماً یہی کچھ دیکھتے ہیں اور ان کو دیکھ کر ہمیں پھر سبق سیکھنا چاہئے۔ کیریکٹر کے لحاظ سے، کردار کے لحاظ سے، سب سے زیادہ مضبوط کردار تو مسلمان کا ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ کردار کے لحاظ سے گرے ہوئے یہی لوگ ہیں۔ سچائی پر قائم ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تو خوشامد اور جہاں مفاد دیکھتے ہیں اسی طرف الٹ جاتے ہیں چاہے وہ لیڈر ہوں یا چاہے عوام الناس ہوں۔ سچائی پر قائم ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ صحیح اور غلط کو سامنے رکھ کر پھر اپنی رائے قائم کی جائے اور صحیح مشورہ دیا جائے۔

پھر یہ بھی ایک اور واقعہ ہے۔ اس کو بیان کرتا ہوں۔ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہی حقیقت میں مسائل کا حل نکالتا ہے اور یہ تعلق تقویٰ سے بڑھتا ہے اور پھر ہم احمدی جن کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر ہم نے صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو ہمیں اس زندگی گزارنے کے لئے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دیکھنا ہے، اسی سے تعلق قائم کرنا ہے۔ ہماری کامیابی کبھی دنیاوی باتوں سے نہیں ہو سکتی۔ پس اگر ہم میں تقویٰ اور خوف الٰہی ہو، اگر ہم تقویٰ اور خوف الٰہی اپنے اندر پیدا کریں تو پھر ہی ہماری کامیابیاں ہیں اور جب یہ صورت ہو گی تو پھر فرشتے ہماری راہ ہموار کرتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ بہت سارے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دنیادار کا دنیا دار سے تعلق جب اسے فائدہ پہنچا سکتا ہے تو خدا تعالیٰ کا تعلق تو اس سے ہزاروں لاکھوں گنا بڑھ کر نفع پہنچانے والا ہے۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قصہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص کسی سفر پر جانے لگا تو اس نے اپنا کچھ روپیہ قاضی کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا۔ عرصے کے بعد واپس آ کر اس نے جب روپیہ مانگا تو قاضی کی نیت بدل گئی اور اس نے کہا میاں عقل کی دوا کرو کون سا روپیہ اور کیسی امانت۔ میرے پاس تم نے کب روپیہ رکھوایا تھا۔ اس نے کوئی تحریر وغیرہ تو لی نہیں تھی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ قاضی صاحب کی ذات ہی کافی ہے۔ مگر قاضی صاحب نے کہا کہ اگر کوئی روپیہ رکھ گئے تھے تو لاؤ ثبوت پیش کرو۔ کوئی رسید دکھاؤ۔ کوئی گواہ لاؤ۔ اس نے بہت یاد دلایا مگر وہ یہی کہتا رہا کہ کچھ نہیں ہے۔ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ تم نے کبھی پیسہ نہیں دیا۔ آخر اس نے بادشاہ کے پاس شکایت کی۔ بادشاہ نے کہا کہ عدالت کے طور پر تو مَیں تمہارے حق میں کچھ نہیں کر سکتا۔ تمہارے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ کوئی تحریر نہیں ہے گواہ نہیں ہے ثبوت نہیں ہے۔ ہاں ایک ترکیب تمہیں بتا دیتا ہوں۔ اگر تم سچے ہو تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ فلاں دن میرا جلوس نکلے گا اور قاضی بھی اپنی ڈیوڑھی کے آگے موجود رہے گا۔ اس دن بادشاہ سڑکوں پر شہر میں دورہ کرے گا۔ تم بھی کہیں اس کے پاس کھڑے ہو جانا۔ مَیں تمہارے پاس پہنچ کر تمہارے ساتھ بے تکلفی سے بات شروع کروں گا کہ تم مجھے ملنے کیوں نہیں آئے؟ اور اتنے عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی اور تم مجھے یہ کہنا کہ کچھ پریشانیاں سی تھیں۔ اس لئے حاضرنہیں ہو سکا۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور جلوس کے دن قاضی صاحب کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ بادشاہ آیا تو بادشاہ نے قاضی کے بجائے اس شخص سے مخاطب ہو کر بات شروع کر دی اور کہا تم چلے گئے، عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اس نے اپنے سفر کا حال بتایا۔ پھر بادشاہ نے پوچھا۔ واپسی پر کیوں نہیں ملے؟ اس نے جواب دیا کہ یونہی بعض پریشانیاں تھیں، کچھ وصولیاں وغیرہ کرنی تھیں۔ بادشاہ نے اسے کہا نہیں نہیں، تمہیں ضرور ہمیں ملنا چاہئے تھا۔ جلدی جلدی مجھے ملنے آیا کرو۔ جب بادشاہ کا جلوس گزر گیا تو قاضی صاحب نے اسی شخص سے کہا کہ میاں ذرا بات تو سنو۔ تم اس دن آئے تھے اور کسی امانت کا ذکر کرتے تھے۔ مَیں اب بوڑھا ہو گیا ہوں یادداشت کام نہیں کرتی۔ کچھ اتا پتا بتاؤ تو مجھے یاد آئے۔ اس نے پھر وہی باتیں دہرادیں جو پہلے قاضی سے کر چکا تھا۔ اس پر قاضی صاحب کہنے لگے اچھا اچھا فلاں قسم کی تھیلی تھی، وہ تمہاری تھی۔ وہ تو پڑی ہوئی ہے۔ لے جاؤ آ کے اور لا کر روپیہ اسے دے دیا۔ تو یہ قصہ سنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کی مخالفت سے کیا ڈرنا۔ کوئی بڑے سے بڑا جرنیل بھی تو تلواروں اور گولیوں وغیرہ سے ہی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر یہ ساری چیزیں ہمارے خدا کی ہیں۔ اگر وہ کہے کہ اس طرف وار نہ کرو تو کون کر سکتا ہے۔ پس بندے کو اللہ تعالیٰ سے دوستی کرنی چاہئے، اس سے محبت کرنی چاہئے۔ ڈر سے یا مرنے مارنے سے کام نہیں بنتا۔ ترقی کی یہی راہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دے اور جس طرف وہ لے جانا چاہے اس طرف چلتا جائے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 15 صفحہ 274-275)

ایک سچے مومن کی مثال کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے مومن کی مثال سچے دوست سے دیتے تھے۔ آپ سنایا کرتے تھے کہ کوئی امیر آدمی تھا اس کے لڑکے کے کچھ اوباش لڑکے دوست تھے۔ آوارہ گرد لڑکے دوست تھے۔ باپ نے اسے سمجھایا کہ یہ لوگ تیرے سچے دوست نہیں ہیں۔ محض لالچ کی وجہ سے تمہارے پاس آتے ہیں ورنہ ان میں سے کوئی بھی تمہارا وفادار نہیں ہے۔ مگر لڑکے نے اپنے باپ کو جواب دیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی سچا دوست شاید میسر نہیں آیا۔ اس لئے آپ سب لوگوں کے متعلق یہی خیال رکھتے ہیں۔ میرے دوست ایسے نہیں ہیں۔ وہ بہت وفا دار ہیں اور میرے لئے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔ باپ نے پھر سمجھایا کہ سچے دوست کا ملنا بہت مشکل ہے۔ باپ نے کہا کہ ساری عمر میں مجھے ایک ہی سچا دوست ملا ہے لیکن وہ لڑکا اپنی ضد پر قائم رہا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے گھر سے خرچ کے لئے کچھ رقم مانگی تو باپ نے جواب دیا کہ مَیں تمہارا خرچ برداشت نہیں کر سکتا۔ تم اپنے دوستوں سے مانگو۔ میرے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے۔ دراصل اس کا باپ اس کے لئے موقع پیدا کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کا امتحان لے۔ جب باپ نے گھر سے جواب دے دیا اور تمام دوستوں کو معلوم ہو گیا کہ لڑکے کو گھر سے جواب مل گیا ہے تو انہوں نے اس کے پاس آنا جانا بند کر دیا اور میل ملاقات چھوڑ دی۔ آخر تنگ آ کر یہ لڑکا خود ہی ان دوستوں کو ملنے کے لئے ان کے گھروں پہ گیا۔ جس دوست کے دروازے پر دستک دیتا وہ اندر سے ہی کہلا بھیجتا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں یا وہ بیمار ہیں اس وقت نہیں مل سکتے۔ سارا دن اس نے چکر لگایا مگر کوئی دوست ملنے کے لئے باہر نہ آیا۔ آخر شام کو گھر واپس لوٹا۔ باپ نے پوچھا بتاؤ دوستوں نے کیا مدد کی۔ کہنے لگا سارے ہی حرام خور ہیں۔ کسی نے کوئی بہانہ بنا لیا ہے اور کسی نے کوئی۔ باپ نے کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ وفا دار نہیں ہیں۔ اچھا ہوا تمہیں بھی تجربہ ہو گیا۔ اب آؤ مَیں تمہیں اپنے دوست سے ملاؤں۔ وہ پاس ہی ایک جگہ گیا۔ اس کا ایک دوست جو سپاہی تھا۔ کسی چوکی میں ملازم تھا۔ یہ باپ بیٹا اس کے مکان پر پہنچے اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی کہ میں آتا ہوں۔ کافی دیر ہو گئی۔ دروازہ کھولنے کے لئے کوئی نہ آیا۔ لڑکے کے دل میں مختلف خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اس نے باپ سے کہا ابّا جی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوست بھی میرے دوستوں جیسا ہی ہے۔ باپ نے کہا دیکھ۔ کچھ دیر انتظار کرو۔ آخر کچھ وقت گزر گیا۔ اس نے دروازہ کھولا تو باہر آیا تو گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ ایک ہاتھ میں ایک تھیلی اٹھائی ہوئی تھی دوسرے ہاتھ سے بیوی کا بازو پکڑا ہوا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے کہا کہ معاف فرمائیے آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ میں جلدی نہ آ سکا۔ میرے جلدی نہ آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ آپ نے جب دروازے پر دستک دی تو میں سمجھ گیا کہ آج کوئی خاص بات ہے کہ آپ خود آئے ہیں ورنہ آپ کسی نوکر کو بھی بھجوا سکتے تھے۔ میں نے دروازہ کھولنا چاہا تو مجھے یکدم خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کوئی مصیبت آئی ہو۔ یہ تین چیزیں میرے پاس تھیں ایک تلوار اور ایک تھیلی جس میں میرا ایک سال کا اندوختہ ہے، چند سو روپے ہیں اور میری بیوی خدمت کے لئے آئی ہے کہ شاید آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہو۔ اور یہ دیر جو ہوئی ہے اس لئے ہوئی کہ تھیلی زمین میں دبائی ہوئی تھی اس کو نکالنے میں دیر لگ گئی۔ میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے کوئی ایسی مصیبت ہو جس میں کوئی جانباز کام آ سکتا۔ ہو اس لئے میں نے تلوار ساتھ لے لی کہ اگر جان کی ضرورت ہو تو مَیں جان پیش کر سکوں۔ پھر میں نے خیال کیا کہ گو آپ امیر آدمی ہیں لیکن ہو سکتا ہے کوئی مصیبت ایسی آئی ہو جس سے آپ کا مال ضائع ہو گیا ہو اور مَیں روپیہ سے آپ کی مدد کر سکوں تو مَیں نے یہ تھیلی ساتھ لے لی ہے۔ اور پھر مَیں نے خیال کیا کہ بیماری وغیرہ انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہو تو میں نے بیوی کو بھی ساتھ لے لیا تا کہ وہ خدمت کر سکے۔ اس امیر آدمی نے کہا کہ میرے دوست! مجھے اس وقت کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور کوئی مصیبت اس وقت مجھے نہیں آئی بلکہ مَیں صرف اپنے بیٹے کو سبق سکھانے کے لئے آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ سچی دوستی ہے اور اس سے بڑھ کر سچی دوستی انسان کو اللہ تعالیٰ سے قائم کرنی چاہئے کہ وہ اپنی جان اور مال اور اپنی ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار رہے۔ جس طرح دوست کبھی مانتے ہیں اور کبھی منواتے ہیں اسی طرح انسان کا فرض ہے کہ وہ صدق دل کے ساتھ اور شرح صدر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کتنی باتیں مانتا ہے۔ رات دن ہم اس کی عطاکردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس نے جو چیزیں ہماری راحت اور آرام کے لئے بنائی ہیں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں۔ آخر کس حق کے ماتحت ہم اتنی چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہماری کتنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے اور اگر کوئی ایک آدھ دفعہ اپنی خواہش کے خلاف ہو جائے تو کس طرح لوگ اللہ تعالیٰ سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ اصل تعلق یہ ہے کہ عُسر ہو اور یُسر ہو دونوں حالتوں میں استوار رہے اور اس میں کوئی فرق نہ آئے۔ (ماخوذ از اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 382 تا 384)

پس وہ لوگ جو نمازوں کے حق ادا نہیں کرتے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ وہ لوگ جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا نہیں کرتے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ وہ لوگ جو یہاں آئے تو احمدیت کی وجہ سے ہیں لیکن یہاں آ کر بھول گئے ہیں کہ احمدیت کی وجہ سے ہی انہیں یہاں رہنے کا، شہریت کا حق ملا ہے اور اس وجہ سے ان کو زیادہ سے زیادہ جماعت کی خدمت کے لئے آگے آنا چاہئے لیکن وہ اسے بھول جاتے ہیں اور بعض دفعہ اعتراض شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ اچھے عابد ہیں نہ وفادار ہیں۔ وفا تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عُسر اور یُسر میں تنگی اور آسائش میں دونوں حالتوں میں ایسی ہونی چاہئے جس کے اعلیٰ معیار قائم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر وقت اس کے در پر رہ کر قربانی کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہئے۔

اس دوستی کا حق ادا کرنے والے اشخاص کا واقعہ جو ابھی میں نے سنایا ہے وہ انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر کس طرح چسپاں ہوتا ہے۔ اس کو بھی حضرت مصلح موعودنے بڑے خوبصورت رنگ میں بڑے دلچسپ الفاظ میں پیش فرمایا کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دلیلیں نہیں پوچھی جاتیں۔ وہاں انسان پہلے اطاعت کا اعلان کرتا ہے پھر یہ سوچتا ہے کہ میں اس حکم پر کس طرح عمل کروں۔ یہی کیفیات انبیاء کی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا پہلا کلام اترتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں اتنی ہوتی ہے کہ وہ دلیل بازی نہیں کرتے۔ اور پھر جب خدا کی آواز ان کے کانوں تک پہنچتی ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ اے ہمارے ربّ! کیا تُو ہم سے ہنسی کر رہا ہے۔ کہاں ہم اور کہاں یہ کام؟ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! بہت اچھا اور یہ کہہ کر کام کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سوچتے ہیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے۔ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رات کیا۔ خدا نے کہا اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو اور وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر یہ سوچنے لگے کہ اب میں یہ کام کس طرح کروں گا۔ پس آج سے پچاس سال پہلے (جب آپ نے پچاس سال کہا تھا اور آج اس بات کو تقریباً 125سال ہو گئے ہیں بلکہ آج سے 126-27سال) کہتے ہیں کہ آج سے پچاس سال پہلے کی وہ تاریخی رات جو دنیا کے آئندہ انقلابات کے لئے زبردست حربہ ثابت ہونے والی ہے۔ جو آئندہ بننے والی نئی دنیا کے لئے ابتدائی رات اور ابتدائی دن قرار دی جانے والی ہے۔ اگر ہم اس رات کا نظارہ سوچیں تو یقینا ہمارے دل اس خوشی کو بالکل اور نگاہ سے دیکھیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ خوشی انہیں کس گھڑی کے نتیجہ میں ملی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آئے انہیں یہ مسرت کس فعل کے نتیجے میں حاصل ہوئی اور کس رات کے بعد ان پر کامیابی و کامرانی کا یہ دن چڑھا۔ بہت سے لوگ مسیح موعود کا انتظار کرتے کرتے مر گئے لیکن وہ جنہوں نے مانا وہ یہ سوچتے ہیں اور اس طرح سوچتے ہیں کہ یہ خوشی اور یہ مسرت اور یہ کامیابی و کامرانی کا دن ان کو اس گھڑی اور اس رات کے نتیجہ میں ملا جس میں ایک تن تنہا بندہ جو دنیا کی نظروں میں حقیر اور تمام دنیاوی سامانوں سے محروم تھا اسے خدا نے کہا کہ اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو اور اس نے کہا اے میرے رب میں کھڑا ہو گیا۔ یہ وہ وفا داری تھی، یہ وہ محبت کا صحیح نظارہ تھا جسے خد انے قبول کیا اور اس نے اپنے فضل اور رحم سے اس کو نوازا۔ رونا اور ہنسنا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ روتا ہے نہ ہنستا ہے لیکن محبت کی گفتگو میں اور محبت کے کلاموں میں یہ باتیں آ ہی جاتی ہیں۔ جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ جب ایک صحابی نے مہمان نوازی کی تو اللہ تعالیٰ ان کی باتوں پر خوش ہوا اور ہنسا۔ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللہ عزوجل ویؤثرون علی انفسھم حدیث 3798) بہرحال فرماتے ہیں کہ پس میں کہتا ہوں کہ اگر خدا کے لئے بھی رونا ممکن ہوتا، اگر خدا کے لئے بھی ہنسنا ممکن ہوتا تو جس وقت خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ میں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کرتا ہوں اور آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے یہ سوچا تک نہیں کہ یہ کام مجھ سے ہوگا کیونکر۔ اگر اس وقت خدا کے لئے رونا ممکن ہوتا تو میں یقینا جانتا ہوں کہ خدا رو پڑتا اور اگر خدا کے لئے ہنسنا ممکن ہوتا تو وہ یقینا ہنس پڑتا۔ وہ ہنستا بظاہر اس بیوقوفی کے دعوے پر جو تمام دنیا کے مقابلے پر ایک نحیف و ناتواں وجودنے کیا اور وہ رو پڑتا اس جذبہ محبت پر جو اس تن تنہا روح نے خدا کے لئے ظاہر کیا۔ یہی سچی دوستی تھی جو خدا کو منظورہوئی اور اسی رنگ کی سچی دوستی ہی ہوتی ہے جو دنیا میں بھی کام آیا کرتی ہے۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان کیا جو میں نے دو دوستوں کا، غریب اور امیر کا بیان کیا۔ پھر فرمایا کہ دنیا کی زبان میں یہ دوستی کی نہایت ہی شاندار مثال ہے جو بیان پہلے ہو چکی ہے اور انسان ایسے جذبات کو دیکھ کر بغیر اس کے کہ وہ اپنے دل میں شدید ہیجان محسوس کرے نہیں رہ سکتا۔ مگر اس دوستی کا اظہار اُس دوستی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو نبی اپنے خدا کے لئے ظاہر کرتے ہیں۔ وہاں قدم قدم پر مشکلات ہوتی ہیں۔ وہاں قدم قدم پر قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں اور وہاں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پس نبیوں کا جواب اپنے خدا کو ویسا ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے جیسے اس غریب آدمی نے امیر آدمی کو دیا تھا۔ بیشک اگر معقولات کی نظر سے اس کو دیکھیں اور منطقی نقطہ نگاہ سے اس پر غور کریں تو اس غریب آدمی کی یہ حرکت ہنسی کے قابل نظر آتی ہے کیونکہ اس امیر کے ہزاروں نوکر چاکر تھے، ان کے ہوتے ہوئے ان کی بیوی نے کیا زائد خدمت کر لینی تھی۔ اسی طرح وہ لاکھوں کا مالک تھا اس کو سو ڈیڑھ سو روپے کی تھیلی کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی اور خود اس کے کئی پہریدار اور محافظ تھے اس کو اس دوست کی تلوار کیا نفع پہنچا سکتی تھی؟ مگر محبت کے جوش میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ میری تلوار کیا کام دے گی۔ میرا تھوڑا سا روپیہ کیا فائدہ دے گا اور میری بیوی کیا خدمت سرانجام دے گی۔ اس نے تو اتنا ہی سوچا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ مجھے حاضر کر دینا چاہئے۔ جس وقت محبت کا انتہائی جوش اٹھتا ہے اس وقت عقل کام نہیں کرتی۔ محبت عقل کو پرے پھینک دیتی ہے اور محبت فِکر کو پرے پھینک دیتی ہے اور پھر وہ محبت آپ سامنے آ جاتی ہے۔ جس طرح چِیل جب مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے تو مرغی بچوں کو جمع کر کے اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے اور بعض دفعہ تو محبت ایسی ایسی حرکات کرا دیتی ہے کہ دنیا اسے پاگل پنے کی حرکات قرار دیتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جنون دنیا کی ساری عقلوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور دنیا کی ساری عقلیں اس ایک مجنونانہ حرکت پر قربان کی جا سکتی ہیں کیونکہ اصل عقل وہی ہے جو محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ یاد رکھنے والی چیز ہے کہ اصل عقل وہی ہے جو محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ نبی کو بھی جب آواز آتی ہے کہ خدا زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا خدا، خدا عزت و شوکت کو پیدا کرنے والا خدا، بادشاہوں کو گدا اور گداؤں کو بادشاہ بنانے والا خدا، حکومتوں کو قائم کرنے اور حکومتوں کومٹانے والا خدا، دولتوں کو دینے اور دولتوں کو لینے والا خدا، رزق کے دینے اور رزق کے چھیننے والا خدا، زمین و آسمان کے ذرے ذرے اور کائنات کا مالک خدا ایک کمزور، ناتواں اور نحیف انسان کو آواز دیتاہے کہ مَیں مدد کا محتاج ہوں، میری مدد کرو تو وہ کمزور اور ناتواں اور نحیف بندہ عقل سے کام نہیں لیتا۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ حضور کیا فرما رہے ہیں۔ کیا حضور مدد کے محتاج ہیں۔ اے اللہ تُو مدد کا محتاج ہے؟ حضور تو زمین و آسمان کے بادشاہ ہیں۔ میں کنگال اور غریب، کمزور آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ وہ یہ نہیں کہتا بلکہ وہ نحیف و نزار اور کمزور جسم کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں حاضر ہوں۔ مَیں حاضر ہوں۔ مَیں حاضر ہوں۔ کون ہے جو ان جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کر سکتا ہے سوائے اس کے جس کو محبت کی چاشنی سے تھوڑا بہت حصہ ملا ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے (اُس وقت اور آج سے 126سال پہلے) اسی خدا نے پھر یہ آواز بلند کی اور قادیان کے گوشہ تنہائی میں پڑے ہوئے ایک انسان سے کہا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ مجھے دنیا میں ذلیل کر دیا گیا ہے۔ میری دنیا میں کوئی عزت نہیں ہے۔ میرادنیا میں کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ میں بے یارومددگار ہوں۔ اے میرے بندے میری مدد کر۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ یہ کہنے والا کون ہے۔ اور جس نے خطاب کیا ہے اور جس سے خطاب کیا جاتا ہے وہ کون ہے اس کی عقل نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بلانے والے کے پاس تمام طاقتیں ہیں میں بھلا اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ اس کی محبت نے یعنی خدا تعالیٰ کی محبت نے اس کے دل میں ایک آگ لگا دی۔ جب خدا تعالیٰ کا پیغام ملا تو ایک آگ لگا دی اور دیوانہ وار بغیر کسی چیز کے جوش میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میرے رب میں حاضر ہوں۔ میرے رب میں حاضر ہوں۔ میرے رب مَیں۔ میں بچاؤں گا دین کو تباہ ہونے سے بچاؤں گا۔ (ماخوذ از الفضل 25 جنوری 1940ء جلد 28 نمبر 15صفحہ 8 تا 10)

پس آج ہم جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا شخص کو اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا عہد کر کے کھڑا ہونے والے شخص کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آج ہم جو اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر آج ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اسلام اپنی نشأۃ ثانیہ کے دور میں داخل ہوا ہے اور اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچے گا۔ اگر ہم نے آپ سے یہ عہد بیعت اس لئے کیا ہے کہ ہم آپ علیہ السلام کے کام میں آپ کے مددگار بنیں گے تو پھر اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ جو بھی ہم میں ہیں، کم ہیں یا زیادہ ہمیں بھی آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آنا چاہئے۔ اپنی محبت کے اظہار خدا تعالیٰ سے بھی، اس کے رسول سے بھی اور اس کے مسیح سے بھی کرنے چاہئیں۔ اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ اپنی وفاؤں کے معیار اونچے کرنے چاہئیں۔ اُسی طرح ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے جس طرح وہ غریب دوست اپنے امیر دوست کے لئے تیار ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 26؍ فروری 2016ء شہ سرخیاں

    دنیا میں بہت سی باتیں بہت سے لوگ لغو اور بلا وجہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ مذاق میں کسی کو کوئی لغو بات کہہ دیتے ہیں جس سے جھگڑے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسی باتیں مجلسوں میں کی جاتی ہیں جو بے فائدہ ہوتی ہیں۔ بات برائے بات صرف کی جاتی ہے اور بعض دفعہ ایسی طنزیہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں جس سے دوسرے کو تکلیف بھی پہنچتی ہے یا ایسی بے فائدہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہوتیں۔ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ لغو کے لغوی معنی فضول اور بے فائدہ گفتگو کے ہیں یا بغیر سوچے سمجھے بولنے کے ہیں۔ ناکارہ اور بیوقوفوں والی باتیں کرنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کو ایسی باتوں سے روکا ہے جو لغو ہیں۔ ایک مومن کو اپنے رویّوں سے، اپنے سلوک سے، دوسروں کے کام آنے سے، دوسروں پر احسان کرنے سے اپنی قدر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

    بعض لوگ معمولی قربانی کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا ہے یا بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر قربانی کے اپنے خیالات میں قربانی کرنے والے بن جاتے ہیں یا دوسروں پر احسان کرنے والے بن جاتے ہیں۔ ایک مومن کو حقیقی طور پر احسان کرنے والے کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

    ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ وہ جغرافیہ، تاریخ، حساب، طب، آدابِ گفتگو، آداب مجلس وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہو سکتی ہے۔ حالات حاضرہ سے واقفیت اور جس مجلس میں جائیں اس کی ضروری واقفیت حاصل کر کے جانا چاہئے۔

    ہم احمدی جن کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر ہم نے صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو ہمیں اس زندگی گزارنے کے لئے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دیکھنا ہے، اسی سے تعلق قائم کرنا ہے۔

    ترقی کی یہی راہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دے اور جس طرف وہ لے جانا چاہے اس طرف چلتا جائے۔

    وہ لوگ جو نمازوں کے حق ادا نہیں کرتے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ وہ لوگ جو دین کو دنیا مقدم کرنے کے عہد کو پورا نہیں کرتے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ وہ لوگ جو یہاں آئے تو احمدیت کی وجہ سے ہیں لیکن یہاں آ کر بھول گئے ہیں کہ احمدیت کی وجہ سے ہی انہیں یہاں رہنے کا، شہریت کا حق ملا ہے اور اس وجہ سے ان کو زیادہ سے زیادہ جماعت کی خدمت کے لئے آگے آنا چاہئے لیکن وہ اسے بھول جاتے ہیں اور بعض دفعہ اعتراض شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ اچھے عابد ہیں نہ وفادار ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بیان فرمودہ مختلف سبق آموز واقعات کا

    حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی روایات کے حوالہ سے تذکرہ اور افراد جماعت کو اہم نصائح

    فرمودہ مورخہ 26؍فروری 2016ء بمطابق26تبلیغ 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور