خیر اور شر۔ شیطان اور اس کے حملوں سے بچنے کی رہنمائی
خطبہ جمعہ 11؍ مارچ 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطَانِ۔ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَازَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلیْمٌ (النور: 22) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ تو یقینا بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
شیطان انسان کا ازل سے دشمن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ اس لئے نہیں کہ اس میں ہمیشہ رہنے کی کوئی طاقت ہے۔ بلکہ اس لئے کہ انسان کے پیدا ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ آزاد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس کے بندے شیطان کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ شیطان کی یہ دشمنی کوئی کھلی دشمنی نہیں ہے کہ سامنے آ کر لڑ رہا ہے۔ بلکہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے، مکرو فریب سے، دنیاوی لالچوں کے ذریعہ سے انسان کی اَناؤں کو ابھارتے ہوئے انسانوں کو نیکیوں سے دُور لے جاتا ہے اور برائیوں کے قریب کرتا ہے۔ شیطان نے خدا تعالیٰ کو کہا تھا کہ جس فطرت کے ساتھ تُو نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جس طرح اس کی یہ فطرت ہے کہ دونوں طرف مڑ سکتا ہے تو اس کو مَیں اپنے پیچھے چلاؤں گا کیونکہ برائیوں کی طرف اس کا زیادہ رخ ہو گا۔ اگر تو مجھے اجازت دے تو میں ہر راستے سے اس پر حملہ کروں گا۔ ہر راستے سے اس کو بہکاؤں گا۔ اور سوائے وہ جو تیرے حقیقی بندے ہیں، خالص بندے ہیں تو وہ میرے حملے سے بچیں گے۔ ان پر تو میرا کوئی مکر، کوئی حملہ کارگر نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ اکثریت میرے قدموں پر چلے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ جو تیرے پیچھے چلنے والے ہوں گے انہیں مَیں جہنم میں ڈالوں گا۔
لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے بھیجنے کے نظام کو جاری کر کے انسانوں کو نیکیوں کے راستے بھی بتائے۔ ان کو اصلاح کے طریقے بھی بتائے۔ ان کو اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے ذریعہ بھی بتائے۔ یہ بھی واضح کیا کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ وہ ہمدردی کے لبادہ میں تمہیں بہتری اور فائدے نہیں بلکہ برائی اور نقصان کی طرف بلا رہا ہے۔ اور جب وقت آئے گا کہ انسان کا حساب کتاب ہو تو بڑے آرام سے، بڑی ڈھٹائی سے کہہ دے گا کہ مَیں نے تمہیں برائی کی طرف، لالچ کی طرف، گناہوں کے کرنے کی طرف، اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف چلنے کی طرف بلایا تھا۔ لیکن تم تو عقل رکھنے والے انسان تھے۔ تم نے کیوں اپنی عقل استعمال نہیں کی۔ کیوں میری بدیوں کی آواز کو خدا تعالیٰ کی بھلائی اور نیکی کی آواز پر ترجیح دی۔ پس اب اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ میرا اب تمہارے سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا مقصد تمہارے سے دشمنی کرنا تھا وہ مَیں نے کرلی۔ اب جہنم کی آگ میں جلو۔ پس اس طرح شیطان انسان سے دشمنی کرتا ہے۔
قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیطان کے حملوں اور اس کے حیلوں اور مکروں سے ہوشیار کیا ہے۔ اس آیت میں بھی جو میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس نے جب خدا کو کہا کہ مَیں اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ کروں گا تو پھر اس نے بڑی مستقل مزاجی سے یہ حملے کرنے تھے اور کرتا ہے حتی کہ شیطان یہ بھی کہتا ہے کہ مَیں صراط مستقیم پر بیٹھ کر انسان پر حملے کروں گا۔ اب ایک شخص سمجھتا ہے کہ مَیں صراط مستقیم پر چل رہا ہوں تو میں شیطان کے حملے سے بچ گیا۔ لیکن یہ خیال ایسے شخص کی غلط فہمی ہے۔ جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا، جو ضالّین بنے، وہ بھی تو پہلے صراط مستقیم پر چلنے والے تھے۔ وہ بھی تو حضرت موسیٰ کو ماننے والے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے تھے لیکن گمراہی اور شرک میں مبتلا ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے بن گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان جب ایمان لے آتا ہے تب بھی شیطان اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اسے گمراہ کرتا ہے اور کئی لوگ اس کے دھوکے میں آ کے، شیطان کی باتوں میں آ کر گمراہ ہو جاتے ہیں حتی کہ مسلمان کہلانے والے بھی مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بہت بڑا خطرہ ہے جو شیطان کا خطرہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہی ہے جو انسان کو اس بڑے خطرے سے بچا سکتا ہے اور بچاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں مومنوں کو اس لفظ کے ساتھ تسلّی دی کہ اللہ تعالیٰ سمیع ہے۔ اللہ تعالیٰ سننے والا ہے۔ پس اس کے دروازے کو کھٹکھٹاؤ اور اس کو پکارو اور مستقل مزاجی سے اس کو پکارو۔ اس کے حضور مستقل دعائیں کرتے ہوئے جھکے رہو تو وہ خدا جو علیم بھی ہے اپنے بندوں کے حالات کو جانتا ہے، جب وہ دیکھے گا کہ میرا بندہ حقیقت میں خالص ہو کر مجھے پکار رہا ہے تو پھر خدا ایسے مومن کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دے گا جس سے وہ شیطان کے حملے سے محفوظ ہو جائے گا۔ نیکیوں کے معیار بلند سے بلند تر کرنے کی توفیق مل جائے گی اور برائیوں سے بچنے کی اس میں طاقت پیدا ہو جائے گی۔
پس جب شیطان نے کہا تھا کہ تیرے خالص بندوں کے علاوہ سب میرے پیچھے چلیں گے تو ایک عقل رکھنے والے انسان کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک حقیقی مومن کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ خالص بندے کس طرح بنیں۔ خالص بندے بننے کے لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک نسخہ بتایا کہ فحشاء اور منکر سے یعنی ہر ایسی بات سے اپنے آپ کو بچاؤ جو بیہودہ اور لغو ہے۔ جو خد اتعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اور جو فحشاء اور منکر سے بچے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کا تزکیہ کرے گی۔ اور جس کا اللہ تعالیٰ تزکیہ کر دے وہ پاک ہو جاتا ہے اور ایسے پاکوں کے پاس پھر شیطان نہیں آتا۔
یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کا حملہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وہ آہستہ آہستہ حملہ کرتا ہے۔ کوئی چھوٹی سی برائی انسان کے دل میں ڈال کر یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ اس چھوٹی سی برائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ کون سا بڑا گناہ ہے۔ پھر یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بڑے گناہوں کی تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ڈاکہ اور قتل ہی بڑے گناہ ہیں۔ کوئی بھی برائی جب معاشرے کا امن و سکون برباد کرے تو وہ بڑی برائی بن جاتی ہے۔ انسان کو یہ احساس مٹ جاتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر پاک ہونا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو جہاں مستقل مزاجی سے برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے شیطان کے قدموں پر چلنے سے بچنا ہے وہاں مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر پاک ہونے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور مستقل اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اس سے مدد مانگنا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان شیطان کے حملوں سے بچ نہیں سکتا۔
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات پیش کروں گا۔ بعض لوگوں کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو بنایا کیوں؟ پہلے ہی دن اس کی بیباکی پر سزا دے کر اسے ختم کیوں نہ کر دیا؟ اگر پہلے ہی دن شیطان کو ختم کر دیا جاتا تو دنیا کے فساد ہی نہ ہوتے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ اس سوال کے جواب میں کہ خدا نے شیطان کو کیوں بنایا، اس کو سزا کیوں نہ دی؟ آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ:
’’یہ بات ہر ایک کو ماننی پڑتی ہے کہ ہر ایک انسان کے لئے دو جاذب موجود ہیں‘‘۔ (یعنی کھینچنے والی دو چیزیں موجود ہیں۔) ’’ایک جاذبِ خیر ہے جو نیکی کی طرف اس کو کھینچتا ہے۔ دوسرا جاذبِ شر ہے جو بدی کی طرف کھینچتا ہے۔ جیسا کہ یہ امر مشہودو محسوس ہے کہ بسا اوقات انسان کے دل میں بدی کے خیالات پڑتے ہیں اور اس وقت وہ ایسا بدی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ گویا اس کو کوئی بدی کی طرف کھینچ رہا ہے اور پھر بعض اوقات نیکی کے خیالات اس کے دل میں پڑتے ہیں اور اس وقت وہ ایسا نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ گویا کوئی اس کو نیکی کی طرف کھینچ رہا ہے۔ اور بسا اوقات ایک شخص بدی کرکے پھر نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے اور نہایت شرمندہ ہوتا ہے کہ میں نے براکام کیوں کیا۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی کو گالیاں دیتا او رمارتا ہے اور پھر نادم ہوتا ہے او ردل میں کہتا ہے کہ یہ کام میں نے بہت ہی بیجا کیا اور اس سے کوئی نیک سلوک کرتا ہے یا معافی چاہتا ہے۔‘‘ (برائی کا اسے احساس ہوتا ہے تو فرمایا) ’’سو یہ دونوں قسم کی قوتیں ہر ایک انسان میں پائی جاتی ہیں۔‘‘ (انسان کی فطرت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے) اور شریعت اسلام نے نیکی کی قوت کا نام لِمّۂ مَلک رکھا ہے اور بدی کی قوت کو… لِمَّۂ شیطان سے موسوم کیا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’فلسفی لوگ تو صرف اس حد تک ہی قائل ہیں کہ یہ دونوں قوتیں ہر ایک انسان میں ضرور موجود ہیں‘‘ (یعنی بدی کی قوت بھی اور نیکی کی قوت بھی لیکن شریعت اسلام نے جو نیکی کی قوت ہے اس کو لِمَّۂ مَلک کا نام دیا ہے اور بدی کی قوت کو لِمَّۂ شیطان کا) آپ فرماتے ہیں کہ ’’فلسفی لوگ تو صرف اس حد تک ہی قائل ہیں کہ یہ دونوں قوتیں ہر ایک انسان میں ضرور موجود ہیں مگر خدا جو ورا الوراء اسرار ظاہر کرتا ہے۔‘‘ (بہت دور کے، بہت چھپے ہوئے بھید بھی بتاتا ہے) ’’اور عمیق اور پوشیدہ باتوں کی خبر دیتا ہے اس نے ان دونوں قوتوں کو مخلوق قرار دیا ہے۔ جونیکی کا القاء کرتاہے اس کا نام فرشتہ اور روح القدس رکھا ہے اور جو بدی کا القاء کرتاہے اس کا نام شیطان اور ابلیس قرار دیا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مگر قدیم عقلمندوں اور فلاسفروں نے مان لیا ہے کہ القاء کا مسئلہ بیہودہ اور لغو نہیں ہے‘‘۔
یعنی یہ مسئلہ جو ہے بیہودہ نہیں اور یہ اس کو مانتے ہیں کہ یہ ایک صحیح چیز ہے کہ انسان کے دل میں برائی کی قوت بھی پیدا ہوتی ہے یا تحریک پیدا ہوتی ہے اور نیکی کی تحریک بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی پھر آپ نے اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ:
’’یہ دونوں قوتیں جو ہر ایک انسان میں موجود ہیں خواہ تم ان کو یا دو قوتیں کہو اور یا روح القدس اور شیطان نام رکھو مگر بہرحال تم ان دونوں حالتوں کے وجود سے انکار نہیں کرسکتے اور ان کے پیدا کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا انسان اپنے نیک اعمال سے اجر پانے کا مستحق ٹھہر سکے۔ کیونکہ اگر انسان کی فطرت ایسی واقع ہوتی کہ وہ بہرحال نیک کام کرنے کے لئے مجبور ہوتا اور بد کام کرنے سے طبعاً متنفر ہوتا تو پھر اس حالت میں نیک کام کا ایک ذرہ بھی اس کو ثواب نہ ہوتا کیونکہ وہ اس کی فطرت کا خاصہ ہوتا۔ لیکن اس حالت میں کہ اس کی فطرت دو کششوں کے درمیان ہے اور وہ نیکی کی کشش کی اطاعت کرتا ہے اس کو اس عمل کا ثواب مل جاتا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’بے شک انسان کے دل میں دو قسم کے القاء ہوتے ہیں۔ نیکی کاالقاء اور بدی کا القاء۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں القاء انسان کی پیدائش کا جزو نہیں ہو سکتے۔‘‘ (یعنی پیدائش کے وقت یہ ان کا حصہ نہیں تھے) ’’کیونکہ وہ باہم متضاد ہیں‘‘ (آپس میں اختلاف رکھتے ہیں۔ بدی اور نیکی کا آپس میں اختلاف ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بچپن سے ہی بچے کی فطرت میں نیکی اور بدی موجود ہے) فرمایا کہ یہ باہم متضاد ہیں ’’اور نیز انسان ان پر اختیار نہیں رکھتا۔ اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں القاء باہر سے آتے ہیں‘‘ (نیکی کا اثر بھی، بدی کا اثر بھی باہر سے انسان لیتا ہے۔ بچہ بھی جو آہستہ آہستہ نیکیوں میں بڑھتا ہے یا برائیوں میں بڑھتا ہے تو اس کا اثر باہر سے ہورہا ہوتا ہے) فرمایا ’’اور انسان کی تکمیل ان پر موقوف ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے وجود یعنی فرشتہ اور شیطان کو ہندوؤں کی کتابیں بھی مانتی ہیں اور گبر بھی اس کے قائل ہیں‘‘ (یعنی وہ لوگ جو آتش پرست ہیں وہ لوگ بھی ان کے قائل ہیں) ’’بلکہ جس قدر خدا کی طرف سے دنیا میں کتابیں آئی ہیں سب میں ان دونوں وجودوں کا اقرار ہے۔ پھر اعتراض کرنا محض جہالت اور تعصب ہے۔ اور جواب میں اس قدر لکھنا بھی ضروری ہے کہ جو شخص بدی اور شرارت سے باز نہیں آتا وہ خود شیطان بن جاتا ہے جیسا کہ ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے کہ انسان بھی شیطان بن جایا کرتے ہیں۔ اور یہ کہ خدا ان کو کیوں سزا نہیں دیتا‘‘ (اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب بن گیا تو پھر ایسے لوگوں کو سزا کیوں نہیں دیتا) ’’اس کا جواب یہی ہے کہ شیطان کو سزا دینے کے لئے قرآن شریف میں وعدہ کا دن مقرر ہے۔ پس اس وعدہ کے دن کے منتظر رہنا چاہئے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں سزا دوں گا، ضرور دوں گا۔ کب؟ اس دنیا میں یا اگلے جہان میں جو بھی دن مقرر ہے اس دن اس کو سزا مل جائے گی) ’’کئی شیطان خدا کے ہاتھ سے سزا پا چکے اور کئی پائیں گے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 293-294)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ کون کون سی چیزیں ہیں جن کی طرف شیطان بلاتا ہے۔ کون سے انسان شیطان کے قدموں پر چلنے والے ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جن کو حاصل کر کے انسان شیطان کے قدموں پر چلنے سے بچتا ہے۔ اس بارے میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’شیطان جھوٹ، ظلم، جذبات، خون، طُولِ اَمل، رِیا اور تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے۔‘‘ (تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے یعنی کہ بڑے چاؤ سے بڑی محبت سے بلاتا ہے۔ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ آؤ ان برائیوں کی طرف۔ ) ’’اس کے بالمقابل اخلاق فاضلہ صبر، محویت، فنا فی اللہ، اخلاص، ایمان، فلاح یہ اللہ تعالیٰ کی دعوتیں ہیں۔‘‘ (ایک طرف شیطان دعوت دے رہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کی دعوت دے رہا ہے۔ ’’انسان ان دونوں تجاذب میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ (یعنی دونوں قسم کی جو کششیں ہیں، کھینچنے والی چیزیں ہیں ان دونوں میں پڑا ہوا ہے۔) ’’پھر جس کی فطرت نیک ہے اور سعادت کا مادہ اس میں رکھا ہوا ہے وہ شیطان کی ہزاروں دعوتوں اور جذبات کے ہوتے ہوئے بھی اس فطرت رشید سعادت اور سلامت روی کے مادہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے۔‘‘ (یعنی جس طرح مرضی بلائے پھر۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے سعادت کا مادہ رکھا ہوا ہے وہ اپنی سعادت کی فطرت سے اور اس کی برکت سے پھر وہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا بھی ہے جب انسان ایسی فطرت رکھنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ پھر اسے اتنی توفیق دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے بجائے شیطان کی طرف دوڑنے کے۔ ’’اور خدا ہی میں اپنی راحت تسلی اور اطمینان کو پاتا ہے۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’ہر چیز کے لئے نشانات ضرور ہوتے ہیں جب تک اس میں وہ نشان نہ پائے جاویں وہ معتبر نہیں ہو سکتی۔ دیکھو دواؤں کی طبیب شناخت کر لیتا ہے۔ بنفشہ، خیار شنبر تربُد میں اگر وہ صفات نہ پائے جائیں (یہ تمام ایسے پھل ہیں یا بوٹیاں ہیں جن سے دوائیں بنتی ہیں۔ فرمایا کہ) اگر وہ صفات ان میں نہ پائی جائیں جو ایک بڑے تجربے کے بعد ان میں متحقق ہوئے ہیں (ثابت ہوئے ہیں کہ یہ صفات ان میں پائے جاتے ہیں کہ ان سے بعض بیماریوں کو شفا ملتی ہے۔ اگر پتا لگ جائے کہ یہ خصوصیات نہیں) تو طبیب ان کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح پر ایمان کے نشانات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا بار بار اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ جب ایمان انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت یعنی جلال، تقدس، کبریائی، قدرت اور سب سے بڑھ کر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حقیقی مفہوم داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے اندر سکونت اختیار کرتا ہے اور شیطانی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور گناہ کی فطرت مر جاتی ہے۔‘‘ (یہ فطرت کی وہ سعادت ہے کہ اگر صحیح ایمان ہے تو پھر گناہ کی فطرت مر جاتی ہے۔) ’’اس وقت ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور وہ روحانی زندگی ہوتی ہے یا یہ کہو کہ آسمانی پیدائش کا پہلا دن وہ ہوتا ہے جب شیطانی زندگی پر موت وارد ہوتی ہے۔ اور روحانی زندگی کا تولّد ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ169۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان پھر خداتعالیٰ کا ہوتا ہے۔
پھر تکبر اور شیطان کے تعلق کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’سب سے اول آدم نے بھی گناہ کیا تھا۔ (مذہب کی تاریخ میں آدم کے گناہ کا ذکر ملتا ہے) اور شیطان نے بھی (کیا تھا۔ گناہ دو تھے۔ ایک آدم نے کیا۔ ایک شیطان نے۔) مگر آدم میں تکبر نہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس کا گناہ بخشا گیا۔ اسی سے انسان کے واسطے توبہ کے ساتھ گناہوں کے بخشا جانے کی امید ہے۔‘‘ (تکبر نہ ہو، گناہوں کا اقرار ہو، انسان توبہ کرے۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہے تو بخشا جاتا ہے اور یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔) ’’لیکن شیطان نے تکبر کیا اور وہ ملعون ہوا۔ جو چیز کہ انسان میں نہیں،‘‘ (جس کی انسان میں طاقت ہی نہیں)۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’متکبر آدمی خواہ مخواہ اپنے لئے اس چیز کے دعوے کے واسطے تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ (اتنی طاقت ہی نہیں تمہیں کہ تم تکبر کرو۔ کہاں تک جا سکتے ہو۔ کتنے اونچے ہو سکتے ہو۔ جب یہ طاقت ہی اتنی نہیں کہ ہر کچھ حاصل کرو تو پھر تکبر کیسا۔ فرمایا کہ متکبر آدمی خواہ مخواہ اپنے لئے اس چیز کے دعوے کے واسطے تیار ہو جاتا ہے جو اس کے پاس ہے ہی نہیں۔) ’’انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہنر سلب خودی کا ہوتا ہے‘‘ (کہ اپنی خودی کو ختم کر لیتے ہیں۔ ) ’’ان میں خودی نہیں رہتی۔ وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں۔ کبریائی خدا کے واسطے ہے۔ جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے۔‘‘ (ملفوظات جلد9صفحہ281۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس تکبر سے بچو۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو ایک مومن کو اختیار کرنی چاہئے ورنہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والا ہے۔ تکبر کو بعض دفعہ انسان محسوس نہیں کرتا۔ اس لئے بڑی باریکی سے اس بارے میں ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ شیطان کس کس طرح انسان کو اپنے قابو میں کرنے کے حیلے کرتا ہے؟ اس بارے میں ایک جگہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ گناہ والا کوئی کام انسان نہ کرے۔ فرمایا کہ ’’اگر انسان کے افعال سے گناہ دُور ہو جاوے‘‘ (یعنی کوئی کام ایسا نہ کرے جو گناہ والا ہے کوئی اس کا فعل ایسا نہ ہو جس کو کہا جائے کہ یہ گناہ ہے) تو شیطان چاہتا ہے۔ (کیا چاہتا ہے شیطان) کہ آنکھ کان ناک تک ہی رہے۔‘‘ اگر ظاہری طور پر کوئی عمل گناہ کرنے والا نہ ہو تب بھی شیطان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انسان کی آنکھ میں بیٹھا رہے، کان میں بیٹھا رہے، ناک میں بیٹھا رہے۔) فرمایا کہ ’’اور جب وہاں بھی اسے قابو نہیں ملتا تو پھر وہ یہاں تک کوشش کرتا ہے کہ اور نہیں تو دل ہی میں گناہ (بیٹھا) رہے۔‘‘ (ظاہری گناہ بعض لوگ نہیں کرتے۔ بڑے گناہ نہیں کرتے یا چھوٹے گناہ بھی نہیں کرتے۔ بعضوں کے حالات میں موقع ہی نہیں ملتا یا ایسی وجہ ہی نہیں بنتی کہ گناہ کریں یا کسی خوف سے نہیں کرتے۔ ظاہری طور پر عملاً کوئی گناہ نہیں لیکن شیطان پھر بھی یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے تو کسی نہ کسی ذریعہ سے اس کے اندر گناہ کا بیج رکھے اور اس کے دل میں بیٹھ جائے۔) فرمایا کہ ’’گویا شیطان اپنی لڑائی کو اختتام تک پہنچاتا ہے۔ مگر جس دل میں خدا کا خوف ہے وہاں شیطان کی حکومت نہیں چل سکتی۔‘‘ (اگر خدا کا خوف ہو تو پھر دل میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ گناہ کا بیج بھی شیطان رکھ سکے۔) فرمایا کہ ’’شیطان آخر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور الگ ہوتا ہے اور اپنی بڑائی میں ناکام و نامراد ہو کر اسے اپنا بوریا بستر باندھنا پڑتا ہے۔‘‘ (پھر بیچارہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔) (ملفوظات جلد 3صفحہ401,402۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اصل چیز یہی ہے کہ خدا کا خوف انسان کے دل میں رہے۔ خدا کا خوف ہو گا تو پھر بہت ساری برائیوں سے انسان بچتا ہے۔ ایک چور بھی چوری کرتا ہے۔ اگر اس کو یہ پتا لگ جائے کہ اس کو کوئی بچہ بھی دیکھ رہا ہے تو اس بچہ کا بھی اسے خوف ہوتا ہے۔ پس جب تک یہ ہمارے دلوں میں نہیں ہو گا کہ ہم کوئی بھی عمل کرتے ہوئے یا ہر وقت ذہن میں یہ رکھیں کہ خدا ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے تو اس وقت تک انسان گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔
بعض دفعہ شیطان نیکیوں کے خیالات ڈال کر بھی اپنے پیچھے چلاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک مجلس میں الہامات اور حدیث النفس میں امتیاز کے بارے میں ذکر تھا۔ الہامات کے متعلق یہ ذکر تھا کہ اس میں بہت مشکلات پڑتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’بعض لوگ حدیث النفس اور شیطان کے القاء کو الہام الٰہی سے تمیز نہیں کر سکتے۔‘‘ (نفس کی باتیں ہوتی ہیں۔ شیطان کا القاء ہوتا ہے۔ اس کو سمجھتے ہیں کہ الہام الٰہی ہے) ’’اور دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ’’خد اکی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پُر شوکت اور لذیذ ہوتی ہے۔ دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے۔ وہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا ہم وزن کوئی نہیں۔ وہ فولاد کی طرح گرنے والی ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا (المزمل: 6) (یعنی یقینا ہم تجھ پر ایک کلام اتاریں گے جو بہت بھاری ہے۔) ثقیل کے یہی معنی ہیں۔ مگر شیطان اور نفس کا القاء ایسا نہیں ہوتا۔ حدیث النفس اور شیطان گویا ایک ہی ہیں۔ (نفس کی باتیں ہیں۔ اور شیطان کے القاء ہیں۔ یہ ایک ہی چیز ہے۔ ) انسان کے ساتھ دو قوتیں ہیں جو ہمیشہ لگی رہی ہیں ایک فرشتے اور دوسرے شیطان۔ گویا اس کی ٹانگوں میں دو رسّے پڑے ہوئے ہیں۔ فرشتہ نیکی میں ترغیب اور مدد دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے اَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِنْہُ(المجادلۃ: 23) (یعنی اپنا کلام بھیج کر ان کی مدد کی) اور شیطان بدی کی طرف ترغیب دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہییُوَسْوِسُ۔ ان دونوں کا انکار نہیں ہو سکتا۔ ظلمت اور نور ہر دو ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ عدم علم سے عدم شئے ثابت نہیں ہو سکتا۔‘‘ (یعنی ان میں یہ نہیں ہے کہ اگر کسی بات کا علم نہیں تو وہ چیز ہی موجودنہیں ہے۔ ) فرمایا کہ ’’ماسوائے اس عالم کے اور ہزاروں عجائبات ہیں۔‘‘ (یہ دنیا جو اللہ تعالیٰ کی یہ کائنات ہے، ایک عجوبہ ہے، اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہزاروں عجائبات ہیں۔)
فرمایا کہ ’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ میں شیطان کے ان وساوس کا ذکر ہے جو کہ وہ لوگوں کے درمیان ان دنوں ڈال رہا ہے۔ (خاص طور پہ یہ دن جو ہیں، یہ زمانہ جو ہے جس کو جدید زمانہ کہا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو انسان بھول رہا ہے، وہ شیطان ہی دلوں میں وسوسے ڈال رہا ہے۔) فرمایا کہ ’’بڑا وسوسہ یہ ہے کہ ربوبیت کے متعلق غلطیاں ڈالی جائیں۔ جیسا کہ امیر لوگوں کے پاس بہت مال و دولت دیکھ کر انسان کہے کہ یہی پرورش کرنے والے ہیں۔‘‘ (یہی میرا سب کچھ ہیں۔)
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ شیطان کس طرح وسوسہ ڈالتا ہے۔ ایک مثال تو پہلے دے دی اور اس وسوسے سے کس طرح بچنا ہے کہ یہ امیر لوگ ہماری ضروریات پوری کرنے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی ہے جو ہماری ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس واسطے حقیقی ربّ الناس کی پناہ چاہنے کے واسطے فرمایا۔‘‘ (اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دعا کرو کہ میں حقیقی ربّ الناس جو ہے اُس کی پناہ میں رہوں۔) ’’پھر دنیاوی بادشاہوں اور حاکموں کو انسان مختارِ مطلق کہنے لگ جاتا ہے۔ اس پر فرمایا کہ مَالِکِ النَّاس۔ اللہ ہی ہے۔ پھر لوگوں کے وساوس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مخلوق کو خدا کے برابر ماننے لگ پڑتے ہیں اور ان سے خوف و رجاء رکھتے ہیں۔ اس واسطے الٰہِ النَّاسِ فرمایا۔ (تمہارا معبود اللہ تعالیٰ ہے۔) یہ تین وساوس ہیں۔ ان کے دُور کرنے کے واسطے یہ تین تعویذ ہیں (جو سورۃ الناس میں بیان کئے گئے ہیں) اور ان وساوس کے ڈالنے والا وہی خنّاس ہے (یعنی شیطان ہے) جس کا نام توریت میں زبان عبرانی کے اندر نحاش آیا ہے جو حَوّا کے پاس آیا تھا۔ چھپ کر حملہ کرنے والا۔ اس سورۃ میں اسی کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دجال بھی جبر نہیں کرے گا بلکہ چھپ کر حملہ کرے گا تا کہ کسی کو خبر نہ ہو۔‘‘ (یہ دنیا کی جو چکا چوند ہے۔ آجکل جو نئی نئی ایجادات ہیں یا آجکل کی تعلیم کے بہانے سے اللہ تعالیٰ سے دُوری اور مذہب سے دُوری کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے اور اس میں حکومتیں بھی شامل ہیں، بڑی بڑی تنظیمیں بھی شامل ہیں کہ انسانی حقوق کے نام پر بعض باتیں کی جاتی ہیں کہ یہ دیکھو مذہب تمہیں ان باتوں کا پابند کرتا ہے حالانکہ انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ انسان کو مکمل آزادی ہو۔ تو یہ چیزیں آہستہ آہستہ دلوں میں ڈالی جاتی ہیں اور اس زمانے میں یہ چیزیں شیطان بھی کر رہا ہے اور اس میں حکومتیں بھی شامل ہیں۔ بڑی بڑی جو ہیومن رائٹس (Human Rights) کے نام پر یا ویمن رائٹس (Women Rights) کے نام پر، حقوق نسواں کے نام پر یا جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا انسانی حقوق کے نام پر جو تنظیمیں ہیں یہ سب شامل ہیں۔ جہاں وہ دین سے ہٹانے کی کوشش کریں وہاں ہر ایک کو سمجھ لینا چاہئے، ہر احمدی کو سمجھ لینا چاہئے، ہر مومن کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہاں ہم پر شیطان کا حملہ ہونے والا ہے اور یہ دجّالی قوتیں ہیں جو ہم پر حملہ کر رہی ہیں۔)
اور پھر فرمایا کہ ’’یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوّا کے پاس گیا ہو بلکہ جیسا کہ اب چھپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چُھپ کر گیا تھا۔‘‘ (کوئی وجودنہیں تھا، کوئی شخص نہیں تھا جو حوّا کے پاس گیا تھا اور اسی طرح وسوسے ڈالے تھے۔) فرمایا ’’کسی آدمی کے اندر وہ اپنا خیال بھر دیتا ہے اور وہ اس کا قائمقام ہو جاتا ہے۔ کسی ایسے مخالف دین کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی۔ اور وہ بہشت جس میں حضرت آدم رہتے تھے وہ بھی زمین پر ہی تھا (کوئی فضا میں نہیں تھا۔) کسی بدنے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا۔
قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ میں جو اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے کہ مغضوب علیھم اور ضالّین لوگوں میں سے نہ بننا۔ یعنی اے مسلمانو! تم یہود اور نصاریٰ کے خصائل کو اختیار نہ کرنا۔ اس میں سے بھی ایک پیشگوئی نکلتی ہے کہ بعض مسلمان ایسا کریں گے۔ یعنی ایک زمانہ آوے گا کہ ان میں سے بعض یہود اور نصاریٰ کے خصائل اختیار کریں گے کیونکہ حکم ہمیشہ ایسے امر کے متعلق دیا جاتا ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والے بعض لوگ ہوتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ 244-245۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک موقع پر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ دین کو ہر حال میں دنیا پر مقدم کرنا چاہئے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔ نہیں۔ صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔ کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔ میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پا لیتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔ مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے۔‘‘ (یعنی دین کی طلب جو ہے اور اس میں ترقی یہ بھی ایک تجارت ہے۔ مال جو عام دنیاوی مال ہے وہ تو دنیا میں رہ جاتا ہے لیکن یہ مال، یہ تجارت آئندہ زندگی میں کام آنے والی ہے۔ ) ’’چنانچہ فرمایا ہے ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (الصف: 11)‘‘ (کیا مَیں تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے گی۔) فرمایا کہ ’’سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے۔ اپنی جماعت کو فرمایا کہ پس مَیں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (الصف: 11)۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 193-194۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمیں ایسی تجارت کرنی چاہئے، ان راستوں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے جن کی طرف زمانے کے امام اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور مسیح موعود اور مہدی معہود ہمیں بلا رہے ہیں تا کہ شیطان کے قدموں پر چلنے سے ہم بچیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے دردناک عذاب سے بچیں۔ پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ مخفی گناہوں سے بچو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’جب کوئی مصائب میں گرفتار ہوتا ہے تو قصور آخر بندے کا ہی ہوتا ہے۔‘‘ (مصیبتوں میں گرفتار ہونے کے بعد یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصیبت آ گئی۔ نہیں۔ قصور بندے کا ہوتا ہے۔) ’’خدا تعالیٰ کا تو قصور نہیں۔ بعض لوگ بظاہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے یہ کیوں محروم رہا لیکن دراصل اس کے مخفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہاں تک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ بہت معاف کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے اس واسطے انسان کے مخفی گناہوں کا کسی کو پتا نہیں لگتا۔ مگر مخفی گناہ دراصل ظاہر کے گناہوں سے بدتر ہوتے ہیں۔ گناہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے۔ بعض موٹی بیماریاں ہیں‘‘ (یعنی ظاہر کی بیماری) ’’ہر ایک شخص دیکھ لیتا ہے کہ فلاں بیمار ہے۔ مگر بعض ایسی مخفی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مجھے کوئی خطرہ دامن گیر ہو رہا ہے۔ ایسا ہی تپ دق ہے کہ ابتدا میں اس کا پتا بعض دفعہ طبیب کو بھی نہیں لگ سکتا یہاں تک کہ بیماری خوفناک صورت اختیار کرتی ہے۔‘‘ (بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ آخری سٹیج پر جا کر پتا چلتا ہے۔ بعض دفعہ کینسر کے مریض ہیں۔ اچھا بھلا صحت مند انسان بظاہر لگ رہا ہوتا ہے اور ایک دم پتا لگتا ہے کہ کینسر ہے اور ایسی سٹیج پر چلا گیا ہے جہاں اب کوئی علاج نہیں۔ پھیل چکا ہے اور مہینے کے اندر اندر انسان ختم ہو جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ جس طرح بیماری کا پتا نہیں لگتا) ’’ایسا ہی انسان کے اندرونی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے رحم کرے۔ قرآن شریف میں آیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) کہ اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ لیکن تزکیۂ نفس بھی ایک موت ہے۔ جب تک کہ کُل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیۂ نفس کہاں حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (جتنے بیہودہ گندے گھٹیا اخلاق ہیں جب تک ان کو ترک نہیں کرو گے جن پہ شیطان چلانا چاہتا ہے۔ فحشاء اور منکر پر چلانا چلاتا ہے۔ منکر کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر ایسی چیز جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے وہ منکر ہے۔ جب تک کُل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیۂ نفس کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔) ’’ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شر کا مادہ ہوتا ہے وہ اس کا شیطان ہوتا ہے جب تک کہ اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 280-281۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ کی ضرورت ہے اور اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔
شیطان کو مارنے کے لئے کیا اور کس طرح ہمیں قدم اٹھانا چاہئے اس بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدانما ہوتے ہیں۔ پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے جو پیغمبروں کا مظہر بنے۔ صحابہ کرام نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھوئے گئے کہ ان کے وجود میں اور کچھ باقی رہا ہی نہیں تھا۔ جو کوئی ان کو دیکھتا تھا ان کو محویت کے عالم میں پاتا تھا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنانے میں ڈوبے ہوئے تھے۔) ’’پس یاد رکھو کہ اس زمانے میں بھی جب تک وہ محویت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہو گی جو صحابہ کرام میں پیدا ہوئی تھی مریدوں معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہو گا۔ یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لو کہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل و دخل موجود ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 168-169۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا بننے کی کوشش کریں۔ تمام فحشاء اور منکر سے بچیں۔ تمام قسم کی برائیوں سے بچیں۔ ہر قسم کے تکبر سے بچیں۔ اپنے نفس کے تزکیہ کی کوشش کرتے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ ہمیشہ ہماری نظر خدا تعالیٰ پر ہو اور وہی ہمارا رب رہے۔ ہمیشہ اسی کی مالکیت ہمارے دلوں پر قبضہ جمائے رکھے۔ وہی ہمارا معبود رہے اور اس کو ہم ہمیشہ پکارنے والے بنے رہیں اور شیطان کے قدموں پر چلنے سے بچتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
شیطان انسان کا ازل سے دشمن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ شیطان کی یہ دشمنی کوئی کھلی دشمنی نہیں ہے کہ سامنے آ کر لڑ رہا ہے۔ بلکہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے، مکرو فریب سے، دنیاوی لالچوں کے ذریعہ سے انسان کی اَناؤں کو ابھارتے ہوئے انسانوں کو نیکیوں سے دُور لے جاتا ہے اور برائیوں کے قریب کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے بھیجنے کے نظام کو جاری کر کے انسانوں کو نیکیوں کے راستے بھی بتائے۔ ان کو اصلاح کے طریقے بھی بتائے۔ ان کو اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے ذریعہ بھی بتائے۔
یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کا حملہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وہ آہستہ آہستہ حملہ کرتا ہے۔ کوئی چھوٹی سی برائی انسان کے دل میں ڈال کر یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ اس چھوٹی سی برائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ کون سا بڑا گناہ ہے۔ پھر یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بڑے گناہوں کی تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ شیطان جھوٹ، ظلم، جذبات، خون، طولِ امل، ریاء اور تکبر کی طرف بلاتا ہے۔
انسان توبہ کرے، اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہے تو بخشا جاتا ہے اور یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔ لیکن شیطان نے تکبر کیا اور وہ ملعون ہوا۔
تکبر کو بعض دفعہ انسان محسوس نہیں کرتا اس لئے بڑی باریکی سے اس بارے میں ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ بعض دفعہ شیطان نیکیوں کے خیالات ڈال کر بھی اپنے پیچھے چلاتا ہے۔
بعض لوگ بظاہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے کیوں محروم رہا لیکن دراصل اس کے مخفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہاں تک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے۔
ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شر کا مادہ ہوتا ہے وہ اس کا شیطان ہوتا ہے جب تک کہ اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے شیطان اور اس کے حملوں اور وساوس سے بچنے کی راہوں کی طرف رہنمائی)
فرمودہ مورخہ 11؍مارچ 2016ء بمطابق11؍امان 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔