یوم مسیح موعود: بعثت کی اغراض اور احباب جماعت کی ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ 25؍ مارچ 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
دو دن پہلے 23؍مارچ تھی۔ یہ دن جماعت احمدیہ میں بڑا اہم دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے جو امت محمدیہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دَور کا آغاز ہوا۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو اُس دن مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کے اعلان کی اجازت دی جنہوں نے جہاں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے براہین و دلائل پیش کرنے تھے وہاں دین اسلام کی برتری تمام ادیان پر کامل اور مکمل دین ثابت کرتے ہوئے ثابت کرنی تھی اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے دلوں کو بھرنا تھا۔
پس آج ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس دن کی اہمیت ہے، جماعت میں اس دن کی اہمیت کے مدّنظر یوم مسیح موعود کے جلسے بھی ہوتے ہیں اور آج سے دو دن پہلے بھی بہت سے جلسے ہوئے جن میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد اور آپ کی جماعت کے قیام اور اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی وہاں افرادِ جماعت نے شکر بھی ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانتے ہوئے آنے والے مسیح موعود کو اور مہدی معہود کو ماننے اور اسے سلام پہنچانے کی توفیق بخشی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا جہاں خوشی اور شکر کا مقام ہے وہاں ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھاتا ہے۔ پس ہمیں ان ذمہ داریوں کی پہچان اور ان کی ادائیگیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں ان کاموں کو آگے چلانا ہے جن کی ادائیگی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر نئی زمین اور نیا آسمان بنانے والوں میں شامل ہونا تھا۔ پس ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا کہ آپ کی بعثت کے مقاصد کیا تھے اور ہم نے ان کو کس حد تک سمجھا ہے اور اپنے پر لاگو کیا ہے۔ اور ان کو آگے پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور‘‘ دوسری بات کہ ’’سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور‘‘۔ پھر یہ کہ ’’دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔ چوتھی بات یہ ’’اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں اور‘‘۔ پھر یہ کہ ’’خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ، نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک شرک کی آمیزش سے خالی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوّت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے‘‘۔
پس اس اقتباس میں سات بنیادی اور اہم باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس زمانے کی ضرورت ہے جس کا خلاصۃً اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اور جب آپ نے یہ فرمایا کہ اس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے ماننے والے ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورتی اور زندہ مذہب ہونے کو دنیا کو دکھائیں۔ پس ہمارا پہلا فرض اور سب سے بڑا فرض جو ہمارا بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں اور اسے مضبوط کریں۔ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے تعلق اور محبت اور اخلاص میں بڑھیں۔ دنیا کو بتائیں کہ مسیح موعود کی آمد کے ساتھ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک مقصد ہے۔ اور اب دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غلامِ صادق ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کے لباس میں بھیجا۔ آپ کے مشن کے مطابق اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اس کی سچائی ہم نے دنیا پر واضح کرنی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو بھی نمونہ بنانا ہو گا۔ روحانیت میں بڑھنے کے نمونے بھی ہمیں قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دور کرنا ہو گا۔ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ وہ خدا آج بھی اُسی طرح دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے خالص بندوں کو، اپنے فرستادوں کو جواب بھی دیتا ہے جس طرح پہلے دیتا تھا۔ اپنے خالص بندوں کے دلوں کی تسلی کے سامان بھی کرتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و یگانہ ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ صرف اُسی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پس ہماری بقا اس واحد و یگانہ اور ہمیشہ رہنے والے خدا سے جڑنے میں ہی ہے۔
جب 23؍مارچ کو ہم یوم مسیح موعود مناتے ہیں تو ہمیں ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود دنیا میں پیدا کرنے آئے تھے اور ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں کیا ہم میں یہ باتیں پیدا ہو گئی ہیں یا کیا ہم اس انقلاب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر اور بہت سی جگہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بعثت کے مقصد اور غرض کی کچھ تفصیل بھی بیان فرمائی ہے۔ آپ علیہ السلام کے بعض اقتباسات مَیں پیش کرتا ہوں۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچاوے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 132۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
’’اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علّت غائی کیا ہے۔ (غرض کیا ہے؟ بنیادی مقصد کیا ہے؟) میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجودہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔ اسلام کی جو حالت اِس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں۔ بالاتفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں۔ ان کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میں خداتعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سرپرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے۔ کیونکہ اس نے فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر: 10)۔‘‘ (یعنی ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یعنی قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے اور اس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی ذمہ داری لی ہے اور اسی مقصد کے لئے مسیح موعود کو بھیجا ہے۔)
آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اَور کون سا وقت آئے گا؟ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہورہی ہے جو بدر کے موقعہ پر ہوگئی تھی۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ (آل عمران: 124)۔‘‘ (یعنی اور بدر کی جنگ میں جب کہ تم حقیر تھے اللہ یقینا تمہیں مدد دے چکا ہے۔) فرمایا کہ ’’اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی۔ یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتواں ہو جائے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدۂ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی؟ مجھے اِس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجّال اور کذاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تا میں بھی اس قدیمی سنت سے حصہ پاتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 245-246۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک موقع پر بعثت مسیح موعود کے مقاصد بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں وہ ایسے سچے مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔ دنیا اس کو بالکل بھول جاوے۔ خدائے واحد کی عبادت ہو۔ میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام نفاق طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے۔ کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (المؤمنون: 29)‘‘ (یعنی یقینا اللہ تعالیٰ حد سے بڑھے ہوئے اور جھوٹے کو کبھی کامیاب نہیں کرتا۔) فرمایا کہ ’’کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو ان کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دوکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔ (انشاء اللہ) ’’اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا۔ مخالفت کی مَیں پروا نہیں کرتا۔ میں اس کو بھی اپنے سلسلے کی ترقی کے لئے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 148۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آج 127سال ہونے کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپ کے ساتھ ہیں اور یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہا ہے۔ پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کے حصول میں معاون بنائیں اور اس فیض سے حصہ پائیں جو آپ کی بعثت کا مقصد ہے جو آپ کے ماننے سے ملنا ہے۔ ورنہ جیسا کہ آپ نے فرمایا آپ کو ہم میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود ہی فرشتوں کے ذریعہ آپ کی مدد فرما کر آپ کے سلسلے کو ترقی دے سکتا ہے اور دیتا ہے۔
پھر اپنی بعثت کے مقصد کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جو اُن درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اس سے ان کو پاک صاف کروں۔ خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزّہ ومقدس کرے۔ الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں کس قدر بے وقو فی ہو گی کہ ہم ان سے لٹھم لٹھّا ہونے کو تیار ہو جائیں۔ مَیں تمہیں کھول کر بتلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں اگر کوئی اسلام کا نام لے کر جنگ وجدال کا طریق جواب میں اختیار کرے تو وہ اسلام کو بدنام کرنے والا ہو گا اور اسلام کا کبھی ایسا منشاء نہ تھا کہ بے مطلب اور بلا ضرورت تلوار اٹھائی جائے۔ اب لڑائیوں کی اغراض جیسا کہ مَیں نے کہا ہے فن کی شکل میں آ کر دینی نہیں رہیں بلکہ دنیوی اغراض ان کا موضوع ہو گیا ہے۔ پس کس قدر ظلم ہو گا کہ اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کی بجائے تلوار دکھائی جائے۔ اب زمانہ کے ساتھ حرب کا پہلو بدل گیا ہے۔ (جنگ کا جو پہلو تھا وہ بدل گیا ہے) اس لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں۔ راستبازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کاایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے اور اگر مسلمان صرف قیل وقال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ لاف و گزاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ توحقیقی تقویٰ کو چاہتا اور سچی طہارت کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ(النحل: 129)۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 60-61۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ تقویٰ ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتانی ہے۔ مسلمانوں کو بھی بتانا ہے کہ اسلام کا پھیلنا تقویٰ سے مشروط ہے۔ پس بجائے ظلم و تعدی میں بڑھنے کے تقویٰ پید اکرو۔ تقویٰ میں بڑھو۔ یہ اسلام کے نام پر جو حملے ہوتے ہیں یہ اسلام کی حمایت نہیں ہے بلکہ یہ بدنامی کا ذریعہ ہے اور معصوموں کا قتل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذریعہ بن رہا ہے۔
گزشتہ دنوں میں بیلجیم میں جو معصوموں کا قتل ہوا ہے، یہ دہشت گردی جو ہوئی ہے جس سے درجنوں معصوم قتل ہوئے ہیں اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے ہیں یہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ اور اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھل کر بتا دیا ہے کہ اب دین کے لئے جنگ و جدل حرام ہے، یہ حرکتیں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بن رہی ہیں۔ اور اس زمانے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں یہ پیغام پہنچا ہے۔ ہر ایک جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پیغام بڑا واضح ہے کہ اب دین کے لئے یہ جنگیں حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ دین کے نام پر ظلم کرنے والوں یا مسلمان ہوتے ہوئے ظلم کرنے والوں کو عقل دے چاہے وہ حکومتیں ہیں یا گروہ ہیں کہ وہ زمانے کے امام کی آواز کو سنیں اور ظلموں سے باز آئیں اور اس حقیقی ہتھیار کو استعمال کریں جو اس زمانے میں مسیح موعود کو عطا فرمایا ہے۔
آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا سمجھ لو سَیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کیے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ مَیں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدانِ کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ میں کب اس میدا ن کے قابل ہو سکتا تھا۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو۔ میں نے ایک وقت اُن اعتراضات اور حملات کو شمار کیا تھا جو اسلام پر ہمارے مخالفین نے کئے ہیں تو ان کی تعداد میرے خیال اور اندازے میں تین ہزار ہوئی تھی۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’اورمیں سمجھتا ہوں کہ اب تو تعداد اور بھی بڑھ گئی ہو گی‘‘۔ اور فرمایا کہ ’’کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کی بنا ایسی کمزور باتوں پر ہے کہ اس پر تین ہزار اعتراض وارد ہو سکتا ہے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ اعتراضات تو کوتاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں۔ مگر مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تَہ میں دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے معترضین کو دکھا ئی نہیں دیں اور درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آ کر اٹکا ہے وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 59-60۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی نور دکھانے کے لئے آپ کو بھیجا ہے اور یہ کہ عیسائیت کا عقیدہ تو ایسا ہے جس کی خود انہیں بھی سمجھ نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ ’’گلے پڑا ڈھول ہے جو یہ لوگ بجا رہے ہیں۔ غرض ان لوگوں کے عقائد کا کہاں تک ذکر کیا جاوے۔ حقیقت وہی ہے جو اسلام لے کر آیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا کہ میں اس نور کو جو اسلام میں ملتا ہے اُن کو جو حقیقت کے جُویاں ہوں دکھاؤں۔ سچ یہی ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اور میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر انجیل اور قرآن کریم اور تمام صحف انبیاء بھی دنیا میں نہ ہوتے تو بھی خدا تعالیٰ کی توحید ثابت تھی کیونکہ اس کے نقوش فطرت انسانی میں موجود ہیں۔ خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا گویا خدا تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے کیونکہ بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یادگار ہو۔ اب اگر مسیح خدا کا بیٹا ہے تو سوال ہو گا کہ کیا خدا کو مرنا ہے؟ مختصر یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے عقائد میں نہ خدا کی عظمت کا لحاظ رکھا اور نہ قوائے انسانی کی قدر کی ہے اور ایسی باتوں کو مان رکھا ہے کہ جن کے ساتھ آسمانی روشنی کی تائیدنہیں ہے۔ ایک بھی عیسائی ایسا نظر نہ آیا جو خوارق دکھا سکے اور اپنے ایمان کو ان نشانات سے ثابت کر سکے جو مومنوں کے ہوتے ہیں۔ یہ فضیلت اور فخر اسلام ہی کو ہے کہ ہر زمانہ میں تائیدی نشان اُس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اِس زمانے کو بھی خدا نے محروم نہیں رکھا۔ مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے کہ ان تائیدی نشانوں سے جو اسلام کا خاصہ ہے اِس زمانے میں اسلام کی صداقت دنیا پر ظاہر کروں۔ مبارک وہ جو ایک سلیم دل لے کر میرے پاس حق لینے کے لئے آتا ہے اور پھر مبارک وہ جو حق دیکھے تو اس کو قبول کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 330-331۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر مسلمانوں کے غلط عقیدے کا ردّ کرتے ہوئے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ ہیں اس حقیقت کو کھول کر مسلمانوں کو بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس غلط عقیدے کا استیصال کروں۔ اسے جڑ سے اکھیڑ دوں جو عیسائیوں نے مسلمانوں میں پیدا کر دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے اور اس حادثے سے بچ جانے کا قرآن شریف میں صحیح اور یقینی علم دیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ پچھلے ہزار برس میں جہاں اسلام پر اور بہت سی آفتیں آئیں وہاں یہ مسئلہ بھی تاریکی میں پڑ گیا اور مسلمانوں میں بدقسمتی سے یہ خیال راسخ ہو گیا کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے۔ مگر اس چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا تا کہ مَیں اندرونی طور پر جو غلطیاں مسلمانوں میں پیدا ہو گئی ہیں ان کو دُور کروں اور اسلام کی حقیّت دنیا پر ظاہر کروں اور بیرونی طور پر جو اعتراضات اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کا جواب دوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کی حقیقت کھول کر دکھاؤں۔ خصوصیت کے ساتھ وہ مذہب جو صلیبی مذہب ہے یعنی عیسائی مذہب، اس کے غلط اعتقادات کا استیصال کروں جو انسان کے لئے خطرناک طور پر مضر ہیں اور انسان کی روحانی قوتوں کے نشوونما اور ترقیات کے لئے ایک روک ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 331-332۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ایک موقع پر ضرورت مسیح کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ’’اس وقت مسیح کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ (سوال ہے۔) ’’اگر دوسری وجوہ اور ضروریات کو چھوڑ دیا جاوے تو سلسلہ مماثلت موسوی کے لحاظ سے بھی سخت ضرورت ہے‘‘۔ (باقی ضرورتیں چھوڑو لیکن جو مماثلت حضرت موسیٰ کی امّت کے ساتھ امّت مسلمہ کو ہے اس لحاظ سے بھی ضرورت ہے۔) ’’اس لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے۔ غرض مَیں تو بروز کی ایک نظیر پیش کرتا ہوں لیکن جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں خود حضرت مسیح ہی دوبارہ آئیں گے انہیں بھی تو کوئی نظیر پیش کرنی چاہئے۔ اور اگر وہ نہیں کر سکتے اور یقینا نہیں کر سکتے تو پھر کیوں ایسی بات کرتے ہیں جو مُحدثات میں داخل ہے۔‘‘(جو نئی پیدا کی گئی باتیں ہیں۔) ’’محدثات سے پرہیز کرو کیونکہ وہ ہلاکت کی راہ ہے۔ یہودیوں پر غضب الٰہی اسی وجہ سے نازل ہوا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ایک رسول کا انکار کر دیا اور اس انکار کے لئے ان کو یہ مصیبت پیش آئی کہ انہوں نے استعارہ کو حقیقت پر حمل کیا۔‘‘ (یعنی ایک اشارہ کی بات تھی، استعارہ کی بات تھی اس کو وہ سمجھے کہ حقیقتاً اسی طرح ہی ہونا ہے۔) ’’اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مغضوب قوم ٹھہر گئی۔ اس کا ہم شکل مقدمہ اب بھی پیش ہے۔‘‘ (یعنی وہی صورت جو اُن کے ساتھ تھی اب بھی وہی صورتحال پیش ہے۔) ’’مجھے مسلمانوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ ان کے سامنے یہودیوں کی ایک نظیر پہلے سے موجود ہے اور پانچ وقت یہ اپنی نمازوں میں غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی بالاتفاق مانتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں۔ پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس راہ کو یہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ ایک ہی رنگ کا مقدمہ جب کہ ایک پیغمبر کے حضور فیصلہ ہو چکا ہے، اب اس فیصلہ کے خلاف مسیح کو خود آسمان سے یہ کیوں اتارتے ہیں؟ آپ ہی مسیح نے ایلیاء کے مقدمہ کا فیصلہ کیا اور ثابت کر دیا کہ دوبارہ آمد سے بروزی آمد مراد ہوتی ہے اور ایلیا کے رنگ میں یحییٰ آیا۔ مگر اب یہ مسلمان اس نظیر کے ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک خود مسیح کو آسمان سے نہ اتار لیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ تم اور تمہارے سب معاون مل کر دعائیں کرو کہ مسیح آسمان سے اُتر آوے۔ پھر دیکھ لو کہ وہ اترتا ہے یا نہیں۔ مَیں یقینا کہتا ہوں کہ اگر ساری عمر ٹکریں مارتے رہو اور ایسی دعائیں کرتے کرتے ناک بھی رگڑے جاویں تب بھی وہ آسمان سے نہیں آئے گا کیونکہ آنے والا تو آ چکا۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 3-4۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
کاش کہ اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کے ساتھ جڑ کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں لاگو کرنے والے بنیں اور ہر سطح پر انصاف اور امن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کے خلاف جو غیر مسلم اور لا دین طبقہ ہے اس کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھا کر ان مسلمانوں کو اسلام کی خدمت کرنے والے بننا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی صداقت پر چار قسم کے نشانات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اوّل عربی دانی کا نشان ہے اور یہ اس وقت سے مجھے ملاہے جب سے کہ محمد حسین (بٹالوی صاحب) نے یہ لکھا کہ یہ عاجز عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا۔ حالانکہ ہم نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ عربی کا صیغہ آتا ہے۔ جو لوگ عربی املاء اور انشاء میں پڑے ہیں وہ اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں اور اس کی خوبیوں کا لحاظ رکھ سکتے ہیں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مولوی صاحب (مولوی عبدالکریم صاحب سے مراد تھی) شروع سے دیکھتے رہے ہیں کہ کس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اعجازی طور پر مدد دی ہے۔ بڑی مشکل آ کر یہ پڑتی ہے جب ٹھیٹھ زبان کا لفظ مناسب موقع پر نہیں ملتا۔ اُس وقت خدا تعالیٰ وہ الفاظ القاء کرتا ہے۔ نئی اور بناوٹی زبان بنا لینا آسان ہے مگر ٹھیٹھ زبان مشکل ہے۔ پھر ہم نے ان تصانیف کو بیش قرار انعامات کے ساتھ شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ تم جس سے چاہو مدد لے لو اور خواہ اہل زبان بھی ملا لو۔ مجھے خدا تعالیٰ نے اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ وہ ہر گز قادر نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ نشان قرآن کریم کے خوارق میں سے ظلّی طور پر مجھے دیا گیا ہے۔‘‘
دوسرا یہ ہے کہ ’’دعاؤں کاقبول ہونا۔ میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مستثنیٰ کرتا ہوں۔ ان کا مقام تو بہت بلند ہے‘‘ (کیونکہ ان کی طفیل اور اقتداء سے ہی تو یہ سب کچھ ملا ہے) اور مَیں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی‘‘۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی بھی نبی کی اتنی دعائیں قبول نہیں ہوئیں جتنی آپ نے فرمایا کہ میری ہوئی ہیں۔) مَیں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دو لاکھ یا کتنی اور بعض نشانات قبولیت کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالَم اُن کو جانتا ہے۔
تیسرا نشان پیشگوئیوں کا ہے یعنی اظہار علی الغیب۔ یوں تو نجومی اور رمّال لوگ بھی اٹکل بازیوں سے بعض باتیں ایسی کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کچھ نہ کچھ حصہ ٹھیک ہوتا ہے اور ایسا ہی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کاہن لوگ تھے جو غیب کی خبریں بتلاتے تھے۔ چنانچہ سطیح بھی ایک کاہن تھامگر ان اٹکل باز رمّالوں اور کاہنوں کی غیب دانی اور مامور من اللہ اور ملہم کے اظہار غیب میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ملہم کا اظہار غیب اپنے اندر الٰہی طاقت اور خدائی ہیبت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے صاف طور پر فرمایا ہے لَایُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ(الجنّ: 28) یہاں اظہار کا لفظ ہی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک شوکت اور قوت ہوتی ہے۔
چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے کیونکہ معارف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے جس کی تطہیر ہو چکی ہو۔ لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعۃ: 80) میں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سورۃ کی تفسیر کریں اور میں بھی تفسیر کرتا ہوں۔ پھر مقابلہ کر لیا جاوے مگر کسی نے جرأت نہیں کی۔ محمد حسین وغیرہ نے تویہ کہہ دیا کہ ان کو عربی کا صیغہ نہیں آتا اور جب کتابیں پیش کی گئیں تو بودے اور رقیق عذر کر کے ٹال دیا کہ یہ عربی تو اروی کچالوہے مگر یہ نہ ہو سکا کہ ایک صفحہ ہی بنا کر پیش کردیتا اور دکھا دیتا کہ عربی یہ ہے۔
غرض یہ چار نشان ہیں جو خاص طور پر میری صداقت کے لیے مجھے ملے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 277-278۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں۔ 17؍اگست 1899ء کو انہوں نے تحریر کیا کہ ’’چند روز ہوئے بریلی سے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے احادیث میں خبر دی ہے؟ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر آپ اس کا جواب لکھیں۔ (مولوی عبدالکریم صاحب خطوں کا جواب دیا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ) مَیں نے معمولاً رسالہ ’’تریاق القلوب‘‘ سے دو ایک ایسے فقرے جو اس کا کافی جواب ہو سکتے تھے لکھ دئے۔ وہ شخص اس پر قانع نہ ہوا‘‘ (تسلی نہیں ہوئی)‘‘اور پھر مجھے مخاطب کر کے لکھاکہ مَیں چاہتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب خود اپنے قلم سے قسمیہ لکھیں کہ آیاوہ وہی مسیح موعود ہیں جس کا ذکر احادیث اور قرآن شریف میں ہے؟۔ میں نے شام کی نماز کے بعد دوات قلم اور کاغذ حضرت کے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے) آگے رکھ دیا اور عرض کیا کہ ایک شخص ایسا لکھتا ہے۔ حضرت (صاحب) نے فوراً کاغذ ہاتھ میں لیا اور یہ چند سطریں لکھ دیں۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کہ:
’’میں نے پہلے بھی اِس اقرار مفصّل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اِس پرچہ میں اُس خدا تعالیٰ کی قَسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ مَیں وہی مسیح موعود ہوں جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن احادیثِ صحیحہ میں دی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا۔ الراقم مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ وایّد 17؍اگست 1899ء‘‘۔
مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اس ذکر سے میری دو غرضیں ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی جماعت کا ایمان بڑھے اور انہیں وہی ذوق اور سرور حاصل ہو جو یہاں کے خوش قسمت حاضرین کو اس گھڑی حاصل ہوا اور انہوں نے سچے دل سے اعتراف کیا کہ ان کو نیا ایمان ملا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ منکرین اور بدظن اس علی بصیرت قَسم پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور سوچیں کہ متعمد، کذّاب اور مفتری مختلق کی یہ شان اور اسے یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ ذوالجلال خدا کی ایسی اور اس طرح اور ایسے مجمع میں قَسم کھائے؟ اَللّٰہُ اَکْبَر۔ اَللّٰہُ اَکْبَر۔ اَللّٰہُ اَکْبَر۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 326-327۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لئے جاویں۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔‘‘ (یعنی یہ سمجھو کہ تزکیہ نفس کیا چیز ہے پھر اپنے اوپر لاگو بھی کرو۔) ’’ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ مسیح کی وفات حیات پر جھگڑے اور مباحثہ کرتے پھرو۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے۔ یہ تو ایک غلطی تھی جس کی ہم نے اصلاح کر دی۔ لیکن ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دُور ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ۔ اس لئے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ مَیں اور ہوں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں: ’’میں پھر کہتا ہوں کہ یقینا یقینا جب تک ایک مدت تک ہماری صحبت میں نہیں رہ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ مَیں اَور ہو گیا ہوں، اُسے فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘ فرمایا ’’فطرت اور عقلی حالت اور جذبات کی حالت میں اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل ہو جاوے تو کچھ بات ہے۔ ورنہ کچھ بھی نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 72-73۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بیشمار روحیں اس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں۔‘‘ (آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔) ’’وہ وقت تم نے پا لیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مَیں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اس کے اظہار سے مَیں رُک نہیں سکتا کہ مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاحِ خَلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔ میں اُس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مردِ خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ سو جب دوسرا کلیم اللہ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سیّدالانبیاء ہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزمل: 16) تو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اوّل کا مثیل مگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل المسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل المسیح قوت اور طبع اور خاصیّت مسیح ابن مریم کی پا کر اُسی زمانے کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیمِ اوّل کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اترا۔ اور وہ اترنا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے۔ اور سب باتوں میں اُسی زمانہ کے ہمشکل زمانہ میں اُترا جو مسیح ابن مریم کے اترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لئے نشان ہو۔ پس ہر ایک کو چاہئے کہ اس سے انکار کرنے میں جلدی نہ کرے تا خدا تعالیٰ سے لڑنے والا نہ ٹھہرے۔ دنیا کے لوگ جو تاریک خیال اور اپنے پرانے تصورات پر جمے ہوئے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جو اُن کی غلطی ان پر ظاہر کر دے گا۔ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 7 تا 9)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنے والے مسیح موعود کو مان لیا اور بیعت کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کیا اور ان لوگوں میں شامل ہوئے جو شکر کے سجدات بجا لانے والے ہیں نہ کہ نظریں پھیر کر گزر جانے والے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا جب مسیح موعود کا ظہور ہوا اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا اور وہ اندھیرا زمانہ گزر گیا جس میں پہلے لوگ پڑے ہوئے تھے۔ وہ زمانہ جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا زمانہ تھا ہم اس میں پیدا ہوئے جس کے انتظار میں بیشمار سعید روحیں اس دنیا سے چلی گئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس خدا سے ملایا جو زندہ خدا ہے۔ جو آج بھی سنتا ہے اور بولتا ہے جیسے پہلے سنتا اور بولتا تھا۔ پس ہمیں شکرگزاری کرنی چاہئے۔
اس ضمن میں ایک بات اَور بھی کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں 23؍مارچ کے حوالے سے بعض لوگ جو آجکل طریقہ ہے ایک دوسرے کو masseges کے ذریعہ سے فون پہ، واٹس ایپ (WhatsApp) وغیرہ پہ مبارکبادیں دے رہے تھے۔ اگر تو اس نیت سے مبارکبادیں دی تھیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اور اس بات کا شکر اور مبارکباد تھی کہ آپ کے ماننے سے ہم ان ہدایت یافتہ مسلمانوں میں شامل ہو گئے جو دین کے مددگار اور اس کی خوبیوں کو دنیا میں پھیلانے والے ہیں تو یقینا یہ مبارکبادیں دینا ان مبارکباد دینے والوں کا حق تھا۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور اس میں کوئی بدعت بھی نہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان مبارکباد دینے والوں کو ایک صاحب نے انہی پیغاموں میں اپنے پیغام کے ذریعہ سے ایک بڑا سخت قسم کا خط لکھ کر سختی سے روکا اور کہا کہ اس طرح تم لوگ بدعات میں پڑ جاؤ گے جیسا کہ باقی مسلمان پڑ گئے ہیں۔ حیرت ہے ان صاحب پر جو میرے خیال میں دینی علم بھی رکھتے ہیں اور نظام کا بھی ان کو پتا ہے۔ وہ کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم بدعات میں پڑ جاؤ گے۔ باقی مسلمانوں کے پاس خلافت کی نعمت نہیں ہے جو کہ احمدیوں کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی غلط بات یا بدعت پیدا ہوتی نظر آئے گی تو اگر خلافت صحیح ہے اور خلافت حقہ ہے تو اسے خود ہی انشاء اللہ تعالیٰ روک لے گی۔ پھر اس طرف بھی دیکھنا چاہئے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَاُل بِالنِّیَّاتِ بھی ہے۔ لوگوں کی نیتوں پہ شبہ نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے نیک نیتی سے دی ہوں گی۔ پس ان صاحب کو بھی خلافت کی ڈھال کے پیچھے رہتے ہوئے بات کرنی چاہئے تھی۔ خلافت کے قدموں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ یاد رکھیں جو بھی کرے گا وہ پھسل جائے گا۔ ایک اکائی رکھیں۔ اپنی ذوقی بات کو افراد جماعت پر ٹھونسنے یا لاگو کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ایسے لوگوں کے لئے مَیں ایک مثال دیتا ہوں۔ یہ تو ایک ایسی چیز نہیں ہے کہ جو انتہائی غلط ہو لیکن بعض بدعات جو مسلمانوں میں جاری ہیں ان کے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا نقطہ نظر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دفعہ قضائے عمری جو جمعۃ الوداع پر گزشتہ چھوڑی ہوئی نمازیں لوگ پڑھتے ہیں۔ چھوڑی ہوئی ساری نمازیں جمعۃالوداع پر پڑھ لیتے ہیں یا جمعۃ الوداع پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ نمازیں معاف ہو گئیں۔ اس کے بارے میں آپ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ فضول امر ہے۔ کوئی شک نہیں بالکل فضول بات ہے۔ مگر فرمایا کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت علیؓ کے زمانے میں بے وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ کسی نے حضرت علیؓ سے کہا کہ اسے روکتے کیوں نہیں؟ تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مَیں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بن جاؤں کہ أَرَءَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق: 10۔ 11) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں اگر کسی نے عمداً نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضائے عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارکِ مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو۔ کیوں منع کرتے ہو۔ آخر دعا ہی کرتا ہے۔ ہاں اس میں پست ہمّتی ضرور ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آ جاؤ۔
پس جنہیں فتوے کا حق تھا وہ تو اس قدر محتاط تھے لیکن یہ صاحب مبارکباد دینے پر ہی بے انتہا انذار کی خبریں دے رہے ہیں اور فتوے دے رہے ہیں۔ اگر ان کے دل میں کچھ تحفظات تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ مجھے لکھتے۔ اور اگر روکنا تھا تو یہ خلیفۂ وقت کی ذمہ داری ہے کہ خود روکے یا جماعتی نظام کے ذریعہ سے روکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ دو جنازے حاضر ہیں۔ ایک جنازہ مکرمہ محمودہ سعدی صاحبہ کا ہے جو مکرم مصلح الدین صاحب سعدی مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ 22؍مارچ کو 94سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مصلح الدین سعدی صاحب جن کی یہ اہلیہ تھیں وہ مکرم عبدالرحیم صاحب درد کے بھائی تھے جو امام مسجد فضل رہے ہیں اور انہوں نے یہاں بڑا کام کیا ہے۔ سعدی صاحب کی وفات 1965ء میں ہو گئی تھی۔ مرحومہ نے 41 سال کا بیوگی کا لمبا عرصہ بڑے صبر شکر سے گزارا۔ ان کے ایک بیٹے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے زمانے میں وہاں اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ یہ صاحبزادے بھی وفات پا چکے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے جلال الدین اکبر صاحب یہاں ہیں جو یوکے میں نائب سیکرٹری ضیافت کے طور پر خدمت کرتے رہے ہیں۔ مرحومہ کو خلافت سے بڑا تعلق اور عقیدت تھی۔ تبلیغ کا شوق، قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا شوق، دعا گو اور صابرہ اور شاکرہ تھیں۔ گزشتہ چھ سال سے کافی بیمار تھیں اور بیماری کو بھی بڑے صبر اور شکر سے گزارا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل میں ہمیشہ وفا کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ احمدیت کو قائم رکھے۔
دوسرا جنازہ نورالدین چراغ صاحب کا ہے جو چراغ دین صاحب مرحوم قادیان کے بیٹے تھے۔ 15؍مارچ کو 45سال کی عمر میں ان کو دل کا دورہ پڑا اور وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا تعلق بھی قادیان سے تھا۔ دس سال سے زائد عرصہ سے یوکے میں مقیم تھے۔ طبیعت میں انتہائی سادگی تھی۔ ان کی بہن لکھتی ہیں کہ بچپن سے انہوں نے غربت دیکھی تھی اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں رزق عطا فرمایا تو لالچ نہیں پیدا ہوا بلکہ بہت سے لوگوں کی مالی مدد کرتے تھے۔ ان کی ایک ڈائری ملی ہے جس میں 47لوگوں کا ذکر ہے جن کی آپ باقاعدگی سے مالی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک غیر احمدی نے بھی ان کی بڑی تعریف کی ہے کہ بڑے سچے اور فرشتہ صفت تھے۔ نمازوں کے پابند، خلافت سے انتہائی درجہ تعلق رکھنے والے، بزرگان سلسلہ کا احترام کرنے والے نوجوان تھے۔ مرحوم کی والدہ اور باقی فیملی قادیان میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور خاص طور پر ان کی والدہ کو اللہ تعالیٰ سکون دے۔
ایک جنازہ غائب ہے جو سیدۃ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالباری صاحب تعلقدار بنگالی کا ہے۔ یہ 20؍مارچ کو 83سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کچھ عرصہ سے بیمار تھیں۔ یہ بہار میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سید موسیٰ رضا بھاگل پور بِہار کے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے زمانے میں ان کے والدنے 15سال کی عمر میں احمدیت قبول کی۔ پھر ان کی شادی عبدالباری صاحب تعلقدار سے ہو گئی اور مشرقی پاکستان چلی گئیں۔ تقسیم ہندوستان کے بعد یہ لوگ وہاں چلے گئے۔ عبدالباری صاحب نے 1946ء میں حضرت مصلح موعود کے زمانے میں بیعت کی تھی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پھر یہ لوگ ربوہ منتقل ہو گئے اور 20سال سے زائد عرصہ ان کے خاوند باری صاحب نے، فضل عمر ہومیو پیتھک ڈسپنسری میں کام کیا جو وقف جدید کے تحت چل رہی تھی۔ یہاں آپ کے بیٹے عبدالخالق صاحب بنگالی ہیں جو اپنے حلقے میں کافی جانے جاتے ہیں۔ جماعت میں کافی خدمت کرتے ہیں۔ عبدالباری صاحب نے اپنے بچوں کو اردو سکھانے کے لئے اپنی بیوی سمیت ربوہ بھجوادیا تھا اور وہاں بنگلہ دیش میں (یہ اس وقت مشرقی پاکستان تھا) بڑے اچھی آسائش کی زندگی گزار رہی تھیں اور نوکرچاکر موجود تھے لیکن بچوں کی خاطر اور تربیت کی خاطر یہ لوگ ربوہ آ گئے اور پھر یہیں رہے تا کہ اردو سیکھیں اور جماعت کا زیادہ پتا لگے اور خلافت کے قریب رہیں۔ اس لحاظ سے انہوں نے بڑی قربانی دی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو ان مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے لئے انہوں نے قربانی دی اور ربوہ میں آکر رہیں۔ یہ تین جنازے انشاء اللہ جیسا کہ میں نے کہا ابھی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔
23مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں بڑا اہم دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے جو اُمّتِ محمدیہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دَور کا آغاز ہوا۔
اس دن کی مناسبت سے جماعت میں یوم مسیح موعود کے جلسے ہوتے ہیں اور ہوئے جن میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد اور آپ کی جماعت کے قیام اور اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی وہاں افراد جماعت نے شکربھی ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو مانتے ہوئے آنے والے مسیح موعود کو اور مہدی معہود کو ماننے اور اسے سلام پہنچانے کی توفیق بخشی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے آپ کی بعثت کی اغراض کا تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینے کی تاکید۔
23؍ مارچ کے روز ایک دوسرے کو اگر تو اس نیت سے مبارکبادیں دی تھیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اور اس بات کا شکر اور مبارکباد تھی کہ آپ کے ماننے سے ہم ان ہدایت یافتہ مسلمانوں میں شامل ہو گئے جو دین کے مددگار اور اس کی خوبیوں کو دنیا میں پھیلانے والے ہیں تو یقینا یہ مبارکبادیں دینا ان مبارکباد دینے والوں کا حق تھا۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور اس میں کوئی بدعت بھی نہیں۔ خلافت کے قدموں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں، جو بھی کرے گا وہ پھسل جائے گا۔ اپنی ذوقی بات کو افراد جماعت پر ٹھونسنے یا لاگو کرنے کی کوشش نہ کریں۔
مکرمہ محمودہ سعدی صاحبہ اہلیہ مکرم مصلح الدین سعدی صاحب(مرحوم) اور مکرم نورالدین چراغ صاحب ابن مکرم چراغ دین صاحب (مرحوم) کی نماز جنازہ حاضر اور مکرمہ سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالباری صاحب تعلقدار کی نماز جنازہ غائب اور مرحومین کا ذکر خیر۔
فرمودہ مورخہ 25؍مارچ 2016ء بمطابق25؍امان 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔