حضرت مصلح موعودؓ: حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ بعض سبق آموز واقعات
خطبہ جمعہ یکم اپریل 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھا تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ تم لوگ جو میرے زمانے میں پیدا ہوئے ہو خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس زمانے میں پیدا کر کے ان خوش قسمتوں میں شامل کر دیا جنہیں مسیح موعود کا زمانہ دیکھنے کو ملا جس کا انتظار کرتے کرتے کتنی ہی قومیں اس دنیا سے گزر گئیں۔ مفہوم یہی تھا جسے میں نے اب اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ہم احمدی یقینا ان خوش قسمتوں میں سے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور ان لوگوں میں شامل ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں۔ ان بدقسمتوں میں نہیں ہیں جن کو باوجود مسیح موعود کا زمانہ میسر آنے کے بیعت کرنے کی توفیق نہیں ملی کیونکہ بعض ایسے بدقسمت بھی ہیں جو مخالفت میں بھی بڑھے ہوئے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی رہنمائی سے محروم ہو کر بھٹکے ہوئے اور بکھرے ہوئے ہیں۔ پس اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ اس نے سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی اور اپنے بھیجے ہوئے امام کے ذریعہ سے ہمیں زندگی کے مختلف مواقع پر اٹھنے والے سوالوں اور مسائل کے حل بھی صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق بتائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تحریروں، تقریروں، اور مجالس میں بھی بعض باتیں مثالوں سے بیان فرمایا کرتے تھے جو آپ کے صحابہ کی روایات سے ہمیں ملتی ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ احسان ہم پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جنہوں نے اپنے خطبات و خطابات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ باتیں بیان کی ہیں جو عموماً حضرت مصلح موعودنے خود دیکھیں یا سنیں یا قریب کے صحابہ نے آپ کو بتائیں۔ یوں مثالوں سے بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ مَیں گزشتہ کچھ عرصہ سے ان باتوں اور روایتوں کو خطبات میں بیان کر رہا ہوں جس پر مجھے کئی خطوط بھی آئے ہیں کہ ان مثالوں یا واقعات سے ہمیں آسانی سے بات سمجھ آ جاتی ہے۔ بہرحال اس حوالے سے آج کا خطبہ بھی ہے۔
ایک خطبہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون کو بیان فرمایا کہ ہڑتالیں یا سٹرائکس (strikes) جائز ہیں یا نہیں۔ اس بارے میں اصولی طور پر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہڑتالیں کیوں ہوتی ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور وہ یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ دنیاوی نظام میں کبھی مالک مزدور کے حق ادا نہیں کرتا اور جب مزدور کو موقع ملتا ہے تو وہ مالک کا حق ادا نہیں کرتا۔ ایک بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ کبھی حکومت رعایا کے حقوق ادا نہیں کرتی اور کبھی رعایا حکومت کے حق ادا نہیں کرتی۔ جب مالک اور حکومت حق ادا نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ ایک ردّ عمل ہوتا ہے لیکن جب مزدور اور رعایا حق ادا نہیں کرتے تو پھر بھی ان پر سختی ہوتی ہے۔ تو ان دنیاوی کاموں میں ایک شیطانی چکّر ہے جس میں انسان پھنسا ہوا ہے۔ اسی لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کے لئے غیر نہ بنو بلکہ آپس میں بھائی بھائی سمجھ کر اپنے اپنے حق ادا کرنے کی کوشش کرو تونظام جو ہے چاہے وہ دنیاوی نظام ہے کبھی خراب نہیں ہوتا۔ اس بارے میں اسلامی تعلیم اور اسلامی تمدن کا یہ خلاصہ ہے۔ اور یہ صرف اسلامی حکومت تک ہی وابستہ نہیں ہے بلکہ عام دنیاوی حکومت میں بھی اپنے حق ادا کرتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور جہاں حق لینے کا سوال ہے وہاں سٹرائک کے بجائے، ہڑتالوں کے بجائے، غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کے بجائے، جائز قانونی ذرائع استعمال کرنے چاہئیں۔ بہرحال اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ’’اسلامی عمارت جو تمدن کے متعلق ہے اس کی بنیاد انصاف اور محبت پر ہے۔ اس لئے اپنے حقوق کے اصول کے لئے بھی وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو انصاف اور محبت پر مبنی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب کبھی سٹرائک ہوتی اور کوئی احمدی اس میں شریک ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے سخت سزا دیتے اور اس پر اظہار ناراضگی فرماتے۔‘‘ (خطبات محمود۔ جلد 17 صفحہ 133)
آجکل اسلامی ممالک میں جو ہڑتالیں اور بغاوتیں ہوتی ہیں سوائے اس کے جہاں شیطانی طاقتیں کام کر رہی ہیں عموماً عوام اور حکومت کے درمیان بے چینیاں ایک دوسرے کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر حکومت انصاف پر مبنی نظام چلا رہی ہو تو جو شیطانی طاقتیں فساد پھیلاتی ہیں یا بیرونی طاقتیں فساد پھیلاتی ہیں انہیں بھی موقع نہ ملے۔ کیونکہ جب عوام کے حق ادا کئے جا رہے ہیں تو کوئی کسی مولوی یا کسی فسادی یا کسی شرارت کرنے والے یا کسی باغی یا فتنہ و فساد پیدا کرنے والے کے پیچھے نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو، خاص طور پر پاکستان کو، ان کی حکومتوں کو یہ عقل دے کہ یہ لوگ اپنی رعایا کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اسی طرح ہر احمدی کو بھی دعا کے ساتھ ساتھ اگر کہیں زبردستی شامل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو مجبوری میں بھی کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو جائیدادوں کو نقصان پہنچانے والی ہو، حکومت کے اموال کو نقصان پہنچانے والی ہو۔
ہر انسان جو کسی بھی کام سے منسلک ہے وہ اگر اپنے کام میں دلچسپی رکھتا ہے تو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اسے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک اہم اصول ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودنے وضاحت فرمائی اور پھر مثال بھی دی کہ اگر کوئی فوجی ہے یا جرنیل ہے یا استاد ہے یا جج ہے یا وکیل ہے یا تاجر ہے یا اسمبلی کا سیکرٹری ہے، سپیکر ہے، حکومت کا وزیر ہے، کوئی بھی ہو جو ایمانداری سے کام کرتا ہے، دل لگا کر کام کرنے والا ہے پورا وقت دینے والا ہے تو شام کو جب تھک کر بیٹھتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ تمام دن کی مصروفیت اور بوجھ نے ہماری کمر توڑ دی لیکن جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو ہمارے لئے جو اُسوہ آپ نے پیش کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ یہ ہے کہ یہ تمام کام جو دنیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تمام کام ان سب سے بڑھ کر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ جج بھی تھے۔ آپ استاد بھی تھے۔ آپ دوسرے حکومتی فرائض بھی ادا کرتے تھے کیونکہ حکومت کے سربراہ تھے۔ قانون سازی فرماتے تھے یا قانون کی وضاحت اور تفصیل بیان فرماتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی آپ گھر کے کام کاج بھی کر لیتے تھے۔ بیویوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ آپ نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ میں اتنا مصروف انسان ہوں کہ تمہارے گھر میں تمہاری مددنہیں کر سکتا۔ اس کی تھوڑی سی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ ’’دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے تھے اور اتنی توجہ سے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ مَیں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں۔ پھر بیوی بھی ایک نہیں۔ آپ کی نو بیویاں تھیں۔ اور نو بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میں ایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے۔ پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرما دیتے۔ اس کام کے علاوہ جو ابھی بیان ہوئے ہیں آپ کے (بہت سارے کام تھے۔) اور بھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سرانجام دیتے۔ آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو۔ مگر آپ بھی اسی ملک میں رہتے ہیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ملیریا کی بیماری کا ملک ہے (کیونکہ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں رہنے والے لوگ اپنی سستی کی وجہ، کام نہ کرنے کی وجہ اس علاقے میں رہنا بیان کرتے ہیں اور اس لئے کہ یہاں ملیریا کا علاقہ ہے اور سستی پیدا ہو جاتی ہے بیماریاں بہت پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے آپ نے ملیریا کی مثال دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سارے کام بھی کرتے تھے، گھریلو کام بھی کرتے تھے باوجود اس کے کہ آپ بھی اسی علاقے میں رہتے تھے جہاں ملیریا ہے۔ اب ایشیا کے لوگ، افریقہ کے لوگ بعض عذر پیش کرتے ہیں کہ ہماری سستیوں کی یہ وجہ ہوگئی، کام نہ کرنے کی یہ وجہ ہو گئی تو یہ وجوہات تو وہاں بھی موجود تھیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہتے تھے۔) پھر حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہم نے دیکھا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلّ تھے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کی یہ حالت ہوتی تھی کہ ہم جب سوتے تو آپ کو کام کرتے دیکھتے اور جب آنکھ کھلتی تب بھی آپ کو کام کرتے دیکھتے اور باوجود اتنی محنت اور مشقت برداشت کرنے کے جو دوست آپ کی کتابوں کے پروف پڑھنے میں شامل ہوتے آپ ان کے کام کی اس قدر قدر فرماتے کہ اگر عشاء کے وقت بھی کوئی آواز دیتا کہ حضور میں پروف لے آیا ہوں تو آپ چارپائی سے اٹھ کر دروازے تک جاتے ہوئے راستے میں کئی دفعہ فرماتے: جَزَاکَ اللّٰہ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ جَزَاکَ اللّٰہ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ حالانکہ وہ کام جو پروف ریڈنگ کرنے والے کرتے تھے اس کام کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جو آپ خود کیا کرتے تھے۔ غرض ہم نے اس قدر کام کرنے کی عادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں حیرت آتی تھی۔ بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ آپ کو ٹہلنا پڑتا تھا مگر اس حالت میں بھی آپ کام کرتے جاتے تھے۔ سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو راستے میں بھی مسائل کا ذکر کرتے اور سوالات کے جوابات دیتے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقے میں رہنے والے تھے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود۔ جلد 17 صفحہ 249)
پس حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہم اپنی سستی کو جو ہم کرتے ہیں اپنی بیماریوں کی طرف منسوب نہ کریں۔ اس لئے جو سست رہنے والے لوگ ہیں اور اس وجہ سے اپنے فرائض میں کوتاہی برتتے ہیں ان کو جسم کا ملیریا نہیں ہے بلکہ ان کو دل کا ملیریا ہے۔ اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے محنت کرنی ہے تو یہ سب سستیاں دور ہو سکتی ہیں۔ اب ملیریا والے علاقے تو ایک طرف رہے یہاں یورپ میں جو لوگ ان علاقوں سے آ کر آباد ہوئے ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو گھروں میں پڑے اینٹھتے رہتے ہیں۔ سارا دن گھر میں بیٹھے رہے یا ٹی وی دیکھتے رہے یا بیویوں سے لڑتے جھگڑتے رہے یا بچوں سے ایسا سلوک کیا کہ بچے بھی تنگ آ جاتے ہیں۔ یہ بیماری نہیں ہوتی۔ بہانہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار ہیں۔ یہ بیماری نہیں بلکہ سستی ہے کاہلی ہے کیونکہ یہاں یہ فکر نہیں کہ کوئی معاش کی فکر ہو۔ کیونکہ گزارہ الاؤنس تو مل ہی جاتا ہے اس لئے بہانہ کر کے کام نہیں کرتے۔ پس اس کاہلی اور سستی کو یہاں رہنے والوں کو بھی دُور کرنا چاہئے۔
پھر اسلام میں عورت کا مستقبل محفوظ کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کی شادی ہو تو اس کے لئے حق مہر رکھا گیا ہے۔ اس لئے اس کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف طلاق یا علیحدگی کی صورت میں ہی حق مہر ادا کرنا ہے حالانکہ حق مہر کا مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ یہ وہ رقم ہے جو عورت کے پاس ہونی چاہئے تا کہ بعض دفعہ اس کو کوئی ضرورت ہو جائے، کوئی خاص خرچ اس کے اوپر آپڑے جس کا وہ خاوند سے مطالبہ کرتے ہوئے بھی ہچکچائے، شرم محسوس کرے تو اس میں سے وہ خرچ کر سکے۔ یا بعض وقت ایسی ضرورت پیش آ سکتی ہے جو موقع پر خاوند بھی پوری نہیں کر سکتے تو عورت کے پاس کچھ ہو تو تبھی وہ اپنی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ اور اگر حق مہر دینا ہی نہیں تو یہ دونوں صورتیں یا اور بھی بہت ساری صورتیں ہیں وہ پوری نہیں ہو سکتیں۔ مثلاً عورت کی ضرورت ہے کسی کی مدد کرنا، کسی رشتہ دار کی مدد کرنا اور خاوند کو بتانا نہیں چاہتی تو اس کے پاس یہ رقم ہونی چاہئے۔ تو ایسی ہی کوئی نہ کوئی رقم ہو جو اس کی اپنی ہنگامی ضروریات اور اپنی مرضی کے خرچ کے لئے پوری آسکے۔
بعض خاوند حق مہر کی ادائیگی تو علیحدہ رہی عورت جو اپنی کمائی کر رہی ہوتی ہے اس پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں کہ تم نے ہمارے پوچھے بغیر خرچ نہیں کرنا۔ یا ہمیں دو۔ یہ ساری آمد جو ہے اس میں سے اتنا حصہ ہمارے پاس آنا چاہئے، ہمارے بنک اکاؤنٹ میں جانا چاہئے، جو سراسر ناجائز چیز ہے۔ اسی طرح بعض غریب خاندانوں میں اور غریب ملکوں میں بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ والدین شادی کے وقت حق مہر لڑکی کے خاوند یا سسرال سے خود وصول کر لیتے ہیں اور لڑکی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ وہ بیاہ کے خالی ہاتھ رہتی ہے۔ یہ بھی غلط چیز ہے۔ یہ تو لڑکیوں کو بیچنے والی بات ہے جس کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ عورتیں اپنے خاوندوں کو حق مہر معاف بھی کر دیتی ہیں لیکن اس کے لئے بھی بعض شرائط ہیں کہ ان کے ہاتھ میں رکھ کر پھر پوچھو بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض ائمہ کا اور بزرگوں کا تو یہ فیصلہ ہے کہ عورت کو حق مہر دو پھر وہ ایک سال اس کو اپنے پاس رکھے اور پھر اگر چاہے تو خاوند کو واپس کر دے۔ تصرف میں لائے اور پھر وہ معاف کرنا چاہے یا دینا چاہے تو دے دے۔
حضرت مصلح موعود ایسے ہی حق مہر کی معافی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کا ہے کہ ’’حضرت حکیم فضل دین صاحب ہمارے سلسلہ میں سابقون الاولون میں سے ہوئے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مہر شرعی حکم ہے اور ضرور عورتوں کو دینا چاہئے۔ اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کیا آپ نے ان کے ہاتھ میں رکھ کر معاف کرایا تھا؟ کہنے لگے نہیں حضور۔ یونہی کہا تھا اور انہوں نے معاف کر دیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ پہلے آپ ان کی جھولی میں ڈالیں پھر اس کو معاف کروائیں۔ (یہ بھی ادنیٰ درجہ ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہئے اور پھر اس عرصے کے بعد اگر وہ معاف کرے تو پھر درست ہے۔) ان کی بیویاں دو تھیں اور مہر پانچ پانچ سو روپیہ تھا۔ حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سو روپیہ ان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے کہ تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے۔ سو اَب مجھے یہ واپس دے دو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اُس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے۔ اس وجہ سے کہہ دیا تھا کہ معاف کیا۔ اب ہم نہیں دیں گی۔ (اب تو ہمارے پاس آ گیا۔) حکیم صاحب نے آ کر یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر (دونوں بیویوں کو) مہر دیا تھا مگر روپیہ لے کر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمانے لگے۔ درست بات یہی ہے کہ پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصے کے بعد اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے۔ ورنہ دئیے بغیر معاف کرانے کی صورت میں تو ’مفت کرم داشتن‘ والی بات ہوتی ہے۔ (کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔ اب کسی تکلیف کے بغیر ہی اپنا احسان جتا لیا۔) عورت سمجھتی ہے نہ انہوں نے مہر دیا اور نہ دیں گے۔ چلو یہ کہتے جو ہیں تو معاف ہی کر دو۔ مفت کا احسان ہی ہوتا ہے۔ تو جب عورت کو مہر مل جائے پھر اگر وہ خوشی سے دے تو درست ہے ورنہ دس لاکھ روپیہ بھی اگر اس کا مہر ہو مگر اس کو ملانہیں تو وہ دے دے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے جیب سے نکال کے تو کچھ دینا نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ اس میں کیا حرج ہے۔ پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے ان کو مہر دیا جانا ضروری ہے اور اگر یہ مہر ایسے وقت میں دیا جاتا ہے جب ان کو اپنی ضروریات کی خبر نہیں (بعض دفعہ عورت کو ضروریات کا پتا ہی نہیں ہوتا) یا جبکہ والدین ان سے لینا چاہتے ہیں تو یہ ناجائز ہے (یعنی جیسی میں نے مثال دی کہ بعض لوگ اپنی بیٹیوں کے مہر خود لے لیتے ہیں یہ ناجائز چیز ہے) اور یہ بردہ فروشی ہے جو کسی طرح درست نہیں۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 9 صفحہ 217)
پھر زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ بھی فرائض میں داخل ہے۔ ہر اس شخص کے لئے زکوۃ ہے جو اس کی شرائط پوری کرتا ہو لیکن ایسے بزرگ بھی ہیں جو جتنی دولت ہو، جو آمد ہو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بزرگ کا قصّہ حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کے لئے نمونے کے طور پر پیدا کیا ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا ہے کہ کسی نے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ کتنے روپوں پر زکوۃ فرض ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ چالیس روپے میں سے ایک روپیہ زکوۃ دو۔ اس نے کہا کہ آپ نے جو فقرہ بولا ہے کہ ’’تمہارے لئے‘‘، اس کا کیا مطلب ہے۔ کیا زکوۃ کا مسئلہ ہر ایک کے لئے بدلتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ تمہارے پاس چالیس روپے ہوں تو ان میں سے ایک روپیہ زکوۃ دینا تمہارے لئے ضروری ہے۔ لیکن اگر میرے پاس چالیس روپے ہوں تو مجھ پر اکتالیس روپے دینا لازمی ہیں۔ کیونکہ تمہارا مقام ایسا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کماؤ اور کھاؤ لیکن مجھے وہ مقام دیا ہے کہ میرے اخراجات کا وہ آپ کفیل ہے۔ اگر بیوقوفی سے میں چالیس روپے جمع کر لوں تو میں وہ چالیس روپے بھی دوں گا اور ایک روپیہ جرمانہ بھی دوں گا۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 546)۔ تو یہ بزرگوں کا حال ہے۔
پس بعض لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف دین کی طرف توجہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن باقی جو لوگ ہیں جو صرف دنیا کے رہنے والے ہیں وہ بیشک اب دنیا کمائیں اور پھر اپنے مال اور وقت کا کچھ حصہ خرچ کریں۔ عبادت اور دین کے کاموں میں بھی اپنے وقت کو لگائیں۔ استغفار بھی کریں۔ دعائیں بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جو انہیں عزت اور دولت اور شہرت دی ہے تو یہ بطور احسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس اس احسان کا شکرانہ یہ ہے کہ اس میں سے دوسروں کا بھی ساتھ ساتھ خیال رکھیں۔ بعض لوگوں کے ذہن زیادہ کاروباری ہوتے ہیں یا نقل میں ہی ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں جو جماعتی روایات کے خلاف ہوتی ہیں یا اسلامی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ایسے لوگ عہدیداروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ مقامی انجمنیں بھی ایسے فیصلے کر لیتی ہیں۔ قادیان میں ایک دفعہ مقامی انجمن نے ایک فارم شائع کیا اور دوسرے افراد کو ایک آنے کا فروخت کرنا شروع کر دیا۔ چار پیسے کا آنہ ہوتا تھا۔ غالباً کوئی رپورٹ فارم قسم کی چیز تھی۔ آج بھی بعض لوگ یہ جدّتیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنی روایات بھول جاتے ہیں۔ بہرحال اس وقت جس رنگ میں حضرت مصلح موعودنے ان کو سمجھایا وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے تمام کاموں میں شریعت کی پیروی کیا کریں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کیا کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی کیا کریں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا تھا میں نے تو اتنا ہی دیکھا کہ اس کاغذ پر اس قسم کا نقشہ تھا جیسے فارموں وغیرہ پر ہوتا ہے مگر بتانے والے نے بتایا کہ یہ ایک آنے پر بکتا ہے اور معلوم ہوا کہ ہماری لوکل انجمن نے اس کو ایجاد کیا ہے۔ انہوں نے سرکاری اسٹامپ دیکھے تو خیال آیا کہ ہم بھی ایک کاغذ بنا کر اس کی کچھ قیمت مقرر کر دیں۔ کہتے ہیں کہ کوّا ہنس کی چال چلا اور وہ اپنی چال بھی بھول گیا۔ مَیں یہ تو نہیں کہہ سکتا مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہنس کوّے کی چال چلا اور اپنی چال بھول گیا۔ ہمیں دنیاوی گورنمنٹوں سے بھلا واسطہ ہی کیا ہے کہ ہم ان کی نقل کریں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کی فارمیں کبھی نہیں بنائیں۔ پھر دشمن کو اعتراض کا خوامخواہ موقع دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اسی قسم کی باتوں کے نتیجہ میں دشمن کو حرف گیری کا موقع ملتا ہے اور وہ کہتا ہے خبر نہیں یہ کیا چیز بنا رہے ہیں۔ کرنے والا کوئی ہوتا ہے اور بدنام سلسلہ ہوتا ہے۔ لوکل کمیٹی والوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے (پھر آپ مثال دیتے ہیں کہ) گورداسپور میں ایک بڈھا شخص رہا کرتا تھا۔ لمبا سا قد تھا۔ بڑی سی ڈاڑھی تھی۔ عرائض نویس یا نقل نویس تھے۔ ان کا طریق تھا کہ جب کسی دوست کو دور سے دیکھتے تو بجائے السلام علیکم کہنے کے اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنا شروع کر دیتے اور جب پاس پہنچتے تو اس کے انگوٹھے پکڑ کر اللہ اکبر کہنے لگ جاتے اور ساتھ ساتھ اچھلتے بھی جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس اکثر ملنے کے لئے آ جاتے تھے۔ انہیں بھی ہمارے لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ کی طرح نقل کا شوق تھا۔ (نقل کی مثال دے رہے ہیں کہ لوگوں کی نقل کر کے بعض لوگ غلط کام کرتے ہیں۔ نقل کا شوق تھا) وہ غریب چونکہ روز مسلوں کا کام سنا کرتے تھے (کورٹ میں عرضی نویس تھے) اس لئے ان کا بھی دل چاہتا تھا کہ میں مجسٹریٹ بنوں اور مسلیں لانے کا آرڈر دیا کروں۔ مگر چونکہ یہ ہوس پوری نہ ہو سکتی تھی۔ اس لئے انہوں نے گھر میں ایک طریقہ ایجاد کیا کہ ایک نمک کی مسل بنا لی۔ ایک گھی کی مسل بنائی۔ ایک مرچوں کی مسل بنائی۔ ایک ایندھن کی مسل بنا رکھی تھی۔ جب وہ دفتر سے فارغ ہو کر گھر آتے تو ایک گھڑا الٹا کر اس پر بیٹھ جاتے اور بیوی کہتی کہ نمک چاہئے۔ وہ بیوی کو مخاطب کر کے کہتے کہ ریڈر! فلاں مسل لاؤ۔ بیوی مسل لے آتی اور وہ اسے پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر غور کرتے اور پھر کہتے اچھا اس میں درج کیا جائے کہ ہمارے حکم سے اتنا نمک دیا جاتا ہے۔ ایک دن اس بیچارے کی بدقسمتی سے کچہری میں سے کچھ مسلیں چرائی گئیں۔ تحقیق شروع ہوئی تو اس کا ایک ہمسایہ کہنے لگا کہ سرکار مجھے انعام دیں تو میں مسلوں کا پتہ بتاسکتا ہوں۔ اسے کہا گیا اچھا بتاؤ۔ اسے چونکہ روز ہمسائے کے گھر سے مسلوں کا ذکر سنائی دیتا تھا۔ اس نے جھٹ اس بوڑھے کا نام لے دیا۔ اب پولیس اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ اس کے گھر کے گرد جمع ہو گئی اور تلاشی شروع ہوئی۔ مگر جب مسلوں کی برآمد ہوئی تو کوئی نمک کی مسل نکلی۔ کوئی گھی کی مسل اور کوئی مرچوں کی مسل۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہی نظارہ میں آجکل یہاں دیکھتا ہوں کہ ہمارے دوست یہ سمجھ کر کہ مغربی چیزیں بڑی اچھی ہوتی ہیں ان کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 229-230)۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ پس یہاں کسی فارم یا اس کی قیمت کا سوال نہیں ہے۔ ایک اصولی بات ہے۔ جو ہماری تعلیم اور روایات کے خلاف چیز ہو اس سے ہمیں بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور دنیا داری میں اگر ہم نے نقل کرنی ہے تو اوّل تو یہ دنیا داری کی نقل ہے ہی نہیں اور اگر کسی بھی معاملے میں نقل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہیں آپ کی نقل کرنی چاہئے یا پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو نمونہ بنایا آپ نے جو اپنے آقا سے سیکھا، ہمیں بتایا اس کے مطابق ہمیں چلنا چاہئے۔
حضرت مصلح موعود اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال تھا یا آپ کے بعد خلافت اولیٰ کا کوئی رمضان تھا۔ بہرحال موسم کی گرمی کے سبب یا اس لئے کہ میں سحری کے وقت پانی نہ پی سکا تھا، مجھے ایک روزے میں شدید پیاس محسوس ہوئی تھی کہ مجھے خوف ہوا کہ میں بیہوش ہو جاؤں گا اور دن غروب ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ میں نڈھال ہو کر ایک چارپائی پر گر پڑا اور میں نے کشف میں دیکھا کہ کسی نے میرے منہ میں پان ڈالا ہے۔ میں نے اسے چوسا تو سب پیاس جاتی رہی۔ چنانچہ جب وہ حالت جاتی رہی تو میں نے دیکھا کہ پیاس کا نام و نشان بھی نہ باقی رہا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس طریق سے میری پیاس بجھا دی اور جب پیاس بجھ جائے تو پانی پینے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ (ضرورت تو اسی وقت تھی ناں جب پیاس لگ رہی تھی۔ ) غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ضرورت پوری کر دی جائے خواہ مناسب سامان مہیا کرکے ہو، خواہ اس سے استغناء پیدا کر کے۔ (یعنی اس کی خواہش ہی نہ رہے۔ یا تو چیز مہیا کر دی جائے یا اس چیز کی خواہش نہ رہے۔)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک شخص نے لکھا کہ دعا کریں کہ فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم دعا کریں گے مگر نکاح کی کوئی شرط نہیں ہے۔ خواہ نکاح ہو جائے خواہ اس سے نفرت پیدا ہو جائے۔ تو آپ نے دعا فرمائی اور چند روز بعد اس نے لکھا کہ میرے دل میں اس سے نفرت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی طرح مجھے بھی ایک شخص نے (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک شخص نے) ایسا لکھا تھا اور میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنّت میں اسے یہی جواب دیا تھا اور اس نے بعد میں مجھے اطلاع دی کہ اس کے دل سے اس کا خیال جاتا رہا۔ پس اللہ تعالیٰ دونوں صورتوں میں مدد کرتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 342-343) یعنی اصل چیز یہ ہے کہ یا جس کی خواہش کی جا رہی ہے وہ خواہش پوری ہو جائے یا پھر وہ خواہش ہی دل سے مٹ جائے۔ تو اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے۔ پس اصل چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے فیصلہ کو اہمیت دیتے ہوئے دعا کی جائے۔
اب بھی بعض لوگ خط لکھتے ہیں۔ مجھے بھی خط آتے ہیں کہ فلاں جگہ رشتہ کرنا ہے۔ دعا کریں اس سے ہوجائے اور ساتھ کوشش بھی کریں اور اس کے والدین کو بھی کہیں اور اس نظام کو بھی کہیں ورنہ ختم ہو جاؤں گا۔ میں بھی مر جاؤں گا اور دوسرا فریق بھی مر جائے گا۔ تو یہ فضول اور لغو باتیں ہیں۔ شادی کا اصل مقصد تو دل کا سکون اور بقائے نسل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنا چاہئے اور اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہے تو ہو ورنہ دل سے اتر جائے اور ختم ہو جائے۔ یہ محبتیں جو دنیاوی ہیں یہ عارضی محبتیں ہوتی ہیں۔ دنیا کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے مانگنی چاہئے۔ اور اگر یہ ہو گا تو پھر دنیاوی محبت بھی نیکی بن جائے گی اور پھر ہمیشہ دل کا سکون اور اطمینان کا باعث رہے گی۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ دنیا میں کوئی چیز اپنی ذات میں نقصان دہ نہیں ہے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’کچلہ ہے۔ یہ بھی ایک زہر ہے۔ اس کے کھانے سے کئی لوگ مر جاتے ہیں۔ لیکن لاکھوں لاکھ انسان اس سے بچتے بھی ہیں (یعنی کہ علاج کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔) اسی طرح بہت بڑی تباہی والی چیز افیون ہے لیکن اس کی تباہی کے مقابلے میں اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اطبّاء کا قول ہے کہ طبّ کی آدھی دوائیں ایسی ہیں جن میں افیون استعمال ہوتی ہے اور اس کا اتنا فائدہ ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جب انسان کو بے چینی اور بے کلی ہوتی ہے، جب انسان کی نیند اڑ جاتی ہے، جب انسان درد سے نڈھال ہو کر خود کشی کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کو مارفیا کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے جس سے اس کو فوراً آرام ہوجاتا ہے۔ پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنی ذات میں نقصان دینے والی ہو۔ نقصان دینے والی چیز صرف غلط استعمال ہے جو انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرض کو اپنی طرف اور شفا کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں ایک مسلمان خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے جب کسی کام میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مَیں نے تو پورا زور لگا دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے ناکام کر دیا گویا وہ خوبی کو اپنی طرف اور برائی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر۔ جلد ہفتم صفحہ 169-170)
پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ سچے مومن کا کام ہے کہ جب کسی کام کا اچھا نتیجہ نکلے تو یہ کہے کہ الحمد للہ خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کر دیا اور جب خراب نتیجہ نکلے تو وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھے اور کہے کہ میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام ہوا۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اسے ملتی ہے۔ جو کوتاہیوں کو اپنی طرف منسوب کرے اور کامیابی پر الحمد للہ کہے، ایسا کہنے والوں پر اللہ تعالیٰ پھر رحم فرماتا ہے اور پھر رحم فرماتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میرا بندہ کامیابیوں کو میری طرف منسوب کرتا ہے تو میں اسے مزید کامیابیوں سے نوازوں گا۔
بعض معمولی سی باتیں بڑے نتائج پیدا کرتی ہیں۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مَیں نے سنا ہے۔ آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اس کا ایک ہی لڑکا تھا۔ وہ لڑائی پر جانے لگا تو اس نے اپنی ماں کو کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جو میں اگر واپس آؤں تو تحفے کے طور پر آپ کے لئے لیتا آؤں اور آپ اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں۔ ماں نے کہا کہ اگر تو سلامت آ جائے تو یہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے۔ لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتائیں۔ ماں نے کہا اچھا اگر تو میرے لئے کچھ لانا ہی چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکو لے آنا۔ مَیں انہی سے خوش ہو سکتی ہوں۔ اس نے اس کو بہت معمولی سی بات سمجھ کر کہا کچھ اور بتائیں۔ لیکن ماں نے کہا بس یہی چیز مجھے سب سے زیادہ خوش کر سکتی ہے۔ خیر وہ چلا گیا۔ جہاں بھی تھا جب روٹی پکاتا تو جان بوجھ کے اسے جلاتا تھا تا کہ جلے ہوئے ٹکڑے زیادہ سے زیادہ جمع ہوں۔ روٹی کا کچھ حصہ تو خود کھا لیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا۔ کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا تو اس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دئیے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہاں اماں ! میں نے آپ کے کہنے پر عمل تو کیا تھا مگر مجھے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ بات کیا تھی۔ ماں نے کہا کہ اس وقت جبکہ تم گئے تھے اس کا بتانا مناسب نہ تھا۔ اب میں بتاتی ہوں اور وہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھانا کھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں۔ میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کے لئے تمہیں اس لئے کہا تھا کہ تم ان ٹکڑوں کے لئے ایسی روٹی پکاؤ گے کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے اور جلی ہوئی روٹی کو رکھ دو گے اور باقی کھا لو گے اس سے تمہاری صحت اچھی رہے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 188-189)
بظاہر تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور اگر ماں بچے کو براہ راست کہتی کہ روٹی اچھی طرح پکا کر کھانا تو بچہ کہہ سکتا تھا کہ میں جوان آدمی ہوں بیوقوف نہیں ہوں کہ کچی روٹی کھاؤں گا۔ حالانکہ میں نے اب بھی دیکھا ہے، اس زمانے میں بھی اکثر لوگ جو ہیں یہ بیوقوفی کر رہے ہوتے ہیں اور کچی روٹی کو بڑے شوق سے کھا رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال ماں کی یہ بات اس بچے کو صحت مند رکھنے کا موجب بنی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے (اپنے ایک خطبہ میں مسئلہ بیان کر رہے تھے) کہ دعا کی قبولیت کے سلسلہ میں بھی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بیان کی جا رہی ہیں اور ہمیں پہلے سے یہ باتیں پتا ہیں لیکن پتا ہونے کے باوجود عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دعا کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطیں ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ اور وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ۔ کہ میری بات مانو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں ہیں۔ درود بھیجو، صدقہ دو۔ لیکن بہرحال قرآن شریف میں ان چیزوں کا، دو باتوں کا (ذکر) آیا ہے۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں پتا ہے۔ پتا تو ہے لیکن عمل نہیں کرتے۔ بہت سارے لوگ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول نہیں کیں۔ یہ اللہ تعالیٰ پر الزام ہے۔ اصل میں یہ ایمان کی کمزوری بھی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا ہے ایک شخص میرے پاس آیا کہ میں نے بہت دعائیں کی ہیں، میری قبول نہیں ہوئیں۔ کیا وجہ ہے؟ میں نے اسے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ کہ میرے حکموں پر چلو۔ تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے جو تمام حکم ہیں ان پر چلتے ہو؟ وہ کہنے لگا نہیں۔ تو پھر پہلے اپنی حالتوں کو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم کس حد تک عمل کر رہے ہیں اور پھر یُؤْمِنُوْا بِیْ پر بھی عمل نہیں ہے کیونکہ اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو اس سے ہم خیال کرتے ہیں کہ کیونکہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی، ظاہراً پوری نہیں ہوئی اس لئے ایمان کمزور ہو گیا۔ تو ایمان تو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا چاہئے جس کا پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اپنی کمزوری کو اپنی طرف منسوب کریں اور کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر یہ صورتحال ہو گی کہ میرا بندہ میرے سے یہ امید رکھتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ دعائیں قبول بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حکموں پر چلنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرے اور ہماری دعاؤں کو بھی قبولیت کا درجہ بخشے۔
نماز کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو سید اسد الاسلام شاہ صاحب گلاسگو کا ہے۔ یہ سیدنعیم شاہ صاحب کے بیٹے ہیں۔ ان کے والد بھی اور لڑکے کے دادا بھی یہ پرانا خاندان ہے، خدمت کرنے والا بھی ہے۔ 24؍مارچ 2016ء کو 40سال کی عمر میں ایک شرپسند کے حملے کے نتیجہ میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 24؍مارچ کو گلاسگو میں اپنی دکان کے باہر شدید زخمی حالت میں پائے گئے تھے۔ وہاں سے انہیں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے ان کو شہید کیا گیا۔ اور انہوں نے جان قربان کی اور بہرحال شہادت کا رتبہ پایا۔ پریس نے اور حکومتی اداروں نے بڑا افسوس اور غم کا اظہار کیا۔ یہاں کی بھی حکومت کا کام ہے کہ ان شدت پسندوں کو روکے۔ ورنہ اگر مولویوں کو کھلی چھوٹ دے دی تو یہ مولوی یہاں بھی اس ملک میں بھی پھر وہی فتنہ وفساد پیدا کریں گے جو باقی مسلمان ملکوں میں انہوں نے پیدا کیا ہوا ہے۔
فروری 1974ء میں ربوہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ایف ایس سی کی تعلیم نصرت جہاں اکیڈمی سے انہوں نے حاصل کی۔ 1998ء میں یہ گلاسگو آ گئے۔ اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے۔ وصیت بھی کی ہوئی تھی۔ باقاعدہ چندہ بھی یہ دیتے تھے۔ خدام الاحمدیہ کی رپورٹ کے مطابق خدام الاحمدیہ میں باقاعدہ شامل تھے۔ اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔ چندہ دیتے تھے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے بھی باقاعدہ آتے تھے۔ اکثر اجتماعات میں بھی انہوں نے شرکت کی ہے۔ مرحوم اسد شاہ جو ہیں یہ ڈاکٹر نصیر الدین صاحب قمر پنشنر صدرانجمن احمدیہ قادیان کے داماد تھے۔ کچھ عرصہ سے مختلف فیزز (Phases) میں ان کو نفسیاتی بیماری بھی آجاتی تھی جس کی وجہ سے کچھ کڑھتے تھے۔ لیکن بہرحال ریجنل امیر صاحب نے کہا ہے کہ جب میں نے ان سے ملاقات کی ہے تو آخر میں انہوں نے ہمیشہ خلافت سے تعلق کا اعلان کیا، اظہار کیا تو بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید جماعت چھوڑ گئے تھے لیکن نہیں۔ احمدی ہی تھے اور احمدیت کی وجہ سے شہید ہوئے اور باقاعدگی سے آخر تک پروگراموں میں، خدام الاحمدیہ کے پروگراموں میں بھی اور جماعت میں بھی شامل ہوتے رہے۔
شمس الدین صاحب کبابیر کے مربی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ اسد صاحب کی اہلیہ طیبہ صاحبہ کا تعلق قادیان سے ہے اور یہ ان کی اہلیہ(شمس الدین صاحب کی اہلیہ) کی چچا زادبہن ہیں۔ کہتے ہیں چند سال قبل دو دفعہ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک رات قیام کرنے کا موقع ملا۔ دونوں دفعہ خاکسار سے وہ جماعتی اور تبلیغی کاموں کے بارے میں پوچھتے رہے اور اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی دنیاوی بات چیت نہیں ہوئی۔ دونوں رات میں نے ان کو تہجد میں مصروف پایا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو، والدین کو، بیوی کو صبر اور سکون عطا فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا آج نماز کے بعد میں جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تحریروں، تقریروں اور مجالس میں بھی بعض باتیں مثالوں سے بیان فرمایا کرتے تھے جو آپ کے صحابہ کی روایات سے ہمیں ملتی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ احسان ہم پر اس سلسلے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جنہوں نے اپنے خطبات و خطابات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ باتیں بیان کی ہیں جو عموماً حضرت مصلح موعودنے خود دیکھیں یا سنیں یا قریب کے صحابہ نے آپ کو بتائیں۔ مَیں گزشتہ کچھ عرصہ سے ان باتوں اور روایتوں کو خطبات میں بیان کر رہا ہوں جس پر مجھے کئی خطوط بھی آئے ہیں کہ ان مثالوں یا واقعات سے ہمیں آسانی سے بات سمجھ آ جاتی ہے۔ بہرحال اس حوالے سے آج کا خطبہ بھی ہے۔
آجکل اسلامی ممالک میں جو ہڑتالیں اور بغاوتیں ہوتی ہیں سوائے اس کے جہاں شیطانی طاقتیں کام کر رہی ہیں عموماً عوام اور حکومت کے درمیان بے چینیاں ایک دوسرے کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اپنی سستی کو اپنی بیماریوں کی طرف منسوب نہ کریں۔ جو سست رہنے والے لوگ ہیں اور اس وجہ سے اپنے فرائض میں کوتاہی برتتے ہیں ان کو جسم کا ملیریا نہیں ہے بلکہ ان کو دل کا ملیریا ہے۔
اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے محنت کرنی ہے تو یہ سب سستیاں دور ہو سکتی ہیں۔ بعض خاوند حق مہر کی ادائیگی تو علیحدہ رہی عورت جو اپنی کمائی کر رہی ہوتی ہے اس پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں کہ تم نے ہمارے پوچھے بغیر خرچ نہیں کرنا۔ یا ہمیں دو۔ یہ ساری آمد جو ہے اس میں سے اتنا حصہ ہمارے پاس آنا چاہئے، ہمارے بنک اکاؤنٹ میں جانا چاہئے، جو سراسر ناجائز چیز ہے۔ اسی طرح بعض غریب خاندانوں میں اور غریب ملکوں میں بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ والدین شادی کے وقت حق مہر لڑکی کے خاوند یا سسرال سے خود وصول کر لیتے ہیں اور لڑکی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ وہ بیاہ کے خالی ہاتھ رہتی ہے۔ یہ بھی غلط چیز ہے۔
بعض لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف دین کی طرف توجہ رکھیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن باقی لوگ جو ہیں وہ بیشک اب دنیا کمائیں اور پھر اپنے مال اور وقت کا کچھ حصہ خرچ کریں۔ عبادت اور دین کے کاموں میں بھی اپنے وقت کو لگائیں۔ استغفار بھی کریں۔ دعائیں بھی کریں۔ جو ہماری تعلیم اور روایات کے خلاف چیز ہو اس سے ہمیں بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کسی بھی معاملے میں نقل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہیں آپ کی نقل کرنی چاہئے یا پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو نمونہ بنایا، آپ نے جو اپنے آقا سے سیکھا ہمیں بتایا اس کے مطابق ہمیں چلنا چاہئے۔
شادی کا اصل مقصد تو دل کا سکون اور بقائے نسل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنا چاہئے اور اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہے تو ہو ورنہ دل سے اتر جائے اور ختم ہو جائے۔ یہ محبتیں جو دنیاوی ہیں یہ عارضی محبتیں ہوتی ہیں۔ دنیا کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے مانگنی چاہئے۔
سید اسد الاسلام شاہ صاحب ابن مکرم سیدنعیم شاہ صاحب آف گلاسگو کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2016ء بمطابق یکم شہادت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔