حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ واقعات اور نصائح
خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنے چاہئیں کہ ہمارے کام، ہمارے عمل، ہمارے فیصلے قرآن اور حدیث کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اس طرح اگر کسی معاملے کی قرآن سے اور حدیث سے وضاحت نہ ملے جس پہ انسان غور کرتا ہے تو پھر کس طرح ان کاموں کو انجام دیا جائے۔ اس کے لئے یہ ہے کہ پرانے علماء جو گزرے ہیں ان کے قول اور ان کے فیصلوں کو اختیار کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا گیا کہ ہمیں اپنے مسائل کے فیصلے کس طرح کرنے چاہئیں؟ کہاں سے رہنمائی لینی چاہئے؟ تو آپ علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ ہمارا طریق یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور جب قرآن کریم میں کوئی بات نہ ملے تو پھر اسے حدیث میں تلاش کیا جائے اور جب حدیث سے بھی کوئی بات نہ ملے تو پھر استدلالِ اُمّت کے مطابق فیصلہ کیا جائے یا اُمّت میں جو فیصلے ہوئے ہیں اور جو دلیلیں دی گئی ہیں اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ یہاں یہ بھی واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سنّت حدیث سے اوپر ہے اس لئے جو باتیں سنّت سے ثابت ہیں بہرحال ان پر تو عمل ہونا ہی ہے۔ اس کے بعد پھر حدیث کا نمبر آتا ہے۔ سنت وہی ہے جو کام ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھا دیا اور آگے صحابہ نے اس سے سیکھا۔ پھر صحابہ سے تابعین نے سیکھا۔ پھر تبع تابعین نے سیکھا اور پھر یہ اُمّت میں جاری ہوا۔
بہرحال حضرت مصلح موعود اس مضمون کو بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگیوں پر نظر رکھنی چاہئے کہ ہم وہی کام کریں جس کی ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اجازت دیتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض لوگوں کو نیکی سر پہ سوار ہو جاتی ہے۔ اس حد تک اس میں آگے بڑھ جاتے ہیں کہ غلو سے کام لینے لگ جاتے ہیں۔ اپنی جان کو مصیبت میں ڈال لیتے ہیں یا اپنے پر ظلم کرتے ہیں یا بعض ایسے لوگ ہیں بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کو سرسری لیتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی طرف جس طرح توجہ کرنی چاہئے وہ توجہ نہیں کرتے۔ پس یہ دونوں قسم کے لوگ ہیں جو افراط اور تفریط سے کام لیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے باہر نکلتے ہیں۔ نیکی میں بڑھنے والوں کی بھی بعض مثالیں ہوتی ہیں۔ ایک عورت کی مثال آپ نے دی جو ناجائز طور پر نیکی کے نام پر ایک کام کرنا چاہتی تھی جو اصل میں نیکی نہیں ہے کیونکہ خدا اور اس کے رسول نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس واقعہ میں جو میں بیان کروں گا ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو بعض دفعہ اپنی خوابوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں حالانکہ ان کا وہ مقام نہیں ہوتا کہ یہ کہا جائے کہ ان کی ہر خواب سچی ہے اور اس کا کوئی مطلب ہے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ آج ایک عورت ہمارے ہاں آئی وہ قادیان کی پرانی عورت ہے اس کے دماغ میں کچھ نقص ہے۔ کہنے لگی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ اگر تم چھ مہینے متواتر روزے رکھو تو خلیفۃ المسیح کو صحت ہو جائے گی۔ (حضرت مصلح موعود کی بیماری کے شروع دنوں کی بات ہے۔) مگر وہ عورت کہنے لگی کہ میں نے جن علماء سے پوچھا انہوں نے یہی کہا ہے کہ چھ مہینے کے متواتر روزے رکھنا ناجائز ہے۔ پھر کہنے لگی کہ میاں بشیر احمدنے کہا ہے کہ تُو جمعرات اور پیر کے روزے رکھ لیا کر۔ لیکن اس کے بعد کہنے لگی کہ میں نے پھر خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے تو کہا تھا کہ چھ ماہ کے متواتر روزے رکھ۔ تُو متواتر روزے کیوں نہیں رکھتی۔ تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ تیری خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنے الہاموں کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ اگر میرا کوئی الہام قرآن اور سنت کے خلاف ہو تو میں اسے بلغم کی طرح پھینک دوں۔ (گلے سے صاف کر کے نکال کے پھینک دوں۔) جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی وحی کو قرآن کریم اور سنت کے اتنا مطابق کرتے ہیں تو ہمیں بھی اپنی خواب آپ کے احکام کے مطابق کرنی پڑے گی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے اُمّت کے لوگوں کو متواتر اور لمبے عرصے کے روزوں سے منع کیا ہے۔ تو اگر تمہیں کوئی خواب اس حکم کے خلاف آتی ہے یا آئی ہے تو وہ شیطانی سمجھی جائے گی۔ خدائی نہیں سمجھی جائے گی۔ (بیشک تم یہی کہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ہے۔) اگر خدائی خواب ہوتی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتی۔ آپ کی تردید کبھی نہیں کرتی۔ پس جب خواب ایسی ہو جو قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتویٰ اور سنت کے خلاف ہو تو وہ بہرحال ردّ کرنے کے قابل سمجھی جائے گی کیونکہ نہ تو قرآن کریم کے خلاف کوئی خواب سچی ہو سکتی ہے اور نہ سنّت کے خلاف کوئی خواب سچی ہو سکتی ہے اور نہ صحیح حدیث کے خلاف کوئی خواب سچی ہو سکتی ہے۔‘‘ (الفضل 25نومبر 1958ء صفحہ 3 جلد 12/47 نمبر 272)
پس کسی بات کے متعلق خوابوں کو بنیاد بنانا چاہے وہ نیکی کی بات ہی ہو اور اپنے آپ کو ایسی تکلیف میں ڈالنا جس کی طاقت نہ ہو یہ چیز غلط ہے۔ نہ صرف غلط ہے بلکہ غیر صالح عمل ہے اور بعض دفعہ گناہ بن جاتا ہے۔ ہاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مامور من اللہ کے طور پر کھڑا کرنا ہو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں میں سے نہیں ہوتے۔ ان کا کسی عام فرد سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس واقعہ سے شاید کسی کو یہ بھی خیال ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چھ ماہ کے روزے رکھے تھے تو اس کے متعلق ایک تو واضح ہو کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے نبوت کے مقام پر کھڑا کرنا تھا۔ دوسرے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق کیا فرمایا ہے اور اس ضمن میں ہمیں کیا نصیحت فرمائی ہے وہ پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے ذکر کیا کہ کسی قدر روزے انوارِ سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنّت اہل ِبیتِ رسالت کو بجا لاؤں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا۔ اور اس قسم کے روزے کے عجائبات میں سے جو میرے تجربے میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانے میں میرے پر کھلے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد پھر کشوف کا، الہامات کا ایک سلسلہ جاری کیا۔ پھر آپ نے اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی ہے کہ کیا کیا ہوا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’غرض اس مدت تک روزے رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے‘‘۔ یہ یاد رکھنے والی بات ہے۔ ’’لیکن مَیں ہر ایک کو صلاح نہیں دیتا کہ وہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔ یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجا لانا چھوڑ دیا‘‘۔ پس آپ کو خدا تعالیٰ نے یہ مقام دینا تھا اس کی وجہ سے اجازت ہوئی۔ پھر اس کے بعد کبھی اس پر آپ نے عمل نہیں کیا۔ فرمایا کہ کبھی کبھی میں روزے رکھ لیتا تھا۔ نیز دوسروں کو بھی، اپنے ماننے والوں کو بھی اس طرح کرنے سے آپ نے منع فرمایا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے آ کر ایک جماعت بنا کر ایک فساد پیدا کر دیا اور مسلمانوں میں بقول آپ کے آپ نے ایک تہتّرواں فرقہ بنا دیا۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ تفرقے کم کئے جاتے۔ یہ الٹا ایک زائد فرقہ بنا کر مزید تفرقہ ڈال دیا۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی بعثت کے وقت یہ باتیں کہی جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہی الزام مکّہ والے لگاتے تھے کہ بھائی بھائی کو جدا کر دیا۔ ہمیں آپس میں پھاڑ دیا۔ تفرقے پیدا کر دئیے۔ دشمنیاں پیدا کر دیں۔ حالانکہ فساد کی حالت تو ان میں پہلے سے تھی۔ اور یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا تھا اور اب بھی ہے کہ فساد کی حالت ان میں موجود ہے۔ نبی تو اللہ تعالیٰ اس لئے بھیجتا ہے کہ فساد کی حالت کو دور کرے اور ایک ہاتھ پر جمع ہو کر یہ لوگ ایک بننے، وحدت بننے کی کوشش کریں۔ پس جو ایمان لاتے ہیں وہ امن میں آتے ہیں۔ ایک وحدت بن جاتے ہیں۔ فسادوں سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ اور دوسرے مخالفین جو ہیں وہ فسادوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اب ہمارے خلاف چاہے جتنے مرضی مخالفین اکٹھے ہو کے مخالفت کرتے رہیں لیکن آپس میں پھر بھی یہ لوگ پھٹے ہوئے ہیں۔ دل ان کے پھٹے ہوئے ہیں۔ ایک نہیں ہیں۔ آپس میں پھر سرپٹھول ان کی ہوتی رہتی ہے۔ اور جب تک یہ امام کو نہیں مانیں گے یہ اسی طرح ہوتا رہے گا چاہے ہمیں یہ مسلمان کہیں یا غیر مسلم کہیں یا جو بھی یہ نام لیں۔ لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعریف کے مطابق بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعریف کے مطابق بھی حقیقی مسلمان ہیں اور ہمیں اس نام کے کہنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
حضرت مصلح موعود انہی فسادوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ ’’ایک دوست نے سنایا کہ ایک مرتبہ ایک اہل حدیث حنفیوں کی مسجد میں ان کے ساتھ باجماعت نماز پڑھ رہا تھا۔ التحیات میں اس نے انگلی اٹھا لی۔ تشہد کے وقت اس کا انگلی اٹھانا تھا کہ تمام مقتدی نمازیں توڑ کر اس پر ٹوٹ پڑے اور حرامی حرامی کہنا شروع کر دیا‘‘۔ یعنی حنفیوں کا ایک عقیدہ ہے کہ تشہد پہ انگلی نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ نماز توڑنا کتنا جرم ہے۔ اس کی انگلی کو ہی دیکھ رہے تھے۔ نماز توڑ کر اس کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور اس کو مارنا شروع کر دیا۔ تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’یہ فساد حضرت مسیح موعود کے آنے سے پہلے ہی تھے۔ مسیح موعودنے تو آ کر اصلاح کی۔ چوٹ لگانے والا فسادی ہوتا ہے‘‘۔ (اب یہ پوچھ رہے ہیں کہ جو کسی کو مارتا ہے وہ فسادی ہوتا ہے، چوٹ لگانے والا فسادی ہوتا ہے) یا ڈاکٹر؟ جو نشتر لے کر علاج پر آمادہ ہوتا ہے‘‘۔ (دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں جو زخم لگاتے ہیں۔ ایک وہ جو کسی کو مار کر زخم لگاتا ہے۔ چوٹ لگا کر زخم لگاتا ہے۔ اور ایک ڈاکٹر ہے جو علاج کی غرض سے زخم لگاتا ہے۔) ’’ایک شخص کوبخار ہے۔ منہ کڑوا ہو۔ ڈاکٹر کونین دے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ظالم نے منہ کڑوا کر دیا۔ اگر ڈاکٹر بلغم کو نہ نکالتا تو جسم کی خرابی بڑھ جاتی۔ بلغم نکال دینے پر اعتراض کیسا؟ ہڈی ٹوٹی رہتی اگر زخم کو نشتر سے صاف نہ کیا جاتا۔ اس پر جلن آمیز دوائی نہ چھڑکی جاتی تو مریض کی حالت کس طرح بہتر ہوسکتی۔ اس کی تو جان خطرے میں پڑ جاتی۔ اس صورت میں کس طرح کوئی ڈاکٹر کو ملزم بنا سکتا ہے۔‘‘ (پس ڈاکٹر اگر کسی کو کوئی تکلیف دیتا ہے تو علاج کی غرض سے۔ )آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اسی تفرقے کے متعلق سوال کیا کہ آپ نے آ کے مزید تفرقہ ڈال دیا اور پہلے ہی اتنا فساد پھیلا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اچھا بتاؤ کہ اپنا اچھا دودھ سنبھالنے کے لئے دہی کے ساتھ ملا کر رکھتے ہیں یا علیحدہ؟‘‘ (دودھ کو اگر سنبھالنا ہو تو دہی سے علیحدہ رکھتے ہیں تاکہ اس پہ کہیں چھینٹا وغیرہ نہ پڑ جائے کیونکہ دودھ اس سے خراب ہو جاتا ہے۔) ’’ظاہر ہے کہ دہی کے ساتھ اچھا دودھ ایک منٹ بھی اچھا نہیں رہ سکتا۔ پس فرستادہ جماعت کا درماندہ جماعت سے علیحدہ کیا جانا ضروری تھا۔‘‘ (یہ جو فرقہ بنایا یا علیحدہ جماعت قائم کی یہ ایک فرستادے کی جماعت ہے اور اس کا اس جماعت سے علیحدہ کیا جانا ضروری تھا۔ ان لوگوں سے علیحدہ کیا جانا ضروری تھا جو بگڑے ہوئے ہیں۔) ’’جس طرح بیمار سے پرہیز نہ ہو تو تندرست بھی ساتھ گرفتار ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روحانی بیماروں سے فرستادہ جماعت کو علیحدہ رکھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جنازہ شادی نماز وغیرہ علیحدہ ہو۔‘‘ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرما رہے تھے۔ آپ فرماتے ہیں ’’کیونکہ اکثر عورتیں ہی اختلاف کرتی ہیں اس لئے میں عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح مریض کے ساتھ تندرست کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ یاد رکھو یہی حالت تمہاری غیراحمدیوں سے تعلق رکھنے میں ہو گی۔ اکثر عورتیں کہتی ہیں کہ بہن یا بھائی کا رشتہ ہوا چھوڑا کس طرح جائے‘‘۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر زلزلہ آجائے یا آگ لگ جائے تو ایک بہن بھائی کی پرواہ نہ کر کے بلکہ اس کو پیچھے دھکیل کر خود اس گرتی ہوئی چھت سے جلدنکل بھاگنے کی کوشش کرے گی تو پھر دین کے معاملے میں کیوں یہ خیال کیا جاتا ہے؟ دراصل یہ آرام کے جذبات ہیں‘‘ (اگر اس کو سمجھا جائے اور ایک مصیبت سمجھی جائے تو پھر ایسے خیالات نہ آئیں کہ کیوں علیحدہ کیا جائے۔ ہم میں پھاڑ کیوں ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ یہ مصیبت کے وقت نہیں ہوتا۔ کیونکہ تم اس کو سمجھتے نہیں۔ ابھی دین کا ادراک حاصل نہیں ہوا اس لئے یہ آرام کے جذبات حاوی ہو رہے ہیں۔ مصیبت کے جذبات ہوں تو یہ ردّعمل اس طرح نہ ہو۔ ) ’’اگر خدا رات کو تم میں سے کسی کے پاس فرشتہ ملک الموت بھیجے جو کہے کہ حکم تو تیرے بھائی یا دوسرے عزیز کی جان نکالنے کا ہے مگر خیر میں اس کے بدلے تیری جان لیتا ہوں تو کوئی بھی (اس کو قبول نہیں کرے گا) عورت قبول نہیں کرے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم: 7) یعنی بچاؤ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانوں کو آگ سے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پَیرو اگر دوسرے غیر احمدی سے بیاہی گئی تو خاوند کی وجہ سے یقینا وہ احمدیت سے دور ہو جائے گی یا اگر دُور نہیں ہو گی تو کُڑھ کُڑھ کر مر جائے گی۔ (کیونکہ یہی ہوتا ہے کہ گھروں میں جا کے پھر اس پر سختیاں ہوتی ہیں۔) اپنے رشتہ داروں سے الگ کی جائے گی بوجہ تعصب مذہبی کے۔ (اور یہ آجکل بھی اسی طرح ہوتا ہے۔) تو یہ ایک آگ ہے۔ کیا خود اپنے ہاتھ سے کوئی عورت اپنی بیٹی کو آگ میں ڈالتی ہے؟ مگر اس طرح ایک تھوڑے سے تعلقات کے لئے اسے آگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پس اس سے بچنا چاہئے۔‘‘ (مستورات سے خطاب۔ انوارالعلوم جلد 11 صفحہ 518-519)
پس اگر ہم احمدی غیروں میں رشتہ نہیں کرتے جو بڑا الزام لگایا جاتا ہے تو یہ تفرقے نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش ہے۔ لیکن یہ خیال اسے ہی آ سکتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی روح کو سمجھے اور اس میں لڑکے بھی شامل ہیں۔ وہ احمدی لڑکے جو احمدی لڑکیوں کو چھوڑ کر غیروں سے شادی کرتے ہیں۔ پس لڑکوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے آپ کو احمدی کہلواتے ہیں اور حقیقی احمدی سمجھتے ہیں تو پھر صرف ذاتی خواہشات کو نہ دیکھیں اور جب شادی کا وقت آئے تو احمدی لڑکیوں سے شادیاں کریں۔ اپنی دنیاوی خواہشات پر اپنی اگلی نسل اور دین کو ترجیح دیں ورنہ نسلیں صرف لڑکیوں کے غیروں میں بیاہنے سے بربادنہیں ہوتیں بلکہ لڑکوں کے غیروں میں شادیاں کرنے سے بھی برباد ہوتی ہیں۔ ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ احمدی صرف معاشرتی دباؤ یا رشتہ داری کی وجہ سے احمدی نہ ہو بلکہ دین کو سمجھ کر احمدی بننے کی کوشش کریں۔ اگر احمدی لڑکے باہر شادیاں کرتے رہیں گے تو پھر احمدی لڑکیاں کہاں بیاہی جائیں گی۔ پس لڑکوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی اس بارے میں احتیاط نہ کی گئی اور اس طرف اب بہت زیادہ رجحان ہونے لگ گیا ہے تو پھر آئندہ یہ رجحان مزید بڑھتا چلا جائے گا اور پھر نسل میں احمدیت نہیں رہے گی سوائے اس کے کہ کسی پر خاص اللہ تعالیٰ کا فضل ہو۔
مَیں تو اکثر باہر رشتے کرنے والے لڑکوں کو بھی یہ کہتا ہوں کہ تم احمدی لوگ اگر لڑکیوں کے بھی حق ادا کرو، اگر کسی وجہ سے، مجبوری سے خود رشتہ باہر کیا ہے تو کسی نوجوان کو احمدیت میں شامل کرو اور اُسے مخلص احمدی بناؤ اور پھر اس کا احمدی لڑکی سے رشتہ کرواؤ۔ اس سے تمہیں تبلیغ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس احساس کی وجہ سے خود بھی احمدی لڑکیوں سے شادی کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو۔
بہرحال لڑکیوں کی شادیوں کے مسائل ہیں اور یہ آج ہی نہیں ہمیشہ سے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک اہم مسئلہ جس پر مَیں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں نکاح کا سوال ہے اور اسی کے ضمن میں کُفو کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو شادیوں کے متعلق جو مشکلات پیش آتی ہیں مجھے پہلے بھی ان کا علم تھا لیکن اس نوماہ کے عرصے میں تو بہت ہی مشکلات اور رکاوٹیں معلوم ہوئی ہیں۔ (یہ نو ماہ کا عرصہ آپ بیان فرما رہے ہیں۔ یہ تقریر آپ نے 1914ء میں اپنی خلافت کے تقریباً نو ماہ بعد جلسہ سالانہ ہوا تھا اس میں کی تھی) اور لوگوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں ہماری جماعت کو سخت تکلیف ہے۔ آج بھی یہی حال ہے۔ یہ تکلیف جو ہے یہ جاری ہے اور مشکلات ہیں لیکن ان مشکلات کو ہم نے حل بھی کرنا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق تجویز کی تھی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام ایک رجسٹر پر لکھے جائیں اور آپ نے یہ رجسٹر کسی شخص کی تحریک پر کھلوایا تھا۔ اس نے عرض کیا تھا کہ حضور شادیوں میں سخت دقّت ہوتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ غیروں سے تعلق پیدا نہ کرو۔ اپنی جماعت متفرق ہے۔ اب کریں تو کیا کریں؟ ایک ایسا رجسٹر ہو جس میں سب ناکتخدا لڑکوں اور لڑکیوں کے نام ہوں۔ (یعنی ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کے نام ہوں جن کے رشتے نہیں ہوئے ہوئے) تا رشتوں میں آسانی ہو۔ حضور سے جب کوئی درخواست کرے تو اس رجسٹر سے معلوم کر کے اس کا رشتہ کروا دیا کریں کیونکہ کوئی ایسا احمدی نہیں ہے جو آپ کی بات نہ مانتا ہو۔ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس شخص نے کہا) بعض لوگ اپنی کوئی غرض درمیان میں رکھ کر کوئی بات پیش کرتے ہیں اور ایسے لوگ آخر میں ضرور ابتلاء میں پڑتے ہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ اپنے مسائل تو لوگ پیش کرتے ہیں، جب کوئی بات عرض کرتے ہیں لیکن کوئی غرض اپنی ذاتی بھی ہوتی ہے اور پھر اس وجہ سے ابتلاء میں پڑ جاتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں کہ) اس شخص کی بھی نیّت معلوم ہوتا ہے درست نہیں تھی۔ انہی دنوں میں ایک دوست کو جو نہایت مخلص اور نیک تھے شادی کی ضرورت ہوئی۔ اسی شخص کی جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ رجسٹر بنایا جائے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ تجویز پیش کی تھی ناں کہ رجسٹر بنایا جائے۔ اس کی) ایک لڑکی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دوست کو اس شخص کا نام بتایا کہ اس کے ہاں تحریک کرو۔ (یعنی جس نے تجویز پیش کی تھی اس کی لڑکی تھی۔ جب ایک رشتہ آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کے گھر رشتہ بھجوا دیا۔) لیکن اس نے نہایت غیر معقول عذر کر کے رشتے سے انکار کر دیا اور لڑکی کہیں غیر احمدیوں میں بیاہ دی۔ جب حضرت صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ آج سے مَیں شادیوں کے معاملے میں دخل نہیں دوں گا اور اس طرح یہ تجویز رہ گئی۔ لیکن اگر اس وقت یہ بات چل جاتی تو آج احمدیوں کو وہ تکلیف نہ ہوتی جو اَب ہو رہی ہے۔‘‘ (برکاتِ خلافت۔ انوارالعلوم جلد 2 صفحہ 209)
بعض دفعہ نبی کے سامنے ایک انکار جو ہے پھر جماعت کے لئے مستقل ابتلاء بن جاتا ہے۔ غیروں میں بیاہنے کے کچھ عرصے بعد ہی اکثر کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جاتا ہے اور جو بڑے مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں ان کا بھی پتا لگ جاتا ہے۔ اب بھی کئی لوگ اور لڑکیاں خود لکھتی ہیں یا ان کے ماں باپ کہ یہ فیصلہ کیا جس کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ دین سے بھی دوری ہو گئی ہے۔ اور بعض سسرالوں نے یا خاوندوں نے تو ماں باپ سے اور رشتہ داروں سے ملنے جلنے کے لئے پابندی لگا دی ہے۔ لیکن وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی اَنا میں آ کر بعض دفعہ اچھے بھلے احمدی رشتوں کو ٹھکرا دیتے ہیں جبکہ لڑکیاں بھی راضی ہوتی ہیں لڑکے بھی راضی ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض جگہ مَیں نے بھی کہا کہ رشتہ کر لو لیکن اَنا کی وجہ سے انکار کیا۔ بہرحال اگر ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیا تو اب میری بات کا انکار کرنا تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن پھر ایسوں کے انجام بھی بڑے بھیانک ہو جاتے ہیں۔ جرمنی میں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا کہ ماں باپ نے بیٹی کی مرضی کے مطابق شادی نہیں کی یا اس کے اصرار پر بیٹی کو ہی قتل کر دیا اور اب جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس اگر احمدی لڑکا اور لڑکی شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ماں باپ کو بھی ضدنہیں کرنی چاہئے۔ ذاتوں اور اَناؤں کے چکر میں نہیں آنا چاہئے۔
بیاہ شادی کے بارے میں ایک یہ مسئلہ لڑکیوں پر بھی واضح ہونا چاہئے کہ باوجود اس کے کہ لڑکی کی پسند بھی رشتے میں شامل ہونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پسند کو قائم فرمایا ہے کہ لڑکی کی مرضی شامل ہو لیکن اسلام اس بات کی پابندی بھی ضرور کرواتا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور واقعہ میں آپ اسی کی طرف سے ہیں تو ہماری شریعت یہی کہتی ہے (یعنی اسلام کی شریعت یہی کہتی ہے) کہ ولی کی اجازت کے بغیر سوائے ان مستثنیات کے جن کا استثناء خود شریعت نے رکھا ہے کوئی نکاح جائز نہیں۔ اور اگر ہو گا تو وہ ناجائز ہوگا اور ادھالہ ہو گا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سمجھائیں اور اگر نہ سمجھیں تو ان سے قطع تعلق کر لیں۔ اس قسم کے واقعات بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک لڑکی نے جو جوان تھی ایک شخص سے شادی کی خواہش کی مگر اس کے باپ نے نہ مانا۔ وہ دونوں (قادیان کے قریب جگہ تھی) ننگلؔ چلے گئے اور وہاں جا کر کسی مُلّاں سے نکاح پڑھوا لیا اور کہنا شروع کر دیا کہ ان کی شادی ہو گئی ہے۔ پھر وہ قادیان آ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معلوم ہوا تو آپ نے ان دونوں کو قادیان سے نکال دیا اور فرمایا یہ شریعت کے خلاف فعل ہے کہ محض لڑکی کی رضا مندی دیکھ کر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے۔ وہاں بھی لڑکی راضی تھی اور کہتی تھی کہ مَیں اس مرد سے شادی کروں گی لیکن چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر انہوں نے نکاح پڑھوایا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں قادیان سے نکال دیا۔ اسی طرح (وہاں اس زمانے میں کوئی نکاح حضرت مصلح موعود کے سامنے بھی ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ) یہ نکاح بھی ناجائز ہے اور یہی بات ہے جو میں نے اس مائی سے کہی ہے (لڑکے کی ماں سے کہی ہے۔ ایک عورت آئی تھی کہ کیونکہ لڑکی راضی تھی اس لئے میرے بیٹے نے نکاح کر لیا تو کیا عذاب آ گیا۔ ) آپ نے فرمایا میں نے اسے کہا دیکھو تمہارے بیٹے کو رشتہ مل رہا ہے اس لئے تم کہتی ہو جب لڑکی راضی ہے تو کسی ولی کی رضا مندی کی ضرورت کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن تمہاری بھی لڑکیاں ہیں۔ اگر وہ اب بیاہی جا چکی ہیں تو ان کی بھی لڑکیاں ہوں گی۔ کیا تم پسند کرتی ہو کہ ان میں سے کوئی لڑکی اس طرح نکل کر کسی غیر مرد کے ساتھ چلی جائے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود۔ جلد 18 صفحہ 175-176)
پس جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے نہ ہی ماں باپ کو اتنی سختی بلا وجہ کرنی چاہئے کہ بغیر کسی جائز وجہ کے جھوٹی غیرت کے نام پر رشتہ نہ کریں اور قتل تک ظالمانہ فعل کرنے والے بن جائیں۔ اور نہ ہی لڑکیوں کو اسلام اجازت دیتا ہے کہ خود ہی گھر سے جا کر عدالتوں میں یا کسی مولوی کے پاس جا کے شادی کر لیں یا نکاح پڑھوا لیں۔ اگر بعض مجبوری کے حالات ہیں تو لڑکیاں بھی خلیفۂ وقت کو لکھ سکتی ہیں جو حالات کے مطابق پھر جو بھی معروف فیصلہ ہو گا وہ کرے گا۔ پس اگر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اصول کو سامنے رکھیں گی اور لڑکے بھی سامنے رکھیں گے تو خدا تعالیٰ بھی پھر فضل فرمائے گا۔
ایک خطبہ میں حضرت مصلح موعود یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ ذکر الٰہی کے لئے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے، اس سے محبت کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے لا کر غور کیا جائے اور ان صفات کے ذریعہ سے پھر ذاتی تعلق بڑھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا صحیح اِدراک تبھی حاصل ہوتا ہے اور یہ عام قانون قدرت ہے کہ دنیاوی ظاہری تعلق اور محبت پیدا کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ یا تو جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی قربت ہو یا کم از کم اس کا کوئی نقشہ، اس کی کوئی تصویر سامنے ہو تا کہ پسند اور تعلق کا اظہار ہو۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’محبت کے لئے ضروری ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو اور یا اس کی تصویر سامنے ہو۔ (یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آج کے زمانے میں رشتہ والے کہتے ہیں جی تصویریں بھیجیں )۔ فرمایا کہ مثلاً اسلام نے یہ کہا ہے کہ جب تم شادی کرو تو شکل دیکھ لواور جہاں شکل دیکھنی مشکل ہو وہاں تصویر (آجکل کے زمانے میں، اُس زمانے میں بھی دیکھی جا سکتی تھی، اب بھی) ’’دیکھی جا سکتی ہے۔ مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مثلاً میری جب شادی ہوئی میری عمر چھوٹی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ڈاکٹر رشید الدین صاحب کو لکھا کہ لڑکی کی تصویر بھیج دیں۔ انہوں نے تصویر بھیج دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تصویر مجھے دے دی۔ میں نے جب کہا کہ مجھے یہ لڑکی پسند ہے تب آپ نے میری شادی وہاں کی۔ پس بغیر دیکھنے کے محبت ہو تو کیسے۔ یہ تو ایسی ہی چیز ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارے سامنے آئے۔ (اب خدا تعالیٰ کی محبت کا ذکر شروع ہو گیا کہ اس کی محبت کس طرح ہو۔ خدا تعالیٰ تمہارے سامنے آئے) اور تم آنکھوں پر ہاتھ رکھ لو اور پھر کہو کہ خدا تعالیٰ کی محبت ہو جائے (بغیر اُسے دیکھے) وہ محبت ہو کیسے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شعر ہے کہ:
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی
یعنی کچھ تو ہو۔ اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز تو سنائی دے۔ اس کے حسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے۔ یہ تصویر ہے خدا تعالیٰ کی۔ (خدا تعالیٰ کی تصویر کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ ربّ ہے، رحمان ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے، ستار ہے، قدوس ہے، مؤمن ہے، مہیمن ہے، سلام ہے، جبار ہے اور قہار ہے اور دوسری صفات الٰہیہ۔ یہ نقشے ہیں جو ذہن میں کھینچے جاتے ہیں۔ جب متواتر ان صفات کو ہم اپنے ذہن میں لاتے ہیں اور ان کے معنوں کو ترجمہ کر کے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں تو کوئی صفت خدا تعالیٰ کا کان بن جاتی ہے۔ کوئی صفت آنکھ بن جاتی ہے۔ کوئی صفت ہاتھ بن جاتی ہے اور کوئی صفت دھڑ بن جاتی ہے اور یہ سب مل کر ایک مکمل تصویر خداتعالیٰ کی بن جاتی ہے۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 18 جولائی 1951ء صفحہ 5 جلد 39/5 نمبر 166)
پس اللہ تعالیٰ سے محبت کے لئے ان صفات کا تصور اور مستقل اپنے سامنے رکھنا حقیقی محبت الٰہی کو حاصل کرنے والا بناتا ہے اور تبھی انسان پھر اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک حقیقی مومن کو دین کے لئے غیرت اور جوش دکھانا چاہئے۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے مَیں نے بارہا سنا ہے اور سینکڑوں صحابہ ابھی ہم میں ایسے زندہ ہیں جنہوں نے سنا ہو گا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی طبیعت کی افتاد کی وجہ سے یا باوجود اپنی نیک نیتی اور نیک ارادوں کے کوئی صحیح طریق اختیار نہیں کرسکتیں۔ آپ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص تھا اس نے کسی دوست سے کہا کہ میری لڑکی کے لئے کوئی رشتہ تلاش کرو۔ کچھ روز کے بعد ان کا دوست آیا اور کہا کہ میں نے موزوں رشتہ تلاش کر لیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ لڑکے کی کیا تعریف ہے۔ اس کا بیان کرو۔ وہ کہنے لگا لڑکا بڑا ہی شریف ہے اور بھلا مانس ہے۔ اس نے کہا کوئی اور حالات اس کے بیان کرو۔ اس نے جواب دیا بس جی اور حالات کیا ہیں۔ بے انتہا بھلا مانس ہے۔ پھر اس نے کہا کوئی اور بات اس کی بتاؤ (صرف بھلا مانسی تو کوئی چیز نہیں۔ ) اس نے جواب دیا کہ اور کیا بتاؤں۔ بس کہہ جو دیا کہ وہ انتہا درجہ کا بھلا مانس ہے۔ اس پر لڑکی والے نے کہا کہ میں اس سے رشتہ نہیں کر سکتا جس کی تعریف سوائے بھلا مانس ہونے کے اور ہے ہی نہیں۔ (نہ کوئی کام، نہ کوئی اور چیز صرف بھلا مانس ہے۔) کل کو اگر کوئی میری لڑکی کو ہی اٹھا کے لے جائے تو پھر وہ اپنی بھلا مانسی میں چُپ کر کے بیٹھا رہے گا۔ تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں صرف بھلے مانسی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ غیرت اور دین کا جوش نہیں پایا جاتا (دین کے معاملے میں بھی ایسے ہوتے ہیں۔ بڑے شریف ہیں، بڑے بھلا مانس ہیں۔ دین کی نہ غیرت ہوتی ہے نہ دین کے متعلق کوئی جوش پایا جاتا ہے اور) بوجہ نیک نیت ہونے کے مومن تو ضرور کہلاتے ہیں مگر ان کی بھلا مانسی خود ان کے لئے اور جماعت کے لئے بھی مضر پڑا کرتی ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود۔ جلد 18 صفحہ 206)
اس لئے بہرحال غیرت دکھانی چاہئے۔ پس ایسے لوگ جو بعض دفعہ نظام جماعت پر اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں اور اس قسم کے جو بھلے مانس لوگ ہوتے ہیں وہ ان اعتراض کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھے ہوتے ہیں تو وہ بہرحال غلط کام کرتے ہیں۔ صرف بھلے مانسی یہاں کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسی مجلسوں میں بیٹھے رہنا بے غیرتی بن جاتی ہے۔ کم از کم اتنی غیرت ضرور دکھانی چاہئے کہ جہاں بھی ایسے اعتراض ہو رہے ہوں اس مجلس سے اٹھ جایا جائے اور اگر ایسی باتیں کرنے والا مستقل فتنہ پھیلانے والا ہو تو پھر نظام کو بتانا چاہئے اور نظام جماعت کو خلیفہ وقت کے علم میں یہ باتیں لانی چاہئیں تا کہ اس کے تدارک کے طور پر جو بھی اقدام کرنے ہوں کئے جائیں۔ اب ایک واقعہ غیر از جماعت مولویوں کا بیان کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کس طرح لوگوں کے دلوں میں بغض اور کینہ بھرنے کی کوشش کرتے تھے، ورغلاتے تھے۔ کس طرح جھوٹ بولتے تھے اور اب بھی بولتے ہیں اور آپ پے کیسے کیسے الزام لگائے جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ساحر کہتے تھے (یہ لوگ جادوگر کہتے تھے)۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دوست نے سنایا کہ فیروزپور کے علاقے میں ایک مولوی تقریر کر رہا تھا کہ احمدیوں کی کتابیں بالکل نہیں پڑھنی چاہئیں۔ (غیراحمدی مولوی اپنے لوگوں کو بتا رہا تھا کہ احمدیوں کی کتابیں بالکل نہیں پڑھنی چاہئیں) اور قادیان میں ہرگز نہیں جانا چاہئے اور اس کذّاب نے لوگوں کو اپنا ایک من گھڑت واقعہ بھی اپنی بات کی تائید میں سنا دیا۔ (یہ تقریر کرتے ہوئے اب وہ اپنی بات کو کس طرح وزن دے تو اس نے یہ واقعہ آپ ہی گھڑ کے سنا دیا۔ کہنے لگا کہ ایک دفعہ میں قادیان گیا میرے ساتھ ایک رئیس بھی تھا۔ (ہم قادیان گئے۔) ہم مہمان خانے میں جا کے ٹھہر گئے اور کہا کہ مرزا صاحب سے ملنا ہے۔ تھوڑی دیر میں مولوی نور الدین صاحب آ گئے اور بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگے۔ اس کے تھوڑی دیر کے بعد ہمارے لئے ایک شخص حلوہ لایا اور مولوی نورالدین صاحب نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کے لئے تیار کرایا گیا ہے۔ مولوی صاحب کہنے لگے مَیں تو جانتا تھا اس لئے سمجھ گیا کہ اس حلوے پر جادو کیا گیا ہے۔ اس لئے میں نے تو اسے ہاتھ تک نہ لگایا۔ مگر میرے ساتھی کو پتا نہ تھا اس نے وہ حلوہ کھا لیا اور میں کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے کھسک گیا۔ مولوی نورالدین صاحب کو یہ پتا نہ لگ سکا کہ میں نے حلوہ نہیں کھایا۔ (ایسا میں نے داؤ چلایا۔) تھوڑی دیر کے بعد میرا وہ ساتھی جس نے حلوہ کھا لیا تھاکہنے لگا کہ میرے دل کو تو ایسی کشش ہو رہی ہے کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں گویا اس پر حلوے کا اثر ہو گیا۔ مگر میں نے تو کھایا ہی نہیں تھا۔ مولوی صاحب فرمانے لگے اس لئے مجھ پر ماحول کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی تو مرزا صاحب نے اپنی فٹن تیار کرائی اس میں وہ خود بھی بیٹھے اور مولوی نورالدین صاحب کو بھی بٹھایا۔ مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا۔ (پھر مولوی صاحب جھوٹ بولتے ہیں کہنے لگے کہ مرزا صاحب) مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ مَیں بھی تجربہ کرنے کے لئے سر ہلاتا تھا۔ (ہاں ہاں کرتا گیا۔) انہوں نے سمجھا یہ مان لے گا۔ اس نے حلوہ کھایا ہوا ہے (اس لئے یہ ضرور مان لے گا کیونکہ حلوہ پہ جادو کیا ہوا تھا۔ مولوی صاحب فرمانے لگے) پہلے تو انہوں نے کہا کہ مَیں نبی ہوں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہوں (نعوذ باللہ) اور پھر کہا کہ مَیں خدا ہوں (نعوذ باللہ)۔ یہ باتیں سن کر مَیں نے کہا اَسْتَغْفِرُاللہ۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ (مولوی صاحب نے فرمایا) اس پر مرزا صاحب نے مولوی نور الدین سے حیرت کے ساتھ پوچھا کہ کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا؟ (اس پہ جادو ہی نہیں ہوا۔) انہوں نے کہا کھلایا تو تھا۔ (تو پھر جادو نہیں ہوا۔ بڑی حیرت کی بات ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بھی بعض دفعہ موقع پر ہی ان کے جھوٹ کھول دیتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔) مولوی صاحب کی اسی مجلس میں ایک غیر احمدی وکیل بھی بیٹھے ہوئے تھے (لیکن شریف النفس تھے۔ غیراحمدی تھے) جو کسی زمانے میں یہاں حضرت خلیفہ اول کے پاس علاج کے لئے آئے تھے۔ مولوی صاحب کی یہ بات سن کر وہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں تو مولویوں سے پہلے ہی بدظن تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ لوگ بہت جھوٹے ہوتے ہیں لیکن آج میں نے سمجھا کہ ان سے زیادہ جھوٹا اور کوئی ہوتا ہی نہیں۔ (وکیل صاحب کہنے لگے کہ) انہوں نے لوگوں سے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ مَیں احمدی نہیں ہوں۔ (وکیل صاحب نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں احمدی نہیں ہوں) مگر میں علاج کے لئے خود وہاں ہو کر آیا ہوں اور وہاں رہا ہوں۔ مولوی نے جتنی بھی باتیں کی ہیں یہ سب غلط ہیں۔ فٹن تو کجا وہاں تو کوئی ٹانگہ بھی نہیں ہے اور اس زمانے میں یکّے ہوتے تھے۔ (اب یہ مولوی صاحب تفصیل بیان کر رہے ہیں ناں کہ یہ فٹن آ کے کھڑی ہوئی اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے اور خلیفہ اول کو اس میں بٹھایا اور ساتھ مجھے بٹھا لیا۔ فٹن کا کوئی تصور ہی نہیں تھا وہاں قادیان میں اس وقت۔ ٹانگہ بھی نہیں ہوتا تھا) اور پھر خدا تعالیٰ کی یہ بھی عجیب قدرت ہے کہ فٹن تو آج تک یہاں نہیں ہے (حضرت مصلح موعود جب بیان کررہے ہیں اس وقت تک وہاں فٹن کا کوئی تصور نہیں تھا) تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اب بھی ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہاں جادو ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس جماعت میں داخل ہوتے ہیں ان کو ماریں پڑتی ہیں۔ گالیاں دی جاتی ہیں۔ بے عزت کیا جاتا ہے۔ ان کو مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ فدائی رہتے ہیں اور احمدیت کو نہیں چھوڑتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو مار پیٹ، گالی گلوچ اور نقصانات کی وجہ سے ڈر جانا چاہئے مگر ان پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود۔ جلد 23 صفحہ 496 تا 498)۔ اس لئے یقینا کوئی جادو ہوتا ہے کہ یہ اس طرح اپنے ایمان پہ قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان جھوٹے مولویوں سے بھی اُمّت کو بچائے اور لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز کے بعد میں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ حاضر ہے جو مکرمہ سکینہ ناہید صاحبہ بنت مکرم محمد دین صاحب مرحوم آف جموں کشمیر کا ہے۔ اور یہ مکرم شیخ محمد شریف صاحب مرحوم کی اہلیہ ہیں۔ 3؍اپریل کو 90سال کی عمر میں یہاں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحومہ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد صاحب کے ذریعہ آئی تھی۔ مرحومہ نے کشمیر میں مخالفت کے باوجود 16سال کی عمر میں بیعت کی توفیق پائی۔ شادی کے بعد پٹھانکوٹ مقیم ہوئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت ام المومنین جب ڈلہوزی تشریف لے جاتے تو آپ کو ان کی مہمان نوازی کا موقع ملتا رہا۔ پاکستان بننے پر اپنے شوہر کے ساتھ بدوملہی شفٹ ہو گئیں۔ یہاں کئی سال تک انہیں صدر لجنہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 1974ء میں مخالفین نے آپ کا گھر لُوٹ کر جلا دیا لیکن آپ نے بڑے حوصلہ اور صبر سے اس وقت کو گزارا۔ پھر یہاں یوکے میں یہ شفٹ ہو گئیں۔ بڑی محبت سے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی توفیق پائی۔ نظام جماعت اور خلافت سے بہت عقیدت کا تعلق تھا۔ باوجود بیماری کے اور بڑھاپے کے باقاعدہ مجھے وقتاً فوقتاً ملنے آتی تھیں اور ان میں بڑا ہی اخلاص تھا۔ بہت نیک، تہجد گزار، نماز روزہ کی پابند بزرگ خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں اپنے پیچھے تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم شوکت غنی صاحب شہید کا ہے جو کہ قاضی عبدالغنی صاحب کے بیٹے ہیں۔ ندھیری آزاد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ آجکل ربوہ میں آباد ہیں۔ یہ پاک فوج کے تحت بطور سپاہی گوادر بلوچستان کے علاقہ پسنی میں آپریشن ضرب عضب میں حصہ لے رہے تھے۔ 3؍اپریل 2016ء کو دہشت گردوں کی اچانک فائرنگ سے 21سال کی عمر میں وطن پر قربان ہو گئے اور شہادت کا رتبہ پایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مولوی الزام لگاتے ہیں کہ احمدی وطن کے دشمن ہیں۔ اب شہادتیں پیش کرنے والے اور قربانیاں دینے والے احمدی ہی ہیں۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم قاضی فیروز دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن مکرم قاضی خیر الدین صاحب کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے گوئی آزاد کشمیر سے مکرم محبوب عالم صاحب کے ساتھ قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے ہمراہ شہید مرحوم کے پڑنانا مکرم بہادر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دستی بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ فیروز الدین صاحب کا خاندان گوئی میں امام مسجد چلا آرہا تھا اور علاقہ میں نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ مکرم فیروز الدین صاحب کو بیعت کے بعد اپنے خاندان کی طرف سے شدید مخالفانہ حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ بائیکاٹ اور جائیداد سے محرومی کے باوجود آپ احمدیت پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا مخلص خاندان تھا۔ قاضی فیروز الدین صاحب کو دمہ کی بڑی تکلیف تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ حضور نے فرمایا اللہ شفا دے گا۔ اس دعا کی برکت سے آپ کا شدید دمہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور آپ نے 80سال سے زائد عمر پائی۔ شہید مرحوم کے والد عبدالغنی صاحب فیملی کے ہمراہ فروری 2013ء میں کشمیر سے ہجرت کر کے ربوہ میں شفٹ ہو گئے تھے اور یہیں رہائش اختیار کی تھی۔ شہید کی پیدائش ندھیری آزاد کشمیر کی ہے جہاں وہ 4؍مئی 1995ء کو پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ ڈیڑھ سال قبل فوج میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوئے۔ ابھی ٹریننگ مکمل کی تھی اور پاسنگ آؤٹ پریڈ مکمل ہونے کے بعد آجکل دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشن ہے اس میں گوادر سیکٹر بلوچستان میں ڈیوٹی پر متعین تھے۔ دو اور تین اپریل کی درمیانی شب یہ شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ شہادت کے بعد شہید مرحوم کی میت براستہ کراچی، لاہور اور پھر ربوہ لائی گئی جہاں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین عمل میں آئی۔ شہید مرحوم نظام وصیت میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ بیشمار خوبیوں کے حامل تھے۔ ملنساری، مہمان نوازی اور ہمدردی کا عنصر نمایاں تھا۔ ہر ایک کی مدد کے لئے تیار رہتے تھے۔ نمازوں کے پابند تھے۔ خلافت سے والہانہ لگاؤ تھا۔ پوسٹنگ کے بعد بھی جب دور دراز علاقوں میں ہوتے تھے تو براہ راست فون کے اوپر خطبہ سنتے تھے۔ شہادت سے دو روز قبل اپنے تمام تر چندہ جات بھی ادا کر دئیے۔ ان کی آواز بھی بڑی اچھی تھی۔ ملازمت کے دوران وہاں ایک فنکشن میں غیر احمدیوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک منظوم کلام بڑی خوش الحانی سے انہوں نے سنایا۔ بہت سے غیر از جماعت وہاں آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بڑی داد دی اور ان سے یہ پوچھنے لگے کہ اس قدر خوبصورت منظوم کلام کس کا ہے۔ ہم نے تو اس سے قبل یہ کبھی نہیں سنا۔ ہمدردیٔ خلق کی صفت بھی ان میں بڑی نمایاں تھی۔ ملازمت کی ابتدا میں ایک دفعہ ان کو چار ماہ کے واجبات اکٹھے ملے تو اس موقع پر ایک اور فوجی شہید ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنے تمام واجبات اپنے ساتھی شہید کی فیملی کو تحفۃً پیش کر دئیے حالانکہ یہ خود بھی گھر کے اکیلے کفیل تھے۔ شہید مرحوم کے والد کہتے ہیں کہ شہادت کی رات میں نے خواب میں د یکھا کہ شہید مرحوم خاندان کے بڑے بزرگان جو وفات پا چکے تھے ان کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ان کے چہرے پر ایک نہایت سفید رنگ سے بھرپور روشنی پڑ رہی ہے جس سے ان کا چہرہ نورانی ہو گیا ہے جو دیگر افراد سے نہایت نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔ ربوہ میں رہائش کے دوران جب رہے ہیں تو مختلف کام کرتے رہے۔ یہ زعیم بھی رہے اور عمومی کی ڈیوٹیاں بھی دیتے رہے۔ ایک مسجد میں کچھ عرصہ خادم مسجد بھی رہے۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ پسماندگان میں والد مکرم عبدالغنی صاحب، والدہ محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ، دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند کرتا رہے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ شہید اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ شاید پہلے مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ جمعہ کے بعد مَیں انشاء اللہ ان دونوں کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔
ہمیں اپنی زندگیوں پر نظر رکھنی چاہئے کہ ہم وہی کام کریں جس کی ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اجازت دیتے ہیں۔ جب خواب ایسی ہو جو قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتویٰ اور سنت کے خلاف ہو وہ بہرحال ردّ کرنے کے قابل سمجھی جائے گی۔
جس طرح بیمار سے پرہیز نہ ہو تو تندرست بھی ساتھ گرفتار ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روحانی بیماروں سے فرستادہ جماعت کو علیحدہ رکھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جنازہ شادی نماز وغیرہ علیحدہ ہو۔
اپنی دنیاوی خواہشات پر اپنی اگلی نسل اور دین کو ترجیح دیں ورنہ نسلیں صرف لڑکیوں کے غیروں میں بیاہنے سے بربادنہیں ہوتیں بلکہ لڑکوں کے غیروں میں شادیاں کرنے سے بھی برباد ہوتی ہیں۔ ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ احمدی صرف معاشرتی دباؤ یا رشتہ داری کی وجہ سے احمدی نہ ہو بلکہ دین کو سمجھ کر احمدی بننے کی کوشش کریں۔ اگر احمدی لڑکے باہر شادیاں کرتے رہیں گے تو پھر احمدی لڑکیاں کہاں بیاہی جائیں گی۔ پس لڑکوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر احمدی لڑکا اور لڑکی شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ماں باپ کو بھی ضدنہیں کرنی چاہئے۔ ذاتوں اور اَناؤں کے چکر میں نہیں آنا چاہئے۔
باوجود اس کے کہ لڑکی کی پسند بھی رشتے میں شامل ہونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پسند کو قائم فرمایا ہے کہ لڑکی کی مرضی شامل ہو لیکن اسلام اس بات کی پابندی بھی ضرور کرواتا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ اسلام نے یہ کہا ہے کہ جب تم شادی کرو تو شکل دیکھ لواور جہاں شکل دیکھنی مشکل ہو وہاں آجکل کے زمانے میں، اُس زمانے میں بھی، تصویر دیکھی جا سکتی تھی، اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
مکرمہ سکینہ ناہید صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ محمد شریف صاحب مرحوم کی وفات۔ مکرم شوکت غنی صاحب ابن مکرم قاضی عبدالغنی صاحب کی شہادت جو بحیثیت پاک فوج کے سپاہی کے دہشتگردوں کے خلاف ضرب عضب میں حصّہ لے رہے تھے۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ۔
فرمودہ مورخہ08 اپریل 2016ء بمطابق 08 شہادت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔