حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم
خطبہ جمعہ 29؍ اپریل 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ اور جماعت کے قیام سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں پر مسلمانوں کی طرف سے مسلسل یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو نبی کہہ کر یا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مان کر ختم نبوت کی نفی کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سراسر ہم پر جھوٹا الزام ہے اور اتہام ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے مطابق ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت نبوت کے اس سے زیادہ قائل اور اس کا عملی اظہار کرنے والے اور اپنے دلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھرنے والے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں پھیلانے والے ہیں جتنا دوسرے مسلمان فرقے اس کا اظہار کرنے والے اور ماننے والے ہیں۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اس کا لاکھواں حصہ بھی نہیں سمجھا جتنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی وجہ سے احمدیوں نے سمجھا ہے۔
بہرحال ختم نبوت کو بنیاد بنا کر دوسرے مسلمان ہمیشہ سے احمدیوں کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی بات پر اس میں زیادہ ابال آ جاتا ہے یا نام نہاد علماء اور تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو اس سلسلے میں پہلے سے بڑھ کر بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پچھلے دنوں جو گلاسگو میں احمدی کی شہادت ہوئی اس کی وجہ سے اس معاملے کو مخالفین نے اپنی جان بچانے کے لئے مذہبی جذبات کا ایشو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن پھر حکومت کے مثبت رویے اور پریس کی بے انتہا دلچسپی کی وجہ سے ان بہت سی تنظیموں نے اور مسلمانوں کی یہاں جو ایک بڑی تنظیم ہے اس نے ظاہراً معذرت خواہانہ رویہ بھی اختیار کر لیا۔ لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی ہٹ دھرمی سے قائم رہے اور اس کا اظہار کیا کہ احمدی مسلمان بہرحال نہیں ہیں۔ مسجدوں میں اِس کا بے انتہا اظہار کیا جاتا ہے اور عام مسلمانوں کے دل میں اتنا زیادہ ڈال دیا ہے کہ مسلمانوں کے بچے بھی جن کو شاید کلمہ بھی اچھی طرح یادنہ ہو، جن کو یہ بھی نہیں پتا کہ ختم نبوت کیا چیز ہے، وہ احمدی بچوں کو سکولوں میں یہ کہتے ہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ بعض بچے بچیوں نے گزشتہ دنوں مجھے لکھا کہ ہمارے سے اس طرح سلوک ہوتا ہے۔ تو میں ان کو یہی کہتا ہوں کہ پہلے سے بڑھ کر اسلام کی باتیں سیکھیں اور اپنے دوستوں کو بتائیں کہ ہم تو مسلمان ہیں اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہی آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام اور آپ کا تابع نبی مانتے ہیں۔ بہرحال دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیوں کے خلاف یہ ابال وقتاً فوقتاً اٹھتے رہتے ہیں اور اب چونکہ میڈیا اور سفر کے تیز وسائل کی وجہ سے، آسانی کی وجہ سے، سہولتوں کی وجہ سے مخالفین اور مخالفتیں ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں اس لئے دنیا کا کوئی ملک بھی اب فساد پیدا کرنے والے نام نہاد مسلمانوں سے محفوظ نہیں ہے۔ افریقہ میں بعض جگہ پہنچ جاتے ہیں اور جہاں کبھی یہ لوگ پہنچے نہیں تھے اور وہ لا مذہب تھے یا عیسائی تھے یا نام نہاد مسلمان تھے تو وہاں جب احمدیوں نے جا کر جماعتیں قائم کیں، مسجدیں بنائیں تو وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ تو بہرحال یہ ان کے حملے، حربے ہیں جو یہ استعمال کرتے رہیں گے۔ اور اس وجہ سے یہاں کے رہنے والے، یورپ کے رہنے والے بھی جو نام نہاد مسلمان یہاں پہنچتے ہیں، اسی تعلیم کی وجہ سے جو وہ لوگ اپنی مسجدوں میں اور مدرسوں میں یا گھروں میں اور خاندانوں میں دیتے ہیں ان کے بچوں کے ذہن بھی زہر آلود ہو رہے ہیں۔ لیکن جہاں جہاں یہ پہنچ رہے ہیں اس کے ساتھ ہمارے بھی ہر احمدی بچے اور نوجوان کا فرض ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے پوری طرح آگاہی حاصل کریں۔ اس تعلیم سے آگاہی حاصل کریں جس کو اس زمانے میں کھول کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا اور جس پر جماعت احمدیہ قائم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری شرعی نبی ہیں اور شریعت کے لحاظ سے آپ پر نبوت ختم ہو گئی۔ یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی۔ اسی طرح قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے۔ اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والے آپ کے غلام نبی ہیں، آپ کی شریعت کو جاری کرنے والے نبی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ہی دنیا میں پھیلانا ہے۔
بہرحال جماعت کے ساتھ ہم نے ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک دیکھا ہے کہ جب بھی مخالفتیں بڑھیں ان مخالفتوں نے جماعت کے لئے کھاد کا کام کیا۔ اس سے ہمیں تو کوئی فکر نہ کبھی تھی اور نہ ہے اور نہ ہونی چاہئے۔ اس موجودہ مخالفت سے بھی میڈیا کے ذریعہ جماعت کا بڑا وسیع تعارف ہوا ہے جو کہ شاید پہلے ہم اتنے تھوڑے عرصے میں نہ کر سکتے۔ یہاں بھی اس ملک میں بھی اس طرف بڑی توجہ پیدا ہوئی ہے اور پھر یہ بھی کہ بعض احمدی نوجوان جو مذہب میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے، جماعت کے ساتھ تو بعضوں کا اتنا اٹھنا بیٹھنا نہیں تھا، یا آنا جانا نہیں تھا۔ یا کبھی عید پہ آگئے یا دُور سے فاصلہ رکھا، لیکن اس میڈیا کے ذریعہ سے انہیں بھی پتا چل گیا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا کس طرح حق ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے مقام کو کس طرح قائم کر کے دکھایا اور ہماری کس طرح رہنمائی فرمائی اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہی بعض ارشادات پیش کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کرے۔ جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا‘‘ (یعنی یہ جو نئی نئی باتیں اور مختلف قسم کے ذکر اور مختلف قسم کی بدعات ان لوگوں نے مذہب میں شامل کر لی ہیں ان سے جب تک علیحدہ نہیں ہوتا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شامل نہیں کیں بلکہ مختلف علماء اور پیروں نے شامل کی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب تک ان سے الگ نہیں ہو تا)’’اور اپنے قول اور فعل سے(ہر شخص اپنے قول اور فعل سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتا، کچھ نہیں۔‘‘
پس یہ صرف زبانی باتیں نہیں بلکہ عملی طور پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین ماننے کی ضرورت ہے۔ اور اگر وہ نہیں مانتا تو آپ فرماتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’سعدی نے کیا اچھا کہا ہے کہ
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفی‘‘
(یعنی زہدو تقویٰ اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کرو مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے تجاوز نہ کرو۔)
آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارا مدّعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جوا ِن لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں‘‘۔
یہ نئی نئی بدعتیں پیدا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے یہ ہٹے ہوئے ہیں۔ اصل میں تو یہ نبوت کی مہر کو توڑنے والے ہیں۔ فرمایا ’’ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو‘‘ (یعنی پیروں کی گدیاں جو ہیں ان کو دیکھو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو) ’’کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ؟‘‘ فرمایا کہ ’’یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرتے ہو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو۔ بغدادی نماز، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں۔‘‘ (بعض مسلمان طبقوں نے اور فرقوں میں) فرمایا ’’کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتا لگتا ہے۔ اور ایسا ہی ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً لِلّٰہ‘‘ کہنا، اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت کے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کاوجود بھی نہ تھا۔ پھر یہ کس نے بتایا تھا؟ شرم کرو۔ کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ام اسی کا نا م ہے؟اب خو د ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو ما ن کر، ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبیین کی مہر کو توڑا ہے؟ اصل اور سچی بات یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعات کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبوت پر ایما ن لا کر آپ کے طر ز عمل اور نقش قدم کو اپنا اما م بنا کر چلتے تو پھر میر ے آ نے ہی کی کیا ضرورت ہوتی۔ تمہار ی ان بد عتو ں اور نئی نبو تو ں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو اِن جھوٹی نبوتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابود کرے۔ پس اسی کام کے لیے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجاہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’گدّی نشینوں کو سجدہ کرنا یاان کے مکانات کا طواف کرنا یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں۔ غرض اﷲ تعالی نے اس جماعت کو اسی لیے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں‘‘۔ فرمایا کہ ’’ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے۔ اگر اس جیسے ہزاروں اور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہی‘‘۔ (یعنی ایک شخص سے عشق ہے اگر اس جیسے اور ہزاروں پیدا ہو جائیں جس سے تم عشق کرنے لگ جاتے ہوتو پھر جس سے عشق ہے اس کی خصوصیت یا انفرادیت کیا رہی) تو فرمایا کہ ’’پھر اگر یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہیں جیسا کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقاہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’مدینہ طیبہ تو جاتے نہیں مگر اجمیر اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پاؤں جاتے ہیں۔ پاک پٹن کی کھڑ کی میں سے گزر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں‘‘۔ (یہ پاکستان اور ہندوستان میں جگہیں ہیں جہاں بزرگ پیدا ہوئے ان کی قبروں کے پوجنے والے یہ لوگ ہیں یا وہاں جاتے ہیں) فرمایا کہ ’’پاکپٹن کی کھڑکی میں سے گزر جانا ہی نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں۔‘‘ کسی عمل کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اس دروازے میں سے گزر جاؤ، کھڑکی میں سے گزر جاؤ تو تمہاری نجات ہو گئی۔ فرمایا ’’کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے، کسی نے کوئی اور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچّے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھاہے۔ اگرخدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ(آل عمران: 20) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر: 10)۔ تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اﷲ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدۂ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا دے۔ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 90تا92۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر بعثت مسیح موعود کا اصل منشاء اور مدعا بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
’’ہمارا اصل منشاء اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا۔ ہمارا ذکر تو ضمنی ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسی افاضہ میں ہمارا ذکر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ269۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ طاقت ہے کہ آپ فیض پہنچانے والے اور فائدہ پہنچانے والے ہیں اور آپ نے فرمایا کہ اسی فیض اور فائدے میں میرا ذکر بھی آ گیا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ مقام دیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے دائرے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے اندر سمیٹ لیا اور اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ساتھ آپ کے عاشق صادق کا ذکر بھی شامل ہو گیا۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آپ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ہزار سال کے اندھیرے زمانے کی وجہ سے جو نئی باتیں اور بدعات پیدا ہو گئی تھیں ان کی اصلاح ہو۔ آپ فرماتے ہیں:
’’پھر مَیں یہ کہتا ہوں کہ خدا کی طرف سے جو آتے ہیں وہ کوئی بری بات تو کہتے ہی نہیں۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور مخلوق سے نیکی کرو۔ نمازیں پڑھو اور جو غلطیاں مذہب میں پڑ گئی ہوئی ہیں انہیں نکالتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت جو مَیں آیا ہوں تو مَیں بھی ان غلطیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں جو فیج اعوج کے زمانے میں پیدا ہو گئی ہیں۔ (ایک اندھیرا زمانہ جو ایک مسلمانوں میں آیا اس دور میں پیدا ہو گئی تھیں۔) سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو خاک میں ملا دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور اہم اور اعلیٰ توحید کو مشکوک کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع زندہ ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں اور وہ اس سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ چلے آتے ہیں۔ نہ زمانے کا کوئی اثر ان پر ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ بیشک مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا اور دو ہزار برس سے اب تک اسی طرح موجود ہے۔ کوئی تغیر و تبدل اس کی حالت اور صورت میں نہیں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل کانپ جاتا ہے جب میں ایک مسلمان مولوی کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ زندہ نبی کو مردہ رسول قرار دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بے حرمتی اور بے عزتی اسلام کی کیا ہو گی۔ مگر یہ غلطی خود مسلمانوں کی ہے جنہوں نے قرآن شریف کے صریح خلاف ایک نئی بات پیدا کر لی۔ قرآن شریف میں مسیح کی موت کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اصل میں اس غلطی کا ازالہ میرے ہی لئے رکھا تھا کیونکہ میرا نام خدا نے حَکم رکھا ہے۔ اب جو اس فیصلے کے لئے آوے وہی اس غلطی کو نکالے۔ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اس قسم کی باتوں نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے‘‘ (جو یہ لوگ کرتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’مگر اب وقت آ گیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ظاہر ہو جاوے۔ خدا تعالیٰ نے جس کو حَکم کر کے بھیجا اس سے یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتیں۔ بھلا دائی سے پیٹ چھپ سکتا ہے؟ قرآن نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ مسیح موعود ہو گا اور وہ آ گیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس پر لکیر کا فقیر رہے گا جو فیج اعوج کے زمانہ کی ہے تو وہ نہ صرف خودنقصان اٹھائے گا بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا جاوے گا۔ اور حقیقت میں اس غلط اور ناپاک عقیدے نے لاکھوں آدمیوں کو مرتد کر دیا ہے۔ اس اصول نے اسلام کی سخت ہتک کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین۔ جب یہ مان لیا کہ مُردوں کو زندہ کرنے والا، آسمان پر جانے والا، آخری انصاف کرنے والا یسوع مسیح ہی ہے تو پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاذ اللہ کچھ بھی نہ ہوئے۔ حالانکہ ان کو رحمۃٌ للعالمین کہا گیا اور وہ کافۃ الناس کے لئے رسول ہو کر آئے۔ خاتم النبیین وہی ہوئے۔ ان لوگوں کا جنہوں نے مسلمان کہلا کر ایسے بیہودہ عقیدے رکھتے ہیں، یہ بھی مذہب ہے کہ اس وقت جو پرندے موجود ہیں ان میں کچھ مسیح کے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ میں نے ایک بار ایک موحّد سے سوال کیا کہ اگر اس وقت دو جانور پیش کئے جاویں اور پوچھا جاوے کہ خدا کا کون سا ہے اور مسیح کا کونسا ہے تو اس نے جواب دیا کہ مل جل ہی گئے ہیں۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 251، 252۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے بعض ارشادات اور واقعات پیش کرتا ہوں جن میں آپ کی سیرت کے بعض پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ آپ اپنے آقاو مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو صرف علمی اور عقلی رنگ میں ثابت کرنے والے نہیں تھے بلکہ اسلام کی تعلیم کا عملی اظہار بھی آپ کی تعلیم اور عمل سے ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایک شخص عبدالحق نامی نوجوان کالج کے سٹوڈنٹ تھے جو پہلے مسلمان تھے پھر عیسائی ہو گئے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر کیا کہ انہی باتوں سے بہت سے لوگ اسلام چھوڑ گئے اور عیسائی ہو گئے۔ یہ بھی ان میں سے ایک تھے جو عیسائی ہو گئے۔ حق کی تلاش میں یا ویسے ہی علمی تحقیق کے لئے قادیان آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کچھ دیر ٹھہرے۔ مختلف ملاقاتوں میں آپ علیہ السلام ان کو مسائل بیان فرماتے تھے۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ ایک عیسائی کے سامنے جب آپ کا نام لیا تو اس نے آپ کو گالی دی۔ اس نوجوان نے کہا۔ مجھے یہ بڑا ناگوار گزرا۔ اس بات کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ کس طرح آپ کے اعلیٰ اخلاق کا اظہار کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’گالیاں دیتے ہیں اس کی تو مجھے پرواہ نہیں ہے۔ بہت سے خطوط گالیوں کے آتے ہیں جن کا مجھے محصول بھی دینا پڑتا ہے اور کھولتا ہوں تو گالیاں ہوتی ہیں اشتہاروں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ (پاکستان میں آجکل بھی یہی حال ہے۔ بڑے بڑے اشتہار لگتے ہیں) اور اب تو کھلے لفافوں پر گالیاں لکھ کر بھیجتے ہیں۔ مگر ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ اور خدا کا نور کہیں بجھ سکتا ہے؟ ہمیشہ نبیوں، راستبازوں کے ساتھ ناشکروں نے یہی سلوک کیا ہے۔ ہم جس کے نقش قدم پر آئے ہیں مسیح ناصری، اس کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ (کیونکہ یہ عیسائی ہو گئے تھے اس لئے مسیح کی مثال پیش کی کہ ان کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ گالیاں دی جاتی تھیں۔ ظلم ہوا۔ صلیب پر بھی چڑھایا گیا) پھر فرمایا ’’اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا؟ اب تک ناپاک طبع لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ میں تو بنی نوع انسان کا حقیقی خیر خواہ ہوں۔ جو مجھے دشمن سمجھتا ہے وہ خود اپنی جان کا دشمن ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 126۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ عبدالحق نامی شخص کئی دن وہاں رہے اور آپ کے ساتھ گفتگو چلتی رہی اور آپ ان کے مختلف سوالوں کے جواب بھی دیتے رہے۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں فرمایا کہ ’’مَیں آپ کو بار بار یہی کہتا ہوں کہ جب تک آپ کی سمجھ میں کوئی بات نہ آوے اسے آپ بار بار پوچھیں۔ ورنہ یہ اچھا طریق نہیں ہے کہ ایک بات کو آپ سمجھیں نہیں اور کہہ دیں کہ ہاں سمجھ لیا۔ اس کا نتیجہ برا ہوتا ہے۔‘‘ تو یہ آپ کا حوصلہ تھا۔ بار بار آپ کہتے تھے پوچھو۔ آپ علیہ السلام کو ایک تڑپ تھی کہ لوگوں پر حق کھلے اور وہ اسے قبول کریں۔ یہ نوجوان جو تھے سراج الدین عیسائی کو بھی جانتے تھے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کئے تھے اور پھر آپ نے اس کے جواب بھی دئیے جو شائع بھی ہو گئے۔ تو اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودنے فرمایا کہ ’’سراج الدین جو یہاں آیا تھا اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘ یعنی سوال کرتا تھا۔ اور چپ رہتا تھا آگے مزید سوال نہیں کرتا تھا اور یہاں آ کے بھی اس نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہر بات پہ ہاں ہاں کرتا رہا اور دل میں جو شکوک تھے یا شبہات اگر پیدا ہوئے تو نیک نیتی سے ان کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مزید سوال نہیں پوچھے۔ جو لکھ کے لایا تھا بس وہی پوچھتا رہا یا آپ جو بیان فرماتے رہے ان پہ ہاں ہاں کرتا رہا۔ حضرت مسیح موعودنے نوجوان کو فرمایا کہ اس نے یعنی سراج الدین نے آپ کو کچھ کہا تھا؟ اس کو آپ جانتے ہیں؟ تو عبدالحق نامی شخص نے جواب دیا کہ ہاں وہ مجھے منع کرتے تھے کہ وہاں مت جاؤ کچھ ضرورت نہیں۔ جب ہم نے ایک سچائی کو پا لیا (یہ بھی مسلمانوں سے عیسائی ہو گیا تھا۔ کہنے لگا کہ جب سچائی یعنی عیسائیت کو ہم نے پا لیا) پھر کیا ضرورت ہے کہ اور تلاش کرتے پھریں۔ اور یہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ جب میں آیا تھا تو وہ مجھے تین میل تک چھوڑنے آئے تھے اور پسینہ آیا ہوا تھا۔ (اس عیسائی کو واپسی پر الوداع کہنے کے لئے تین میل تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام گئے تھے اور یہ بھی مہمان نوازی کا وہ اعلیٰ ظرف ہے جس کا اظہار آپ نے کیا۔) ایڈیٹر بدر نے جو اس پہ نوٹ لکھا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ سلیم الفطرت لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت اور ہمدردی پر غور کریں اور اس جوش کا اندازہ کریں جو اس کی فطرت میں کسی روح کو بچا لینے کے لئے ہے۔ کیا تین میل تک جانا محض ہمدردی ہی کے لئے نہ تھا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام تین میل تک اس عیسائی کے ساتھ جو گئے وہ ہمدردی کے لئے تھا تا کہ اس کو بچائیں۔) لکھتے ہیں کہ ورنہ میاں سراج الدین سے کیا غرض تھی۔ اگر فطرت سلیم ہو تو آپ کے اس جوش ہمدردی ہی سے حق کا پتا پا لے۔ ہمارے لئے ایسا سچا جوش رکھنے والے تجھ پر خدا کا سلام۔ سلامت بر تو اے مرد سلامت۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو پسینہ آ گیا تھا اس بارہ میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اس پسینے سے اس نے یہ مراد لی کہ گویا جواب نہیں آیا۔ افسوس آپ اس سے پوچھتے تو سہی کہ پھر وہ یہاں رہ کر نمازیں کیوں پڑھتا تھا۔‘‘(جب وہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا تو نمازیں بھی پڑھا کرتا تھا) اور آپ فرماتے ہیں ’’کیا اس نے نہیں کہا تھا کہ میری تسلی ہو گئی۔ میرے سامنے ہو تو میں اس کو حلف دے کر پوچھوں۔ سامنے ہونے سے کچھ تو شرم آ جاتی ہے۔‘‘ بہرحال عبدالحق صاحب نے کہا۔ میں نے نمازوں کا حال پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہاں میں پڑھا کرتا تھا اور آخر میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کسی سرد مقام پر جا کر فیصلہ کروں گا۔ (یہ سراج الدین نے جواب دیا تھا) اور یہ بھی مسٹر سراج الدین نے کہا تھا کہ مرزا صاحب شہرت پسند ہیں۔ میں نے چار سوال پوچھے تھے ان کا جواب چھاپ دیاتھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’اس میں تو شہرت پسندی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم کیوں حق کو چھپاتے۔ اگر چھپاتے تو گنہگار ٹھہرتے اور معصیت ہوتی۔ خدا نے جب مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تو پھر میں حق کا اظہار کروں گا اور جو کام میرے سپرد ہوا ہے اسے مخلوق کو پہنچاؤں گا۔ اور اس بات کی مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی شہرت پسند کہے یا کچھ اور۔ آپ ان کو پھر خط لکھیں کہ وہ یہاں کچھ دن اور رہ جائیں۔‘‘
پس جس کام کے ساتھ اور جس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا اس کو صرف ایک شخص تک محدودنہیں رکھا بلکہ سمجھا کہ اس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اس سے اسلام کی حقیقت ظاہر ہو گی تو دوسروں کے لئے بھی آپ نے یہ جواب شائع کر دیا، کسی نام و نمود کے لئے نہیں کئے تھے۔ پس آپ کا ہر کام اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام قائم کرنے کے لئے تھا۔
بہرحال بہت ساری باتیں اس نوجوان عبدالحق سے آپ کی سیر کے دوران ہوا کرتی تھیں۔ ایک دن یہی باتیں کرتے ہوئے جب سراج الدین کے بارے میں یہ سوال ہو رہا تھا تو آپ گھر کے قریب پہنچ گئے۔ اس وقت حضرت اقدس نے عبدالحق صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان آرام وہی پا سکتا ہے جو بے تکلف ہو۔ پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں۔ پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ یہ کہہ کر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 110تا113۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو ہر ایک شخص کی انفرادی طور پر بھی مہمان داری کا آپ کو بڑا خیال رہتا تھا۔ کوئی بھی اگر حق کی تلاش کے لئے آیا ہے تو اس کو ایک تو صحیح طرح پیغام ملے اور دوسرے جو ظاہری آرام ہے وہ بھی اس کو پوری طرح میسر ہو۔
ایک واقعہ ایک مریض کی عیادت کا بیان کرتا ہوں لیکن اس میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کے ذکر میں آجکل کے پیروں فقیروں کی طرح اپنی بڑائی بیان نہیں کی کہ میں دعا کروں گا اور میری دعائیں قبول ہوتی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور قبولیت دعا کے فلسفے اور اپنی حالت کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے متعلق ہی بیان فرمایا۔ واقعہ یوں ہے۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دارالامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ حضرت حجۃ اللہ کے حضور دعا کے لئے التجا کی۔ آپ نے فرمایا ’’ہم دعا کریں گے۔‘‘ پھر ایک دن شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں کے متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔ (پاؤں سوجا ہوا ہے چل نہیں سکتا۔) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود 11؍اگست1902ء کو ان کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ وعدہ کے ایفاء کے لئے آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقے میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے اور کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے، اس کے بعد بطور تبلیغ فرمایا۔ (تبلیغ کا کوئی پہلو بھی آپ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور اسلام کی حقیقی تعلیم بھی بتانا چاہتے تھے۔) فرمایا کہ ’’میں نے دعا کی ہے۔ (تمہارے پیغام مل رہے تھے۔ میں نے دعا کی ہے) مگر اصل بات یہ ہے کہ نری دعائیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی اور امر نہ ہو۔ اہل حاجت لوگوں کو کس قدر تکالیف ہوتی ہیں مگر حاکم کے ذرا کہہ دینے اور توجہ کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہیں۔ (جو بعض ضرورتمند لوگ ہوتے ہیں وہ اپنی تکلیفیں لے کے حاکم وقت کے پاس جاتے ہیں اور اس کی توجہ اور مدد سے وہ دور ہو جاتی ہیں۔) اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے امر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ میں دعا کی قبولیت کو اس وقت محسوس کرتا ہوں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر اور اذن ہو۔ کیونکہ اس نے اُدْعُوْنِی تو کہا ہے مگر اَسْتَجِبْ لَکُمْ بھی ہے۔‘‘(یعنی جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں تمہاری سنوں گا۔ یہ سننے میں حکم اور اذن کی شرائط ساتھ ہیں اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کی بات کو ماننا اور اس کی عبادت کرنا بھی شرط ہے۔) آپ نے فرمایا کہ ’’یہ ضروری بات ہے کہ بندہ اپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرے اور اندر ہی اندر خدا تعالیٰ سے صلح کرلے اور یہ معلوم کرے کہ وہ دنیا میں کس غرض کے لئے آیا ہے اور کہاں تک اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض نہیں کرتا اس وقت تک کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان تبدیلی کر لے تو خدا تعالیٰ پھر رجوع برحمت ہوتا ہے۔ اس وقت طبیب کو بھی سوجھ جاتی ہے۔‘‘(یعنی اللہ تعالیٰ رجوع برحمت ہوتا ہے تو ڈاکٹر کو بھی صحیح طرح اس کی مرض کو تشخیص کرنے کی صلاحیت دے دیتا ہے، علم دے دیتا ہے۔ ) فرمایا ’’خدا تعالیٰ پر کوئی امر مشکل نہیں بلکہ اس کی تو شان ہے کہ اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(یٰسٓ: 83)‘‘۔ کہ اس کا یہ حکم ہی کافی ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہونے لگتی ہے۔ فرمایا کہ ’’ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کا میل نکال رہا تھا جس سے اس کا ہاتھ ورم کر گیا۔ آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ اس نے معمولی بات سمجھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہو گیا‘‘ (فوت ہو گیا)۔ فرمایا کہ ’’اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔ دوسرے دن جب میں سیر کو گیا تو مجھے اس ڈپٹی انسپکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا۔ میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی۔ غرض یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی مگر اس کے لئے ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے۔ پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ جس کو دیکھتا ہے کہ یہ وجودنافع ہے، اس سے نفع پہنچنے والا ہے، دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے۔ بعض استثناء بھی ہوتے ہیں، لیکن عمومًا یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے۔) فرمایا کہ ’’ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے۔ وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد: 18) کہ اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے۔ فرمایا کہ ’’ایسا ہی پہلی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ حزقیل نبی کی کتاب میں بھی درج ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’انسان بہت بڑے کام کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا تو خدا اس کا کام تمام کر دیتا ہے۔ خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیونکر قائم رکھے جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا۔‘‘
فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرحوم و مغفور) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔ ان کا قول تھا کہ ان کو کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔ سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفیدنہیں ہو سکتا۔ توبہ و استغفار بہت کرنی چاہئے تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔ خدا نے یہی فرمایا ہے کہ دعا قبول کروں گا اور کبھی کہا کہ میری قضاء و قدر مانو۔ اس لئے میں تو جب تک اِذن نہ ہو لے کم امید قبولیت کی کرتا ہوں۔ بندہ نہایت ہی ناتواں اور بے بس ہے۔ پس خدا کے فضل پر نگاہ رکھنی چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 317تا319۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق رہنمائی فرمائی اور اپنا نمونہ اس طرح قائم فرمایا جس طرح آپ نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ سے سیکھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔‘‘ یہی اعتراض آجکل دین کے مخالفین بہت لوگ کرتے ہیں کہ لالچ کی خاطر تم لوگ عبادت کرتے ہو۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت کی وجہ سے اس کی عبادت کرنی چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے۔ اس میں یہ سوال نہ ہو کہ جنت ملے گی۔ دوزخ ملے گی بلکہ جو اللہ سے محبت ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہیں ان کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ دوسرا ہمدردی بنی نوع انسان کی ہے۔ فرمایا کہ ’’بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا۔ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ میں اللہ تعالیٰ نے قیدنہیں لگائی ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقتاً موذی نہیں ہونا چاہئے۔ شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں۔ اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذاء پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ ملایا جاوے۔‘‘ یعنی ناجائز دشمنیاں اور پھر دشمنی کی وجہ سے دوسرے کو ناجائز طور پر تکلیف دینا بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، اسی طرح جس طرح اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا۔‘‘ یعنی ایک جگہ وہ جدائی نہیں چاہتا اور ایک جگہ ملنا نہیں چاہتا یا وہ مقام نہیں چاہتا جو ملنے کا ہو۔ فرمایا کہ ’’یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل‘‘۔ بنی نوع انسان جو ہیں وہ آپس میں علیحدہ ہوں، جھگڑے ہوں، فساد ہوں، ایک کا منہ اِس طرف ہو اور دوسرے کا منہ اُس طرف ہو، یہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا۔ یہ فصل ہے۔ اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو جوڑنا، کسی کو ملانا، اس کے برابر ٹھہرانا، شریک ٹھہرانا۔ یہ وصل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے لئے یہ نہیں چاہتا۔ انسانوں کی ایک دوسرے سے جدائی نہیں چاہتا اور یہ چاہتا ہے کہ آپس میں مل جل کر رہیں، محبت اور پیار سے رہیں، ایک ہو کر رہیں اور اپنے آپ کو برابر سمجھیں۔ اور اپنے لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ واحد ہے، یگانہ ہے اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ فرمایا ’’اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح صدر پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کا ہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے اور ان سے محبت کرنی چاہئے کیونکہ خدا کی یہ شان ہے۔
بداں را بہ نیکاں ببخشد کریم (کہ بدوں کو بھی نیکوں کے ساتھ خداوند کریم بخش دیتا ہے۔) پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو، تمہیں چاہئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے فَاِنَّھُمْ قَوْمٌ لَا یَشْقیٰ جَلِیْسُھُمْ۔ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا۔ یہ خلاصہ ایسا ہے ایسی تعلیم کا جو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ میں پیش کی گئی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 96، 97۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ چند باتیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں اس بہت بڑے عظیم ذخیرے میں سے جو آپ نے ہمارے سامنے صحیح اسلامی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق رکھا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی تعلیم کو اپنانے اور اپنے اوپر لاگو کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ ختم نبوت کا صرف نعرہ نہیں لگایا بلکہ آپ کا ہر قول و فعل اپنے آقا و مطاع کی اتباع میں تھا۔ اور اسی تعلیم اور اسی شریعت کو ہی قائم کرنے کی آپ کو تڑپ تھی تا کہ دنیا کو پتا چلے کہ یہ خوبصورت تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے یہی اصلی نجات ہے اور اپنے ماننے والوں کو بھی آپ نے اس پر عمل کرنے کی نصیحت اور ہدایت فرمائی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جہاں عملی نمونے قرآن و سنت کے مطابق قائم کرنے کی توفیق دے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا صحیح ادراک بھی ہمیں عطا فرمائے اور اسلام کی حقیقی تصویر ہم دنیا کو دکھانے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ اور جماعت کے قیام سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں پر مسلمانوں کی طرف سے مسلسل یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو نبی کہہ کر یا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مان کر ختم نبوت کی نفی کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سراسر ہم پر جھوٹا الزام ہے اور اتہام ہے۔
پہلے سے بڑھ کر اسلام کی باتیں سیکھیں اور اپنے دوستوں کو بتائیں کہ ہم تو مسلمان ہیں اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہی آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام اور آپ کا تابع نبی مانتے ہیں۔ جب بھی مخالفتیں بڑھیں ان مخالفتوں نے جماعت کے لئے کھاد کا کام کیا۔ اس سے ہمیں تو کوئی فکرنہ کبھی تھی اور نہ ہے اور نہ ہونی چاہئے۔ اس موجودہ مخالفت سے بھی میڈیا کے ذریعہ جماعت کا بڑا وسیع تعارف ہوا ہے جو کہ شاید پہلے ہم اتنے تھوڑے عرصے میں نہ کر سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام اپنے آقاو مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو صرف علمی اور عقلی رنگ میں ثابت کرنے والے نہیں تھے بلکہ اسلام کی تعلیم کا عملی اظہار بھی آپ کی تعلیم اور عمل سے ہوتا ہے۔
فرمودہ مورخہ29 اپریل 2016ء بمطابق 29 شہادت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔