اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا طریق
خطبہ جمعہ 6؍ مئی 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
تقریباً گیارہ سال پہلے مَیں یہاں آیا تھا۔ وقت گزرنے کا پتا نہیں چلتا۔ کئی بچے تھے جو آج جوان ہو گئے ہوں گے۔ کئی ایسے ہوں گے جو بچوں کے ماں باپ بن چکے ہوں گے۔ ظاہری طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہاں جماعت پر بہت فضل فرمایا ہے اور مسجد کے ساتھ ایک بڑا ہال، دفاتر، لائبریری اور دوسری سہولیات مل گئیں۔ اسی طرح مسجد کے سامنے جو مکان لیا تھا اس میں بھی بڑی وسعت پیدا ہو گئی اور مشنری کی رہائشگاہ، گیسٹ ہاؤس اور ایک بڑا ہال میسر آ گیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔ اگر آپ کے گھروں کی آبادیاں بڑھی ہیں، اگر آپ کے مال بڑھے ہیں، جماعت کو ظاہری عمارتوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے تو یقینا ان باتوں پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ یہ شکر گزاری کس طرح ہو اور اس کا کیا تقاضا ہے؟ ہم جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں، جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو مانا ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو وہ اسے واپس لائے گا تو پھر ہمیں اپنی سوچیں بھی مومنانہ بنانی ہوں گی۔ ہمیں ظاہری شکرگزاری یا صرف منہ سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہہ کر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟ کیا ہم اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جو ایک مومن کی زندگی ہے اور جس کی تفصیل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیان فرمائی ہے اور جسے اس زمانے میں کھول کر ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا۔
مَیں نے اُس وقت بھی یہاں کے احمدیوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی، جب میں گیارہ سال پہلے یہاں آیا تھا جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، اور اکثر اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں ایم ٹی اے کی سہولت اور نعمت عطا فرمائی ہے اس کے ذریعہ سے میری باتیں ہر احمدی تک پہنچ رہی ہیں بشرطیکہ وہ انہیں سننا چاہے۔ بہرحال مَیں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے باپ دادا کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی نیکی کی وجہ سے یہ فضل فرمایا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جاری رکھنے کے لئے ان نیکیوں میں بڑھنا اور اپنی حالتوں کو پہلے سے بہتر کرنا بھی ضروری ہے ورنہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہمارے قدم رک گئے یا دینی باتوں میں عدم توجہگی پیدا ہو گئی یا ہوتی رہی تو ہم اپنی نسلوں کو بھی دین سے دُور کرنے والے ہوں گے اور یوں انہیں اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل سے جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی محروم کرنے والے ہوں گے یعنی مسیح موعود کی بعثت اور اس کا ماننا۔ جن کے باپ دادا احمدی ہوئے اگر ان کی نسلیں دین سے دُور ہٹ گئیں تو وہ اپنے بڑوں کی، اپنے بزرگوں کی دعاؤں سے محروم رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نیکی کا اجر دیتا ہے اور ضرور دیتا ہے۔ اگر کسی کی نیکی ہو اور خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو تو اولادیں بھی اس سے فیض پاتی ہیں لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ تمہیں اپنے عمل درست کرنے ہوں گے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا فیض ہمیشہ جاری رہے۔ جن کے بزرگ احمدی ہوئے ان بزرگوں نے تو اپنے عہد بیعت کو نبھایا اور دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس خواہش اور دعا کے ساتھ رخصت ہوئے کہ ان کی نسلیں بھی یہ عہدنبھانے والی ہوں۔ پس اس وقت آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس عہد کو نبھانے والے ہیں جس کی تلقین ہمارے بزرگوں نے ہمیں کی تھی یا جس راستے پر ہمارے بزرگ ہمیں ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا حقیقت میں ہم اپنا عہد بیعت نبھا رہے ہیں یا صرف روایتاً اپنے بڑوں کے بزرگوں کے دین پر قائم ہیں۔ صرف رشتہ داری اور معاشرتی تعلقات کی وجہ سے جماعت میں شامل ہیں اور ابھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جنہوں نے خود احمدیت قبول کی ہے وہ یہ جائزے لیں کہ کیا ہم نے اپنے ایمان میں بڑھنے اور اپنے عملوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے یا کر رہے ہیں یا وہ ایک وقتی جذبہ تھا جس کی وجہ سے احمدیت کو قبول کر لیا۔ کسی بات سے متأثر ہو کر احمدیت قبول کر لی اور ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن تھے۔ فائدہ تو ہمیں تبھی ہو گا جب ہمارا ہر قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا ہو گا۔ جو ترقی یافتہ ملکوں میں ہجرت کر کے آئے ہیں ان ممالک میں انہیں مسلسل یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں بہتر حالات نے انہیں دین سے دُور تو نہیں کر دیا؟ یورپ کی ترقی سے متأثر ہو کر دین کو بھول تو نہیں گئے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کوسوو، مشرقی یورپ سے آئے ہوئے بھی بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مانا ہے، انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے۔
غرض کہ یہاں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں کو جو احمدیت میں شامل ہوئے، چاہے پیدائشی ہیں، چاہے بعد میں بیعت کر کے آنے والے ہیں، چاہے ہجرت کر کے آنے والے ہیں یا یہاں کے رہنے والے ہیں سب کو ان باتوں پر غور کرنا ہو گا کہ اب انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت میں آنے کا حق ادا کر سکیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا پیدائشی احمدی ہوں، پرانے احمدی ہوں یا نئے آنے والے احمدی ہوں، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ بیعت کا حق ادا کر رہے ہیں یا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم پر جو ذمہ داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈالی ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا اپنی حالتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا شعور ابتدا سے ہی پیدا ہو جائے؟ کیا ہمارے اپنے عمل اسلامی تعلیم کے مطابق ہمارے بچوں کے لئے نمونہ ہیں؟ کیا ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں اور ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ہے؟ یہ باتیں ہر ایک اپنے جائزے لے کر خود بہتر طور پر جان سکتا ہے۔ ان باتوں کی گہرائی جاننے اور اپنے جائزوں کے بہتر معیار مقرر کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہوئی ہے۔
اس وقت مَیں ان میں سے چند باتیں پیش کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ ایک مجلس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے بڑے درد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس پُرآشوب زمانے میں جب کہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پرواہ نہیں ہے۔‘‘(نہ اپنے ذمہ حق ادا کرتے ہیں، نہ جو وصایا ہیں، وصیتیں ہیں ان کو پورا کرنے والے ہیں۔) ’’دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصہ کو ترک کر دیتے ہیں‘‘۔ (اس وقت دین مقدم ہونے کے بجائے دنیا مقدم ہو جاتی ہے۔ دنیا کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں چاہے دین بیشک چلا جائے۔) آپ فرماتے ہیں ’’ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصے کو ترک کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصہ میں دیکھی جاتی ہیں‘‘۔ رشتہ داروں میں جائیدادوں کی آپس میں تقسیم ہو رہی ہو یا مسائل پیدا ہو رہے ہوں وہاں یہ باتیں دیکھی جاتی ہیں اور آج بھی یہ روزمرہ کی باتیں ہیں۔ پھر فرمایا کہ ’’لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلے میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔ اس وقت تک کہ خدا نے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے۔ مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔ اگر گناہوں سے بچے ہوئے ہیں تو اس لئے نہیں کہ نیکی غالب ہے۔ اس لئے کہ جرأت نہیں ہے، بعض چیزوں کا خوف ہے۔ مگر جب وہ خوف دُور ہو جاتا ہے تو پھر گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ فرمایا ’’آج اس زمانہ میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتا ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچے تقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے‘‘۔ جن لوگوں میں سچے تقویٰ اور ایمان کا بیج ہے اس کو ضائع نہ کرے، اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے۔ فرمایا کہ ’’جب (اللہ تعالیٰ) دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اور فصل پیدا کر دیتا ہے۔ وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10)۔ بہت سا حصہ احادیث کا موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔‘‘ اُس زمانے میں بھی مسلمانوں کا یہ نقشہ کھینچا گیا اور آج بھی یہی حالت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔ خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسندنہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ میدان خالی ہو رہا ہے، لوگوں کے دل نیکی اور تقویٰ سے خالی ہو رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے انسانی ہمدردی کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ پسندنہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے۔ فرمایا کہ ’’اور لوگ ایسے ہی دور رہیں۔ اس لئے اب ان کے مقابلے میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 395۔ 396۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا اگر ہم جائزہ لیں تو یہ صرف اُس زمانے کے لوگوں کا نقشہ نہیں ہے جب آپ علیہ السلام اپنے زمانے کے لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے بلکہ آج بھی ہمیں یہی باتیں نظر آتی ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہیں؟ دوسروں کو تو چھوڑیں، ہم جو آپ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم میں سے کتنے ہیں؟ یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنّوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ کیا ہم اپنے دنیاوی کاموں کو اپنی عبادت پر قربان کرتے ہیں یا اس کے الٹ ہے کہ ہماری عبادتیں ہمارے دنیاوی کاموں پر قربان ہو رہی ہیں؟ ایسے بھی ہیں جو اگر وقت پر نماز پڑھ بھی لیں تو گلے سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا حال تو علیحدہ ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا۔ ہم میں سے بھی ایسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے معاملات میں احسان کا سلوک کرو۔ لیکن بہت سے ایسے ہیں جو احسان کا سلوک تو ایک طرف رہا دوسرے کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ایسے بھی ہیں جو دنیا کا نقصان تو برداشت نہیں کرتے لیکن دین کا نقصان ہو رہا ہو تو برداشت کر لیتے ہیں۔ کتنے ہی ہم میں سے ایسے ہیں جو جذبات پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جاتے ہیں۔ اگر غیر یہ کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں۔ لیکن اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرے تو بہرحال یہ قابل افسوس بات ہے۔ پس ہر کوئی خود ان باتوں میں اپنا جائزہ لے سکتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس ہم نے ان زندوں میں شامل ہونے کے لئے بیعت کی ہے اس لئے اس کا حق ادا کرنے کے لئے آپ کی باتوں پر ہمیں توجہ دینی ہو گی تا کہ زندوں کی قوم میں شامل ہو سکیں۔ پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ہدایت مجاہدہ اور تقویٰ پر منحصر ہے۔ جب تک تقویٰ پیدا نہ ہو، جب تک انسان کوشش نہ کرے، جب تک اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار نہ ہو، اُس وقت تک حقیقی ہدایت نہیں پا سکتا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس امر کی گرہ کشائی کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) یعنی جو لوگ ہم میں سے ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھاتے ہیں، کے موافق خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی راہ تلاش کرنے کے لئے ان کی کوشش ہوتی ہے اور پھر دعائیں بھی ہوتی ہیں کہ ان کی برائیاں دور ہوں، اللہ تعالیٰ ان سے ملے اور اس کے لئے جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، یہ آیت جو میں نے پڑھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے رستے دکھاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اس آیت ’’کے موافق خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینان قلب عطا کرتا ہے اور اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک و بدعت سے ملوث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے۔‘‘ کہ اگر دل خود ہی اندھیرے اور تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، زبان سے ظاہری دعا تو ہے لیکن بڑی مشکل سے دعا کے الفاظ نکل رہے ہیں۔ جہاں تک اعتقاد کا سوال ہے، ظاہراً تو یہی اعتقاد ہے کہ ہم مسلمان ہیں، الحمد للہ ایمان رکھتے ہیں۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اعتقادی لحاظ سے سب ٹھیک ہے لیکن عملاً کیاہے؟ شرک میں بھی مبتلا ہیں۔ بدعات میں بھی مبتلا ہیں۔ دین کے بارے میں نئی نئی باتیں ایجاد کر لی ہیں تو ایسی حالت ہو تو پھر دعا نہیں ہو سکتی۔ اور فرمایا کہ ’’اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائج حسنہ مترتب نہ ہوں۔‘‘ جب ایسی طلب ہوتی ہے تو پھر اس کے اچھے نتائج نہیں نکلتے۔ اس لئے ایسی حالت اگر ہو گی تو وہ طلب طلب نہیں رہے گی۔ وہ دل سے نکلی ہوئی دعا نہیں رہے گی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اور اس کے حکموں پرچلنے کے لئے کوشش اور دعا نہیں ہو گی کیونکہ اس کے اچھے نتائج نہیں نکل رہے۔ پس یہ ایک بڑی واضح بات ہے کہ اگر اچھے نتائج نہیں نکل رہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے اندر ہی کوئی کمزوری ہے، ہماری دعاؤں میں کمی ہے، ہمیں دعاؤں کے طریقے اور اسلوب نہیں آتے، ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے نہیں ہیں۔ فرمایا کہ ’’جب تک انسان پاک دل اور صدق و خلوص سے تمام ناجائز رستوں اور امید کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کر کے خدا تعالیٰ ہی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس وقت تک وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید اسے ملے۔ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے دروازے پر گرتا اور اسی سے دعا کرتا ہے تو اس کی یہ حالت جاذبِ نصرت اور رحمت ہوتی ہے۔‘‘ پھر جب ایسی حالت ہو جائے کہ انسان بے نفس ہو کر، بے غرض ہو کر اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گرے، اس کے در پر گرے، اس سے دعا کرے تو پھر ایسی حالت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید اور نصرت کو جذب کرتی ہے۔ اس کو حاصل کرتی ہے اور باعث رحمت ہوتی ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ فرمایا ’’خدا تعالیٰ آسمان سے انسان کے دل کے کونوں میں جھانکتا ہے۔‘‘ یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ غافل ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمان پر بیٹھا انسان کے دل کے کونوں تک سے واقف ہے۔ ’’اوراگر کسی کونے میں بھی کسی قسم کی ظلمت یا شرک و بدعت کا کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی دعاؤں اور عبادتوں کو اس کے منہ پر الٹا مارتا ہے۔‘‘ پس دل کو ہر لحاظ سے پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کہیں بھی دل کے اندر اندھیرا نہ ہو۔ کہیں بھی کسی قسم کے شرک کا پہلو نہ ہو۔ کہیں بھی کسی قسم کی بدعت کا خیال دل میں پیدا نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو پھر عبادتیں عبادتیں نہیں رہتیں، اللہ تعالیٰ ان کو قبول نہیں کرتا۔ فرمایا ’’اس کے منہ پر الٹا مارتا ہے۔ اور اگر دیکھتا ہے کہ اس کا دل ہر قسم کی نفسانی اغراض اور ظلمت سے پاک اور صاف ہے تو اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھولتا ہے اور اسے اپنے سایہ میں لے کر اس کی پرورش کا خود ذمہ لیتا ہے۔‘‘ اور جب دل پاک ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسان سب کچھ کر رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی ہر قسم کی پرورش اس کی ضروریات کا خود ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 396۔ 397۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایک حقیقی احمدی کو اپنے دل کو ہر قسم کے شرک اور بدعات سے پاک کرنا ہو گا۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کیں، بہت لمبی لمبی دعائیں کیں، بڑی دعائیں کیں اور قبول نہیں ہوئیں اپنے دلوں کو ٹٹولیں، جائزے لیں کہ کہیں کوئی مخفی شرک تو نہیں۔ کسی قسم کی بدعات میں تو ملوث نہیں۔ یا اور ایسی باتیں تو نہیں ہو رہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
پھر ایک جگہ یہ وضاحت فرماتے ہوئے کہ تقویٰ کا قیام ہی اس جماعت کے قائم کرنے کا مقصد ہے، سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اس سلسلہ سے خدا نے یہی چاہا ہے اور اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہو گیا ہے۔‘‘ یہ سلسلہ قائم کرنے کا مقصد ہی تقویٰ کا قیام ہے۔ یہ بات ہر ایک کو ذہن میں رکھنی چاہئے۔ فرمایا ’’بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گرفتار ہیں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہو جاتا ہے۔‘‘ ہم میں سے بہت سے ہیں نیکیاں کرتے ہیں لیکن بعض ایسی برائیوں میں ملوّث ہیں جو ہماری نیکیوں کو کھا رہی ہیں۔ فرمایا کہ اچھا کھانا ہو، اچھی چیز ہو، معمولی سا زہر بھی اسے زہریلا کر دیتا ہے۔ اور فرمایا کہ ’’اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے گناہ ریا کاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لئے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے۔‘‘ فرمایا کہ تقویٰ اور طہارت کا نمونہ دکھانا ہے۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 96۔ 97۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
اب ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری اپنی حالتیں ایسی ہیں کہ ہم خود تقویٰ اور طہارت کا نمونہ بن سکیں اور دوسرے ہم سے سبق سیکھیں۔ پس یہ جائزے خود ہم اپنی حالتوں سے لے سکتے ہیں۔ پھر اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ آپ اپنی جماعت کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ صاحبِ اغراض ہوتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے ہاتھ سے اس لئے قائم کیا کہ تقویٰ پر چلنے والوں کی جماعت ایک قائم کرے۔ اپنے نفسوں کی اصلاح کرنے والوں کی جماعت قائم کرے۔ لیکن فرمایا کہ اس کے باوجود ایسے لوگ بھی ہمارے پاس آ جاتے ہیں جن کی اپنی غرض ہوتی ہے۔ نیکی اور تقویٰ کا حصول ان کی غرض نہیں ہوتی بلکہ ان کے کچھ خود ذاتی مفاد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اگر اغراض پورے ہو گئے تو خیر ورنہ کدھر کا دین اور کدھر کا ایمان۔‘‘ پھر چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر ایمان کوئی نہیں رہا۔ فرمایا کہ ’’لیکن اگر اس کے مقابلے میں صحابہ کی زندگی میں نظر کی جاوے تو ان میں ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ہماری بیعت تو بیعت توبہ ہی ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہم جو بیعت کرتے ہیں وہ تو توبہ کی بیعت ہی ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور آئندہ نیکیوں پر قائم رہنے کی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’لیکن ان لوگوں کی بیعت (یعنی صحابہ کی بیعت) تو سر کٹانے کی بیعت تھی‘‘۔ انہوں نے جو بیعت کی وہ تو سر کٹوانے کی بیعت تھی۔ اُس زمانے میں تو تلوار کا جہاد تھا اور اس کے لئے ہر وقت ہر ایک تیار تھا۔ ’’ایک طرف بیعت کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے سارے مال و متاع، عزت و آبرو اور جان و مال سے دستکش ہو جاتے تھے۔‘‘ سب کچھ چھوڑ دیتے تھے۔ ’’گویا کسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور اسی طرح پر ان کی کُل امیدیں دنیا سے منقطع ہو جاتی تھیں۔ ہر قسم کی عزت اور عظمت اور جاہ و حشمت کے حصول کے ارادے ختم ہو جاتے تھے‘‘۔ ان کا اپنا کچھ نہیں تھا۔ نہ ان کو اپنی ذات کی عزت کی پرواہ تھی نہ کسی عظمت کی خواہش تھی۔ نہ کسی بڑے عہدے کی خواہش تھی۔ صرف غرض تھی تو یہ کہ ہم اسلام کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ یہ عہد ہم آج بھی کرتے ہیں لیکن عہدیداروں میں سے بھی ایسے بھی ہیں جو عُہدوں کی خواہش رکھتے ہیں کہ شاید محدود طور پر ہی کچھ نہ کچھ جاہ و حشمت کا وہاں سے اظہار ہو جاتا ہے۔ اگر عہدے ملتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور پہلے سے بڑھ کر دین کی خدمت کا جذبہ ان میں پیدا ہو، اس طرف توجہ نہیں ہوتی اور صرف اپنے عُہدوں کا زعم ہوتا ہے۔ پس عہدیداروں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
فرمایا ’’کس کو یہ خیال تھا کہ ہم بادشاہ بنیں گے۔‘‘ صحابہ میں سے کس کو یہ خیال تھا کہ بادشاہ بنیں گے یا کسی ملک کے فاتح ہو جائیں گے۔ عربوں کی جو حالت تھی کسی کو اُس وقت خیال آ سکتا تھا؟ بالکل نہیں۔ ’’یہ باتیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں بلکہ وہ تو ہر قسم کی امیدوں سے الگ ہو جاتے تھے اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت کو لذت کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔‘‘ وہ جاہ و حشمت نہیں چاہتے تھے۔ وہ عہدے نہیں چاہتے تھے۔ عظمت نہیں چاہتے تھے۔ عزت نہیں چاہتے تھے۔ وہ تو قربانی چاہتے تھے اور اسی میں ان کے لئے لذت تھی۔ اسی میں ان کو مزا آتا تھا۔ فرمایا کہ ’’یہاں تک کہ جان تک دینے کو آمادہ رہتے تھے۔ ان کی اپنی تو یہی حالت تھی کہ وہ اس دنیا سے بالکل الگ اور منقطع تھے۔ لیکن یہ الگ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عنایت کی اور ان کو نوازا۔‘‘ وہ تو ہر قربانی کے لئے تیار تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور اپنی عنایت سے ان کو اتنا نوازا۔ ’’اور ان کو جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ہزار چند کر دیا۔‘‘ کئی گُنا اور ہزاروں گنا کر دیا۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 397۔ 398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر بڑے درد سے ہمیں ہمارے اخلاق کے بہتر ہونے، نیکیوں پر قائم ہونے، برائیوں کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص اپنے ہمسائے کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے۔‘‘ اپنے ہمسایوں کو اگر ہمارے احمدی ہونے کے بعد ہم میں تبدیلی نظر آتی ہے یا ہر احمدی جو ہے اپنے ہمسائے سے ایسا سلوک کرتا ہے کہ وہ حیران ہو کہ یہ انسان عام انسانوں میں سے نہیں ہے تو گویا وہ ایک کرامت دکھاتا ہے۔ ایک معجزہ دکھاتا ہے۔ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کو دیکھ کر لوگ حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اس کا اثر ہمسائے پر بہت اعلیٰ درجے کا پڑتا ہے‘‘۔ اور اسی اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے ہمسایہ متاثر ہوتا ہے اور بہت اعلیٰ درجہ کا اثر اس پر پڑتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ہماری جماعت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا ترقی ہو گئی ہے اور تہمت لگاتے ہیں کہ افتراء، غیظ و غضب میں مبتلا ہیں‘‘۔ دشمنوں کے بارے میں، غیروں کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ جماعت پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ تہمت لگا رہے ہیں، الزام لگا رہے ہیں کہ احمدی ہونے سے ان کی کیا ترقی ہو گئی؟ جھوٹ، افتراء، بدظنی، غصہ اس میں یہ لوگ ابھی بھیمبتلا ہیں۔ فرمایا کہ ’’کیا یہ ان کے لئے باعث ندامت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلے میں آیا تھا‘‘۔ اب ان لوگوں کو فرمایا جو احمدی ہو گئے کہ ان لوگوں کے لئے تو یہ شرم کی بات ہے کہ اچھی چیز سمجھ کر کوئی شخص اس سلسلہ میں آیا تھا یا انہیں دیکھ کر، سلسلے کی تعلیم کو اچھا سمجھ کر سلسلہ میں شامل ہوا تھا۔ فرمایا کہ ’’جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے۔‘‘ ایک شریف، اطاعت گزار، نیک، تابع دار بیٹا جو ہے وہ اپنے باپ کی نیک نامی کا باعث بنتا ہے اور فرمایا کیونکہ بیعت کرنے والا جو ہے وہ بھی بیٹے کے حکم میں آیا ہے اور اس کی دلیل آپ نے یہ فرمائی کہ ’’اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اُمّہات المومنین کہا گیا ہے گویا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عامۃ المومنین کے باپ ہیں۔‘‘ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امّہات المومنین ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے باپ ہیں۔ فرمایا کہ ’’جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے۔‘‘عام زندگی میں ہر ایک انسان کا باپ ہے اور وہ ماں باپ جو ہیں کسی روح کو یا بچے کے جسم کو زمین پہ لانے کا موجب بنتے ہیں۔ ماں باپ کے وجہ سے پیدائش کے ذریعہ بچہ اس دنیا میں آتا ہے ’’اور حیات ظاہری کا باعث‘‘۔ یہ زندگی جو اس کو ملتی ہے ایک باپ کی وجہ سے ہے۔ ’’مگر (اس کے مقابلے میں ) روحانی باپ آسمان پر لے جاتا (ہے)۔‘‘ جسمانی باپ زمین پر لے کر آتا ہے اور روحانی باپ آسمان پر لے کر جاتا ہے۔ روحانیت میں ترقی کرواتا ہے ’’اور اس مرکز اصلی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ فرمایا کہ ’’کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟‘‘ کبھی پسندنہیں کرو گے کہ بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے۔ نہ کوئی باپ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا بیٹا اسے بدنام کرنے والا ہو۔
پس اس واسطے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا اپنے نمونے ایسے بناؤ کہ نہ دوسروں کی ٹھوکر کا باعث ہو، نہ اپنے باپ کو بدنام کرنے والے ہو۔ فرمایا ’’کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟ (کوئی پسند کرتا ہے) طوائف کے ہاں جاوے؟ (طوائفوں کے پاس چلا جائے) اور قمار بازی کرتا پھرے؟ شراب پیوے یا اور ایسے افعال قبیحہ کا مرتکب ہو‘‘۔ جؤا، شراب اس قسم کی حرکتیں کر رہا ہو۔ کوئی باپ پسندنہیں کرتا۔ کوئی نیک مسلمان باپ یہ پسندنہیں کرے گا کہ اس کا بیٹا اس طرح کی حرکتیں کرتا ہو بلکہ بعض حرکتیں، بعض باتیں ایسی ہیں جو غیر مسلم بھی پسندنہیں کرتے۔ فرمایا کہ ’’شراب پیوے اور ایسے افعال قبیحہ کا مرتکب ہو جو باپ کی بدنامی کا موجب ہوں‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں جانتا ہوں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو پسند کرے لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے پھر زبانِ خَلق بندنہیں ہو سکتی‘‘۔ اگر کوئی بیٹا ایسا کرے تو پھر لوگ اس پہ انگلیاں اٹھائیں گے۔ اس کے متعلق باتیں کریں گے۔ اس کے باپ کے متعلق بھی باتیں کریں گے۔ ’’لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں بد کام کرتا ہے۔ پس وہ ناخلف بیٹا خود ہی باپ کی بدنامی کا موجب ہو تا ہے۔ اسی طرح پر جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہو تا ہے اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں پھر آجاتا ہے۔ ’’کیونکہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لئے ایک برا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے۔‘‘جو پہلے شروع میں کہا گیا تھا اس کی یہاں وضاحت کر دی۔ فرمایا ’’پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ جہاں عاجز آ جاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں خالی واپس نہیں ہوتے۔‘‘ کوشش کرو۔ اپنی کوششیں کامیاب نہ ہوں تو یہ نہ سمجھو کہ بس اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ دعائیں کرو اور دعائیں کرو اور اتنی دعائیں کرو کہ جن کی انتہا نہ ہو لیکن صدق سے اٹھے ہوئے ہاتھ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو تو سچائی سے اپنے دل کو ٹٹولتے ہوئے دیکھو کہ جو مَیں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ یہی میں چاہتا ہوں۔ یہی مَیں اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہوں۔ کیونکہ اگر اس طرح ہو گا، سچائی کی تحریک دل میں پیدا ہو گی اور اس کے نتیجہ میں ہاتھ اٹھیں گے، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ضرور انسان جھکے گا تو پھر ایسے ہاتھ پھر خالی واپس نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ ضرور نوازتا ہے۔ فرمایا ’’ہم تجربے سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزارہا دعائیں قبول ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’یہ ایک یقینی بات ہے اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس کے لئے ہمدردی کا جوش نہیں پاتا وہ بخیل ہے۔‘‘ اپنے ساتھیوں کے لئے، دوسرے انسانوں کے لئے اگر ہمدردی کا جوش نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے تم کنجوس ہو، بخیل ہو۔ فرمایا کہ ’’اگر میں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیر ہے تو میرا فرض ہے کہ میں پکار پکار کر لوگوں کو بلاؤں۔‘‘ یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ بھلائی کی اور خیر کی راہ ہم نے دیکھی تبھی ہم نے احمدیت کو قبول کیا اس لئے اب ہمارا فرض ہے ہم پکار پکار کے لوگوں کو کہیں کہ آؤ اور یہیں اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے رستے دیکھو۔ فرمایا کہ ’’اس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں‘‘۔ ہمارا کام بلانا ہے۔ ہمارا کام اصلاح کرنا ہے اس لئے یہ نہ دیکھو کہ کوئی عمل کر رہا ہے کہ نہیں، قبول کرتا ہے کہ نہیں۔ ایک فارسی کا مصرعہ آپ پیش کرتے ہیں
’’کس بشنود یا نشنود من گفتگوئے می کنم‘‘
کہ کوئی سنے یا نہ سنے میں تو کہتا ہی رہوں گا یا نصیحت کرتا ہی رہوں گا۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 146۔ 147۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اپنے نیک نمونے قائم کر کے ہمیں پھر تبلیغ کا حق بھی ادا کرنا ہو گا اور ہر احمدی پر یہ ذمہ داری ہے، اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ آخر ایک وقت آئے گا کہ لوگ سنیں گے بھی۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی نہیں بھی سنتا تب بھی ہمیں پیغام پہنچاتے رہنا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ آپ کی جماعت سے منسوب ہو کر ہمیں اپنے نمونے بھی اعلیٰ معیاروں کے پیش کرنے چاہئیں اور پھر لوگوں کی توجہ بھی ہماری طرف ہو گی۔
پھر ہمیں ہماری حالتوں کو بہتر کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’الہام میں جو یہ آیا ہے۔ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِاِسْتِکْبَارٍ۔‘‘ یہ طاعون کے متعلق عربی کا الہام ہے۔ اس سے پہلے بھی عربی کے الفاظ ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی تیرے گھر کے اندر آئے گا اسے میں بچاؤں گا مگر ساتھ ہی یہ الفاظ بھی ہیں کہ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِاِسْتِکْبَارٍ۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کو اونچا سمجھتے ہیں۔ اور اس کی آپ نے تشریح یہ فرمائی کہ پورے طور پر اطاعت نہیں کرتے۔ اب اطاعت کرنے والے تو وہی ہوں گے جنہوں نے مانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو پورے طور پر اطاعت نہیں کرتے وہ بھی اس سے مراد ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بڑا مُنذر اور ڈرانے والا ہے‘‘۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ضمانت دی کہ جو تیرے گھر میں آئے گا اس کی مَیں حفاظت کروں گا وہاں یہ بھی ہے کہ جو پورے طور پر اطاعت نہیں کرتے ان پہ یہ حکم لاگو نہیں ہو گا۔ ان پر یہ واجب نہیں ہو جائے گا کہ ضرور ان کی حفاظت کی جائے یا اللہ تعالیٰ پر یہ واجب نہیں ہو جائے گا کہ ضرور ان کی حفاظت کرے۔ فرمایا ’’اس لئے ضروری ہے کہ بار بار کشتی نوح کو پڑھو اور قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے موافق عمل کرو۔ کسی کو کیا معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ تم نے اپنی قوم کی طرف سے جو لعنت ملامت لینی تھی لے چکے۔‘‘ احمدی ہونے کے بعد بہت سارے لوگ دشمنی کرتے ہیں۔ ’’لیکن اگر اس لعنت کو لے کر خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی تمہارا معاملہ صاف نہ ہو اور اس کی رحمت اور فضل کے نیچے نہ آؤ تو پھر کس قدر مصیبت اور مشکل ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اخباروں والے کس قدر شور مچاتے ہیں اور ہماری مخالفت میں ہر پہلو سے زور لگاتے ہیں۔‘‘ اور آجکل تو پھر یہ مخالفت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ ہمارے بہت سارے احمدی لوگ اسی مخالفت کی وجہ سے پاکستان سے یورپ میں آتے ہیں۔ فرمایا ’’مگر وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے کام بابرکت ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس برکت سے حصہ لینے کے لئے ہم اپنی اصلاح اور تبدیلی کریں۔ اس لئے تم اپنے ایمانوں اور اعمال کا محاسبہ کرو۔‘‘ فرمایا ’’تم اپنے ایمانوں اور اعمال کا محاسبہ کرو کہ کیا ایسی تبدیلی اور صفائی کر لی ہے کہ تمہارا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہو جائے اور تم اس کی حفاظت کے سائے میں آ جاؤ۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 69۔ 70 حاشیہ نمبر 2۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ نئے احمدی ہیں یا پرانے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر جب تک ہم اپنی عملی اصلاح نہیں کریں گے ان برکات سے فیض نہیں پا سکتے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے سے ملنی ہیں اور نہ ہی ہم خدا تعالیٰ کی حفاظت کے سائے میں آ سکتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے۔ اور پھر لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے۔‘‘ عاجزی پیدا کرنا، خشوع پیدا کرنا یہ ایمان کی بیج کی حالت ہے اور پھر جب یہ ایمان پیدا ہو جائے اور انسان لغو باتیں چھوڑ دے۔ خشوع پیدا ہو جائے اور لغو باتوں کو بھی چھوڑ دو تو پھرجس طرح پودا اگتا ہے ایمان سے بھی نرم نرم سا سبزی باہر نکلنی شروع ہوتی ہے اور پھر فرمایا کہ ’’مال بطور زکوٰۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں۔‘‘ پھر جو مالی قربانیاں کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہ اس پودے کو مزید بڑھاتی ہیں اور اس کی ٹہنیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں ’’جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں‘‘۔ درخت کچھ تھوڑا سا مضبوط ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’پھر شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔ اور جب انسان کے دل میں شہوات پیدا ہوتی ہیں، گندی خواہشات پیدا ہوتی ہیں، نفس کی خواہشات پیدا ہوتی ہیں، برائیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور انسان ان کا مقابلہ کرتا ہے اور ان کو دبا دیتا ہے نہ کہ ان کو کرنے لگ جائے۔ جب ایسی حالت ہو، جب ان کو دباتے ہو تو پھر یہ جو درخت کی ٹہنیاں نکلی ہوتی ہیں ان میں سختی اور مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے جب انسان اپنے نفس کو مارتا ہے۔ اور فرمایا کہ ’’پھراپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کا اپنے مضبوط تنے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر جو آپ نے عہد کئے ہیں، جو آپ کے سپرد امانتیں ہیں ان کی اگر صحیح طرح حفاظت کرو۔ ہر ایک نے عہد کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ خدام الاحمدیہ میں بھی عہد دہرایا جاتا ہے، انصار اللہ میں بھی عہد دہرایا جاتا ہے، لجنہ میں بھی عہد دہرایا جاتا ہے، جماعت بھی بیعت کے وقت یہ عہد لیتی ہے تواگر عہد کی حفاظت کرو گے اور اپنی امانتیں جو تمہارے سپرد ہیں۔ امانتیں کیا ہیں؟ جو عہدیدار ہیں ان کے سپرد عُہدوں کی امانتیں ہیں۔ عام احمدی ہے اس کے سپرد امانت ہے کہ وہ احمدیت کا صحیح نمونہ بن کے دکھائے اور کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر یہ ایمان کا درخت جو ہے مضبوط تنے پر کھڑا ہو جائے گا۔ یہ ساری چیزیں مل کر اس کو مضبوط درخت بنا دیں گی۔ اور فرمایا کہ ’’پھر پھل لانے کے وقت (ایک درخت جب بڑا ہو گیا تب اسے پھل لانے کا وقت آ گیا اور پھل لانے کے وقت) ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209حاشیہ)
پھر جب ایسا مضبوط ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی نازل ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اس درخت کو پھل لگاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فیض سے فیض پاتا ہے۔ پس ہمیں عاجزی بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی سے ہم نفس کی قربانی کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ اپنے ایمان میں ترقی کر سکتے ہیں۔ لغویات جنہوں نے آجکل ہمیں گھیرا ہوا ہے اور ہر گھر میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کی صورت میں موجود ہیں ان سے بچ سکتے ہیں اور اپنے ایمان میں ترقی کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے اور تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھل پھول لانے والی شاخیں بن سکتے ہیں۔ اور اپنی بھی اور اپنی نسلوں کی بھی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن سکتے ہیں۔ ایک موقع پر آپ نے سلسلہ کے روشن مستقبل کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ: ’’یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعے پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خدا تعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے۔‘‘
پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری حالت ایسی ہے کہ ہم شیطان سے جنگ کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ فرمایا: ’’مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے۔ اب تھوڑا زمانہ ہے ابھی ثواب ملے گا‘‘(ثواب لینے کا تو تھوڑا زمانہ ہے) ’’لیکن عنقریب وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر کے دکھائے گا۔ وہ وقت ہو گا کہ ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا۔‘‘ جب سورج کی طرح روشن ہو جائے گا تو اس وقت تو لوگ ایمان لائیں گے ہی لیکن وہ ثواب کاموجب نہیں ہوگا۔ ’’اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کے مصداق ہو گا‘‘۔ گو قبولیت تو ہو گی لیکن وہ معیار نہیں ہوں گے جو آج ہیں جبکہ دنیا ہمیں کچھ نہیں سمجھتی۔ فرمایا ’’اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے۔ وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس کے دنیاوی کاروبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کو گالیاں سننی پڑیں گی۔‘‘(اور آجکل بہت سارے ممالک میں یا خاص طور پر مسلمان ممالک میں یہ ہو رہا ہے۔) ’’لعنتیں سنے گا۔ مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ملے گا۔ لیکن جب دوسرا وقت آیا اور اس زور کے ساتھ دنیا کا رجوع ہوا جیسے ایک بلند ٹیلے سے پانی گرتا ہے اور کوئی انکار کرنے والا نظر نہ آیا اس وقت اقرار کس پائے کا ہو گا؟ اس وقت ماننا شجاعت کا کام نہیں۔ ثواب ہمیشہ دکھ ہی کے زمانے میں ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کر کے اگر مکّہ کی نمبرداری چھوڑ دی(مکہ کے سردار بن سکتے تھے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک دنیا کی بادشاہی تھی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کمبل پہن لیا‘‘ (یعنی اسلام قبول کیا تو عاجزی، غربت اور تقریباً مسکینی کی حالت ہو گئی اور اتنی دولت تو نہیں رہی) اور فرمایا کہ ’’ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم (کہ اب جو بھی ہونا ہے ہو جائے ہم نے کشتی دریا میں ڈال دی ہے) کا مصداق ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا تو کیا خدا تعالیٰ نے ان کے اجر کا کوئی حصہ باقی رکھ لیا؟ ہرگز نہیں۔ جو خدا تعالیٰ کے لئے ذرا بھی حرکت کرتا ہے وہ نہیں مرتا جب تک اس کا اجر نہ پالے۔ حرکت شرط ہے۔‘‘ (خود عمل کرنا ضروری ہے، خود آگے بڑھنا ضروری ہے پھر اللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔) ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف معمولی رفتار سے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’ایمان یہ ہے کہ کچھ مخفی ہو تو مان لے۔ جو ہلال کو دیکھ لیتا ہے وہ تیز نظر کہلاتا ہے۔‘‘ (جو پہلے دن کے چاند کو دیکھتا ہے یا پہلے دو تین دن کے چاند کو دیکھ لے اسی کی تیز نظر ہوتی ہے۔) ’’لیکن چودھویں کے چاند کو دیکھ کر شور مچانے والا (کہہ دے کہ میں نے چاند دیکھ لیا تو وہ) دیوانہ کہلائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 25۔ 26۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ کرے کہ ہم اپنے ایمانوں کو مضبوط تر کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اپنے عمل سے دنیا کو سچائی کا راستہ دکھانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جو ہم پر احسانات کئے ہیں ان کا حقیقی رنگ میں شکر ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اگر آپ کے گھروں کی آبادیاں بڑھی ہیں اگر آپ کے مال بڑھے ہیں، جماعت کو ظاہری عمارتوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے تو یقینا ان باتوں پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے باپ دادا کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی نیکی کی وجہ سے یہ فضل فرمایا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جاری رکھنے کے لئے ان نیکیوں میں بڑھنا اور اپنی حالتوں کو پہلے سے بہتر کرنا بھی ضروری ہے۔
ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں کو جو احمدیت میں شامل ہوئے، چاہے پیدائشی ہیں، چاہے بعد میں بیعت کر کے آنے والے ہیں، چاہے ہجرت کر کے آنے والے ہیں یا یہاں کے رہنے والے ہیں سب کو ان باتوں پر غور کرنا ہو گا کہ اب انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت میں آنے کا حق ادا کر سکیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف ارشادات کے حوالہ سے نیکی اور تقویٰ پر قائم ہونے، لوگوں سے احسان کا سلوک کرنے، اخلاق میں بہتری پیدا کرنے، تبلیغ کرنے اور ایمانی ترقی کے لئے لغویات سے بچنے وغیرہ امور کی بابت اہم نصائح
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کیں، بہت لمبی لمبی دعائیں کیں، بڑی دعائیں کیں اور قبول نہیں ہوئیں اپنے دلوں کو ٹٹولیں، جائزے لیں کہ کہیں کوئی مخفی شرک تو نہیں۔ کسی قسم کی بدعات میں تو ملوث نہیں۔ یا اور ایسی باتیں تو نہیں ہو رہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
فرمودہ مورخہ06 مئی 2016ء بمطابق 06 ہجرت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدنصرت جہاں، ڈنمارک
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔