مسجد محمود (مالمو)۔ مساجد کی ضرورت، اہمیت، غرض و غایت اور تقاضے
خطبہ جمعہ 13؍ مئی 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ: 18)
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْا َرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ۔ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْا ُمُوْرِ (الحج: 42)
الحمد للہ آج اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ سویڈن کو اپنی دوسری مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس کا نام مسجد محمود رکھا گیا ہے۔ سب مردو زن نے اس مسجد کی تعمیر میں ماشاء اللہ بڑے اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ایک بڑا منصوبہ تھا جبکہ یہاں کی جماعت چھوٹی سی جماعت ہے اور اس لحاظ سے ان کے لئے یہ واقعی بہت بڑا منصوبہ تھا۔ کئی بیروزگار بھی ہیں یہاں، بوڑھے بھی ہیں، بچے بھی ہیں، خانہ دار عورتیں بھی ہیں۔ لیکن جہاں کمانے والوں نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کی ہیں اور اس مسجد کی تعمیر میں حتی المقدور مالی قربانیاں پیش کی ہیں وہاں عورتیں، بچے بھی پیچھے نہیں رہے اور اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی مثال قائم کی ہے۔ کون ہے جس کی خواہشات نہیں ہیں؟ کون ہے جس کی ضروریات نہیں؟ اور اس زمانے میں جب بے شمار دنیاوی اور مادی چیزیں توجہ کھینچ رہی ہیں، احمدیوں کی مالی قربانی دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ صرف ایک مسجد کی تعمیر کا سوال نہیں ہے۔ مساجد کی تعمیر، نماز سینٹرز کی تعمیر و خرید، مشن ہاؤسز کی تعمیر اور خرید کے منصوبے مسلسل جاری ہیں اور اس کے علاوہ بیشمار اَور اخراجات ہیں اور دنیا میں ہر جگہ یہ کام ہو رہے ہیں۔ اور پھر دوسرے چندے بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اپنی ضروریات اور تعمیرات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ نسبتاً بہتر حالت میں رہنے والے احمدی غریب ملکوں کے رہنے والے احمدیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی قربانیاں دے رہے ہیں یا غریب ملکوں کے رہنے والے احمدیوں کی معاشی حالات کی وجہ سے قربانیوں کے باوجود جو کمی رہ جاتی ہے اسے بھی بہتر حالت میں رہنے والے احمدی پورا کر کے ان ملکوں کی جماعتی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ تو بہرحال جماعت احمدیہ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مزاج ہے کہ مالی قربانیاں کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور جماعت کی خاطر، خدا تعالیٰ کی خاطر خرچ کرنے کی یہ وہ اسلامی روح ہے جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے ہم میں پھونکی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افراد جماعت کی مالی قربانیوں پر حیرت کا اظہار فرمایا تھا آج بھی جیسا کہ مَیں نے کہا یہ قربانیاں حیران کر دیتی ہیں۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ضروریات پوری فرماتا رہے گا۔
اس مسجد کی تعمیر اور اوپر دو کمروں کی رہائشگاہ، دفاتر، لائبریری وغیرہ پرجو مجھے اندازہ خرچ دیا گیا ہے وہ تقریباً ساڑھے سینتیس ملین کرونر کا ہے۔ یا 3.2ملین پاؤنڈ، سوا تین ملین پاؤنڈخرچ ہوئے ہیں۔ ہال اور مربی ہاؤس اور کچن وغیرہ بھی بنا ہے۔ ہال کی finishing اب ہو رہی ہے۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ اب کچھ خرچ مزید ہو گااور آٹھ دس ملین کرونر مزید خرچ ہوں گے۔
جیسا کہ جماعت احمدیہ کے اکثر منصوبوں میں یہ ہوتا ہے کہ کافی کام ہم وقار عمل کے ذریعہ سے بھی کر لیتے ہیں اور اس لحاظ سے اخراجات میں کچھ بچت بھی ہو جاتی ہے۔ رضاکار والنٹیئرز کام کر رہے ہیں۔ بعض نے مجھے بتایا کہ دن رات یہاں رہے یا تھوڑی دیر کے لئے گھر جاتے تھے اور پھر آ جاتے تھے تا کہ جلدی کام ختم ہو اور افتتاح ہو سکے۔ لیکن پھر بھی بعض جگہیں جیسا کہ مَیں نے کہا مکمل نہیں ہو سکیں۔ یہ ٹھیکیدار یا مزدور جب ایک دفعہ داخل ہو جائیں تو پھر اپنی مرضی سے نکلتے ہیں۔ یہاں کی انتظامیہ کو یہ مارجن (margin) رکھ کر پھر مجھے دعوت دینی چاہئے تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں اور ان لوگوں کو بہترین جزا دے جنہوں نے اس مسجد اور اس کمپلیکس کی تعمیر میں کسی طرح بھی حصہ لیا ہے۔ بڑی خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ علاقے کے لوگ بھی اس کی خوبصورتی کی تعریف کر رہے ہیں۔ دو دن پہلے اخبار اور ریڈیو کے نمائندے یہاں آئے ہوئے تھے۔ مجھے بھی انہوں نے یہی کہا کہ بڑی خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی ہے اور یہ اس علاقے کی خوبصورتی میں ایک بڑا اضافہ ہے۔
قربانی کی روح کا اظہار کس طرح بچوں، بڑوں نے کیا، اس کی چند ایک مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ایک گیارہ سال کی بچی نے مسجد کے چندہ کے لئے چند سو کرونر پیش کئے اور بتایا کہ کافی عرصے سے اس نے جو جیب خرچ جمع کیا تھا وہ مسجد کی تعمیر کے لئے ادا کرنے کے لئے آئی ہے۔
دس گیارہ سال کی ایک اَور بچی امیر صاحب کے پاس یا جو بھی چندے لینے والی انتظامیہ ہے ان کے پاس آئی اور پانچ سو کرونر مسجد کی تعمیر کے لئے ادا کئے اور بتایا کہ اس کے پاس دو طوطے تھے جنہیں فروخت کر کے اس نے یہ رقم مسجد کے لئے ادا کرنے کے لئے حاصل کی۔ یہاں ان ملکوں میں pet یا پالتو جانور رکھنے کا بڑا شوق ہے لیکن احمدی بچی نے یہاں کے بچوں کی طرح اپنے پالتو جانور کو ترجیح نہیں دی بلکہ خدا تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کو اپنے شوق پر ترجیح دی۔ حقیقتاً اصل شوق اور ترجیح اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ہے جو احمدی بچے ہی سمجھ سکتے ہیں جن کو بچپن سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے یہ ادراک پیدا ہو جاتا ہے کہ مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والا جنت میں اپنا گھر بناتا ہے۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ شہروں کی بہترین جگہیں مساجد ہیں۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ قبیلوں میں مساجد بناؤ۔ محلوں میں، شہروں میں مساجد بناؤ۔ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر جگہ مساجد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھ سے کئی جرنلسٹ سوال کرتے ہیں جہاں کہیں مسجد بنا کر جاؤ، کہ یہاں کیوں بنائی گئی؟ کیا خصوصیت ہے؟ کس لئے بنائی گئی؟ یہاں بھی لوگوں نے سوال کیا۔ نہ مالمو (Malmö) کی خصوصیت ہے نہ کسی اور جگہ کی۔ ہمارا کام مساجد بنانا ہے تا کہ جہاں کچھ احمدی ہیں جمع ہوں اور اپنا عبادت کا حق ادا کر سکیں۔ ایک بچی اعتکاف بیٹھی تھی اس نے یہاں انتظامیہ سے رابطہ کیا اور اپنا زیور مسجد کے لئے پیش کیا۔ بظاہر بہت قیمتی زیور نہ تھا مگر وہی زیور اُس کی کُل جمع پونجی تھی اور اس کے ماں باپ نے اسے تحفہ دیا تھا۔ اور اس بچی نے جماعت کے جس شخص کو زیور دیا اس کو تاکیدًاکہا کہ میرے والدین کو نہیں بتانا کہ یہ زیور میں نے چندے میں دے دیا ہے۔
ایک اور واقفہ نو بچی بھی ایسی ہے جس نے تمام زیور اور جیب خرچ کی صورت میں جو رقم اس کو ملی ہوئی تھی اس نے ایک لفافے میں ڈال کر اور خط لکھ کر اپنے والد کے تکیہ کے نیچے رکھ دیا کہ یہی سب کچھ میرے پاس ہے اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں جو مَیں اس مسجد کے لئے خدا کے حضور پیش کر سکوں۔ ایسی نوجوان بچیاں بھی ہیں جن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے زیور کے شوق پورے نہیں کئے تھے، اپنا سارا زیور مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دیا۔
بہت سی خواتین نے جن کے خاوندوں نے پہلے ہی اچھے وعدے کئے ہوئے تھے اور ادائیگی مکمل کر دی تھی، ان خواتین نے اپنے زیور اور جو جمع پونجی تھی وہ مسجد کی تعمیر کے لئے ادا کر دی۔
یہ بتایا گیا ہے کہ دو خواتین یہاں ایسی تھیں جنہیں مالی قربانی کی استطاعت نہیں تھی یا ان کے پاس کچھ نہیں تھا مگر پاکستان میں والد کی طرف سے انہیں موروثی مکان ملا تھا۔ انہوں نے وہ مکان فروخت کر کے اس کی کُل رقم جو وہاں لاکھوں میں تھی مسجد کی تعمیر میں ادا کر دی۔
ایک خادم نے مسجد میں ادائیگی کے لئے ایک بڑی رقم کا وعدہ کیا تھا جس میں ایک حصہ ان کی اہلیہ کی طرف سے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اس جوڑے کی علیحدہ ہو گئی۔ اور وعدہ جات کے سلسلہ میں جب ان سے رابطہ کیا گیا تو اس خادم کے والدنے کہا کہ اس خاتون سے علیحدگی ہو گئی ہے اس لئے وہ اپنا حصہ خود ادا کرے گی۔ لیکن اِس نوجوان نے کہا نہیں، کیونکہ میں نے اس کی طرف سے وعدہ کیا تھا اس لئے علیحدگی کے باوجود مَیں ہی یہ وعدہ پورا کروں گا اور مکمل ادائیگی کر دی۔ کہیں تو ایسے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں جو عورت کے جائز حق بھی نہیں دیتے اور قضا کے فیصلے نہ ماننے کی وجہ سے بعض دفعہ ان کو تعزیر ہو جاتی ہے حالانکہ وہ ان کا فرض ہوتا ہے اور عورت کا حق ہوتا ہے۔ اور کہیں ایسے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ علیحدگی کے باوجود وعدے پورے کر رہے ہیں اور حقیقت میں یہی لوگ ہیں جو مومن کہلانے کے مستحق ہیں۔ مالمو جماعت کے ایک خادم جو وقتی نوکری کرتے تھے، عارضی نوکری تھی، پارٹ ٹائم نوکری تھی۔ جب انہیں مسجد کا وعدہ بڑھانے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے اپنا وعدہ دس ہزار کرونر سے بڑھا کر ایک لاکھ کرونر کر دیا اور اگلے ہفتے ہی پچاس ہزار کرونر ادائیگی کے لئے رقم لے کر مسجد میں آ گئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اتنی رقم کہاں سے جمع کر لی؟ حالات تو ابھی فوراً ایسے نہیں ہیں اور وعدہ بھی کچھ عرصے کے لئے تھا۔ دو سال میں تقسیم تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے اپنی گاڑی بیچ دی ہے۔ کار بیچ کر اور جو بھی گھر میں اس کے علاوہ پیسے جمع تھے وہ ادائیگی کے لئے لے آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کے نتیجہ میں انہیں مستقل نوکری بھی عطا فرما دی اور پہلے سے بڑھ کر اچھی اور نئی گاڑی خریدنے کی بھی انہیں توفیق عطا فرمائی۔
یہ وہ قربانی کی روح ہے جو ہمیں بہت سے احمدیوں میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ یہاں مخصوص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف ملکوں میں، مختلف جگہوں میں پھیلے ہوئے بہت سے ایسے احمدی ہیں اور یہاں اَور بھی ہوں گے۔ یہ چند مثالیں مَیں نے دی ہیں۔ اس مسجد کی جگہ اور تعمیر اور گنجائش کے بارے میں بھی مختصر بتا دوں کہ مسجد کی تعمیر کا منصوبہ 1999ء میں شروع ہوا تھا جب کونسل کو درخواست پیش کی گئی تھی۔ اس کے لئے مکرم احسان اللہ صاحب نے پانچ ہزار مربع میٹر کا قطعہ زمین خرید کر جماعت کو پیش کیا تھا۔ یہ قطعہ ایک ٹیلے پر ہے اور ایک نمایاں جگہ پر واقع ہے۔ مین ہائی وے (Main Highway) یہاں قریب سے گزرتی ہے اور ناروے اور سویڈن کو پورے یورپ سے بھی ملاتی ہے اور اسی طرح سویڈن اور ناروے کے تمام بڑے شہروں کو بھی ملاتی ہے۔ بڑی مصروف ہائی وے ہے جہاں دُور سے ہی مسجد کی خوبصورت اور بلند عمارت ہر آنے جانے والے کو نظر آتی ہے اور توحید کا پیغام دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر احمدی اپنا حق تعمیر کے بعد بھی ادا کرے اور تبلیغ کے ذریعہ بھی یہ مسجد توحید پھیلانے کا ذریعہ ہمیشہ بنی رہے اور اس کی حقیقی خوبصورتی جو دینی تعلیم کی خوبصورتی ہے اور جس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے وہ روشن ہو کر چمکے۔
اس کمپلیکس کا کُل تعمیر شدہ رقبہ 2353مربع میٹر ہے۔ پانچ عمارات پر مشتمل ہے۔ بڑی عمارات ہیں۔ مسجد محمود main ہے۔ اس کا رقبہ 1494 مربع میٹرہے یعنی تقریباًپندرہ سو مربع میٹر ہے۔ سپورٹس ہال ساڑھے سات سو مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ اور عمارتیں ہیں۔ مسجد کے دو ہال ہیں۔ ایک اوپر، ایک نیچے۔ مردوں کے لئے اور عورتوں کے لئے۔ یہاں بعض سوال کرنے والے سوال کر دیتے ہیں کہ آپ عورتوں کو تو علیحدہ کر دیتے ہیں، mainمسجد میں رہنے نہیں دیتے۔ یہاں ان لوگوں کا یہ اعتراض بھی دُور ہو جاتا ہے جو اسلام پر اعتراض کرنے کے راستے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لئے بھی یہاں کافی جواب ہیکہ ایک ہی مسجد کے بلاک میں دونوں ہال ہیں اور ایک طرح کے ہال ہیں۔ ان ہالوں میں ہر ایک میں پانچ پانچ سو افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اسی طرح جو سپورٹس ہال ہے اس میں سات سو نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے سترہ سو(1700) لوگ اکٹھے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ آج تو باہر سے بہت سارے لوگ آئے ہوئے ہیں اس لئے مسجد بھری نظر آ رہی ہے لیکن عام حالات میں گنجائش کے لحاظ سے یہ بہت وسیع مسجد ہے۔ پورے ملک کی جماعت بھی اگر جمع ہو جائے تب بھی نصف جگہ نماز پڑھنے والوں کے لئے خالی رہے گی۔ ہالوں میں اوپر بھی خالی رہے گی، نیچے بھی خالی رہے گی۔ پس یہ یہاں کے احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تعداد بڑھائیں۔ آج تو افتتاح ہے۔ مَیں بھی آیا ہوں۔ لوگ بہت سارے باہر سے آئے ہیں اس لئے نظر آ رہا ہے کہ مسجد بھری ہوئی ہے اوپر بھی، نیچے بھی، باہر بھی لوگ بیٹھے ہیں۔ لیکن عمومی حالات میں جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ یہ مسجد اتنی بڑی ہے کہ سارے ملک کی جماعت جمع ہو جائے تب بھی آدھی مسجد خالی رہے گی۔ یہاں کے لوگوں کو اپنی تعداد بڑھانی چاہئے۔ یہاں کے لوگوں میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں انہیں دُور کریں اور انہیں دُور کر کے توحید کی طرف لائیں۔ ان لوگوں سے ہمدردی کا یہ تقاضا ہے اور ان کا یہ حق ہے کہ جو احسان یہاں کی حکومتوں نے اور عوام نے اس ملک کے رہنے والوں نے ہمیں جگہ دے کر کیا ہے یا آپ کو جگہ دے کر آپ پر کیا ہے اس کا بہترین بدلہ یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب لائیں۔ مسجد کی تعمیر کا حق بھی تبھی ادا ہو گا جب اس کو عبادت کرنے والوں سے زیادہ سے زیادہ آباد کریں گے۔ خود بھی یہاں آ کر اپنی نمازوں سے اس کو آباد کریں گے اور تبلیغ کر کے علاقے کے لوگوں کو بھی اسلام کی تعلیم سے متعارف کروائیں گے اور یہی بات ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ایک جگہ توجہ دلائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اِس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ (یعنی دوسرے مسلمان بھی آ جائیں گے اور یہاں کے مقامی لوگوں سے بھی تعداد بڑھے گی۔) فرمایا ’’لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا‘‘۔
اس شرط پر ہمیشہ ہر ایک کو غور کرنا چاہئے۔ نیت میں پورا اخلاص ہو اور کسی قسم کا شر اور فتنہ دلوں میں نہ ہو اور خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربانیاں کی جائیں اور مسجد بنائی جائے اور مسجد کو آباد کیا جائے تو پھر بے انتہا برکت پڑتی ہے۔
فرمایا کہ ’’جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔ اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اس مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں‘‘۔ فرمایا کہ ’’جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے‘‘۔ یہ بڑی اہم بات ہے جو ہر جگہ کے رہنے والوں کو یاد رکھنی چاہئے، چاہے وہ ناروے کے ہیں، ڈنمارک کے ہیں یا دنیا کے دوسرے ملکوں کے ہیں کہ مسجد کی آبادی کا مقصد بھی جماعت کی اِکائی ہے۔ پس ہمیں اس اِکائی کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے‘‘۔ اتفاق میں، اتحاد میں، محبت میں، پیار میں بڑھیں ’’اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔‘‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑائیاں، جھگڑے، بدظنیاں یہ ختم کریں۔ فرمایا کہ ’’ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد7صفحہ120,119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے تو اس لئے کہ اسلام کی تعلیم کو جو مسلمان نہ صرف بھول چکے ہیں بلکہ اس میں مختلف قسم کی بدعات پھیلا کر، فرقہ بازیوں میں لگ کر، اسلامی قدریں تو ایک طرف رہیں اخلاقی قدریں بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ اس سے بچ کر ہمیں ذاتیات کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں دوسروں سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور ایک اکائی ہمیں بننا چاہئے اور آپس میں اتفاق اور اتحاد پیدا کریں۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلیں۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نمازوں اور مساجد کے حوالے سے جو ہمیں نصیحت فرمائی ہے وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’نماز میں جو جماعت کا ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں۔‘‘ جب صف بنا کر کھڑے ہوں تو برابر پاؤں رکھیں۔ ایڑھیاں ایک لائن میں ہوں۔ ایک سیدھ میں ہوں۔ ’’اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے ملے ہوئے ہوں‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں‘‘۔ ایسے سیدھے ہوں کہ لگے کہ ایک ہی انسان ہیں۔ ’’اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں‘‘۔ کسی میں زیادہ روحانیت ہے کسی میں کم ہے تو آپ نے فرمایا کہ جو روحانیت کا نور ہے ایک دوسرے میں سرایت کرے۔ ’’وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے‘‘۔ یہ خواہش تھی آپ کی۔ خودی اور خود غرضی بالکل ختم ہو جائے اور ایک ہو جاؤ۔ فرمایا کہ ’’یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلے کی مسجد میں اور ہفتے کے بعد شہرکی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں اور کُل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد20صفحہ282,281)
نماز سے لے کے حج تک جتنے بھی احکام ہیں، عبادت ہے، ان کا مقصد کیا ہے؟ تا کہ مسلمان ایک قوم بن جائیں۔ اب بدقسمتی سے سب سے زیادہ تفرقہ اور پھوٹ اور فساد اس وقت مسلمانوں میں ہے۔ پس ہم احمدی ہیں جنہوں نے یہ نمونے قائم کرنے ہیں اور دنیا کو اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتانا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔‘‘ آپ نے مسلمانوں کی جو مساجد تھیں ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیا داروں نے بھی ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا۔ یعنی ضرر رساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔‘‘ (ملفوظات جلد8صفحہ170۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یقینا قربانی کا جذبہ جو مردوں عورتوں اور بچوں میں ہے اس مسجد کی تعمیر کے لئے نظر آتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کی بے لوث اور معصومانہ قربانیاں جو ہر بناوٹ سے پاک ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور تعلیم نے ہمیں عمومی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اِدراک دیا ہے اور ہماری مسجد بنانے کی سوچ دنیاداری کی غرض سے نہیں ہے۔ خالصۃً عبادت کرنے والوں کے لئے مسجد بنائی گئی ہے۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی حصول کے لئے ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کئے ہوئے ہر کام کے بعد یہ فکر کرنی چاہئے کہ کسی ایک مقصد کو حاصل کرنے کے بعد ہم اپنی زندگی کے بنیادی مقصد سے لاپرواہ نہ ہو جائیں۔ یہی نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کر لی تو ہمارے فرائض ادا ہو گئے اور سب کام ختم ہو گئے۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد ہمارا اصل کام اب شروع ہوا ہے۔ یہاں رہنے والوں کو اور ہر ایک کو یہ یاد رکھنا چاہئے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) یعنی ہم نے جن اور انس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا ہے ہم نے اس عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور عبادت کا حق سب سے زیادہ مسجدوں کی آبادی بڑھانے سے ہی ادا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں پہلے مَیں بیان کر آیا ہوں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے پیار کا اظہار دیکھیں، ان کو انعامات سے نوازنے کا اظہار دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ نماز باجماعت مسجد میں آ کر پڑھنے والے کو ستائیس گنا ثواب ہوتا ہے۔ (بخاری کتاب الصلاۃ باب فضلا صلاۃ الجماعۃ حدیث: 645)
پھر ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حضرت ابوہریرۃؓ نے روایت کی ہے کہ آدمی کی باجماعت نماز اس کی اس نماز سے پچیس گنا (بعض جگہ پر ستائیس گنا بھی ہے) بہتر ہے جو وہ اپنے گھر میں یا بازار میں پڑھے۔ اور یہ اس لئے کہ جب وہ وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر وہ مسجد کی طرف نکلے اس حال میں کہ اسے صرف نماز ہی نکال رہی ہے تو جو قدم بھی وہ اٹھائے گا اس کے ایک قدم پر اس کا ایک درجہ بلند کیا جائے گا اور دوسرے پر ایک گناہ دور کر دیا جائے گا۔ اور جب وہ نماز پڑھے گا تو جب تک وہ اپنی جائے نماز میں رہے گا ملائکہ (فرشتے) اس کے لئے دعائے رحمت کرتے رہیں گے۔ کیا دعا کریں گے؟ وہ کہیں گے کہ اے اللہ اس پر خاص رحمت فرما۔ اس پر رحم فرما۔ اور فرمایا تم میں سے ایک آدمی نماز ہی میں ہوتا ہے جب تک کہ وہ نماز کا انتظار کرے (بخاری کتاب الصلاۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث: 647)۔ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ انتظار کا ثواب نہیں دیتا۔ انتظار کا بھی ثواب ہے جب مسجد میں آ کر نماز کے لئے انتظار کر رہا ہوتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسجد کو صبح شام جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں اپنی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے۔ (بخاری کتاب الصلاۃ باب فضل من غدا الی المسجد ومن راح حدیث: 662)
پس مسجدوں میں آنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہو کر رہتے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کی شکرگزاری آپس میں پہلے سے بڑھ کر پیار اور محبت کے اظہار سے بھی ہم نے کرنی ہے۔ آپ سب نے کرنی ہے جو یہاں رہنے والے ہیں اور جو دنیا میں کہیں بھی رہنے والے احمدی ہیں۔ جب مسجدوں میں جائیں تو مسجدوں کے یہ حق بھی ادا کریں۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد آپ نے پہلے سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم کے اپنے نمونے لوگوں کو دکھانے ہیں اور اس سے ان کو آگاہ کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مسجد مسلمان بنانے کا ذریعہ بنے گی۔ اگر ہمارے عمل اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں، اگر ہم اسلام کا پیغام نہیں پہنچا رہے تو لوگ مسجد کو دیکھ کر بیشک اس طرف متوجہ ہوں گے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہائی وے پر واقع ہے اور چمکدار گنبد دور سے لوگوں کی توجہ کھینچتا ہے لیکن یہ توجہ صرف ظاہری حسن کی طرف ہو گی۔ اصل حسن تو مسجد کا اس وقت نظر آئے گا جب اس میں عبادت کرنے والے اس مسجد میں عبادت کرنے کی وجہ سے روحانی حسن دکھائیں گے۔ پس جو وقتی جوش سے قربانیاں کی ہیں یقینا وہ بھی قابل قدر ہیں۔ بعض میں وقتی جوش تھا، بعضوں کی کئی سال پہ پھیلی ہوئی قربانیاں ہیں خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی طرف سے۔ لیکن مسلسل قربانیوں کا دَور تو اب شروع ہوا ہے کہ اس مسجد کے ظاہری حسن کو روحانی حسن میں بدل دیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے جو ہم نے کرنا ہے، یہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہے کہ مسجد کا جو ظاہری حسن ہے اس کو اندرونی اور روحانی حسن میں بدلنا ہے اور روحانی حسن ایک تسلسل چاہتا ہے، مسلسل کوشش چاہتا ہے۔ پس ہر احمدی روحانی حسن کے اس تسلسل کو قائم رکھنے کا عہد کرے۔
یہ آیات جو میں نے شروع میں تلاوت کی ہیں اس میں پہلی آیت جو سورۃ توبہ کی ہے اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ پس مسجد بنانے کا مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے جب انسان ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ ہر چیز کا دینے والا خدا تعالیٰ کو سمجھے۔ پھر آخرت پر ایمان ہے اس کی تفصیلات ہیں۔ بہت ساری چیزیں آخرت کے بارے میں آتی ہیں کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے۔ لیکن اگر انسان صرف اس بات پر ہی غور کر لے تو پھر دنیاوی معمولی باتوں کے حصول پر اپنی سب طاقتیں خرچ کرنے کی بجائے، اپنا زور لگانے کی بجائے آخرت کے انعامات کا وارث اپنے آپ کو بنانے کے لئے کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا (یوسف: 110) اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا یقینا زیادہ بہتر ہے۔ اب ایک گھر تو مسجد کی تعمیر کر کے ایک مومن بناتا ہے لیکن اس گھر کی آبادی، مسجد کی آبادی تقویٰ سے منسلک ہے۔ پس مسجد کی تعمیر کا حق بھی تقویٰ پر چلنے سے ادا ہو گا اور تقویٰ کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق، (لوگوں کے حق تلف کرنا، حق مارنا) ریا، عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے مقابلہ میں اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے‘‘۔ گندے اور فضول اخلاق جو ہیں، بداخلاقیاں جو ہیں ان کو چھوڑے اور عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ اس میں ترقی کرے۔ فرمایا ’’لوگوں سے مروت، خوش خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔‘‘ یہ ہیں اخلاق۔ یہ ہے تقویٰ کہ لوگوں سے بھی محبت اور پیار سے پیش آؤ۔ خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ ان سے ہمدردی کرو قطع نظر اس کے کہ وہ کون ہے۔ ہر ایک سے چاہے وہ مسلمان ہے، غیر مسلم ہے، اپنا ہے، غیر ہے۔ ’’خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔‘‘ ایسے کام وہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کی نگاہ اس پر پڑے۔ فرمایا ’’ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں‘‘ جن میں یہ سب باتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ ’’وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ایک خُلق کسی میں فرداً فرداً ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے‘‘۔ یہ سارے تمام اخلاق جو اچھے اخلاق ہیں وہ جب جمع ہو جائیں تو پھر متقی ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک نیکی کر لی۔ چندہ دے دیا، نیکی ہو گئی۔ نماز پڑھ لی، نیکی ہو گئی۔ نہیں۔ چندے بھی، نمازیں بھی، لوگوں کی خدمت بھی، لوگوں سے ہمدردی بھی، اچھے اخلاق بھی، اچھی بات بھی، یہ ہے متقی کی نشانی۔ فرمایا ’’جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں (متقی نہیں ہو سکتا)‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ400۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں۔ اس مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے ایک بڑا انقلاب ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔
پھر قیام نماز کی طرف توجہ دلائی ہے اور قیام نماز پانچ وقت نماز باجماعت ہے۔ پس اس مسجد کی خوبصورتی بھی نمازیوں کی تعداد پر ہے۔ ایسے نمازیوں کی تعداد پر جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں یا کرنے والے ہیں۔ پھر زکوٰۃ کی طرف توجہ دلا کر غریبوں کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلا دی۔ ایک حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ نمازوں کے قیام اور عبادتوں کی طرف توجہ دینے کے ساتھ لازماً اپنے مال کو پاک کرنے کی بھی فکر کرے گا اور مال پاک کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے خرچ کرنا ہے اور مالی قربانی کا جو صحیح ادراک ہے وہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ احمدی کے علاوہ اَور کسی کو نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ جہاں زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے، اپنے مال خرچ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور زکوٰۃ کو مخصوص کر کے بھی توجہ دلائی ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جماعت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور یہ اسلام کا بنیادی حکم ہے اور اس کو چھوڑ کر چندوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ خیال غلط ہے۔ زکوٰۃ جس پر فرض ہے اس کو توجہ دلائی جاتی ہے اور بار بار دلائی جاتی ہے۔ مَیں کئی خطبات میں گزشتہ کئی سالوں سے اس پر بڑی تفصیل سے بعض موقعوں پر روشنی ڈال چکا ہوں اور پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم توجہ نہ دلائیں جبکہ زکوٰۃ کا تو خلافت کے نظام کے ساتھ بھی ایک لحاظ سے بڑا گہرا تعلق ہے کہ آیت استخلاف جس میں خلافت کے نظام کی ہدایت اور پیشگوئی فرمائی گئی ہے، اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیام نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور اگر دوسرے چندوں اور تحریکات کے بارے میں کہا جاتا ہے تو جیسا کہ میں نے کہا کہ زکوٰۃ ہر ایک پر فرض نہیں ہے۔ اس کا ایک نصاب ہے۔ اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ اور نہ ہی اس سے تمام اخراجات پورے ہو سکتے ہیں اور جتنے وسیع کام اب جماعت کے دنیا میں ہو رہے ہیں ان کے لئے دوسرے چندوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اور وصیت اور باقاعدگی کے ساتھ اپنے اوپر فرض کر کے ماہوار جماعتی چندہ دینے کا نظام جو ہے یہ نظام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ ہے۔
بہرحال اس وقت مَیں اس کی تفصیلات میں نہیں جا رہا۔ میں نے اس کا ضمناً ذکر کر دیا۔ جو میں بتانا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مساجد کی تعمیر کے ساتھ ہماری ذمہ داریاں بڑھتی ہیں اور ان کو ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑ کر بھی یہ توجہ ہو گی، آخرت پر نظر رکھتے ہوئے بھی یہ توجہ ہو گی، اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھا کر اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بھی جب کوشش کریں گے تو پھر ہی حق ادا ہو گا۔ نمازوں کے قیام کے ذریعہ بھی اور مخلوق کی خدمت کے ذریعہ بھی اس کا حق ادا ہو گا۔ دین کو تمکنت اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی ملنی تھی اور ملی ہے کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی حیثیت سے دنیا میں آئے اور آپ خاتم الخلفاء بھی ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہی اس لئے کہ اسلام کی تعلیم کے حقیقی نمونے قائم ہوں۔ اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کریں اور دنیا کو بتائیں کہ اسلام کی خوبصورتی کیا ہے۔ پس آپ کے آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا اسلام کی خوبصورتی دیکھ سکے۔
اور دوسری آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے وہ سورۃ حج کی آیت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ جب تمکنت عطا فرماتا ہے تو وہ جن خصوصیات کے حامل بنتے ہیں ان میں نماز کا قیام بھی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے۔ نیک باتوں کو پھیلانا بھی ہے اور بری باتوں سے روکنا بھی ہے۔ اس زمانے میں جس کے ذریعہ دنیا میں تمکنت ملنی تھی جیسا کہ مَیں نے کہا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ملنی تھی۔ خلافت کا نظام آپ کے ذریعہ سے ہی اس زمانے میں جاری ہونا تھا اور ہؤا ہے اور آج تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس میں خلافت کا وہ نظام جاری ہے جو صحیح اسلامی تعلیم کا پرچار کر رہا ہے، اسے پھیلا رہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ جو عبادتوں کے قیام کے لئے مسجدیں بنا رہا ہے نہ کہ فتنہ و فساد کی جگہیں۔ اور یہ چیزیں تمکنت کا باعث ہیں یعنی اسلام کی تعلیم کو پھیلا کر جو عزت اور وقار اور طاقت پیدا کر رہی ہیں یا ان سے اسلام کو عزت وقار اور طاقت مل رہی ہے۔
پس ہر احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس طرف سوچے، اس مقصد کو سمجھے اور اس کے لئے اپنے عَہدوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی سوچوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں۔ اس آیت کی روشنی میں اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے سچے بندے اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ سے مدد ملتی ہے۔ پھر اگر انسان سچا ہے، صحیح مومن ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد ملتی ہے۔ وہ اپنی تمام طاقتیں اور صلاحیتیں انسانیت کی بھلائی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ یہ سچے بندوں، مومنوں کی نشانی ہے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے حق بھی ادا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے اور ایمان میں بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ تقویٰ سے زندگی بسر کرنے والے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم ان باتوں کو سمجھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ آپس کی محبت میں بھی بڑھنے والے ہوں۔ مسجد کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور تبلیغ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ صرف مالی قربانی کا وقتی جوش ہی ہم میں نہ ہو صرف بلکہ روحانی ترقی کے مستقل جوش کو اپنی حالتوں میں طاری کرنے والے اور جاری کرنے والے ہوں تا کہ اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ جو ہم نے عہد بیعت کیا ہے اسے پورا کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
الحمد للہ آج اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ سویڈن کو اپنی دوسری مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس کا نام مسجد محمود رکھا گیا ہے۔ سب مردو زن نے اس مسجد کی تعمیر میں ماشاء اللہ بڑے اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے۔ جہاں کمانے والوں نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کی ہیں اور اس مسجد کی تعمیر میں حتی المقدور مالی قربانیاں پیش کی ہیں وہاں عورتیں، بچے بھی پیچھے نہیں رہے اور اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی مثال قائم کی ہے۔
جماعت احمدیہ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مزاج ہے کہ مالی قربانیاں کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور جماعت کی خاطر، خدا تعالیٰ کی خاطر خرچ کرنے کی یہ وہ اسلامی روح ہے جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے ہم میں پھونکی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افراد جماعت کی مالی قربانیوں پر حیرت کا اظہار فرمایا تھا آج بھی یہ قربانیاں حیران کر دیتی ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر اور اوپر دو کمروں کی رہائشگاہ، دفاتر، لائبریری وغیرہ پرجو مجھے اندازہ خرچ دیا گیا ہے وہ تقریباً ساڑھے سینتیس ملین کرونر کا ہے۔
اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں اور ان لوگوں کو بہترین جزا دے جنہوں نے اس مسجد اور اس کمپلیکس کی تعمیر میں کسی طرح بھی حصہ لیا ہے۔ بڑی خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ علاقے کے لوگ بھی اس کی خوبصورتی کی تعریف کر رہے ہیں۔ مسجد محمود (مالمو) کی تعمیر کے سلسلہ میں افراد جماعت کے مالی قربانی کے واقعات کا روح پرور تذکرہ۔
مسجد کی تعمیر کا حق بھی تبھی ادا ہو گا جب اس کو عبادت کرنے والوں سے زیادہ سے زیادہ آباد کریں گے۔ خود بھی یہاں آ کر اپنی نمازوں سے اس کو آباد کریں گے اور تبلیغ کر کے علاقے کے لوگوں کو بھی اسلام کی تعلیم سے متعارف کروائیں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے ہماری جماعت کے لئے مساجد کی ضرورت، اہمیت اور اس کی غرض و غایت اور تقاضوں کا تذکرہ اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو اہم نصائح۔
یہی نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کر لی تو ہمارے فرائض ادا ہو گئے اور سب کام ختم ہو گئے۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد ہمارا اصل کام اب شروع ہوا ہے۔
اس مسجد کی تعمیر کی شکرگزاری آپس میں پہلے سے بڑھ کر پیار اور محبت کے اظہار سے بھی ہم نے کرنی ہے۔ آپ سب نے کرنی ہے جو یہاں رہنے والے ہیں اور جو دنیا میں کہیں بھی رہنے والے احمدی ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد آپ نے پہلے سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم کے اپنے نمونے لوگوں کو دکھانے ہیں اور اس سے ان کو آگاہ کرنا ہے۔ اصل حسن تو مسجد کا اس وقت نظر آئے گا جب اس میں عبادت کرنے والے اس مسجد میں عبادت کرنے کی وجہ سے روحانی حسن دکھائیں گے۔ اس مسجد کے ظاہری حسن کو روحانی حسن میں بدل دیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے جو ہم نے کرنا ہے، یہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہے کہ مسجد کا جو ظاہری حسن ہے اس کو اندرونی اور روحانی حسن میں بدلنا ہے اور روحانی حسن ایک تسلسل چاہتا ہے، مسلسل کوشش چاہتا ہے۔ پس ہر احمدی روحانی حسن کے اس تسلسل کو قائم رکھنے کا عہد کرے۔
اس مسجد کی خوبصورتی بھی نمازیوں کی تعداد پر ہے۔ ایسے نمازیوں کی تعداد پر جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں یا کرنے والے ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جماعت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور یہ اسلام کا بنیادی حکم ہے اور اس کو چھوڑ کر چندوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ خیال غلط ہے۔ زکوٰۃ جس پر فرض ہے اس کو توجہ دلائی جاتی ہے اور بار بار دلائی جاتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم توجہ نہ دلائیں جبکہ زکوٰۃ کا تو خلافت کے نظام کے ساتھ بھی ایک لحاظ سے بڑا گہرا تعلق ہے کہ آیت استخلاف جس میں خلافت کے نظام کی ہدایت اور پیشگوئی فرمائی گئی ہے، اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیام نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور اگر دوسرے چندوں اور تحریکات کے بارے میں کہا جاتا ہے تو جیسا کہ میں نے کہا کہ زکوٰۃ ہر ایک پر فرض نہیں ہے۔ اس کا ایک نصاب ہے۔ اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ اور نہ ہی اس سے تمام اخراجات پورے ہو سکتے ہیں اور جتنے وسیع کام اب جماعت کے دنیا میں ہو رہے ہیں ان کے لئے دوسرے چندوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اور وصیت اور باقاعدگی کے ساتھ اپنے اوپر فرض کر کے ماہوار جماعتی چندہ دینے کا نظام جو ہے یہ نظام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ ہے۔
دین کو تمکنت اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی ملنی تھی اور ملی ہے کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی حیثیت سے دنیا میں آئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہی اس لئے کہ اسلام کی تعلیم کے حقیقی نمونے قائم ہوں۔ اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کریں۔ خلافت کا نظام آپ کے ذریعہ سے ہی اس زمانے میں جاری ہونا تھا اور ہؤا ہے اور آج تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس میں خلافت کا وہ نظام جاری ہے جو صحیح اسلامی تعلیم کا پرچار کر رہا ہے، اسے پھیلا رہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ جو عبادتوں کے قیام کے لئے مسجدیں بنا رہا ہے نہ کہ فتنہ و فساد کی جگہیں۔ اور یہ چیزیں تمکنت کا باعث ہیں۔
فرمودہ مورخہ13مئی 2016ء بمطابق 13 ہجرت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدمحمود۔ مالمو (Malmö)۔ سویڈن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔