خلافت احمدیہ۔ کامیاب دورۂ یورپ
خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج 27؍مئی ہے اور جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے اس دن جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلافت کا آغاز ہوا اور اس کی مناسبت سے جماعت میں یہ دن یوم خلافت کے طور پر منایا جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے وعدے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدرت ثانیہ کے متعلق دی ہوئی خوشخبری پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بکھرنے سے بچا لیا۔ ہمیں ایک لڑی میں پرو دیا۔ اور اس حوالے سے ہم یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ ہم خلافت احمدیہ کے قیام اور ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے بھی تیار رہیں گے۔ (انشاء اللہ)
جماعت احمدیہ کی گزشتہ 108سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس عہد کو پورا کرنے کے لئے ایک کے بعد دوسری نسل نے ثبات قدم کے ساتھ قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جماعت کے ہر فرد کو جو اس وقت جماعت میں ہے یا آئندہ انشاء اللہ شامل ہو گا ہمیشہ اس عہد کو نبھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعثت کا مقصد بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ادا کرنا اور بندوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانا بتایا ہے۔ رسالہ الوصیت میں بھی خلافت کے قیام کی خوشخبری عطا فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان باتوں کو ہی ہمیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہدایت فرمائی ہے۔ چنانچہ رسالہ الوصیت میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کے منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اُس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔‘‘
فرمایا: ’’کینہ وری سے پرہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 308)
پس اگر ہم توحید پر قائم رہیں اور بنی نوع کی ہمدردی میں ترقی کرتے رہیں، خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہیں تو پھر وہ تمام ترقیات جن کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے انہیں بھی ہم دیکھنے والے ہوں گے۔ اس بات کی بھی اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں خوشخبری دی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)
پس اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت نے ترقی کرنی ہے یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے ہوں گے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ دنیا کی نظر ہماری طرف ہے اللہ تعالیٰ نے بھی یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے کہ توحید کو قائم کریں۔ خود بھی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں اور دنیا کو بھی اپنے پیدا کرنے والے واحد و یگانہ خدا کے قریب کرنے کی کوشش کریں اور انسانیت کی قدروں کو قائم کریں۔ گزشتہ دنوں میں سکینڈینیوین (Scandinavian) ممالک کے دورے پر تھا تو وہاں بعض اخباری نمائندوں نے اور دوسرے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی یہ سوال پوچھا کہ تمہارے مقاصد کیا ہیں۔ میں ان کو یہی بتاتا رہا کہ خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے مقاصد وہی ہیں جس کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تھا اور وہ یہی ہیں کہ بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے پوری کوشش کرنا اور بنی نوع انسان کے حق ادا کرنا۔ اس سے زیادہ ہمارا کوئی مقصدنہیں ہے۔ کیونکہ آج کی دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا خدا تعالیٰ کو بھول رہی ہے اور عموماً خدمت انسانیت کے نام پر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے خدمت کی جاتی ہے۔ جس سے مزید بے چینیاں پیدا ہو رہی ہیں اور ملکوں اور قوموں کے تعلقات میں دُوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس دَور میں یہ بات دنیاداروں کو بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے کہ بغیر اپنے مفادات کے صرف خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کس طرح تم لوگ یہ کام کر سکتے ہو۔ ابھی شاید ان لوگوں کا، دنیا داروں کا خیال ہوتا ہے کہ محبت پیار کے نام پر تم احمدی لوگ جو ہو، دوسروں کے قریب آ رہے ہو یا لوگوں کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہو اور بعد میں جب تمہاری طاقت ہو جائے، حکومتوں پر قبضہ کرو تو شاید یہ تمہارا مقصد ہو جس کے لئے تم نے یہ طریق کار اختیار کیا۔ سٹاک ہوم (Stockholm) یونیورسٹی کے اسلامیات کے ایک پروفیسر نے بھی ایک موقع پر اس قسم کا سوال کیا تو مَیں نے اسے جو جواب دیا یہ جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس شعر میں ہے کہ ؎
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رِضوان یار
اور یہی خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کا مقصد ہے۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ساتھ بھی کافی انٹرویو ہوئے۔ غیروں کے ساتھ مالمو مسجد کے افتتاح کے علاوہ ڈنمارک اور سٹاک ہوم میں دو receptionsبھی ہوئیں جس میں اسلام اور قرآن کریم کی صحیح تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ اور خلفاء راشدین کے نمونوں کے حوالے سے باتیں ہوئیں تو اکثر نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتا چلا ہے اور ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ اور دنیا میں آجکل جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے مختلف جگہوں پر امن کے نام پر جو بھی مجالس ہوتی ہیں، کانفرنسیں ہوتی ہیں، سمپوزیم ہوتے ہیں ان میں لوگ یہی اظہار کرتے ہیں اور آج دنیا میں ایک ہی طرح اور ایک ہی موضوع پر اور اپنی پوری کوشش کے ساتھ مغرب میں بھی اور مشرق میں بھی شمال میں بھی جنوب میں بھی ہر جگہ یہی کوشش کی جارہی ہے اور وہ اس لئے کہ جماعت احمدیہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کی ہدایات پر کام کرتی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا اکثر لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ حقیقی تعلیم کا ہمیں اب پتا چلا ہے اور آج ہمیں جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے اسلام کی حقیقی تعلیم کا علم ہوا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری نظام خلافت نے نہ صرف ماننے والوں کی رہنمائی کی اور کرتا ہے یا خلافت رہنمائی کرتی ہے بلکہ دوسروں کو، غیروں کو، اسلام کے مخالفین کو یا اسلام سے خوف کھانے والوں کو بھی صحیح اسلامی تعلیم کے نمونے دکھاتی ہے۔ غیروں پر ہمارے فنکشن میں آ کر کیا اثر ہوتا ہے؟ اِس وقت اِس کے چندنمونے میں پیش کرتا ہوں۔ ڈنمارک میں ہوٹل میں ایک ریسیپشن (reception)تھی جس میں ممبر آف پارلیمنٹ بھی آئے تھے۔ وہاں کے کلچر اور مذہب کے منسٹر بھی تھے، میئر اور سیاستدان بھی، مختلف علمی شخصیات بھی اور ایمبیسیوں کے نمائندے بھی آئے تھے۔ انہوں نے اس فنکشن کو سنا، دیکھا اور بلا تخصیص ساروں نے اظہار کیا کہ ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم کا علم ہوا ہے۔
Sten Hoffman ایک ڈینش مہمان تھے۔ کہنے لگے کہ خلیفہ کی تقریر سن کر مجھے بہت زیادہ تسکین ہوئی اور خوشی ہوئی ہے کہ آج کے اس دور میں ایسے پیغام کی نہایت اشد ضرورت تھی۔ پھر کہنے لگے کہ اللہ کرے کہ سکینڈینیویامیں خلیفہ کے الفاظ بہترین رنگ میں سمجھے جائیں۔ پھر وہاں کا ڈنمارک کا ایک شہر ناکسکو ہے۔ وہاں سے کافی بڑی تعداد میں لوگ آئے ہوئے تھے۔ اس شہر کے میئر بھی، سیاستدان بھی اور دوسرے پڑھے لکھے لوگ بھی۔ وہاں کی کونسل کے ایک ممبر تھے، وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ کی تقریر بہت اثر رکھتی تھی۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ لاکھوں مسلمان بغیر کسی خوف کے محض دنیا میں امن کے قیام کی خاطر ایک روشن مینار کی طرح کھڑے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت احمدیہ سے منسلک ہیں۔ پھر ایک مہمان نے کہا: تقریر کے بعد میرے میز پر بیٹھے تمام لوگ اسلام کو صحیح سمجھنے کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ یقینا یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اسلام اس خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ڈینش لوگ تو اسلام کے ایک پہلو کو ہی جانتے ہیں۔ یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ اسلام کے اندر مختلف فرقے بھی موجود ہیں جو امن چاہتے ہیں۔ کہنے لگے میرے نزدیک یہ بتانا بہت ضروری ہے اور مجھے یقین ہے کہ آج اس تقریب میں شامل تمام مہمان ایک نئے عزم کے ساتھ گھر جائیں گے اور خاص طور پر ڈنمارک میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلط رنگ میں خاکہ بنایا گیا تھا اور پہلی بنیاد وہیں پڑی تھی۔ تو ان کو میں نے یہی کہا تھا کہ اس سے نفرتیں پیدا ہوں گی، امن خراب ہو گا، تباہی اور بربادی آئے گی اور تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ اور اس بات کو انہوں نے تسلیم کیا کہ گو کہ یہ ایشو ایسا ہے جو ہمارے لئے بڑا حسّاس ہے کہ ان خاکوں پر بات کی جائے لیکن جس طریقے سے تم نے سمجھایا ہے ہمیں بڑی اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے۔
ایک مہمان نے کہا کہ آج کے خطاب کے بعد لوگوں کی مسلمانوں کے بارے میں رائے ضرور تبدیل ہو گی۔ کہنے لگا کہ اب مَیں نے اسلام کو بہتر سمجھنے کے لئے ایک قرآن کریم بھی منگوایا ہے جس میں حاشیے بھی موجود ہیں اور آج کی شام کے بعد مجھے اپنی کم علمی کا بھی احساس ہوا ہے۔ کہنے لگے کہ میں قرآن کریم بھی پڑھوں گا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا ناکسکو سے لوگ آئے تھے جب وہ تقریب کے بعد واپس جا رہے تھے تو ایک مہمان نے لکھا کہ ہم ہزاروں بار آپ کا بڑا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ کانفرنس زندگی بھر کے لئے ایک یادگار لمحہ کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گی، تجربے کے طور پر یاد رہے گی۔ کہنے لگے کوپن ہیگن سے ناکسکو واپسی تک کوچ میں ایک خاص ماحول تھا۔ تمام سفر اس کانفرنس کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں اور ہر ایک اس بات سے متفق تھا کہ ہم نے ایک بہت اچھا دن گزارا ہے اور ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔
ایک صحافی نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا کہ بہت کچھ سیکھا اور خلیفہ کی تقریر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، خاص طور پر اس بارے میں کہ اسلام کی تصویر جو میڈیا میں دکھائی جاتی ہے وہ حقیقت سے بہت مختلف ہے۔ پھر کہنے لگا کہ میں ان کی کسی بات پر کوئی تنقیدنہیں کر سکتا کیونکہ ان کی ساری باتیں ہی پیار محبت اور ایک دوسرے کے احترام کے متعلق تھیں اور انہوں نے کہا کہ یہی چیزیں امن کی کنجی ہیں۔ پھر کہنے لگا کہ انہوں نے ہمیں ایک اور عالمی جنگ کے خطرے کے بارے میں بتایا اور میں اب پریشان ہوں۔ میں نے پہلے بھی ایک دو لوگوں سے سنا ہے کہ ہم عالمی جنگ کے قریب ہیں مگر میں نے اس پر یقین نہیں کیا تھا مگر آج میرا خیال بدل گیا ہے۔ مجھے اب اس کو سنجیدگی سے لینا ہے اور کہا کہ خلیفہ نے اسے ایسے انداز میں پیش کیا ہے کہ مجھے سوچنا پڑے گا۔
پھر ایک مہمان خاتون اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں کہ یہ باتیں سوچنے پر مجبور کر دینے والی تھیں لیکن ایک لحاظ سے پریشان کُن بھی تھیں کیونکہ انہوں نے مستقبل کے بارے میں ایک بہت سنگین تصویر کھینچی۔ انہوں نے ہمیں جنگ کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ امن کے لئے کوشش کرنے کا ابھی وقت ہے ورنہ ہم بعد میں پچھتائیں گے۔
پھر ایک صاحبہ نے، ڈینش مہمان تھیں کہا کہ آج سے پہلے میں اسلام کے بارے میں منفی باتیں ہی جانتی تھی مگر آج میں نے جو سنا وہ اچھا اور محبت سے بھرا ہوا پیغام تھا۔ میں نے سیکھا کہ ISISاسلام نہیں ہے اور اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کی رکھوالی کرنی چاہئے۔
ایک اور ڈینش مہمان نے کہا: ایسے آدمی سے ملی جس نے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کی جو تصویر دکھائی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔ میں بہت جذباتی اور پُرجوش ہو گئی ہوں۔ میں ایک ایسے شخص سے ملی جس نے مجھے جہاد کا مطلب بتایا۔ میڈیا کی آزادیٔ رائے اور دنیا میں امن کے توازن کو برقرار رکھنے کے بارے میں ان کی باتیں مجھے بہت اچھی لگیں۔ پھر ایک ڈینش مہمان کہنے لگے کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں قرآن کے حوالے دئیے۔ اسی بات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے الفاظ خود ساختہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھے۔ کہنے لگے ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کے لئے انٹیگریشن (Integration) ممکن ہے۔ کیونکہ انہوں نے بتایا کہ اسلام مغربی اقدار کے خلاف نہیں ہے کیونکہ امن، رواداری اور دوسرے کی عزت کرنا مشترکہ اقدار ہیں۔ پھر کہنے لگے سچ کہوں تو ڈینش لوگ مسلمانوں سے اور ان جنگوں سے جو مشرق وسطیٰ میں ہو رہی ہیں بہت ڈرتے ہیں مگر کم از کم آج کے بعد ہمیں یہ تو پتا چل گیا ہے کہ وہاں پر جو ہو رہا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یا ان کے مذہب کی غلطی نہیں بلکہ ان کی تعلیم کو بگاڑا گیا ہے۔
یونیورسٹی کے ایک طالبعلم تھے کہتے ہیں کہ ان کے تقریر کے نکات بڑے واضح تھے۔ اسلام کی اقدار کا اظہار جس طرح کیا گیا بڑی واضح تھیں اور یہ ایسی اقدار ہیں جنہیں ہم سب کو اپنانا چاہئے۔ اور کہنے لگے (کہ خلیفہ نے) مجھ پر اور تمام حاضرین پر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے اور یہ قرآن کی آیات کے حوالوں سے ثابت کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کے خلفاء کی مثالوں سے ثابت کیا اور یہ مجھے بڑا اچھا لگا اور جماعت احمدیہ کے مقاصد کو بھی واضح کیا جس سے مجھے صحیح اسلام کو سمجھنے کا موقع ملا۔
ایک اور مہمان نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا کہ جس طریق پر انہوں نے ہماری نسل اور اس وقت درپیش مسائل کے بارے میں بات کی اور قرآن کو بنیاد بنا کر ان مسائل کا حل بتایا وہ بہت ہی اعلیٰ تھا۔ کم از کم مجھے آج سے پہلے ہرگز علم نہیں تھا کہ قرآن انصاف کے بارے میں اتنا کچھ کہتا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ اسلام کے بارے میں میرے نظریات بالکل بدل گئے ہیں۔ پہلے مجھے صرف وہی پتا تھا جو میڈیا بتاتا تھا مگر اب میں نے دوسری طرف کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے۔ پھر کہنے لگے خلیفۂ وقت نے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں یہ ذکر تھا کہ ان لوگوں سے بھی انصاف کرنا چاہئے جن کو انسان پسندنہیں کرتا۔ اور یہ بھی اچھا لگا کہ انہوں نے بتایا کہ پہلے دَور کے مسلمان تو یہودونصاریٰ سے پیار کا سلوک کرتے تھے۔ اس بات نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا۔
پھر ہیومنسٹ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کہتی ہیں۔ پُرامن پیغام کے بارے میں لوگوں کو بہت کم معلومات ہیں۔ میڈیا صرف بری چیزوں کو سامنے لاتا ہے اور اچھی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔ ڈنمارک کا سارا میڈیا آج یہاں موجود ہونا چاہئے تھا اور میں اپنے ملک کے لوگوں کے اس رویے سے بہت مایوس ہوئی ہوں۔ پھر ایک ڈینش خاتون ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ مجھے اسلام کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا مگر آج میں نے بہت کچھ سیکھا اور میں خوش ہوں کہ اس لحاظ سے آپ کے خلیفہ میرے استاد ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ اسلام پُرامن مذہب ہے۔ پھر یہ کہنے لگیں کہ میری خواہش ہے کہ لوگ ان کے پیغام پر توجہ دیں۔ میں چاہتی ہوں کہ اس تقریر کا ڈینش ترجمہ مل جائے تا کہ میں اسی طرح سے سب الفاظ جذب کر سکوں اور دوسروں کو بھی بتا سکوں۔ پھر انہوں نے کہاکہ خلیفہ کا پیغام پورے ڈنمارک میں پھیلانا چاہئے۔ ہمیں ان کے پیغام کو ماننا ہو گا اور ان سے سیکھنا ہو گا۔ مجھے لگتا تھا کہ سارے مسلمان پُرتشدد ہوتے ہیں مگر اب مجھے ایسے خیالات رکھنے پر بہت شرم محسوس ہو رہی ہے۔ اکثریت ان میں سے اچھی ہے مگر میڈیا نے ہمارے ذہن بھر دئیے ہیں۔ پھر کہا میرے شوہر مجھے آج صبح یہاں آنے سے منع کر رہے تھے کیونکہ انہیں لگ رہا تھا کہ وہاں کوئی حملہ ہو جائے گا یا کوئی خود کش حملہ ہو جائے گا مگر میں نے انہیں آنے پر مجبور کیا کیونکہ میں متجسّس تھی اور اب وہ خوش ہیں کہ وہ بھی آ گئے۔ (دونوں میاں بیوی آئے ہوئے تھے) کہنے لگیں بلکہ وہ تو کافی جذباتی ہو گئے ہیں۔ پھر کہنے لگی میں تو یہ کہوں گی کہ جو دعوت کے باوجودنہیں آیا وہ بڑا بیوقوف ہے۔
ایک ڈینش سیاستدان کِم لوفہوم (Kim Lofholm) نے کہا کہ یہ میرا پہلا موقع تھا کہ میں کسی خلیفہ سے ملا ہوں اور ان سے ملنے کا تجربہ میری زندگی میں کسی اور مسلمان سے ملنے سے بالکل مختلف تھا۔ بتانے والے کو انہوں نے جو کہا (یہ تھا کہ) آپ کے امام اسلام کے بارے میں وہ بات کرتے ہیں جو دوسرے عرب مسلمان نہیں کرتے جن سے میں ملا ہوا ہوں۔ آپ کے خلیفہ یہ بات بہت واضح کرتے ہیں کہ اسلام تمام مذاہب کو آزادی دیتا ہے۔ کہنے لگے دنیا کو خلیفہ کی آواز سننے کی ضرورت ہے۔ ان کے الفاظ کو دُور دُور تک پھیلنا چاہئے۔ شاید آپ ایک چھوٹی سی جماعت ہوں مگر آپ کا پیغام بہت بڑا ہے۔ پھر کہنے لگے یہ تقریب بہت معلوماتی تھی۔ مثلاً میں نے محمدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے بارے میں جانا مثلاً یہ کہ انہوں نے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے دی اور یہ بھی کہ وہ ہر قسم کے anti semitismکے خلاف تھے۔
امریکن ایمبیسی کے نمائندہ کہنے لگے کہ خلیفہ نے اسلام کا حقیقی چہرہ دکھایا۔ لوگ برسلز اور پیرس کے حملوں کے بعد اسلام سے ڈرنے لگ گئے تھے مگر خلیفہ نے واضح کیا کہ اس دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام ایک حکمت اور امن کا پیغام ہے۔ میں ایمبیسیڈر کو تمام نکات بتاؤں گا جن کاخلیفہ نے ذکر کیا ہے اور ان سنگین موضوعات کا بھی بتاؤں گاجن کا خلیفہ نے ذکر کیا ہے یعنی آزادی رائے اور یہ کہ آجکل لوگوں کو آپس میں اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔
ایک ڈینش مہمان جو ٹیچر ہیں، کہنے لگیں: آج میں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے اور میں اپنے طلباء کو جا کر وہ سب کچھ بتاؤں گی جو میں نے آپ کے خلیفہ کو کہتے سنا۔ کہنے لگیں کہ بہت سے لوگ اسلام سے خوفزدہ ہیں مگر خلیفہ سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہمیں اسلام سے نہیں بلکہ دہشتگردی اور شدت پسندی سے رکنا چاہئے اور اسلام اور دہشتگردی دونوں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے لگا تھا کہ میں اسلام کو جانتی ہوں مگر حقیقت میں مجھے کچھ نہیں پتا تھا مثلاً مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں اور یہودیوں سے نیک سلوک کرتے تھے۔ اس بات نے مجھے بہت جذباتی کر دیا۔ ان کی تقریر بہت متوازن تھی۔ بعض مسلمانوں اور غیر مسلموں جن کے اعمال برے ہیں ان سب پر بھی انہوں نے تنقید کی۔
ایک مہمان نے کہا کہ خطاب جس انداز میں پیش کیا میں نے دیکھا۔ آپ نے دیگر مقررین کی بات کو بھی بہت غور سے سنا۔ پھر کہنے لگیں کہ تیسری جنگ عظیم کے بارے میں آپ کی باتیں بہت بصیرت افروز تھیں۔ ان کو سن کر مَیں تھوڑا گھبرا بھی گئی ہوں مگر آپ کے خطاب سے ہی پھر ایک قسم کی تسکین محسوس ہوئی۔
مالمو میں بھی مسجد کے افتتاح میں 140سے زائد سویڈش مہمان اور ممبران پارلیمنٹ، مالمو سٹی کے میئر، پولیس چیف، سٹی چرچ کے نمائندے، یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے۔
ایک یہودی مہمان نے کہا کہ آج کا یہ دن میرے لئے بہت معلوماتی تھا کیونکہ میں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ کہنے لگے کہ اس دنیا میں اسلام کے بارے میں بہت زیادہ منفی سوچ پائی جاتی ہے اور ہم سب مسلمانوں کی شدت پسندی سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے میں ایک مسلمان رہنما کے صرف اور صرف پیار کے پیغام کو سن کر حیران رہ گیا۔ کہنے لگے کہ انہوں نے کہا کہ آپ کو خدا کی عبادت کرنی چاہئے مگر ساتھ ہی انسانیت سے محبت بھی کرنی چاہئے۔ کہنے لگے خلیفہ نے مجھے ایسا محسوس کروایا کہ مسلمان بھی ہمارے بھائی ہیں اور اس سے میرے دل میں فلسطینیوں کے لئے رحمدلی بڑھی اور یہ خیال گزرا کہ شاید ان میں سے سب برے نہیں ہیں۔ بہرحال اپنا قصور تو کوئی نہیں مانتا لیکن انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ ہمیں رحم دکھانا چاہئے۔
ایک خاتون جو عیسائی پرِیسٹ ہیں، ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔ کہنے لگیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بالکل درست بات ہے کہ یہاں مالمو میں اور یورپ میں لوگ مسلمانوں سے اور مسجدوں سے خوفزدہ ہیں اور خلیفہ نے امن کے متعلق اور لوگوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں اس حوالے سے کہ ذمہ داریاں کیا ہیں بڑی اہم باتیں کی ہیں۔ انہوں نے ہمیں ایک مسجد کے مقاصد کے بارے میں بتایا اور میں امید کرتی ہوں کہ وہ دوسروں کو ان مقاصد کے بارے میں قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یقینا انہوں نے مجھے تو قائل کر لیا ہے۔ مسجد کے مقاصد کا یہ موضوع بہت ضروری تھا اور اس کا ہر لفظ بامعنی اور گہرا تھا۔ پھر کہنے لگیں کہ انہوں نے پیغام دیا کہ ایک دوسرے سے خوف نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے اور ایک دوسرے کے خیالات بانٹنے چاہئیں۔ پھر کہنے لگیں حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے خلیفہ کی تقریر نے مجھے ہلا دیا ہے۔ میں بہت جذباتی ہو گئی ہوں۔ آج میں نے ایک مسلمان سربراہ کو صرف امن کے بارے میں بولتے سنا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام انسانیت کی خدمت کا مذہب ہے۔ ان کی تقریر کا بہترین حصہ یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ انسانیت کو اپنے خالق کو پہچاننا ہو گا اور خدا پر پختہ یقین رکھنا چاہئے۔ یہی میرا بھی نظریہ ہے۔
مالمو شہر کے میئر اینڈرسن صاحب نے کہا کہ ایڈریس میں قیام امن کی یقین دہانی کروائی بلکہ اس شہر اور علاقہ میں تعمیر ہونے والی مسجد کے حقیقی مقاصد بھی بیان کئے۔ پس اس مسجد کو ہم اس شہر میں قیام امن اور انٹیگریشن کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایک صحافی نے کہا: بڑی حیرت ہے کہ اس مسجد کے اخراجات جماعت کے لوگوں نے اپنی جیب سے ادا کئے۔ یہ بات میرے لئے نہایت حیرت کا باعث تھی کیونکہ یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی بلکہ تیس ملین کرونر کی بات ہے۔ پھر کہنے لگے آپ لوگوں نے سارا کام خود کیا۔ بڑی کامیابی ہے۔ بہت متاثر ہوں۔ یہ کہنے لگے کہ دہشتگردی اور ظلم و ستم کے واقعات دیکھتا ہوں مگر آپ لوگ ان سے مختلف ہیں۔ انہوں نے اپنا واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ ایک عرصہ پہلے میں ایک سُپرمارکیٹ میں جا رہا تھا۔ وہاں ایک شخص نے مجھے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں۔ اس پر میں نے اسے بتایا کہ نہیں، میں مسلمان نہیں ہوں۔ عیسائی ہوں۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ اگر تم عیسائی ہو تو جہنم میں جاؤ۔ پس کہتا ہے مسلمانوں کی یہ سوچ ہے لیکن آپ لوگوں کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ یہ باتیں آپ احمدیوں میں نظر نہیں آتیں۔ ایک مہمان جو مالمو یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں کہنے لگے خلیفہ کا خطاب نہایت اثر رکھنے والا تھا۔ امن، پیار محبت، رواداری کا نہایت مثبت اور عالمی پیغام ہمیں دیا ہے۔
اسی طرح Lund University Malmö میں اسلامیات کے پروفیسر بھی آئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ خلیفہ کا خطاب نہایت دلچسپ اور اپنے اندر اثر رکھنے والا تھا۔ خطاب ختم ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ لوگ خطاب کے حوالے سے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اور سب لوگ ہی اس سے بہت متاثر نظر آ رہے تھے۔ بعض لوگوں نے تو اس خطاب کی نقل مہیا کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ کہنے لگے کہ میں نے دیکھا کہ سب لوگ یہاں اکٹھے تھے جس شخص نے یہاں پر سنیوں کی پہلی مسجد تعمیر کی تھی وہ بھی اس تقریب میں آیا ہوا تھا۔ یہودی بھی اس تقریب میں تھے۔ عیسائی بھی تھے۔ دیگر مذاہب والے بھی تھے۔
سویڈش ادارے ’’چرچ آف سینٹالوجی‘‘ کے چیف برائے انفارمیشن بھی آئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: خلیفہ نے اپنی تقریر میں ایک فقرہ جو کہا مجھے بہت زیادہ اچھا لگا اور وہ فقرہ یہ تھا کہ ایک بڑے فائدے کی خاطر ہمیں اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف کرنا چاہئے۔
ایک دوست مائیکل جن کے والدین پولش ہیں، سویڈن میں رہتے ہیں کہنے لگے کہ تقریر ہر لحاظ سے مکمل تھی۔ اس میں امن اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا پیغام تھا۔ انہوں نے افریقہ کا اور افریقہ میں اسکول اور جو دوسری سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں، ان کا ذکر بھی کیا۔ کہنے لگا کہ مَیں خدا پر یقین رکھتا ہوں مگر یہاں پر اکثر لوگ، جو دوسرے لوگ ہیں وہ عموماً نہیں رکھتے اس لئے میں بہت فخر محسوس کر رہا ہوں کہ ایسا شخص سویڈن آیا جو خدا پر اور ایک خالق پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ خطاب کے سننے کے بعد اب مَیں اسلام سے نہیں ڈرتا بلکہ صرف شدت پسندوں سے ڈرتا ہوں۔ مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ یہ دونوں آپس میں جدا جدا ہیں۔ پھر ایک مہمان مسلمان حسین عبداللہ صاحب یوگو سلاویہ سے تھے۔ کہنے لگے کہ خلیفہ کے الفاظ نے مجھے چُھو لیا ہے اور میں ان کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ انہوں نے اسلام کا اس طرز پر دفاع کیا جو دوسرے مسلمان نہیں کر سکتے۔ رواداری اور دوسروں کی مدد پر زور دیا اور کہا کہ اسلام کی تعلیم ہے کہ ہم سب ضرورتمندوں کی مدد کریں۔ کہنے لگے کہ اب میں جماعت احمدیہ پر فخر کرتا ہوں۔ لوگوں کے اسلام کے بارے میں غلط تأثرات ہیں اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ان کو درست کیا جائے مگر خلیفہ اس کام میں سب سے آگے ہیں۔ ایک سویڈش مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ اس شام نے مجھ کو بیحد متاثر کیا ہے اور میں نے سیکھا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ خلیفہ نے چند ہی منٹوں میں بہت سے موضوعات پر بات کی اور اسلام کا اس رنگ میں دفاع کیا جو کہ مَیں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ کہنے لگا انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بعض مسلمان برے ہیں مگر خلیفہ نے قرآن کریم کا حوالہ دے کریہ ثابت کیا کہ ایسے لوگ قرآن کی تعلیم کے خلاف جا رہے ہیں۔ اس کے حوالے سے ایک سیاستدان نے تقریر میں کہا کہ آپ کو ایک حقیقی مسلمان سے امن محسوس کرنا چاہئے اور میں جب تقریب میں تھا تو میں واقعی امن محسوس کر رہا تھا۔
ایک عیسائی پادری کہنے لگے کہ مجھے آپ کے خلیفہ کی تقریر کے ہر لفظ سے اتفاق ہے بالخصوص مجھے ان کی یہ بات پسند آئی ہے کہ ہمیں خدا کو یاد رکھنا چاہئے اور یہی مذہب کی بنیاد ہے۔ نیز یہ کہ انہوں نے شروع میں جو قرآن پڑھا تو وہ مجھے بہت روحانی اور ہلا دینے والا لگا۔
ایک مہمان کہنے لگے مجھے آج یوں لگا کہ میں کسی اور دنیا میں ہوں۔ مرکزی موضوع بھی یہی تھا کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں خاص طور پر ان کا جو سب سے کمزور اور ضرورتمند ہیں۔ پھر کہنے لگا خلیفہ نے قرآن کے ذریعہ ثابت کیا کہ مذہب دل کا معاملہ ہے۔ انہوں نے یقینا مجھے تسلی دلائی اور مجھے امید ہے کہ دوسروں نے بھی جو یہاں موجود تھے اس طرح فائدہ اٹھایا ہو گا۔
ایک مہمان نے کہا کہ آج کے خطاب میں بہت سے موضوعات پر بات کی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے مگر آپ کے خلیفہ کا پیغام اس سے بالکل مختلف ہے۔
پھر ایک سویڈش مہمان نے کہا کہ اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ یہ بڑی اچھی بات تھی کہ جس طرح میڈیا ہمیں ہر وقت اسلام کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ ایک متشدد مذہب ہے مگر آج ہمیں اس کے برعکس ہی سننے کو ملا۔ خلیفہ نے ہمیں تسلی دلائی اور ہمارے ڈر کو دُور کیا اور ثابت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پُر امن تھے۔
پھر ایک مہمان نے کہا آج یہاں آنے سے پہلے مَیں اسلام کے بارے میں خوفزدہ تھی مگر آج جو مجھے نظر آیا اور جو میں نے دیکھا وہ بالکل مختلف تھا۔ خلیفہ کا پیغام رحمدلی، ہمدردی اور امن کا پیغام تھا۔ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ آپ کو ہر شخص سے اس کے مذہب کی پرواہ کئے بغیر محبت کرنی چاہئے۔ اس نے میرے دل کو چھو لیا نیز یہ بھی سن کر اچھا لگا کہ اسلام ہمسایوں کے حقوق کے بارہ میں تعلیم دیتا ہے۔
اس طرح کے بہت سارے تأثرات مہمانوں کے ہیں۔ بدھسٹ بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں اور سب نے اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ جو ہے وہ یقینا شدت پسندی کے خلاف ہے۔
ایک ممبر آف پارلیمنٹ نے کہا کہ خلیفہ کو ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر اسلام کی نمائندگی کرنی چاہئے اور لوگوں کو ان کی بات سننی چاہئے۔ اگر کسی کو اسلام کا کچھ بھی خوف تھا تو وہ آج دُور ہو گیا ہو گا۔ پھر کہنے لگے کہ ایک مہمان نے کہا کہ یہ تقریر آسٹریا کے لوگوں کو دینی چاہئے کیونکہ ان ملکوں میں لوگ اسلام کی نفرت اور اسلام کے خوف میں جنونی ہو چکے ہیں۔ انہیں یہ تقریر سننے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ سیکھ سکیں کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے۔ خلیفہ نے بہت خوبصورتی سے مساجد کے مقاصد کے بارے میں سمجھایا اور یہ کہ مسجد کا مطلب امن ہے اور یہ کہ صلوۃ کا مطلب بھی امن اور امان ہے۔ مجھے یہ بھی اچھا لگا کہ آپ کے خلیفہ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صرف امن قائم کرنے کے بارے میں فکر کرتی ہے۔ اور مجھ پر یہ بات بھی بہت اثر انداز ہوئی جب خلیفہ نے کہا کہ احمدی انسانیت کی تکالیف دور کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ بھی بہت دلچسپ بات تھی کہ خلیفہ نے بتایا کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں ایک مسجد ضرار کو گرا دیا گیا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مساجد صرف امن کی جگہیں ہوتی ہیں۔ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں بھی ایک ریسپشن تھی وہاں بھی چھ ممبران پارلیمنٹ شامل ہوئے۔ دوسرے حکومتی اہلکار بھی تھے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے اور وہاں بھی لوگوں نے بڑے اچھے تاثرات کا اظہار کیا۔
ایک مہمان نے کہا کہ مجھے آج بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بہت متاثر کن تھابلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس سے امید بندھی ہے۔ میں بہت شکر گزار ہوں کہ خلیفہ یہاں آئے۔ خلیفہ کے پیغام نے ہمیں احساس دلایا کہ ہم کسی تنازعے کو دیکھ کر آنکھیں بندنہ کر لیا کریں کہ یہ خود ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ بہت ٹھوس پیغام تھا اور میں اس کے لئے بہت شکرگزار ہوں۔ پھر ایک مہمان نے کہا کیونکہ آجکل دنیا میں ایسی طاقتیں کام کر رہی ہیں جو انسان کو انسان سے دور کرنا چاہتی ہیں سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنے میں آپ ہر لحاظ سے کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ جب ہم ملتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھلتی ہیں اور ہمیں مزید کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
عراق سے آنے والے ایک عیسائی مہاجر سلام صاحب نے کہا کہ میں نے عراق میں کبھی ایسی باتیں نہیں سنیں۔ وہاں لوگ اسلام کی وہ شکل پیش نہیں کرتے جو آپ کے خلیفہ بتا رہے ہیں۔ کاش کہ عراقی لوگ خلیفہ کی بات سن لیتے تو ہمیں اس طرح ہجرت نہ کرنی پڑتی اور یہاں سویڈش لوگوں کے سامنے بھکاری بن کر نہ آنا پڑتا۔ یہاں سویڈش لوگوں کو لگتا ہے کہ میں کوئی حق جمانے آیا ہوں۔ یہ احساس میرے لئے بہت برا ہے۔ عراق میں آپ کے خلیفہ جیسا ایک شخص بھی نہیں ہے۔ خلیفہ تو صاف صاف بات کرتے اور بتاتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ کی جماعت تمام مسلم فرقوں سے بہتر ہے۔
پھر ایک مہمان کہتی ہیں کہ جو پیغام خلیفہ نے دیا یہی اصل پیغام ہے جو تمام مذاہب نے اپنے آغاز میں دیا ہے۔ ہر مذہب کی بنیادی تعلیم یہی ہے۔ خلیفہ یکسانیت کی طرف بلا رہے ہیں۔ آپ کی باتیں سن کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ دنیا کے مسائل مذہب کی وجہ سے نہیں ہیں۔ اگرمسلمانوں کے ساتھ ہمارے اختلافات ہیں تو وہ مذہب کے نہیں ہیں بلکہ کلچر کے ہیں۔ ڈنمارک میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں جو کوریج ہوئی ہے اس میں اس کاایک نیشنل اخبار ’’کرسچن بلادت‘‘ ہے۔ اس نے ہوٹل میں جو فنکشن ہوا تھا اس کی خبر دی۔ پڑھنے والے تو پچاس ہزار ہی ہیں۔ اسی طرح ایک اور ریڈیو 24کی جرنلسٹ انٹرویو کے لئے مشن آئی اور تقریباً پونے گھنٹے کا انٹرویو لیا اور پھر اس کو ڈینش ترجمہ کے ساتھ من و عن شائع کیا، سنایا۔ اس ریڈیو کے ایک وقت میں سامعین کی تعداد پچیس سے چالیس ہزار ہے۔ ٹی وی پی آر نے اپنی خبروں میں کوریج دی۔ اس کے سامعین کی تعداد دو ملین ہے۔ اسی طرح دوسرے میڈیا وغیرہ کے ذریعہ کل تقریباً تین ملین افراد تک اسلام کا یہ پیغام پہنچتا رہا یا پہنچا۔
اسی طرح سویڈن میں مختلف اخباروں اور ریڈیو چینل، ٹی وی چینل وغیرہ کے چھ انٹرویو ہوئے اور نیشنل ٹی وی پر انہوں نے خبریں بھی دیں۔ اس طرح مجموعی طور پر تقریباً آٹھ ملین کے قریب لوگوں تک سویڈن میں بھی پیغام پہنچا۔
پس جس طرح جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور جس طرح لوگوں کے تاثرات ہیں وہ میں نے بیان کئے ہیں۔ عمومی طور پر اسلام کی تعلیم سن کر ان لوگوں کو حقیقت کا علم ہوا ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے میں ہے اور اس کے ساتھ ہی سلامتی اور امن کا پیغام ہے اور حقوق العباد ادا کرنا ہے۔ اور یہ لوگوں کو پتا لگ گیا کہ جماعت احمدیہ کیونکہ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے یہ حقوق ادا کر رہی ہے۔ پس یہ بنیادی چیز ہے کہ ہر احمدی اس بات کو سمجھے کہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہ کر ہی یہ حقوق صحیح طور پر ادا ہو سکتے ہیں۔ حقیقی خلافت صرف اپنوں کے خوف کو امن میں نہیں بدلتی بلکہ غیروں کے خوف کو بھی امن میں بدلتی ہے اور یہی اکثر تأثرات ہیں جو لوگوں نے بیان کئے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے جس کا خلاصہ میں نے بیان کیا ہے کہ ان کی جو خوف کی حالتیں تھیں وہ یہاں ہمارے فنکشنوں پر آ کر امن میں تبدیل ہو گئیں۔ یہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تائیدات بھی ساتھ ہیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا دوسروں پر اثر ڈالتی ہیں۔ اس لئے بعض نے قرآن کریم کو پڑھنے کا بھی اظہار کیا۔ ایک دو کی مثالیں بھی مَیں نے پیش کیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہٹ کر اگر کوئی اس زمانے میں خلافت قائم کرنا چاہتا ہے یا چاہے گا تو وہ ناکام ہو گا اور امن قائم نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت اولیٰ کے زمانے میں یا ابتدائی زمانے میں خلفائے راشدین کے زمانے میں جب حقیقی خلافت تھی تو حضرت عمر کے زمانے میں کیا ہوا۔ شام اور عراق میں ایسا امن قائم کیا کہ وہاں کے عیسائی اس وقت جبکہ رومن حکومت نے دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی، روتے تھے کہ مسلمان دوبارہ واپس آئیں۔ اور جب مسلمان دوبارہ واپس آئے تو انہوں نے خوشیاں منائیں۔ لیکن اب کیا ہو رہا ہے۔ شام اور عراق میں خلافت کے نام پر جو تحریک شروع ہوئی ایک تو اس میں کوئی طاقت نہیں تھی، حقیقت نہیں تھی اور شروع میں جو ابتدائی طاقت تھی وہ بھی اب ختم ہو گئی اور کوئی زور نہیں رہا۔ جو کام خلافت کے نام پر شروع ہوا تھا دو تین سال میں بلکہ اس سے بھی کم عرصے میں وہ صرف ایک تنظیم کا نام رہ گیا جس نے نہ اپنوں کو امن دیا ہے نہ غیروں کو امن دیا ہے۔ وہاں جانے والے بہت سے ایسے ہیں جو اسلام اور خلافت کے نام پر ایک جذبے کے ساتھ گئے تھے۔ یہاں سے، یورپ سے بھی جاتے رہے لیکن غیر اسلامی حرکتیں دیکھ کر مایوس بھی ہوئے۔ کئی ان میں ایسے ہیں جو واپس آنا چاہتے ہیں لیکن نہیں آ سکتے۔ یہ بھی میڈیا میں آ رہا ہے۔ خوف کی حالت میں رہ رہے ہیں۔ تمام راستے ان کے لئے بند ہیں۔ شدت پسندی کا یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں ایک خبر تھی کہ ایک عورت کا چھوٹا دودھ پیتا بچہ بھوک سے تڑپ رہا تھا اور گھر کا فاصلہ دور تھا۔ عورت نے بالکل ایک علیحدہ جگہ جا کر درخت کے نیچے بچے کو دودھ پلانا شروع کیا تو اس وقت یہ اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار اور اسلام کی حفاظت کرنے والے آ گئے اور ان نام نہاد خلافت کے سپاہیوں نے اس عورت سے اس کا بچہ چھینا کہ تم سڑک پر بیٹھی دودھ پلا رہی ہو۔ حالانکہ بالکل ایک علیحدہ جگہ تھی اور پھر بچہ چھین کر گولیاں مار کر اس عورت کو مار دیا۔ تو یہ وہ ظلم ہیں جو وہاں ہو رہے ہیں۔ اور مارا اس بات پر کہ تم یہ غیر اسلامی فعل کر رہی ہو۔ انہوں نے تو اپنوں کا امن بھی چھین لیا ہے تو غیروں کو انہوں نے کیا امن دینا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے مثال دی کہ حضرت عمر کے زمانے میں تو عیسائی بھی اس بات پر خوش تھے کہ ہمیں مسلمان امن دے رہے ہیں اور عیسائی امن نہیں دے رہے اور آج اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ خلافت احمدیہ ہی ہے جو اپنوں اور غیروں کے خوف کو امن میں بدل رہی ہے اور مختلف لوگوں کے تاثرات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات خلافت احمدیہ کے ساتھ ہیں اور کبھی کم نہیں ہوتیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ گزشتہ 108سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر یہ کسی انسان کا کام ہوتا تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا قیام اور خلافت کا وعدہ الٰہی وعدہ ہے اور وہی چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تھی لوگوں نے وہ ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ختم نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی ختم نہیں کر سکتے۔ اور یہ خلافت اور یہ نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ جاری رہنے کے لئے ہے۔
اگر ہم اپنے وسائل کو دیکھیں تو اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اتنی بڑی تعداد تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ اس نے یہ پیغام زمین کے کناروں تک پہنچانا ہے تو پھر ان ترقیات کو کون ہے جو روک سکتا ہے۔ کوئی دنیاوی طاقت روک نہیں سکتی اور ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ وفا کے ساتھ خلافت احمدیہ کے ساتھ منسلک رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو مزید شان سے جلد از جلد پورا ہوتا ہوا دیکھ سکیں۔
نماز کے بعد مَیں تین جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ حاضر ہے اور دو غائب۔ جنازہ حاضر ہے مکرم چوہدری فضل احمد صاحب وقف کا ہے جو ماسٹر غلام محمد صاحب مرحوم آف ننکانہ کے بیٹے تھے۔ 23؍مئی 2016ء کو 80سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت عمر دین صاحب بنگویؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نواسے اور مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر مرحوم کے بھتیجے تھے۔ لمبا عرصہ منڈی بہاؤالدین میں رہے۔ پھر جرمنی شفٹ ہو گئے۔ چند سال سے لندن میں مسجد فضل کے حلقہ میں مقیم تھے۔ ساری زندگی مختلف عہدوں پر جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ منڈی بہاؤالدین میں بھی سیکرٹری مال، سیکرٹری تعلیم القرآن اور امام الصلوٰۃ وغیرہ عہدوں پر فائز رہے۔ جہاں بھی رہے سینکڑوں بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی توفیق ملی۔ 1987ء کے رمضان المبارک میں کلمہ طیبہ کے کیس میں اسیر راہ مولیٰ رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ انتہائی نیک، صالح، قرآن کریم سے محبت کرنے والے شفیق اور بزرگ انسان تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم داؤد احمد صاحب شہید ابن مکرم حاجی غلام محی الدین صاحب کا ہے جو کراچی میں رہتے تھے۔ 24؍مئی 2016ء کو 60سال کی عمر میں مخالفین احمدیت نے رات تقریباً 9بجے آپ کو گھر کے باہر فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تفصیلات کے مطابق داؤد احمد صاحب اپنے گھر کے باہر ایک غیر از جماعت کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ان کے دوست ابھی تھوڑے فاصلے پر ہی تھے کہ اسی دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد آئے اور پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے موٹر سائیکل سے اتر کر آپ پر فائرنگ کر دی۔ غیر از جماعت دوست ان کی مدد کے لئے آگے بڑھے تو حملہ آوروں نے ان کی ٹانگوں پر بھی فائر کئے اور موقع سے فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں مکرم داؤد صاحب کو تین گولیاں لگیں جو سینے اور پیٹ سے آر پار ہو گئیں۔ فائرنگ کی آواز سن کر ارد گرد سے لوگ جائے وقوعہ پر جمع ہو گئے اور انہوں نے مکرم داؤد صاحب کو فوری طور پر قریبی واقع ہسپتال میں پہنچایا جہاں سے فرسٹ ایڈ کے بعد دونوں کو لیاقت نیشنل ہسپتال شفٹ کر دیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے داؤد صاحب کا آپریشن بھی کیا لیکن پیٹ میں لگنے والی گولیوں نے جگر اور بڑی اور چھوٹی آنت کو شدید متاثر کیا تھا۔ سینہ میں لگنے والی گولیوں سے بہت زیادہ خون ضائع ہو گیا تھا اس لئے جانبر نہ ہو سکے اور آپریشن کے دوران ہی جام شہادت نوش فرمایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے غیر ازجماعت دوست جو زخمی تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر ہیں۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت مولوی الف دین صاحب آف چونڈہ ضلع سیالکوٹ کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پھر یہ خاندان ربوہ شفٹ ہو گیا اور 1956ء میں ربوہ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والدنیوی میں ملازم تھے پھر یہ کراچی چلے گئے اور وہاں پھر انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ ان کا ایک حادثے میں بازو بھی ضائع ہو گیا تھا لیکن انہوں نے کبھی بازو کی کمی کو اپنے کام میں حائل نہیں ہونے دیا۔ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑے نرم مزاج، علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس انسان تھے۔ وقوعہ کے بعد تحقیق کرنے والے ادارے جب علاقے کے لوگوں سے معلومات لے رہے تھے تو ہر شخص کا یہی کہنا تھا کہ یہ شخص توکسی سے جھگڑا نہیں کر سکتا۔ جھگڑا کرنا تو دُور کی بات ہے یہ تو دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے اور دوسروں کے کام آنے والے نیک انسان تھے۔ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش رہے۔ آپ کا گھر عرصہ 18سال تک نماز سینٹر کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور اسی طرح انصار اللہ اور جماعتی کاموں میں بھی خدمت کی ان کو توفیق ملی۔ ان کا ایک بیٹا اس وقت جامعہ احمدیہ میں چوتھے سال میں پڑھ رہا ہے۔ ان کے دو بیٹے ملک سے باہر کام کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تیسرا جنازہ مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب کا ہے جو 25؍مئی 2016ء کی صبح ربوہ میں 74سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ مکرم مولوی محمد اشرف صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ کے ہاں اکتوبر 1942ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا مکرم منشی محمد رمضان صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1909ء میں بیعت کی تھی۔ آپ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری کے نواسے اور مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل کے بھانجے تھے۔ آپ کے والد مکرم مولوی محمد اشرف صاحب بھی وقف جدید کے معلم تھے۔ بنیادی تعلیم میٹرک تھی۔ پھر آپ نے 1961ء میں زندگی وقف کی اور جامعہ میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے۔ 1969ء میں وہاں سے شاہد کا امتحان پاس کیا۔ اسی دوران ایف۔ اے اور مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ پھر ان کا تقرر وہاں نظارت اصلاح و ارشاد میں اور مختلف جگہوں پر ہوتا رہا۔ ادارۃ المصنفین، وکالت تبشیر میں بھی کام کیا اور نظارت تعلیم القرآن میں بھی کام کیا۔ اصلاح و ارشاد مقامی میں مختلف علاقوں میں مربی کے طور پر کام کیا۔ 90ء سے 98ء تک اشاعت و تصنیف کی نظارت میں کام کیا۔ پھر وکالت دیوان میں 99ء سے 2006ء تک کام کیا۔ 2006ء سے 08ء تک وکالت اشاعت کے ماہنامہ تحریک جدید کے ایڈیٹر رہے۔ اکتوبر 2008ء سے وفات تک نگران متخصصین (جامعہ کے فارغ التحصیل جو اسپیشلائز کرتے ہیں ) ان کے نگران رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب مربی، داعی الی اللہ، مناظر تھے۔ انہوں نے بعض کتابیں بھی لکھیں۔ انصار اللہ میں بھی خدمت کا موقع ملااور بڑے دعا گو انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے ورثاء میں ان کی اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا یہیں ہے جو باپ کے جنازے پہ جا بھی نہیں سکے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اور اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور اپنے باپ کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج 27؍مئی ہے اور جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے اس دن جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلافت کا آغاز ہوا اور اس کی مناسبت سے جماعت میں یہ دن یوم خلافت کے طور پر منایا جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے وعدے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدرت ثانیہ کے متعلق دی ہوئی خوشخبری پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بکھرنے سے بچا لیا۔ ہمیں ایک لڑی میں پرو دیا۔ اور اس حوالے سے ہم یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ ہم خلافت احمدیہ کے قیام اور ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے بھی تیار رہیں گے۔ (انشاء اللہ)
جماعت احمدیہ کی گزشتہ 108سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس عہد کو پورا کرنے کے لئے ایک کے بعد دوسری نسل نے ثبات قدم کے ساتھ قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جماعت کے ہر فرد کو جو اس وقت جماعت میں ہے یا آئندہ انشاء اللہ شامل ہو گا ہمیشہ اس عہد کو نبھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
اگر ہم توحید پر قائم رہیں اور بنی نوع کی ہمدردی میں ترقی کرتے رہیں، خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہیں تو پھر وہ تمام ترقیات جن کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے انہیں بھی ہم دیکھنے والے ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت نے ترقی کرنی ہے یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے ہوں گے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ دنیا کی نظر ہماری طرف ہے اللہ تعالیٰ نے بھی یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے کہ توحید کو قائم کریں۔ خود بھی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں اور دنیا کو بھی اپنے پیدا کرنے والے واحد و یگانہ خدا کے
قریب کرنے کی کوشش کریں اور انسانیت کی قدروں کو قائم کریں۔ خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے مقاصد وہی ہیں جس کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تھا اور وہ یہی ہیں کہ بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے پوری کوشش کرنا اور بنی نوع انسان کے حق ادا کرنا۔ اس سے زیادہ ہمارا کوئی مقصدنہیں ہے۔
اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ساتھ بھی کافی انٹرویو ہوئے۔ غیروں کے ساتھ مالمو مسجد کے افتتاح کے علاوہ ڈنمارک اور سٹاک ہوم (Stockholm) میں دو receptions بھی ہوئیں جس میں اسلام اور قرآن کریم کی صحیح تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ اور خلفاء راشدین کے نمونوں کے حوالے سے باتیں ہوئیں تو اکثر نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتا چلا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری نظام خلافت نے نہ صرف ماننے والوں کی رہنمائی کی اور کرتا ہے یا خلافت رہنمائی کرتی ہے بلکہ دوسروں کو، غیروں کو، اسلام کے مخالفین کو یا اسلام سے خوف کھانے والوں کو بھی صحیح اسلامی تعلیم کے نمونے دکھاتی ہے۔
ڈنمارک اور سویڈن کے حالیہ دورہ کے دوران منعقدہ مختلف تقریبات، ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے نمائندوں کو انٹرویوز اور تقریبات میں شامل مہمانوں کے تأثرات کا ایمان افروز تذکرہ۔
پریس اور میڈیا کے ذریعہ لکھوکھہا افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔
حقیقی خلافت صرف اپنوں کے خوف کو امن میں نہیں بدلتی بلکہ غیروں کے خوف کو بھی امن میں بدلتی ہے اور یہی اکثر تأثرات ہیں جو لوگوں نے بیان کئے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے جس کا خلاصہ میں نے بیان کیا ہے کہ ان کی جو خوف کی حالتیں تھیں وہ یہاں ہمارے فنکشنوں پر آ کر امن میں تبدیل ہو گئیں۔ یہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تائیدات بھی ساتھ ہیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا دوسروں پر اثر ڈالتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہٹ کر اگر کوئی اس زمانے میں خلافت قائم کرنا چاہتا ہے یا چاہے گا تو وہ ناکام ہو گا اور امن قائم نہیں کر سکے گا۔
یہ خلافت احمدیہ ہی ہے جو اپنوں اور غیروں کے خوف کو امن میں بدل رہی ہے اور مختلف لوگوں کے تاثرات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات خلافت احمدیہ کے ساتھ ہیں اور کبھی کم نہیں ہوتیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ گزشتہ 108سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر یہ کسی انسان کا کام ہوتا تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا قیام اور خلافت کا وعدہ الٰہی وعدہ ہے۔ یہ خلافت اور یہ نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ جاری رہنے کے لئے ہے۔
اگر ہم اپنے وسائل کو دیکھیں تو اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اتنی بڑی تعداد تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ اس نے یہ پیغام زمین کے کناروں تک پہنچانا ہے تو پھر ان ترقیات کو کون ہے جو روک سکتا ہے۔ کوئی دنیاوی طاقت روک نہیں سکتی۔
مکرم چوہدری فضل احمد صاحب وقف ابن مکرم ماسٹر غلام محمد صاحب آف ننکانہ کی نماز جنازہ حاضر۔
مکرم داؤد احمد صاحب شہید ابن مکرم حاجی غلام محی الدین صاحب آف کرچی اور مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب ابن مکرم مولوی محمد اشرف صاحب آف بھیرہ کی نماز جنازہ غائب اور مرحومین کا ذکر خیر۔
فرمودہ مورخہ 27؍مئی 2016ء بمطابق27ہجرت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔