رمضان المبارک کے مہینہ کا آغاز

خطبہ جمعہ 3؍ جون 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

انشاء اللہ تعالیٰ تین چار دن تک رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ ان دنوں میں روزے لمبے دن ہونے کی وجہ سے گرم ممالک میں بڑے سخت بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر صحت مند بالغ پر یہ فرض ہیں۔ ہاں بعض حالات میں روزے رکھنے میں سہولت بھی دی گئی ہے۔ ان گرم ممالک میں بھی بعض مزدوروں کو یا بعض اور شرائط ہیں کہ اگر ایسے حالات ہوں کہ وہ روزے نہ رکھ سکیں تو سہولت ہے۔ اسی طرح بعض ممالک جہاں آجکل بائیس تیئس گھنٹے کا دن ہے اور صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کی رات ہے، وہ بھی رات نہیں بلکہ روشنی ہی رہتی ہے یا جُھٹ پُٹے کا وقت رہتا ہے اس لئے وہاں کی جماعتوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وقت کے اندازے کے مطابق اپنی سحری اور افطاری کے وقت مقرر کر لیں جو آجکل اکثر جگہ قریبی ملکوں کے اوقات پر محمول کر کے یا ان کے اوقات کا اندازہ رکھتے ہوئے تقریباً اٹھارہ انیس گھنٹے کا روزہ ہو گا۔ ان ملکوں میں اگر اس طرح نہ کیا جائے تو سحری اور افطاری کا کوئی وقت ہی نہیں ہو گا۔ نہ تہجد پڑھی جا سکے گی نہ ہی عشاء اور فجر کی نمازوں کے اوقات معین ہوسکیں گے۔ بہرحال ان علاقوں میں جو جماعتیں ہیں وہ اس کے مطابق عمل کرتی ہیں، کس طرح انہوں نے ایڈجسٹ کرنا ہے۔

روزے اسلام کے بنیادی رکنوں میں سے ہیں اور انہیں پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ روزوں کے متعلق بعض چھوٹے چھوٹے سوال بھی اٹھتے ہیں۔ سحری کے وقت کے متعلق، افطاری کے متعلق، بیماری کے متعلق، مسافر کے متعلق، اس طرح مختلف سوال ہوتے ہیں۔ جماعت میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں سے بھی اور غیر مذاہب میں سے بھی شامل ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں بھی بعض احکامات کے بارے میں مختلف فقہی نظریات ہیں۔ ان نظریات کے ساتھ جب وہ جماعت میں آتے ہیں تو بعض باتیں ان میں بے چینیاں پیدا کر دیتی ہیں۔ بعض وضاحتیں وہ لوگ چاہتے ہیں۔ بعض تفصیلات چاہتے ہیں یا بعض سوال اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح بعض غیر مذاہب سے آنے والے بالکل ہی بعض چیزوں کا علم نہیں رکھتے بلکہ ان کو علم ہوتا ہی نہیں وہ تو نئے طور پہ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے لئے اسلام کے بنیادی جو رکن ہیں ان کے مسائل کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور حَکَم اور عدل بنا کر بھیجا ہے جنہوں نے اسلام کی تعلیم پر بنیاد رکھتے ہوئے ہر معاملے کا فیصلہ کرنا تھا اور کیا اور ہر مسئلے کا حل بتانا تھا اور بتایا۔ پس اس لحاظ سے اس زمانے میں ہمیں اپنے مسائل کا حل اور علم میں اضافے کے لئے آپ علیہ السلام کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت روزوں کے حوالے سے جیسا کہ میں نے کہا سوال اٹھتے رہتے ہیں بعض سوالوں کے جواب یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے بارے میں کیا مؤقف تھا یا کیا آپ نے حکم فرمایا۔ کیا آپ کا فتویٰ تھا۔ ان کے بارے میں بیان کروں گا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں شرعی احکامات کے بارے میں آپ علیہ السلام کا حکم یا نظریہ ہی ہمارے لئے اس مسئلے کا فقہی حل اور فیصلہ ہے۔

پہلی بات تو ہمیشہ یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام پر عمل کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس لئے تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے روزوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو سامنے رکھیں کہ ’’اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں مثلاً رمضان کے بارے میں مختلف بچے بھی سوال کرتے ہیں کہ رمضان اور عید وغیرہ جو ہیں ہم غیر احمدی مسلمانوں سے مختلف وقت میں کیوں پڑھتے ہیں یا کیوں شروع کرتے ہیں۔ اوّل تو یہ کوئی اصول نہیں کہ ہمارے رمضان شروع کرنے کے دن اور عید کا دن ضرور مختلف ہو۔ اور نہ ہی ہم جان بوجھ کر اس میں اختلاف کرتے ہیں۔ کئی ایسے بھی سال آئے ہیں اور آتے ہیں کہ ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے روزے اور عید ایک ہی دن ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اور مسلمان ممالک میں جہاں رؤیت ہلال کمیٹیاں حکومت کی طرف سے بنی ہوئی ہیں جب وہ یہ اعلان کرتی ہیں کہ چاندنظر آ گیا ہے اور گواہوں کی موجودگی ہے تو ہم احمدی مسلمان بھی اس کے مطابق اپنے روزے رکھتے ہیں اور روزے ہمارے ختم بھی اس کے مطابق ہوتے ہیں اور عید بھی اس کے مطابق منائی جاتی ہے۔

اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاندنظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازہ غلط ہو اور چاند پہلے نظر آ جائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہئے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو اپنی ایک کتاب سرمہ چشم آریہ میں بھی بیان فرمایا۔ حساب کتاب کو یا اندازے کو ردّ نہیں فرمایا۔ یہ بھی ایک سائنسی علم ہے لیکن رؤیت کی فوقیت بیان فرمائی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقّتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا۔ مثلاً روزہ رکھنے کے لئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنّیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا۔ تب تک رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو۔‘‘ (یعنی جو قواعد سائنسدانوں کی طرف سے اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ جو فلکیات کا یا ستاروں کا علم رکھتے ہیں انہوں نے جو قواعد بنائے ہیں ضروری نہیں کہ ان قواعد کی پابندی کی جائے اور اگر ان کے اندازے یہ کہتے ہیں کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا تو اس کے مطابق عمل کرو اور چاند کو دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔ رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو یہ غلط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک یہ نہیں ہو تا رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو) اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالا یطاق ہے۔‘‘ (بلاوجہ اسی بات پہ عمل کرنا کہ کیونکہ ہمیں اندازے یہ بتا رہے ہیں اس لئے اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کریں گے یہ بلا وجہ کی ایک تکلیف ہے۔) فرمایا کہ ’’اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ سو یہ بڑی سیدھی بات (ہے) اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں (یعنی صرف ستاروں اور اجرام فلکی کا علم رکھنے والوں کے محتاج نہ رہیں) اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں۔ (چاند کو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر دیکھنے کی کوشش کی جائے اور نظر نہ آئے تو پھر جو حساب کتاب ہے اس پہ بھی انحصار کیا جا سکتا ہے اور اس بات پہ بھی انحصار ہو کہ تیس دن سے زیادہ اوپر نہ جائیں۔ اور فرمایا کہ) اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عند العقل رؤیت کو قیاسات ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ (عقل بھی یہ کہتی ہے کہ جو آنکھوں سے دیکھنا ہے اس کو صرف حسابی اندازے جو ہیں ان اندازوں پر بہرحال فوقیت ہے۔) فرمایا کہ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رؤیت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجاد کئے۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 192-193)۔ جو یورپ کے پڑھے لکھے لوگ ہیں، عقلمند لوگ ہیں، سائنسدان ہیں انہوں نے اس بات کو معتبر سمجھتے ہوئے کہ دیکھنا جو ہے وہ بہرحال زیادہ اعلیٰ چیز ہے، اس خیال کی وجہ سے اپنے آلات بنائے ہیں۔ دُوربینیں بنائی ہیں جن کے ذریعہ سے وہ اجرام فلکی کو دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض دفعہ حساب میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا اور اگر غلطی ہو جائے مثلاً اگر چاند ایک دن پہلے نظر آنا ثابت ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے کیونکہ اس کا مطلب ہے ایک روزہ چھوٹ گیا۔ ہم نے ایک دن بعد شروع کیا اور چاند اس سے پہلے نظر آ گیا اور ثابت بھی ہو گیا کہ نظر آگیا تھا۔ اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا۔ سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہو چکا تھا۔ عام طور پر اس علاقے میں ہر جگہ اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اس نے پوچھا کہ روزہ تو بدھ کو رکھا جانا چاہئے تھا۔ ہمارے ہاں پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا۔ اب کیا کرنا چاہئے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک روزہ رکھنا چاہئے۔ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 437۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ جو روزہ چھوٹ گیا وہ رمضان کے بعد پورا کرو۔

اسی طرح سحری کھانے کا معاملہ ہے۔ سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحور … الخ حدیث 1923)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ خود بھی اور جو اپنے جماعت کے احباب افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لئے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔

اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپ نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ (سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے) اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں (ہیں۔ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔) ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔‘‘ (سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 127 روایت نمبر 1163)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز تہجد پڑھنا اور سحری کھانے کے بارے میں ایک روایت بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخرشب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے۔ یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک۔ اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اسْتَغِیْث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔ نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔‘‘ حضرت میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے۔ اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لئے لوگ عموماً بعض جگہوں پہ سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو۔ اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہو اس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہو جائے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی۔ اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر 320 صفحہ 295-296)

گزشتہ سال ایک دوست کو مَیں نے کہا تھا کہ آپ زیادہ دیر تک سحری کھاتے رہتے ہیں۔ اس بات پر انہوں نے شاید میری بات سن کے دوبارہ روزے رکھ لئے۔ لیکن اگر یہ وقت جو تھا اس وقت سے آگے نہیں لے کر گئے تھے پھر تو ٹھیک ہے۔ روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اور اب بھی ہر ایک جائزہ لے سکتا ہے۔ یہاں تو اذانیں نہیں ہوتیں۔ صبح صادق کو دیکھنا ضروری ہے۔ جب پو پھٹتی ہے یعنی جب دھاری نمودار ہوتی ہے تو اس وقت تک سحری کھائی جا سکتی ہے۔

سحری پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کی ایک اور مثال بھی ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ 1903ء کا ذکر ہے کہ مَیں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چار دن کی رخصت تھی۔ حضور نے پوچھا کہ سفر میں تو روزہ نہیں تھا؟ ہم نے کہا: نہیں۔ حضور نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ہم روزہ رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ پھر فرمایا کہ آپ سفر میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا حضور! چند روز قیام کرنا ہے۔ دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا! ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔ ہم نے خیال کیا کہ کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے۔ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد اور نوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا۔) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کے اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے۔ اچھی طرح کھاؤ۔ مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے رُوئیں رُوئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا۔ اتنے میں اذان ہو گئی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اور کھاؤ۔ ابھی بہت وقت ہے۔ فرمایا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(البقرۃ: 188)۔ اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔ آپ کھائیں ابھی بہت وقت ہے مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ (پھر کہتی ہیں ) جب تک ہم کھاتے رہے حضور کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف رکھیں میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑ لوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضور نے نہ مانااور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں سالن بھی تھا اور دودھ سویّاں وغیرہ بھی۔ (سیرۃ المہدی جلد 2 حصہ پنجم صفحہ 202-203 روایت نمبر 1320)

بیشک اچھا کھانا تو کھائیں لیکن اس میں بھی اعتدال ہونا چاہئے۔ روزہ رکھ کر یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ ہم نے روزہ رکھنا ہے اور رکھا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الُیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ تم ایمان لاؤ اور پھر تنگیوں میں بسر کرو۔ اس لئے ہم نے روزے فرض کئے۔ (اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے) تا تمہاری تنگیاں دُور ہوں۔ یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے۔ (یہ نکتہ بڑا یاد رکھنے والا ہے کہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔ اور اس کی وضاحت کیا ہے۔) یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے اور جو یہ ہے کہ روزے میں بھوکا رہنا یا دین کے لئے قربانی کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدے کا باعث ہے۔ جو یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان مقرر کیا تا تم روٹی کھاؤ۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی یہی ہے جو خدا تعالیٰ کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے ہے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ روٹی نہیں پتھر ہیں جو کھانے والے کے لئے ہلاکت کا موجب ہیں۔ مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ اس کے منہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھے کہ وہ کس کے لئے ہے۔ اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں۔‘‘

پس سحری اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھائی جا رہی ہے تو اگر اچھی بھی کھائی جا رہی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور وہ جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں برکت ہے۔ اور پھر اگر پیٹ بھرنا ہے اور اچھی خوراک کھانا ہے اور مزہ لینا ہے تو پھر وہ نفس کے لئے ہے۔ پھر آگے حضرت مصلح موعودنے وضاحت کی ہے کہ ’’جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے۔ جو نفس کے لئے پہنا جاتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرائے میں بتایا کہ جب تک خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی اِبطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ (بعض لوگ ایسے ہیں جن کے وزن رمضان میں کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتے ہیں۔) حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ (یعنی گندم اور جَو کی اچھی اعلیٰ خوراک ہوتی ہے۔) وہ لوگ جو ہیں ان دنوں میں خوب گھی، مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 395-396)

اب ایک طرف حکم ہے کہ سحری کھاؤ اس میں برکت ہے۔ افطاری کرو اس میں برکت ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر صرف کھانا ہی مقصد ہو تو ایک یہ چیز اس برکت کو کم بھی کر دیتی ہے۔ پس اعتدال ضروری ہے۔ اچھا کھاؤ لیکن اعتدال کے ساتھ۔

سفر اور بیماری میں روزہ جائز نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں ’’مجھے خوب یاد ہے کہ غالباً مرزا یعقوب بیگ صاحب جو آجکل غیر مبائع ہیں اور ان کے لیڈروں میں سے ہیں ایک دفعہ باہر سے آئے۔ عصر کا وقت تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زور دیا کہ روزہ کھول دیں اور فرمایا سفر میں روزہ جائز نہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ بیماریوں کا ذکر ہوا تو فرمایا۔ ہمارا یہی مذہب ہے کہ رخصتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دین سختی نہیں بلکہ آسانی سکھاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بیمار اور مسافر اگر روزہ رکھ سکے تو رکھ لے، ہم اس کو درست نہیں سمجھتے۔ اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محی الدین ابن عربی کا قول بیان کیا کہ سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک ایسی حالت میں رکھا ہوا روزہ دوبارہ رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا ہاں ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ (خطباتِ محمود جلد 13 صفحہ 37)

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اور موقع پر فرمایا جبکہ آپ خطاب فرما رہے تھے کہ مجھے ایک سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روزے کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ ’’مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا‘‘ اور حضرت مصلح موعود کو انہوں نے کہا ہے کہ الفضل میں یہ اعلان آپ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسے پر آئیں وہ یہاں آ کر روزے رکھ سکتے ہیں۔ (جلسہ سالانہ کے دنوں میں رمضان آ گیا تھا اور جلسہ انہی دنوں میں ہوا لیکن جنہوں نے روزے رکھنے تھے وہ روزے بھی رکھتے رہے۔) مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ (یہ اعلان شائع ہوا ہے۔) اس کے متعلق حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’اوّل تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں سفر میں روزہ رکھنے سے مَیں منع کیا کرتا تھا کیونکہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مرزا ایوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اور انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اور گفتگو ہوئی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔ اس لئے آپ نے ابن عربی کا قول پیش کیا کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبد اللہ سنوری صاحب یہاں رمضان گذارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ باہر سے آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے اس دوران میں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟ (پہلے دو واقعات بھی گذر چکے ہیں کہ مسافر قادیان میں آ کے روزے رکھتے رہے تھے۔) اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں) گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہیں کیا۔ اور لوگوں کی بھی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔ پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں جب جلسہ رمضان میں آیا تو ہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ ان حالات میں جب مَیں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی فتویٰ ہے۔ پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قرار دیتے رہے ہیں اور آجکل کے سفر کو تو غیراحمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایا کہ یہاں قادیان میں آ کے روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تو لے لیں اور دوسرا چھوڑ دیں۔ اس طرح تو وہی بات بن جاتی ہے جو کسی پٹھان کے متعلق مشہور ہے۔ پٹھان فقہ کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ ایک پٹھان طالبعلم تھا جس نے فقہ میں پڑھا کہ نماز حرکت کبیرہ سے ٹوٹ جاتی ہے۔ جب اس نے حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پڑھا کہ آپ نے ایک دفعہ حرکت کی تو کہنے لگا اوہ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ٹوٹ گئی کیونکہ قدوری میں لکھاہے کہ حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ (غرض یہ پٹھان یا جو بھی شخص ان مولویوں کے پڑھے ہوئے ہیں وہ اُلٹے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوے دینے لگ گئے۔ تو آپ فرماتے ہیں) غرض جس نے یہ فتویٰ دیا کہ سفر میں ر وزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اسی نے یہ بھی فرمایا کہ قادیان احمدیوں کا وطن ثانی ہے یہاں روزہ رکھنا جائز ہے۔ اس لئے یہاں روزہ رکھنا آپ ہی کے فتوے کے مطابق ہوا۔ گو اس کی اَور بھی وجوہات ہیں۔ (الفضل 4 جنوری 1934ء صفحہ 3-4 جلد 21 نمبر 80)

قیام کے دوران روزوں کے بارے میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہو تو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (فتاویٰ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر 5 دار الافتاء ربوہ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 208 باب روزہ اور رمضان)

کیونکہ قادیان وطن ثانی ہے اس میں تین دن سے کم وقت میں بھی اگر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن باقی جگہوں پر تین دن اگر قیام ہے تو روزے رکھ سکتا ہے۔

مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں۔ اس بارے میں ایک روایت ہے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے ایک شخص شیخ محمد چٹّو صاحب آئے ہیں اور دوسرے احباب بھی آئے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خُلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے۔ غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہو جائے گی۔ جو لوگ آئے ہیں ان سے ملاقات ہو جائے گی۔ دوسرے لوگوں کو بھی پتا لگ گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لائیں گے اس لئے بہت سارے لوگ چھوٹی مسجد میں (مسجد مبارک میں) موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تو معمول کے موافق خدام پروانہ وار آپ کی طرف دوڑے۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون خیریت پوچھی کہ آپ اچھی طرح سے ہیں؟ پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔ اور انہوں نے بابا چٹّو جو آئے تھے انہوں نے کہا کہ بڑا شکر ہے۔ حضرت اقدس نے حکیم محمد حسین قریشی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کر دو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کر دو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کریں۔ حکیم صاحب نے کہا بہت اچھا۔ انشاء اللہ تکلیف نہیں ہو گی۔ اور پھر حضرت اقدس نے ان مہمان سے پوچھا کہ آپ نے روزہ تو نہیں رکھا ہوا۔ انہوں نے کہا مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے۔ یہ احمدی نہیں تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر و بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت و رخصت دی ہے۔ اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ گناہ ہے۔ کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے۔ جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے کہ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو۔ مَیں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں تو مَیں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جاؤں گا۔ (ان مہمان سے پوچھا) کیا آپ بھی چلیں گے؟ بابا چٹُّو نے کہا نہیں، میں تو نہیں جا سکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بیشک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔ حضرت اقدس نے فرمایا یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ اب آپ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔ اس پر بابا صاحب نے کہا کہ مَیں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھاؤں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مر جاویں۔ حضرت اقدس نے فرمایا: ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ پھر فرمایا کہ میں تھوڑی دور ہو آؤں۔ آپ آرام کریں۔‘‘ (ماخوذ از الحکم مورخہ 31 جنوری 1907ء صفحہ 14 جلد 11 نمبر 4)

بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ہوا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پھر وہی قول بیان فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ بیمار یا مسافر روزے کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرۃ: 185) جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے۔ اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں۔ خدا تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے۔ بعد کے روزے اس پر بہرحال فرض ہیں۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امر زائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزے رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد وہ روزے رکھے۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے‘‘۔ زور سے نجات نہیں حاصل کی جا سکتی۔ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 430-431۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا یا کسی اور سے معلوم ہوا (یہ مجھے یادنہیں ) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفرمیں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کر دیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔‘‘ چنانچہ سب کے روزے کھلوا دئیے گئے۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 125 روایت نمبر 1159)

پھر ایک اور روایت ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ میاں عبداللہ سنوری صاحب نے بیان کیا کہ ’’اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینے میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آئے۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔ حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھیں تو نہیں رکھنا چاہئے۔ اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 97 روایت نمبر 117)

اسی طرح حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خانصاحب محمد خان صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا مَیں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور میرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ (سورج ڈوبنے والا تھا۔) حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمدنے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اور فرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔ میں نے تعمیل ارشاد کی اور اس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم (وہاں کچھ دن ٹھہرنا تھا) روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔ (کیونکہ بعد کے دنوں میں وہاں قیام تھا اس لئے پھر انہوں نے روزے رکھے۔ اس قیام کے دوران ان دنوں میں جو روزے رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام افطاری کے وقت تھال میں رکھ کر ٹرے میں شربت کے تین بڑے گلاس لائے اور ہم اس سے روزہ کھولنے لگے۔ تو میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو یعنی منشی اروڑے خانصاحب کو ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔ (سارا دن کا روزہ ہے ایک ایک گلاس آپ پانی کا لائے ہیں اس سے ان کا کیا بنے گا۔) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسکرائے اور جھٹ اندر تشریف لے گئے اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اور منشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر کہ حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں، پیتے رہے اور ختم کر دیا۔ (اصحاب احمدؑ جلد 4 صفحہ 224۔ نیا ایڈیشن۔ روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ)۔ ایک بڑا جگ لے کرآئے وہ ختم کر دیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایک روایت تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے۔ آپ کا لیکچر منڈوا بابو گھنیا لعل (جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا۔ لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی۔ پھر وہ اور آگے ہوئے۔ پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی۔ اس پر لوگوں نے شور مچا دیا کہ یہ ہے رمضان شریف کا احترام۔ روزے نہیں رکھتے اور بکواس شروع کر دی۔ لیکچر بند ہو گیا اور حضور پس پردہ ہو گئے۔ (پیچھے چلے گئے۔) گاڑی دوسری طرف دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضور اس میں داخل ہو گئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا مگر حضور بخیر و عافیت قیامگاہ پہنچ گئے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ اَجْ لوکاں نے مرزے نوں نبی بنا دِتّا۔ یہ میں نے خود ان کے منہ سے تو نہیں سنا۔ پھر آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے۔ تو اس وقت ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مار رہے ہیں ابھی تک شور شرابا ہے۔ ذرا ٹھہر جائیں۔ تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ’وہ گیا جسے مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے‘۔ چونکہ اس موقع پر مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی، (یہ فساد پیدا ہوا تھا، لوگوں نے شور مچایا تھا) اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ سب احمدی ان کے پیچھے پڑ گئے کہ تمہاری وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آ گئے اور کہتے ہیں بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کر دیا تو حضور نے فرمایا مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کر دیا۔ (یہ جواب تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا۔ جب یہ جواب حضرت مفتی صاحب نے سنا تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ) پھر تو مفتی صاحب اور بھی شیر ہو گئے۔‘‘ (ماخوذ ازسیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 147 روایت نمبر 1202)

بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دورہ ہوا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستے کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستے کو پسند فرماتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی جلداول حصہ سوئم صفحہ 637روایت نمبر 697)

یہ سوال ہوا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جبکہ کام کی کثرت ہو مثلاً بیجائی ہو رہی ہے یا کٹائی ہو رہی ہے، ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا۔ تو اس کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ۔ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب میسر ہو رکھ لے۔ (خاص طور پر گرمی کے دن لمبے ہوتے ہیں اور ان ممالک میں شدید گرمی ہوتی ہے۔ وہاں کے بارے میں ہے کہ مزدوری کی وجہ سے بعد میں رکھ لیں اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَ۔ کی نسبت فرمایا ’’اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 394۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

رمضان میں جن سے روزے نہیں رکھے جاتے وہ فدیہ دیتے ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزے کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزے کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 258-259۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کر سکا۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرط استطاعت ان دونوں حالتوں میں دینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت دے اسے پھر روزے رکھنے ہوں گے سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں، کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہو اگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید بھی فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ389)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں (یا جو بھی اب جماعتی نظام ہے اس میں دینا جائز ہے کہ نہیں )؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 171۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اپنا کوئی واقف کار ہے کسی کے روزے کھلوانے ہیں تو وہاں بھی کھلوائے جا سکتے ہیں۔ بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ایک خط سے یہ سوال آپ کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں بوقت سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہو گئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟ (دیر تک سحری کھاتا رہا۔ سفیدی ظاہر ہو چکی تھی۔) آپ نے فرمایا کہ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلے میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 186۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اگر بے خبری میں کھا لیا پھر کوئی حرج نہیں۔ عمر کا سوال کہ کس عمر میں روزہ رکھنا چاہئے؟ کئی بچے بھی پوچھتے ہیں۔ بڑے بھی پوچھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت ان کو روزوں کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ (بارہ تیرہ سال میں جب روزے کی اجازت دلوائی تھی تو صرف ایک روزہ رکھوایا تھا۔) اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھناچاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ (بچپن میں ماں باپ کا کام ہے روکیں، زیادہ نہ رکھنے دیں۔ پھر جب جوانی کی عمر آ رہی ہے تو پھر جرأت دلائیں اور ان سے روزے رکھوائیں) اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ (اکثر یوں ہی ہوتا ہے۔ میرے پاس بھی ایسے آتے ہیں۔) اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے بچے روزے کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلے میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ہی ان الفاظ کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزے کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا نہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ طعن کرنے والے بھی اپنی جان پر ظلم کریں گے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 385)

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی تھیں کہتی ہیں قبل بلوغت کم عمری میں آپ علیہ السلام روزہ رکھوانا پسندنہیں کرتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوت افطار دی۔ یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔ اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں مَیں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔ غالباً حضرت امّاں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔ آپ نے ایک پان اٹھا کر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھا لو۔ تم کمزور ہو۔ ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔ میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ۔ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ) نے بھی روزہ رکھا ہوا ہے۔ وہ بھی اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں ان کا بھی تڑوا دیں۔ فرمایا بلاؤ اس کو بھی۔ مَیں بلا لائی۔ وہ آئیں تو ان کو بھی دوسرا پان اٹھا کر دیا اور فرمایا لو یہ کھا لو۔ تمہارا روزہ نہیں ہے۔ فرماتی ہیں کہ غالباً میری عمر دس سال کی ہو گی۔ (ماخوذ از تحریراتِ مبارکہ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 214 باب روزہ اور رمضان)

اسی طرح تراویح کے بارے میں بعض سوال ہیں۔ اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عموماً محنتی مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجا لانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائے تو کیا جائز ہو گا؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ کچھ حرج نہیں۔ پڑھ لیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 65۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیا ارشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے۔ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہیں اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ (مناسب تو یہی ہے کہ تہجد کے وقت اٹھ کے آٹھ رکعت پڑھا جائے لیکن اگر پہلی رات پڑھ لو تو پھر بھی جائز ہے۔) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اول حصہ میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ113۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ جو بیس رکعات یا زیادہ رکعات والی باتیں ہیں یہ تو بعد کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ رکعت تہجد ہے۔

ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہئے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے۔ فرمایا سفر میں دوگانہ سنت ہے۔ تراویح بھی سنت ہے۔ پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے۔ کوئی نئی نماز نہیں ہے۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 22۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ چند باتیں تھیں رمضان سے متعلق جو مَیں نے بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرتے ہوئے رمضان کے روزوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 3؍ جون 2016ء شہ سرخیاں

    انشاء اللہ تعالیٰ تین چار دن تک رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ ان دنوں میں روزے لمبے دن ہونے کی وجہ سے گرم ممالک میں بڑے سخت بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر صحت مند بالغ پر یہ فرض ہیں۔ ہاں بعض حالات میں روزے رکھنے میں سہولت بھی دی گئی ہے۔

    اسلام کے جو بنیادی رکن ہیں ان کے مسائل کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور حَکَم اور عدل بنا کر بھیجا ہے جنہوں نے اسلام کی تعلیم پر بنیاد رکھتے ہوئے ہر معاملے کا فیصلہ کرنا تھا اور کیا اور ہر مسئلے کا حل بتانا تھا اور بتایا۔ پس اس لحاظ سے اس زمانے میں ہمیں اپنے مسائل کا حل اور علم میں اضافے کے لئے آپ علیہ السلام کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں شرعی احکامات کے بارے میں آپ علیہ السلام کا حکم یا نظریہ ہی ہمارے لئے اس مسئلے کا فقہی حل اور فیصلہ ہے۔

    قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات و ہدایات کی روشنی میں رمضان المبارک کے آغاز، سحری و افطاری، مسافر اور مریض کے روزہ، فدیہ رمضان، روزہ رکھنے کی عمر، نماز تہجد و تراویح وغیرہ کے مسائل کا تذکرہ

    فرمودہ مورخہ 03؍جون 2016ء بمطابق03احسان 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور