رمضان: دعاؤں کی قبولیت کی شرائط، اس کے اصول اور فلسفہ
خطبہ جمعہ 17؍ جون 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 187) اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔ یہ آیت روزے رکھنے کے حکم، اس کی شرائط اور اس سے متعلق احکامات کی آیات کے قریباً بیچ میں رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان اور دعاؤں کی قبولیت کے خاص تعلق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تعلق کو یوں بیان فرمایا کہ ’’روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ذریعہ ہے ویسا ہی قرب الٰہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 308)
پس صرف رمضان کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کی وجہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے تقویٰ سیکھنے، تقویٰ سے زندگی بسر کرنے اور قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اور جب یہ صورت ہو گی تو اللہ تعالیٰ سے رمضان میں پیدا کیا ہوا تعلق صرف رمضان تک محدودنہیں ہو گا بلکہ مستقل تبدیلی کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی اس آیت میں بتایا ہے کہ مَیں قریب ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں شیطان جکڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب آ جاتا ہے۔ نچلے آسمان پر آ جاتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول رمضان او شھر رمضان… حدیث 1899 و صحیح بخاری کتاب التہجد باب الدعاء و الصلاۃ من اٰخر اللیل حدیث1145)
لیکن کن کے قریب آتا ہے؟ ان کے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کو محسوس کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی بات مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتا لگاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے لبّیک کہتے ہیں۔ اس بات پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب طاقتوں والا ہے۔ اگر مَیں اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کے لئے خالص ہوتے ہوئے اس سے مانگوں گا تو وہ میری دعائیں سنے گا۔
پس اللہ تعالیٰ بیشک اپنے بندوں کے سوال کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ مَیں قریب ہوں، میں اپنے بندے کی دعاؤں کو سنتا ہوں اور اس مہینہ میں خاص طور پر تمہارے قریب آ گیا ہوں مجھے پکارو لیکن اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے مجھے پکارنے سے پہلے یہ شرط ہے کہ میری سنو۔ میرے احکامات پر عمل کرو۔ اور میری تمام طاقتوں پر کامل یقین اور ایمان رکھو۔ اِن شرائط پر تمہیں عمل کرنا ہو گا۔
پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم دعا کرتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ اپنے جائزے بھی لیتے ہیں؟ کہ انہوں نے کہاں تک خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا ہے؟ اگر ہمارے عمل نہیں۔ ہمارا ایمان صرف رسمی ہے تو پھر ہمارا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو پکارا لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے کیا شرائط رکھی ہیں: فرمایا کہ ’’پہلی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ مَیں ان کی آواز سنوں‘‘۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 261)
تقویٰ پیدا ہو۔ خدا سے ڈریں۔ خدا کا خوف ہو تو پھر اللہ تعالیٰ آواز سنتا ہے۔ دوسری بات کہ مجھ پر ایمان لائیں۔ کیسا ایمان؟ اس بات پر ایمان کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔ خدا کے وجود اور اس کے تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھنے کا تجربہ چاہے انسان کو ہؤا ہے یا نہیں ہؤا یا خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی تمام طاقتوں کے مالک ہونے کی معرفت عطا ہوئی ہے یا نہیں ہوئی۔ اگر نہیں بھی ہوئی تب بھی ایسا ایمان ہو کہ خدا تعالیٰ ہے اور سب طاقتوں کا مالک ہے۔ گویا ایمان بالغیب ہو۔ اگر پہلے یہ ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا عرفان بھی ملے گا جس سے خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کے تمام طاقتوں کے مالک ہونے، اس کا دعاؤں کا جواب دینے کا تجربہ بھی ہو جائے گا۔ پہلے انسان کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہو گا پھر اللہ تعالیٰ قدم بڑھاتا ہے اور پھر ثبوت بھی مہیا ہو جائے گا۔ دعاؤں کی قبولیت کی شرائط، اس کے اصول، اس کا فلسفہ وغیرہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تفصیل سے مختلف مواقع پر روشنی ڈالی ہے۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند حوالے بھی پیش کروں گا جس سے ہم اس مضمون کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے، رمضان میں اسے قرب الٰہی کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنا علم و معرفت بھی بڑھا سکتے ہیں اور حقیقی ہدایت پانے والوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں اور رمضان کا حقیقی فیض بھی پا سکتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بھی انہوں نے دعائیں کی ہیں وہ ضرور قبول ہونی چاہئیں۔ اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت تو میں نے پہلے کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبولیت کے لئے بعض شرائط رکھی ہیں جنہیں پورا کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ قبولیت کے کیا اصول ہیں اور بعض دفعہ سب شرائط پوری کرنے والوں کی بھی دعا اس طرح قبول نہیں ہوتی جس طرح وہ دعا مانگتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’دعا کا اصول یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ قبول دعا میں ہمارے اندیشہ اور خواہش کے تابع نہیں ہو تا۔ دیکھو بچے کس قدر اپنی ماؤں کو پیارے ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ لیکن اگر بچے بیہودہ طور پر اصرار کریں اور رو کر تیز چاقو یا آگ کا روشن اور چمکتا ہوا انگارہ مانگیں تو کیا ماں باوجود سچی محبت اور حقیقی دل سوزی کے کبھی گوارا کرے گی کہ اس کا بچہ آگ کا انگارہ لے کر ہاتھ جلا لے یا چاقو کی تیز دھار پر ہاتھ مار کر ہاتھ کاٹ لے؟ ہر گز نہیں۔ اسی اصول سے اجابت دعا کا اصول سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’مَیں خود اس امر میں ایک تجربہ رکھتا ہوں کہ جب دعا میں کوئی جز و مضر ہوتا ہے تو وہ دعا ہر گز قبول نہیں ہوتی۔ یہ بات خوب سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہمارا علم یقینی اور صحیح نہیں ہوتا۔ بہت سے کام ہم نہایت خوشی سے مبارک سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ان کا نتیجہ بہت ہی مبارک خیال کرتے ہیں۔ مگر انجامکار وہ ایک غم اور مصیبت ہو کر چمٹ جاتا ہے۔ غرض یہ کہ خواہشات انسانی سب پر صادنہیں کر سکتے کہ سب صحیح ہیں۔ (ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ صحیح ہیں ) چونکہ انسان سہو اور نسیان سے مرکب ہے (بھول چوک انسان سے ہوتی ہے، فطرت میں ہے) اس لئے ہونا چاہئے اور ہوتا ہے کہ بعض خواہش مضر ہوتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو منظور کر لے تو یہ امر منصب رحمت کے صریح خلاف ہے۔‘‘
پس انسان تو سمجھتا ہے کہ اس کو ہونا چاہئے لیکن خواہش بعض دفعہ انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے منظور کر لے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا جو مقام ہے اس کے یہ بات خلاف ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ تو دعا کرنے والے کے لئے، اپنے بندے کے لئے رحمت چاہتا ہے۔ اگر ہر خواہش اس کی پوری کر لے چاہے اس سے اس کا نقصان ہو رہا ہو تو اس کا جو مقام رحمت ہے وہ بات پھر اس کے خلاف چلی جاتی ہے۔ فرمایا کہ ’’یہ ایک سچا اور یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے مگر ہر رطب ویابس کو نہیں کیونکہ جوش نفس کی وجہ سے انسان انجام اور مآل کو نہیں دیکھتا اور دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ جو حقیقی بہی خواہ اور مآل بِین ہے ان مضرتوں اور بدنتائج کو ملحوظ رکھ کر جو اس دعا کے تحت میں بصورت قبول داعی کو پہنچ سکتے ہیں اسے ردّ کر دیتا ہے (انسان تو اپنا انجام نہیں دیکھتا لیکن اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کا ایک حقیقی خیر خواہ ہے اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ اس کو انجام کی بھی خبر ہے۔ انجام اس کو نظر آ رہا ہے کہ کیا ہونا ہے تو وہ اس کے جو نقائص ہیں، جو نقصانات پہنچ سکتے ہیں، جو بدنتائج ہو سکتے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کو ردّ کر دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی خیر خواہی اسی میں سمجھتا ہے کہ اس کی یہ دعا ردّ کر دے) اور فرمایا کہ یہ ردّ ِدعا ہی اس کے لئے قبول دعا ہوتاہے۔ (جب ایسی دعا اللہ تعالیٰ کے ہاں ردّ کر دی جاتی ہے، قبول نہیں ہوتی تو یہی اللہ تعالیٰ کی قبولیت کی گواہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سمجھا کہ اس انسان کے لئے یہ بہتر نہیں۔ اس بندے کے لئے یہ بہتر نہیں ) پس ایسی دعائیں جن میں انسان حوادث اور صدمات سے محفوظ رہتا ہے اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے مگر مضر دعاؤں کو بصورت ردّ قبول فرما لیتا ہے۔‘‘(بعض جن میں فائدہ ہے وہ اسی طرح قبول کرتا ہے۔ جن میں انسان کا نقصان ہوتا ہے ان کو ردّ کر دیتا ہے۔ قبول نہیں فرماتا ہے اور یہی اس کی قبولیت ہے)
آپ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یہ الہام بار ہا ہو چکا ہے۔ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ہر ایک ایسی دعا جو نفس الامر میں نافع اور مفید ہے قبول کی جائے گی۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 106-107۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جو مانگنے کے لحاظ سے نافع ہے، نفع دینے والی ہے اور مفید ہے وہ قبول کی جائے گی۔ ہر دعا نہیں قبول ہو گی۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء اور نبیوں کی بھی بعض دعائیں سنتا ہے بعض نہیں سنتا اور اس لئے نہیں سنتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ فائدہ مندنہیں ہیں یا ان کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھنے والا ہے اور وہ بہتر جانتا ہے۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ دعا کے لئے اپنے اعمال اور اعتقاد کو بھی دیکھنا ضروری ہے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا(صرف دعا ضروری نہیں۔ اعمال بھی ضروری ہیں) بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ (اگر اعمال نہیں اور صرف دعا ہے تو وہ دعا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تم آزمائش کر رہے ہو) اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دعا کے ہیں۔ پہلے لاز م ہے کہ انسان اپنے اعتقاد اعمال میں نظر کرے کیونکہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔ (اصلاح ہوتی ہے اس کے لئے بعض سبب موجود ہونے چاہئیں) وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پید اکردیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہوجاتاہے۔ وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔ (دعا ہو گئی اس لئے اسباب کی کوئی ضرورت نہیں ہے) وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے (دعا بھی تو کسی کام کے کرنے کے لئے ایک چھپا ہوا سبب ہے اس کام کے کرنے کی وجہ بنتا ہے) جو دوسرے اسباب کو پیداکردیتا ہے (دعا کے ذریعہ سے۔ دعا بذات خود ایک سبب ہے ایک وجہ بنتی ہے اور یہ وجہ جب دعا قبول ہوتی ہے تو اس کام کے کرنے کے لئے دوسرے سبب پیدا ہوجاتے ہیں۔ کسی انسان کو قرض کی ضرورت ہے، پیسوں کی ضرورت ہے، کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ کسی ذریعہ سے اس کو وہ مہیا کروا دیتا ہے، اس کے لئے آسانیاں پیدا کروا دیتا ہے۔ آسمان سے کوئی چیز نہیں ٹپکتی۔ اگر کسی کو پیسوں کی ضرورت ہے تو آسمان سے نہیں اتریں گے بلکہ کوئی ذریعہ بنے گا اور وہی سبب ہے جو دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنایا) فرمایا اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کا تقدّم اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن پر جو کلمہ دعائیہ ہے اس امر کی خاص تشریح کررہا ہے۔ (پہلے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہا اور پھر تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں۔ ساتھ مدد مانگتے ہیں اور دعا کے ساتھ ہی مدد جو اسباب کی طرف توجہ ہے وہ بھی ہو جاتی ہے) غرض عادت اللہ ہم یونہی دیکھ رہے ہیں کہ وہ خلق اسباب کردیتا ہے۔ دیکھو پیاس کے بجھانے کے لئے پانی اور بھوک مٹانے کے لئے کھانا مہیا کرتا ہے مگر اسباب کے ذریعہ۔ (کوئی ذریعہ بناتا ہے) پس یہ سلسلہ اسباب یونہی چلتا ہے اور خَلقِ اسباب ضرورہوتا ہے(سبب پیدا ہوتے ہیں ) کیونکہ خدائے تعالیٰ کے یہ دو نام ہی ہیں کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ عزیزتو یہ ہے کہ ہر ایک کام کردینا (غالب ہے، طاقت رکھتا ہے، ہر کام کر سکتا ہے، کر دیتا ہے) اور حکیم یہ کہ ہر ایک کام کسی حکمت سے موقع اور محل کے مناسب اور موزوں کردینا۔) ’’دیکھو نباتات جمادات میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں۔ تُربدہی کو دیکھو کہ وہ ایک دو تولہ تک دست لے آتی ہے۔ ایسا ہی سقمونیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر تو قادر ہے کہ یونہی دست آجائے یا پیاس بدوں پانی ہی کے بجھ جائے(بغیر پانی کے پیاس بجھ جائے) مگر چونکہ عجائبات قدرت کا علم کرانا بھی ضروری تھا کیونکہ جس قدر واقفیت اور علم عجائبات قدرت کا وسیع ہوتا جاتا ہے اسی قدر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات پراطلاع پاکرقرب حاصل کرنے کے قابل ہوتاجاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 124-125۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ اللہ تعالیٰ نے چیزیں پیدا کی ہیں ان کی صفات اور ان کی خاصیات کا علم دلوانا بھی تو اللہ تعالیٰ کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزیں ہیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کا علم جب بڑھتا ہے تو جتنا جتنا علم وسیع ہوتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کی صفات پہ اطلاع ہوتی ہے۔ انسان کو اس کا فہم حاصل ہوتا ہے اور اس قابل ہو جاتا ہے کہ انسان اس کا فہم حاصل کرے اور یہی ایک دیندار شخص کا کام ہے۔ ایک دہریہ اپنے علم کو بہت کچھ سمجھتا ہے لیکن ایک مومن اس علم کے اضافے سے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی قدرتوں کو جاننے والا بنتا ہے۔
پھر دعا کی فلاسفی کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ:
’’دیکھو ایک بچہ بھوک سے بیتاب ہے اور بیقرار ہوکر دودھ کے لئے چلّاتا ہے اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مارکر آجاتا ہے حالانکہ بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا۔ لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اس کی چیخیں دودھ کو جذب کر لیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا امر ہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کو اس کا تجربہ ہے۔ بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں لیکن جونہی بچہ کی دردناک چیخ کان میں پہنچی فوراً دودھ اتر آیا۔ جیسے بچے کی ان چیخوں کو دودھ کے جذب اور کشش کے ساتھ ایک علاقہ ہے، (ایک تعلق ہے) میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلّاہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 198۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ ماں بچے کی جو مثال آپ نے دی ہے یہ دعا کا فلسفہ ہے۔ اس کے تحت مانگنا انسان کا خاصّہ ہونا چاہئے اور جب یہ انسان کا خاصّہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کا بھی نظارہ دکھاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مانگنا انسان کا خاصّہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے۔ بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتاہے اسے مل نہیں سکتا۔ (اگر رحیمیت کو لینے کے لئے رحمانیت کو چھوڑیں تو نہیں ہو سکتی) رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے۔ (اللہ تعالیٰ کی جو رحیمیت ہے، اس سے مانگ کے لینے کی جو طاقتیں ہیں وہ طاقت رحمانیت اس میں پیدا کرتی ہے) جو ایسا نہیں کرتا وہ کافر نعمت ہے(اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکاری ہے) اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے یہی معنی ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ان ظاہری سامانوں اور اسباب کی رعایت سے جو تو نے عطا کیے ہیں (ہم عبادت کرتے ہیں اور ظاہری اسباب میں سے ایک سبب دعا کا ہے۔ دوسرے ان چیزوں کو حرکت میں لانے کا جو ہمارے لئے اس کام کے لئے مقرر کی گئی ہیں ) دیکھو یہ زبان جوعروق اور اعصاب سے خَلق کی ہے (اس میں زبان ہے اس کے اعصاب بنائے گئے ہیں۔ اس میں لعاب ہے جو اس کے اندر ہے) اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے (زبان خشک ہو جائے تو انسان بول نہیں سکتا۔ زبان کا کوئی پٹھہ کھچ جائے تو وہیں جم جاتی ہے) فرمایا کہ ایسی زبان دعا کے واسطے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے(زبان عطا کی تا کہ دل کے خیالات ظاہر ہوں۔ اس سے انسان بول سکے) اگر ہم دعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو یہ ہماری شوربختی ہے (شور بختی، مطلب بدقسمتی ہے) بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تویکد فعہ ہی زبان اپنا کام چھوڑ بیٹھتی ہے یہاں تک کہ انسان گونگا ہو جاتا ہے۔ پس یہ کیسی رحیمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے۔ ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آ جاوے تو خاک بھی سنائی نہ دے۔ ایسا ہی قلب کا حال ہے۔ وہ جو خشوع وخضوع کی حالت رکھی ہے اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں رکھی ہیں اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریباً بیکار ہو جاتی ہیں۔ مجنونوں کو دیکھو کہ ان کے قویٰ کیسے بیکار ہو جاتے ہیں۔ تو کیا یہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خدادادنعمتوں کی قدر کریں؟ اگر ان قویٰ کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل سے ہم کو عطا کیے ہیں بیکار چھوڑ دیں تو لاریب ہم کافر نعمت ہیں (تو پھر یقینا ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرنے والے ہیں۔ ناشکرے ہیں ) پس یادرکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطّل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں تو دعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتی (جو اللہ تعالیٰ نے طاقتیں دی ہیں، قوتیں دی ہیں، صلاحیتیں دی ہیں اور اسباب کی طرف توجہ دینے کا حکم دیا ہے ان سب کو کام میں لاؤ اور پھر دعا کرو۔ اگر اس کے بغیر ہے توپھر دعا کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی) کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے کو کب اپنے لیے مفید اور کار آمد بنا سکیں گے؟ (ملفوظات جلد اول صفحہ 130-131۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا کئے ہیں اور ان سے کام لینا، پھر دعا کرنا تب ہی ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے۔
پھر اس بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں، مثالیں موجود ہیں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’غرض یہ ہے کہ قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں اور ہرزمانہ میں خداتعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے۔ اسی لئے اس نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا تعلیم فرمائی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا منشاء اور قانون ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا سے پایا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر (جو ہمارے اعمال ہیں ان کو مکمل کر اور جو ان کی انتہا ہو سکتی ہے وہاں لے جا) ان الفاظ پرغورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر تو اشارۃ النص کے طور پر اس سے دعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ (بظاہر یہی ہے کہ ایک کھلا اشارہ ہے کہ دعا کرو) صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے (اس طرف ہی اشارہ لگ رہا ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت اللہ تعالیٰ سے مانگو) لیکن اس کے سر پر اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن بتارہا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یعنی صراطِ مستقیم کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانتِ الٰہی کو مانگنا چاہئے۔ (صراط مستقیم پر چلنے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے قویٰ دئیے ہیں ان کو کام میں لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو) پس ظاہری اسباب کی رعایت ضروری ہے۔ جو اس کو چھوڑتا ہے وہ کافر نعمت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 199۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جائیں تو وہ یکدفعہ ہی کام چھوڑ بیٹھتی ہے۔ (زبان کے بارے میں پہلے بھی مثال دی ہے) یہ رحیمیت ہے۔ ایسا ہی قلب میں خشوع وخضوع کی حالت رکھی اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں ودیعت کی ہیں۔ پس یادرکھو اگر ہم ان قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کردعا کرتے ہیں تو یہ دعا کچھ بھی مفید اور کارگر نہ ہوگی کیونکہ جب پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے سے کیا نفع اٹھائیں گے۔ اس لئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے پہلے اِیَّاکَ نَعْبُدُ بتارہا ہے کہ ہم نے تیرے پہلے عطیوں اور قوتوں کو بیکار اور بربادنہیں کیا۔ یادرکھورحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اٹھانے کے قابل بنادے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے جو اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ فرمایا یہ نری لفّاظی نہیں ہے بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے۔ مانگنا انسانی خاصّہ ہے اور جو استجابت جُو اللہ تعالیٰ کا نہیں (جو اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کی تلاش میں نہیں ہے) وہ ظالم ہے۔ دعا ایک ایسی سرور بخش کیفیت ہے‘‘ فرمایا کہ ’’مجھے افسوس ہوتا ہے کہ مَیں کن الفاظ میں اس لذت اور سرور کو دنیا کو سمجھاؤں۔ یہ تو محسوس کرنے ہی سے پتہ لگے گا۔ مختصر یہ کہ دعا کے لوازمات سے اوّل ضرور ی یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ اور اعتقاد پیداکریں (نیک عمل ہوں۔ وہ عمل ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنا اعتقاد، اپنا ایمان مضبوط کریں ) کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا او ردعا کرتا ہے وہ گویا خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا میں یہ مقصود ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر اور پھر یہ کہہ کر کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور بھی صراحت کردی، (کھول دیا) کہ ہم اس صراط کی ہدایت چاہتے ہیں جو منعم علیہ گروہ کی راہ ہے (ایسے لوگوں کی راہ ہمیں دے جن پر تو نے انعام کیا ہوا ہے) اور فرمایا اور مغضوب گروہ کی راہ سے بچا۔ (جن پر تیرا غضب نازل ہوا ان کے رستے پر چلنے سے ہمیں بچا۔ ہمارے اعمال ہمیشہ ٹھیک رہیں۔ کوئی ایسی بات نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہو) فرمایا کہ جن پر بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب الٰہی آگیا او راَلضَّالِّین کہہ کر یہ دعا تعلیم کی کہ اس سے بھی محفوظ رکھ کہ تیری حمایت کے بِدُوں بھٹکتے پھریں۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 199-200۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ ہمیں اس بات سے بھی محفوظ رکھ کہ تیری حمایت ہمیں حاصل نہ ہو۔ ہم تیری رحمانیت سے فائدہ نہ اٹھائیں اور اس کے نتیجہ میں پھر رحیمیت سے بھی فائدہ نہ اٹھانے والے ہوں اور تیری جو حمایت ہے، تیری مدد ہے، تیرا رحم اور فضل ہے اس سے ہم محروم ہو جائیں اور بھٹکتے جائیں۔ پس یہ ضالّین کہہ کر اس طرف بھی توجہ دلا دی۔
پھر دنیا داروں کے اس خیال کو ردّ فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ فائدہ نہیں ملتا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا، بالکل غلط اور باطل ہے۔ (جھوٹ ہے) ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کرنے کی جرأت نہ کرتے۔ جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر فضل کیا ہے۔ یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے (فارسی شعر ہے):
عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست
(کہ وہ عاشق ہی کیا ہے کہ محبوب جس کی طرف نظر نہ کرے۔ اے صاحب! اے بندے درد ہی نہیں ہے ورنہ طبیب تو موجود ہے۔ تیرے اندر دردنہیں ہے۔ طبیب موجود ہے۔ اپنے اندر درد پیدا کرو اللہ تعالیٰ تو سنتا ہے۔)
فرمایا: ’’خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ۔ صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ۔ (فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِیْ پر عمل کرو) اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنا دیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب درعجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل وبرکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو۔ اگر سچی محبت ہو تو خد اتعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے (پس ایسی محبت اللہ تعالیٰ سے پیدا کرو جو دعائیں سننے والا ہو۔ اگر سچی محبت ہو گی تو بہت دعائیں سنتا ہے) اور تائیدیں بھی کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 352-353۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
خدا تعالیٰ کی سچی محبت کو پانے کے لئے انسان کو کیسا ہونا چاہئے جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ دعائیں بھی سنے اور اپنی قربت کا اظہار بھی کرے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’شرط یہی ہے کہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ سے ہو۔ خدا کی محبت ایسی شے ہے جو انسان کی سفلی زندگی کو جلا کر اسے ایک نیا اور مصفّٰی انسان بنا دیتی ہے۔ (پاک کر دیتی ہے) اس وقت وہ وہ کچھ (دیکھتا) ہے جو پہلے نہیں دیکھتا تھا اور وہ کچھ سنتا ہے جو پہلے نہیں سنتا تھا۔ غرض خدا تعالیٰ نے جو کچھ مائدہ فضل وکرم کا انسان کے لئے تیار کیا ہے اس کے حاصل کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے استعدادیں بھی عطا کی ہیں (صرف چیزیں نہیں بنائیں۔ ہمیں استعدادیں بھی دی ہیں کہ ان کو استعمال کریں اور ان سے فائدہ اٹھائیں ) اگر وہ استعدادیں تو عطا کرتا لیکن سامان نہ ہوتاتب بھی ایک نقص تھا یا اگر سامان تو ہوتا لیکن استعدادیں نہ ہوتیں تو کیا فائدہ تھا؟ مگر نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس نے استعداد بھی دی اور سامان بھی مہیا کیا۔ جس طرح پر ایک طرف روٹی کا سامان پید اکیا تو دوسری طرف آنکھ، زبان، دانت اور معدہ دے دیا اور جگر اور اَمعاء کو کام میں لگا دیا اور ان تمام کاموں کا مدار غذا پر رکھ دیا۔‘‘ (جگر معدہ انتڑیاں یہ سب چیزیں ہیں جو غذا کو ہضم کرنے کے لئے ضروری ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر پیٹ کے اندر ہی کچھ نہ جائے گا تو دل میں خون کہاں سے آئے گا۔ کیلُوس کہاں سے بنے گا۔ غذا جو صاف ہو کے خون کا حصہ بنے گی باقی جو گندنکلے گا وہ کس طرح بنے گا۔) اسی طرح پر سب سے اوّل اس نے یہ فضل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام جیسا مکمل دین دے کر بھیجا اور آپ کو خاتم النبیین ٹھہرایا اور قرآن شریف جیسی کامل اور خاتم الکتاب عطا فرمائی جس کے بعد قیامت تک نہ کوئی کتاب آئے گی اور نہ کوئی نیا نبی نئی شریعت لے کر آئے گا۔ پھر جو قویٰ سوچ اور فکر کے ہیں ان سے اگر ہم کام نہ لیں اور خدا تعالیٰ کی طرف قدم نہ اٹھائیں تو کس قدر سستی اور کاہلی اور ناشکری ہے۔ غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلی سورۃ میں ہی ہمارے لئے کس قدر مبسوط طریق پر فضل کی راہ بتا دی ہے۔‘‘ (پس انسان کے لئے فائدہ اٹھانے کا یہ طریقہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نبی ہمیں عطا کیا تو آپ کی سنت پر چلنے والے ہوں۔ قرآن کریم جیسی کتاب ہمیں عطا کی تو اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلی سورۃ میں یعنی سورۃ فاتحہ میں ہی ہمارے لئے کس قدر مبسوط طریق پر فضل کی راہ بتا دی ہے۔) ’’اس سورۃ میں جس کا نام خاتم الکتاب اور اُمّ الکتاب بھی ہے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسانی زندگی کا کیا مقصد ہے اور اس کے حصول کی کیا راہ ہے؟ اِیَّاکَ نَعْبُدُ گویا انسانی فطرت کا اصل تقاضا اور منشاء ہے اور وہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن پر مقدم کر کے یہ بتایا ہے کہ پہلے ضروری ہے کہ جہاں تک انسان کی اپنی طاقت ہمت اور سمجھ میں ہو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کے اختیار کرنے میں سعی اور مجاہدہ کرے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں سے پورا کام لے اور اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ سے اس کی تکمیل اور نتیجہ خیز ہونے کے لئے دعا کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 353-354۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ سچی بات ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۔ انسان کمزور مخلوق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے بِدُوں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ (فضل نہ ہو تو انسان کچھ نہیں کر سکتا۔) اس کا وجود اور اس کی پرورش اور بقاء کے سامان سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہیں۔ احمق ہے وہ انسان جو اپنی عقل و دانش یا اپنے مال ودولت پر ناز کرتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے۔ وہ کہاں سے لایا؟ اور دعاکے لئے یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنے ضُعف اور کمزوری کا پورا خیال اور تصور کرے۔ جوں جوں وہ اپنی کمزوری پر غور کرے گا اسی قدر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا اور اس طور پر دعاکے لئے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہوگا۔‘‘ (لوگ کہتے ہیں دعا کے لئے جوش نہیں پیدا ہوتا۔ اپنی کمزوری دیکھے، اپنی عاجزی دیکھے، پھر اس محبت کے تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو پھر ایک جوش پیدا ہوتا ہے) فرمایا ’’جیسے انسان جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور دکھ یا تنگی محسوس کرتاہے تو بڑے زور کے ساتھ پکارتا اور چلِّاتا ہے اور دوسرے سے مدد مانگتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ اپنی کمزوریوں اور لغزشوں پر غور کرے گا اور اپنے آپ کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا تو اس کی روح پورے جوش اور درد سے بے قرار ہوکر آستانۂ الوہیت پر گرے گی اور چِلّائے گی اور یاربّ یاربّ کہہ کر پکارے گی۔ غور سے قرآن کریم کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پہلی ہی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دعاکی تعلیم دی ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِیْن۔‘‘ فرمایا کہ ’’دعا تب ہی جامع ہوسکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرّتوں سے بچاتی ہو‘‘۔ (دعا وہی صحیح ہے جو ہر قسم کے منافع، انسان کو جو نفع مل سکتا ہے یا اس کے مفاد میں جو بہتر ہے وہ اپنے اندر لئے ہوئے ہو اور نقصانوں اور جو تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں ان سے اس کو بچانے والی ہو) پس اس دعا میں (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے لے کر وَلَاالضَّالِّیْنتک) تمام بہترین منافع جو ہوسکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کردیتی ہے اُس سے بچنے کی دعا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 411-412۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں جو سب سے بڑی دعائیں کی گئی ہیں وہ دنیاوی دعائیں نہیں ہیں، دین کی دعا ہے۔ پس اپنی دعاؤں میں ہمیں سب سے مقدم اپنے دین کو بچانے کی دعا کرنی چاہئے۔ جب انسان یہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلتے ہیں اور پھر باقی دعائیں خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ اصل دعا دین کی مضبوطی کی دعا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے قرب اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ یعنی میں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا کرتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر توبہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا۔ سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خدا تعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے توبہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے۔ جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ مَیں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 300۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور دعا کی قبولیت کے جو طریق بتائے ہیں اس میں سے سب سے اعلیٰ ذریعہ نماز کی حالت کو بتایا ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کی قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بیقرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے۔ الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ اگر پینا ہے، اس کے فضل و رحم سے فیض اٹھانا ہے تو اس کے لئے بھی عاجزی، انکساری رونا اور چلّانا ہو گا۔) فرمایا کہ اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 352۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس رمضان میں جبکہ اکثر کی توجہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کی طرف بھی ہے اور نماز باجماعت ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہے۔ اس کے ساتھ نوافل کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور پھر وہ دعائیں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ہیں وہ ہمیں ترجیحاً کرنی چاہئیں۔ پہلی دعائیں یہی ہیں باقی دعائیں، دنیاوی دعائیں، ہماری دنیاوی ضروریات کی دعائیں بعد میں آنی چاہئیں تو پھر اللہ تعالیٰ خود ہی حاجات پوری کر دیتا ہے۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا بھی پیش کرتا ہوں جسے ان دنوں میں ہمیں خاص طور پر کرنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ نے یہ دعا کی تھی کہ:
’’اے ربّ العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے اعمال کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین۔ ثم آمین۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 235۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دعاؤں کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں۔ یہ رمضان ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے اور پھر اس پر مستقل قائم رکھے جو خدا تعالیٰ پر ایمان میں مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کے احکامات کو سنتے اور عمل کرتے ہیں اور اپنی ہر بات پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرتے ہیں۔ ہمارے اعمال خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہوں اور ہمارے اعتقاد میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا ہو۔ ہم میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی بلاؤں سے بھی بچائے۔
نماز کے بعد میں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ ایک مکرم راجہ غالب احمد صاحب کا ہے۔ یہ جماعت کے دیرینہ خادم اور اردو کے بڑے معروف شاعر اور ادیب تھے۔ ماہر تعلیم تھے۔ انہوں نے حکومت کی نوکری کی اور یہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئر مین بھی رہے ہیں۔ یہ 4؍جون 2016ء کو لاہور میں 88سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ گجرات شہر میں یہ 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد حضرت راجہ علی محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ انہوں نے 1905ء میں بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے والد کو قادیان میں بطور ناظر مال اور ناظر اعلیٰ خدمت کی توفیق ملی۔ راجہ غالب صاحب کے نانا ملک برکت علی صاحب تھے اور حضرت ملک عبدالرحمن خادم صاحب جو خالد احمدیت تھے آپ کے ماموں تھے۔ لاہور سے انہوں نے میٹرک کیا۔ پھر قادیان سے ایف۔ اے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے سائیکالوجی میں ماسٹر کی ڈگری لی اور پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔ بحیثیت شاعر دانشور ماہر تعلیم اور ادب کے ناقد ملک کے مقتدر علمی اور ادبی حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے پہچانے جاتے تھے۔ روزنامہ الفضل کے ساتھ ملکی اور بین الاقوامی جرائد میں بھی ان کی نظمیں اور تحریریں اردو اور انگریزی میں شائع ہوتی رہیں۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز پاکستان ایئر فورس سے کیا۔ پھر محکمہ تعلیم پنجاب کو 1962ء میں جوائن کیا۔ پھر بڑے اہم مختلف کلیدی عہدوں پر فائز رہے جنرل سیکرٹری اور کنٹرولر بورڈ آف انٹرمیڈیٹ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب، چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ سرگودھا، چیئرمین پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور مشیر تعلیم حکومت پنجاب ان کی نمایاں ملکی خدمات ہیں۔ جماعتی خدمات کا سلسلہ بھی بہت طویل ہے۔ جماعت احمدیہ ضلع لاہور میں آپ جنرل سیکرٹری، سیکرٹری تعلیم اور کئی عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ 1974ء کے بعد آپ کو بطور ترجمان جماعت احمدیہ کئی بار پریس کانفرنسیں اور پریس ریلیزیں اور بیانات جاری کرنے کا موقع ملا۔ خطوط لکھنے والے تھے۔ اخبارات کو ذاتی بیان دینے کا موقع ملا۔ 1992تا 97ء ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن۔ 74ء تا 85ء ڈائریکٹر وقف جدید اور اس کے علاوہ نائب صدر ناصر فاؤنڈیشن بھی رہے۔ بڑے سادہ مزاج اور بڑے دھیمے مزاج کے تھے۔ خلافت سے ان کا بڑا تعلق تھا اور جماعتی عہدیداروں کی بھی بڑی عزت اور احترام کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولادنہیں تھی۔ ان کی ایک لَے پالک بیٹی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم ملک محمد احمد صاحب کا ہے جو واقف زندگی تھے۔ 6؍مئی 2016ء کو وفات پا گئے۔ یہ دونوں جنازے پچھلی دفعہ پڑھانے تھے بس کسی وجہ سے رہ گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے۔ خلفائے احمدیت اور نظام خلافت کے ساتھ اطاعت کا جذبہ اور بڑی محبت اور وفا کا تعلق رکھتے تھے۔ تمام بچوں کو بھی یہی صفت اپنانے کی نصیحت کرتے تھے۔ نظام جماعت کے فرمانبردار، نہایت شریف النفس، ملنسار، منکسر المزاج، رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے والے، ہمدرد، نیک انسان تھے۔ زندگی بھر کئی گھرانوں کی کفالت کی۔ کچھ بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی اٹھائی اور جو وفات تک بڑی خوش اسلوبی سے نبھائی۔ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے پانچ ہزار مجاہدین میں شامل تھے۔ تعمیر مساجد اور دوسری تحریکات میں بڑی فراخدلی سے حصہ لیتے تھے۔ ربوہ میں زمین کا ایک ٹکڑا بھی، ایک پلاٹ بھی جماعت کو پیش کیا۔ 20؍اکتوبر 1945ء کو آپ نے زندگی وقف کی۔ پہلے تو کہیں باہر کام کررہے تھے۔ بہرحال اس کے بعد پھر زندگی وقف کر کے آ گئے اور ربوہ میں تعمیرات کے شعبہ میں 1949ء سے 55ء تک خدمت کی۔ 55ء سے 68ء تک وکالت تبشیر میں سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمت بجا لائے۔ 1969ء سے 82ء تک بطور نائب افسر امانت خدمت کی توفیق پائی۔ 82ء سے 86ء تک نائب وکیل المال ثانی کی خدمت کی توفیق پائی۔ 85ء میں ریٹائر ہوئے اور جون 1989ء تک ری ایمپلائی ہو کر خدمت بجا لاتے رہے۔ 86ء سے 89ء تک بطور نائب وکیل تعمیل و تنفیذ خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کی خدمت کا کم و بیش 47سال کا عرصہ ہے۔ پھر آپ اپنے بچوں کے پاس جرمنی آگئے تھے۔ بڑے عبادت گزار تھے۔ تلاوت قرآن کریم کرنے والے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بڑا وسیع مطالعہ تھا۔ خدا کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ہمارے مبلغ سلسلہ لئیق طاہر صاحب ان کے چھوٹے بھائی ہیں اور یہاں الفضل انٹرنیشنل میں وقف زندگی کارکن ملک محمود ان کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو اور نسلوں کو اخلاص و وفا سے جماعت کے ساتھ اور خلافت کے ساتھ تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
’’روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ذریعہ ہے ویسا ہی قرب الٰہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔‘‘ پس صرف رمضان کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کی وجہ سے نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے تقویٰ سیکھنے، تقویٰ کی زندگی بسر کرنے اور قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اور جب یہ صورت ہو گی تو اللہ تعالیٰ سے رمضان میں پیدا کیا ہوا تعلق صرف رمضان تک محدودنہیں ہو گا بلکہ مستقل تبدیلی کے اثرات ظاہر ہوں گے۔
دعاؤں کی قبولیت کی شرائط، اس کے اصول اور فلسفہ کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات عالیہ کے حوالہ سے بصیرت افروز تذکرہ اور احباب جماعت کو اہم نصائح۔
مکرم راجہ غالب احمد صاحب (آف لاہور) اور مکرم ملک محمد احمد صاحب (آف جرمنی) کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 17؍جون 2016ء بمطابق17احسان 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔