حقیقی عبادت الٰہی اور کامل فرمانبرداری
خطبہ جمعہ 24؍ جون 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ میں اس بات کا ذکر ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اسے سب قدرتوں کامالک سمجھتے ہوئے اس سے مانگنا اور اس کے حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں۔ گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام حکم، تمام اوامر و نواہی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِیْ کہ میرے بندے میرے حکم کو قبول کریں۔ وہ حکم جو قرآن کریم میں موجود ہیں انہیں قبول کریں۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دعائیں بھی قبول کرے گا اور رُشد بھی حاصل ہو گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخر میں کیا نتیجہ نکلے گا۔ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔ تا کہ وہ بندے ہدایت پائیں اور اس ہدایت کی وجہ سے میرے قرب کے نظارے دیکھیں۔ وہ سیدھے راستے پر چلنے والے ہوں۔ ان کی رہنمائی ہو۔ نیکیوں پر چلنے والے ہوں۔ برائیوں سے بچنے والے ہوں۔ اپنے مقصد پیدائش کو بھی پورا کرنے والے ہوں اور اعلیٰ اخلاق پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ کیا ان چیزوں کی ضرورت صرف رمضان میں ہے جس کے ساتھ خاص ذکر کیا گیا ہے؟ اگر ہم رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں گے تو کیا پھر مستقل ہدایت یافتہ ہو جائیں گے کہ صرف رمضان میں عمل کر لیا؟ رمضان تو ان باتوں کے لئے خاص طور پر یاد دہانی کے لئے آتا ہے اور آیا ہے کہ اس تربیتی اور مجاہدہ کے مہینہ میں ہم تربیت لے کر، مجاہدہ کر کے یا مجاہدہ کرنے کی کوشش کر کے ایک دوسرے کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے راستے تلاش کریں۔ اجتماعی اور انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر کے اس کے ہم قریب ہوں اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں تا کہ پھر ہم مستقل اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اپنی دنیاو عاقبت سنوارنے والے بن سکیں۔ ہم میں سے بعض بہتر عمل کرنے والے ہیں، بہتر عبادتیں کرنے والے ہیں، بہتر اخلاق والے ہیں۔ اس لئے جب جمع ہوتے ہیں، اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو اجتماعی طور پر ان دنوں میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اس سے اپنی حالت کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں بے شمار احکامات ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے جن کی ہمیں وقتاً فوقتا جگالی کرتے رہنا چاہئے، دہراتے رہنا چاہئے۔ اِس وقت مَیں نے بعض احکامات لئے ہیں۔ سب سے بنیادی حکم جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور جو انسان کی پیدائش کامقصد بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے کہ ’’مَیں نے جن و اِنس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری پرستش کریں‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 185 حاشیہ)
اس مضمون کو میں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں۔ بار بار اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں لیکن ہم میں سے بہت سے چند دن اسے یاد رکھتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں حتی کہ میرے علم میں بھی ہے، اور مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض واقفین زندگی بلکہ وہ جنہوں نے دینی علم بھی حاصل کیا ہوا ہے اور علمی لحاظ سے اس کی اہمیت کو سمجھتے بھی ہیں وہ بھی اس طرح توجہ نہیں دیتے جس طرح توجہ دینی چاہئے۔ پھر جماعتی عہدیدار ہیں۔ میٹنگز میں تو اپنی علمی لیاقت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کا معاملہ پیش ہو جائے تو اسے قرآن اور حدیث کے حوالے سے سمجھاتے ہیں لیکن بعض ایسے ہیں کہ خود اس بنیادی حکم پر وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔ مَیں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے۔ اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 183-184۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ علیہ السلام نے آگے اس بات کی مزید وضاحت فرمائی کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنانے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ تم دنیاوی کام نہ کرو۔ بیشک وہ بھی کرو لیکن جو عبادت کی ذمہ داری ہے بلکہ جو مقصد پیدائش ہے وہ تمہاری اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔
آجکل رمضان میں اس پر عموماً عمل ہو ہی رہا ہے۔ رات عشاء کی نماز بھی مغربی ممالک میں بہت دیر سے ہوتی ہے۔ نماز سے فارغ ہوتے ہوتے گیارہ، سوا گیارہ بج ہی جاتے ہیں۔ پھر بعض تراویح بھی پڑھتے ہیں۔ مساجد میں تراویح کا بھی انتظام ہے۔ گھر جا کر سوتے سوتے بارہ، ساڑھے بارہ بج جاتے ہیں۔ پھر دو اڑھائی بجے سحری کھانے کے لئے جاگتے بھی ہوں گے۔ کچھ نفل بھی پڑھتے ہیں۔ مسجد میں نماز پر بھی آتے ہیں۔ تو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اگر ارادہ ہو، صرف علمی اہمیت کا ہی پتا نہ ہو بلکہ عملی کوشش بھی ہو تو نماز جو عبادت کا بہترین مقام ہے اس میں سستی نہ دکھائیں بلکہ کوشش کر کے آیا کریں۔ مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے حکم ہے۔ پس اس رمضان میں واقفین زندگی جن کا عہد ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں میں، سب سے آگے رہنے والوں میں سے ہونے کی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ کوشش کریں گے اور عہدیدار جن پر افراد کی نظر ہے اور ان کو انہوں نے چنا بھی اس لئے ہوا ہے، منتخب کیا ہے کہ ہم میں سے بہتر ہیں وہ ایک نمونہ ہونے چاہئیں۔ ان کو اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ صرف رمضان میں ہی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت پر زور نہیں دینا اور دن ہی نہ گنتے رہیں کہ باقی تیرہ دن رہ گئے یا بارہ دن رہ گئے تو پھر ہم اپنی پرانی روش پہ یا روٹین پہ آ جائیں گے بلکہ یہ کوشش ہو کہ اس رمضان کی تربیت اور مجاہدہ نے ہم میں جو عبادتوں کی طرف توجہ میں بہتری پیدا کی ہے اسے ہم نے اب مستقل زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پیش کیا جس میں آپ نے بڑے درد سے یہ توجہ دلائی اور یہ فرمایا کہ مَیں بار بار توجہ دلاتا ہوں۔ اس ضمن میں آپ کے چند اور اقتباسات پیش کرتا ہوں جس سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب خدا تعالیٰ کا ارادہ انسانی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنا لے۔ حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جا ئز نہیں۔ حقوق نفس بھی اس لیے جائز ہیں کہ تاوہ درماندہ ہو کر رہ ہی نہ جائے۔ تم بھی ان چیزوں کواسی واسطے کا م میں لاؤ۔ ان سے کا م اس واسطے لوکہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں، نہ اس لیے کہ وہی تمہارا مقصود اصلی ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 248-249۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
نفس کے حقوق ادا کرنے کا حدیث میں بھی ذکر آیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری کتاب الصوم باب من اقسم علی اخیہ لیفطر … الخ حدیث 1968)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بیشک یہ حق ہے لیکن اس میں اعتدال ہونا چاہئے۔ میانہ روی ہونی چاہئے۔ جائز حق جو ہیں نفس کے وہ ادا کرو کیونکہ یہ حقوق اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھے ہیں۔ اس لئے ان کو ادا کرنا تو بہرحال ضروری ہے۔ ان کو اپنے فائدے اور استعمال میں لاؤ ورنہ بعض چیزیں ایسی ہیں اگر ان کو استعمال نہ کیا جائے، نفس کا پورا حق نہ ادا کیا جائے تو بعض حسّیں ختم ہو جاتی ہیں اور جو انسانی پیدائش کا مقصدنہیں ہے بلکہ عبادت کے مقصد کے ساتھ ہی ان چیزوں کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی خصوصیات اور طاقتوں کو استعمال کرنا ضروری ہے اور نہ استعمال کرنا اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ ایک صحابیہ تھیں۔ ان کا برا حال تھا۔ نہ تیار ہوتی تھیں نہ کنگھی کرتی تھیں۔ کسی نے ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس طرح رہتی ہیں۔ آپ نے بلا بھیجا۔ انہوں نے کہا میں کس کیلئے تیار ہوں؟ میرا خاوند تو دن کو بھی عبادت کرتا ہے۔ رات کو بھی عبادت کرتا ہے۔ تو آپ نے خاوند کو بلا کر کہا کہ تمہارے نفس کا بھی تم پہ حق ہے۔ تمہاری بیوی کا بھی تم پہ حق ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 531 حدیث 26839 مسند حضرت عائشہؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس حقوق ہر طرح کے ادا ہونے چاہئیں لیکن جو پیدائش کا مقصد ہے اس کو بہرحال سامنے رکھنا چاہئے۔ نفس کے حقوق بھی ادا ہوں گے تو صحت رہے گی اور جب صحت رہے گی تو عبادت بھی صحیح طریقے سے ہو سکے گی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے جس قدر چیز اسے درکار ہے اگر اس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شئے حلال ہی ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لئے حرام ہو جاتی ہے‘‘۔ ہر چیز کا جائز استعمال ٹھیک ہے لیکن اگر ضرورت سے زیادہ استعمال ہے تو وہ حلال بھی حرام بن جاتا ہے۔ فرمایا ’’جو انسان رات دن نفسانی لذّات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے۔ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 68۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرماتے ہیں کہ:
’’اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ مَیں نے جنّ و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض و غایت کو مدّنظر رکھیں وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں کہ وہ دنیا میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے۔ ہاں اس وقت پتا لگتا ہے جب قابض ارواح آ کر جان نکال لیتا ہے۔‘‘ (الحکم مورخہ 24 ستمبر 1904ء صفحہ 1 جلد 8 نمبر 32 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 4 صفحہ 239)
دنیا کے جھنجھٹوں سے، دنیا کے کاموں سے اس وقت نکلتے ہیں جب موت کا وقت آتا ہے بلکہ اکثریت دنیا داروں کی تو ایسی ہے کہ موت کے وقت بھی انہیں دنیاوی دولت اور اسے سنبھالنے کی فکر ہوتی ہے۔ ایک مومن کی تو یہ حالت نہیں ہوتی کہ موت کے وقت صرف اس طرف توجہ ہو کہ دنیا کس طرح سنبھالنی ہے۔ لیکن صحت میں بہت سے ایسے ہیں جو ایمان لانے کے باوجود اس مقصد کو بھول کر جو زندگی کا مقصد ہے دنیاوی مقاصد کی تلاش میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ فکر سب سے زیادہ مقدم رکھنی چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اس رمضان میں بھی اور رمضان کے بعد بھی ہماری توجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رہے اور اس کے لئے جو مسجدوں کی آبادی کا حکم ہے اسے ہم اپنے سامنے رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے، خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے یعنی خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ قابل قدر شئے ہو جائے۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 289۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جب اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کا درد ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ انسان قابل قدر چیز بن جاتا ہے۔
پس جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر شئے ہو جائے وہی ہے جو حقیقی رشد پانے والا ہے، حقیقی ہدایت پانے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز اور عبادت کے مضمون کو اور بھی بہت جگہ بیان فرمایا ہے۔ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآءِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ (النور: 38)کہ ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا زکوۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل خوف سے الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی۔ اس آیت میں ان لوگوں کی مثال ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر شئے ہو جائے گا اور یہ اعزاز سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ملا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بنے اور اپنے صحابہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے کہ وہ تمہارے لئے راستہ دکھانے والے ہیں ان کے پیچھے چلو۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد دوم صفحہ 414کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ الفصل الثالث حدیث 6018 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا۔ ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین (کے، کاروبار کر رہا ہے، پیسہ آرہا ہے، سامان دے رہا ہے، بظاہر کاروبار میں مصروف ہے باوجود اس قدر لین دین اور ) روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ (کاروبار بھی ساتھ ساتھ کر رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوا۔ آپ فرماتے ہیں کہ) ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ کوئی تجارت اور خریدوفروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’وہ ٹٹّو کس کام کا جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے۔ وہ قابل تعریف نہیں۔‘‘ (ٹٹّو بھی گھوڑے کی ایک قسم ہوتی ہے جو خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں بوجھ لادنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔) پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ (یہ پہلو بھی سامنے ہونا چاہئے۔ عبادت مقصد ہے لیکن دنیاوی کام بھی ساتھ ساتھ ہوں۔ وہ لوگ جو گوشہ نشین ہو جاتے ہیں فقیر بن جاتے ہیں فرمایا کہ وہ کمزوری دکھلاتے ہیں۔) ’’اسلام میں رہبانیت نہیں۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہئے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے‘‘ (یہ شرط ہے۔ اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں۔‘‘ (ایک طرف کاروبار بھی ہے، ملازمتیں بھی ہیں لیکن گھر کی ذمہ داریاں ہیں، بچوں کی ذمہ داریاں ہیں، بیوی کے حقوق ہیں وہ بھی سب ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ (ملفوظات جلد9 صفحہ 206-207۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
نمازوں کی حفاظت کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ (البقرۃ: 239)کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔ اس آیت میں خاص طور پر ان لوگوں کو نماز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کے لئے کوئی بھی نماز کسی بھی طرح بوجھ ہے۔ اگر فجر کی نماز میں بوجہ رات دیر تک جاگنے اور سستی کی وجہ سے شامل ہونا مشکل ہے، وقت پہ پڑھنا مشکل ہے تو یہ ایسے شخص کے لئے صلوٰۃ وُسطیٰ ہے۔ اگر کاروباری آدمی کے لئے ظہر عصر کی نماز پڑھنا مشکل ہے تو یہ اس کے لئے صلوۃ وسطیٰ ہے۔ حَافِظُوْا کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حفاظت جو کسی چیز کو ضائع ہونے سے بچائے۔ پس ایک مومن کی فرمانبرداری اسی وقت ہوتی ہے جب وہ ان نمازوں کو وقت پر ادا کرنے والا ہو اور ان کا حق ادا کرتے ہوئے نماز ادا کرنے والا ہو۔ یہ نہیں کہ جلدی جلدی آئے اور ٹکریں مار کے چلے گئے۔
پھر ایک حکم قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عہدوں کو پورا کرنے اور ان کی پابندی کا دیا ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد بھی ہیں اور بندوں کے عہد بھی۔ اللہ تعالیٰ کے عہد، اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں عہد ہیں۔ مسلمان ہونے اور پھر ہم احمدیوں کو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا جو عہد ہے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد ہم نے کیا ہے، اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کا جو عہد ہم نے کیا ہے ان تمام باتوں کی پابندی کا عہد ہے جو اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ شرائط بیعت میں ساری چیزیں شامل ہیں۔ اور بندوں کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔ اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا۔ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَاتَفْعَلُوْنَ (النحل: 92) اور تم اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعدنہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر کفیل بنا چکے ہو۔ اللہ یقینا جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
پس بڑا واضح حکم ہے کہ تمہارے دو عہد ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد جو یقینا اسلام کی تعلیم پر چلنے کا عہد ہے اور عہد بیعت ہے۔ یہ عہد ہے کہ میں اسلام میں داخل ہو کر مسلمان کہلا کر اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کروں گا اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ تم آپس کے جو عہد اور معاہدات کرتے ہو ان کو بھی پورا کرو۔ گو یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو تم نے ضامن بنا لیا تو تمہارا اس عہد کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جہاں واضح طور پر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کو ضامن نہ بنایا جائے وہاں عہد توڑ دو تو کوئی حرج نہیں۔ اپنی قسموں کو توڑ دو تو کوئی حرج نہیں۔ معاہدات پر عمل نہ کرو تو کوئی حرج نہیں۔ نہیں۔ بلکہ ہر عہد جو تم کرتے ہو، ہر معاہدہ جو تم کرتے ہو وہ پہلی بات تو یہ ہے کہ انصاف اور سچائی کی بنیاد پر ہونا چاہئے اور جب انصاف اور سچائی کو بنیاد بنا کر کرتے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اسی طرح ہونا چاہئے کیونکہ ایک مومن کا انصاف اور سچائی پر قائم ہونا ضروری ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں چاہے ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یا اسے ضامن بنا کر کوئی معاہدہ کریں یا نہ کریں لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے کہ تم انصاف اور سچائی پر قائم رہو اس لئے جو معاہدہ بھی انصاف اور سچائی کی بنیاد پر ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت کے نیچے آ جائے گا۔ پس اس مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک مومن نے اپنے تمام عہدوں اور معاہدوں کو پورا کرنا ہے۔ اگر اس بات کی اہمیت اور حقیقت کو ہم سمجھ لیں تو ہر قسم کے جھگڑوں اور دھوکہ دہیوں اور الزامات سے ہمارا معاشرہ پاک ہو سکتا ہے۔ عائلی معاملات میں بھی جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ بھی کبھی پیدا نہ ہوں کیونکہ وہاں بھی عہد توڑے جا رہے ہوتے ہیں۔ آجکل میں نے دیکھا ہے کہ دنیاوی لالچوں کی وجہ سے ہمارے اندر بھی معاہدوں کو توڑنے اور دھوکہ دینے اور زبان کے اقرار کو پورا نہ کرنے کے معاملات بڑھ رہے ہیں اور ان چیزوں سے نہ صرف یہ کہ جماعت کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ بعض دفعہ ایسے لوگوں کا ایمان بھی ضائع ہو جاتا ہے۔
معاہدوں کو جب انسان توڑتا ہے تو جھوٹ کا سہارا لیتا ہے اور جھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بڑا سخت انذار فرما کر اس سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31) بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو (قتل نہ کرو۔ کسی کا خون نہ بہاؤ) کیونکہ بجز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو۔ حق کو قبول کر لو اگرچہ ایک بچہ سے۔ (اگر بچہ بھی کوئی سچی بات کہتا ہے تو قبول کر لو پھر ضدنہ کرو) اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو۔ (اگر تمہارا مخالف ہے اور کوئی سچی بات کہتا ہے۔ لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں اور دیکھ لو کہ دوسری طرف سچائی ہے تو پھر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر منطق جھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ پھر سچائی کو قبول کرو۔) فرمایا کہ سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بت سے کم نہیں۔ جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہ تمہاری راہ میں بت ہے۔ (جو سچائی اختیار کرنے سے تمہیں ہٹاتی ہے وہ بت ہے۔) سچی گواہی دو اگرچہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو۔ چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550)
ہم غیروں کو تو یہ بات بتاتے ہیں اور قرآن کریم کی یہ تعلیم دکھاتے ہیں کہ یہ انصاف کی تعلیم ہے لیکن ہم میں سے بہت سارے ایسے ہیں کہ جب ہمارے اپنے معاملات آتے ہیں تو اس چیز کو بھول جاتے ہیں۔ پھر ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے۔ (جھوٹ کو بت پرستی کے ساتھ ملایا ہے) جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اسی سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔‘‘ (یعنی بت بنا کر اس کے پاس عبادت کرنے کے لئے جاتا ہے، سمجھتا ہے کہ مَیں اس کی عبادت کروں گا یا اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا تو مجھے نجات مل جائے گی یا میرے مقاصد حل ہو جائیں گے۔) فرمایا کہ ’’جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔‘‘ (میں جھوٹ بولوں گا تو میرا معاملہ طے ہو جائے گا) فرمایا ’’کیسی خرابی آکر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں۔ مگر مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ یقینا یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طو رپر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوتے ہیں۔ مگر مَیں کیونکر اس کو باورکروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں بھی ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟ (یہ کس طرح ہو سکتا ہے) اگر ایسا ہو پھر دنیا میں کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے‘‘ (اگر سچوں کو سزا ملنی شروع ہو جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی سچ بولے ہی نہ) فرمایا اور ’’خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔ اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں (سچ بولااور پھر بھی اگر سزا مل گئی تو) وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی وہ سزا اُن کی بعض اَور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزاپالیتے ہیں۔‘‘ (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 478 تا 480)
پس اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ عاجزی سے جھکتے ہوئے ہمیں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہم اپنے کسی مخفی گناہ کی وجہ سے نہ آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ حکم ہے اور متقیوں کی اللہ تعالیٰ نے ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وَالْکاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135) غصہ کو دبانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ عفو کا مطلب ہے کہ اپنے خلاف کئے گئے جرم کو مکمل طور پر بھلا کر کسی کو معاف کر دینا۔ یہ عفو ہے۔ پس متقی وہ ہے جو نہ صرف غصہ کو دبانے والا ہو بلکہ معاف کرنے والا بھی ہو اور پھر معاف اس طرح کرے کہ جس نے بھی میرے خلاف جرم کیا ہے اس کو میں بھول جاؤں۔ اس بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے کہ غصہ کو دبانے کے کیا فائدے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یا د رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 180۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا ہے اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلد طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام ہوکے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔‘‘ (جب گندہ دہنی نکلتی ہے۔ گندے الفاظ نکل رہے ہوں۔ گالیاں نکل رہی ہوں اور کوئی اس پہ روک ٹوک نہیں ہوتی۔ تو پھر جو اچھی باتیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو پسند باتیں ہیں، جو نیکی کی باتیں ہیں ان سے پھر منہ اور زبان محروم ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ پھر ہمیشہ گند ہی بکتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغضوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔‘‘ (غصہ میں آ گئے تو موٹی عقل ہو گئی اور پھر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔) فرمایا کہ ’’اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔‘‘ (الحکم مورخہ 10 مارچ 1903ء صفحہ 8 جلد 7 نمبر 9 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 2 صفحہ 153)
پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’مرد کو چاہئے کہ اپنے قویٰ کو برمحل اور حلال موقع پر استعمال کرے۔ مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ (غصہ میں اور جنون میں، پاگل پن میں بہت تھوڑا فرق ہے۔) جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغضوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 208۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اگر کوئی تمہارا مخالف بھی ہے تب بھی غصہ میں آ کے، غضبناک ہو کر اس سے گفتگو نہ کرو بلکہ پھر بھی حکمت سے بات کرنی چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکام جہاں ہمارے اخلاق کو بلند کر کے ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں وہاں ہماری عقلوں کو بھی جلا بخشنے والے ہیں اور اس کے ساتھ بہت سی دشمنیوں اور نقصانوں سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ اکثر غصہ میں آنے والوں اور لڑنے والوں کو نقصان اٹھاتے ہی دیکھا گیا ہے کبھی فائدہ تو نہیں ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’دو قوتیں انسان کو منجر بہ جنون کر دیتی ہیں۔ (یعنی جنونی بنا دیتی ہیں۔ کون سی دو قوتیں؟) ایک بدظنی اور ایک غضب جبکہ افراط تک پہنچ جاویں۔ (جب انتہا تک پہنچ جاویں تو یہ چیزیں پھر انسان کو پاگل بنا دیتی ہیں۔) پس لازم ہے کہ انسان بدظنی اور غضب سے بہت بچے۔ آپ نے فرمایا لازم ہے کہ انسان بدظنی اور غضب سے بہت بچے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 104۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
بدظنی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بھی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ۔ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْم (الحجرات: 13)اے لوگو جو ایمان لائے ہو ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت میں پہلی چیز جس سے بچنے کا ذکر ہے وہ بدظنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’بدظنی ایسا مرض اور ایسی بری بلا ہے جو انسان کو اندھا کر کے انسان کو ہلاکت کے تاریک کنوئیں میں گرا دیتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 100۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرمایا ’’خوب یاد رکھو کہ ساری برائیاں اور خرابیاں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت منع فرمایا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’انسان بدظنی سے بہت ہی بچے۔ اگر کسی کی نسبت کوئی سوء ظن پیدا ہو، (کوئی برا ظن، بدظنی پیدا بھی ہو) تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے۔ (کسی دوسرے کے بارے میں بدظنی پیدا ہوئی ہے تو بجائے اس کو دل میں جگہ دینے کے، اس پر سوچنے کے یا پھر دوسرے کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچانے کے بجائے کثرت سے استغفار کرنی چاہئے کہ کسی کے بارے میں بدظنی پیدا ہوئی ہے۔) فرمایا ’’کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے تا کہ اس معصیت اور اس کے برے نتیجہ سے بچ جاوے۔‘‘ (اس گناہ سے بچے اور اس گناہ کی وجہ سے جو برے نتائج پیدا ہونے ہیں ان سے بچ سکے) ’’جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے۔ اس کو کوئی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بہت خطر ناک بیماری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 371-372۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس آیت میں دوسری بات جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں روکا ہے تجسّس کرنا ہے۔ کھود کھود کر کسی کے عیب نکالنا یا کسی بھی بارے میں تجسّس کرنا۔ جو چیز کوئی بتانا نہ چاہتا ہو اس کے بارے میں ضرور ایک کوشش کرنا کہ میرے علم میں آ جائے۔ یہ چیزیں غلط ہیں۔ اس سے بھی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر تیسرا حکم یہ ہے کہ غیبت نہ کرو۔ غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسا کسی نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا لیا اور اس سے تم سخت کراہت کرو گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی غیر موجودگی میں اس طرح بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہے تو اسے بری لگے تو یہ غیبت ہے۔ کسی کی سچی بات کا اس کی غیر موجودگی میں بیان چاہے وہ سچی بات ہی ہو اور ایسی بات جو اس کو بری لگے اگر اس کو غیر موجودگی میں بیان کر رہے ہو تو یہ غیبت ہے۔ اور اگر اس میں وہ بات ہے ہی نہیں جو بیان کی جا رہی ہے تو یہ بہتان ہے۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الغیبۃ حدیث 6593)
پس متقی کا یہ کام نہیں ہے کہ ایسی باتیں کرے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہوں، معاشرے میں فساد پیدا ہوتے ہوں۔ نہ غیبت کرنی ہے، نہ کسی پر بہتان لگانا ہے۔
پس رمضان میں جب ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں، اس کا قرب ہمیں ملے، اپنی دعاؤں کو ہم قبول ہوتا ہؤا دیکھیں تو ان برائیوں سے بچنے کی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی ہمیں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے تمام احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرنے والے ہوں اور رمضان کے بعد بھی ہم میں یہ نیکیاں قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد ہم بنیں اور ہم اسی کی کامل فرمانبرداری اختیار کرنے والے ہوں۔
نماز کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو ایک شہید کا جنازہ ہے۔ مکرم چوہدری خلیق احمد صاحب ابن چوہدری بشیر احمد صاحب حلقہ گلزار ہجری ضلع کراچی۔ آپ کو 49سال کی عمر میں مخالفین احمدیت نے20؍جون 2016ء کو رات تقریباً ساڑھے نو بجے ان کے کلینک میں گھس کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تفصیلات کے مطابق چوہدری خلیق احمد صاحب نے میڈیکل ڈپلومہ کیا ہوا تھا اور اپنے گھر کے قریب ہی ہومیو پیتھک اور ایلو پیتھک کلینک بنا رکھا تھا۔ وقوعہ کے روز حسب معمول روزہ افطار کرنے کے بعد اپنے کلینک واقع گلزار ہجری پر واپس آئے اور وہاں موجود مریضوں کو دیکھ رہے تھے کہ رات تقریباً ساڑھے نو بجے ہیلمٹ پہنے ہوئے دو نامعلوم افرادنے کلینک میں آ کر آپ پر فائرنگ کر دی اور موقع سے فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں دو گولیاں آپ کے سر میں لگیں اور دو گولیاں سینے میں لگیں۔ کلینک کے قریب واقع میڈیکل سٹور والے نے فوری طور پر موٹر سائیکل پر آ کر آپ کے گھر جا کر اطلاع دی۔ آپ کا بیٹا گاڑی لے کر آیا اور گاڑی میں ڈال کر فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن آپ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جام شہادت نوش فرما گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کراچی کے اسی حلقہ گلزار ہجری میں گزشتہ ماہ مئی کی 25تاریخ کو بھی نامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے مکرم داؤد احمد صاحب ولد حاجی غلام محی الدین صاحب کو شہید کیا تھا۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم اللہ بخش صاحب آف امرتسر کے ذریعہ ہوا۔ ان کا خاندان امرتسر سے گوکھووال، پھر رحیم یار خان میں آباد ہوا۔ پھر شہداد پور ضلع سانگھڑ میں منتقل ہو گئے۔ مرحوم شہداد پور ضلع سانگھڑ کے قریب گاؤں احمد پور میں 1967ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر 1988ء میں کراچی شفٹ ہو گئے۔ یہاں میڈیکل کا ڈپلومہ کیا۔ ایک پرائیویٹ لیبارٹری میں ریڈیو گرافک ٹیکنیشن کے طور پر کام شروع کیا۔ ساتھ ہی شام کے وقت اپنے کلینک پر میڈیکل پریکٹس بھی شروع کی۔ بعد ازاں لیبارٹری کی ملازمت چھوڑ کر مکمل طور پر میڈیکل کلینک پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ شہید مرحوم بے شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ تبلیغ کا ان کو بڑا شو ق تھا۔ کلینک پر بھی غیر از جماعت کو تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ شہید مرحوم نماز باجماعت کے پابند تھے۔ نوافل بھی ادا کرنے والے تھے۔ عبادات میں بڑے بڑھے ہوئے تھے۔ انتہائی ہمدرد انسان تھے۔ مستحقین کا بغیر معاوضہ کے بھی علاج کرنے والے تھے۔ بعض غیر از جماعت مریض کہتے تھے کہ آپ قادیانی ہیں آپ سے دوا لینے کو دل تو نہیں کرتا لیکن کیا کریں بچوں کو شفا بھی آپ کی دوائی سے آتی ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے۔ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ شہید مرحوم کو اپنے حلقہ میں بطور محصّل اور بطور زعیم انصار اللہ خدمت کی توفیق ملی نیز گزشتہ 18سال سے سیکرٹری وقف نو حلقہ کے عہدے پر بھی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں اور بچوں نے بھی لکھا ہے کہ بچوں کو بڑی چھوٹی عمر میں نماز کا پابند بنایا۔ خود بھی پانچوں نمازیں باقاعدگی سے الگ الگ مقررہ وقت پر ادا کرتے۔ قرآن کریم کی روزانہ باترجمہ تلاوت آپ کا معمول تھا۔ خلیفہ وقت کا خطبہ خود بھی باقاعدگی سے سنتے اور ہمیشہ بچوں کو بھی سنواتے بلکہ صبح شام ایم ٹی اے بھی ضرور لگاتے۔ اور اگر گھروں میں تربیت کرنی ہے تو ایم ٹی اے ہی بہترین ذریعہ ہے۔ محلے والوں کے کام آنے والے تھے۔
شہید مرحوم کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مَیں نے ایک ماہ قبل خواب میں دیکھا کہ دو گلاس شربت کے بھرے ہوئے ہیں۔ میں کہتی ہوں کس چیز کا شربت ہے۔ یہ تو کوئی خاص شربت لگتا ہے۔ تو مجھے خواب میں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کی جو سب سے اچھی چیز ہے اس کا شربت ہے۔ شہید مرحوم کی شہادت کے بعد اس خواب کی سمجھ آئی کہ یہ جام شہادت ہے۔ اس سے قبل داؤد احمد صاحب شہید ہوئے تھے اور وہ بھی انہی کی گلی میں ساتھ ہی تھے۔ وہ چند دن پہلے شہید ہوئے۔ تو دو گلاس سے شاید یہ دو شہادتیں مراد تھیں۔ ان کے پسماندگان میں بھائی بہنوں کے علاوہ ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ خلیق صاحبہ ہیں۔ دو بیٹے ہیں عزیزم انیق احمد جو جامعہ احمدیہ ربوہ میں طالب علم ہیں۔ اسی طرح ایک بیٹے رحیق احمد، یہ پی ٹی ایس کے تیسرے سال کے طالب علم ہیں۔ ایک بیٹی عزیزہ شمائلہ احمد ہے یہ سولہ سال کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو اور لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کے باپ کی نیکیاں ہمیشہ ان کے بچوں میں بھی جاری رہیں۔
دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اسے سب قدرتوں کامالک سمجھتے ہوئے اس سے مانگنا اور اس کے حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام حکم، تمام اوامر و نواہی موجود ہیں۔ قرآن کریم میں بے شمار احکامات ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے جن کی ہمیں وقتاً فوقتا جگالی کرتے رہنا چاہئے، دہراتے رہنا چاہئے۔ اِس وقت مَیں نے بعض احکامات لئے ہیں۔ سب سے بنیادی حکم جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور جو انسان کی پیدائش کامقصد بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔
مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے حکم ہے۔ پس اس رمضان میں واقفین زندگی جن کا عہد ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں میں سب سے آگے رہنے والوں میں سے ہونے کی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ کوشش کریں گے اور عہدیدار جن پر افراد کی نظر ہے اور ان کو انہوں نے چنا بھی اس لئے ہوا ہے، منتخب کیا ہے کہ ہم میں سے بہتر ہیں وہ ایک نمونہ ہونا چاہئیں۔ ان کو اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ صرف رمضان میں ہی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت پر زور نہیں دینا اور دن ہی نہ گنتے رہیں کہ باقی تیرہ دن رہ گئے یا بارہ دن رہ گئے تو ہم اپنی پرانی روش پہ یا روٹین پہ آ جائیں گے بلکہ یہ کوشش ہو کہ اس رمضان کی تربیت اور مجاہدہ نے ہم میں جو عبادتوں کی طرف توجہ میں بہتری پیدا کی ہے اسے ہم نے اب مستقل زندگی کا حصہ بنانا ہے۔
حقوق ہر طرح کے ادا ہونے چاہئیں لیکن مقصد جو پیدائش کا ہے اس کو بہرحال سامنے رکھنا چاہئے۔
ہم میں سے ہر ایک کو یہ فکر سب سے زیادہ مقدم رکھنی چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اس رمضان میں بھی اور رمضان کے بعد بھی ہماری توجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رہے اور اس کے لئے جو مسجدوں کی آبادی کا حکم ہے اسے ہم اپنے سامنے رکھیں۔ پھر ایک حکم قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عہدوں کو پورا کرنے اور ان کی پابندی کا دیا ہے۔
اس میں خدا تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد بھی ہیں اور بندوں کے عہد بھی۔
اس مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک مومن نے اپنے تمام عہدوں اور معاہدوں کو پورا کرنا ہے۔ اگر اس بات کی اہمیت اور حقیقت کو ہم سمجھ لیں تو ہر قسم کے جھگڑوں اور دھوکہ دہیوں اور الزامات سے ہمارا معاشرہ پاک ہو سکتا ہے۔ عائلی معاملات میں بھی جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ بھی کبھی پیدا نہ ہوں کیونکہ وہاں بھی عہد توڑے جا رہے ہوتے ہیں۔ معاہدوں کو جب انسان توڑتا ہے تو جھوٹ کا سہارا لیتا ہے اور جھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بڑا سخت انذار فرما کر اس سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ حکم ہے اور متقیوں کی اللہ تعالیٰ نے ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وَالْکاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135) غصہ کو دبانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بد ظنی اور تجسّس سے بچنے اور غیبت نہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
پس رمضان میں جب ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں، اس کا قرب ہمیں ملے، اپنی دعاؤں کو ہم قبول ہوتا ہؤا دیکھیں تو ان برائیوں سے بچنے کی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی ہمیں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے تمام احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرنے والے ہوں اور رمضان کے بعد بھی ہم میں یہ نیکیاں قائم رہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد بنیں اور ہم اسی کی کامل فرمانبرداری اختیار کرنے والے ہوں۔
مکرم چوہدری خلیق احمد صاحب ابن مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب حلقہ گلزار ہجری ضلع کراچی کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 24؍جون 2016ء بمطابق24احسان 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔