جمعۃ المبارک کی اہمیت اور اس کے فضائل کا تذکرہ
خطبہ جمعہ یکم جولائی 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ۔ ذَالِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوًا انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا۔ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (الجمعۃ: 10۔ 12)
اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کی فرضیت کا جب حکم دیا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ (البقرۃ: 185) گنتی کے چند دن ہیں۔ جب رمضان شروع ہوا تو ہم میں سے بہت سے سوچتے ہوں گے کہ گرمیوں کے لمبے دن ہیں اور ان میں یہ تیس روزے پتا نہیں کس طرح گزریں گے، بڑی مشکل پڑے گی۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گنتی کے چند دن ہیں، یہ دن بھی گزر گئے۔ آج پچیسواں روزہ ہے اور مجھے بہت سے لوگ لکھتے بھی ہیں کہ یہ دن گزر بھی گئے اور پتا بھی نہیں چلا۔ حقیقت میں یہ بات صحیح ہے۔ جب رمضان آتا ہے، شروع ہوتا ہے، ابتدا میں لگتا ہے بڑے لمبے دن ہیں لیکن جب دن گزرنے شروع ہوتے ہیں تو کوئی احساس نہیں ہوتا۔ آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ باقی پانچ یا بعض جگہوں پر شاید چار روزے رہ گئے ہوں۔ ان چار پانچ دنوں میں بھی ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اگر کوئی کمیاں رمضان سے یا رمضان میں پورا استفادہ کرنے میں رہ گئی ہیں تو انہیں ہم ان دنوں میں دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری پردہ پوشی فرمائے، ہم پر رحم فرمائے، اور ہمیں رمضان کی برکتوں سے محروم نہ رکھے۔
آج جیسا کہ مَیں نے کہا کہ رمضان کا آخری جمعہ ہے جسے عام اصطلاح میں جمعۃ الوداع کہتے ہیں۔ عام مسلمانوں میں تو اس جمعہ کو رمضان کا آخری جمعہ سمجھتے ہوئے اور یہ تصور رکھتے ہوئے کہ جو اس جمعہ میں شامل ہو جائے اس کی ساری دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور اس جمعہ کی ادائیگی سے سارے سال کی چُھوٹی ہوئی نمازیں اور جمعوں اور ہر قسم کی عبادتوں کی ادائیگی کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک حقیقی مومن کا یہ تصور نہیں۔ یہ ایک انتہائی غلط تصور ہے۔ ایک احمدی اور حقیقی مومن کے نزدیک تو ایسی باتیں اور ایسی سوچیں دین کے ساتھ استہزاء کرنے والی چیزیں ہیں۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اس کے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قبول کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں ان غلط تصورات اور غلط خیالات سے پاک کر کے حقیقی رہنمائی فرمائی اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھائے ہیں۔ ایک دفعہ ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال ہوا کہ مسلمانوں میں یہ رواج ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن لوگ چار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور اس کا نام قضائے عمری رکھتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں ان کی تلافی ہو جائے اس کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا کہ: ایک فضول امر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص عمداً سال بھر اس لئے نماز ترک کرتا ہے کہ قضائے عمری والے دن ادا کر لوں گا تو وہ گناہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس نیّت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ فرمایا ہم تو اس معاملے میں حضرت علیؓ کا ہی جواب دیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کا واقعہ یوں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز کا وقت نہیں تھا، نماز پڑھ رہا تھا۔ کسی شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا کہ آپ خلیفۂ وقت ہیں۔ اسے منع کیوں نہیں کرتے کہ غلط وقت پہ نماز پڑھ رہا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بن جاؤں۔ اَرَءَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق: 10۔ 11) یعنی کیا تُو نے غور کیا اس پر جو روکتا ہے ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس حوالے کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو۔ کیوں منع کرتے ہو؟ آخر دعا ہی کرتا ہے (یہ جو چار رکعتیں پڑھ رہا ہے)۔ ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے۔ نیتوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے جس کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی احتیاط کی اور اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ اَرَءَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی اس کو نہیں روکا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے لیکن یہ ساتھ واضح فرما دیا کہ یہ پست ہمتی ہے اور اگر نیت قضائے عمری کی ہے اور اس اصلاح کی نہیں ہے۔ یعنی اگر تو اس نیّت سے پڑھی کہ آج میں چار رکعتیں پڑھ رہا ہوں اور آج کے بعد میری توبہ، مَیں آئندہ باقاعدگی سے نمازیں پڑھتا رہوں گا تو پھر تو ٹھیک ہے۔ اگر اصلاح کی نیت نہیں ہے تو پھر ایسا شخص گناہگار ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 366)
پس جماعت احمدیہ میں تو قضائے عمری کا کوئی تصور نہیں۔ ہم نے تو زمانے کے امام کو مانا ہے اور اس شرط کے ساتھ مانا ہے کہ بدعات سے پرہیز کریں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ اور جب دین کو مقدم کرنے کا عہد ہے تو پھر نمازیں چھوڑنا کیسا اور جمعہ چھوڑنا کیسا۔ ہمارے لئے تو اگر کوئی جمعۃ الوداع کا تصور ہے تو بالکل اور تصور ہے اور ایک حقیقی احمدی کے لئے یہی تصور ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہم بڑے بھاری دل کے ساتھ اس جمعہ کو وداع کر رہے ہیں اور اس سوچ اور دعا کے ساتھ کر رہے ہیں کہ دراصل جمعہ کو نہیں بلکہ اس مہینے کو، ان بابرکت دنوں کو ہم وداع کر رہے ہیں اور جمعہ کیونکہ ہمارے بڑی تعداد میں جمع ہونے کا ذریعہ بنا ہے اور یہ اس رمضان کا آخری جمعہ ہے اس لئے ہم سب جمع ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پھر ہمیں توفیق دے کہ جو دن اور جمعے ہم نے رمضان میں گزارے ہیں اور جو برکات ہم نے رمضان میں حاصل کی ہیں ان پر قائم رہتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ اگلے رمضان کا استقبال کریں۔ پس یہ ہماری سوچ ہونی چاہئے۔
کسی پیارے کو وداع اس لئے نہیں کیا جاتا کہ جاؤ اب تم ہمارے سے رخصت ہو رہے ہو اس لئے اب ہم تمہیں بھولنے لگے ہیں اور اب تمہاری یاد سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ اپنے پیارے جو مستقل چھوڑ کر جاتے ہیں، انسان تو ان کی یادوں کو بھی نہیں بھلاتا۔ ان کی یادوں کو جاری رکھنے کے لئے ان کے نیک کام جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہے یا ان کے نام پر نیکیوں کو جاری کرتا ہے۔ مومن ہیں تو ان کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں اور جو عارضی رخصت ہوتے ہیں، اپنی مصروفیات اور کاموں کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہوتے ہیں انہیں تو انسان بالکل بھی نہیں بھلاتا اور آجکل کی سہولیات استعمال کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں فون پر یا ٹیکسٹ میسجز ہیں یا مختلف طریقے ہیں مسیسجز کے بلکہ اب تو سکائپ (Skype) بھی ایک شروع ہو چکا ہے اس کے ذریعہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں کی آواز بھی سنیں اور ان کی حرکات و سکنات بھی دیکھ سکیں۔ پس کسی پیارے کو وداع کبھی ہم اس لئے نہیں کرتے کہ اب سال دو سال کے لئے تمہاری یاد ہمارے دلوں سے نکل جائے گی۔ ہم تمہیں بھول جائیں گے کہ تم کون ہو اور کون تھے۔ اب جب تم دوبارہ ملو گے تو پھر دیکھیں گے کہ تمہارے حق ادا کرنے ہیں یا نہیں؟ تمہارے سے وہی پیار کا سلوک رکھنا ہے یا نہیں؟ کیا کبھی دنیاوی تعلقات میں ایسا ہوتے کسی نے دیکھا ہے؟ اگر کوئی کبھی ایسا کرتا ہو گا تو اس کو سب لوگ پاگل کہیں گے۔ مگر جب اس ذات کا سوال آتا ہے جو سب سے پیاری ہے، جو ربّ العالمین ہے، جو ہماری پرورش کرنے والی ہے۔ جو ہمیں سب کچھ دینے والی ہے۔ جو رحمان ہے، رحیم ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ میرے پر ایمان کو کامل کرو۔ جو یہ کہتا ہے کہ مجھ سے پیار اور قربت کا تعلق نہ توڑو۔ جو یہ کہتا ہے کہ میری باتیں مانو کہ سب پیاروں سے بڑھ کر مَیں تم سے پیار کرنے والا ہوں اور پیار کئے جانے کا حق رکھنے والا ہوں۔ جو یہ کہتا ہے کہ میری یادوں کو تازہ رکھو، اسے ہم کہیں کہ اے اللہ! تیری بڑی مہربانی کہ تو نے اپنی یادوں اور اپنی عبادتوں اور روزوں کے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ سے ہمیں گزار دیا۔ اب ہماری چھٹی ہو گئی۔ ختم ہو گیا معاملہ۔ کون سا رب اور کون سا اللہ۔ اب ہم اس جمعہ سے تجھے الوداع کہتے ہیں اور اس وداع کے ساتھ اب ہم مکمل طور پر ایک سال کے لئے تجھے بھولنے والے ہیں۔ اب ایک سال بعد اگلا رمضان آئے گا تو پھر عبادتوں اور نیک کاموں کے ذریعہ تجھے یاد کرنے کی کوشش کریں گے اور بشرط زندگی اور صحت تیرا جو بھی ہو سکا ٹوٹا پھوٹا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر پورے رمضان کے مہینہ میں کوئی عبادت اور نیکی نہ بجا لا سکے تو رمضان کے آخر پر جمعۃ الوداع تو آنا ہی ہے اس میں جمع ہو کر تیرا حق ادا کر دیں گے، تیری ربوبیت اور تیرے احسانوں کو بدلہ اتار دیں گے۔ اگر یہ شخص اس طرح سوچ رکھتا ہو یا اظہار کرے تو اس کو بھی لوگ پاگل ضرور کہیں گے۔ لیکن یہ سوچیں لوگ رکھتے ہیں۔ زبان سے اظہار نہیں کرتے لیکن عملی اظہار ہو جاتا ہے۔ آئندہ جمعوں کی حاضری دیکھنے سے پتا لگ جاتا ہے۔ اگر یہ چیز ہے تو اسے جہالت اور دین کا ادنیٰ سا بھی علم نہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ پر ادنیٰ ایمان بھی نہ ہونا کہیں گے۔
پس ایک مومن کی یہ سوچ نہیں ہو سکتی۔ مومن تو ان باتوں سے بہت بالا ہے۔ مومن تو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی نیکیوں کو جاری رکھتا ہے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ تو رمضان میں سے گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔ وہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے رمضان کو الوداع کہتا ہے تو بڑے بھاری دل کے ساتھ کہ اب ہم رمضان سے رخصت تو ہو رہے ہیں لیکن ان دنوں کی یاد ہمیشہ دلوں میں تازہ رکھیں گے۔ رمضان میں جو پیاری پیاری اور نیک باتیں سیکھی ہیں ان کی جگالی کرتے رہیں گے۔ رمضان میں جو عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے اور کبھی ہمارے قدم تیرے قرب کو پانے کے لئے رکیں گے نہیں۔ ہم نے تو تیرے پیار کے عجیب نظارے دیکھے۔ جب ہم چل کر تیرے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں تو تُو اپنے وعدے کے مطابق دوڑ کرہمارے پاس آتا ہے۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے دنیاوی رشتوں کی یادوں کو تو تازہ رکھیں اور جو سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے اس کی یاد کو بھلا دیں اور اس کے احسانات کو بھلا دیں۔ اللہ تعالیٰ کے تو احسان کرنے کے انداز بھی عجیب ہیں۔ یہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس وداع کے بعد یادوں کو تازہ رکھنے کے لئے، ان کو بھلانے سے بچانے کے لئے پیاری پیاری یادوں کی جگالی کرنے کے لئے سات روز بعد وہ تقریب منعقد کرنے کے سامان کر دئیے جس میں سے ہم جمعۃ الوداع والے دن گزرے تھے یا گزرتے ہیں۔ ایک سال رمضان کے انتظار کے لئے تو بیشک رکھا لیکن اپنے پیار کے اظہار اور اپنے انعامات کے نوازنے سے محروم نہیں کیا۔ ہر ساتویں دن جمعہ رکھ کر انہی برکات کو لینے والا ہمیں بنا دیا جو جمعۃ الوداع کے دن ملنی تھیں یا ملتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ ایک مسلمان جب کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو دعا مانگے قبول ہو جاتی ہے لیکن یہ گھڑی بہت مختصر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ حدیث 935)۔ یہ وقت، یہ لمحہ، یہ گھڑی، عام جمعوں میں بھی اتنی ہی ہے جتنی رمضان کے آخری جمعہ میں۔ پس آج کے بعد ہم اللہ تعالیٰ کی ان قرب کی گھڑیوں سے جدا نہیں ہو رہے بلکہ یہ وقت ہمیں سات دن بعد دوبارہ ملنے والا ہے۔ اگر کوئی ان نیکیوں اور ان گھڑیوں کو وداع کر رہا ہے تو وہ مومن نہیں ہے۔ ایک مومن تو کبھی نیکیوں کو وداع نہیں کرتا۔ ایک مومن تو اللہ تعالیٰ سے کبھی دور نہیں جاتا بلکہ وہ تو اس کوشش میں ہوتا ہے کہ میں کس طرح نیکی کو یاد رکھنے کے سامان کروں۔ میں کس طرح اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کے طریق تلاش کروں اور اللہ تعالیٰ سے قرب پانے کے راستے بھی محدودنہیں۔ ہر نیکی اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی ہے اس لئے وہ ہر راستے کی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صرف جمعہ پر ہی منحصر نہیں ہے کہ جمعہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کے سامان ہوں گے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ تعالیٰ سے جلد جلد ملنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کا طریق سمجھاتے ہوئے بتایا کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفّارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب الصلوات الخمس والجمعۃ الیٰ الجمعۃ … الخ حدیث 440)
پس اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے روزانہ پانچ وقت رابطے کا سامان کر دیا کہ ان نمازوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے رابطہ رکھو تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے حصہ پاتے رہوگے۔ اس کے رحم کو حاصل کرتے رہو گے بشرطیکہ جان بوجھ کر ڈھٹائی دکھاتے ہوئے بڑے گناہوں میں ملوّث نہ ہو۔ ہر جمعہ میں شامل ہو اور اس گھڑی سے فائدہ اٹھاؤ جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے تو تم برائیوں سے بچنے اور نیکیوں پر ترقی کرنے والے بن جاؤ گے۔ رمضان میں پیدا کی گئی تبدیلیوں کو سارا سال جاری رکھو اور گناہوں میں ملوّث نہ ہو تو صرف رمضان کا ہی مہینہ نہیں بلکہ تم سارا سال اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کے حقدار بن جاؤ گے اور آگ سے نجات پاؤ گے۔ پس آج ہر ایک یہ عہد کرے کہ یہ جمعہ، یہ رمضان، ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانے والا بنے گا۔ ہمارے جمعوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا بنے گا اور جو نیکیاں ہم نے رمضان میں کی ہیں اور سیکھی ہیں ان کو اگلے رمضان تک پہنچانے کی ہم بھرپور کوشش کریں گے۔
پس عبادتوں اور نیکیوں کی طرف جو ہماری توجہ رمضان میں پیدا ہوئی ہے اس پر دوام حاصل کرنے کا ہم نے عہد کرنا ہے تا کہ اگلے رمضان کی تیاری اور استقبال کے لئے ہماری مسلسل ریہرسل اور تربیت ہوتی رہے تا کہ جب ہم اگلے رمضان میں داخل ہوں تو ایک منزل طے کر چکے ہوں اور یہاں سے پھر اگلے رمضان میں سے کامیاب نکلنے کے لئے نئے ہدف اور نئے ٹارگٹ مقرر کریں تا کہ نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کے مزید قریب ہوں۔ اس کی ذات کا مزید ادراک حاصل کرنے والے ہوں۔ پھر ہم میں سے تو ابھی بہت سے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرب کی بہت سی منزلیں طے کرنی ہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ساری منزلیں طے کر لی ہیں۔ اگر ان منزلوں کو طے کرنے کے لئے ہم صرف رمضان کا ہی انتظار کرتے رہیں تو پھر تو عمریں گزر جائیں گی اور ہمارے مقصد، ہمارے گول (goal) اور ٹارگٹ شاید پھر حاصل نہ ہوں۔ عمریں گزرنے کے باوجود بھی حاصل نہ ہو سکیں بلکہ ایک سال کا بے عملی کا عرصہ ہمیں پھر وہیں واپس لے آئے گا جہاں ہم پہلے دن کھڑے تھے۔
اس رمضان میں جو میں نے خطبات دئیے ہیں ان میں تقویٰ، دعا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل جن میں سب سے اہم عبادت کا حکم ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد ہے اور اسی طرح ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنا اور اعلیٰ اخلاق کے مظاہرے وغیرہ کے مضامین شامل تھے۔ ہر خطبہ کے بعد مجھے بہت سے لوگوں کے خط آتے تھے کہ ہمیں یاد دہانی ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے ہمیں ان مضامین کو بہتر طور پر سمجھنے کی توفیق بھی ملی۔ یہ تو ٹھیک ہے توفیق ملی لیکن ان باتوں کا فائدہ تبھی ہے جب ہم ان باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ جیسا کہ میں نے احادیث کے حوالے سے بتایا کہ ہر جمعہ کی اہمیت ہے۔ جمعہ کی اہمیت نہ رمضان کے جمعوں کے ساتھ وابستہ ہے، نہ ہی جمعۃ الوداع کے ساتھ وابستہ ہے۔ بلکہ رمضان کی اہمیت اس میں ہے جب مستقل طور پر جمعوں کی ادائیگی کی طرف ہماری توجہ رہے اور پانچ نمازوں کی طرف بھی ہماری توجہ رہے۔ یہ رمضان تو ہمیں یہ بتانے آیا ہے کہ اجتماعی رنگ میں جو نمازوں، نیکیوں اور جمعوں کی ادائیگی کا شوق اور شعور تم میں پیدا ہوا ہے اس کو اب ختم نہ ہونے دینا اور اگلے رمضان تک اس کی حفاظت کرنا۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اہمیت کے بارے میں بتایا ہے۔ اس کا ترجمہ یوں ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہوجب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
پھر اگلی آیت یہ ہے۔ پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
پھر یہ آخری آیت ہے اور یہ سورۃ جمعہ کی بھی آخری آیت ہے۔ اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلاوا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ تُو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
پس یہاں خاص طور پر جمعوں میں شمولیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ جمعہ کی اذان کی آواز سنو یا آجکل ہر ایک کو علم ہے، گھڑیاں ہیں، وقت مقرر ہوتا ہے، ان کو دیکھو کہ جمعہ کا وقت ہو گیا ہے تو اپنے سب کام اور کاروبار بند کرو اور جمعہ کے لئے آؤ۔ اور خطبہ جمعہ بھی نماز کا ہی حصہ ہے۔ اس لئے سستی نہ دکھاؤ کہ نماز شروع ہونے تک پہنچ جائیں گے اور نماز میں شامل ہو جائیں گے بلکہ خطبہ کے لئے پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
یہاں ضمناً یہ بھی ذکر کر دوں بلکہ بڑا اہم ذکر ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی سہولت مہیا فرمائی ہوئی ہے۔ یورپ میں اور افریقہ کے بعض ممالک میں تو جمعہ کا وقت بھی ایک ہی ہے اس لئے جب ایک وقت ہے تو پھر خلیفۂ وقت کا خطبہ سننا چاہئے۔ یہ احسان ہے اللہ تعالیٰ کا ہم پر کہ اس نے اس سہولت کے ذریعہ جماعت کی اِکائی کا ایک اور سامان مہیا فرما دیا۔ جہاں وقت کا فرق ہے وہاں بھی احمدیوں کو سننا چاہئے۔ اگر لائیو(Live) نہیں تو ریکارڈنگ سن لیں اور اس طرح اس خطبہ کے تفصیلی اقتباسات لے کر خطبات دینے والوں کو یا جہاں مبلّغین، مربّیان خطبات دیتے ہیں ان کو اپنی جماعتوں میں اسی دن یا اگلے دن یا اگلے دن نہیں تو اگلے ہفتے یہ خطبہ سنانا چاہئے۔ مغرب کی طرف ہم مزید جائیں گے تو وہاں صبح کا وقت ہے۔ وہ صبح سویرے سن لیتے ہیں اُسی دن بھی سنا سکتے ہیں۔ مشرق کی طرف دن گزر چکا ہے، وہاں شام ہو رہی ہے یا وقت آگے چلا گیا ہے تو اگلے ہفتے سنا سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جماعت میں اِکائی پیدا کرنے کا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کو جو جمعہ سے خاص نسبت ہے اللہ تعالیٰ نے اس ایجاد کے ذریعہ خلیفۂ وقت کے خطبہ کو بھی اس کا ایک حصہ بنا دیا ہے۔
پھر دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ اگر تمہارے کام ہیں تو تم جمعہ سے پہلے یا بعد میں کر سکتے ہو اور جمعہ کے وقت خاص طور پر یہ کام نہ کر کے جب جمعہ پر آؤ گے تو اپنے دنیاوی کاموں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے وارث بنو گے۔ پس جمعہ میں اس لئے شامل نہ ہونا کہ ہمارے دنیاوی کام متاثر ہوں گے یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ خود اپنے لئے نقصان دہ ہے۔ کسی بھی کام کو پھل لگانا اور اس میں برکت ڈالنا تو خدا تعالیٰ کا کام ہے اس لئے یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کی بات نہ مانو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کام میں برکت نہیں پڑے گی اور اگر بات مانو گے تو کام میں برکت پڑے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری تجارتیں، دنیاوی کاروبار اور کھیل کود تمہیں جمعہ پڑھنے سے روکنے والے نہ ہوں۔ خاص طور پر یہ چیزیں اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس زمانے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے خاص نسبت ہے اس لئے خاص طور پر یہ ہدایت ہے کہ تمہاری تجارتیں جو صرف مقامی نہیں رہیں، پہلے تو مقامی طور پر تجارتیں ہوا کرتی تھیں۔ تجارتی قافلے جاتے تھے لیکن جو وہ لاتے تھے کسی ایک شہر تک محدود ہوتے تھے، اب تجارتیں مقامی نہیں رہیں بلکہ بین الاقوامی ہونے کی وجہ سے تمہیں زیادہ مصروف رکھتی ہیں۔ اسی طرح تمہارے کھیل ہیں اور دنیاوی مصروفیات ہیں جو بین الاقوامی ہونے کی وجہ سے وقت کی حدود کا لحاظ نہیں رکھتیں۔ ان میں تم نے یا ایک مومن نے بہرحال جمعہ کی اہمیت کا خیال رکھنا ہے کیونکہ ایک مومن کی سب سے بڑی ترجیح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور یہی ایک مومن کی ترجیح ہونی چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تو آپ کی قوت قدسی کی وجہ سے مکمل طور پر پاک ہو چکے تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا سب سے زیادہ مقدم تھی اس لئے ان کے بارے میں تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کاروباروں اور کھیل کود کی وجہ سے جمعہ چھوڑتے ہوں گے اور پھر مقامی طور پر تجارتوں اور کھیل کود کے اوقات کو تو جمعہ کے اوقات کے لحاظ سے ایڈجسٹ بھی کیا جا سکتا تھا۔ یہ یقینا ہمارے زمانے کی حالت کا ہی نقشہ ہے۔ مسیح موعود کے زمانے کا ہی نقشہ ہے جب دین کی ترجیح پیچھے چلی جائے گی اور دنیاوی ترجیحات سامنے آ جائیں گی۔ چوبیس گھنٹے ہی تجارتوں اور کھیل کود میں مصروف ہوں گے۔ دنیا کے فاصلے کم ہو جائیں گے۔ میڈیا کے ذریعہ گھر بیٹھے ہی دنیا کی جگہ جگہ کی جو لہو و لعب اور دل بہلاوے کی باتیں ہیں ہر وقت گھر بیٹھے مل رہی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے وقت میں تم اگر اپنی ترجیحات درست رکھو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حاصل کرنے والے بنو گے۔ یقینا اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے وہ تجارتوں اور دل بہلاوے کے سامانوں سے بہت زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ تمام قسم کا رزق بھی عطا کرنے والا ہے۔ وہی ہے جس کی طرف سے ہر قسم کا رزق آتا ہے اور وہی رازق ہے۔ پس اگر تم اس کی بات مانتے ہوئے اپنے جمعوں کی حفاظت کرو گے تو دنیاوی رزق میں بھی برکت حاصل کرنے والے بنو گے۔
پس ہمیں جمعہ کی اس اہمیت کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے ہیں ہمارے لئے تو کسی لحاظ سے بھی مناسب نہیں کہ اپنے جمعوں کی ادائیگی کو صرف رمضان تک یا جمعۃ الوداع تک محدود کر دیں۔ جمعہ کی اہمیت کو مزید واضح کرنے کے لئے چند مزید احادیث پیش کرتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی اہمیت اور اس کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں، وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اسی طرح وہ آنے والوں کی فہرست ترتیب وار تیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنا رجسٹر بند کر دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ حدیث 3211)
پس وہ جو اپنے دنیاوی کاموں کی وجہ سے آخری وقت میں آتے ہیں اس فہرست میں آخر میں شمار ہوتے ہیں اور آخر میں شمار ہونے والوں کے لئے ثواب بھی بہت تھوڑا ہے۔ بعض جگہ اس ثواب کا ذکر بھی ملتا ہے کہ آخر میں آنے والے کو مرغی کے انڈے جتنا ثواب ملتا ہے اور پہلے آنے والے کو اونٹ جتنا ثواب ملتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الجمعۃ حدیث 881)
پس یہ مثالیں اس بات کے بتانے کے لئے ہیں کہ تم یہ نہ سمجھو کہ جب مسجد میں آ کر بیٹھ گئے اور کچھ انتظار کرنا پڑا تو یہ وقت کا ضیاع ہے۔ نہیں بلکہ یہ ایسے شخص کو ثواب کا مستحق بنا رہا ہے جو جلدی آنے والا ہے اور بعد میں آنے والوں سے پہلے آنے والوں کو ممتاز کر رہا ہے۔ پہلے آنے والے مسجد میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بات ہے۔
اس کی اہمیت کو ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا کہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے لحاظ سے بیٹھے ہوں گے۔ یعنی پہلا دوسرا تیسرا پھر چوتھا۔ اور راوی نے کہا یہ بھی فرمایا کہ چوتھا بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنے کے لحاظ سے کوئی دُور نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا باب ما جاء فی التھجیر الیٰ الجمعہ حدیث 1094)
پھر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز جمعہ پڑھنے آیا کرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ میں پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتا ہے حالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 752مسند سمرۃ بن جندبؓ حدیث 20373 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہ سب احادیث بتاتی ہیں کہ نماز جمعہ کی اہمیت ہے قطع نظر اس کے کہ وہ جمعہ رمضان میں آ رہا ہے، رمضان کا آخری جمعہ ہے یا عام حالات میں آنے والا جمعہ ہے۔ جنت سے پیچھے رہنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی سستی اور جمعہ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے باوجود اَور خوبیوں کے اپنے آپ کو جنت سے محروم کر لیتا ہے یا اللہ تعالیٰ سے اپنے آپ کو بہت دُور کر لیتا ہے۔ جمعہ کی اہمیت نہ ہونے کی وجہ سے جمعوں میں ناغے کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے متعلق ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں انذار فرمایا ہے۔ فرمایا کہ جس نے متواتر تین جمعہ جان بوجھ کر چھوڑ دئیے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 339مسند ابی الجعد الضمری حدیث 15580مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس جو لوگ جمعوں میں شمولیت کو سرسری لیتے ہیں ان کے لئے بڑا انذار ہے۔ دل پر مہر کر دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان کو پھر نہ نیکیوں کی توفیق ملتی ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بنتے ہیں۔ پس ہر حدیث سے بڑا واضح ہے کہ ہر جمعہ ہی اہم ہے اور ہمیں اپنی پوری کوشش کر کے جمعہ میں شامل ہونا چاہئے۔ لیکن بعض مجبور ہیں جو نہیں آ سکتے۔ بعضوں کو خود اللہ تعالیٰ نے چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں۔ وہ لوگ جو جمعوں سے مستثنیٰ ہیں ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام اور عورت اور بچہ اور مریض یہ سب مجبوری کے زُمرہ میں آتے ہیں۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ حدیث 1067)۔ ان پر ضروری نہیں کہ یہ جمعہ پڑھیں۔ ان کی استثناء ہے۔ ان کے لئے ضروری نہیں کہ جمعہ پہ آئیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ہو گئی جو بعض عورتیں پوچھتی ہیں، مجھے خط بھی لکھتی ہیں، بلکہ شکایت کرتی ہیں کہ ہمیں بعض دفعہ انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ جمعہ پر بچوں کا شور ہوتا ہے اس لئے بچوں والی عورتیں نہ آیا کریں۔ ان عورتوں اور بچوں کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ جہاں بچوں کو علیحدہ بٹھانے کا انتظام نہیں ہے وہاں بچوں والی عورتیں نہ آئیں۔ ویسے بھی عورتوں پر فرض نہیں ہے لیکن مردوں پر بہرحال واجب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ایک دفعہ عورتوں کے جمعہ پڑھنے کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جو امر سنّت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفصیل کیا کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (یعنی جمعہ کا۔) (البدر 11 ستمبر 1903ء صفحہ366 جلد 2 نمبر 34)
پس مردوں پر تو بہرحال واجب ہے کہ اگر وہ مریض نہیں اور کوئی جائز مجبوری نہیں تو بہرحال جمعہ پر آنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جمعہ کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور اسی اہمیت کے پیش نظر آپ نے اپنے زمانے میں 1895-96ء میں گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی کہ ہندوستان میں جمعہ ادا کرنے کے لئے سرکاری دفتروں میں دو گھنٹے کی رخصت ہوا کرے اور مسلمانوں سے دستخط لینے شروع کر دئیے۔ لیکن اس وقت مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار دیا کہ یہ کام تو اچھا ہے لیکن مرزا صاحب کے ہاتھ سے یہ کام نہیں ہونا چاہئے، ہم خود اس کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہمیں تو کوئی نام و نمود کا شوق نہیں ہے۔ آپ خود کر لیں۔ اور پھر آپ نے کارروائی بند کر دی۔ لیکن پھر نہ مولوی محمد حسین صاحب کو، نہ کسی دوسرے مسلمان عالم کو یہ توفیق ہوئی کہ اس پر کارروائی ہو اور وہ کارروائی آگے نہیں چلی۔ (ماخوذ از ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ، رخصت برائے نمازِ جمعہ صفحہ 42-43)
لیکن بہرحال ایک موقع پر وائسرائے ہند لارڈ کرزن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک میموریل بھیجا جس میں ان کی خوبیوں کا ذکر کر کے اور مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی کا شکریہ ادا کر کے جس میں اس بات کا شکریہ تھا کہ لاہور کی شاہی مسجد کو انہوں نے مسلمانوں کو واپس دلوایا، وہ مسجد کے طور پراستعمال ہو رہی ہے اور اسی طرح ایک اور مسجد جس پر ریلوے والوں کا قبضہ تھا اس کو وا گزار کر وا کر مسلمانوں کو دیا اور آپ نے بڑا احسان کیا ہے۔ اس میموریل میں مزید لکھا ’’لیکن ایک تمنا ان کی (یعنی مسلمانوں کی) ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مرادیں پوری ہوئی ہیں (یعنی وہ مسجدیں واپس ملی ہیں ) وہ تمنا بھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہو گی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کر اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعۃ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے (یعنی اذان دی جائے) تو تم دنیا کا ہر کام بند کر دو اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گناہگار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو۔ اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکیدنہیں۔ اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اور اس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی‘‘۔ پھر آگے آپ نے میموریل میں فرمایا کہ ’’اس ملک میں تین قومیں ہیں۔ ہندو، عیسائی اور مسلمان۔ ہندؤوں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں جس کی تعطیل عام طور پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں‘‘۔ پھر آپ نے آگے چل کے فرمایا کہ ’’ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا کہ عام طور پر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسا احسان ہو گا جو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہو گا۔‘‘
یہ درد تھا آپ کا مسلمانوں کے لئے اور اسلامی شعار کی پابندیاں کروانے کے لئے اور عبادت کی طرف توجہ دلانے کے لئے۔ پھر آگے لکھتے ہیں ’’اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہو سکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دے دے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے۔‘‘ (الحکم 24 جنوری 1903ء صفحہ 5-6 جلد 7نمبر 3)
آج مسلمان یا جو نام نہاد علماء ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الزام لگاتے ہیں کہ انگریزوں کا خود کاشتہ ہے لیکن انگریز حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی طرف توجہ دلائی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے۔ کسی اور مسلمان لیڈر کو توفیق نہ ملی اور یہ آپ کا ہی کام تھا کیونکہ یہ زمانہ جس میں اسلام کی اہمیت دنیا پر واضح کرنا اور اس کی حقیقی تعلیم پر عمل کروانا تھا یہ آپ کے ذریعہ سے ہونا تھا۔ یہ آپ کے سپرد کام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام آپ کے سپرد ہی فرمایا ہوا ہے۔ پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں ہمارے ہر عمل اور قول سے اسلام کی تعلیم کی حقیقت ظاہر ہونی چاہئے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ یہ رمضان جن برکات کو لے کر آیا تھا اور جو برکات چھوڑ کر جا رہا ہے اسے ہم نے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ انشاء اللہ۔ ہم نے اسلام کی عملی تصویر صرف ایک مہینہ کے لئے نہیں بننا بلکہ زمانے کے امام سے کئے ہوئے عہد کو مستقل پورا کرنا ہے۔
اب میں اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ یہ مسیح موعود کا زمانہ تھا اور جمعہ کے ساتھ اس کی خاص اہمیت ہے اور پھر ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک دو اقتباس پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے۔ پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا۔ یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر اتمام نعمت جو لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہو گا۔ وہ جمعہ اب آ گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 183۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ ہمیں توجہ دلاتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ
’’میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بِدُوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہو گا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے، دوسرا مخلوق کا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 184۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس آج ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے والے بنیں گے اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حق اسی طرح ادا کرنے کی کوشش کریں گے جس طرح ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور جس کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ رمضان کی برکات کو ہم ہمیشہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ سے متعلق غیر احمدی مسلمانوں میں رائج بعض غلط تصوّرات اور بدعات کا تذکرہ اور ان کا ردّ۔
ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اس کے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قبول کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں ان غلط تصورات اور غلط خیالات سے پاک کر کے حقیقی رہنمائی فرمائی اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھائے ہیں۔ اگر جمعۃ الوداع کا کوئی تصوّر ہے تو ایک حقیقی احمدی کے لئے یہی تصور ہونا چاہئے کہ ہم بڑے بھاری دل کے ساتھ اس جمعہ کو وداع کر رہے ہیں اور اس سوچ اور دعا کے ساتھ کر رہے ہیں کہ دراصل جمعہ کو نہیں بلکہ اس مہینے کو، ان بابرکت دنوں کو ہم وداع کر رہے ہیں اور جمعہ کیونکہ ہمارے بڑی تعداد میں جمع ہونے کا ذریعہ بنا ہے اور یہ اس رمضان کا آخری جمعہ ہے اس لئے ہم سب جمع ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پھر ہمیں توفیق دے کہ جو دن اور جمعے ہم نے رمضان میں گزارے ہیں اور جو برکات ہم نے رمضان میں حاصل کی ہیں ان پر قائم رہتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ اگلے رمضان کا استقبال کریں۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے ہیں ہمارے لئے تو کسی لحاظ سے بھی مناسب نہیں کہ اپنے جمعوں کی ادائیگی کو صرف رمضان تک یا جمعۃ الوداع تک محدود کر دیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے حوالہ سے جمعۃ المبارک کی اہمیت اور اس کے فضائل کا تذکرہ اور خطبہ جمعہ کو براہِ راست سننے اور اس سے استفادہ سے متعلق تاکیدی ہدایات۔
جمعہ کے دن کی سرکاری تعطیل کے حصول کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مساعی کا تذکرہ۔
ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں ہمارے ہر عمل اور قول سے اسلام کی تعلیم کی حقیقت ظاہر ہونی چاہئے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ یہ رمضان جن برکات کو لے کر آیا تھا اور جو برکات چھوڑ کر جا رہا ہے اسے ہم نے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ انشاء اللہ۔ ہم نے اسلام کی عملی تصویر صرف ایک مہینہ کے لئے نہیں بننا بلکہ زمانے کے امام سے کئے ہوئے عہد کو مستقل پورا کرنا ہے۔
فرمودہ مورخہ یکم ؍جولائی 2016ء بمطابق یکم وفا 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔