حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ بعض روایات، سبق آموز مثالیں اور واقعات
خطبہ جمعہ 8؍ جولائی 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بعض باتیں پیش کروں گا۔ ہر حوالہ جو انفرادی حوالہ ہے اپنے اندر ایک نصیحت اور سبق رکھتا ہے۔ بعض باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بھی آپ نے بیان فرمائی ہیں۔ پہلی بات تبلیغ کے حوالے سے ہے جس میں حضرت مصلح موعودنے پارٹیشن کے بعد قادیان کی جماعت کو جلسہ سالانہ پر یہ پیغام بھیجا تھا۔ اس میں توجہ دلائی تھی کہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ تبلیغ کریں اور اس پہلو سے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً یہ فرمایا تھا کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا (الحکم مورخہ 27 مارچ و 6 اپریل 1898ء جلد 2 نمبر 5-6 صفحہ 13)۔ اور پھر یہ بھی فرمایا کہ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ648)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو اور آپ کی دعوت کو اور آپ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ بیشک یہ وعدہ ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق کر بھی رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ کرے گا لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افراد جماعت کو بھی تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ میری کتابوں سے علم بھی حاصل کرو اور تبلیغ کرو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تبلیغ کیا کرتے تھے۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے بھرپور حصہ لینے کے لئے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ وعدے بیشک اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو پورا کرنے کے لئے ان لوگوں پر جنہوں نے نبی کے ساتھ عہد بیعت کیا ہوتا ہے، یہ ذمہ داری بھی ڈالی ہے کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں اور پھر جب یہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان کے کاموں میں بے انتہا برکت بھی ڈالتا ہے اور نئے نئے ذرائع بھی پیدا فرماتا ہے۔ یہ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے بہت سے ذرائع تبلیغ کے پیدا فرمائے۔
بہرحال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیغام کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جو تبلیغ کے بارے میں تھا اس میں قادیان میں احمدیوں کی تھوڑی تعداد اور محدود وسائل رہ جانے کے باوجود اس اہم فریضے کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اور درویشوں کو حوصلہ بھی دلایا اور ان کو حوصلہ دلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانے کا حوالہ دیا۔ آپ ان کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ ’’بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایا تھا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی۔ تین سو آدمی یقینا تین سے زیادہ ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سو تھی۔ گیارہ سو اور تین کی نسبت 1/366 کی ہوتی ہے۔ (یعنی ایک کے مقابلہ پہ تین سو چھیاسٹھ افراد۔) اگر اس وقت (جب یہ پیغام آپ بھیج رہے ہیں) قادیان کی آبادی بارہ ہزار سمجھی جائے تو موجودہ احمدیہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے 1/36ہوتی ہے (یعنی کہ چھتیس کے مقابلے پہ ایک احمدی اور پہلے ایک احمدی تین سو چھیاسٹھ کے مقابلہ پہ تھا۔ آپ قادیان والوں کو مخاطب کرتے ہیں کہ) گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کام شروع کیا اس (وقت) سے آپ کی طاقت دس گنا زیادہ ہے۔ پھر جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہر کوئی احمدیہ جماعت نہیں تھی۔ لیکن اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمدیہ جماعتیں قائم ہیں۔ ان جماعتوں کو بیدار کرنا، منظم کرنا، ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادے کے ساتھ ان کی طاقتوں کو جمع کرنا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلا دیں۔ یہ آپ لوگوں کا ہی کام ہے۔‘‘ (سوانح فضل عمرؓ جلد 4 صفحہ 388-389)
یہی نسبت شاید آجکل کی قادیان کی آبادی کی ہو۔ اگر احمدی ہزاروں میں ہیں تو وہاں دوسروں کی بھی تعداد بڑھی ہو گی۔ اور اب تو وسائل بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں اور ہمارے ذرائع بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں اب جماعت کا تعارف بھی مختلف ذرائع سے ہو رہا ہے۔ لیکن جو کام کرنے والے ہیں، جو واقفین زندگی ہیں اور مربیان ہیں ان کو انفرادی طور پر بھی اپنی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ماریں بھی پڑتی ہیں، مخالفتیں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے حکمت سے اپنی تبلیغ کے کام کو آگے بڑھانا ہے۔ انشاء اللہ۔
اس بات کو دنیا کے باقی ممالک کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کے کام کو کرنے اور اسے وسعت دینے کی ہمیں ہدایت فرمائی ہے۔ یہ قرآن شریف کا بھی حکم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا تھا۔ لیکن ہمیں اس کے لئے ہر جگہ، ہر ملک میں مضبوط پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس سے اس کام کو مزید وسعت دی جا سکے۔ اور پھر تبلیغ کے ساتھ ان لوگوں کو سنبھالنا بھی ایک بہت بڑا کام ہے جو بیعتیں کر کے جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ بعض جگہ تبلیغ تو ہو جاتی ہے، لوگ شامل بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر سنبھالے نہیں جاتے اور یوں بہت سے آئے ہوئے پھر ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان میں زیادہ تر دیہاتی لوگ، غریب لوگ احمدیت کو قبول کرتے ہیں اور جب مخالفین کی یورش ہوتی ہے تو بعض کمزور ایمان والے خوف سے کمزوری بھی دکھا دیتے ہیں۔ اگر وہاں ہماری انتظامیہ، کام کرنے والے، منصوبہ بندی کرنے والے جس طرح تبلیغ کے کاموں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سے بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ علاوہ اصلاح و ارشاد کی مختلف نظارتوں کے ان کا ایک شعبہ وہاں نور الاسلام بھی کام کر رہا ہے جس کے مختلف ذرائع ہیں، فون کے ذریعہ سے اور دوسرے اخباروں کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح وقف جدید کی تبلیغ کی نظامت ہے ان کے ذریعہ سے بھی کام ہو رہا ہے۔ ان کو ایسی جگہوں پر جہاں مخالفین پہنچ کر نومبائعین کو، نئے احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں وہاں جا کر ان نومبائعین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ ضلعی اور مرکزی نمائندے کو فوراً وہاں پہنچنا چاہئے جہاں سے بھی اطلاع ملے کہ یہاں کسی بھی قسم کی کسی احمدی کو تکلیف ملی ہے چاہے وہ چھوٹا سا گاؤں ہی ہو۔
اسی طرح افریقہ کے ممالک میں بھی وہاں کے لوگوں کو، مبلغین کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بعد کے رابطوں میں بھی بہتری پیدا کریں اور مقامی لوگوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے بہتر منصوبہ بندی کریں۔ کیونکہ وہاں بھی جیسا کہ مَیں نے شاید درس میں اور خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ مخالفین احمدیت فوری طور پر پہنچتے ہیں کہ کس طرح ہم ان کو احمدیت سے متنفر کریں۔ بہرحال ہر جگہ خاص طور پر جہاں زیادہ بیعتیں ہوتی ہیں اور غریب ممالک ہیں ان میں یہ ایک کام کرنے والا ہے۔
پھر ایک واقعہ حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں جو خواجہ کمال الدین صاحب سے متعلق ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی لیکن پھر خلافت ثانیہ کے انتخاب کے وقت فتنہ میں مبتلا ہو گئے اور غیر مبائعین کے لیڈروں میں سے ہو گئے۔ بہرحال ان کو لیڈری چاہئے تھی وہ ان کو وہاں مل گئی۔ ان کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے کہ انہوں نے اپنے علم کو کس طرح بڑھایا تھا اور ان کے اچھے لیکچروں اور تقریروں کا راز کیا تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’خواجہ کمال الدین صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کر کے ایک لیکچر تیار کرتے تھے۔ پھر قادیان آ کر کچھ حضرت خلیفہ اول سے پوچھتے اور کچھ دوسرے لوگوں سے اور اس طرح ایک لیکچر مکمل کر لیتے۔ پھر اسے لے کر ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرتے اور خوب کامیاب ہوتے۔‘‘ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’خواجہ صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر بارہ لیکچر آدمی کے پاس تیار ہو جائیں تو اس کی غیر معمولی شہرت ہو سکتی ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خواجہ صاحب نے ابھی سات لیکچر تیار کئے تھے کہ ولایت چلے گئے۔ (یہاں انگلستان آ گئے۔) لیکن وہ ان سات لیکچروں سے ہی بہت مقبول ہو چکے تھے۔‘‘ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک لیکچر بھی اچھی طرح تیار کر لیا جائے تو چونکہ وہ خوب یاد ہوتا ہے اس لئے لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہو سکتا ہے۔‘‘
پس پہلی چیز تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ہیں جن کوپڑھنا ضروری ہے۔ پھر اس کو سمجھنا اور آگے اس سے لے کر لیکچر تیار کرنا۔ حضرت مصلح موعود پھر تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پہلے زمانے میں اسی طرح ہوتا تھا کہ ’’صَرف میر‘‘ کا الگ استاد ہوتا تھا۔ ’’نحو میر‘‘ کا الگ استاد ہوتا تھا۔ ’’پکی روٹی‘‘ کا الگ استاد ہوتا تھا اور ’’کچی روٹی‘‘ کا الگ استاد ہوتا تھا۔ (اب ایک زمانہ دوبارہ آ گیا ہے جہاں سائنس نے ترقی کی ہے تو پھر یہ تخصص، specialities اور specialisationکا زمانہ شروع ہو چکا ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے بھی اسی طرح کہ جو لیکچرار ہوں ان کو مضامین خوب تیار کر کے دئیے جائیں اور وہ باہر جا کر وہی لیکچر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سلسلے کے مقصد کے مطابق تقریریں ہوں گی اور ہمیں یہاں بیٹھے بیٹھے پتا ہو گا کہ انہوں نے کیا بولنا ہے۔ اصل لیکچر وہی ہوں گے اس کے علاوہ اگر مقامی طور پر ضرورت ہو تو تائیدی لیکچروں کے طور پر اور وہ کچھ کسی مضمون پر بھی بول سکتے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ 7 نومبر 1945ء جلد 33نمبر 261صفحہ 3)
پس یہ رہنما اصول مبلغین کے لئے بھی ہے اور داعیین الی اللہ کے لئے بھی اور ان لوگوں کے لئے بھی جو علمی نشستوں میں جاتے ہیں۔ اگر لیکچر اس طرح تیار کیا گیا ہو تو بڑے بڑے پروفیسر اور بعض نام نہاد دین کے عالم اور بعض ایسے لوگ جو دین پر اعتراض بھی کرتے ہیں وہ بھی متأثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہاں بھی شاید شعبہ تبلیغ کے تحت ایک پروگرام تھا جس میں اسرائیل سے ایک بڑے یہودی پروفیسر بھی شامل ہوئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اس میں ایک ہمارے نوجوان مربی نے بھی اچھی تیاری کر کے لیکچر دیا تھا۔ پروفیسر صاحب اس سے بڑے متأثر ہوئے تھے۔ پروفیسر صاحب نے وہاں بڑی ہوشیاری سے اسلام کے، خلافت کے حق میں بعض باتیں کیں لیکن اسلام کے خلاف بھی کہا تو ہمارے اس نوجوان نے بڑے اچھے رنگ میں اس کا جواب دیا۔ بعد میں پروفیسر صاحب مجھے ملنے یہاں بھی آئے اور کہنے لگے کہ تمہارا وہ مربی، وہ مقرر جو تھا بڑا ہوشیار ہے۔ اصل میں تو اسلام پر حملہ کرنے والے لوگ، غیر احمدی سکالروں کے سامنے بعض باتیں کر کے ان کے دلائل ردّ کر دیتے ہیں یا ان کے پاس وہ دلائل نہیں۔ لیکن جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیا ہوا علم کلام اتنا ہے کہ اگر اچھی طرح تیاری ہو تو کسی کا بھی منہ بند کیا جا سکتا ہے۔ ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی ہمارے لئے ضروری ہے تا کہ ہمارا دینی علم بھی بڑھے اور اس کے ساتھ ہی ان کتب کی وجہ سے ہماری روحانیت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔
پرانے لوگوں میں تبلیغ کا کس قدر شوق تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں چھوٹا تھا کہ میں نے بچپن کے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک انجمن بنائی اور رسالہ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ ہم نے جاری کیا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’میرے اُس وقت کے دوستوں میں سے ایک چوہدری فتح محمد صاحب سیال بھی تھے (جو بعد میں یہاں بھی یو کے(UK) میں مبلغ رہے ہیں۔) آپ فرماتے ہیں ان کی لڑکی چوہدری عبداللہ خان صاحب کے گھر ہے۔ (چوہدری عبداللہ خان صاحب سے بیاہی ہوئی تھی۔ چوہدری عبداللہ خان صاحب، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔) کہتے ہیں ایک دفعہ چوہدری عبداللہ خان صاحب کی بیوی مجھے کہنے لگی کہ ابّا جی کو (یعنی چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو) جب آپ نے ناظر اعلیٰ بنا دیا۔ (ایک وقت میں وہاں صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اعلیٰ بھی بنائے گئے تھے)، تو وہ گھر میں بڑا افسوس کیا کرتے تھے کہ ہم نے تو اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا اور انہوں نے ہمیں کرسیوں پر لا کر بٹھا دیا ہے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ) دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ واقف زندگی کی قدر ہونی چاہئے۔‘‘ (الفضل مورخہ 22 اکتوبر 1955ء جلد 44/9نمبر 247صفحہ6)
پس اس میں یہ سبق بھی ہے کہ پرانے زمانے کے لوگوں کو تبلیغ کا کتنا شوق تھا اور اس کو دفتروں میں تعیناتی پر وہ ترجیح دیا کرتے تھے۔ آجکل یہاں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مرکز میں لگا دیا جائے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعتوں کو جس طرح مربیان اور مبلغین کو دیکھنا چاہئے وہ اس طرح بعض جگہ پر نہیں دیکھے جاتے۔ یعنی افراد جماعت جو ہیں اپنے مربیان اور مبلغین کا اس طرح خیال، لحاظ نہیں رکھتے جس طرح رکھنا چاہئے۔ اور اس بارے میں اب بھی بعض جگہ سے شکایتیں آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مَیں کہوں گا کہ مربیان اور مبلغین پر بھی یہ ذمہ داری ہے اور یہ بات ان پر بھی یہ ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ ان کو جماعتوں میں اپنا وقار قائم رکھنے کے لئے علمی اور روحانی لحاظ سے بلند مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ کبھی کسی فرد جماعت کو ان کے متعلق کسی قسم کی غلط بات کہنے کی جرأت نہ ہو۔ بعض جگہ بعض انتظامی لوگ مربّیان کے بارے میں غلط باتیں کر جاتے ہیں۔ جہاں مربی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے وہاں اس کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ پھر قبولیت دعا کا راز کیا ہے اور اس بارے میں اس کی حکمت کو بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’اس قسم کے نشان دکھانے آئے تھے اور ایسے بندے پیدا کرنا آپ کا ایک مقصد تھا جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات پیدا کر دے۔ آپ نے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے) فرمایا ہے کہ
چُو پیش آں بروی کار یک دعا باشد
اس کا مطلب یہی ہے کہ جو ساری دنیا نہیں کر سکتی وہ ایک دعا سے ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو ضرور قبول کر لیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہوا۔ مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوئے۔ آپ نے دعائیں بھی کیں مگر وہ فوت ہو گئے اور یہ بھی آپ کا ایک نشان ہے کیونکہ مرزا مبارک احمد صاحب کے متعلق آپ نے قبل از وقت بتا دیا تھا اور جب کوئی بات قبل از وقت کہہ دی جاتی ہے تو وہ نشان بن جاتی ہے۔ پس نہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہر دعا قبول ہو جاتی ہے اور نہ ہی ہر ردّ ہوتی ہے۔ ہاں جو دعا قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اسے کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔
پھر دعاؤں کی قبولیت کی بات کرتے ہوئے پیغامیوں کے حضرت مصلح موعود پہ ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: انہوں نے اعتراض کیا تھا کہ کیا نشان پورے ہوئے۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے جو فضل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئے ان کا جاری رہنا ضروری ہے۔ پیغامیوں کا یہ حق تو ہے کہ کہہ دیں کہ تمہارے ذریعہ جاری نہیں ہو سکتے۔ (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں میرے بارے میں یہ کہہ دو کہ میرے ذریعہ یہ جاری نہیں ہو سکتے) مگر یہ ضروری ہے کہ وہ میرے مقابلے پر اپنے امام یا لیڈر کو پیش کریں اور کہیں کہ اس کے ذریعہ ان فضلوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اور اگر واقعی خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ آئندہ کے امور کے متعلق خبریں ظاہر کرے اور اس کی دعاؤں کو غیر معمولی طور پر سنے تو ہم مان لیں گے کہ ہم گو غلطی پر تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہے۔ (ایسے اعتراض نہ کرو جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر حرف آتا ہو۔ تم ایک طرف مانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ چاہے مانتے ہو کہ وہ مجدد کے طور پر تھے۔ مانتے ہو کہ سچے تھے اور ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں۔ انہوں نے پیشگوئیاں بھی کیں۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر میری بات نہیں ماننی تو نہ مانو۔ ایک تو اپنے کسی امام کو میرے سامنے پیش کرو۔ کوئی لیڈر میرے سامنے پیش کرو اور پھر یہ ثابت کرو کہ اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ اور اگر ثابت کر دیتے ہو کہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، تو ہمیں یہ ماننے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ ٹھیک ہے ہم غلطی پر ہیں۔ لیکن اگر تم یہ کہو کہ نشان پورے نہیں ہو رہے تو یہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بھی اعتراض کر رہے ہو۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں لیکن ان کا یہ حال ہے کہ یہ لوگ تو دروازہ ہی بند کر دیتے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ 12 جولائی 1940ء، 12وفا 1319ہش جلد 28 نمبر 157 صفحہ 6)۔ کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتے۔ کوئی عقل کی بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔
بعض چھوٹے چھوٹے مزید واقعات ہیں۔ مثالیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے آپ نے بیان فرمائیں۔ اس میں سے ایک کُبڑی کی مثال ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک کبڑی کی مثال سنایا کرتے تھے (اس کے کمر پہ کُب نکلا ہوا تھا۔) کہ اس سے کسی نے پوچھا کہ آیا تو یہ چاہتی ہے کہ تیری کمر سیدھی ہو جائے یا باقی لوگ بھی کبڑے ہو جائیں؟ تو جیسا کہ بعض طبیعتیں ضدی ہوتی ہیں۔ (حسد بھی رکھتی ہیں ) اُس نے آگے سے یہ جواب دیا کہ مدتیں گزر گئیں۔ مَیں کُبڑی ہی رہی اور لوگ میرے کُبڑے پن پہ ہنستے اور مذاق کرتے رہے۔ اب تو یہ سیدھا ہونے سے رہا۔ (کُب میرا جو ہے یہ تو ایسا ہی رہنا ہے۔ اب تو میں بوڑھی ہو گئی۔) مزا تو جب ہے کہ یہ لوگ سارے جو ہیں یہ بھی کبڑے ہوں اور مَیں بھی ان پر ہنس کے جی ٹھنڈا کروں۔‘‘ تو آپ کہتے ہیں کہ ’’اس طرح کی بعض حاسد طبیعتیں ہوتی ہیں۔ (حسد کرنے والی طبیعتیں ہوتی ہیں ) انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تکلیف دُور ہو جائے بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرا تکلیف میں مبتلا ہو جائے۔‘‘ (الفضل 2 اگست 1961ء جلد 5/15 نمبر 177 صفحہ 5)
پس ایسے حاسدوں سے بچنے کی بھی ہمیں ہر ایک کو دعا کرنی چاہئے اور یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہم بھی کبھی ایسے حاسدوں میں شمار نہ ہوں جو اس قسم کی باتیں کرنے والے ہوں۔ پھر ایک اندھے کی کہاوت بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی اندھا تھا جو رات کے وقت کسی دوسرے سے باتیں کر رہا تھا اور ایک شخص کی نیند خراب ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا حافظ جی سو جاؤ۔ حافظ صاحب کہنے لگے ہمارا سونا کیا ہے۔ چُپ ہی ہو جانا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ سونا آنکھیں بند کرنے اور خاموش ہو جانے کا نام ہوتا ہے۔ میری آنکھیں تو پہلے ہی بند ہیں۔ اب خاموش ہی ہو جانا ہے اور کیا ہے؟‘‘ (تو مَیں ہو جاتا ہوں۔) تو آپ فرماتے ہیں کہ ’’مومن کے لئے یہ حالات (جو تکلیف کے ہوتے ہیں یہ) تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ مَیں تو پہلے ہی ان حالات کا عادی ہوں۔ جیسے مومن کو دنیا مارنا چاہتی ہے تو وہ کہتا ہے مجھے مار کر کیا لوگے۔ مَیں تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کے لئے مرا ہوا ہوں۔ (اس بات پہ تیار ہوں کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے مَیں کروں گا۔ اس کے لئے جان بھی میری حاضر ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا موت سے گھبراتی ہے مگر ایک مومن کو جب دنیا مارنا چاہتی ہے تو وہ کچھ بھی نہیں گھبراتا اور کہتا ہے کہ میں تو اسی دن مر گیا تھا جس دن میں نے اسلام قبول کیا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ آگے میں چلتا پھرتا مردہ تھا اور اب تم مجھے زمین کے نیچے دفن کر دوگے۔ میرے لئے کوئی زیادہ فرق نہیں ہو گا۔‘‘ (الفضل 23 مئی 1943ء جلد 31 نمبر 122 صفحہ 6)۔ تو حقیقی مومن کی یہ سوچ ہوتی ہے۔
پھر ایک مثال آپ دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت کسی شادی میں شامل ہوئی۔ وہ بخیل تھی۔ (کنجوس عورت تھی) لیکن اس کی بھاوج حوصلے والی تھی۔ (نند، بھابھی دونوں شادی میں شامل ہوئے۔ وہ تو کنجوس تھی لیکن بھابھی اس کی ذرا حوصلے والی تھی۔ حوصلے سے مراد ہے تحفہ دینے میں حوصلہ رکھتی تھی۔) اس عورت نے اس شادی پہ ایک روپے کا تحفہ دیا مگر اس کی بھاوج نے بیس روپیہ کا۔ جب وہ واپس آئیں تو کسی نے اس کنجوس عورت سے پوچھا کہ تم نے شادی کے موقع پر کیا خرچ کیا؟ تو اس نے کہا کہ مَیں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دئیے۔ (اس کی مثال چندوں پہ منطبق کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ) بعض جماعتوں میں بعض افراد ہیں وہ کافی بڑھ کر چندہ دیتے ہیں۔ ان کے خاص چندوں کو جماعتوں کا اپنا طرف منسوب کر دینا ایسا ہی ہے جیسے اس بخیل عورت کا یہ کہنا کہ میں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دئیے تھے۔‘‘ (الفضل 15 جون 1944ء جلد 32نمبر 138صفحہ 4)
لیکن بعض ایسے بھی امیر لوگ ہیں جو کنجوس ہوتے ہیں اور جماعتوں کے مجموعی چندے کو اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں۔ یہ بھی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ اگر منسوب نہیں کرتے تو اظہار ضرور کرتے ہیں کہ ہماری جماعت نے اتنا دیا۔ جیسے ہماری جماعت میں سب سے زیادہ بڑھ کے وہی چندہ دینے والے تھے۔ حالانکہ اکثریت ان میں سے وہ ہوتی ہے جو غریب ہوتے ہیں جنہوں نے چندہ دیا اور امیر اس نسبت سے نہیں دے رہے ہوتے۔
ایک دفعہ کھیل میں بعض غلط باتیں ہوئیں۔ دین کا خیال نہیں رکھا گیا۔ سلسلہ کی روایات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس پر تنبیہ کرتے ہوئے آپ نے ان کو فرمایا کہ ’’دیکھو ہنسی اور مذاق کرنا جائز ہے۔ (منع نہیں ہے۔) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مذاق کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مذاق کرتے تھے۔ ہم بھی مذاق کر لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مذاق نہیں کرتے۔ ہم سو دفعہ مذاق کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے کرتے ہیں، اپنی بیویوں سے کرتے ہیں۔ (قریبیوں سے کرتے ہیں ) لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں کسی کی تحقیر کا رنگ ہو۔ (اگر کسی کی تحقیر ہو۔ اس کی عزت نفس متاثر ہو رہی ہو تو ایسا مذاق صحیح نہیں ہے۔)ا گر منہ سے ایسا کلمہ نکل جائے جس میں تحقیر کا رنگ پایا جاتا ہو تو ہم استغفار کرتے ہیں۔ (اور یہ ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ اگر کسی سے غلطی سے کسی کا مذاق ایسے رنگ میں ہو جائے جو اس کو بہت برا لگے یا اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو) اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ (اس لئے استغفار کرنا چاہئے۔ پس ایک کھیل کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ وہاں یہ کھیل ہو رہی تھی۔ اس لحاظ سے اس میں ایک بات ہوئی۔ فرماتے ہیں کہ میں کھیلوں کو برا نہیں مناتا۔ ہنسنا کھیلنا جائز ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ جائز نہیں ہے۔) تم بیشک ہنسو اور کھیلو لیکن بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی۔ (یعنی) کھیل کھیل ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر باپ کی داڑھی سے بھی کھیلا جائے تو یہ جائز نہیں۔ (یعنی کہ اپنے باپ کی بھی عزت اچھالنے لگو تو پھر یہ جائز نہیں ہے۔) خداتعالیٰ کا مقام خدا تعالیٰ کو دو۔ فٹبال کا مقام فٹبال کو دو۔ مشاعرے کا مقام مشاعرے کو دو اور پیشگوئیوں کا مقام پیشگوئیوں کو دو۔ (بعضوں نے ایسی باتیں کیں جس میں استہزاء کے رنگ میں یا مذاق کے رنگ میں پیشگوئیوں کے حوالے دینے شروع کر دئیے۔) فرمایا اگر تمہیں کھیل اور تمسخر کا شوق ہو تو لاہور جاؤ اور مشاعروں میں جا کر شامل ہو جاؤ۔ (وہاں بعض شاعر ایک دوسرے کا تمسخر بھی اڑا لیتے ہیں۔ مشاعروں میں شامل ہو جاؤ بیشک اپنا شوق پورا کر لو۔ فضول باتیں کرنی ہیں۔ کھیلوں میں شامل ہونا ہے تو جاؤ دوسرے شہر میں جا کے شامل ہو جاؤ۔) اگر تم لاہور جا کر ایسا کرو گے (خاص طور پر قادیان کے لوگوں کو آپ نصیحت فرما رہے تھے اور اب ربوہ، قادیان جہاں بھی مرکزی طور پر جماعتی پروگرام کے تحت چاہے کھیلوں کا ہی انتظام ہو رہا ہو ان کے لئے بھی یہ نصیحت ہے کہ وہاں جا کر ایسا کرو گے) تو لوگ یہی کہیں گے کہ لاہور والوں نے ایسا کیا۔ یہ نہیں کہیں گے کہ احمدیوں نے ایسا کیا۔ لیکن یہاں اس کا دسواں حصہ بھی کرو گے تو لوگ کہیں گے کہ احمدیوں نے ایسا کیا۔ پس میں تمہیں ہنسی سے نہیں روکتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہنسی میں اس حد تک نہ بڑھو جس میں جماعت کی بدنامی ہو۔‘‘ (الفضل 12 مارچ 1952ء جلد 40/6 نمبر 62 صفحہ 4)
اب صرف قادیان یا ربوہ کی بات نہیں ہے باقی جگہوں پر بھی دنیا میں ہر جگہ صرف جماعتی طور پر بھی کھیلیں ہوتی ہیں۔ جماعتی طور پر آرگنائز ہوتی ہیں۔ وہاں اگر کوئی ایسی باتیں ہوں گی تو بعض دفعہ جماعت بدنام ہوتی ہے۔ اس لئے ہر جگہ ان باتوں کی احتیاط کرنی چاہئے۔
پس ہمارے ہر عمل میں اس بات کا اظہار ہونا چاہئے چاہے وہ کھیل کود ہے یا تفریح ہے یا مشاعرے ہیں کہ ہم نے جماعت کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دینا۔ اس کی عزت کا ہمیشہ خیال رکھنا ہے۔ اس کے وقار کا ہمیشہ خیال رکھنا ہے۔ پس یہ جو چند باتیں میں نے کہی ہیں یہ نصیحت تھیں۔ سبق آموز تھیں۔ ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو اور آپ کی دعوت کو اور آپ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ بیشک یہ وعدہ ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق کر بھی رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ کرے گا لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افراد جماعت کو بھی تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ میری کتابوں سے علم بھی حاصل کرو اور تبلیغ کرو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تبلیغ کیا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں اب جماعت کا تعارف بھی مختلف ذرائع سے ہو رہا ہے۔ لیکن جو کام کرنے والے ہیں، جو واقفین زندگی ہیں اور مربیان ہیں ان کو انفرادی طور پر بھی اپنی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ماریں بھی پڑتی ہیں، مخالفتیں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے حکمت سے اپنی تبلیغ کے کام کو آگے بڑھانا ہے۔ انشاء اللہ۔
اس بات کو دنیا کے باقی ممالک کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کے کام کو کرنے اور اسے وسعت دینے کی ہمیں ہدایت فرمائی ہے۔ ہمیں اس کے لئے ہر جگہ، ہر ملک میں مضبوط پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس سے اس کام کو مزید وسعت دی جا سکے۔
پھر تبلیغ کے ساتھ ان لوگوں کو سنبھالنا بھی ایک بہت بڑا کام ہے جو بیعتیں کر کے جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ بعض جگہ تبلیغ تو ہو جاتی ہے، لوگ شامل بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر سنبھالے نہیں جاتے اور یوں بہت سے آئے ہوئے پھر ضائع ہو جاتے ہیں۔ افریقہ کے ممالک میں بھی وہاں کے لوگوں کو، مبلغین کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بعد کے رابطوں میں بھی بہتری پیدا کریں اور مقامی لوگوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے بہتر منصوبہ بندی کریں۔ پہلی چیز تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ہیں جن کوپڑھنا ضروری ہے پھر اس کو سمجھنا اور آگے اس سے لے کر لیکچر تیار کرنا۔ یہ رہنما اصول مبلغین کے لئے بھی ہے اور داعیین الی اللہ کے لئے بھی اور ان لوگوں کے لئے بھی جو علمی نشستوں میں جاتے ہیں۔ اگر لیکچر اس طرح تیار کیا گیا ہو تو بڑے بڑے پروفیسر اور بعض نام نہاد دین کے عالم اور بعض ایسے لوگ جو دین پر اعتراض بھی کرتے ہیں وہ بھی متأثر ہوتے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی ہمارے لئے ضروری ہے تا کہ ہمارا دینی علم بھی بڑھے اور اس کے ساتھ ہی ان کتب کی وجہ سے ہماری روحانیت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔
بعض جگہ پر افراد جماعت جو ہیں اپنے مربیان اور مبلغین کا اس طرح خیال، لحاظ نہیں رکھتے جس طرح رکھنا چاہئے۔ اور اس بارے میں بعض جگہ سے شکایتیں اب بھی آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مَیں کہوں گا کہ مربیان اور مبلغین پر یہ ذمہ داری بھی ہے کہ ان کو جماعتوں میں اپنا وقار قائم رکھنے کے لئے علمی اور روحانی لحاظ سے بلند مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ کبھی کسی فرد جماعت کو ان کے متعلق کسی قسم کی غلط بات کہنے کی جرأت نہ ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس قسم کے نشان دکھانے آئے تھے اور ایسے بندے پیدا کرنا آپ کا ایک مقصد تھا جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات پیدا کر دے۔
[حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ بعض روایات اور مختلف سبق آموز مثالوں اور واقعات کے حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح]
فرمودہ مورخہ 08؍جولائی 2016ء بمطابق08وفا 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔