اسلام کی سچی اور خوبصورت تعلیم کی تبلیغ
خطبہ جمعہ 29؍ جولائی 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آجکل دنیا کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور بدقسمتی سے اس کی وجہ مسلمانوں کے بعض گروہ بن رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے سربراہ، ان کے کرتے دھرتے بھی نہیں سمجھتے کہ ان کو اسلام مخالفت طاقتیں گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسلام کے نام پر اور جہاد کے نام پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کا اسلام کی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسی طرح جو حکومتیں اپنے لوگوں پر ظلم ڈھا رہی ہیں ان کا بھی اسلامی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ اسلامی تعلیم کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ اسلام میں یہ کہاں لکھا ہے کہ معصوموں کو قتل کرو۔ اور پھر یہ نہ صرف اسلام کے نام پر غیر مسلموں کو قتل کر رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اس میں معصوم بھی شامل ہیں۔ بچے، بوڑھے، عورتیں سب شامل ہیں۔ مسلمان ممالک کی طاقت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے اور یہی بات اسلام مخالف جو طاقتیں ہیں وہ چاہتی ہیں کہ اسلامی حکومتیں کبھی مضبوط نہ ہوں۔ اسلامی ممالک کبھی معاشی لحاظ سے یا امن اور سلامتی کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں۔ مسلمان ممالک کے سربراہ اور ان کے پروردہ علماء نہ ہی اسلامی تعلیم کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس زمانے کے امام اور ہادی کی بات سننے سے انکاری ہیں جس کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں جاری کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ نتیجۃً ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کر دیا ہے کہ اسلام جو امن اور انصاف قائم کرنے کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ جو اسلامی حکومتوں کو کہتا ہے کہ امن اور انصاف قائم کرنا اسلامی حکومتوں کا سب سے بڑھ کر فرض ہے، وہی امن اور انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ہر مسلمان ملک میں جو فتنہ و فساد برپا ہے اور مفاد پرست جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ اس لئے ہے کہ حکومتیں بجائے اس کے کہ عوام کی بھلائی اور بہتری کے لئے کام کریں اپنے مفادات کو مقدم رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ برداشت کا مادہ سربراہوں میں نہیں رہا۔
اب ترکی میں گزشتہ دنوں جو بغاوت ہوئی بیشک یہ بغاوت کسی طرح بھی اسلامی تعلیم کے مطابق justified نہیں ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں یا کر رہی ہے وہ بھی ظالمانہ ہیں کہ جتنے بھی حکومت کے سیاسی لحاظ سے مخالف ہیں چاہے وہ فساد میں شامل بھی نہیں ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ دیکھ بھی چکے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں جلد یا کچھ عرصہ بعد ردّعمل ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال اگر ظلم جاری رہے تو ردّعمل ضرور ہوتا ہے اور پھر اس ردّعمل کو اسلام مخالف طاقتیں ہوا دیتی ہیں، اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بڑی طاقتیں اپنا اسلحہ بیچتی ہیں اور دونوں طرف کی ہمدرد بن جاتی ہیں۔ عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود مسلمان حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اگر قرآن کریم کی تعلیم پر ہی غور نہیں کرنا، اگر مسلمان بن کرنہیں رہنا تو عقل کا تو تقاضا یہ ہے کہ سوچ سمجھ کے اپنے قدم اٹھائیں۔ یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کے اختلاف کا یا ان کے ملکوں میں بے چینی اور بدامنی کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔ لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی۔ پس ان مسلمان ممالک کے لئے ان دنوں میں بہت دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔
پھر دہشت گرد تنظیموں نے ان مغربی ممالک میں معصوم جانوں کو قتل کرنے کے انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ عمل کر کے اسلام کو بدنام کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ یہ بھی بعیدنہیں کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اسلام مخالف طاقتیں ہی غیر مسلم ممالک میں ایسی حرکتیں ان لوگوں سے کروا رہی ہوں جس سے اسلام بھی بدنام ہو اور ان کو مدد کے نام پر، دنیا کو دہشت گردی سے بچانے کے نام پر ان ممالک میں اپنے اڈّے قائم کرنے کے لئے ایک وجہ ہاتھ آ جائے۔
اگر صحیح اسلامی تعلیم سے یہ لوگ آگاہ ہوں علم ہو تو ان کو پتا ہونا چاہئے کہ یہ کوئی اسلامی تعلیم نہیں ہے کہ معصوموں کی قتل و غارت کی جائے۔ ایئر پورٹوں پر، سٹیشنوں پر مسافروں کو اور بچوں کو، عورتوں کو، بوڑھوں کو، بیماروں کو قتل کر دیا جائے۔ چرچوں میں جا کر لوگوں اور پادریوں کو قتل کر دیا جائے۔ قتل تو دُور کی بات رہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جنگ میں جو فوج بھجواتے تھے اسے بھی ہدایت ہوتی تھی کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، راہبوں، پادریوں کو قتل نہیں کرنا۔ ہر شخص جو ہتھیار نہیں اٹھاتا یا کسی بھی شکل میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں بنتا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچانا۔ (ماخوذ از المعجم الاوسط للطبرانی جزء 3 صفحہ 154، من اسمہ علیّ حدیث 4162، دار الفکر عمّان، اردن 1999ء) (ماخوذ از شرح معانی الآثار جزء 2 صفحہ126 کتاب السیر باب الشیخ الکبیر ھل یقتل فی دار الحرب ام لاحدیث 5067 مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
پس یہ نہ ہی قرآن کریم کی تعلیم ہے، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم۔ اور نہ ہی آپؐ کے اور آپ کے خلفاء راشدین اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے کسی عمل سے یہ ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا ہے اور یہ نام ہی دہشتگردی اور جبر و تشدد کو ردّ کرتا ہے اور امن و صلح اور آشتی کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے معنی ہی امن میں رہنا اور امن دینا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلٰی دَارِ السََّلَامِ(یونس: 26) اور اللہ تعالیٰ سلامتی اور امن کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ پھر ایک حقیقی مسلمان جب نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا رحم اور اس کا فضل مانگتا ہے لیکن یہ لوگ جو ظالم لوگ ہیں یہ نہ تو قرآن کریم کو مانتے ہیں، نہ اس پر عمل کرتے ہیں، نہ نمازیں پڑھتے ہیں۔ انہوں نے تو اپنا ایک نیا دین اور نئی شریعت بنائی ہوئی ہے۔ بہرحال جب ایک حقیقی مسلمان سلامتی مانگتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو پھر شرارت شوخی اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ پھر اسلام کہتا ہے سلام کو رواج دو اور سلامتی پھیلاؤ۔ سلام کہنا صرف مسلمانوں تک محدودنہیں ہے۔ گو کہ آجکل پاکستان میں وہاں کے ملکی قانون نے علماء کے زیر اثر اس پر بھی اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے یا monopolizeکیا ہے کہ سوائے مسلمانوں کے کوئی سلام نہیں کہہ سکتا اور احمدی تو بالکل سلام نہیں کہہ سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو بلاتخصیص سب کو سلام کہا جاتا تھا۔ (ماخوذ از الصحیح البخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث 12)
اسلام کی امن قائم کرنے کے لئے یہ چند خوبیاں جو میں نے بیان کی ہیں یہ مختصراً میں نے بعض باتیں بتائی ہیں۔ تفصیل میں جائیں اور کسی بھی رنگ میں دیکھ لیں، کسی بھی حکم کو لے لیں تو اسلام امن صلح اور آشتی کا مذہب ہے نہ کہ دہشت گردی کا۔
اگر دنیا کے دل جیتے جا سکتے ہیں، اگر اسلام کو دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے تو اس کی خوبصورت تعلیم سے، نہ کہ شدت پسند لوگوں اور علماء کی خود ساختہ تعلیم سے۔ لیکن یہ راستہ تو وہی دکھا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے۔ انصاف تو وہی قائم کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ حَکَم اور عدل بنا کر بھیجا ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو وہی لاگو کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فائز کیا ہے۔
ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مانا اور دنیا کے ان ظلموں میں شامل ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصہ کئے ہیں۔ اول حقوق اللہ اور دوم حقوق العباد۔ حق اللہ تو یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شئے۔ مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ کفار کا مال ناجائز طور پر لینا درست ہے۔‘‘
فرماتے ہیں کہ بلکہ ’’خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لُوٹ لو‘‘۔ (یہ فتویٰ غیراحمدی علماء کا جماعت احمدیہ کے لوگوں کے لئے آج بھی جاری ہے۔ آپ فرماتے ہیں لوگوں نے فتویٰ دیا ہے کہ ان کا مال لوٹ لو یعنی احمدیوں کا یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا)۔ فرماتے ہیں ’’بلکہ یہاں تک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو۔ حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں۔ وہ تو ایک صاف اور مصفّٰی مذہب تھا۔ اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوق ابوّت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشاء ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ281)
پس یہ تعلیم ہے جس کو اپنا کر مسلمان دنیا میں دوبارہ اسلام کی شان و شوکت قائم کر سکتے ہیں کہ خدا کے حق کو بھی پہچانیں اور ایک دوسرے کے حق کو بھی پہچانیں۔ نوع انسان میں محبت اور پیار پیدا کرنے کی کوشش کریں قطع نظر اس کے کہ کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ ظلم سے کام لے کر معصوموں کو قتل کرنے کی بجائے اسلام کی امن صلح اور آشتی کی تلوار سے دلوں کو گھائل کر کے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے قدموں میں لا کر ڈالیں۔ خود کش حملے کر کے یا ظلم کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی بجائے اس کا پیار اور قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام کی آغوش کو باپ کی محبت اور رحمت کا سایہ بنائیں نہ کہ اپنی ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے اسلام پر اعتراض کرنے والوں اور حملہ کرنے والوں کو مزید مواقع فراہم کریں۔ اگر یہ باز نہیں آئیں گے تو یاد رکھیں کہ دنیاوی حیلوں اور حملوں سے کبھی بھی اسلام کو دنیا میں پھیلا نہیں سکتے۔
ہم احمدیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر حملہ جو اسلام کے نام پر یہ بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر ہماری ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ہر ایسی حرکت جس سے اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے اس کے بعد ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ میرے مذہب کی بنیاد امن اور سلامتی پر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے یہ بتانا ہے۔ اگر اسلام کے پیروؤں میں سے کوئی ایسی حرکت کرتا ہے جو امن اور سلامتی کو برباد کرنے والی ہے تو یہ اس شخص یا گروہ کا ذاتی اور اپنے مفاد حاصل کرنے والا عمل ہے۔ اسلام کی تعلیم سے اس کا کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ یہ سراسر ناجائز چیزیں ہیں۔ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو یہ عمل کرتے ہیں نہ کہ اسلامی تعلیم پر۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ اس بات کے لئے ہر ملک میں کوشش کرتی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ذریعہ سے اس کا اچھا اثر بھی ہو رہا ہے۔ ان کے کالم لکھنے والے خود لکھتے ہیں۔ اب فرانس میں جو پادری کا ظالمانہ قتل ہوا اس پر ہی یہاں ایک لکھنے والے نے یہ لکھا کہ یہ عمل اس بات کی طرف توجہ پھیرتا ہے کہ دنیا میں مذہبی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ لیکن وہ خود ہی لکھتا ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ مذہب کی آڑ میں مفاد پرستوں اور نفسیاتی مریضوں کی جنگ ہے۔
پوپ صاحب نے بھی بڑا اچھا بیان دیا کہ یہ بیشک بین الاقوامی جنگ بن گئی ہے لیکن یہ مذہبی جنگ نہیں ہے بلکہ مفادات کی جنگ ہے۔ ان لوگوں کی جنگ ہے جن کے اپنے مفادات ہیں کیونکہ کوئی مذہب بھی ظلم کی تعلیم نہیں دیتا۔ ابھی تک تو یہ غیر خود ہی اپنے لوگوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ظلم جب بڑھتے جائیں گے تو پھر ردّعمل بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں کہ ہم اپنا اسلام کا، امن کا پیغام دنیا میں ہر جگہ پہنچائیں۔ بہرحال ایک طرف تو یہ ہے لیکن ایسے بھی ہیں جن تک ہمارا پیغام پہنچا ہوا ہے لیکن وہ منفی معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی نے مجھے لکھا کہ ایک شخص نے جو غالباً اسلام سے مرتد ہؤا ہؤا ہے میرے حوالے سے ایک ٹویٹ (Tweet) کیا اور شاید اس میں اس نے میری تصویر بھی دی ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم و بربریت کی مناہی کی ہے۔ لیکن اس بیان کے بعد پھر آگے اپنی طرف سے اس نے استہزائیہ انداز میں یہ لکھ دیاکہ یہ حکم عورتوں کے لئے نہیں ہے، اسلام کو چھوڑنے والوں کے لئے نہیں ہے، جو ارتداد اختیار کرتے ہیں ان کے لئے نہیں ہے۔ فلاں چیز کے لئے نہیں ہے، فلاں چیز کے لئے نہیں ہے۔ تو ایسے بھی ہیں جب دیکھتے ہیں کہ اسلام کی امن پسندی کی جو تصویر جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں تو اس اثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ذریعہ جو آجکل ٹویٹ (Tweet) اور فیس بُک (Facebook) اور دوسرے مختلف ذرائع سے اپنایا جاتا ہے اس میں کئی ہزار لوگوں تک بلکہ لاکھوں تک یہ پیغام پہنچ جاتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھنا ہمارا کام ہے اور ان کا جواب دینا ہمارا کام ہے۔
دنیا تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کا ابھی بہت کام ہے جو ہم نے کرنا ہے۔ گو کہ دنیا میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کا پہلے سے بہت زیادہ تعارف ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تسلی بخش کام ہو گیا۔ مخالفت کے اس دور میں جو غیرمسلموں کی طرف سے اسلام کی بھی مخالفت ہے اور مسلمانوں کی طرف سے جماعت کی بھی مخالفت ہے اس میں ہمیں بڑی حکمت اور محنت سے کام کرنا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انشاء اللہ دنیا میں پھیلنا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ اب احمدیت کے ذریعہ سے ہونی ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے لیکن ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ یہ ترقی کے نظارے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں اور ہماری کمزوریاں اور کوتاہیاں اس ترقی کو ہم سے دور کرنے والی نہ ہوں۔ پس اپنی پردہ پوشی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ہمیں محنت اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمارے تو اسلام مخالف طاقتیں بھی خلاف ہیں اور نام نہاد علماء کے پیچھے چلنے والے مسلمان بھی خلاف ہیں۔ لیکن ہم نے ہر خوف کو دُور کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کے لئے کوشش کرنی ہے۔
اب جو بعض جرنلسٹ ہیں، اخباری نمائندے ہیں وہ سوال بھی کرتے ہیں۔ یورپ میں بھی مجھ سے سوال کیا۔ اس دفعہ دورے پر سویڈن میں بھی ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ تمہاری تو شدت پسند گروہوں کی طرف سے مخالفت ہے اور تمہاری جانوں کو خطرہ ہے تو کس طرح تم اپنے کام کرو گے؟ میں نے کہا ہاں بیشک ٹھیک ہے کہ مجھے خطرہ ہے۔ جماعت کے افراد کو خطرہ ہے۔ لیکن یہ خطرے ہمیں اپنے کام سے نہیں روک سکتے۔ خطرہ تو اب ہر ایک کو ہر جگہ ہے۔ اسے میں نے کہا تمہیں بھی خطرہ ہے۔ اس میں احمدی یا غیر مسلم کا سوال نہیں ہے۔ جو بھی ان مفاد پرست لوگوں کے ایجنڈے پر عمل نہیں کرتا یا ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا اس کی جان خطرے میں ہے۔ لیکن احمدیوں کے تو وہ لوگ بھی مخالف ہیں جو قومیت پرست ہیں یا اسلام مخالف ہیں تو ہمیں تو دونوں طرف سے خطرہ ہے۔ لیکن بہرحال ایک مومن ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اور ایمان پر قائم رہتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر احمدی رہے گا۔
دنیا کے جو حالات ہیں اس کے لئے اور ہر احمدی کو ہر شر سے بچنے کے لئے اور جماعت کے من حیث الجماعت دنیا میں ہر جگہ شریروں کے شر سے بچنے کے لئے ہمیں دعاؤں اور صدقات پر توجہ دینی چاہئے۔ ان دنوں میں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا آجکل حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شریروں کے شر ان پر الٹائے جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر ظلم و تعدی کر کے اللہ تعالیٰ کے دین کو بدنام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے جلد سامان کرے اور تمام بلاؤں اور مشکلات کو دور فرمائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ جس کے لئے باب دعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے اور اللہ تعالیٰ سے جو چیز مانگی جاتی ہے ان میں سے سب سے زیادہ اسے یعنی اللہ تعالیٰ کو عافیت طلب کرنا محبوب ہے۔ اس کی عافیت میں آنا اس کومحبوب ہے۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اس ابتلا کے موقع پر جو آ چکا ہو اور اس ابتلا کے مقابلے پر جو ابھی نہ آیا ہو نفع دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندو تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث 3548)
پھر آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ قابل عزت اور کوئی چیز نہیں ہے۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعا حدیث 3370)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کے بارے میں فرمایا کہ ابتلاؤں اور آگ سے بچنے کے لئے صدقات دو۔ (ماخوذ از کنز العمّال جلد 5صفحہ 148 کتاب الزکوٰۃ باب فی السخاء و الصدقۃ حدیث 15978,15975 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2004ء)
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا فرض ہے۔ صحابہ کے پوچھنے پر کہ جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ کیا کرے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ معروف باتوں پر عمل کرے۔ اسلامی احکامات جو ہیں ان پر عمل کرے۔ نیکیوں پر عمل کرے اور بری باتوں سے روکے۔ یہی اس کے لئے صدقہ ہے۔ (الصحیح البخاری کتاب الادب باب کل معروف صدقۃ حدیث 6022)
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی سمجھے کہ جس نے مال کا صدقہ دے دیا وہ بیشک معروف باتوں پر عمل نہ کرے اور بری باتوں سے نہ بھی رکے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کے بدلے میں صدقہ دے دیا۔ نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت کی نظر ہے کہ اگر کوئی مجبور ہے، مال نہیں رکھتا تو نیکیاں کرنا اور برائیوں سے رکنا ہی اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے ورنہ اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا یعنی نیکیوں پر عمل نہیں کرتا اور برائیوں سے رکتا نہیں ہے تو اس کے مال کا صدقہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جس طرح دکھاوے کی نمازیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اور نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں اسی طرح صدقہ کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک مومن سے تو یہی توقع کی جاتی ہے کہ جب وہ صدقہ کرتا ہے، دعائیں کرتا ہے تو پھر اپنے ہر عمل کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے اور جب ایسی حالت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور مشکلات اور بلاؤں سے انسان کو بچاتی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’صدقہ اور دعا سے بلا ٹل جاتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ82,81۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر دعاؤں کے مقبول ہونے کے لئے کیا حالت ہونی چاہئے۔ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 27۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اللہ تعالیٰ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے دعاؤں اور صدقات پر زور دینے کی بہت زیادہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر دعاؤں کی طرف ہمیں توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں مگر تم لوگوں کو بھی چاہئے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو۔ نمازیں پڑھو اور توبہ کرتے رہو۔ جب یہ حالت ہو گی تو اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گا اور اگر سارے گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کے باعث سے دوسروں کی بھی حفاظت کرے گا…‘‘۔ فرمایا ’’جو خاص ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے اور آپ ان کی حفاظت فرماتا ہے…۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کبھی کسی صادق سے بے وفائی نہیں کرتا۔ ساری دنیا بھی اگر اُس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اس کو کوئی گزندنہیں پہنچا سکتی۔ خدا بڑی طاقت اور قدرت والا ہے اور انسان ایمان کی قوت کے ساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا ہے اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات دیکھتا ہے۔ پھر اس پر کوئی ذلّت نہ آوے گی۔ یاد رکھو خدا تعالیٰ زبردست پر بھی زبردست ہے۔‘‘ (یعنی کوئی بہت زیادہ طاقتور ہے تو اس سے بھی طاقتور ہے) فرمایا ’’بلکہ اپنے امر پر بھی غالب ہے۔ سچے دل سے نمازیں پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے سب رشتے داروں اور عزیزوں کو یہی تعلیم دو۔ پورے طور پر خدا کی طرف ہو کر کوئی نقصان نہیں اٹھاتا۔ نقصان کی اصل جڑ گناہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 67 تا 70۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمیں خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے اور اس سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام بلاؤں کو اور مشکلات کو دور فرمائے اور دشمن کو خائب و خاسر فرمائے۔ مخالفین کے جماعت کے خلاف ہر حربے اور ہر حملے کو ناکام و نامراد کر دے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بھی بعض دعائیں سکھائی ہیں ان کو بھی پڑھنا چاہئے اور سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآنی دعاؤں کے بارے میں ہماری یہ بھی رہنمائی فرمائی اور یہ نکتہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو دعائیں سکھائی ہیں وہ بتائی ہی اس لئے گئی ہیں کہ ایک مومن خالص ہو کر جب یہ دعائیں مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ پس بلاؤں کے دُور ہونے اور شرور سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں ان قرآنی دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے۔ قرآن کریم نے ایک دعا ہمیں سکھائی جو ہم عموماً نماز میں بھی پڑھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کو بہت زیادہ پڑھنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ دعا یہ ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202) کہ اے اللہ ہمیں اس دنیا کی حسنات سے بھی نواز اور آخرت کی حسنات سے بھی نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلا وغیرہ اسے پیش آتے ہیں اُن سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اُسے خدا سے دُور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے۔‘‘ فرمایا کہ ’’دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی دونو طور پر یہ ہر ایک بَلا اور گندی زندگی اور ذلّت سے محفوظ رہے۔‘‘ فرمایا ’’…اور فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً میں جو آخرت کا پہلو ہے وہ بھی دنیا کے حسنہ کا ثمرہ ہے‘‘ (اس کا پھل ہے۔ اس کے نتیجہ میں ملتا ہے) ’’اگر دنیا کا حسنہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ 303,302۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آگ کے عذاب سے بچانے کے بارے میں فرمایا کہ اس سے ’’مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی … دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہے۔‘‘ اور اس کے بارے میں پھر آپ نے فرمایا کہ اس میں طرح طرح کی پریشانیاں ہیں۔ خوف ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ معاملات ہیں۔ امراض وغیرہ ہیں۔ سب یہ چیزیں شامل ہیں۔ فرمایا کہ ’’مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ190۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر حالات خراب ہوں، ابتلا ہوں بعض دفعہ انسان ثابت قدم نہیں رہتا تو دشمن کے خلاف ثباتِ قدم کی یہ دعا ہمیں سکھائی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کی دعا سکھائی۔
ایک دعا یہ ہے کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (آل عمران: 148) کہ اے ہمارے رب! ہمارے قصور اور کوتاہیاں اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں معاف فرما دے اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کافروں کے خلاف ہماری مدد کر۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’پس ظاہر ہے کہ اگر خدا گناہ بخشنے والا نہ ہوتا تو ایسی دعا ہرگز نہ سکھاتا۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 25)
پھر قرآن کریم کی ایک دعا ہے۔ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص: 25) کہ اے میرے ربّ اپنی خیر سے، اپنی بھلائی سے جو کچھ بھی تو مجھ پر نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں۔ یہ دعا بھی کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں اور بھی بہت ساری دعائیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے پڑھتے رہنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان دعاؤں کا ذکر فرمایا ہے اور یہ اس لئے فرمایا ہے کہ انسان خالص ہو کر اس سے مانگے تو اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں ہیں۔ ایک دعا کے بارے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے آپ فرماتے ہیں کہ یہ مجھ پر القاء ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ دعا سکھائی ہے اور وہ یہ ہے کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ فرمایا کہ ’’میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اُسے نجات ہو گی۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 264۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ جماعت کو مجموعی طور پر بھی اور افراد جماعت کو انفرادی طور پر بھی ہر شر سے بچائے اور مخالفین کے شر اُن پر الٹائے۔ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ بھی دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی آواز کو سنیں اور اُمّتِ واحدہ بن کر اسلام کی پُر امن اور خوبصورت تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے والے اور پھیلانے والے ہوں۔
نماز کے بعد مَیں تین جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ مکرم ایون ورنان (Evan Vernon) صاحب کا ہے۔ Belizeکے رہنے والے ہیں۔ گزشتہ دنوں 49سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ Belizeجماعت کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور اس وقت سیکرٹری تبلیغ کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ 2014ء میں جلسہ سالانہ یوکے میں بھی شامل ہوئے۔ بڑے فدائی اور مخلص احمدی اور ایک جوش رکھنے والے احمدی تھے اور باوجود اس کے کہ تھوڑا عرصہ پہلے ہی احمدی ہوئے تھے لیکن جماعت کے ساتھ ایسا اخلاص اور ایسی وفا اور ایسا تعلق تھا کہ بہت سے شاید پرانے احمدیوں میں بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ایسے اور بھی فدائی ہمیشہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہے۔
دوسرا جنازہ سیدنادر سیدین کا ہے جو ربوہ میں ہمارے ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس کے انچارج تھے۔ سید غلام سیدین کے بیٹے تھے۔ ان کی 23؍جولائی 2016ء کو پمز ہسپتال اسلام آباد میں 55سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ دل کو خون مہیا کرنے والی آرٹریوں میں clotکی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔ ان کی دادی نے 1905ء میں کوہاٹ سے خط لکھ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی لیکن ان کے باقی لوگ احمدی نہیں ہوئے تھے۔ سیدنادر سیدین نے 1982ء میں خود تحقیق کر کے بیعت کی۔ کراچی سے پھر انہوں نے بی۔ ایس۔ سی کی۔ اس کے بعد یہ وہیں کراچی میں ہی رہے اور 1989ء میں یہ کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوگئے۔ مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کی سطح پر ان کو بہت سارے شعبہ جات میں خدمت سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ معتمد ضلع رہے۔ خدمت خلق کے شعبہ میں رہے۔ مختلف جگہوں پر ان کو میڈیکل کیمپ لگانے کی توفیق ملی۔ انچارج رائٹر فورم مجلس خدام الاحمدیہ ضلع اسلام آباد کے طور پر خدمات کی توفیق ملی۔ 1999ء میں اسلام آباد سے ربوہ شفٹ ہو گئے اور پھر انہوں نے 2000ء میں اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ مجلس خدام الاحمدیہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس کا جو شعبہ ہے اس کے یہ انچارج رہے۔ اسی طرح سپورٹ کمپلیکس (Sport Complex) کے بھی انچارج رہے۔ جوڈو کراٹے کے اور مارشل آرٹ کے بڑے ماہر تھے اور بین الاقوامی سطح کے مشہور مارشل آرٹس کے ماہر تھے اور پاکستان کی نمائندگی دوسرے ملکوں میں کرتے رہے۔ انہوں نے ربوہ میں بھی خدام کو اور بچوں کو مارشل آرٹس کی ٹریننگ دی۔ خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ بڑے اخلاص و وفا سے خدمت کرنے والے تھے اور بڑے سادہ مزاج تھے۔ اور ہمیشہ یہ خوبی ان کی تھی کہ ان کا چہرہ مسکراتا رہتا تھا۔ کتنی بھی طبیعت خراب ہو، کیسی بھی مشکلات ہوں ہمیشہ یہ خوش رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے وہاں بھی ایسا سلوک کرے جو ان کے لئے بھی خوشی کا باعث ہو اور ان کی نسلوں کے لئے بھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور وہاں ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی ہے۔ اہلیہ کے علاوہ ان کے والدین بھی حیات ہیں اور تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا مدرسۃ الحفظ میں قرآن بھی حفظ کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
تیسرا جنازہ مکرم نذیر احمد ایاز صاحب کا ہے جو صدر جماعت نیویارک امریکہ تھے۔ 3؍جولائی 2016ء کو 69سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 23؍مئی 1947ء میں یہ تنزانیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1977ء میں نیو یارک پہنچے اور جماعتی کاموں میں حصہ لینے لگے۔ پہلے بطور سیکرٹری مال، پھر 35سال تک نیو یارک جماعت کے صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ نیو یارک کے مختلف نماز سینٹروں میں ہر مہینے ایک دفعہ مبلغ سلسلہ کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ مالی قربانی اور ہر تحریک میں حصہ لینے کی کوشش کرتے۔ افراد جماعت کو باقاعدگی کے ساتھ بذریعہ ای میل اور خطوط قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے۔ جماعتی خدمات بڑی خوشی سے اور ذمہ داری سے ادا کرتے۔ نوجوانوں کو ٹریننگ بھی دیتے۔ عموماً بعض دفعہ ہوتا ہے کہ جو افسران ہیں وہ دوسری لائن تیار نہیں کرتے لیکن ان میں خوبی تھی کہ نوجوانوں کو ٹریننگ دے کر یہ ان کو بھی تیار کر رہے تھے تا کہ وہ جماعت کی خدمت میں آگے آنے والے ہوں اور وہاں مسجد میں یا سینٹر میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لانے کے لئے انہوں نے کھیلوں وغیرہ کا بھی انتظام کیا ہوا تھا یا پھر اور پروگرام ہوں جس سے آجکل کے نوجوانوں کی توجہ رہے تاکہ ضائع ہونے سے بچیں۔ تعلیمی کلاس مرد و خواتین کی ہر ہفتہ یا اتوار کو بلاناغہ منعقد کرتے تھے جو اَب طاہر اکیڈمی کے نام سے وہاں جاری ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ نیویارک کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ اس میں بھی انہوں نے بڑا کام کیا۔ اور ہر کام کر لیتے تھے۔ باوجود صدر ہونے کے اگر سینٹر میں صفائی کی ضرورت ہوتی تو خود ہی صفائی کرتے اور کوڑا اٹھا کر باہر پھینکتے۔ نمازوں کے پابند تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ وہیں مقبرہ موصیان میں ان کی تدفین ہوئی ہے۔ ان کی اہلیہ اور ایک اکلوتی بیٹی ہے اسماء ایاز۔ اللہ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بھی ایک دفعہ ان کو کہا تھا کہ آپ امریکہ کی جماعتوں میں ایک مثالی صدر ہیں اور میری دعا ہے کہ ہمیشہ رہیں۔ اللہ کرے کہ اور بھی ایسے پیدا ہوتے رہیں۔ 35سال تک ان کو جماعت کے صدر اور مخلص صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔
امیر صاحب امریکہ اور نائب امیر امریکہ نے بھی لکھا کہ بڑی انکساری سے خدمت کرنے والے تھے اور انتظامی کاموں میں دوسروں سے بڑھ کر شامل ہوتے اور صرف افسر بن کر نہیں رہے بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر ایک کارکن کی طرح بھی کام انجام دیتے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ نماز کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا ان کی نماز جنازہ ادا کروں گا۔
آجکل دنیا کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور بدقسمتی سے اس کی وجہ مسلمانوں کے بعض گروہ بن رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے سربراہ، ان کے کرتے دھرتے بھی نہیں سمجھتے کہ ان کو اسلام مخالفت طاقتیں گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسلام کے نام پر اور جہاد کے نام پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کا اسلام کی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسی طرح جو حکومتیں اپنے لوگوں پر ظلم ڈھا رہی ہیں ان کا بھی اسلامی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ اسلام جو امن اور انصاف قائم کرنے کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ جو اسلامی حکومتوں کو کہتا ہے کہ امن اور انصاف قائم کرنا اسلامی حکومتوں کا سب سے بڑھ کر فرض ہے، وہی امن اور انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ہر مسلمان ملک میں جو فتنہ و فساد برپا ہے اور مفاد پرست جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ اس لئے ہے کہ حکومتیں بجائے اس کے کہ عوام کی بھلائی اور بہتری کے لئے کام کریں اپنے مفادات کو مقدم رکھے ہوئے ہیں۔ اگر قرآن کریم کی تعلیم پر ہی غور نہیں کرنا، اگر مسلمان بن کرنہیں رہنا تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ سوچ سمجھ کے اپنے قدم اٹھائیں۔ یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کے اختلاف کا یا ان کے ملکوں میں بے چینی اور بدامنی کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔ لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی۔ پس ان مسلمان ممالک کے لئے ان دنوں میں بہت دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔
پھر دہشت گرد تنظیموں نے ان مغربی ممالک میں معصوم جانوں کو قتل کرنے کے انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ عمل کر کے اسلام کو بدنام کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ یہ بھی بعیدنہیں کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اسلام مخالف طاقتیں ہی غیر مسلم ممالک میں ایسی حرکتیں ان لوگوں سے کروا رہی ہوں جس سے اسلام بھی بدنام ہو اور ان کو مدد کے نام پر، دنیا کو دہشت گردی سے بچانے کے نام پر ان ممالک میں اپنے اڈّے قائم کرنے کے لئے ایک وجہ ہاتھ آ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا ہے اور یہ نام ہی دہشتگردی اور جبر و تشدد کو ردّ کرتا ہے اور امن و صلح اور آشتی کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے معنی ہی امن میں رہنا اور امن دینا ہے۔
اگر دنیا کے دل جیتے جا سکتے ہیں، اگر اسلام کو دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے تو اس کی خوبصورت تعلیم سے، نہ کہ شدت پسند لوگوں اور علماء کی خود ساختہ تعلیم سے لیکن یہ راستہ تو وہی دکھا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے۔ انصاف تو وہی قائم کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ حَکَم اور عدل بنا کر بھیجا ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو وہی لاگو کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فائز کیا ہے۔
ہم احمدیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر حملہ جو اسلام کے نام پر یہ بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر ہماری ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ہر ایسی حرکت جس سے اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے اس کے بعد ہم نے دنیا کو بتانا ہے، ہم میں سے ہر ایک نے یہ بتانا ہے کہ میرے مذہب کی بنیاد امن اور سلامتی پر ہے۔ اگر اسلام کے پیروؤں میں سے کوئی ایسی حرکت کرتا ہے جو امن اور سلامتی کو برباد کرنے والی ہے تو یہ اس شخص یا گروہ کا ذاتی اور اپنے مفاد حاصل کرنے والا عمل ہے۔ اسلام کی تعلیم سے اس کا کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
مخالفت کے اس دَور میں جو غیرمسلموں کی طرف سے اسلام کی بھی مخالفت ہے اور مسلمانوں کی طرف سے جماعت کی بھی مخالفت ہے اس میں ہمیں بڑی حکمت اور محنت سے کام کرنا ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انشاء اللہ دنیا میں پھیلنا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ اب احمدیت کے ذریعہ سے ہونی ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے لیکن ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ ترقی کے یہ نظارے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں اور ہماری کمزوریاں اور کوتاہیاں اس ترقی کو ہم سے دُور کرنے والی نہ ہوں۔ پس اپنی پردہ پوشی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ہمیں محنت اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات میں مذکور بعض دعاؤں کے خاص طور پر کرنے کی تاکید۔
مکرم ایوان ورنان صاحب آف Belize، مکرم سیدنادر سیدین صاحب (آف ربوہ) اور مکرم نذیر احمد ایاز صاحب (آف نیو یارک، امریکہ) کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 29؍جولائی 2016ء بمطابق29وفا 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔