جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کی تیاری
خطبہ جمعہ 5؍ اگست 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے دنیا کے مختلف ممالک سے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کو، جلسے پر آنے والے مہمانوں کی چاہے وہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے ہیں یا برطانیہ کے مختلف علاقوں سے آنے والے ہیں، احسن رنگ میں خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لئے برطانیہ کے طول و عرض سے بوڑھے، نوجوان، بچے، عورتیں اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں اور جوں جوں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جلسے کے انتظامات بڑھ رہے ہیں، خدمتگاروں کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی دقّت کے اور خوشی سے بچے بھی، نوجوان بھی، عورتیں بھی، مرد بھی اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں اور اکثریت نوجوانوں اور بچوں کی بھی یہ خدمت سرانجام دے کر سمجھ رہی ہوتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں یہ افراد جماعت کا مزاج بن چکا ہے کہ جماعت کے ہر طبقے اور ہر عمر کے افرادنے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے۔
گزشتہ ہفتے جمعہ سے اتوار تک جماعت احمدیہ امریکہ کا جلسہ تھا وہاں پر بھی ان کے پروگرام جو انٹرنیٹ پر آتے تھے، یُوٹیوب پر تھے اس میں مَیں نے ایک انٹرویو دیکھا۔ انٹرویو لینے والے نے خدام الاحمدیہ کے عہدیدار سے انٹرویو لیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح جلسہ سالانہ کی تیاری کے لئے خدّام نے اور رضاکاروں نے کام کیا۔ اسی طرح اس میں ایک انیس بیس سال کے لڑکے کا بھی انٹرویو تھا جو وہیں کا پلا بڑھا، وہیں کا پیدا ہوا تھا۔ اس سے سوال پوچھا گیا کہ یہ سارا کام تم نے کیا ہے اس کے بدلے میں تمہیں کیا ملتا ہے؟ کتنی رقم ملے گی؟ کتنے ڈالر ملیں گے؟یہ اکثر سے سوال کیا گیا تھا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ امریکہ میں پلا بڑھا ہے اور اس ملک میں دنیاداری کی سوچ ہے تو انہوں نے یہی جواب دیا اور اس نوجوان کا بھی یہی جواب تھا کہ ہم تو رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں جو مزدوری ہمیں ملتی ہے دنیاداروں کی سوچ سے وہ بالا ہے ہم تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور یہ وہ مزاج ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں رہنے والے احمدی کا ہے۔ چاہے وہ افریقن ہے یا انڈونیشین ہے یا جزائر کا رہنے والا ہے یا مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کا رہنے والا ہے۔ جب دنیا کی ترجیحات سکولوں کالجوں میں چھٹیوں کے دوران کھیلنا کودنا اور سیریں کرنا ہے، جب دنیاوی نوکریاں کرنے والوں کی ترجیحات نوکریوں سے رخصت ملنے پر آرام کرنا اور خاندان کے ساتھ رخصتیں گزارنا ہے، اس وقت ایک احمدی کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اگر ان رخصتوں میں جلسہ سالانہ آ رہا ہے تو ان دنوں میں پڑھے لکھے بھی اور اَن پڑھ بھی، افسر بھی اور ماتحت بھی، پیشہ ور ماہرین بھی اور عام مزدور بھی اور طالبعلم بھی اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ باقی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو جلسے بڑے بڑے ہالوں میں یا ایسی جگہ پر ہوتے ہیں جہاں بہت سی سہولتیں میسر ہیں لیکن برطانیہ کا جلسہ تو ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں ہر انتظام عارضی طور پر کرنا ہے اور ہر ممکنہ سہولت جو کہیں بھی میسر آ سکتی ہے یا جو بھی دی جا سکتی ہے اسے مہیا بھی کرنا ہے۔ اور پھر کونسل کی طرف سے یہ شرط بھی ہے کہ کام شروع کرنے کی ابتدا سے لے کر جلسہ کے بعد ہر چیز کو سمیٹنے اور اس جگہ کو پہلی جیسی زرعی زمین یا فارم لینڈ بھی بنانا ہے اور یہ سب کام اٹھائیس دن کے اندر اندر کرنا ہے۔ تو اس لحاظ سے ایک محدود وقت میں بہت بڑے وسیع کام کو کرنے کے لئے بہت زیادہ رضاکاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام کو شروع کرنے سے ختم کرنے کا عرصہ ایک طرف تو کام کی نوعیت کے لحاظ سے بہت تھوڑا سا وقت ہے لیکن والنٹیئرز کے کام کرنے کے لحاظ سے اٹھائیس دن بلکہ بعض کام ایسے ہیں جو اس سے پہلے بھی شروع ہو جاتے ہیں جو براہ راست جلسہ گاہ میں نہیں ہو رہے ہوتے لیکن ان کی تیاری کے لئے اس سے بھی دو تین ہفتے پہلے رضاکار کام شروع کر دیتے ہیں۔ گویا یہاں کے کارکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے وقت اور مال کی قربانی تقریباً ڈیڑھ دو مہینے تک کرتے رہتے ہیں اور یہ عرصہ ایک انسان کے کام کرنے کے لئے، رضا کارانہ طور پر کام کرنے کیلئے بہت بڑا عرصہ ہے۔ پس اس لحاظ سے تو برطانیہ کے جلسہ کے رضاکاروں کو جلسہ کے کام کے لئے قربانی اور جلسے کی ڈیوٹی کی اہمیت کا پتا ہے۔ سالہا سال سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں لیکن پھر بھی ایسے بہت سے کارکنان ہوتے ہیں جو نئے شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض کا جلسہ کے دنوں میں براہ راست مہمانوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ بعض کی جلسے کے دنوں میں شروع ہو گی۔ بعض کی آج کل سے شروع ہو چکی ہے جبکہ مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں۔ تو ان سب کو یاددہانی کے طور پر اس وقت مَیں حسب دستور مختصراً کچھ کہوں گا۔
بعض دفعہ بعض لوگوں کا جذبہ خدمت بیشک بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن مزاج ہر ایک کا اپنا ہے۔ بعض عدم حوصلہ کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض عدم علم کی وجہ سے بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا ان سے ایسی باتیں سرزد ہو جاتی ہیں جو مہمانوں کیلئے تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں اور یاددہانی کروانے سے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے کارکن ہوشیار بھی ہو جاتے ہیں اور زیادہ توجہ سے اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ مجھے تو اس بات میں معمولی سا بھی تحفظ نہیں ہے کہ کارکن خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر عموماً کام نہیں کرتے۔ یقینا یہ سب کارکن خدمت کے جذبہ سے کام کرنے والے ہیں۔ یاددہانی کروانا اور ہوشیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے میں ہر سال جلسہ سے ایک جمعہ پہلے اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے مہمانوں کے ذکر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر کر کے مہمان نوازی کی اہمیت بتائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف موقعوں پر مہمان نوازی کی اہمیت اور اس وصف کو بیان فرمایا ہے۔ اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف خاص توجہ دلائی ہے بلکہ اپنی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد دین کی خاطر سفر کر کے آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کو بھی قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے‘‘۔ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 14) یعنی بڑھ رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہزاروں کی تعداد میں یہ لوگ آ رہے ہیں۔ قادیان کی چھوٹی سی بستی میں جہاں اس زمانہ میں (ماخوذ از فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 14) کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے بٹالہ سے یا امرتسر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سامان منگوایا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں بعض دفعہ انسان پریشان بھی ہو جاتا ہے کہ ذرائع آمد و رفت بھی نہیں ہیں۔ بعض دفعہ پیدل جانا ہوتا تھا۔ عموماً ٹانگے پہ، یکّہ پہ، جاتے تھے۔ ایسے حالات میں ایک دور دراز علاقے میں مہمان نوازی کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل کو مضبوط کرنے کے لئے آپ کو پہلے سے ہی فرما دیا تھا۔ عربی کا الہام ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے سو تیرے پر واجب ہے کہ تُو ان سے بدخلقی نہ کرے اور تجھے لازم ہے کہ ان کی کثرت دیکھ کر تھک نہ جائے۔ (ماخوذ از لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 242)
آج دنیا کے کونے کونے میں جلسوں کے انعقاد یہ نظارہ دکھاتے ہیں کہ لوگ کثرت سے آتے ہیں اور روحانی اور جسمانی مائدہ حاصل کرتے ہیں اور یہاں برطانیہ میں خلیفہ وقت کی موجودگی کی وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے مہمان آتے ہیں اور صرف اس لئے کہ علم دین حاصل کریں اور اپنی روحانی پیاس بجھائیں۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق بے لوث اور بے غرض اور بغیر تھکے اور بغیر ماتھے پر بل لائے ان مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں اور یہی ہمارا فرض ہے کہ ان مہمانوں کی خدمت کریں اور جلسہ کے انتظامات کو احسن رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں۔ جلسے پر غیر احمدی اور غیر مسلم بھی آتے ہیں اور ہمیشہ کارکنوں کے کام سے متاثر ہوتے ہیں اور اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے بچے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ اپنے ذمہ لگائی گئی ڈیوٹی کو سرانجام دے رہے ہیں اور بڑی ذمہ داری سے سرانجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال ایک مہمان یوگنڈا سے آئے ہوئے تھے۔ وہاں کے وزیر بھی ہیں۔ کہنے لگے کہ میں مہمان نوازی اور انتظامات کو دیکھ کر حیران ہوا کہ کس طرح لوگ رضا کارانہ طور پر اتنی قربانی کر رہے ہیں۔ کہنے لگے میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ میں ایک ایسے جلسے میں شامل ہونے جا رہا ہوں جہاں انسان نہیں بلکہ فرشتے کام کرتے نظر آئیں گے۔ کہتے ہیں کہ بیس دفعہ بھی کوئی چیز مانگو تو ہنستے ہوئے پیش کرتے تھے۔ بہت سے اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ بچے کھانے کی ڈیوٹی پر کھانا کھلا رہے ہوتے تو انتہائی بشاش چہرے کے ساتھ۔ اگر جلسے کی مارکی میں پانی پلا رہے ہوتے تو انتہائی کِھلے ہوئے چہرے کے ساتھ۔ بار بار ضرورت کا پوچھتے، پانی کا پوچھتے اور یہ صرف خاص مہمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر مہمان کے لئے کارکنوں کا یہ سلوک تھا اور یہی وہ وصف ہے خدمت کے جذبے کا جو صرف جماعت احمدیہ کے ہر کارکن کا خاصّہ ہے اور ہونا چاہئے۔ پس اس خاص وصف کو ہر کارکن نے ہمیشہ زندہ رکھنا ہے چاہے وہ کسی بھی شعبہ میں کام کر رہا ہو۔
ہمارے جلسے کے مہمان جب آتے ہیں تو ان کا واسطہ مختلف شعبوں سے پڑتا ہے۔ آتے ہی ان کو شعبہ استقبال سے واسطہ پڑتا ہے۔ شعبہ استقبال عموماً مہمانوں کا بڑی اچھی طرح استقبال کرتا ہے۔ مہمان جب سفر کر کے آتا ہے تو اس کو تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ سفر میں چاہے جتنی بھی سہولتیں میسر ہوں اِس زمانے میں بھی سفر کی کوفت اور تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اس لئے شعبہ استقبال کو اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
ایئر پورٹ پر تو مہمانوں کے استقبال کا شعبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور عموماً اچھا انتظام ہوتا ہے لیکن بعض ہمسایہ ممالک سے جو مہمان سفر کر کے آتے ہیں وہ بذریعہ کار آتے ہیں یا بذریعہ بس کئی گھنٹے کا سفر کر کے آ رہے ہوتے ہیں۔ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ اس لئے اگر یہ آنے والے جماعتی قیامگاہوں میں ٹھہر رہے ہوں تو وہاں کی انتظامیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے بھائی کو مسکرا کر ملو اور یہ صدقہ ہے۔ (سنن الترمذی، ابواب البر و الصلۃ، باب ما جاء فی طلاقۃ الوجہ …حدیث 1970) پھر ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ معمولی سی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ…، باب استحباب طلاقۃ الوجہ …حدیث 2626) دیکھیں اسلام کی تعلیم کیسی خوبصورت تعلیم ہے۔ اکرام ضیف کا تو ویسے بھی حکم ہے۔ ایک ایسا حکم ہے جس کا ثواب ہے۔ پھر یہ مہمان نوازی کرنا کہ آنے والے سے صرف مسکرا کر بات کر لینا یہ صدقہ دئیے جانے جیسے فعل کے برابر ہے اور اس کو صدقے کے فعل کے برابر قرار دے کر دوہرے ثواب کا بھی مورد بنا دیا۔ ایک مہمان نوازی کا ثواب، ایک خوش اخلاقی سے پیش آ کر صدقہ کا ثواب۔ پیار سے بات کرنا، خوش خلقی سے بات کرنا نیکی شمار ہو جاتا ہے اور نیکی کا اجر اللہ تعالیٰ نے کتنا دینا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
پھر راستہ دکھانا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد و السیر، باب فضل من حمل متاع… حدیث 2891) جو شعبہ اس کام کے لئے مقرر ہے اس کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ سفر کر کے آئے مسافر سے ایک تو خوش اخلاقی سے ملیں پھر معاونین کے ذریعہ انہیں ان کی رہائش کی جگہوں پر پہنچائیں۔ خاص طور پر جب عورتیں اور بچے ہوتے ہیں یعنی صرف عورتیں ہوں اور مرد اُن کے ساتھ نہ ہوں، بچے اُن کے ساتھ ہوں تو انہیں قیامگاہوں تک پہنچانا شعبہ استقبال کا یا جو بھی متعلقہ شعبہ ہے اس کا کام ہے اور یہ بڑی ضروری چیز ہے۔ بعض دفعہ سامان وغیرہ اٹھانے کے لئے ضرورت پڑ جاتی ہے اس کی مدد کرنی چاہئے۔ اسی طرح مسکرا کر اور خوش اخلاقی سے بات کرنا صرف استقبال کا نہیں بلکہ ہر شعبہ میں کام کرنے والے کارکن کے لئے ضروری ہے۔
آجکل حالات کی وجہ سے ایمز (AIMS) کارڈ رکھنا ضروری ہے۔ بعض باہر سے آنے والے تعارفی خط اور معلومات لے کر آتے ہیں اور پھر ان کے جلسے کے کارڈز یہاں بنا دئیے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے بھی معاملات آ جاتے ہیں کہ تصدیقی خط نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں بیشک تسلی کرنا تو بہت ضروری ہے۔ جب تک تسلی نہ ہو کارڈ نہیں بنایا جا سکتا اور تصدیق کی کارروائی ہونی چاہئے۔ لیکن اس عرصہ میں آنے والے سے خوش خلقی سے پیش آنا، اس کے انتظار کے لئے بیٹھنے کا مناسب انتظام ہونا، یہ بھی بڑا ضروری ہے۔ بعض دفعہ چھوٹے بچے ساتھ ہوتے ہیں جو لمبے انتظار کی وجہ سے بے چین ہو رہے ہوتے ہیں۔ اوّل تو تمام آنے والے مہمانوں کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جب وہ جلسے پر آئیں تو جماعتی تصدیق کے ساتھ آنا چاہئے یا اپنے ایمز (AIMS) کارڈ لے کر آنا چاہئے اور اگر کسی وجہ سے یہ رہ گیا ہو تو جیسا کہ میں نے کہا متعلقہ شعبہ کارروائی کے دوران انہیں سہولت میسر کرے کہ وہ آرام سے بیٹھ سکیں۔ پھر کھانے کی مہمان نوازی کا تعلق ہے اس میں جو جماعتی رہائشگاہوں میں ٹھہرے ہوئے مہمان ہیں ان کو دو وقت یا تین وقت جو کھانا کھاتے ہیں اس کی مہمان نوازی ضروری ہے۔ لیکن جلسے کے تین دنوں میں ہر شامل ہونے والا مہمان جو ہے عموماً جو جلسہ سننے کے لئے آتا ہے کم از کم دوپہر کا کھانا جماعتی انتظام کے تحت کھاتا ہے۔ اس میں کھانا کھلانے والے افسران اور معاونین اس بات کا خیال رکھیں کہ مہمان سے خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے۔ خوش اخلاقی سے پیش آنا مہمان کا حق ہے اور میزبان کا فرض ہے۔ بعض لوگ کھانے کے معاملے میں کارکنوں کو تکلیف میں ڈالتے ہیں۔ مختلف قسم کے سوال کرتے ہیں یا مطالبات کر رہے ہوتے ہیں یہ چاہئے، وہ چاہئے۔ لیکن کارکنوں کو پھر بھی برداشت کرنا چاہئے۔ کھانا ایک ایسی چیز ہے جس میں کھانا کھلانے والے کا نامناسب رویہ یا معمولی سا بھی غیر ضروری تبصرہ یا کوئی بات کہہ دینا مہمان کے جذبات کو چوٹ لگاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تو مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے وقت ایسے نمونے دکھاتے تھے جو ہمیشہ سنہری حروف میں لکھے جائیں گے۔ جب ایک صحابی کو مہمان کو اپنے ساتھ لے جانے اور کھانا کھلانے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ آپ کے حکم پر اس مہمان کو اپنے گھر تو لے گئے لیکن بیوی نے کہا کہ گھر میں تو تھوڑا سا کھانا ہے جو بچوں کے لئے ہے۔ دونوں میاں بیوی نے مشورہ کیا کہ بچوں کو کسی طرح سلا دو اور پھر جب مہمان کے سامنے کھانا پیش ہو تو دیوا یا روشنی جو ہے وہ بھی بجھا دو اور خود گھر والے اس طرح اندھیرے میں اظہار کریں جیسے وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں تا کہ مہمان آرام سے کھانا کھاتا رہے اور اسے یہ احساس نہ ہو کہ گھر والے کھانا نہیں کھا رہے۔ بہرحال اس ترکیب سے مہمان کو پتا نہ چلا اور گھر والوں نے اس طرح مہمان نوازی کی اور مہمان نے بڑے آرام سے کھانا کھایا۔ صبح جب وہ انصاری صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری رات والے عمل اور ترکیب سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنس دیا۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار، باب قول اللہ تعالیٰ عز وجل: حدیث 3798) تو یہ قربانی اس خاندان نیخاص طور پر اس لئے دی کہ مہمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان تھا۔ عمومی طور پر تو صحابہ مہمانوں کی خاطر داری کیا کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ یہ خاص سلوک اس وجہ سے بھی ہوا۔
آج ہمارا ہر کارکن یہ قربانی اس لئے دیتا ہے اور اسے اس جذبے کے تحت یہ قربانی دینی چاہئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے مہمانوں کی خدمت کر رہا ہے گو کہ یہ بھوک کی قربانی اور اپنا کھانا مہمان کو کھلانے کی قربانی حتی کہ بچوں کو بھوکا سلا دینے کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے اور آجکل تو یہ نہیں دینی پڑتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دنیا میں اب ہر جگہ جہاں جماعتیں مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں لنگر چل رہے ہیں اور خاص طور پر جلسے کے دنوں میں تو اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ہم نے تو صرف اتنی خدمت کرنی ہے کہ لنگر سے کھانا لے کر مہمان کے سامنے پیش کر دینا ہے اور مہمان سے خوش خلقی سے پیش آنا ہے اور اس بات پر اللہ تعالیٰ خوش ہو جاتا ہے کہ اس نے جلسے پر آنے والے، دین کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمانوں کی خدمت کی۔ اور اگر صحیح طور پر مہمان نوازی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
ایک موقع پر بعض مہمانوں سے غیر معمولی سلوک کیا گیا اور بعضوں کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ سب کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جو بھی انتظام تھا، ضیافت کے کارکن تھے انہوں نے کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رات کو خبر دی کہ رات ریا کیا گیا ہے، بناوٹ کی گئی ہے اور صحیح طرح مہمانوں کی خدمت نہیں کی گئی۔ بعض مسکین کھانے سے محروم رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات پر بڑے ناراض ہوئے اور پھر انتظام اپنے ہاتھ میں لیا۔ بلکہ یہ بھی روایت میں ہے کہ ان کارکنوں کو چھ مہینے کے لئے قادیان سے ہی نکال دیا۔ (تذکرۃ صفحہ 689، ایڈیشن چہارم 2004ء) پس جب خدمت کے لئے اپنے آپ کو ہم پیش کرتے ہیں تو پھر بغیر کسی تخصیص کے ہر ایک کی خدمت کرنی چاہئے۔ ہر جلسے پر آنے والا مہمان جلسے کا مہمان ہے۔ ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا ہر ایک سے خوش خلقی سے پیش آنا یہ ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ فلاں امیر ہے یا فلاں خاص مہمان ہے اس کو فلاں جگہ کھانا کھلانا ہے اور فلاں کو نہیں۔ جہاں بھی کھانے کا انتظام ہے وہ کھلائیں۔ لیکن عمومی طور پر احمدیوں کو تو ایک جگہ ہی کھانا کھانا چاہئے۔ بعض علیحدہ جگہیں خاص مہمانوں کے لئے بنائی گئی ہیں اور وہ غیر از جماعت یا غیر مسلموں کے لئے بنائی گئی ہیں وہاں صرف انہی کو لے جانا چاہئے۔ اس بات کا بھی انتظامیہ کو خیال رکھنا چاہئے۔ میرے علم میں ہے کہ بعض کارکنان اپنے واقف کاروں کو اس جگہ پر کھانا کھلانے کے لئے لے جاتے ہیں جو صرف مہمانوں کی جگہ ہے۔ اس لئے عام طور پرچاہے وہ احمدی عہدیدار ہے یا کوئی بھی ہے اس کو عام مہمانوں کی جگہ جا کر ہی کھانا کھانا چاہئے۔
پھر ساتھ ہی یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس چھوٹی سی خدمت کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی کر رہے ہیں اسے قبول بھی فرمائے اور ہمارے کام ہر قسم کی ریا سے خالی ہوں اور خالصۃً لِلّٰہ ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت مہمانوں کی بعض دنوں میں اتنی کثرت ہو جاتی تھی کہ رہنے کے لئے انتظام بھی مشکل لگتا تھا کیونکہ قادیان چھوٹی سی جگہ تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق کہ پریشان نہیں ہونا اور تھکنا نہیں، بے تکلفی کے ماحول میں جو بھی سہولت مہمانوں کے لئے میسر ہو سکتی تھی فرمایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی آئے کہ سردیوں میں مہمانوں کی زیادتی کی وجہ سے اپنے اور اپنے بچوں کے گرم بستر آپ نے مہمانوں کو مہیا کر دئیے۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 92-91 روایت نمبر 1118) ایک دفعہ اتنے مہمان آ گئے کہ حضرت امّاں جان حضرت اُمّ المومنین بڑی پریشان تھیں کہ مہمان ٹھہریں گے کہاں اور کس طرح ان کا انتظام ہو گا؟ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں ایک کہانی سنائی کہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی۔ رات اندھیری تھی۔ قریب کوئی بستی نہیں تھی، کوئی جگہ نہیں تھی، کوئی شہر نہیں تھا جہاں جا کے وہ آرام کر سکے تو وہ بیچارہ ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے لئے لیٹ گیا۔ اس درخت کے اوپر پرندوں کا ایک گھونسلا تھا جو نر اور مادہ تھے۔ ان پرندوں نے یہ فیصلہ کیاکہ یہ شخص جو آج ہمارے درخت کے نیچے لیٹا ہے یہ آج ہمارا مہمان ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ اب مہمان نوازی کس طرح کی، انہوں نے فیصلہ کیا، پہلی بات تو یہ سوچی کہ رات ٹھنڈی ہے، ہمارے مہمان کو سردی لگے گی تو اسے آگ سینکنے کے لئے کوئی چیز مہیا کی جائے۔ پھر یہ سوچا کہ ہمارے پاس اور تو کچھ ہے نہیں۔ اپنا گھونسلا توڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں جس کے گھاس پھوس اور لکڑیوں سے مہمان جو ہے آگ جلا کر کچھ آگ سینک لے گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا گھونسلا پھینکا اور اس شخص نے اسے جلایا اور آگ سینکنے لگا۔ پھرپرندوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اور تو ہمارے پاس مہمان کو کھلانے کے لئے کچھ ہے نہیں، ہم خود ہی آگ میں گر جاتے ہیں اور جب آگ میں بُھن جائیں گے تو یہ مہمان ہمیں کھا لے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان کی خوراک کا انتظام کر دیا۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 131-130) تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کہانی سنانے کا مقصد تھا کہ مہمان کے آنے پریشان ہونے کی بجائے جس حد تک انسان کے بس میں ہو قربانی دے کر بھی اس کی مہمان نوازی کرنی چاہئے۔
پس یہ ہم سب کے لئے سبق ہے۔ خاص طور پر وہ جو اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کرتے ہیں کہ اپنے ذمہ ڈیوٹیوں کے حق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں۔ ڈیوٹیوں میں بہت ساری ڈیوٹیاں ہیں۔ مختلف شعبے ہیں۔ مثلاً کار پارکنگ کا بھی ایک شعبہ ہے۔ یہ بھی بہت اہم شعبہ ہے۔ بعض دفعہ مہمان یہاں غلط رویّے بھی دکھا جاتے ہیں اور کارکن کی ہدایت کے مطابق پارکنگ نہ کرنے پر اصرار کرتے ہیں، اپنی مرضی سے پارکنگ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں کارکن کو حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اسے نرمی سے سمجھائے اور پھر اپنے بالا افسر کو اطلاع کرے۔ گزشتہ سال بھی ایسی شکایتیں آئی تھیں کہ کار پر آنے والی بعض خواتین یا چند عورتوں نے کہا کہ ہم کار آگے لے کر جائیں گے۔ وہاں ڈیوٹی والے سے تلخ کلامی ہو گئی۔ بیشک اپنے فرائض کو ادا کرنا ہر کارکن کا فرض ہے اور آجکل کے حالات میں تو بہت زیادہ احتیاط بھی کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر پارکنگ میں بھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ میں نے کہا اخلاق کا مظاہرہ بھی ہونا چاہئے۔ اگر تو کوئی صحیح مطالبہ ہے، کسی کا کوئی بیمار ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو اسے آرام سے سمجھائیں اور بتائیں کہ مَیں اپنے بالا افسر کو بلاتا ہوں تو وہ آپ کے لئے کوئی سہولت مہیا کر دیتا ہے۔ لیکن اتنے عرصے میں آرام سے یہ درخواست بھی کر دیں کہ آپ ایک طرف کھڑے ہو جائیں۔ اور مہمانوں کو اس سے تعاون بھی کرنا چاہئے تا کہ باقی ٹریفک متأثر نہ ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ اس بحث میں اور جھگڑوں میں کاروں کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں اور دوسرے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور پھرجلسے کی کارروائی شروع ہونے کے بعد لوگ جب جلسہ گاہ میں آتے ہیں تو پھر اس سے بیٹھے ہوئے لوگ ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ ہر مسئلہ جو گزشتہ جلسوں میں سامنے آیا ہو انتظامیہ کو چاہئے کہ اس کے حل اور ممکنہ پہلوؤں کا جائزہ لیں اور ہر شعبہ جس کے سامنے یہ مسئلہ ہو اس کو بھی جائزہ لینا چاہئے اور پھر افسر جلسہ سالانہ کو بتانا چاہئے کہ کس طرح اس کا حل ہو سکتا ہے تا کہ اس دفعہ کم سے کم مسائل پیدا ہوں۔ چھوٹے موٹے مسائل تو پیدا ہوتے ہیں لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کم سے کم مسائل پیدا ہوں۔ سکیننگ اور چیکنگ کے لئے بھی تمام احتیاطوں کے ساتھ ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ لمبا عرصہ لوگوں کو انتظار بھی نہ کرنا پڑے اور کسی طرح ان کو تکلیف بھی نہ ہو۔ جو داخلی گیٹ اور جلسہ گاہ کی انٹرنس (entrance) ہے اس میں بار بار یہ اعلان بھی ہوتے رہیں کہ آنے والے اپنے کارڈ بھی سامنے رکھیں اور لائنوں کو بھی قائم رکھیں تا کہ جلد اور تیزی سے لوگ گزر سکیں۔ اس طرح غسل خانوں کی صفائی والے کارکن ہیں، دونوں جگہوں میں مردوں میں بھی عورتوں میں بھی، بعض دفعہ پریشان ہوتے ہیں کہ لوگ بڑا گند ڈال جاتے ہیں۔ اگر معاونین بار بار اعلان کر کے توجہ دلاتے رہیں کہ صفائی کی طرف بھی توجہ دیں کہ پاکیزگی اور نظافت بھی ایمان کا حصہ ہے تو اس لئے اگر مہمان اپنے ماحول کو بھی صاف رکھیں اور غسل خانوں کو بھی صاف کر دیا کریں تو کوئی حرج نہیں۔ عموماً لوگ تعاون کرتے ہیں۔ یہی پچھلے سال بھی رپورٹیں آتی رہی تھیں۔ لیکن اگر کوئی تعاون نہ بھی کرے تو کارکن خود صفائی کر دیں یہی ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی طرف سے کسی طرح بھی بدخُلقی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے اور کبھی بھی انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔
اسی طرح جلسہ گاہ کی عمومی صفائی کارکنوں کا کام ہے کہ اگر کوئی گند جلسے کے علاقے میں دیکھیں، عورتوں کی طرف بھی، مَردوں کی طرف بھی، بچے بعض دفعہ گلاس، ریپر (wraper) وغیرہ پھینک دیتے ہیں ڈبے، وغیرہ پھینک دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ بڑے بھی ایسے ہوتے ہیں جو بے احتیاطی کرتے ہیں تو اگر کارکن بھی اس کی صفائی ساتھ ساتھ کرتے رہیں تو وائنڈ اَپ کرنے والے کارکنوں کو آسانی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ وہاں سے صرف مارکیاں اٹھانا اور باقی جو بڑا بڑا سامان ہے وہ اٹھانا ہی کام نہیں ہوتا بلکہ وہاں سے ہر طرح کے گند کو اٹھانا بھی، ہر کاغذ کو اٹھانا بھی ضروری ہوتا ہے تب کونسل کلیئرنس دیتی ہے۔ بہرحال اس طرف بھی مہمانوں کو آرام سے بار بار توجہ دلاتے رہنا چاہئے کہ ٹِن، ڈبے وغیرہ اِدھر اُدھر ڈالنے کے بجائے ڈسٹ بِن میں پھینکیں۔ جلسہ کا شعبہ تربیت کا شعبہ اس لحاظ سے بھی فعّال ہونا چاہئے کہجلسہ میں شامل ہونے کے لئے جو لوگ آتے ہیں ان کو جلسے کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔ بیشک کارکن جب اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ بے نفس ہو کر کام کرے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً کارکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اس جذبے سے کام کرتے ہیں لیکن بعض غلط رویہ بھی دکھا جاتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے جو مَیں نے پہلے بھی بیان کی کہ ہر حالت میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔
اسی طرح ہر کارکن کو عموماً ہر وقت ہوشیار بھی رہنا چاہئے۔ سیکیورٹی صرف سیکیورٹی والوں کا کام نہیں ہے بلکہ ہر شعبے کا ہر کارکن اپنے اپنے ماحول میں نظر رکھنے والا ہونا چاہئے۔
کارکنوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد صرف وائنڈ اَپ کے کارکن ہی وہاں موجودنہ ہوں بلکہ ہر کارکن کو اس وقت تک جلسہ گاہ میں رہنا چاہئے، جس کی بھی وہاں ڈیوٹی ہے، جب تک کہ کوئی بھی مہمان وہاں موجود ہے یا جب تک ان کے متعلقہ افسر اُن کو رخصت نہیں دے دیتے کہ اب آپ فارغ ہیں چلے جائیں۔ سب سے بڑھ کر کارکنوں کو بھی اور عمومی طور پر تمام افراد جماعت کو بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو احسن رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تمام کارکن جو اِس وقت وہاں جلسہ گاہ میں کام کر رہے ہیں ان کو ہر طرح سے محفوظ رکھے۔ بعض دفعہ بڑے بھاری بھاری کام کرنے پڑتے ہیں اور بعض دفعہ چوٹ وغیرہ لگنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہر ایک کو محفوظ بھی رکھے۔
اللہ تعالیٰ جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت اور کامیاب بھی فرمائے۔ کسی بھی مخالف اور بدفطرت کے شر سے اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر طرح محفوظ رکھے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر کارکن کو توفیق دے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسہ پر آئے ہوئے مہمانوں کی احسن رنگ میں خدمت سرانجام دیتے رہیں اور خوش خُلقی سے خدمت سرانجام دیتے رہیں۔ کارکنان جو خدمت کے اعلیٰ معیار حاصل کئے ہوئے ہیں، جن معیاروں پر وہ پہنچے ہوئے ہیں اس سے بلند معیار ہر دفعہ پیش کرنے والے ہوں اور اِس دفعہ بھی پہلے سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہوں۔ اس میں کبھی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارا ہر قدم جو ہے آگے بڑھنے والا ہونا چاہئے اور جب ایسی خدمت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ پھر پیار کی نظر بھی ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں یہ افراد جماعت کا مزاج بن چکا ہے کہ جماعت کے ہر طبقے اور ہر عمر کے افرادنے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے۔
آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق بے لوث اور بے غرض اور بغیر تھکے اور بغیر ماتھے پر بل لائے ان مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں اور یہی ہمارا فرض ہے کہ ان مہمانوں کی خدمت کریں اور جلسہ کے انتظامات کو احسن رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں۔ خوش اخلاقی سے پیش آنا مہمان کا حق ہے اور میزبان کا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دنیا میں اب ہر جگہ جہاں جماعتیں مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں لنگر چل رہے ہیں اور خاص طور پر جلسے کے دنوں میں تو اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔
جب خدمت کے لئے اپنے آپ کو ہم پیش کرتے ہیں تو پھر بغیر کسی تخصیص کے ہر ایک کی خدمت کرنی چاہئے۔ ہر جلسے پر آنے والا مہمان جلسے کا مہمان ہے۔ ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا ہر ایک سے خوش خلقی سے پیش آنا یہ ضروری ہے۔
ساتھ ہی یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس چھوٹی سی خدمت کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی کر رہے ہیں اسے قبول بھی فرمائے اور ہمارے کام ہر قسم کی ریا سے خالی ہوں اور خالصۃً لِلّٰہ ہوں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کی مہمان نوازی کے معیار کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے میزبانوں اور جلسہ سالانہ کی انتظامیہ اور رضاکاران کو نہایت اہم تاکیدی نصائح۔
فرمودہ مورخہ 05؍اگست 2016ء بمطابق05ظہور 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔