جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ کا تجزیہ
خطبہ جمعہ 19؍ اگست 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ہفتے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا اور باوجود کئی تحفظات کے جن میں سے سب سے زیادہ فکر دنیا کے حالات کی وجہ سے پُرامن طور پر جلسہ کے انعقاد کی تھی، نہایت احسن رنگ میں تین دن گزرے اور جلسے کا اختتام ہوا۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو آئندہ بھی ہر قسم کی پریشانیوں اور شرور سے محفوظ رکھے۔
جلسہ کا جو روحانی ماحول تھا جس کا اپنوں اور غیروں سب نے اظہار کیا، جو کیفیت سب نے اپنے اندر محسوس کی اللہ تعالیٰ کرے کہ اس کے اثرات ہمیشہ قائم رہیں اور ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے اِس عَہد کے ساتھ جھکے رہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد ہم نے کیا ہے اور جن باتوں نے ہم پر اثر کیا ہے ان کو ہمیشہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
ہمیں ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے اللہ! تیرے افضال کی جو بارش ہم پر ہو رہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی خوشخبریوں کو جس طرح تُو پورا فرما رہا ہے وہ ہماری کسی غلطی، کسی نالائقی، کسی نااہلی کی وجہ سے ہماری زندگیوں کا حصہ بننے سے ہمیں محروم نہ کر دے۔ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! نیکیوں کے کرنے کی طاقت بھی تجھ سے ملتی ہے اور ان پر قائم رہنے کی طاقت بھی تجھ سے ہی ملتی ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر غلبہ بھی تیرے فضل سے ہی پا سکتے ہیں۔ ہماری معمولی کوششوں میں بھی ہمیشہ برکت ہی ڈالتا رہ اور ہمیں ہمیشہ اُن بندوں میں شمار رکھ جو تیرے ساتھ ہمیشہ چمٹے رہنے والے اور تیرے شکر گزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے مورد بنتے رہیں کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراھیم: 8)۔ کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو مَیں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا، تمہیں مزید دوں گا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسے کے کام جلسے سے پہلے شروع ہو جاتے ہیں اور ان کو کرنے کے لئے خدّام، اطفال، انصار، وقار عمل کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور جلسے سے دو تین ہفتے پہلے یہ کام شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی گزشتہ خطبوں میں ذکر کر چکا ہوں اور تقریباً دو ہفتہ بعد تک یہ سلسلہ سارے کام اور سامان کو سمیٹنے کی وجہ سے جاری رہتا ہے اور بڑی محنت اور اخلاص سے لوگ وقار عمل کرتے ہیں اور پھر جلسے کی ڈیوٹیاں بھی دیتے ہیں۔ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے ایک طرح سے انٹرنیشنل جلسہ ہی ہو گیا ہے۔ تمام دنیا کے نمائندے یہاں آتے ہیں لیکن اس دفعہ اس جلسہ کے انتظامات یا رضا کاروں کے لحاظ سے بھی اس کی بین الاقوامی حیثیت ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال بھی کینیڈا سے خدّام وقار عمل کے لئے آئے تھے لیکن تھوڑی تعداد میں اور صحیح طرح اُن سے کام بھی نہیں لیا جا سکا یا وقت کے محدود ہونے کی وجہ سے وہ صحیح طرح خدمت سرانجام نہیں دے سکے۔ اس سال نہ صرف یہ کہ بہتر منصوبہ بندی ہے اور میری اطلاعات کے مطابق اس منصوبہ بندی کی وجہ سے بہت بہتر کام ہوا ہے بلکہ تعداد بھی اس سے بہت زیادہ ہے جو گزشتہ سال تھی۔ اور پھر اس سال امریکہ سے بھی خدام وقار عمل کے لئے آئے۔ تو اس لحاظ سے اب یہ کام، وقار عمل بھی بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کارکن دنیا کے مختلف ممالک سے آتے ہیں۔ امریکہ کے اکثر خدام نے جلسہ سے پہلے کام کیا اور کینیڈا کے 150سے زائد خدام نے جلسہ کے بعد کے وائنڈ اَپ میں کام کیا۔ یوکے (UK) کے صدر خدام الاحمدیہ نے مجھے بتایا کہ ان باہر سے آنے والے خدام نے نہ صرف بڑی محنت سے کام کیا ہے بلکہ بڑی منصوبہ بندی اور بڑے جذبہ سے کام کیا ہے اور بڑی جلدی اس کام کو نپٹا بھی دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ یوکے (UK) کے خدام و اطفال جو وقار عمل کرتے رہے اور ڈیوٹیاں دیتے رہے وہ بھی یقینا ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے بھی بہت محنت سے کام کیا اور ہمیشہ کرتے ہیں۔ یوکے کے اطفال اور خدام جو ڈیوٹیاں دیتے ہیں ان کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور جلسہ میں شامل ہونے والوں کو چاہئے کہ جہاں وہ یوکے والوں کا شکریہ ادا کریں، ان کارکنوں کا، اطفال و خدام کا شکریہ ادا کریں وہاں کینیڈا سے اور امریکہ سے آنے والے خدام کا بھی ان کو شکرگزار ہونا چاہئے اور سب سے بڑھ کر تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمیں یورپ اور ان مغربی ممالک میں رہنے اور پلنے بڑھنے والے ایسے رضاکار عطا فرمائے جو بے نفس ہو کر کام کرتے ہیں۔ یوکے کے تقریباً چھ ہزار لڑکے لڑکیاں، مرد، عورتیں، بچے، جلسہ کے مہمانوں کی خدمت پر متعین تھے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اتنی تعداد میں کارکن مہیا فرمائے جو ٹائلٹ کی صفائی سے لے کر کھانا پکانے، کھانا کھلانے اور پھر جلسہ گاہ کے مختلف کام، سیکیورٹی سے لے کر پارکنگ اور دوسری سہولیات مہیا کرنے اور پھر انہیں سمیٹنے تک انتہائی مہارت اور منصوبہ بندی سے کام کرتے رہے۔ یہ نظارے ہمیں دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آئیں گے۔ پس یہ کارکن ہمارے انتہائی شکریہ کے مستحق ہیں۔ اور اس طرح ان کارکنان کو بھی، ان کام کرنے والوں کو بھی، ان رضا کاروں کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا موقع عطا فرمایا اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ آئندہ اللہ تعالیٰ انہیں پہلے سے بڑھ کر اس خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ باہر سے آئے ہوئے مہمانوں نے اس بات پر بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ کس طرح انہیں بچوں نوجوانوں بوڑھوں نے کام کرتے ہوئے متأثر کیا ہے۔ بعض مہمانوں کے تأثر بیان کر دیتا ہوں۔ جلسہ کے پروگرام بھی اور کام کرنے والے بھی ایسی خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں جو اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو ہم دوسرے لٹریچر تقسیم کر کے یا دوسرے ذرائع سے کرتے ہیں۔ بینن کے وزیر دفاع جلسہ میں شامل ہوئے۔ موصوف کہتے ہیں مجھے اس جلسہ میں شامل ہو کر امن اور محبت کے سفیروں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ہر بچہ، جوان دوسروں سے خوش اخلاقی سے ملتا ہوا نظر آیا۔ اگر کسی کو دوسرے کی زبان سمجھ نہ بھی آتی تھی تو مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہتا اور مہمان کی زبان میں کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا۔ جلسہ سالانہ حقیقی بھائی چارے کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں اس جلسہ کو حقیقی سکون کی آماجگاہ کہوں گا۔ اس جلسہ میں شامل ہر بچہ، بڑا اور بوڑھا قربانی کر کے دوسروں کے آرام کا خیال رکھتا ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ آپ کا جلسہ میرے لئے ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں نے اتنے بڑے اجتماع میں کسی کو دھکم پیل کرتے نہیں دیکھا۔ ہر چیز ایک نظام اور طریق کے ساتھ چل رہی تھی۔ میرے لئے بڑا حیران کن تھا کہ ڈیوٹی پر موجود ہر چھوٹا بڑا مہمان کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اگر کسی چیز کا اشارۃً بھی اظہار کیاجاتا اور وہ موجودنہ ہوتی تو اسے فوراً خرید کر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی جاتی۔ سب سے بڑی بات تمام شاملین جلسہ کی سیکیورٹی کا مؤثر اور اعلیٰ انتظام کا ہونا تھا۔ سیکیورٹی کا ایک اعلیٰ اور عمدہ پلان تھا جس سے لگ رہا تھا کہ کسی پروفیشنل ٹیم نے اس کا انتظام کیا ہوا ہے حالانکہ وہاں مجھے نہ تو کوئی پولیس والا اور نہ ہی کوئی آرمی کے لوگ نظر آئے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ مَیں جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ انتظامات کے پیچھے کیا راز ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ لوگ ایک خلافت کے ماننے والے ہیں اور اس وجہ سے ایک ایسی قوم تیار ہو گئی ہے جو ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہے۔ تو یہ تأثرات ہوتے ہیں غیروں کے۔
پھر بینن کے ہی ایک جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس جلسہ کے اعلیٰ انتظامات کے بارے میں اگر کسی کو بتایا جائے تو وہ اس وقت تک یقین نہیں کرے گا جب تک خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے۔ آپ کے جلسہ میں شامل ہو کر مجھے امید کا پیغام ملا ہے۔ دنیا میں ہر طرف ذاتی مفادات کی خاطر فسادات کئے جا رہے ہیں لیکن آپ کے جلسہ میں ان نوجوانوں اور بچوں کو دیکھ کر جو اپنی پرواہ اور فکر کئے بغیر دوسروں کی خدمت کے لئے حاضر اور تیار رہتے ہیں ان نوجوانوں اور بچوں کے ذریعہ ایک نئی دنیا جنم لے گی جس میں خود غرضی نہیں ہو گی بلکہ دوسروں کی خدمت اعلیٰ مقصود ہو گا اور اس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام احمدیت دوسروں کے لئے آج ایک صیقل آئینہ کی طرح ہے جو اسلام کا حسین چہرہ دنیا کو دکھاتا ہے۔ کہتے ہیں مَیں صحافی ہونے کی حیثیت سے دنیا کے اکثر حصّوں میں گیا ہوں۔ مَیں نے سعودی عرب میں حج کے انتظامات دیکھے۔ ایران میں بھی بہت بڑے اجتماعات میں شرکت کی۔ میں نے یواین او (UNO) کے تحت بھی بڑی کانفرنسوں میں شرکت کی لیکن میں نے اس طرح کے اعلیٰ انتظامات کہیں اَور نہیں دیکھے۔ اس کی وجہ بے لوث اور محبت کرنے والے اور انسانیت کی قدر کرنے والے وہ نوجوان اور بچے اور بوڑھے ہیں جو اس جلسہ میں ہر وقت خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں اور جنہیں ان کے خلیفہ کی رہنمائی ہر وقت میسر رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں اپنے دل کی کیفیت صحیح طور اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ کہتے ہیں یہ میرے لئے بڑا حیران کن تجربہ ہے کہ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہنستے اور مسکراتے چہروں کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کرتے دیکھے۔ مَیں یہ بات جاننے میں ناکام رہا کہ ان میں سے کون امیر ہے اور کون غریب۔ ایک ہی طرح ایک ہی جذبہ سے وہ دوسروں کے آرام کے لئے دن اور رات محنت کرتے نظر آئے۔ کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے انتظامات نے بھی مجھے بڑا حیران کیا۔ مَیں بینن میں نیشنل ٹی وی کا ڈائریکٹر رہا ہوں۔ مَیں نے آج تک ٹی وی کے براہ راست پروگرام کے اتنے اعلیٰ انتظامات کہیں اور نہیں دیکھے۔ یواین او (UNO) میں بھی اتنی زبانوں میں براہ راست تراجم نہیں ہوتے جتنے آپ کے ہاں ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست تقاریر کے تراجم کا انتظامات تھا۔ اس جلسہ میں شامل ہر فرد اپنی زبان میں براہ راست تقاریر کا ترجمہ سن کر محسوس کرتا کہ جلسہ اس کے اپنے ملک میں ہو رہا ہے۔ اس کی زبان اور قوم میں ہو رہا ہے۔ مَیں نے احمدیت میں یہ بات سیکھی ہے کہ ایمان کو تمام باقی چیزوں سے افضل رکھو اور سچائی ہی کی جیت ہوتی ہے۔ طاقتور ہمیشہ طاقتور نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں شامل ہو کر میں تو کہوں گا کہ خدا سے ملانے والا راستہ آج بھی موجود ہے اگر کوئی اس پہ عمل کرنا چاہے تو۔
کونگو کنشاسا کے ایک صوبہ کے اٹارنی جرنل بھی شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں میں پچیس سال سے بطور مجسٹریٹ کام کر رہا ہوں۔ مَیں نے جلسہ کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ صرف دولت سے کچھ نہیں کیا جا سکتا جب تک اتفاق و اتحادنہ ہو۔ جب آپ ایک جسم کی طرح ہو جائیں تو پھر سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔ جلسہ کے کارکن ایک جسم کی طرح ہو گئے تو انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جنگل کو قابل رہائش بنا دیا جہاں سب کچھ میسر تھا۔ صاف ستھرے ٹائلٹس، رہائش گاہیں، ریڈیو اور ٹی وی سٹیشنز جو مختلف زبانوں میں پروگرام نشر کر رہے تھے۔ مختلف ملکوں سے آئے ہوئے امیر، غریب، بڑے بڑے عہدوں والے سیاستدان، صاحب علم، دانشور سب ایک ہو کر کام کر رہے تھے۔ چالیس ہزار کے قریب مہمانوں کے کھانے پینے، لانے لے جانے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن یہ کام چھ ہزار کے قریب رضا کار بغیر کسی شور، ہنگامے اور فساد کے خوشی خوشی کر رہے تھے۔ ان رضاکاروں میں تین سال سے لے کر اسّی سال کی عمر کے افراد شامل تھے۔ یعنی بچے بھی اور بوڑھے بھی۔ یہ رضا کار دوسروں کی خدمت کر کے خوشی محسوس کر رہے تھے۔ میں نے تو ہر طرف محبت اور اخوت ہی دیکھی۔ کہتے ہیں مَیں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ بہت مؤثر رنگ میں کام کر رہی ہے اور یہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتی۔ انشاء اللہ۔ کہتے ہیں مَیں تو سب کو کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت کو قریب سے دیکھو تو آپ کو خود بخود سمجھ آ جائے گی۔ کہتے ہیں کہ جب جلسہ میں آیا تو صرف پہلا آدھا گھنٹہ اجنبی محسوس کیا اس کے بعد لوگ خود بخود مجھ سے آ کر ملتے رہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم سب ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ یہ بھی جلسہ کی ایک خوبصورتی ہے کہ صرف جلسہ کے کام کرنے والے ہی غیروں کو متأثر نہیں کرتے بلکہ شاملین جلسہ بھی متاثر کر رہے ہوتے ہیں اور اس ذریعہ سے ایک خاموش تبلیغ ہو رہی ہوتی ہے۔ پس اس لحا ظ سے بھی جہاں ڈیوٹی دینے والے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنیں کہ وہ اپنے عمل سے اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور غیر مسلموں کو متاثر کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن رہے ہیں، اس لحاظ سے وہاں شامل ہونے والے احمدی بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے ان سے خاموش تبلیغ کروا رہا ہے۔
نائیجر سے صدر مملکت کے مذہبی امور کے مشیر خاص بھی اس سال جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تقریباً سارا سال سفر میں رہتا ہوں اور مذہبی میٹنگز میں شامل ہوتا ہوں۔ لیکن مَیں نے آج تک کبھی ایسا روحانی منظر نہیں دیکھا۔ جلسہ میں شمولیت سے مجھے لگ رہا تھا کہ آسمان سے نور نازل ہو رہا ہے۔ بیعت کا نظارہ دیکھنے کے بعد کہتے ہیں گویا میں بیعت رضوان میں شامل ہوں۔ جاپان سے ایک دوست آاویاما (Aoyama) یوسف صاحب شامل ہوئے جو کہ مشہور سکالر اور جاپان اینگلیکن (Anglican) چرچ کے صدر ہیں۔ کہتے ہیں کہ احمدی نوجوانوں اور بچوں کا جذبہ خدمت قابل تحسین ہے۔ آج دنیا کی کسی بھی قوم میں ایسے نوجوان نہ ہونے کے برابر ہیں جو رضاکارانہ طور پر ایسی خدمات بجا لا رہے ہوں۔ یہ نظارہ صرف جلسہ سالانہ میں نظر آ رہا ہے۔ کہیں نوجوان بھاگ بھاگ کر کھانا کھلانے کے لئے فکر مند ہیں۔ کہیں کوئی مہمان کو لانے لے جانے کے لئے گاڑیوں کی فکر میں ہے۔ کہیں بچے پانی پلا رہے ہیں تو کہیں بڑی عمر کے افراد مختلف کاموں میں مصروف ہیں۔ خصوصاً بچوں کی پُرجوش شمولیت بتاتی ہے کہ احمدیت کا حال بھی اور مستقبل بھی روشن ہے۔ اور انشاء اللہ ہے۔
پھر یوگنڈا کے وائس پریذیڈنٹ ایڈورٹ سیکاندی (Edward Ssekandi) تشریف لائے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب انہیں جلسہ گاہ کا ٹور(tour) کروایا گیا اور بتایا گیا کہ تمام کارکن رضاکار ہیں تو بہت حیران ہوئے۔ پھر سیکیورٹی والوں کو دیکھ کر پوچھنے لگے کہ ٹھیک ہے باقی تو رضا کار ہیں لیکن ان کو یقینا پیسے دئیے جاتے ہوں گے۔ تو موصوف کو جب یہ بتایا گیا کہ یہاں کام کرنے والے تمام لوگ رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں تو بڑے متأثر ہوئے۔ کہنے لگے مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا جہاں تمام لوگ امن کے ساتھ اکٹھے رہ رہے ہوں اور میں نے مسلمانوں کے بارے میں یہی سن رکھا تھا کہ لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں۔ یوگنڈا میں بھی مسلمان آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور حکومت کو بسا اوقات Intervene کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب مجھے پتا چلا کہ اصل اور حقیقی مسلمان کون ہیں اور اسلام کی تعلیم امن و سلامتی کی تعلیم ہے۔
رشیا سے ایک مہمان خاتون ڈاکٹر اِرینا سِرینکو (Dr Irina Sirinko) آئی ہوئی تھیں۔ موصوفہ روس میں انسٹی ٹیوٹ آف اور ئنٹل سٹڈیز میں پروفیسر ہیں۔ کہتی ہیں کہ جماعت کے اس جلسہ میں شرکت میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا جو ایک ناقابل فراموش تجربہ ثابت ہوا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ جلسہ کا انتظام اور منصوبہ بندی بہت اعلیٰ معیار کی تھی بلکہ بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ جلسہ کا ماحول بہت روحانی تھا۔ جماعت احمدیہ ہر نئے آنے والے کو پیار محبت اور اعلیٰ درجہ کی مہمان نوازی کے ذریعہ اسلام کا حقیقی اور نیا چہرہ دکھاتی ہے۔
آئس لینڈ سے ایک مہمان آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس جلسہ میں شامل ہونا میری زندگی کے نہایت خوبصورت ترین تجربات میں سے تھا۔ چالیس ہزار افراد کو ایک جگہ اکٹھا دیکھ کر میرا ایمان دوبارہ زندہ ہوگیا۔ دنیا کے ہر کنارے سے آئے ہوئے اتنے کثیر افراد کو انتہائی امن اور محبت سے مل جل کر رہتے دیکھ کر میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ میں آپ کی مہمان نوازی کا انتہائی شکرگزار ہوں اور میں کوشش کروں گا کہ اسلام کے حقیقی امن اور محبت کے پیغام کو پھیلاؤں۔ تو یہ جو ہمارا ماحول ہوتا ہے اس کو بھی دیکھ کر لوگ بڑے متأثر ہوتے ہیں۔ شاملین کی طرف سے بعض ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو بعض دفعہ برا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور پردہ پوشی ہے کہ ان لوگوں کے سامنے ایسے واقعات نہیں ہوتے۔ اب اس سال بھی کچھ ایسے واقعات تھے جو نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ بعض لوگوں نے آپس میں لڑائیاں بھی کیں اور ایسے لوگوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ یہ نہ صرف جماعت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ باہر سے آنے والوں کو ایک ایسا پیغام دے رہے ہیں جو اسلام سے بھی دور کر رہا ہے اور پھر جماعت احمدیہ کو بھی ان لوگوں میں شمار کر دیتے ہیں جن کے بارے میں لوگ اچھے تاثر نہیں رکھتے۔ ہر احمدی کو جلسہ کے دنوں میں تو خاص طور پر اور عموماً ویسے بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔
یونان کے وفد سے ایک صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے اور بہت منظم انداز میں رضاکاروں نے سارا کام کیا۔ جب مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے لسٹ بنانی شروع کر دی کہ دیکھوں کتنے ملکوں سے یہاں لوگ آئے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ میری لسٹ کی تعداد تیس ممالک تک پہنچ گئی۔ کہتے ہیں جلسہ کے تیسرے دن جب مارکی میں بیعت کی تقریب دیکھی تویہ میرے لئے بہت روحانی تجربہ تھا۔ میں نے بہت سارے لوگوں کے چہروں کو جذبات سے بھرپور پایا۔ واقعی یہ ایک بہت خوبصورت نظارہ تھا۔
پھر مقدونیہ سے بھی ایک صاحبہ آئی ہوئی تھیں۔ مقدونیہ اور کروشیا کا بڑا وفد تھا۔ ایک صاحبہ کا تاثر بیان کر رہا ہوں۔ کہتی ہیں جلسہ سالانہ کے انتظامات نے مجھے بہت حیران کیا۔ ہر مہمان کے لئے ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ میں سب سے زیادہ چھوٹے چھوٹے بچوں سے متاثر ہوئی جو مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے۔
گوائٹے مالا کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ خیوسیلیز صاحب کہتے ہیں کہ مہمانوں کی خدمت قابل رشک تھی۔ اس طرح بچوں کی ڈیوٹیاں لگا کر عملی طور پر مستقبل کے لئے انہیں تیار کرنا تا کہ اپنی ذمہ داریاں اس رنگ میں نبھا سکیں قابل تقلید ہے۔
پس جہاں عمومی طور پر جلسہ ہر احمدی شاملین کے لئے اعتقادی اور عملی بہتری کا ذریعہ بنتا ہے، جلسہ میں ہر ایک اپنی اپنی اصلاح کرتا ہے، اکثر کی عملی اصلاح کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے وہاں جلسہ غیروں کو بھی متاثر کرتا ہے اور صرف تربیت کی حد تک ہی نہیں ہے بلکہ اب تو اس کی وسعت اتنی ہو گئی ہے کہ جلسہ سالانہ احمدیت اور حقیقی اسلام کی تبلیغ کے نئے سے نئے راستے کھول رہا ہے۔
اصل مقصد، بہت بڑا مقصد تو جماعت کے افراد کی تربیت ہے لیکن غیروں کے یہاں آنے سے تبلیغ کے بڑے نئے رستے کھل رہے ہیں۔ مہمان اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہم پر ظاہر نہیں تھی اور میڈیا اور بعض مسلم گروہ یا گروپ غلط رنگ میں اسلام کو پیش کرتے ہیں اور وہی ہمارے ذہنوں پر حاوی ہے۔ یہ اکثر نے اظہار کیا۔ مسلمان کا نام سنتے ہی دہشت گردی اور شدت پسندی اور ظلم کی تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ لیکن آج اسلام کی تعلیم کے عملی نمونے دیکھ کر ہم اب اپنے دائرۂ اثر میں، اپنے لوگوں میں، اپنے ماحول میں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی خوبصورتی کی تعلیم جماعت احمدیہ مسلمہ کے پاس دیکھو۔
اس ضمن میں بعض اور تأثرات بھی بیان کرتا ہوں۔ گوائٹے مالا کی ایک ممبر آف پارلیمنٹ آلیانہ (Aliana) صاحبہ کہتی ہیں کہ مسلم جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں پہلی مرتبہ شمولیت میرے لئے ایک حسین تجربہ تھا اور اسلام کے بارے میں حقیقی تعلیمات سے آگاہی ہوئی۔ جماعت کے نظام سے بہت متاثر ہوئی۔ اسی طرح خوش کن مہمان نوازی اور محبت و پیار کی فضا قابل رشک ہے خصوصاً مختلف خیال اور مختلف اقوام کے درمیان غیر معمولی محبت اور بھائی چارے کی بہترین مثال قابل احترام اور قابل تقلید ہے۔ اس جلسہ میں شمولیت میری زندگی کی بہترین یادیں ہیں۔ اس پر میں دلی خوشی اور مسرت محسوس کرتی ہوں۔ کہتی ہیں مَیں یہاں کی نہ بھولنے والی حسین یادیں لے کر اپنے ملک گوئٹے مالا واپس لَوٹ رہی ہوں اس تمنا کے ساتھ کہ آئندہ بھی اس مبارک جلسہ میں شمولیت کی سعادت نصیب ہو۔
ایک غیر از جماعت دوست زکریا سعدی صاحب پی ایچ ڈی کے طالبعلم ہیں۔ کہتے ہیں مَیں سمجھتا ہوں کہ جلسہ سالانہ ایک نہایت خوبصورت تقریب تھی۔ میرے نزدیک اسلام کی خوبصورت تصویر دکھانے کے لئے یہ ذریعہ نہایت ہی موزوں ہے۔ نیز یہ بات بھی جلسہ کے ذریعہ سے نکھر کر سامنے آئی ہے کہ جماعت احمدیہ دنیا بھر کے لوگوں کی خدمت میں ہمہ تن مشغول ہے۔ افریقی ممالک میں غرباء کے لئے میڈیکل کیئر(Medical Care) بہم پہنچانا، پینے کاپانی مہیا کرنا اور دوسری سہولیات مہیا کرنا۔
پھر ایک غیر از جماعت غیرمسلم دوست ٹونی وائٹنگ (Tony Whiting) ہیں۔ کہتے ہیں کہ جماعت کو دیکھ کر اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ برطانیہ کے لوگ آپ کی جماعت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مثلاً کمیونٹی کیا ہوتی ہے اور کس طرح یکجان ہو کر امن کے قیام کیلئے کوشش کی جاتی ہے اور کس طرح نوجوان نسل کو امن کے قیام کے لئے حرکت میں لا کر دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے معاشرے کا ایک قیمتی اور فعّال رکن بنایا جا سکتا ہے۔ آپ کی کمیونٹی کو دیکھ کر ہرگز تعجب نہیں ہوتا کہ کیوں دنیا بھر سے لوگ آپ کی جماعت میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ نومبائعین کے بھی تأثرات ہیں اور یہ ان کی تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ گوئٹے مالا کے ایک نومبائع لوئس الفریدو (Luis Alfredo) صاحب کہتے ہیں کہ میرے لئے ایک ایسی جماعت کا ممبر ہونا جو حقیقی اسلامی تعلیمات کو عملاً دنیا میں پیش کر رہی ہے ایک عظیم سعادت ہے جس کی ایک مثال جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ ہے جس میں مختلف اقوام اور رنگ و نسل کے افراد باہمی محبت و اخوت کی عملی مثال بنے ہوتے ہیں اور اپنے ماٹو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کی عملی تصویر جلسہ سالانہ میں دیکھنے میں آتی ہے۔
پھر بیلجیم کی ایک خاتون ہیں فاطو ماتا دیالو (Fatoumata Diallo) صاحبہ اپنے دو بچوں کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئیں اور بچوں کے ساتھ ہی انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ کہتی ہیں مجھے میرے خاوندنے جماعت سے متعارف کروایا تھا مگر میں جماعت کے حوالے سے ایک مخمصے کا شکار تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ جماعت احمدیہ دوسرے فرقوں کی طرح ایک فرقہ ہے۔ کوئی کہتا تھا یہ لوگ تو مسلمان ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں جلسہ میں شامل ہو کر سچائی معلوم کروں۔ جلسہ میں شمولیت کے بعد مجھے پتا چلا کہ جماعت احمدیہ کے لوگ بہت اچھے، باتہذیب اور سب سے بڑھ کے سچے مسلمان ہیں۔ اور پھر میرے خطابات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذکر رہا۔ امن و سکون، سچائی اور حوصلہ اور بردباری کی تلقین تھی۔ کہتی ہیں خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں وہ راہ دکھلائی جو اس کی ذات کی طرف لے جانے والی ہے۔ پھر شکریہ بھی ادا کرتی ہیں کہ بہت سارے والنٹیئرز نے، کارکنان نے دن رات تھکاوٹ کے باوجود ہمارے سکون کا خیال رکھا اور ہمیں بہت عزت دی۔
جاپان کے پروفیسر صاحب جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جلسہ میں اسّی ممالک کے تیس ہزار سے زیادہ لوگ شریک ہیں۔ پہلے دن مجھے لگا کہ جلسہ سالانہ اور یہاں لگے ہوئے پرچم بالکل اقوام متحدہ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن خلیفۂ وقت کا آخری خطاب جب میں نے سنا تو میری رائے بدل گئی کیونکہ اقوام متحدہ میں تو ہر ملک کا سفیر شریک ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے مفادات کی بات کرتا ہے خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط۔ لیکن خلیفۂ وقت نے ساری دنیا کے لئے انصاف کی بات کی ہے اور یہ بات جلسہ سالانہ کو اقوام متحدہ سے امتیاز بخشنے والی ہے۔
اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا میں بھی گزشتہ سالوں کی نسبت جلسہ کی بہت زیادہ کوریج ہوئی ہے۔ مرکزی پریس اینڈ میڈیا کا جو ہمارا آفس ہے اس کی رپورٹ یہ ہے کہ یہ کوریج جلسے سے پہلے شروع ہو گئی تھی اور بی بی سی ریڈیو فور، دی اکانومسٹ، دی گارڈین، دی انڈیپنڈنٹ، چینل فور، ڈیلی ٹیلی گراف، ڈیلی ایکسپریس، ڈیلی میل۔ ڈیلی میل دنیا کی سب سے زیادہ آن لائن پڑھی جانے والی اخبار ہے۔ دی سن، یہ یوکے (UK) میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اخبار ہے۔ ریڈیو ایل بی سی، لندن لائیو ٹی وی، سکائی نیوز، چینل فائیو، سکاٹش ٹی وی، بلفاسٹ ٹیلی گراف، اور ناٹنگھم پوسٹ وغیرہ ان سب میں جلسہ کی کوریج ہوئی۔ اس کے علاوہ بی بی سی کے مختلف ریجنل سٹیشنوں پر خبریں نشر ہوئیں۔ اس طرح ان کا خیال یہ ہے کہ پرنٹ اور آن لائن میڈیا کے قارئین کی تعداد 41ملین ہے اور ریڈیو کو سننے والوں کی تعداد 2.48ملین ہے۔ تقریباً اڑہائی ملین۔ ٹیلی ویژن پر دیکھنے والوں کی تعداد ایک ملین ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ اکانوے(91) ملین لوگوں تک خبر پہنچی۔ اس طرح اگر سب کو ملایا جائے تو کل تعداد 135ملین بنتی ہے۔ لیکن انہوں نے محتاط رپورٹ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ہم یہ تصور کریں کہ سارے اخبار نہیں پڑھتے اور لوگ ہر خبرنہیں پڑھتے اور اگر اس ٹوٹل تعداد کا صرف بیس فیصد دیکھیں تو تب بھی اٹھارہ ملین سے اوپر افراد تک جلسہ کی خبر اور جماعت احمدیہ کا امن اور پیار و محبت کا پیغام پہنچا ہے۔
اگر یہ اصول یا فارمولا استعمال کیا جائے تو گزشتہ سال تو اس سے بہت کم تھالیکن اگر ہم صرف بیس فیصد کو ہی گنیں تو تب بھی گزشتہ سال سے چھ ملین سے زائد لوگوں تک یہ پیغام پہنچا ہے۔ لیکن ویسے تو میر اخیال ہے سو ملین سے اوپر تک پہنچا ہے۔ گزشتہ سال یہ اس لحاظ سے کیلکولیٹ (calculate) نہیں کیا گیا تھا۔ اس کوریج پر ہمارا پریس اور میڈیا سیکشن خود بھی حیران ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جو اس طرف توجہ ہوئی۔
شعبہ تبلیغ یوکے کی میڈیا ٹیم کے مطابق ساؤتھ ویسٹ لنڈنر (Southwest Londoner) اخبار میں تین آرٹیکل شائع ہوئے اور اس اخبار کو آن لائن پڑھنے والے ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں ہیرلڈ میگزین میں جلسہ کے حوالے سے مضمون شائع ہوا۔ اس کے قارئین کی تعداد بھی پونے دو لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بیلجیم کے دو نیشنل اخبارات نے جلسہ کے حوالے سے مضامین شائع کئے۔ گیانا سے بھی ایک صحافی خاتون کیمرہ مین کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئیں۔ وہاں ٹی وی جی (TVG) پر جمعرات سے لے کر اتوار تک روزانہ شام کی خبروں میں جلسہ سالانہ کے حوالے سے خبریں دی گئیں۔ اس کے علاوہ گیانا کے مشہور اخبار گیانا ٹائمز میں بھی آرٹیکل چھپے۔ محتاط اندازے کے مطابق اس ٹیلی وژنچینل کو دیکھنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے جبکہ اخبار گیانا ٹائمز کے قارئین کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے۔
ان اخبارات میں چھپنے والے آرٹیکلز کے حوالے سے مثبت اور منفی ہر دو طرح کے ردّ عمل دیکھنے کو ملے۔ لوگوں نے آرٹیکلز کے نیچے اپنے تأثرات بھی لکھے ہیں۔ بعض تأثرات یہ ہیں کہ جماعت احمدیہ کا فرقہ باقی تمام اسلامی فرقوں سے ممتاز ہے اور صحیح معنوں میں امن پسند لوگ ہیں جبکہ دوسرے مسلمان ان سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر ایک صاحب نے لکھا کہ جماعت احمدیہ ایک امن پسند جماعت ہے لیکن دنیا بھر میں سنّی مسلمان ان پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں کافر کہتے ہیں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے لوگ ہندوؤں کے خدا کرشنا کو ایک پیغمبر سمجھتے ہیں۔ یہ بہت امن پسند لوگ ہیں۔ ان کے نظریات دیگر مسلمانوں سے مختلف ہیں اسی وجہ سے دنیا بھر میں ان پر مظالم کئے جا رہے ہیں۔ پھر بعضوں نے اخباروں کو یہ بھی لکھا کہ جماعت احمدیہ کے متعلق خبر پڑھ کر اچھا لگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ان لوگوں پر بھی اثر انداز ہو جو اسلام کو شدت پسند سمجھتے ہیں۔ پھر ایک نے یہ لکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان شدت پسندی کے خلاف کب آواز اٹھائیں گے۔ پھر لکھنے والا لکھتا ہے کہ جیسا کہ آپ نے اخبار میں پڑھا کہ احمدی مسلمان بڑے وسیع پیمانے پر شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ احمدی تو ایک لمبے عرصے سے شدت پسندی کی سخت مذمت کر رہے ہیں لیکن لوگ ان کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے اور میڈیا کی دوسری خبروں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو judge کرتے ہیں۔ فرانس میں جو خبر چھپی اس پہ ایک نے یہ لکھا کہ مَیں امید کرتا ہوں کہ فرانس میں بھی اس قسم کا ایک جلسہ منعقد ہو تا کہ وہاں شدت پسند دوسروں پر اپنی رائے ٹھونسنا بند کر دیں۔ لوگوں کے بعض تأثرات ایسے ہیں کہ بڑی دیر سے اس کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ اب کام ہوا۔ حالانکہ جماعت احمدیہ تو سو سال سے زائد عرصے سے یہ کام کر رہی ہے۔ یہ پریس اور میڈیا ہمیں کوریج نہیں دیتا اس لئے کہ ان کی دلچسپی کے سامان اس میں نہیں ہوتے۔ اب کیونکہ پریس نے کوریج دی تو لوگ سمجھ رہے ہیں شاید یہ پہلی دفعہ کام ہوا۔
ایم ٹی اے افریقہ اور دیگر چینلز کے ذریعہ افریقہ میں کوریج ہوئی۔ جلسہ سالانہ یوکے کی نشریات پہلی مرتبہ ’ایم ٹی اے انٹرنیشنل افریقہ‘ کے ذریعہ سے دکھائی گئیں۔ مشرقی اور مغربی افریقہ سے سینکڑوں کی تعداد میں احباب نے مبارکباد کے پیغام بھیجے۔
ایم ٹی اے افریقہ کے علاوہ درج ذیل ٹی وی چینلز نے بھی جلسہ کی نشریات دکھائیں۔ گھانا نیشنل ٹیلیویژن، سائن پلس ٹی وی گھانا، ٹی وی افریقہ، سیرالیون نیشنل ٹی وی، ایم آئی ٹی وی نائیجیریا۔ بینن میں بھی ایک نجی چینل ای ٹیلی پر میرا خطاب پورا نشر کیا گیا۔ کانگو برازاویل کے محدود علاقہ میں بھی جلسہ کے پروگرام ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہوئے۔ یوگنڈا کی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے پہلے تو جلسہ سالانہ کی نشریات دکھانے سے معذرت کر لی تھی مگر عین آخری وقت انہوں نے جلسہ کی کوریج کی اجازت دے دی۔ اس طرح یوگنڈا کے علاوہ روانڈا میں بھی جلسہ کی نشریات دیکھی گئیں۔ میڈیا کوریج کی وجہ سے اور جلسہ کی وجہ سے بعض بیعتیں بھی ہوئیں۔ کانگو برازاویل میں ایک عیسائی دوست مسٹر ویلی (Willy) کو مشن ہاؤس میں جلسہ سالانہ یوکے(UK) دکھانے کی دعوت دی گئی۔ موصوف نے تینوں دن جلسہ سنا اور جلسہ کے بعد کہنے لگے مجھے پہلے مسلمانوں سے بہت ڈر لگتا تھا لیکن یہاں آکر مَیں نے دیکھا کہ ہر طرح پیار اور محبت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ خاص طور پر خلیفہ وقت کی تقاریر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب مجھے جماعت کے حق میں کوئی اور دلیل نہیں چاہئے۔ مَیں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔ پھر ایک مقامی جماعت کے صدر کی بیوی عیسائی تھیں۔ ان کو بہت تبلیغ کی گئی لیکن وہ بیعت کرنے کی طرف نہیں آتی تھیں۔ اس مرتبہ انہوں نے جلسہ کی کارروائی دیکھی اور جب میرا خطاب سنا تو اس کے بعد کہنے لگیں کہ اس تقریر نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں جماعت میں داخل ہو جاؤں کیونکہ یہاں سچائی ہی سچائی ہے اور زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ تو یہ چندنمونے میں نے دکھائے ہیں۔ بے شمار نمونے میرے پاس آئے ہوئے تھے اور مزید آتے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس لحاظ سے ہمارا اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا جانا چاہئے تا کہ لَاَزِیْدَنَّکُمْ کے وارث ہم بنتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے انعاموں کو مزید وسیع کرتا چلا جائے۔
پس جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی بلکہ ہر احمدی جو یہاں تو شامل نہیں تھے لیکن دنیا میں دیکھ رہے تھے، ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کو انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کا ایک ہی طریق ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نیز انتظامیہ سے بھی مَیں کہوں گا۔ وقت زیادہ ہو گیا اس لئے انتظامیہ کے بارے میں زیادہ باتیں نہیں کیں۔ بعض کمیاں ہوئی ہیں۔ بعض جگہ سے مجھے اطلاعات ملی ہیں۔ سکیننگ کے شعبہ میں، اَور جگہوں پر، پارکنگ کی جگہوں پر اور اسی طرح سیکیورٹی میں بھی بعض کمیاں نظر آئی ہیں اس لئے اس کی بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے لئے ابھی سے انتظامیہ کو کام شروع کر دینا چاہئے۔ اور کیا منصوبہ بندی کرنی ہے اور کس طرح ان کمیوں کو دور کرنا ہے، کیا بہتر سے بہتر انتظامات کرنے ہیں اس کے بارے میں سوچیں اور پھر مجھے اس کی رپورٹ بھی دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ہفتے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا اور باوجود کئی تحفظات کے جن میں سے سب سے زیادہ فکر دنیا کے حالات کی وجہ سے پُرامن طور پر جلسہ کے انعقاد کی تھی، نہایت احسن رنگ میں تین دن گزرے اور جلسے کا اختتام ہوا۔ الحمد للہ۔ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ خلیفۂ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے ایک طرح سے انٹرنیشنل جلسہ ہی ہو گیا ہے۔ تمام دنیا کے نمائندے یہاں آتے ہیں لیکن اس دفعہ اس جلسہ کے انتظامات یا رضا کاروں کے لحاظ سے بھی اس کی بین الاقوامی حیثیت ہو گئی ہے۔ کارکن دنیا کے مختلف ممالک سے آتے ہیں۔ امریکہ کے اکثر خدام نے جلسہ سے پہلے کام کیا اور کینیڈا کے 150سے زائد خدام نے جلسہ کے بعد کے وائنڈ اَپ میں کام کیا۔
یوکے کے تقریباً چھ ہزار لڑکے لڑکیاں، مرد، عورتیں، بچے، جلسہ کے مہمانوں کی خدمت پر متعین تھے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اتنی تعداد میں کارکن مہیا فرمائے۔
جلسہ کے پروگرام بھی اور کام کرنے والے بھی ایسی خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں جو اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو ہم دوسرے لٹریچر تقسیم کر کے یا دوسرے ذرائع سے کرتے ہیں۔
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مہمانوں میں سے بعض کے تأثرات:
- مجھے اس جلسہ میں شامل ہو کر امن اور محبت کے سفیروں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔
- مَیں اس جلسہ کو حقیقی سکون کی آماجگاہ کہوں گا۔
- مَیں جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ انتظامات کے پیچھے کیا راز ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ لوگ ایک خلافت کے ماننے والے ہیں اور اس وجہ سے ایک ایسی قوم تیار ہو گئی ہے جو ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہے۔
- جلسہ میں ان نوجوانوں اور بچوں کو دیکھ کر جو اپنی پرواہ اور فکر کئے بغیر دوسروں کی خدمت کے لئے حاضر اور تیار رہتے ہیں ان نوجوانوں اور بچوں کے ذریعہ ایک نئی دنیا جنم لے گی جس میں خود غرضی نہیں ہو گی بلکہ دوسروں کی خدمت اعلیٰ مقصود ہو گا اور اس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام احمدیت دوسروں کے لئے آج ایک صیقل آئینہ کی طرح ہے جو اسلام کا حسین چہرہ دنیا کو دکھاتا ہے۔
- میں نے اس طرح کے اعلیٰ انتظامات کہیں اَور نہیں دیکھے۔ اس کی وجہ بے لوث اور محبت کرنے والے اور انسانیت کی قدر کرنے والے وہ نوجوان اور بچے اور بوڑھے ہیں جو اس جلسہ میں ہر وقت خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں اور جنہیں ان کے خلیفہ کی رہنمائی ہر وقت میسر رہتی ہے۔
- ایم ٹی اے کے انتظامات نے بھی مجھے بڑا حیران کیا۔
- اس جلسہ میں شامل ہر فرد اپنی زبان میں براہ راست تقاریر کا ترجمہ سن کر محسوس کرتا کہ جلسہ اس کے اپنے ملک میں ہو رہا ہے۔ اس کی زبان اور قوم میں ہو رہا ہے۔
- مَیں نے جلسہ کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ صرف دولت سے کچھ نہیں کیا جا سکتا جب تک اتفاق و اتحادنہ ہو۔ جب آپ ایک جسم کی طرح ہو جائیں تو پھر سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔ جلسہ کے کارکن ایک جسم کی طرح ہو گئے تو انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
- جلسہ میں شمولیت سے مجھے لگ رہا تھا کہ آسمان سے نور نازل ہو رہا ہے۔
- آج دنیا کی کسی بھی قوم میں ایسے نوجوان نہ ہونے کے برابر ہیں جو رضاکارانہ طور پر ایسی خدمات بجا لا رہے ہوں۔ خصوصاً بچوں کی پُرجوش شمولیت بتاتی ہے کہ احمدیت کا حال بھی اور مستقبل بھی روشن ہے۔
- جلسہ کا ماحول بہت روحانی تھا۔ جماعت احمدیہ ہر نئے آنے والے کو پیار محبت اور اعلیٰ درجہ کی مہمان نوازی کے ذریعہ اسلام کا حقیقی اور نیا چہرہ دکھاتی ہے۔
- دنیا کے ہر کنارے سے آئے ہوئے اتنے کثیر افراد کو انتہائی امن اور محبت سے مل جل کر رہتے دیکھ کر میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔
- آج اسلام کی تعلیم کے عملی نمونے دیکھ کر ہم اب اپنے دائرۂ اثر میں، اپنے لوگوں میں، اپنے ماحول میں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی خوبصورتی کی تعلیم جماعت احمدیہ مسلمہ کے پاس دیکھو۔
- ایک نہایت خوبصورت تقریب تھی۔ میرے نزدیک اسلام کی خوبصورت تصویر دکھانے کے لئے یہ ذریعہ نہایت ہی موزوں ہے۔
- یہ بات بھی جلسہ کے ذریعہ سے نکھر کر سامنے آئی ہے کہ جماعت احمدیہ دنیا بھر کے لوگوں کی خدمت میں ہمہ تن مشغول ہے۔
- پہلے دن مجھے لگا کہ جلسہ سالانہ اور یہاں لگے ہوئے پرچم بالکل اقوام متحدہ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن خلیفۂ وقت کا آخری خطاب جب میں نے سنا تو میری رائے بدل گئی کیونکہ اقوام متحدہ میں تو ہر ملک کا سفیر شریک ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے مفادات کی بات کرتا ہے خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط۔ لیکن خلیفۂ وقت نے ساری دنیا کے لئے انصاف کی بات کی ہے اور یہ بات جلسہ سالانہ کو اقوام متحدہ سے امتیاز بخشنے والی ہے۔
اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا میں بھی گزشتہ سالوں کی نسبت جلسہ کی بہت زیادہ کوریج ہوئی ہے۔
ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کو انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کا ایک ہی طریق ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
فرمودہ مورخہ 19؍اگست 2016ء بمطابق19ظہور 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔