پیار محبت، امن اور صلح کا ذریعہ

خطبہ جمعہ 23؍ ستمبر 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حقیقی مومن کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا کہ حقیقی مومن وہی ہے جو جو چیز اپنے لئے چاہتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے، دوسرے کے لئے چاہتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزہد باب الورع والتقویٰ حدیث 4217)۔ یہ ایک ایسا رہنما اصول ہے جو دنیا میں ہر سطح پر گھر سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک پیار محبت اور صلح کی بنیاد ڈالتا ہے۔ جھگڑوں کو ختم کرتا ہے۔ دلوں میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

مَیں نے کئی موقعوں پر غیروں کے سامنے یہ بات رکھی تو بڑے متأثر ہوتے ہیں لیکن ہمارا مقصد صرف اچھی بات بتا کر لوگوں کو متأثر کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے عمل سے اس بات کی اور ہر اسلامی حکم کی خوبصورتی ثابت کرنا بھی ہے۔ ہمیں غیر سوال کر سکتے ہیں کہ بہت اچھی بات ہے لیکن بتاؤ تم میں سے کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ جب موقع آئے تو خود غرضی نہیں دکھاتے۔ بات کی خوبصورتی تو اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب بات کہنے والا خود بھی اس پر عمل کر رہا ہو۔ لوگوں کو ہماری امتیازی خصوصیت تو تبھی پتا چلے گی جب ہمارے قول و فعل ایک جیسے ہوں گے۔ لوگ صرف بات سننے تک نہیں رہتے بلکہ ہمیں دیکھتے بھی ہیں۔ مَیں نے جرمنی کے سفر کے دوران وہاں جو آخری جمعہ پڑھایا غالباً اس میں ذکر کیا تھا کہ جب جرمنی میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر اس علاقے کے ڈسٹرکٹ کمشنر نے یہ اعتراض کیا کہ تم لوگ عورتوں سے ہاتھ نہ ملا کر ان کے ساتھ غلط رویّہ دکھاتے ہو۔ تو جب میں نے اس کا کچھ تفصیلی جواب دیا تو ایک شخص نے بعد میں اپنے تأثرات دیتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ بالکل ٹھیک بات ہے ہر ایک کو آزادی ہے اور جو اس کا مذہب کہتا ہے یا روایات کہتی ہیں اس پر عمل کرنا اس کا حق ہے جبکہ ملک کا یا عوام کا اس سے نقصان بھی نہ ہو رہا ہو۔ کہنے لگا لیکن یہ بات تو تمہارے خلیفہ نے کہی ہے۔ اس کی حقیقت تو تب پتا چلے گی جب ہم دیکھیں گے کہ احمدی نوجوان بھی اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، یا ان کی اکثریت اس پر عمل کرتی ہے یا نہیں۔ پس جب ہم مذہب کے حوالے سے کسی حکم کی اور اس حوالے سے اعلیٰ اخلاق کی بات کرتے ہیں تو غیر ہمیں دیکھتے بھی ہیں کہ ان کا اپنا عمل کیا ہے۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے اعلیٰ اخلاق قائم کرنے کے لئے بتائی کہ تمہارے حقیقی مومن ہونے کا تب پتا چلے گا جب تمہارے اخلاق بھی اعلیٰ ہوں گے۔ تمہارے ایک دوسرے کے لئے جذبات اور احساسات کے معیار بلند ہوں گے۔ اور وہ معیار کیا ہیں؟ یہ کہ جو چیز تم اپنے لئے پسند کرو وہ دوسرے کے لئے پسند کرو۔ یہ نہیں کہ اپنے حقوق لینے کے لئے انصاف انصاف کی آوازیں بلند کرتے رہو اور دوسروں کے حقوق دیتے وقت منفی رویّہ دکھاؤ۔

پس ہم جس طرح اپنے حقوق لینے کے لئے بے چین ہوتے ہیں دوسرے کو حقوق دینے کے لئے بھی وہی معیار قائم کرنے چاہئیں۔ ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو ہم جب اپنے لئے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری غلطی معاف ہو اور ہم سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو، ہمیں سزا نہ ملے تو پھر جب کوئی دوسرا کوئی غلطی کرتا ہے جس سے ہم متأثر ہو رہے ہوں تو اس کے لئے پھر ہمیں بھی اگر وہ کوئی عادی مجرم نہیں ہے، وہ بار بار غلطیاں نہیں دہرا رہا، یہی رویّہ اپنانا چاہئے کہ معاف کر دیں۔ ہاں اگر کسی غلطی سے جماعت یا قومی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو تو پھر یہ فردی غلطی نہیں ہوتی اور اس کا جرم پھر قومی جرم بن جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کا فیصلہ بھی ادارے کرتے ہیں، کوئی شخص نہیں کرتا۔

بہرحال میں یہ بات کر رہا ہوں کہ معاشرے کے روز مرہ کے آپس کے معاملات میں جو حق ہم اپنے لئے سمجھتے ہیں وہ حق دوسرے کو بھی دیتے ہیں یا نہیں یا دینے کی ہماری سوچ ہے یا نہیں۔ اور اس میں بنیادی اِکائی گھر ہے، دوست احباب ہیں، بہن بھائی ہیں، دوسرے رشتہ دار ہیں۔ جب چھوٹے پیمانے پر، اپنے چھوٹے سے حلقے میں یہ سوچ ہو گی تو پھر معاشرے میں وسیع طور پر بھی یہی سوچ پھیلے گی۔ خود غرضیاں ختم ہوں گی۔ حق دینے کی باتیں زیادہ ہوں گی۔ معاف کرنے کے رجحان بڑھیں گے۔ سزا دینے یا دلوانے کے رجحان میں کمی ہو گی۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ظاہری حقوق اور ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ معاف کرنے کے رجحان کو بھی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(آل عمران: 135)۔ یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصّہ دبا جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

پس پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کے حق کی ادائیگی کے لئے خرچ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جو ضرورتمند ہیں۔ محسن تو ہے ہی وہ جو دوسروں کے کام آنے والا ہو۔ ان کو فائدہ پہنچانے والا ہو۔ نیکیوں پر قائم رہنے والا ہو۔ تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ پس جو نیکیوں پر قائم رہنے والا اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی خاطر اور تقویٰ پر چلتے ہوئے فائدہ پہنچانے والا ہو یقینا وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بے نفس ہوتا ہے۔ چُھپ کر اور ظاہراً اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرتا ہے۔ اور جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے تو پھر وہ خود غرضیاں نہیں دکھاتا۔ اپنے بھائی کے لئے برائی نہیں چاہتا۔ اور ایسے لوگ روحانی طور پر بھی ترقی کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگ پھر ان لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محسنین کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر بھی کنٹرول رکھنے والے ہیں، قابو رکھنے والے ہیں۔ اور ایسا کنٹرول جو نہ صرف ایسی حالت میں جبکہ غصّہ آنا قدرتی بات ہے غصّہ کو دبانے والے ہیں بلکہ اس طرح جذبات میں قابو رکھتے ہیں اور اس کا امتحان اس وقت ہو گا جب غصہ دبانے کے بعد دوسروں کو معاف کرنے کی بھی حالت پیدا ہو۔ یہ بات کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ہر قسم کے غصہ اور بدلے کے جذبات کو دل سے نکال دیا جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ جب غصہ بھی نہ آئے اور بدلہ لینے کے جذبات بھی دل سے نکل جائیں اور نہ صرف یہ کہ غصہ کے جذبات کو نکال دیا جائے بلکہ غلطی کرنے والے پر کچھ احسان بھی کر دیا جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن میں یہ باتیں پیدا ہوں۔ روایات میں حضرت حسنؓ کا ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ کے ایک غلام نے کوئی غلطی کی۔ اس پر آپ کو اس پر بڑا غصہ آیا اور سزا دینا ہی چاہتے تھے کہ اس پر اس غلام نے آیت کا یہ حصہ پڑھا کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ۔ اور وہ جو غصہ دباتے ہیں۔ اس پر حضرت حسن نے سزا دینے کے لئے جو ہاتھ اٹھایا تھا اسے نیچے گرا لیا یا ہاتھ ہی نہیں اٹھایا۔ اس پر غلام کو اور جرأت پیدا ہوئی تو اس نے کہا۔ وَالْعَافِیْن۔ یعنی ایسے لوگ لوگوں کو معاف کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس پر حضرت حسن نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کہا کہ جاؤ مَیں نے تمہیں معاف کیا۔ اس بات پر غلام کو مزید جرأت پیدا ہوئی تو اس نے کہا کہ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ کہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اس پر انہوں نے اس غلام کو کہا کہ جاؤ مَیں نے تمہیں آزاد کیا۔ جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 179-180۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اللہ تعالیٰ کی محبت کی خواہش رکھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والوں کے یہ رویّے ہوتے ہیں کہ نہ صرف قصور وار کا قصور معاف کر دیں بلکہ اس پر احسان بھی کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے حوالے سے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا ہے اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمے سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں‘‘۔ (جو گالیاں نکالنے والا ہے، بے لگام بولنے والا ہے وہ پھر ایسی باتیں جو حکمت کی باتیں ہیں، جو گہری باتیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ باتیں ہیں ان سے محروم ہو جاتا ہے۔) فرمایا ’’غضب اور حکمت دونو جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے۔ اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 126-127۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے‘‘۔ (عقل مند آدمی میں بلا وجہ کا جوش پیدا نہیں ہوتا جو غصہ کا جوش ہو۔) فرمایا کہ ’’جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 180۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اسلام کی تعلیم بڑی حکمت والی ہے کہ جو غلطی کردی جائے تو فیصلہ کرتے وقت اگر انسان کسی چیز کے خلاف بھی ہو، کسی شخص کے خلاف بھی ہو، کوئی سزا ایسا معاملہ ہو تو تب بھی سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے نہ کہ مغلوب الغضب ہو کر۔ بعض جگہ سختی کرنی پڑتی ہے لیکن غضب میں آ کر غصہ میں آ کر سختی کرنا جائز نہیں۔ اسلام میں سزاؤں کا تصور ہے لیکن اس کے لئے اصول و قواعد ہیں۔ غضب میں آ کر سزا حکمت سے دُور لے جاتی ہے، انصاف سے دور لے جاتی ہے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ غضب میں آ کر اگر سزا دو گے تو یہ دل کی سختی بن جائے گی اور جب دل سخت ہو جائیں تو پھر معارف اور حکمت کی باتیں منہ سے نہیں نکلتیں بلکہ عقل ماری جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ غصّہ کو دباؤ۔ دماغ کو ٹھنڈا کرو۔ پھر سزا دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرو بشرطیکہ اس کا اختیار بھی رکھتے ہو۔ یہ نہیں کہ ہر ایک کو اٹھ کے سزا دینے کا اختیار مل گیا۔ غصہ کو دبانے کے لئے صبر کا مادہ ہونا ضروری ہے۔ پس صبر کے معیاروں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ صبر کرنے والوں کی عقل وفکر کی قوتوں کو روشنی ملتی ہے۔ ان کی سوچیں بالغ ہوتی ہیں۔ ان کو روشنی ملتی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔ اگر ایک مومن کسی بھی بات کا عقل سے کوئی فیصلہ کرنے والا ہو چاہے وہ ناپسندیدہ بات ہو تو ان کے فیصلہ میں جلد بازی نہیں ہوتی بلکہ صبر سے، سوچ سمجھ کے فیصلہ کرتے ہیں بلکہ مثبت اور منفی پہلو دیکھ کر تفصیل میں جا کر پھر فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ سزا دینے کا اختیار بھی ہر ایک کونہیں ہے۔ یہ کہہ دیں کہ میں نے سوچا اور میری عقل سزا دینے کا کہتی ہے اس لئے سزا دیتا ہوں۔ سزا دینا تو اب اس زمانے میں متعلقہ اداروں کا کام ہے۔ معاف تو انسان بے شک اپنے قصور وارکو خود کر سکتا ہے لیکن سزا دینے کے لئے بہرحال قانون کی مدد چاہئے یا متعلقہ ادارے کی مدد چاہئے۔ اس بات کو انسان اگر ہر وقت سامنے رکھے تو آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو لڑائیاں ہو رہی ہوتی ہیں وہ نہ ہوں۔ ایک دوسرے پر مقدمے بازی کر کے جو وقت اور رقم کا ضیاع ہو رہا ہوتا ہے وہ نہ ہو۔ مقدمہ عدالت میں لے جانے پر اگر ایک عدالت کسی قصوروار کو معاف کرتی ہے تو دوسرے فریق کا غیظ و غضب مزید بھڑکتا ہے کہ اس کو معاف کیوں کر دیا یا اس کو کم سزا کیوں دی گئی۔ اور وہ اگلی عدالت میں مقدمہ لے جاتا ہے۔ اور معاملات بھی ایسے نہیں ہوتے کہ کوئی بڑے خوفناک ہوں۔ بڑے چھوٹے چھوٹے معاملات ہوتے ہیں۔ قضا میں بھی اس طرح کے معاملات آتے ہیں۔ اور بعض احمدی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے قضا سے فیصلہ نہیں کروانا۔ عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ کوئی ایسی بات نہیں ہوتی کہ جس پہ مقدمے بازیاں کی جائیں اور اس وجہ سے وہ اپنا نقصان بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غصہ دبانے کے بعد جو معاف کرنے کا کہا ہے تو بغیر کسی حکمت کے نہیں کہا کہ معاف کرتے چلے جاؤ۔ بلکہ معافی اور سزا کی حکمت بتا کر فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَجَزَآؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(الشوریٰ: 41)

وَجَزَآؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا۔

پس اصل چیز مجرم کو اس کے جرم کا احساس دلا کر اصلاح کرنا ہے نہ کہ بدلہ لینا، مقدمہ بازیوں میں پھنسانا، اپنا بھی مال ضائع کرنا اور دوسرے کا بھی مال ضائع کروانا۔ اپنا بھی وقت ضائع کرنا اور دوسرے کا وقت ضائع کروانا اور اگر جماعتی اداروں میں بات ہے تو ان پہ بدظنیاں کرنا۔ اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو جاتی ہے تو معاف کرنا بہتر ہے۔ اگر سزا دینا اصلاح کے لئے ضروری ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ سزا دی جائے اور پھر بیشک متعلقہ اداروں تک معاملہ لے جایا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پُر حکمت حکم کے بارے میں کئی جگہ تحریر فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپ تریاق القلوب میں فرماتے ہیں کہ:

’’قانونِ انصاف کی رو سے ہر ایک بدی کی سزا اُسی قدر بدی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے گناہگار کو معاف کرے بشرطیکہ اس معاف کرنے میں شخصِ مجرم کی اصلاح ہو، نہ یہ کہ معاف کرنے سے اور بھی زیادہ دلیر ہو اور بیباک ہو جائے تو ایسا شخص خدا تعالیٰ سے بڑا اجر پائے گا‘‘۔ یعنی معاف کرنے والا اجر پائے گا۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 163)

پھر براہین احمدیہ میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’بدی کی پاداش میں اصول انصاف تو یہی ہے کہ بد کُن آدمی اسی قدر بدی کا سزاوار ہے جس قدر اس نے بدی کی ہے۔ پر جو شخص عفو کر کے کوئی اصلاح کا کام بجا لائے یعنی ایسا عفو نہ ہو جس کا نتیجہ کوئی خرابی ہو سو اس کا اجر خدا پر ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 433-434 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)۔ یعنی معاف کرنا اصلاح کے لئے ہو جائے تو بڑی اچھی بات ہے اور وضاحت اس کی یہ ہے کہ خرابی نہ پیدا ہو ایسی معافی سے۔ اگر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا معاف کرنے والے کو جو اجر ملے گا وہ خدا تعالیٰ کے پاس ہے جتنا چاہے وہ دے دے۔

پس عفو اور معاف کرنا اس وقت ہے جب قصوروار کا رویّہ نظر آتا ہو کہ وہ آئندہ یہ غلط کام نہیں کرے گا۔ بعض عادی مجرم ہوتے ہیں اور ہر مرتبہ جرم کر کے معافی مانگتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے سزا ضروری ہوتی ہے اور سزا پھر اس طرح ہو کہ اس سے اس کی اصلاح کا پہلو نکلتا ہو۔

پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ’’بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی گئی۔ لیکن جو شخص عفو کرے اور گناہ بخش دے اور اس عفو سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو، نہ کوئی خرابی تو خدا اس سے راضی ہے اور اسے اس کا بدلہ دے گا۔ پس قرآن کے رو سے نہ ہر ایک جگہ انتقام محمود ہے‘‘ (یعنی نہ انتقام لینا ہر جگہ ضروری ہے اور تعریف کے قابل ہے) ’’اور نہ ہر یک جگہ عفو قابل تعریف ہے‘‘۔ (نہ معاف کرنا قابل تعریف ہے۔) ’’بلکہ محل شناسی کرنی چاہئے‘‘۔ (یہ دیکھنا چاہئے کہ موقع کیسا ہے؟ فائدہ کس میں ہے؟ سزا میں یا معافی میں۔) ’’اور چاہئے کہ انتقام اور عفو کی سیرت بپابندی محل اور مصلحت ہو۔ نہ بے قیدی کے رنگ میں۔ یہی قرآن کا مطلب ہے‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 30)

یہ کوئی نہیں ہے کہ کسی اصول کے بغیر، کسی ضابطے کے بغیر سزا دی جائے یا بلا وجہ معاف کر دیا جائے۔ اس کے لئے کوئی حدود ہیں۔ ان حدود کے اندر رہنا چاہئے اور یہ چیز دیکھنی چاہئے کہ فائدہ کس میں ہے۔ پس یہ ہے اسلامی سزا اور معافی کی حکمت کہ اصلاح مدِّنظر ہو۔

آجکل دنیاوی قانون میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جرم کی سزا دی جاتی ہے اور پھر جیلوں میں اس لئے رکھا جاتا ہے کہ اصلاح ہو لیکن خود یہاں کے ترقی یافتہ ملکوں کے بھی تجزیہ نگار اب لکھنے لگ گئے ہیں کہ جیلوں میں جب مجرم سزا کاٹ کے نکلتے ہیں تو جرموں میں اور بھی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ سزا دینے والے بھی اور مجرم بھی صرف قانون کی پابندی کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف ان میں نہیں ہوتا۔ بہرحال مومنوں کو عام ہدایت یہی ہے کہ ان میں قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ہونی چاہئے اور قصور کی نوعیت اور مجرم کی حالت اور سابقہ رویّے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے۔ نہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے ہر ایک کو معاف کرتے چلے جاؤ، نہ یہ کہ غضبناک ہو کر سزائیں دینے کی طرف ہی رجحان ہو۔ معاف کرتے چلے جانے سے بھی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور سزا دیتے چلے جانے سے بھی رنجشیں اور کینے بڑھتے ہیں اور معاشرے میں نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوتی ہیں اور بدامنی پھیلتی چلی جاتی ہے۔

اگر ہم جائزہ لیں، اپنے ماحول پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جن کا قصور کیا گیا ہو وہ اس بات کا شدت سے اظہار اور مطالبہ کرتے ہیں کہ مجرم کو سزا دینی ضروری ہے تا کہ دوسروں کے لئے یہ سزا عبرت کا ذریعہ بنے اور کسی کو کسی قسم کی غلطیاں کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اور مجرم جس نے قصور کیا ہو وہ یہ کہتا ہے کہ معاف کرنا چاہئے۔ آجکل ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بھی بہت سی بن گئی ہیں وہ جہاں بعض اچھے کام کر رہی ہیں وہاں معاف کروانے میں بھی بہت زیادہ افراط سے کام لیتے ہوئے ہر مجرم کو معاف کروانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح جو مجرم دین کے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کچھ شدھ بدھ رکھتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ معاف کرو اس لئے معاف کرنا چاہئے کیونکہ خدا خود بھی بندوں کو معاف کرتا ہے۔ اس لئے تم بھی بندوں کا حق ادا کرتے ہوئے معاف کرو۔ انفرادی طور پر بھی ہر ایک اپنے قصور وار کو معاف کرے اور جماعتی طور پر بھی ہر ایک کو معاف کیا جائے قطع نظر اس کے کہ اس سے جماعت کو فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان تا کہ بندوں کے حق ادا ہوں۔ دونوں طرف سے یہ باتیں کرنے والے جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں یا تو عادی مجرم ہوتے ہیں یا انصاف سے ہٹ کر اپنے حق میں فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ ایک تو جرم کرتے ہیں پھر جرم کی سزا سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کا ناجائز حوالہ دیتے ہیں یہ لوگ خود غرض ہوتے ہیں۔ اگر ان کا کوئی قصور کرے تو کبھی معاف نہیں کرتے بلکہ بڑھ بڑھ کر مجرم کو سزا دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ان کا اصول یہاں بدل جاتا ہے۔ اس وقت اس حکم کو بھول جاتے ہیں کہ دوسرے کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔

اسی طرح جو معاف نہیں کرنا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ ضرور میرے قصور وار کو سزا ملے وہ بھی اگر اپنا معاملہ ہو تو معافیاں مانگ کر کہیں گے کہ معاف کرنا اچھا ہے۔ اسلام ایسے خودغرضوں کی باتوں کو ردّ کرتا ہے اور انتہائی انصاف پر مبنی فیصلہ دیتا ہے کہ اگر یہ یقین ہے کہ معاف کرنے سے اصلاح ہو گی تو بہتر ہے کہ معاف کر دو۔ اگر یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ سزا کے بغیر گزارہ نہیں تو سزا ضروری ہے۔ بہرحال یہ تو اسلام کی ایک اصولی تعلیم ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس حد تک معاف فرمایا کرتے تھے اور آپ نے صحابہ کو اس بارے میں کیا نصائح فرمائی ہیں۔ حضرت امام حسن کی مثال میں نے دی تھی کہ انہوں نے اپنے ملازم کی ایک غلطی پر معاف کر دیا لیکن وہ ایک چھوٹی سی غلطی تھی۔ معاف کرنے کی معراج تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہے کہ جن لوگوں کی سزا کے فیصلہ بھی ہو گئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی معاف فرما دیا۔ کسی دوسرے کے قصور وار کو معاف نہیں کیا بلکہ اپنے قصور واروں کو، اپنی اولاد کے قاتلوں کو معاف کر دیا کیونکہ ان کی اصلاح ہو گئی تھی۔

روایات میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص ھبار بن اسودنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ اس وقت حاملہ تھیں۔ حملہ کی وجہ سے آپ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ زخمی بھی ہوئیں، چوٹ لگی اور اس چوٹ کی وجہ سے آپ کی وفات بھی ہو گئی۔ اس جرم کی وجہ سے ھبار کے لئے قتل کی سزا کا فیصلہ ہوا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا مگر بعد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو ھبار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔ پہلے میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا لیکن مجھے آپ کا عفو اور رحم واپس لے آیا ہے۔ اے خدا کے نبی! ہم جاہل تھے، مشرک تھے، خدا نے ہمیں آپ کے ذریعہ ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ پس میری جہالت سے صَرف نظر فرماتے ہوئے مجھے معاف فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو معاف فرما دیا اور فرمایا کہ جا اے ھبار! میں نے تجھے معاف کیا اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پس جب آپ نے دیکھا کہ اصلاح ہو گئی ہے تو اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا۔ (تاریخ الخمیس جلد دوم باب ذکر الرجال الاحد عشر الذین اھدر دمھم یوم فتح مکۃ صفحہ 93 مطبوعہ موسسۃ شعبان بیروت)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا کبھی انتقام نہیں لیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب مباعدتہؐ للآثام … الخ حدیث 5944)

تبھی تو آپ نے کھانے میں زہر ملا کر کھانا کھلانے والی یہودیہ کو بھی معاف فرما دیا تھا حالانکہ بعض صحابہ کو زہر کا اثر بھی ہو گیا تھا۔ (سیرت ابنِ ہشام باب بقیۃ امر خیبر صفحہ 626-627 مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ بیروت)

پھر ہند جس نے جنگ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ کا مُثلہ کیا تھا۔ ان کے جسم کے اعضاء کاٹے تھے۔ کان ناک وغیرہ کاٹے تھے اور کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر عورتوں کے ساتھ مل کر اس نے بیعت کر لی۔ اس کے بعض سوالوں کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا اور پوچھا کہ کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟۔ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ! اب تو میں دل سے مسلمان ہو چکی ہوں۔ جو پہلے ہو چکا اس سے درگذر فرمائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند کو معاف فرما دیا۔ ہند پر آپ کے عفو کا ایسا اثر ہوا کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ بہت مخلص ہو گئی۔ بلکہ اسی دن شام کو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور دو بکرے بھون کر کھانے کے لئے بھجوائے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آجکل جانور کم ہیں اس لئے حقیر سا تحفہ پیش ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ! ہند کے ریوڑوں میں بہت برکت ڈال۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے نتیجہ میں ایسی برکت پڑی کہ اس کے ریوڑ سنبھالے نہیں جاتے تھے۔ (سیرت الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 137 تا 139 باب فتح مکۃ شرفھا اللہ تعالیٰ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کو ہر ایک جانتا ہے۔ اس کی تمام تر گستاخیوں کے باوجود اس کو معاف فرمایا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا دیا۔ باوجود اس کے کہ حضرت عمرؓ بار بار عرض کرتے تھے کہ اس کا جنازہ نہ پڑھائیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من الصلاۃ علی المنافقین … الخ حدیث 1366)

کعب بن زہیر ایک مشہور شاعر تھا بعض باتوں کی وجہ سے اس کے لئے بھی سزا کا حکم ہو چکا تھا۔ فتح مکہ کے بعد ان کے بھائی نے اسے لکھا کہ اب آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ چنانچہ وہ مدینہ آ کر اپنے ایک جاننے والے کے پاس ٹھہر گئے اور فجر کی نماز مسجدنبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی۔ نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کعب بن زہیر تائب ہو کر آیا ہے اور معافی کا خواستگار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے شکل سے پہچانتے نہیں تھے۔ اس لئے اس نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں آ جائے سامنے۔ اس پر اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ اس پر ایک انصاری اسے قتل کرنے کے لئے اٹھے کیونکہ اس کے متعلق حدّ لگنے کی وجہ سے قتل کا فیصلہ ہو چکا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اس کے بعد اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قصیدہ پیش کیا جس پر آپ نے خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے اپنی چادر بھی اسے اوڑھا دی۔ (تاریخ الخمیس جلد دوم باب اسلام کعب بن زہیر صفحہ 121 مطبوعہ موسسۃ شعبان بیروت)

پس یہ تھا آپ کی معافی کا معیار کہ نہ صرف معاف فرماتے تھے بلکہ انعام دے کر، دعائیں دے کر رخصت فرماتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایسے معراج پر پہنچا ہوا عفو ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا۔ مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْن کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں۔ اور گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خُلقِ مجسم ذات نے اس کے مقابلے میں کیا کیا۔ ان کے لئے دعا کی۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اُس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزّت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 103)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو عفو اور درگزر کے کن معیاروں کو حاصل کرنے کی نصیحت فرمائی۔ اس بارے میں روایات میں بہت سے واقعات ملتے ہیں ایک آدھ مَیں پیش کرتا ہوں۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا ایک غلام ہے جو غلط کام کرتا ہے کیا میں اسے بدنی سزا دے سکتا ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس سے ہر روز ستّر مرتبہ درگزر کر لیا کرو۔ (مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 309 کتاب العتق حدیث 7231 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت) یعنی بہت زیادہ درگذر کیا کرو۔ پس ملازموں اور ماتحتوں سے حسن سلوک کا یہ وہ معیار ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا۔

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ آجکل غلامی نہیں ہے اور ایک مومن ملازم سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی اس کے ذمہ جو فرائض ہیں ان کا بھی حق ادا کرنے والا ہو۔ صرف اس لئے کہ درگزر کا حکم ہے اس لئے ہر کام خراب کرتا جائے یہ بھی غلط چیز ہے۔ جس طرح اور جگہوں پر یہ بھی حکم ہے کہ جو کام کسی کے ذمہ کیا گیا ہے اس کو ادا کرنے کا بھی پورا حق ادا کرنا چاہئے۔ پس دونوں طرف یہ حکم ہے۔ جہاں مالک کو ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض نہ ہو، درگزر کرے وہاں ملازم کے لئے بھی یہی ہے کہ اپنے ذمہ جو ذمہ داری ہے ان کا بھی پورا حق ادا کرے۔

عفو اور درگذر کے بارے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصّہ کا نقص اب تک موجود ہے تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔‘‘ فرمایا ’’اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے‘‘۔ (صبر سے پہلے اپنی تربیت کرو اور دوسرے کی تربیت بھی کرو اور اس کے لئے ذریعہ یہ ہے کہ دعا کرو) ’’کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔‘‘ فرمایا ’’خدا تعالیٰ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے‘‘۔ فرمایا ’’یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔‘‘ (طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔) فرمایا ’’اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے۔ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ(بنی اسرائیل: 85)۔ (یعنی ہر ایک اپنی جبلّت کے مطابق عمل کرتا ہے۔) لیکن آپ فرماتے ہیں کہ ’’بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور۔ اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا‘‘۔ فرمایا ’’لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 127-128۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

طبیعتیں ہر ایک کی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں۔ بعضوں کے بعض اخلاق بہت اچھے ہیں۔ اس میں ترقی ہے لیکن دوسرے میں کمزوری ہے لیکن فرمایا اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ اصلاح ناممکن ہو جائے اور تمام اخلاق نہ اپنائے جائیں۔ پس بیشک انسان کی طبیعتیں مختلف ہیں۔ جن میں کمزوریاں ہیں ان میں کچھ اچھائیاں بھی ہیں۔ یہ نہیں کہ ہر کسی میں صرف کمزوریاں ہی کمزوریاں ہیں اور اچھائی کوئی نہیں۔ اچھائیاں بھی ہیں کمزوریاں بھی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے ہمیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور وہ اعلیٰ اخلاق اپنانے چاہئیں جو ایک حقیقی مومن کا معیار ہیں۔ کمزوریاں دور کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اس بات کی کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنے ماحول کو پر امن بنانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے جو اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو یا اپنے لئے چاہتے ہو وہ اپنے بھائی کے لئے بھی چاہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 23؍ ستمبر 2016ء شہ سرخیاں

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حقیقی مومن کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا کہ حقیقی مومن وہی ہے جو جو چیز اپنے لئے چاہتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے، دوسرے کے لئے چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسا رہنما اصول ہے جو دنیا میں ہر سطح پر گھر سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک پیار محبت اور صلح کی بنیاد ڈالتا ہے۔ جھگڑوں کو ختم کرتا ہے۔ دلوں میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

    مَیں نے کئی موقعوں پر غیروں کے سامنے یہ بات رکھی تو بڑے متأثر ہوتے ہیں لیکن ہمارا مقصد صرف اچھی بات بتا کر لوگوں کو متأثر کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے عمل سے اس بات کی اور ہر اسلامی حکم کی خوبصورتی ثابت کرنا بھی ہے۔ ہمیں غیر سوال کر سکتے ہیں کہ بہت اچھی بات ہے لیکن بتاؤ تم میں سے کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ جب موقع آئے تو خود غرضی نہیں دکھاتے۔ بات کی خوبصورتی تو اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب بات کہنے والا خود بھی اس پر عمل کر رہا ہو۔

    ہم جس طرح اپنے حقوق لینے کے لئے بے چین ہوتے ہیں دوسرے کو حقوق دینے کے لئے بھی وہی معیار قائم کرنے چاہئیں۔ ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو ہم جب اپنے لئے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری غلطی معاف ہو اور ہم سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو، ہمیں سزا نہ ملے تو پھر جب کوئی دوسرا کوئی غلطی کرتا ہے جس سے ہم متأثر ہو رہے ہوں تو اس کے لئے پھر ہمیں بھی، اگر وہ کوئی عادی مجرم نہیں ہے، وہ بار بار غلطیاں نہیں دہرا رہا، یہی رویّہ اپنانا چاہئے کہ معاف کر دیں۔ ہاں اگر کسی غلطی سے جماعت یا قومی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو تو پھر یہ فردی غلطی نہیں ہوتی اور اس کا جرم پھر قومی جرم بن جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کا فیصلہ بھی ادارے کرتے ہیں، کوئی شخص نہیں کرتا۔

    غصّہ پر قابو رکھنے، صبر کرنے اور بیہودہ گوئی وغیرہ سے باز رہنے سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے نصائح۔

    اللہ تعالیٰ نے ہمیں غصہ دبانے کے بعد جو معاف کرنے کا کہا ہے تو بغیر کسی حکمت کے نہیں کہا کہ معاف کرتے چلے جاؤ۔ بلکہ معافی اور سزا کی حکمت بتا کر فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔

    اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو جاتی ہے تو معاف کرنا بہتر ہے۔ اگر سزا دینا اصلاح کے لئے ضروری ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ سزا دی جائے اور پھر بیشک متعلقہ اداروں تک معاملہ لے جایا جائے۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے قصورواروں کو معاف کرنے کے عدیم النظیر واقعات کا روح پرور تذکرہ۔

    فرمودہ مورخہ 23؍ستمبر 2016ء بمطابق23تبوک 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور