اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت
خطبہ جمعہ 30؍ ستمبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج سے مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ یوکے (UK) کا اجتماع شروع ہو رہا ہے۔ ہمارے اجتماعات کی اصل روح تو یہ ہے جس کے لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت میں بڑھا جائے۔ علمی پروگرام اور مقابلے اس روح کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم نے ان باتوں سے کچھ سیکھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ بعض کھیلوں کے بھی پروگرام ہوتے ہیں تو اس لئے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے صحتمند جسم بھی ضروری ہے ورنہ نہ ہی انصار اللہ کی کھیل کود کی عمر ہے اور نہ ہی بائیس تیئس سال کی عمر کے بعد عموماً عورتیں کھیلوں میں کوئی زیادہ شوق رکھتی ہیں۔ پس ورزشی مقابلوں کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی جسمانی صحت کی طرف توجہ رہے اور صرف مقابلوں میں حصہ لینے والے نہیں بلکہ دوسرے بھی کم از کم سیر یا پھر ہلکی پھلکی ورزش سے اپنے جسموں کو چست رکھیں۔ تو بہرحال ان اجتماعوں کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی دینی اور علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ ہو۔
صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے کہا کہ خطبہ میں انصار کو مخاطب کر کے کچھ کہہ دیں۔ انصار اللہ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان کی سوچ mature ہوتی ہے، پختہ ہوتی ہے اور خود انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اور ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ایک تو پختہ عمر ہونا اور دوسرے ان بڑی عمر کے لوگوں کی مجلس کا نام انصار اللہ ہونا ہر ممبر کو، ہر احمدی مرد کو جو چالیس سال سے اوپر ہے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس دلانے کے لئے کافی ہے۔ یہ ذمہ داری یا ذمہ داریاں کیا ہیں جن کو ایک ناصر کو ادا کرنا چاہئے؟ ان کا خلاصہ انصار اللہ کے عہد میں بیان ہو گیا۔
پہلی بات یہ کہ ہر ناصر، ہر شخص جو مجلس انصار اللہ کا ممبر ہے اسلام کی مضبوطی اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونے کی کوشش کرے۔ اور اسلام کی مضبوطی کے لئے کوشش اپنے علم اور طاقت سے نہیں ہو سکتی۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے اور تعلیم کے لحاظ سے کامل اور مکمل دین ہے۔ اس میں کسی انسان نے تو کوئی اور مضبوطی پیدا نہیں کرنی ہے۔ ہاں اپنے آپ کو اس سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے تا کہ اس کامل اور مکمل دین کا ہم مضبوط حصہ بن سکیں۔ اور یہ بات خدا تعالیٰ سے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور انصار اللہ کے معیار سب سے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجو، اس کی طرف توجہ دو۔ پس یہ بہت ضروری چیز ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنا ہے۔ جب یہ حق قائم ہو گا تو تبھی احمدیت پر ہم سچے دل سے قائم ہوں گے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تکمیل اشاعت اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونا تبھی ثابت ہو گا جب ہم اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو انصار اللہ ثابت کریں گے۔ پس ایک تو یہ ذمہ داری ہے۔
پھر آپ نے، انصار نے اپنے عہد میں ایک عہد یہ بھی کیا یا دوسرے لفظوں میں اس ذمہ داری کو نبھانے کا، اٹھانے کا وعدہ اور اعلان کیا کہ خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق اور اس کی حفاظت کے لئے کوشش کریں گے۔ یہ کوشش کس طرح ہو گی؟ یہ کوشش تبھی ہو گی جب انصار خلافت کے کاموں اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے مددگار بنیں گے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انصار اپنے آپ کو خلیفہ وقت کی باتوں کے سننے کی طرف متوجہ رکھیں گے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں ایم ٹی اے کی نعمت بھی عطا فرمائی ہے جس کے ذریعہ کہیں دُور بیٹھے ہوئے ان باتوں کو سنا جا سکتا ہے۔ پس انصار اللہ کو اپنے آپ کو اس کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ بھی عہد کیا کہ اولادوں کو بھی خلافت سے جوڑیں گے تو علاوہ اَور باقی تربیتی باتوں کے اپنی اولادوں کو بھی اس ذریعہ سے خلافت کے ساتھ جوڑ دیں تا کہ نسلاً بعدنسلٍ یہ وفاؤں کے سلسلہ چلتے رہیں اور قائم رہیں تاکہ خدمت اسلام اور اشاعت اسلام کا کام ہمیشہ جاری رہے۔ کیونکہ اشاعت اسلام کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے ہی اعلان کے مطابق قدرت ثانیہ کے ذریعہ سے ہونا ہے جو نظام خلافت ہے۔ پس اس کے لئے ہر قربانی کے عہد پر نظر رکھیں۔ یہ عہد آپ نے کیا کہ ہر قربانی آپ کریں گے تو اس پر نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح جیسا کہ مَیں نے کہا کہ لجنہ اماء اللہ کا اجتماع بھی ہو رہا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کا بھی ایک عہد ہے جس کو انہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑافضل اور احسان ہے کہ اس کے فضل سے لجنہ اماء اللہ کی اکثریت ماشاء اللہ دین پر وفا کے ساتھ قائم ہے۔ اعتقادی لحاظ سے اکثر مضبوط ہیں۔ لیکن ہر لجنہ ممبر کو، ہر احمدی عورت کو اپنی عملی حالتوں کو بھی اس معیار پر لانا ہو گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ لجنہ اماء اللہ کا بھی ایک عہد ہے اور اپنے فنکشنز اور اجتماعوں پر یہ عہد دہراتی بھی ہیں کہ ہم اپنے مذہب کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گی۔ تو پہلی قربانی جو مذہب مانگتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی تمام دنیاوی خواہشات کو پیچھے کر کے اپنی عملی حالت کو مذہب کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں۔ ایک احمدی عورت میں سچائی کے اعلیٰ معیار قائم ہونے چاہئیں۔ پھر عورت سے متعلق جو احکامات ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش ہے۔ عورت کو اپنے تقدس اور اپنی عصمت کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو باتیں بتائی ہیں ان میں پردہ کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ اگر اس میں کسی احمدی عورت میں کمزوری ہے تو وہ عملاً اپنے عہد کو پورا نہیں کر رہی۔ پس نہ معاشرے کا خوف، نہ ہی اپنی دنیاوی خواہشات ایک احمدی کو مذہب کی تعلیم سے دور کرنے والی ہو۔ بلکہ ہر احمدی عورت کو اپنی عملی حالت کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق گزارنے والا ہونا چاہئے۔
پھر ایک عہد سچائی پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد ہے۔ اس میں ہر ایک کو اپنے معیاروں کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم سچائی کی حقیقی روح کے ساتھ اس پر قائم ہیں کہ نہیں۔ اسی طرح اولاد کی تربیت کا عہد ہے اس کو بھی بھرپور طور پر پورا کرنے کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ دین سے وابستہ ہیں کہ نہیں۔ بچہ کی سب سے اعلیٰ تربیت گاہ اس کی ماں ہے۔ پس اس کے لئے ماؤں کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہماری ساری عورتیں یہ ذمہ داری ادا کرنے والی ہو جائیں بلکہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ پچاس فیصد بھی ہو جائیں تو نسلوں کی حفاظت کی وہ ضمانت بن جائیں گی۔ (ماخوذ از لجنہ اماء اللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 296)
ان کے دین کو سنوارنے والی بن جائیں گی۔ ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی بن جائیں گی۔ اسی طرح اپنی اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا بھی ماؤں کا کام ہے اور یہ بھی عہد ہے۔ آپ کے عہد میں شامل ہے۔ ان کے ذہنوں کو مکمل طور پر قوانین کی پابندی کے لئے تیار کرنا ماؤں کا کام ہے۔ برائی اور اچھائی میں تمیز پیدا کروانا ماؤں کا کام ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا، اس کی طرف توجہ دلانا ماؤں کا کام ہے۔ خلافت سے بچوں کو جوڑنا اور اس کے لئے کوشش کرنا جیسا باپوں کا کام ہے ویسا ہی ماؤں کا بھی کام ہے۔ پس اس اہم ذمہ داری کو ہر ماں کو سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح ناصرات الاحمدیہ کااجتماع بھی لجنہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ناصرات بھی عہد کرتی ہیں۔ ان کو بھی اپنے عہدوں کو نبھانا چاہئے۔ چودہ پندرہ سال کی عمر ہوش کی عمر ہوتی ہے اور اچھا برا سمجھنے کی عمر ہوتی ہے اور یہ آخری عمر ہے ناصرات کی اور اس عمر میں ہی بہت ساری خواہشات بھی ہوتی ہیں۔ اگر دنیا کی طرف نظر ہو تو دنیاوی خواہشات دین پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ہر احمدی بچی کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور اپنے عہد کو بار بار دہراتے رہنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر احمدی بچی بجائے فضول دنیاوی خواہشات کے پیچھے چلنے کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے والی ہو۔ اور وہ اعلیٰ مقاصدناصرات کے عہد میں یہ بیان کئے گئے ہیں کہ مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لئے تیار رہنا، ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا، خلافت احمدیہ کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا۔ پس اگر ہماری بچیاں اس عہد کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو جہاں اپنی زندگیاں محفوظ کر لیں گی وہاں آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو بھی محفوظ کرنے والی ہوں گی اور انہیں خلافت سے جوڑنے والی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے اور یہ اجتماع جو ہو رہے ہیں ان کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
اجتماع کے حوالے سے اس مختصر بات کے بعد اب میں ایک پیارے عزیز کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ دنوں ہم سے جدا ہوا۔ چند ہفتے پہلے ایک حادثہ کے نتیجہ میں ایک عزیز ہم سے جدا ہوا تھا اور چند دن پہلے جامعہ احمدیہ یوکے کا ایک اور بہت پیارا طالبعلم اور نوجوان جو جامعہ کی تعلیم تقریباً مکمل کر چکا تھا کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد ہم سے جدا ہوا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
جس بچہ کا مَیں ذکر کر رہا ہوں اس کا نام مظہر احسن تھا۔ بیماری کی وجہ سے آخری سال کا امتحان نہیں دیا تھا لیکن جیسی اس عزیز نوجوان نے زندگی گزاری ہے وہ مربی اور مبلغ ہی تھا، امتحان پاس کرتا یا نہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کے اندر ایک جوش پیدا کیا ہوا تھا کہ اس نے کس طرح دین کی خدمت کرنی ہے۔ کس طرح اپنے اخلاق اور اپنی حالت کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق ڈھالنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے۔ ہر انسان جو دنیا میں آیا اس نے ایک دن یہاں سے جانا ہے لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جو اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس پیارے عزیز کے بارے میں جامعہ احمدیہ کے طلباء، اس کے دوست، اس کے اساتذہ مجھے لکھ رہے ہیں۔ اور یہ صرف رسمی باتیں نہیں ہیں کہ کوئی شخص فوت ہوگیا تو اس کا ذکر خیر کرو بلکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ اخلاص و وفا اور عمل کا ایک نمونہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ عزیز مرحوم والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی دو بہنوں اور والدین نے بھی، خاص طور پر والدہ نے صبر کا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کا بہترین نمونہ دکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے اور ان کو صبر میں بڑھاتا رہے۔ ان سب کو اپنی جناب سے تسکین اور صبر کے سامان مہیا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’یاد رکھو کہ مصیبت کے زخم کے لئے کوئی مرہم ایسا تسکین دہ اور آرام بخش نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 45)
پس اللہ تعالیٰ پر ہی ہمیشہ بھروسہ ہونا چاہئے۔ عزیز مرحوم بھی صبر اور حوصلہ کی تلقین کرتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ غم اور دکھ تو ہوتا ہے جو قدرتی بات ہے اور ماں باپ، بہن بھائیوں کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اس غم اور دکھ کو دعاؤں میں ڈھال کر ہم مرحوم کے درجات کی بلندی اور اپنے لئے صبر اور تسکین کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان قریبیوں کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کا کچھ ذکر مَیں کرتا ہوں۔ اس بچے کو کینسر ہوا تھا اور اللہ کے فضل سے علاج سے اس کی شفا بھی ہو گئی تھی لیکن بعد میں کوئی ایسی سینہ کی انفیکشن ہوئی جس کا ڈاکٹروں کو پتا نہیں چل سکا اور جس کی وجہ سے وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کے پڑدادا حضرت مستری نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ان کے نانا محترم چوہدی منور علی خان صاحب اور دادا حاجی منظور احمد صاحب دونوں درویشان قادیان میں سے تھے۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ جامعہ احمدیہ کے طالبعلم تھے۔ موصی بھی تھے۔
بعض مختصر باتیں کروں گا کیونکہ لمبی تفصیل میں بعض ایسی جذباتی باتیں ہیں جن کو شاید بیان کرنا مشکل ہو لیکن بہرحال مختصراً میں ذکر کرتا ہوں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ مجھے مشورہ دینے والا، میرا رازدان اور ایک استاد کی طرح میری تربیت کرنے والا تھا۔ ہم میں ماں اور بیٹے کے رشتے کے ساتھ ساتھ ایک انوکھی قسم کی understanding بھی تھی۔ وہ مجھے اچھی طرح سمجھتا تھا اور میں اس کو۔ اس کو یہ بھی پتا تھا کہ میری ماں کن چیزوں سے خوش ہوتی ہے اور کن سے نفرت کرتی ہے۔ کہتی ہیں کہ اکثر وہ مجھ سے خلافت کے نظام، خلیفہ وقت اور جماعت اور سب سے بڑھ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں کیا کرتا تھا اور یہی topic اسے پسند تھے۔ اگر کوئی دنیاوی باتیں بیچ میں آجاتیں تو تھوڑی دیر بعد وہ کہتا ان کو چھوڑیں، ہمارا ان سے کیا مطلب۔ اس کی خواہش تھی کہ اس سال جلسہ پر آئے لیکن اس کو احساس ہو گیا کہ ذرا مشکل ہو گا۔ اس لئے ایم ٹی اے پر سننا ہی اس نے مناسب سمجھا اور باقی گھر والوں کو بھیج دیا کہ آپ لوگ جائیں مَیں اکیلا یہاں سن لوں گا اور manage کر لوں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ (گلاسگو میں تھا) اس طرح بیماری کے باوجود گھر والوں کو اس نے بھیج دیا کہ آپ جاکے جلسہ سنیں۔ اپنے سارے کام خود کرنے کی عادت تھی۔ اور کہتی ہیں کہ بیماری کے دوران اس کے مزاج میں مزید ٹھہراؤ اور نرمی آ گئی تھی اور کبھی بھی کوئی چڑچڑا پن اور غصہ اس کی طبیعت میں نہیں دیکھا گیا۔ جیسا کہ میں نے کہا اسے خون کا کینسر تھا۔ پہلی بیماری سے جب ٹھیک ہو گیا تو کمزوری تھی لیکن امیر صاحب سکاٹ لینڈ سے اس نے کہا کہ مجھ سے کچھ جماعتی کام لیں اور پھر اس نے وہاں نیوز لیٹر بنانا شروع کیا اور پھر باقی بھی جو کام کرنے والے تھے ان سے اِن ٹچ (in touch) رہتا تھا۔ ان کو بتاتا رہتا تھا کس طرح کام کرنا ہے۔
اسی طرح سکاٹ لینڈ میں ناصرات اور لجنہ کا اجتماع تھا تو وہاں اس نے ان کے لئے سندات ڈیزائن کیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا باقاعدہ مطالعہ کرنے والا تھا۔ 12؍ستمبر کو دوبارہ جب اس کو دوسرے انفیکشن کا حملہ ہوا ہے (غالباً یہی دن تھے) تو کہتی ہیں مجھے بلایا اور کہا کہ میرے پاس آ کر بیٹھیں اور پھر کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنی انگلیوں پر گنیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گننا شروع کیا۔ اور پھر کہتا ہے اَور فضل گنائیں۔ تو کہتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے فضل ہیں کہ میں گن نہیں سکتی۔ اس پر مظہر نے کہا کہ بس آپ کو یہی بتانا چاہ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے احسانوں کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اس کا ہر حال میں شکر ادا کرتی رہیں۔ کہتی ہیں اس وقت مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مظہر یہ کیا کہہ رہا ہے لیکن بہرحال ذہنی طور پہ تیار بھی کر رہا تھا۔
کہتی ہیں کہ تبشیر کے مہمان سکاٹ لینڈ آئے تو آخری قافلے کے انچارج راجہ برہان صاحب تھے۔ وہ مظہر کو ملے اور بہت خوش ہوئے کہ اس کی صحت اچھی ہے۔ کہتی ہیں میں نے مربی صاحب کو کہا کہ مظہر کو جماعت کا کام کرنے کا بہت جنون ہے۔ ہر وقت پلان بناتا رہتا ہے کہ آئندہ میں اس طرح کام کروں گا، اس طرح کام کروں گا۔ مربی بنوں گا تو یہ کروں گا۔
جب اس کو 2015ء کے اکتوبر میں یہ کینسر کی بیماری diagnoseہوئی تو اپنی بہن کو کہنے لگا کہ امی کو بہت احتیاط سے بتانا۔ ان کو میں روتا نہیں دیکھ سکتا۔
ہسپتال میں نماز، تلاوت اور ایم ٹی اے پر خطبات ضرور سنتا تھا۔ آن لائن پروگرامز میں نظمیں، تصویریں وغیرہ سب دیکھتا۔ کلاس فیلوز کے ساتھ باتیں بھی اس کی ہوتیں۔ اساتذہ کے ساتھ باتیں ہوتیں۔ ڈاکٹرز اور نرسز سے جماعت کی تبلیغ کی باتیں ہوتیں۔ آخر وقت تک ہسپتال میں اپنی treatment ہمیشہ بیٹھ کر کروائی اور ڈاکٹروں کو پِیس کانفرنس کے حوالے سے، جلسہ کے حوالے سے، جماعت کی مختلف ایکٹویٹیز کے حوالے سے ہمیشہ تبلیغ کرتا رہتا تھا۔ یہاں جلسہ کے بعد جو مربیان کی میٹنگ ہوتی ہے اس میں اس کی کلاس بھی جو جامعہ سے پاس ہو کر فارغ ہو گئی تھی شامل ہوئی تو ان کو اس نے لکھ کے بھیجا یا پیغام دیا کہ جو بھی میٹنگ کے پوائنٹس ہیں وہ مجھے بھی لکھ کر بھیجیں تا کہ میں بھی انہیں اپنی زندگی کا حصہ بناؤں کیونکہ میٹنگ میں شامل نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے خلافت سے انتہائی پیار تھا اور جب عزیزم رضا کی اچانک وفات کا پتا لگا تو اس کی والدہ کہتی ہیں کہ میں نے پہلی دفعہ اسے اس طرح روتے دیکھا ہے۔ میں پہلے گھبرا بھی گئی۔ لیکن بہرحال اس کو یہ بھی فکر تھی کہ اچانک وفات ہوئی ہے اور والدین کو بھی اور خلیفۂ وقت کو بھی بڑا صدمہ ہو گا۔
کہتی ہیں ہم اپنے رب سے راضی ہیں کہ اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی باتیں اللہ جانے، ہمارا کام دعا کرنا تھا۔ خدا کا کام قبول کرنا ہے، کرے یا نہ کرے۔ کہتی ہیں مظہر جاتے جاتے بھی ہماری اصلاح کر گیا۔ 13؍ستمبر عید کے دن صبح مظہر کو شدید کھانسی تھی۔ اس نے مجھے قہوہ بنانے کا کہا۔ بستر پر جا کے لیٹ گیا۔ جب جا کے دیکھا تو بہت سخت تیز بخار تھا۔ ایمبیولینس کو بلایا اور اس نے جاتے جاتے پھر کہا کہ آج عید ہے آپ لوگ عید پڑھنے جائیں اور ہسپتال میرے ساتھ آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے فون کر کے آپ کو بلالوں گا۔ اور میں بھی وہاں جا کر اپنے فون پر عید کا خطبہ سن لوں گا۔ اس بیماری میں بھی اس نے ان چیزوں کو یاد رکھا۔
صبح اس کی وفات ہوئی۔ مظہر کی آواز اچھی تھی۔ اس نے اپنے فون میں صبح نماز یا تہجد کے لئے الارم ریکارڈ کیا ہوا تھا۔ ان کی بہن کہتی ہیں کہ جب اس کا آخری سانس تھا، وفات کا وقت ہو رہا تھا تو اس وقت اسی کی آواز میں ایک دم فون پر اذان کی آواز شروع ہو گئی جس نے ان لوگوں کو اَور زیادہ جذباتی کر دیا۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کی یہ رضا تھی۔
بیشمار واقعات انہوں نے لکھے ہیں۔ جب اس کو کینسر کی بیماری کا پتا لگا تو ان کی بہن عروبہ کہتی ہیں کہ کہنے لگا کہ میں ہر چیز برداشت کر سکتا ہوں لیکن اپنی ماں کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اس لئے ان کو بڑی احتیاط سے بتانا اور اس کا bone marrow ہوا اور ان کی بہن کا ہی میچ کر گیا تو اس کو دیا گیا اور ڈاکٹر بھی حیران تھے۔ پہلے کہتے تھے نہیں ہو سکتا لیکن بہرحال میچ کر گیا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا بھی دے دی تھی لیکن بہرحال آخری تقدیر یہی تھی۔ chemotherapy کے دوران بھی ڈاکٹروں کو تبلیغ کرتا رہا۔ اللہ پہ بڑا توکل تھا اور کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اب یہاں سے لے کے گیا ہے تو انشاء اللہ اگلے جہان میں امید ہے اس کی خواہشات پوری ہو رہی ہوں گی۔
ڈاکٹر حفیظ صاحب کہتے ہیں کہ میں مظہر کو کینسر کی diagnosis کے بعد گلاسگو ملنے گیا تو اسے بہت متوکل انسان پایا اور وہاں ان کی والدہ نے کہا کہ یہ ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کو ہمیشہ یاد کرتے رہیں۔ گلاسگو سے مکرمہ بینظیر عبدالرافع صاحبہ کہتی ہیں میرا سری لنکا سے تعلق ہے اور مظہر کی والدہ اور ان کی بیٹیاں ہماری بڑی قریبی دوست ہیں۔ جب کینسر diagnose ہوا تو ان کی فیملی سے مزید تعارف ہوا۔ ان کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے تو بڑی تسلی اور تحمل سے اپنی بیماری کے متعلق بتایا۔ پھر جب کچھ عرصہ بیچ میں اس بیماری سے ٹھیک رہا تو گلاسگو میں ایک پانچ کلو میٹر کی چیریٹی واک تھی اس میں بھی شامل ہوا اور کہتا ہے یہ تو بڑی آسان تھی۔ میں نے بڑی آسانی سے کر لی۔ حالانکہ ایک لمبی بیماری میں سے گزرا تھا۔ Chemotherapy وغیرہ خود ایک تکلیف دہ procedure ہے۔
حافظ فضل ربی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کریم سیکھنے کا بے حد شوق تھا۔ بڑی پیاری اور پر سوز آواز میں تلاوت کیا کرتے تھے اور جامعہ آنے سے پہلے بھی نیشنل تعلیم القرآن کلاس میں شامل ہونے کے لئے اپنی فیملی کے ہمراہ گلاسگو سے لندن آیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ بعض امیگریشن کے ان کے مسائل تھے۔ کیس پاس نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے جامعہ میں پڑھنے کے باوجود یہاں لندن سے ہر دو ہفتے بعد گلاسگو جانا پڑتا تھا اور پھر واپس آنا پڑتا تھا۔ توکہتے ہیں مَیں نے اس کو کہا کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوتی ہو گی۔ تو کہنے لگا کہ کسی عظیم مقصد کے لئے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں کوئی تکلیف نہیں ہوتیں۔ جامعہ کے ایک استاد ہیں وسیم فضل صاحب وہ کہتے ہیں کہ مظہر احسن بہت باہمت، سنجیدہ، باادب، مستقل مزاج طالبعلم تھا۔ عزیزم کا شمار ان چند طلباء میں سے ہوتا تھا جو اپنی ذمہ داری کو نہایت خلوص و وفا اور محبت اور جانفشانی سے سرانجام دیتے تھے۔ انتظامی امور میں بہت اچھے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہماری ہوسٹل کی انتظامیہ میں کئی سال سے بطور prefect خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ ایک موقع پر جب ایک اہم کام عزیز کے سپرد کیا جا رہا تھا تو کسی نے دریافت کیا کہ کیا عزیزم یہ کام کر لیں گے۔ اس پر ایک استادنے عزیزم کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کام سپرد کرنے کے بعد تو ہمیں مظہر سے چھپنا پڑتا ہے کیونکہ وہ تو پھر ہم سے زیادہ فکر مندی، سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام میں مشغول ہو جاتا ہے۔ یہ کہتے ہیں عزیزم کی انتظامی صلاحیتیں اور بے لوث خدمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال قبل جامعہ احمدیہ کی سالانہ کھیلوں کے موقع پر عزیزم کی ڈیوٹی شعبہ ضیافت میں لگائی گئی۔ کھیلوں کے آخری دن بہت سے مہمان تشریف لاتے ہیں اور دوپہر کو ظہرانہ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ عزیزم نے اس موقع پر ساری رات جاگ کر تمام انتظامی کاموں میں بھرپور حصہ لیا اور ایک لمحے کے لئے بھی آرام نہ کیا۔ اگلے روز بھی اسی بشاشت کے ساتھ خدمت میں مصروف رہا۔ پروگرام کے بعد عزیزم نے اس شعبہ سے متعلق ایک مفصل اور جامع رپورٹ بھی تیار کی جو اب بھی انتظامیہ کے پاس موجود ہے اور اس رپورٹ کے ذریعہ اس شعبہ کے کاموں میں بہت مدد مل رہی ہے۔
حافظ مشہود صاحب کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل جب عزیزم سے فون پہ بات ہوئی تو عزیزم نے اظہار کیا کہ میں جلد از جلد صحت یاب ہو کر بطور مبلغ دین کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ نیز کہا کہ اب جبکہ میرا علاج ہو رہا ہے تو میں نے اپنی مقامی جماعت میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر عزیزم نے ذکر کیا کہ وہ گلاسگو میں ہونے والی پانچ کلو میٹر چیریٹی واک میں حصہ لے رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا۔
ملک اکرم صاحب وہاں کے مربی سلسلہ تھے۔ انہوں نے لکھا کہ مظہر احسن صاحب کی فیملی جب دبئی سے گلاسگو شفٹ ہوئی تو خاکسار سکاٹ لینڈ میں بطور مربی خدمت بجا لا رہا تھا۔ جس روز یہ فیملی گلاسگو میں آئی اسی روز مسجد میں کوئی فنکشن ہو رہا تھا جس میں یہ فیملی بھی شریک ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ مظہر احسن صاحب سلام دعا کے بعد سیدھے کچن میں چلے گئے اور کچن ٹیم کے ساتھ تمام کام محنت اور جانفشانی سے کرتے رہے۔ پہلے دن سے لے کر جب تک وہ جامعہ احمدیہ میں گئے ہمیشہ مسجد اور جماعت کی بھرپور خدمت کرتے رہے۔ نہایت کم گو، نفیس طبیعت کے مالک، ظاہر بھی صاف اور باطن بھی صاف۔ نہ کبھی گپ شپ میں شامل ہوئے، نہ کبھی وقت ضائع کیا۔ انہیں وقت کے صحیح استعمال کا سلیقہ آتا تھا۔ مربی سلسلہ ہونے کی وجہ سے وہ خاکسار کے بہت قریب رہتے اور انہیں خاکسار نے بہت قریب سے دیکھا۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک، بڑے ہی دھیرے لہجے میں گفتگو کرنے والے، ہر ایک کی عزت و احترام کرنے والے نوجوان تھے۔ ان کی یہ دلی خواہش اور تڑپ تھی کہ ان کا وقف قبول ہو جائے اور جامعہ احمدیہ میں دینی تعلیم حاصل کر کے مبلغ بنیں اور خدمت دین کریں اور جس دن ان کو جامعہ میں داخلہ ملا اس دن وہ اتنے خوش تھے کہ گویا دنیا جہان کی نعمتیں مل گئی ہیں۔ خلافت سے والہانہ عشق تھا۔
ارشد محمود صاحب قائد گلاسگو لکھتے ہیں کہ خاکسار شارجہ کا قائد خدام الاحمدیہ منتخب ہوا۔ پہلے یہ مظہر احسن بھی وہیں شارجہ میں تھے۔ شارجہ قیام کے دوران جماعتی پروگراموں اور اجتماعات کے موقعوں پر ہونے والے علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دیکھا۔ کہتے ہیں چونکہ شہر سے باہر دور ایک جگہ ہم اجتماع منعقد کیا کرتے تھے لہٰذا ہمیں کافی پہلے جا کر وقار عمل اور دوسری تیاری کرنی پڑتی تھی۔ مرحوم باوجود چھوٹی عمر کے ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ ان میں بڑی جرأت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اجتماع میں فی البدیہہ تقریر کا مقابلہ ہوا۔ یہ مقابلہ مشکل تھا اور عنوان بھی مشکل تھا۔ مظہر نے بھی حصہ لیا اور کیونکہ تیاری بھی ان کی نہیں تھی تو خدام ان کی تقریر سن کے ہنسنے لگے مگر مظہر احسن نے اپنی تقریر جس طرح بھی کی اس کو پورا کیا اور کوئی پرواہ نہیں کی اور پھر کہنے لگا کہ اگر اسی طرح میں جھجھک گیا تو فائدہ کوئی نہیں ہو گا۔ جھجھک تو اسی طرح اترتی ہے۔ اور پھر کہتا ہے کہ ہمیں خدام کو مقابلہ جات میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔ اس نے کوئی پرواہ نہیں کی کہ لوگ ہنس رہے ہیں کہ نہیں ہنس رہے۔ اس نے کہا جھجھک دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں بولتا چلا جاؤں جس طرح بھی مجھے آتا ہے۔
ایک ہمارے گیمبین مربی سلسلہ عبدالرحمن چام ہیں جنہوں نے پچھلے سال جامعہ پاس کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جامعہ کے دوران برادرم کے ساتھ کافی وقت گزارا۔ جامعہ کے بعد ہم وَاٹس اَیپ (WhatsApp) کے ذریعہ رابطہ میں رہے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار وہ میسیجز پیش کرتا ہے جو برادرم مظہر صاحب نے خاکسار کو بیماری کے بعد ارسال کئے۔ ایک یہ تھا کہ میں اس بیماری سے گذر رہا ہوں لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بہت زیادہ احسانات کئے ہیں۔ اس لحاظ سے مجھے خدا تعالیٰ کا مزید شکر ادا کرنا چاہئے اس لئے میں اس درد سے گزرنا مشکل نہیں سمجھتا۔ پھر یہ ایک ہے کہ میں بیماری کے متعلق نہیں سوچ رہا بلکہ میں اپنے مطمح نظر کو دیکھ رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جماعت کی کس رنگ میں بہترین خدمت کر سکتا ہوں۔ ان کے ایک دوست اور کلاس فیلو شیخ ثمر جو مربی بنے کہتے ہیں ہمیشہ مسکراتے اور لوگوں کو خوش رکھتے۔ مظہر احسن ہر ایک سے ایک سلوک کرتا جیسے صرف وہی بندہ اس کا دوست ہے۔ کسی کو کسی بھی قسم کی دوری کا یا غیریت کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا اور کبھی کسی کے ساتھ لڑائی نہیں کی۔ اس کا دل بہت بڑا تھا۔ ہر موقع پر تبلیغ کرتا اور کوئی بھی تبلیغ کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ ہسپتال میں تھا تو ادھر بھی بہت مشہور تھا کہ یہ مسلمان ہے جو ہر ایک کو تبلیغ کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ کبھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔ دوسروں کی جتنی مدد کر سکتا تھا اس سے بڑھ کر کرتا۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھتا۔ ہر ایک سے پیار اور محبت کے ساتھ رہتا۔
ساحل محمودان کے کلاس فیلو، مربی ہیں۔ کہتے ہیں ایسی عمدہ شخصیت کے ساتھ سات سال گزارنے کا موقع ملا ہے۔ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اعلیٰ مہمان نوازی، عاجزی اور انکساری میں اعلیٰ نمونہ۔ ہمیشہ حسن ظنی کا مظاہرہ کرنے والے۔ ہر کام میں نیک نیت۔ جامعہ کے شروع سالوں میں prefect تھے۔ prefect کا کام ہوتا ہے کہ وقت پر لائٹ آف کر کے لڑکوں کو کہنا کہ سو جاؤ۔ نمازوں کے لئے جگانا، کمرے کی صفائی توجہ دلانا۔ کبھی کوئی جھگڑا ہو جاتا تو اسے روکنا۔ یہ سب ان کے کام تھے۔ تو طلباء ان کو تنگ بھی کرتے تھے۔ کہتے ہیں ہمیں ان کو تنگ کرنے کا بڑا مزہ آتا تھا۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ خاکسار نے کوئی غلطی کر دی جس پر انہوں نے مجھے ڈانٹا اور پھر چند منٹ کے بعد میرے پاس آ کر معافی مانگنے لگ پڑے اور رو پڑے۔ بڑے نرم دل کے انسان تھے۔ کہتے ہیں کبھی میں بیمار ہوتا یا کسی وجہ سے طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی اور چھٹی والے دن لیٹا ہوتا تو میرے اٹھنے سے پہلے میرے بستر کے پاس ناشتہ لا کر رکھ دیا کرتا اور کبھی نزلہ ہوا تو بغیر مجھے پوچھے فوری طور پر گرم پانی شہد میں ڈال کر میرے لئے لے آتا۔ اور کہتے ہیں جو میرے سے ملاقاتیں ہوتیں ان کا بڑے شوق سے ذکر کیا کرتا تھا۔ مختصر یہ کہ زندہ دل، مخلص، عاجز، نیک، دین کا سچا مجاہد، تقویٰ شعار محنتی یہ تمام الفاظ مظہر کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتا وہی اپنے دوستوں کے لئے بھی پسند کرتا اور کھانے پینے کے لئے جو کوئی چیزیں لاتا تو دوستوں کے لئے بھی لے کر آتا۔ سادگی سے زندگی بسر کرتا اور اس کو فضول خرچی کرتے بالکل نہیں دیکھا جو جوانی کی عمر میں بعض لڑکے کرتے ہیں۔ صفائی کا بہت خیال رکھنے والا اور نماز کا اور نماز تہجد کا باقاعدگی سے اہتمام کرتا۔ اس کے ایک کلاس فیلو کہتے ہیں کہ مجھے بھی اٹھاتا۔ انہوں نے کمرے میں ایک جائے نماز رکھی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ راتوں کو اٹھ کر نفل ادا کیا کرتا تھا۔ بلا ناغہ ہفتہ وار نفلی روزے بھی رکھتا اور چندے دینے کا بڑا اہتمام کرتا۔ ہر چیز میں ترتیب تھی۔ اپنے وقت کو بڑی عقل مندی سے تقسیم کرنے والا تھا۔ جامعہ کی روزانہ کی تدریس کے علاوہ ان کی یہ روٹین تھی کہ قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کرے۔ پھر جماعتی کتب کا کچھ مطالعہ کرے۔ پھر خواہ کیسا ہی موسم ہو ہر روز ورزش کرے۔ باقاعدگی سے اخبار کا مطالعہ کرے اور پھر دوپہر کو کچھ آرام بھی کرے جو صرف چند منٹ کا ہو اور پھر سونے سے پہلے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا۔ یہ تھیں اس کی خصوصیات۔ اور خطبہ جمعہ کے باقاعدہ نوٹس لیتا اور پھر خطبہ کے پوائنٹس کو اپنے دوستوں میں ڈِسکس (discuss) کرتا۔ یہ کہتے ہیں کہ خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے سچے فدائی تھے اور کبھی خلیفہ وقت یا نظام جماعت کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرتے۔ ہر تحریک پر لبیک کہتے اور دوسروں کو بھی یاددہانی کراتے۔ اپنے آپ کو خلیفہ وقت کے سپاہی سمجھتے اور یقینا تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ خلافت کے لئے میں جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں اور پھر وہ صرف الفاظ نہیں ہوتے تھے بلکہ جذبات ظاہر کر رہے ہوتے تھے کہ یہ حقیقت میں وہی کچھ کرنے والا ہے جو کہہ رہا ہے۔ کینسر تشخیص ہوا تو ان کے دوست کہتے ہیں کہ ہمیں حوصلہ دلایا کہ پریشان مت ہو۔ بس خدا کے آگے جھکو۔ خدا تعالیٰ پر ایمان اور توکل بہت پختہ تھا۔ اپنی بیماری کو اپنے اوپر ایک آزمائش سمجھ کر قبول کیا۔ کسی کے آگے پریشانی یا تکلیف کا اظہار انہوں نے کبھی نہیں کیا۔
ان کے ایک دوست مربی شرجیل لکھتے ہیں۔ نہایت اعلیٰ اخلاق والے اور پیارے دوست تھے۔ بہت سی خوبیوں کے مالک، خیال رکھنے والے، خلافت کے مقام کا حقیقی طور پر ادراک رکھنے والے، توکل علی اللہ بہت مضبوط تھا۔ جماعت کے لئے سب کچھ قربان کرنے والے تھے۔ ایک فدائی تھے۔ کبھی کسی کو تکلیف یا نقصان نہ پہنچاتے۔ ہر وقت مسکراتے رہتے۔ کوئی انہیں کتنا ہی تنگ کرتا کبھی غصہ نہیں دکھاتے، کبھی جوش میں نہیں آتے۔ کبھی فضول باتیں نہیں کیں۔ لغو باتوں سے اجتناب کرتے۔ آج تک کبھی انہیں برے الفاظ یا بدگوئی کرتے نہیں دیکھا۔ ہر وقت ہر کام کو بڑے صبر اور حوصلہ سے اور بڑی لگن اور محنت سے اور بڑی ذمہ داری سے کرتے۔ کبھی کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھتے تھے۔ ہر ایک کی مدد کرتے۔ سستی کا ان میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ جامعہ سے بہت محبت تھی۔ قوت ارادی بہت مضبوط تھی۔ تکلیف کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور آخر وقت تک بڑی ہمت سے اپنی بیماری کو بھی برداشت کیا۔ یہ کہتے ہیں کہ کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ لوگوں کو اس سے روکتے۔ ان میں وہ اوصاف تھے جو ایک مربی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے دوست لڑکے تو یہ کہتے ہیں کہ ممہدہ سے ہی کامل مربی تھے۔ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے والے تھے کہ میری trimmer کی آواز بھی اونچی ہے اس لئے جب لوگ سوئے ہوتے ہیں تو مَیں trim نہیں کرتا۔
کسی قسم کا تصنع نہیں تھا۔ جیسے اندر سے تھے ویسے ہی باہر تھے۔ قول و فعل میں مطابقت تھی۔ قرآنی احکامات کے پابند تھے۔ نوٹس تو ان کے اچھے تھے ہی لیکن ترجمۃ القرآن کے پابندی سے نوٹس بناتے تھے اسی وجہ سے ان کا ترجمہ بہت اچھا تھا۔
ایک جامعہ کے طالبعلم آفاق، مربی بن گئے ہیں۔ پاکستان سے آ کے یہاں داخل ہوئے تھے۔ پہلے وہ کچھ عرصہ جامعہ پاکستان میں پڑھے پھر یہاں ان کے والدین آ گئے تو وہ بھی یہیں آ گئے۔ کہتے ہیں کہ لوگ مجھے ملنے آئے تو مظہر بھی ملنے آیا اور دو منٹ کے بعد چلا گیا اور واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں بستر اور تکیہ وغیرہ تھے کہ تم یہ چیزیں لے کر نہیں آئے اس لئے میں نے لا کے تمہیں دے دی ہیں کیونکہ ان چیزوں کی ضرورت ہو گی۔ یہ کہتے ہیں کہ ہماری کلاس تین ماہ پہلے برادرم کی تیمار داری کے لئے سکاٹ لینڈ گئی تو بہت ہی خوش لگ رہے تھے۔ جب گھر ملنے گئے تو وہاں پر باقاعدہ بھرپور دعوت کا انتظام کیا ہوا تھا اور ہمیں زور دے کر کہہ رہے تھے کچھ نہ کچھ ضرور کھائیں۔ بہرحال انتہائی شریف اور وقف کی روح کو سمجھنے والا انسان تھا اور گو اس کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ موقع نہ دیا اور چھبیس سال کی عمر میں وفات ہو گئی لیکن جہاں بھی اپنے دوستوں کی تربیت کا موقع ملا تربیت کی۔ جہاں تبلیغ کا موقع ملا تبلیغ کی اور بڑی کھل کے تبلیغ کی بلکہ آخری وقت میں بھی اپنے سامنے کچھ لکھ کے لگایا ہوتا تاکہ آنے والے ہر ڈاکٹر اور نرس اس کو پڑھیں۔ جب بھی دو تین دفعہ ہسپتال میں اور گھر میں بیماری کے دوران فون پہ میری ان سے بات ہوئی تو بڑے حوصلے سے جواب دیا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ تو ان کی والدہ نے کہا کہ دوائیوں کی وجہ سے ان کے منہ میں کچھ چھالے پڑے ہوئے ہیں اور بولا نہیں جاتا۔ لیکن جب میرے سے بات کی تو صحیح طرح بول رہا تھا۔ میں نے اسے کہا بھی کہ تم آرام کرو۔ لیکن انتہائی خلوص اور وفا سے کہنے لگا نہیں، اب میرے چھالے اب مجھے کوئی تکلیف نہیں دے رہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فضل بھی کیا اور اس کے بعد پھر وہ چھالے ٹھیک بھی ہو گئے۔ تو انتہائی وفا دار اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والا احمدی بچہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس پر رحمتیں برساتا رہے۔ اس کے درجات بلند کرتا رہے۔ ہمیشہ اس کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور اس جیسے ہزاروں واقفین بھی پیدا ہوں جو اس باریکی سے اپنے مقصد کو سمجھنے والے ہوں۔ اور خاص طور پر ان کے والدین کے لئے، بہنوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور حوصلے میں بڑھاتا چلا جائے۔
خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:
ابھی نماز جمعہ کے بعد میں ان کا نماز جنازہ حاضر بھی پڑھاؤں گا، میں نیچے جاؤں گا احباب یہیں صفیں درست کر لیں۔
آج سے مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ یوکے (UK) کا اجتماع شروع ہو رہا ہے۔ ہمارے اجتماعات کی اصل روح تو یہ ہے جس کے لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت میں بڑھا جائے۔ علمی پروگرام اور مقابلے اس روح کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم نے ان باتوں سے کچھ سیکھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ بعض کھیلوں کے بھی پروگرام ہوتے ہیں تو اس لئے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے صحتمند جسم بھی ضروری ہے ورنہ نہ ہی انصار اللہ کی کھیل کود کی عمر ہے اور نہ ہی بائیس تیئس سال کی عمر کے بعد عموماً عورتیں کھیلوں میں کوئی زیادہ شوق رکھتی ہیں۔ انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی ذمہ داریوں کا خلاصہ ان کے اس عہد میں مذکور ہے جسے وہ اپنے اجلاسات میں دہراتے ہیں۔ ان عہدوں کے حوالہ سے انصار اللہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو اہم اور زرّیں نصائح۔
جامعہ احمدیہ یوکے کے ایک بہت پیارے طالبعلم مظہر احسن (مرحوم) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ حاضر جو کینسر سے شفا پانے کے بعد سینے کی انفیکشن کی وجہ سے وفات پا گئے۔ مرحوم کی مختلف خوبیوں کا تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 30؍ستمبر 2016ء بمطابق30تبوک 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔