جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیڈا 2016ء۔ پاکیزہ روحانی تبدیلیاں پیدا کریں

خطبہ جمعہ 7؍ اکتوبر 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال دنیا کی جماعتیں اپنے اپنے ملک کا جلسہ سالانہ منعقد کرتی ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر اس کا اجراء فرمایا تھا۔ (ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 611)

اور فرمایا کہ سال میں تین دن قادیان میں جمع ہوں۔ اس لئے جمع نہ ہوں کہ ہم نے کوئی میلہ کرنا ہے، کوئی لہو و لعب کرنی ہے، کھیل کود کرنا ہے، دنیاوی مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ نہیں، بلکہ اس لئے جمع ہوں کہ دینی علم میں اضافہ ہو اور معلومات وسیع ہوں۔ اس لئے جمع ہوں کہ معرفت ترقی پذیر ہو۔ (ماخوذ از آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351-352)

معرفت کیا ہے؟ کسی چیز کا علم ہونا، اس کی گہرائی کو جاننا یہ معرفت ہے۔ آپ کس معرفت میں ترقی کروانا چاہتے تھے؟ آپ چاہتے تھے کہ صرف سطحی طور پر ہی اس بات کا اظہار نہ ہو کہ ہم مسلمان ہیں یا ہم کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھنے والے ہیں بلکہ اسلام لانے کے بعد اپنے ایمان میں ترقی کرنی ہے۔ آپ نے یہ فرمایا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھتے ہو تو اس بات کی تلاش کرو کہ اللہ تعالیٰ کیا ہے اور ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کیا ہیں اور ہم نے کس طرح ادا کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو کس طرح سمجھنا ہے اور ان پر کس طرح عمل کرنا ہے۔ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانا ہے، خاتم الانبیاء مانا ہے تو پھر آپ کے احکامات اور آپ کی سنت کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کے راستے تلاش کرنے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 83۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اور آپؐ کی زندگی کیا تھی؟ اس کی معرفت کس طرح حاصل ہو؟ اس کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جواب ہر تفصیل پر حاوی ہے جو آپ نے ایک سوال کرنے والے کو دیا تھا۔ جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ پس جو قرآن کہتا ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی اور ہر عمل کی تفصیل ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 144-145 مسند حضرت عائشہؓ حدیث 25108 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ وہ معرفت ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جلسہ کا یہ مقصد ہے کہ روحانیت میں ترقی ہو۔ جب معرفت حاصل ہو جائے تو صرف علمی حظّ تک ہی یہ معرفت نہ رہے بلکہ اس کو روحانیت میں اور عمل میں ترقی کا ذریعہ بننا چاہئے۔ اگر روحانیت میں ترقی نہیں تو جلسہ میں شمولیت بے فائدہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جلسہ کا ایک فائدہ یہ ہے اور اس کے لئے ہر آنے والے کو کوشش کرنی چاہئے کہ آپس کا تعارف بڑھے اور صرف تعارف حاصل کر کے دنیا داروں کی طرح وقتی تعلق نہ ہو بلکہ ہر احمدی کو دوسرے احمدی کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے تعلق میں ترقی کرنی چاہئے اور یہ تعلق اتنا مضبوط اور مستحکم ہو جائے کہ کوئی بات اس تعلق میں رخنہ نہ ڈال سکے، اس کو توڑ نہ سکے۔ (ماخوذ از آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352)

پھر آپ نے فرمایا کہ تقویٰ میں ترقی کرو۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

یہ جلسہ کے مقاصد میں سے بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر ایک مومن حقیقی مومن نہیں بن سکتا اور تقویٰ یہی ہے کہ جو علم حاصل کیا، جو روحانیت کا معیار حاصل کیا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جو محبت کا تعلق قائم کیا ہے، آپس کے تعلقات میں جو خوبصورتی پیدا کی ہے اس میں اب دوام پیدا کرو۔ اسے باقاعدہ رکھو۔ اسے باقاعدہ اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ۔

پس یہ وہ باتیں تھیں جس کے لئے آپ علیہ السلام نے جلسہ کا انعقاد فرمایا اور فرمایا کہ ہر سال لوگ اس مقصد کے لئے قادیان آیا کریں۔ کتنے بابرکت جلسے ہوتے تھے وہ جن میں خود حضرت مسیح پاک علیہ السلام شامل ہو کر براہ راست جماعت کو نصائح فرمایا کرتے تھے۔ افراد جماعت کی تربیت فرمایا کرتے تھے۔ ان کی روحانی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کے بعد وہ باتیں تو نہیں ہو سکتیں۔ نبی کا مقام تو اسی کے لئے خاص ہوتا ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا، جو خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آیا، جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں احیائے دین کے لئے بھیجا یقینا وہ اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس سے خبر پا کر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے بعد قدرت ثانیہ کا نظام جاری ہوا جو خلافت کا نظام ہے۔ پس وہ جاری ہوا اور خلافت احمدیہ کے ذریعہ آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا کام جاری و ساری ہے۔ جلسوں کا سلسلہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلافت کا نظام جب جاری ہوا تو خلافت کی موجودگی میں تقریباً چالیس سال تک جلسے منعقد ہوتے رہے۔ پھر خلافت کے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد ربوہ میں جلسے منعقد ہوتے رہے اور ساتھ ہی جماعت کی وسعت ملکوں ملکوں میں ہونے لگی۔ گو کہ بیرونی مشن قادیان سے ہجرت سے پہلے بھی قائم ہونے شروع ہو گئے تھے۔ خاص طور پر افریقہ میں بڑی مضبوط جماعتیں قائم ہونے لگ گئی تھیں لیکن مزید مضبوطی اور وسعت ہر آنے والے دن اور مہینے اور سال میں بیرون پاکستان جماعتوں میں ہوتی رہی یہاں تک کہ دشمن نے اس ترقی کو دیکھ کر احمدیوں کے خلاف نہایت ظالمانہ قانون حکومت کے ذریعہ سے جاری کروایا جس کی وجہ سے خلیفہ وقت کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی اور ساتھ ہی وہاں سے احمدیوں کی ایک بڑی تعدادنے بھی ہجرت کی۔ خلیفۃ المسیح الرابع کے لندن ہجرت کر جانے کے بعد جہاں لندن کے جلسوں نے ایک نیا موڑ لیا اور وسعت اختیار کی وہاں دوسرے ممالک میں بھی جلسوں میں ایک نیا رنگ پیدا ہو اور پھر جس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی اور آج ہر جگہ جلسوں کے ایک نئے رنگ ہیں۔ یہ تو اب ممکن نہیں کہ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد جلسے کے لئے قادیان جائے، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جہاں خلیفہ وقت موجود ہے وہاں احمدیوں کی بڑی تعداد جلسہ میں شامل ہو سکے۔ دنیا میں جس طرح جماعتیں پھیل رہی ہیں اور ترقی کر رہی ہیں ضروری تھا کہ ہر ملک میں جہاں بھی جماعت ہے اس نہج پر جلسے منعقد کئے جائیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ہوتے تھے۔ سال میں کم از کم ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے ہمیں اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے تربیتی مقصد کے لئے جمع ہونے کا فرمایا تھا۔

پس آپ بھی آج یہاں اس لئے جمع ہیں کہ اس مقصد کو پورا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا تھا۔ ہر سال آپ اس مقصد کے لئے جمع ہوتے ہیں اور اس سال خاص طور پر آپ اس لئے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ جماعت کے قیام کے پچاس سال پورے ہو گئے ہیں۔ بعضوں کو شاید اس سے اختلاف بھی ہو گا لیکن کوئی نہ کوئی معیار مقرر کرنا پڑتا ہے۔ تو جب سے جماعت کی رجسٹریشن ہوئی ہے اس کو معیار مقرر کر کے پچاس سال گنے جاتے ہیں ورنہ کہا جاتا ہے کہ پہلے احمدی تو شاید یہاں 1919ء میں ہی آ گئے تھے۔ تو بہرحال جماعت اس سال اس ملک میں اپنے قیام کے پچاس سال منا رہی ہے اور اسی وجہ سے امیر صاحب نے خاص طور پر زور دے کر مجھے بھی بلایا کہ جماعت کینیڈا اس سال پچاس سال کے حوالے سے مختلف فنکشنز بھی کر رہی ہے اور اس لحاظ سے امید ہے کہ یہ جلسہ بھی بڑا ہو گا اس لئے آئیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ جب خلیفہ وقت کی موجودگی ہو تو لوگ بھی زیادہ آتے ہیں۔ اس سال اس وجہ سے، میرے آنے کی وجہ سے بیرونی ممالک سے بھی کافی لوگ آئے ہوں گے اور آ رہے ہوں گے۔

بہرحال اس سال کو آپ لوگ یہاں کے رہنے والے احمدی خاص اہمیت دے رہے ہیں۔ لیکن ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی اہمیت تو تبھی ہو گی جب ہر احمدی جو کینیڈا میں رہتا ہے اس بات کی کوشش کرے کہ ہم نے احمدی ہونے کے بعد جو عہد بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے باندھا ہے اسے ہم نے پورا کرنا ہے۔ جو توقعات آپ علیہ السلام نے ہم سے رکھی ہیں ان پر پورا اترنا ہے۔ ورنہ پچاس سال ہوں یا اس سے زیادہ سال ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پاکستان کے حالات کی وجہ سے بہت سے احمدی بھی پاکستان سے ہجرت کر کے دوسرے ممالک میں گئے اور آپ میں سے اکثریت اس ہجرت کے نتیجہ میں یہاں آئی ہے۔ آپ نے دینی آزادی کے حصول کے لئے ہجرت کی ہے اور یہاں کی حکومت نے آپ کو اس لئے یہاں کی شہریت دی تا کہ آپ آزادی سے اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کر سکیں۔ پس یہاں کے رہنے والے ہر احمدی کی علاوہ اس عہد کے جو وہ کرتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 70۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس مقصد کے لئے ہجرت کی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی نسلوں کو بتائیں کہ ہم پاکستان میں ایسے حالات سے آئے اور یہاں جو حالات بہتر ہوئے ہیں وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی شکرگزار بندہ بنتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے والے بنیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کے وقت بھی ہم نے جو عہد کیا ہے اسے پورا کریں جس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے اوپر لاگو کروں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اس زمانہ میں جس جامع رنگ میں یہ تمام باتیں اور جو احکامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھے ہیں اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ علیہ السلام سے بہتر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور باتوں کو اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ علیہ السلام نے جس نہج پر رہنمائی فرمائی ہے اسی کو اختیار کر کے ہم دینی احکامات اور اللہ تعالیٰ کے کلام پر مزید غور کر کے اپنے ذہنوں کو روشن اور اپنے ایمانوں کو پختہ کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بے شمار نصائح فرمائیں جو علم و عمل میں پختہ کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ آپ علیہ السلام ہم سے بیعت لینے کے بعد ہمارا ایک معیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ جلسوں کا مقصد بھی یہی معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہئے۔ اس وقت شاید بعض لوگ صرف جلسہ پر تو آ گئے لیکن پوری توجہ سے نہ سن رہے ہوں۔ بعض سفر کی وجہ سے تھکے ہوئے ہوں گے شاید اونگھ بھی رہے ہوں ان سب کو میں کہتا ہوں کہ یہ باتیں میں جو بیان کرنے لگا ہوں ان کو غور سے سنیں اور اس وقت توجہ سے اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کریں۔ آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آدمی برداشت نہ کرسکے۔ اور جلسہ پر آنے کا مقصد تبھی پورا ہو گا جب آپ یہ باتیں بھی سنیں جو میں کہہ رہا ہوں اور وہ تمام باتیں بھی غور سے سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو باقی مقررین اپنی تقریروں میں بیان کریں گے۔ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ایمان کو بڑھانے والی بھی ہیں، روحانیت میں ترقی دینے والی بھی ہیں۔ اور وقتی طور پر صرف نعرے لگا کر ان سے حظّ نہ اٹھائیں بلکہ پھر انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنائیں۔ جیسا کہ میں نے کہا میں چند باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں بیان کروں گا تا کہ آپ علیہ السلام کا کلام براہ راست کانوں میں پڑے اور دل و دماغ میں اترے اور وہ روحانی تبدیلی پیدا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں‘‘۔ فرمایا ’’قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے‘‘۔ یعنی اگر تم صرف اس بات پر خوش ہو جاؤ کہ مجھے پھل کا چھلکا یا خول مل گیا ہے تو یہ چیز بے فائدہ چیز ہے۔ اصل پھل سے تو تم محروم رہ جاؤ گے۔ عقلمند وہی ہے جو پھل حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ صرف چھلکا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’اگر مُرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی‘‘۔ یعنی اگر بیعت میں آئے ہو اور اپنی عملی حالت درست نہیں کرتے۔ صرف اس بات پر خوش ہو کہ میں نے جس کو مانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی بزرگی اپنی جگہ بیشک حق ہے، ٹھیک ہے لیکن ماننے والے کو فائدہ اس بزرگی سے تبھی ہوگا جب اس کا عمل بھی اس بزرگی سے مطابقت رکھتا ہو گا، اس کے کہنے کے مطابق ہو گا۔ آپ نے فرمایا ’’جب کوئی طبیب کسی کو نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دے تو اسے ہرگز فائدہ نہ ہوگا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا‘‘۔ جو نسخہ دیا گیا ہے اس کے مطابق دوائی بناؤ یا وہ دوائی خریدو پھر استعمال کرو تبھی تو فائدہ ہو گا۔ فرمایا کہ ’’جس سے وہ خود محروم ہے۔‘‘ یعنی خود ہی نسخہ تو لے لیا لیکن عمل نہ کر کے، اس کا استعمال نہ کر کے اپنے آپ کو محروم کر دیا۔ فرمایا ’’کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بناؤ‘‘۔ اور پھر آپ فرماتے ہیں ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا‘‘ (الشمس: 10) یعنی یقینا وہ کامیاب ہو گیا جس نے تقویٰ کو پروان چڑھایا۔ فرمایا ’’یوں تو ہزاروں چور، زانی، بدکار، شرابی، بدمعاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا وہ درحقیقت ایسے ہیں؟ ہرگز نہیں امتی وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر پورا کار بندہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ232-233۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر ایک موقع پر بیعت کے معیار کے بارے میں مزید کھول کر فرمایا کہ:

’’اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا اس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی، اسلام کا مدّعی سچا مدّعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آجاوے۔ لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ۔ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں واردنہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ167۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ موتیں کیا ہیں؟ یہ دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ دنیا کی چکا چوند سامنے ہے۔ قدم قدم پر یہاں ان ملکوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹانے کی کوشش میں دنیاوی سامان کئے گئے ہیں ان سے بچنا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اب دنیا کی حالت کو دیکھو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور یا اب دنیا میں مسلمان موجود ہیں۔ کسی سے کہا جاوے کہ کیا تُو مسلمان ہے؟ تو کہتا ہے الحمد للہ۔ جس کا کلمہ پڑھتا ہے اس کی زندگی کا اصول تو خدا کے لئے تھا مگر یہ دنیا کے لئے جیتا اور دنیا ہی کے لئے مرتا ہے اس وقت تک کہ غرغرہ شروع ہو جاوے۔‘‘ (آخری وقت پہنچ جاوے، سانس نکلنے لگے)۔ فرمایا کہ ’’نام اور چھلکے پر خوش ہو جانا دانشمند کا کام نہیں ہے۔ کسی یہودی کو ایک مسلمان نے کہا کہ تُو مسلمان ہو جا۔ اس نے کہا تُو صرف نام ہی پر خوش نہ ہو جا‘‘ (کہ تو مسلمان ہے۔ یہودی نے اسے کہا کہ) ’’مَیں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا اور شام سے پہلے ہی اُسے دفن کر آیا۔‘‘ خالدنام رکھنے سے ہمیشگی تو نہیں مل گئی۔ اس کی عمر لمبی تو نہیں ہو گئی۔ کہتا ہے شام کو بیچارہ بچہ فوت ہو گیا اور میں دفن کر آیا۔

فرماتے ہیں کہ ’’پس حقیقت کو طلب کرو۔ نرے ناموں پر راضی نہ ہو جاؤ۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسان عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّتی کہلا کر کافروں کی سی زندگی بسر کرے۔ تم اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھاؤ۔ وہی حالت پیدا کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ187۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک دفعہ چند اشخاص آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر بیعت بھی کر لی۔ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں کچھ نصائح فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’نیک بنو۔ متقی بنو۔ … یہ وقت دعاؤں سے گزارو‘‘۔ پھر مزیدنصیحت فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے۔ عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرّہ بھر فسادنہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں۔ ریا کاری (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے۔) عُجب (کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے)‘‘ کہ میں نے بڑا نیکی کا کام کر دیا ’’اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔ عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، عُجب، ریا، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو‘‘۔ فرمایا کہ ’’جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔ اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو، صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر اسے پیوے۔ اگر وہ ان دواؤں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہو گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے۔ اب آئندہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا۔ اب زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے‘‘۔ جو کچھ انسان اگر بعض نقصانات اٹھاتا ہے تو اپنے نفس کی وجہ سے اٹھاتا ہے۔ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ تو بڑا رحیم اور کریم ہے۔ فرمایا کہ ’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی‘‘۔ وہ اتنے عادی ہو جاتے ہیں۔ ’’اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے‘‘۔ پس استغفار بہت زیادہ کرنی چاہئے اور خاص طور پر ان دنوں میں جب آپ دعائیں کر رہے ہوں۔ جلسہ کا ماحول ہی دعاؤں کا ہے تو جہاں درود پڑھ رہے ہیں وہاں استغفار بھی بہت زیادہ کریں۔ فرمایا ’’کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ (الاعراف: 24)‘‘ کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ فرماتے ہیں ’’یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے‘‘۔ جب سے یہ دعا اللہ تعالیٰ نے سکھائی اس وقت سے یہ قبول ہو گئی۔ ’’غفلت سے زندگی بسر مت کرو‘‘۔ یہ دعا سکھائی ہی اس لئے ہے کہ قبول کی جائے۔ پس سنجیدگی سے یہ دعا کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امیدنہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بَلا میں مبتلا ہو‘‘۔ اگر غفلت سے زندگی نہیں گزر رہی تو کسی بلا میں مبتلا نہیں ہو سکتے۔ ’’کوئی بَلا بغیر اذن کے نہیں آتی‘‘۔ فرمایا کہ ’’جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔‘‘ یہ بھی دعا بہت پڑھنی چاہئے۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ274 تا 276۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک موقع پر ایک مجلس میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور باہمی اتفاق اور اتحاد پر بھی کچھ فرمائیں۔ اس پر آپ نے کچھ نصائح فرمائیں جن کا کچھ حصہ میں یہاں بیان کرتا ہوں۔ فرمایا کہ ’’مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ(آل عمران: 104)۔ یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو بُغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی؟‘‘ یعنی مہدی کے آنے پر آپس میں کینے اور بغض دور ہوں گے تو فرمایا کہ کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی؟ ’’وہ ضرور ہوگی۔ تم کیوں صبر نہیں کرتے۔ جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے۔ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے‘‘۔ یہ صالح جماعت تو انشاء اللہ بنے گی اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مخلصین پیدا ہو رہے ہیں۔ فرمایا کہ ’’جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں۔ جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ مَیں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہوکر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے۔ اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سرسبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ48-49۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس وہ لوگ جو آپس میں رنجشوں کو بڑھاتے ہیں ان کے لئے بڑے خوف کا مقام ہے۔ جب ہم نے اس زمانے میں اس شخص کو مانا ہے جو ہماری اصلاح کے لئے آیا ہے تو پھر ہمیں اس کے لئے کوشش بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی باتوں کو بھی ماننے کی ضرورت ہے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

انسانیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہ انسانیت کیا ہے اور انسانیت کے معیار کیا ہیں اور ایک مومن کو کیسا ہونا چاہئے۔ اس بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’انسان اصل میں اُنسان سے لیا گیا ہے یعنی جس میں دو حقیقی اُنس ہوں‘‘ (تعلق ہوں )۔ ’’ایک اللہ تعالیٰ سے اور دوسرا بنی نوع کی ہمدردی سے۔ جب یہ دونوں اُنس اس میں پیدا ہو جاویں اُس وقت اِنسان کہلاتا ہے۔ اور یہی وہ بات ہے جو انسان کا مغز کہلاتی ہے۔‘‘ یہی چیز ہے جو نچوڑ ہے انسانیت کا کہ دو تعلق پیدا کرو۔ ایک خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو۔ ایک آپس کے حقوق ادا کرو۔ فرمایا ’’اور اسی مقام پر انسان اولوالالباب کہلاتا ہے۔ جب تک یہ نہیں، کچھ بھی نہیں۔ ہزار دعویٰ کر دکھاؤ مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک، اس کے نبی اور فرشتوں کے نزدیک (یہ سب) ہیچ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ168۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے کام کاج اور کاروباروں سے منع تو نہیں کرتا بلکہ حکم دیتا ہے کہ سست نہ بیٹھو اور کام کرو لیکن مقصد دنیا نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ یہ ہمیشہ سامنے رہنا چاہئے۔ جہاں دنیا کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش ہو وہاں آخرت کی حسنات کے حاصل کرنے کے لئے بھی پوری کوشش کی ضرورت ہے۔

اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً (البقرۃ: 202)۔ اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے۔ لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کو جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جاوے۔ اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حَسَنَاتُ الْاٰخِرَۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائعِ حصولِ دنیا کا ذکر آ گیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔‘‘ پس دنیا کو حاصل کرنا منع نہیں لیکن اس لئے حاصل کرو اور اس طریق سے حاصل کرو کہ اس میں بھلائی ہو خوبی ہو، نہ کہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر، دوسروں کے حقوق غصب کر کے، دوسروں کے مالوں پر قبضہ کر کے۔ فرمایا ’’نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عار و شرم کا باعث۔ ایسی دنیا بیشک حَسَنَۃُ الْاٰخِرَۃ کا موجب ہو گی۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ91-92۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ ایسی دنیا جو تم کماؤ گے تو یہ دنیا آخرت کے لئے بھی حسنات کا باعث بنے گی کیونکہ ایسی دنیا کمانے والے پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی مخلوق کی خاطر، اس کے دین کی خاطر خرچ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے۔ لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں اگر جماعت کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہا اور ان سب باتوں پر عمل نہیں کرتا تو فرمایا کہ ’’محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آ جائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔ اعمال پَروں کی طرح ہیں۔ بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لئے پرواز نہیں کر سکتا۔‘‘ جس طرح پرندے پروں سے اڑتے ہیں، انسان کے اپنے اعمال جو ہیں وہ اس کو روحانی طور پر اڑاتے ہیں۔ ’’اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا جو ان کے نیچے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔ پرندوں میں فہم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیں تو جو کام اُن سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں۔ مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہ شہدنہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں‘‘۔ کبوتروں کی تربیت کرتے ہیں جو خط ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کے جاتے ہیں ’’ان کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے۔ کس قدر دُور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں‘‘۔ پرانے زمانے میں اسی کو استعمال کیا جاتا تھا۔ ’’اور خطوط کو پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح پر پرندوں سے عجیب عجیب کام لئے جاتے ہیں۔ پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لئے ہے یا نہیں‘‘۔ پس ہر کام سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں اس کام کرنے کی مجھے دین اجازت دیتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دیتا ہے؟ جائز ہے کہ نہیں ہے؟ یہ نہیں کہ دنیا کمانے کے لئے انسان ہر ناجائز طریقے کو اختیار کرنا شروع کر دے۔ فرمایا کہ ’’جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ سستی اور غفلت نہ کرے۔ ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑ جاتا ہے۔ اسی لئے خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہئے۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ439-440۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

تقویٰ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔ تقویٰ ہونا چاہئے، نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہو گی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزو اعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے۔ مگر اب خدا چاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکل نہیں ہو سکتے۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ357-358۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا کہ ’’شدید عذاب آنے والا ہے‘‘۔ بڑا انذار فرمایا آپ نے۔ ’’اور وہ خبیث اور طیب میں ایک امتیاز کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں فرقان عطا کرے گا جب دیکھے گا کہ تمہارے دلوں میں کسی قسم کا فرق باقی نہیں رہا۔ اگر کوئی بیعت میں تو اقرار کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا مگر عمل سے وہ اس کی سچائی اور وفائِ عہد ظاہر نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے۔ اگر اس طرح پر ایک نہیں سَو بھی مر جائیں تو ہم یہی کہیں گے کہ اس نے اپنے اندر تبدیلی نہیں کی اور وہ سچائی اور معرفت کے نور سے جو تاریکی کو دور کرتا اور دل میں یقین اور لذت بخشتا ہے دُور رہا اور اس لئے ہلاک ہوا‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ71 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس دنیا کی آج بھی جو حالت ہے وہ اس فکر میں ڈالنے والی ہے کہ دنیا کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب کہنے لگے کہ دنیا بڑی تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے تو ہمارا کیا ہو گا۔ تو اس کا جواب تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں بھی دے دیا ہے۔ یہاں بھی تفصیل بیان کی کہ

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

(درثمین اردو صفحہ 154)

پس یہ اصل ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کریں اور جہاں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کریں، اس کے بندوں کے بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ ان حسنات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے تحت حسنات ہیں اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک برائیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھول کر ہمیں قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد اعتقادی اور عملی لحاظ سے مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہی چیزیں ہیں جو ہماری نجات کا باعث ہیں اور یہی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہیں۔ ورنہ یہ پچاس سال یا پچہتّر سال یا سو سال جو بھی جماعتوں پر آتے ہیں اس انقلاب کے بغیر کوئی چیز نہیں ہیں۔ دنیا والے تو بیشک ان باتوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن دینی جماعتیں نہیں۔ اگر خوشی کے اظہار اس لئے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے احکامات پر چلنے میں ترقی کی ہے اور آئندہ مزید کوشش کریں گے تو یہ اظہار بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور جائز ہے لیکن اگر ہمارے قدم ہر قسم کی نیکیوں میں بڑھنے کے بجائے رک گئے ہیں یا پیچھے جانے شروع ہو گئے ہیں تو یہ قابل فکر بات ہے۔ پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور یہ ہمیشہ جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ جب یہاں جماعت کے پچہتّر سال پورے ہوں انشاء اللہ، تو ہم کہہ سکیں کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد کیا تھا اس پر نہ صرف ہم قائم ہیں بلکہ اس میں ترقی کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جلسہ کے دنوں میں یہ تین دن خاص طورپر دعاؤں میں گزاریں اور جلسہ کا جو مقصد ہے، یہاں کے پروگراموں کو سننے کا اس میں بھرپور حاضر ہو کر اس کو سنیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی بھی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ اکتوبر 2016ء شہ سرخیاں

    آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ جلسہ کا یہ مقصد ہے کہ روحانیت میں ترقی ہو۔ اگر روحانیت میں ترقی نہیں تو جلسہ میں شمولیت بے فائدہ ہے۔

    یہ تو اب ممکن نہیں کہ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد جلسے کے لئے قادیان جائے، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جہاں خلیفہ وقت موجود ہے وہاں احمدیوں کی بڑی تعداد جلسہ میں شامل ہو سکے۔ دنیا میں جس طرح جماعتیں پھیل رہی ہیں اور ترقی کر رہی ہیں ضروری تھا کہ ہر ملک میں جہاں بھی جماعت ہے اس نہج پر جلسے منعقد کئے جائیں۔

    جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ہوتے تھے۔ ہر احمدی کو دوسرے احمدی کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے تعلق میں ترقی کرنی چاہئے اور یہ تعلق اتنا مضبوط اور مستحکم ہو جائے کہ کوئی بات اس تعلق میں رخنہ نہ ڈال سکے، اس کو توڑ نہ سکے۔

    جماعت احمدیہ کینیڈا اس سال اپنے ملک میں قیام کے پچاس سال منا رہی ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی اہمیت تو تبھی ہو گی جب ہر احمدی جو کینیڈا میں رہتا ہے اس بات کی کوشش کرے کہ ہم نے احمدی ہونے کے بعد جو عہد بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے باندھا ہے اسے ہم نے پورا کرنا ہے۔ جو توقعات آپ علیہ السلام نے ہم سے رکھی ہیں ان پر پورا اترنا ہے۔ ورنہ پچاس سال ہوں یا اس سے زیادہ سال ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

    آپ علیہ السلام ہم سے بیعت لینے کے بعد ہمارا ایک معیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ جلسوں کا مقصد بھی یہی معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہئے۔

    خلافت احمدیہ کے ذریعہ آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا کام جاری و ساری ہے۔ جلسوں کا سلسلہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

    (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے احباب جماعت کو اپنے اندر پاکیزہ روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے نہایت اہم نصائح)

    فرمودہ مورخہ 07؍اکتوبر 2016ء بمطابق07؍اخاء 1395 ہجری شمسی،  بمقام انٹرنیشنل سینٹر Mississauga

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور