جلسہ سالانہ اور اللہ تعالیٰ کا فضل
خطبہ جمعہ 14؍ اکتوبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ گذشتہ ہفتہ منعقد ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ظاہر کرتے ہوئے اختتام کو پہنچا۔ اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں توفیق دیتا ہے کہ ہم باوجود محدود وسائل کے دنیا میں ہر جگہ جلسے منعقد کرتے ہیں اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے عمومی طور پر انتظامات بھی اچھے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر شعبہ کی پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے لوگ نہیں ہیں جو مختلف شعبہ جات میں کام کر کے اس کے بہتر معیار پیدا کر سکیں۔ رضا کار ہیں، والنٹیئرز ہیں، خدام میں سے بھی، اطفال میں سے بھی، انصار میں سے بھی، لجنہ اور ناصرات میں سے بھی۔ افسر بھی ان میں سے مقرر ہوتے ہیں، ماتحت بھی مقرر ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے کم پڑھا لکھا افسر مقرر کر دیا جاتا ہے تو چاہے کوئی ڈاکٹر ہو، انجنیئر ہو، پی۔ ایچ۔ ڈی ہو اس کی اطاعت کرتا ہے۔ کوئی یہ فرق نہیں ہوتا کہ میری تعلیم اعلیٰ یا میرا رتبہ اعلیٰ ہے۔ یہ اطاعت کا معیار جماعت احمدیہ میں ہم دیکھتے ہیں۔ اور ہر طرح سے پھر تعاون بھی کرتے ہیں۔ نہ صرف تعاون بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا پوری اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت کرتے ہوئے اپنے جو بھی فرائض ہیں، ڈیوٹی ہے، خدمت ہے اس کو سرانجام دیتے ہیں۔ ان تین دنوں میں خاص طور پر لگتا ہے ہر ڈیوٹی دینے والے کے دماغ سے دنیا داری کی سوچ بالکل غائب ہو گئی ہے۔ صرف جلسہ اور بے نفس ہو کر کام کرنا اکثریت کی سوچ ہوتی ہے یا ان سب کارکنان کی سوچ ہوتی ہے جو اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ پس یہ کوئی انسانی کام نہیں ہے جو سوچوں کو ایسے دھارے میں ڈالتا ہو، جو عمل کو بے نفس اور عاجزی عطا کرتا ہو۔ یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو جس جذبے سے تمام بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں، مرد کام کررہے ہوتے ہیں یہ کبھی پیدا نہ ہو سکے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان سب کارکنان کے دل میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے ہر سوچ سے بالا ہو کر، ہر خواہش سے بالا ہو کر اپنے آپ کو پیش کرنا ہے اور کام کرنا ہے اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کو پیش نظر رکھنا ہے۔
پس ہمیں سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے جماعت کو خدمت کرنے والے ایسے کارکن مہیا فرمائے ہیں جو باوجود پڑھے لکھے ہونے کے بے نفس ہو کر، اگر انہیں کہا جائے کہ ٹائلٹس کی صفائی کرو تو وہ بھی کرتے ہیں، کھانا پکانے کا کام کرو تو وہ بھی کرتے ہیں، کھانا کھلانے کا کام کرو تو وہ بھی کرتے ہیں۔ سکیورٹی کی ڈیوٹیاں دیتے ہیں، پارکنگ کی ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور اس طرح مختلف شعبہ جات میں ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا بے نفس ہو کر کام کرتے ہیں۔ بچے شوق سے اپنی ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ بچے جب جلسہ گاہ میں مہمانوں کو خاموشی اور ایک شوق سے پانی پلا رہے ہوتے ہیں تو غیر مہمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیسے تم لوگ ان بچوں میں یہ خدمت کا جذبہ پیدا کر دیتے ہو۔ دنیا کے ان حالات میں جب مسلمان دینی گروپ مدرسوں میں جانے والے بچوں اور نوجوانوں کو جہاد کے نام پر غلط کاموں اور ظلموں کی تربیت دے رہے ہیں، ظالمانہ طور پر انسانی جانوں کے خاتمہ کی کوشش کی جا رہی ہے، زندگیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جماعت احمدیہ کے بچے اور نوجوان زندگی بخش کام کر رہے ہیں۔ جب روحانی پانی پلانے اور روحانی مائدہ کھلانے کی مجلسیں لگی ہوتی ہیں تو ساتھ ساتھ بچے، نوجوان لڑکیاں، لڑکے مادی پانی پلانے اور کھانا کھلانے کے فرض کو بھی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور اس حقیقی جہاد میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں جو زندگیاں لینے کے لئے نہیں بلکہ زندگیاں دینے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کا اظہار بھی بعض لوگ کر دیتے ہیں کہ جب چھوٹے بچے بڑی خوشی اور ذمہ داری سے پانی پلا رہے ہوتے ہیں تو بے اختیار ان پر پیار آتا ہے۔ پس جہاں ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں وہاں تمام شامل ہونے والوں کو، جلسہ میں بیٹھ کر سننے والوں کو ان کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے جن میں سے کئی ایسے ہیں جو جلسہ کے انتظامات کے لئے جلسہ سے پہلے بھی کام کر رہے ہیں اور بعد میں بھی وائنڈ اپ کے کام کے لئے وقت دیتے ہیں۔ نہ ان کو اپنے ذاتی کاموں کے حرجوں کی پرواہ ہے، نہ مالی نقصان کی پرواہ کرتے ہیں۔ بعض مجھے ملے جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے جلسہ کی وجہ سے، ڈیوٹی کی وجہ سے اگر چھٹی نہیں ملی تو اپنی نوکریاں چھوڑ دیں۔ نہ ہی یہ لوگ اپنی نیند اور آرام کو دیکھتے ہیں اور ایک فکر کے ساتھ یہ لوگ کام کرتے ہیں کہ ہم نے خدمت کرنی ہے اور جلسہ کے انتظامات کو جس حد تک ہو سکے بہترین کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پس جہاں میں جلسہ میں شامل ہونے والوں سے کہتا ہوں، اس سے پہلے تو میں خود تمام کارکنوں، بچوں، مہمانوں، لڑکیوں، لڑکوں، عورتوں، مردوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا اور ایک خدمت کے جذبہ سے ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی خوشی سے اور بڑی ذمہ داری سے سرانجام دیا۔ یہ کام حقیقت میں ایک خاموش تبلیغ ہوتی ہے۔ بظاہر تو یہ کارکن کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن جو غیر آتے ہیں ان کے لئے بھی یہ تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے، کئی لوگوں کی ہدایت کا باعث بن جاتی ہے۔ چنانچہ امریکہ سے آئے ہوئے ایک غیر از جماعت دوست جو بنگالی ہیں اور بنگالی احمدیوں کے ساتھ آئے تھے، شہید الرحمن ان کا نام ہے کہتے ہیں کہ تمام زندگی ملاؤں سے جھگڑتے رہے اور جو اسلام ان کو پیش کیا گیا اس نے ان کو سنی مسجدوں سے دور رکھا۔ شدت پسندی سے انہیں نفرت تھی۔ ان کی بیوی ایک نیک عورت ہے۔ بیوی نے انہیں تاکید کی کہ آپ جماعت احمدیہ کے جلسہ پر جائیں۔ تقریباً 91 بنگالی امریکہ سے آئے تھے، چنانچہ اپنے بنگالی دوستوں کے ساتھ اس جلسہ پر آ کر انہوں نے جماعت احمدیہ کی افراد کی تربیت، محبت اور عزت دیکھی تو وہ کہتے ہیں کہ جلسہ دیکھنے کے ساتھ مَیں اسلام کی طرف دوبارہ لوٹ آیا ہوں۔ جلسہ کے آخری دن وہ لوگوں سے الگ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہجوم کی وجہ سے انہوں نے کھانے پر جانا پسندنہیں کیا۔ رَش تھا۔ اتنے میں ایک خادم ان کے پاس آیا اور انہیں کھانا اور پانی دیا اور پھر اس بات کا بھی انتظار کیا کہ وہ کھانا ختم کریں تا کہ وہ خادم ان کے کھانے کا ڈبہ بھی پھینک دے۔ اس واقعہ نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے مجھے ملاقات میں بتایا کہ جلسہ نے ان پر بہت گہرا اثر کیا ہے اور انشاء اللہ وہ جلد جماعت میں داخل ہو جائیں گے۔ تو اس طرح جلسہ سے تبلیغ بھی ہوتی ہے۔ اور پھر یہ ہے کہ صرف ایک خادم کے اعلیٰ اخلاق اور اس کی معمولی سی خدمت کرنا ان کی سوچوں کو بدلنے والا بن گیا۔ اس خادم کو تو شاید یہ بھی پتا نہیں تھا کہ وہ احمدی ہیں یا غیر احمدی۔ اس نے تو ایک جذبے کے تحت خدمت کی تھی لیکن یہ خدمت اس غیر میں روحانی تبدیلی کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح بعض سیاسی لوگ بھی ہیں، اس علاقے کے رہنے والے لوگ بھی ہیں جو عمومی طور پر جماعت کی خدمات کو جانتے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے رہتے ہیں ان پر بھی ہر دفعہ جلسہ کے انتظامات کا ایک نیا اثر ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اور پرسکون طریق پر لوگ عموماً بیٹھے ہوتے ہیں اور کارکنان بھی خاموشی سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈیب شولٹے (Deb Schulte) یہاں وان (Vaughan) پارلیمنٹ کے ممبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ جلسہ پر اتنے سارے رضاکار نظر آتے ہیں جو اس جلسہ کو نہایت منظم طریق سے چلا رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے اندازے کے مطابق آج یہاں پچیس ہزار سے زائد لوگ جمع ہیں اور اس لحاظ سے جلسہ کا منظم طریق پر چلنا رضاکاروں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ پس یہ رضا کار کارکن بڑا اثر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سب کارکنوں کا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ جہاں وہ مہمانوں کی خدمت بے نفس ہو کر کرتے ہیں وہاں ایک خاموش مبلغ بن کر احمدیت کا پیغام بھی پہنچا رہے ہیں اور ہر شامل ہونے والے کو بھی جتنے لوگ شامل ہوئے جیسا کہ پہلے میں نے کہا انہیں بھی ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کارکنوں کی خدمت کے جذبہ کو ہمیشہ بڑھاتا رہے اور ان کو اس خدمت کی بہترین جزا بھی دے اور ان سب کی صرف یہ ظاہری خدمت نہ ہو بلکہ ایمان اور یقین میں بھی بڑھاتا چلا جائے اور ان کے عمل بھی بہترین ہوں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہوں۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے کارکنان ہیں، ان کا جہاں جلسہ میں شامل ہونے والوں یا کینیڈا میں رہنے والوں کو جو جلسہ میں شامل نہیں ہوئے شکریہ ادا کرنا چاہئے وہاں دنیا میں رہنے والے احمدیوں کو بھی شکرگزار ہونا چاہئے۔ بہت سے کارکن یہاں کینیڈا کے لوکل والنٹیئرز (volunteers) ہیں۔ کچھ یہاں کام کرنے والے ہیں، کچھ لندن سے مرکز سے آئے تھے۔ ان سب نے ایک کوشش سے جلسہ کے تینوں دن بڑی محنت سے جلسہ کا لائیو پروگرام دکھانے کا انتظام کیا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ لندن سے بھی ٹیم تو آتی ہے جب بھی میں جہاں جاؤں۔ ایم ٹی اے کی مرکزی ٹیم اَپ لِنک کے لئے اس دفعہ اپنا ایک ڈش بھی ساتھ لے کر آئی تھی بجائے یہاں ہائر کرنے کے۔ اس سے بڑا فائدہ بھی ہوا اور ہم وقت کے لحاظ سے آزاد بھی رہے کیونکہ جب کرائے پر لو تو وقت کی پابندی بھی کرنی پڑتی ہے۔ کچھ وقت زائد ہو جائے تو زائد پیسے دینے پڑتے ہیں اور مجموعی طور پر اس لحاظ سے دس پندرہ ہزار ڈالر کی ہماری بچت بھی ہو گئی۔
پس ہر شعبہ کے کارکنان نے اپنے اپنے شعبہ میں جو کام کئے ہیں ان کا افراد جماعت کو شکرگزار ہونا چاہئے۔ اسی طرح کارکنان کو بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکرگزار بنو میں تمہاری استعدادوں اور تمہاری صلاحیتوں کو بھی بڑھاؤں گا اور اپنی باقی نعمتیں بھی عطا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ جب اَزِیْدَنَّکُمْ کہتا ہے تو کسی بات کو محدودنہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نوازتا ہے تو بیشمار نوازتا ہے اور ہر لحاظ سے نوازتا ہے۔ پس مومنین کا یہی طریق ہے کہ ہر کامیابی پر، ہر اچھی بات پر خدا تعالیٰ کے شکرگزار بنیں اور جہاں کمزوریاں دیکھیں وہاں اللہ تعالیٰ سے رحم مانگیں اور استغفار کریں۔ بڑے انتظامات میں کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن مہمانوں نے جو کمزوریاں نظر انداز کر کے عمومی طور پر ہر کام کی تعریف کی ہے اس کے لئے تمام کارکنان کو اپنے اور غیر سب مہمانوں کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ مثلاً کمزوریوں کا ذکر ہے تو جلسہ کے پہلے دن شعبہ مہمان نوازی نے حاضری کا صحیح اندازہ نہیں لگایا حالانکہ ایک دن پہلے مجھے بتایا تھا کہ ہم بائیس ہزار کا کھانا پکائیں گے۔ اتنے لوگ ہم expect کر رہے ہیں۔ جبکہ بیس ہزار کا کھانا پکا جس کی وجہ سے شعبہ کے اپنے اندازے کے مطابق دو ہزار لوگوں کو کھانا نہیں ملا اور اس کی انہوں نے معذرت بھی کی لیکن مہمان بھی جلسہ سننے کے مقصد کو آئے ہوئے تھے۔ اس دن یا اگلے دن بھی اگر کوئی کھانے میں کمی ہوئی تو بعض نے خوش دلی سے اسے برداشت کیا اور کوئی شکوہ نہیں کیا بلکہ بعض دوسروں کی اصلاح کا بھی باعث بن گئے۔ ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ ایک لمبا کیو (queue) کھانے کا لگا ہوا تھا، پہلے یہ کہا گیا کہ کھانا آ رہا ہے ختم ہو گیا ہے لیکن کافی انتظار کے بعد انہیں پھر کہا گیا کہ کھانا ختم ہو گیا ہے اب نہیں آئے گا۔ کہتے ہیں کہ میں تو اس بات پر انتظامیہ پر بڑا پیچ و تاب کھا رہا تھا، بڑے غصہ میں تھا اتنے میں ان کے آگے کھڑے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ الحمدللہ کھانا ختم ہو گیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ سوکھی روٹی کے کچھ ٹکڑے میرے پاس ہیں۔ آئیں اب ہم انہیں پانی میں ڈبو کے کھا لیں۔ اگر کھانا مل جاتا تو یہ سنت جو تھی ہم پوری نہ کر سکتے تھے تو آج اس سنت کو بھی پورا کر لیں۔ تو یہ کہنے والے مجھے لکھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر نہ صرف میرا غصہ دور ہو گیا بلکہ مجھے شرمندگی بھی ہوئی کہ کیوں مجھے غصہ آیا اور اس بات پر میں بڑا جذباتی ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہوئے ہیں۔ پس انتظامیہ بھی مہمانوں کی شکرگزار ہو جو ایسے اخلاق، اعلیٰ اخلاق دکھانے والے ہیں۔ اس دفعہ انتظامیہ کی طرف سے یہ خوش کن پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ بجائے اپنی باتیں چھپانے کے، اپنی کمزوریاں چھپانے کے انہوں نے اپنی کمزوریوں پر نظر رکھ کر ان کا اظہار بھی کر دیا۔ لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اب اپنی لال کتاب جو جلسہ کی انتظامیہ کے پاس ہے یہ سب کچھ اس میں لکھیں اور آئندہ بہتر منصوبہ بندی بھی کریں۔ ساتھ ہی میں یہ بھی بتا دوں کہ یہ جگہ بظاہر اب لگ رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اٹھارہ انیس ہزار، بیس ہزار تک لوگوں کو سنبھال سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اور اب جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے تو بڑی جگہ کا بھی انتظامیہ کو سوچنا چاہئے یا جماعت کو سوچنا چاہئے یا کم از کم اگر کبھی مجھے جلسہ پر بلانا ہو تو بہرحال یہ جگہ اب ناکافی ہے اس لئے اس بارے میں ضرور سوچیں۔ انتظامیہ نے جو اپنی کمزوریوں کا خود اظہار کیا ہے وہ بھی بتا دیتا ہوں اور اس میں بعض شکایتیں مجھے پہلے پہنچ چکی تھیں اس لئے وہ صحیح بھی ہیں۔ اگر اس کے علاوہ بھی کچھ ہو تو لوگ خود بھی انتظامیہ کو لکھ کر دے سکتے ہیں تا کہ بہتر انتظام ہو سکے۔
پہلی بات انہوں نے یہ لکھی کہ عرب مہمانوں کے کھانے کے معیار میں شکایت ملی ہے کہ کھانے میں مرچیں زیادہ تھیں، عربوں کے مطابق نہیں تھا اس کو ٹھیک کرنا چاہئے۔ پھر کھانے کی کمی کا اظہار انہوں نے کیا جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ پھر مردوں میں کھانا ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچا۔ ایک تو یہ ہے کہ فاصلہ زیادہ ہے۔ کھانا یہاں پکتا ہے اور پھر تیس کلو میٹر لے جانا پڑتا ہے۔ پھر یہ کھانے کے ٹرک غلطی سے مردوں کے بجائے عورتوں کے حصہ میں چلے گئے جس کی وجہ سے مردوں کو تکلیف اٹھانی پڑی۔ خیر مرد اگر تکلیف اٹھا لیں تو کوئی حرج نہیں۔ عورتوں اور بچوں کو بھوکا نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ وہاں چلا گیا۔
پھر انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھانا تیار کرنے والے کارکنان کی کمی تھی۔ اس کو پورا کرنا تو جماعت کا کام ہے۔ کام کرنے والوں کی جماعت میں کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف انتظامیہ کو یہ سوچ رکھنی ہو گی کہ ہم نے خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ لینے ہیں، اپنی پسند کے لوگ نہیں لینے۔ اس سوچ کو بھی بدلیں اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں بہت ہیں۔ جلسہ گاہ کے واش رومز میں لوگوں کو بڑا لمبا انتظار کرنا پڑا اور لوگوں کی شکایتیں بھی ہیں۔ انتظامیہ نے خود بھی محسوس کیا۔ بلکہ مجھے تو بعض شکایتیں پہنچی ہیں کہ صرف انتظار ہی نہیں کرنا پڑا بلکہ بعض لوگوں کو تو جن میں مریض بھی ہوتے ہیں، دوسرے بھی، بڑی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور میں نے خاص طور پر ایک دن پہلے ان کو اس بارے میں پوچھا بھی تھا کہ اس کا صحیح انتظام ہے کہ نہیں۔ جو مجھے بتایا گیا تھا اس کے مطابق تو مجھے لگتا ہے کہ صحیح انتظام نہیں تھا۔ اب آئندہ اگر وہاں مستقل انتظام نہیں ہے تو عارضی انتظام کرنا چاہئے۔
لنگر خانے میں آڈیو ویڈیو کا انتظام نہیں تھا۔ یہ تو انتظامی غلطی ہے اور حالانکہ بڑی ضروری چیز ہے کہ جو کارکن جلسہ سننے نہیں جا سکتے ان کے جلسہ سننے کا انتظام ہونا چاہئے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ مردوں کے پچھلے حصہ میں آواز صاف نہیں تھی۔ لیکن جب میرا خطبہ یا خطاب تھا تو مجھے یہ بتایا گیا کہ اس وقت میری تقریر کی آواز تو سننے میں بہتر تھی۔ اگر میری اطلاع غلط ہے تو جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے وہ مجھے بتا دیں کیونکہ میرے مطابق تو پہلے آواز اچھی نہیں تھی اور پھر ہمارے بعض کارکنوں نے اس کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح عربوں کے لئے ترجمہ کا انتظام تھا لیکن ان کو اطلاع نہیں کی گئی۔ بعض عرب مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن خطبہ سے محروم رہے۔ اگلے دن ان کو پتا لگا۔ حالانکہ یہ تو انتظامیہ کو اتنا تجربہ ہو جانا چاہئے کہ ترجمانی کے لئے بار بار مختلف زبانوں میں، جن جن زبانوں کی ترجمانی ہو رہی ہے وہاں اعلان ہونا چاہئے کہ فلاں جگہ سے اپنی ترجمانی کی ایڈ (aid) جو ہے وہ لے لیں اور بورڈ پر بھی لکھا ہونا چاہئے، انٹرنس (enterance) پر بھی لکھا ہونا چاہئے۔
اب مَیں بعض تاثرات مہمانوں اور اخبارات کے بیان کرتا ہوں جو پھر ہماری توجہ شکرگزاری کے مضمون کی طرف پھیرتے ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ اکثر لوگوں کے دلوں میں خود ڈالتا ہے۔ ہماری کوشش تو ان نتائج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
پہلے بعض اپنے سیرین عرب احمدی دوستوں کے تاثرات بیان کرتا ہوں۔ پہلی دفعہ ان کو اتنے بڑے جلسہ میں شامل ہونے کا اور آزادی سے عبادت کرنے کا موقع ملا کیونکہ وہاں تو پابندیاں تھیں۔ جب حالات خراب نہیں تھے تب بھی وہ آزادی نہیں تھی اور حالات خراب ہونے کے بعد تو کئی سالوں سے بیچارے پِس رہے تھے۔
ایک احمدی دوست احمد درویش صاحب کہتے ہیں کہ یہ میرا پہلا جلسہ تھا۔ کہتے ہیں جب میں جلسہ میں داخل ہوا اور خلیفہ وقت کی موجودگی دیکھی تو مجھے لگا کہ میں اسلام میں داخل ہوا ہوں۔ کہتے ہیں میری زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میری نماز خشوع و خضوع اور تضرع سے معمور ہو گئی ہے۔ پس یہ وہ تبدیلی ہے جو جلسہ میں شامل ہو کے ہر احمدی میں آنی چاہئے۔ صرف چند دن کے لئے نہیں بلکہ مستقل۔ یہ کہتے ہیں کہ میں کینیڈین مہمان کو بھی لے کر آیا تھا، سمپسن (Simpson) نامی شخص اپنی بیوی کے ساتھ آیا تھا۔ یہ شخص پہلے عیسائی تھا لیکن اب دہریہ ہو گیا ہے۔ جلسہ میں شرکت کے بعد اس نے کہا کہ میں نے محبت بھائی چارہ اور امن اور سلامتی کے بارے میں اس طرح کا مخلصانہ اور سچا کلام زندگی میں کبھی نہیں سنا اور مجھے اس طرح کے اسلام کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی۔ اللہ کرے کہ یہ خوشی اس کے دل کو کھولنے کا ذریعہ بھی بن جائے۔
اسی طرح ایک سیرین احمدی الحاج عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے تین دن ایسے تھے جن کو زندگی بھر نہیں بھلایا جا سکتا۔ دنیا کی سب سے اعلیٰ جماعت کے ہزاروں افراد کینیڈا میں اس دور میں بہترین انتظام کے ساتھ اکٹھے ہوئے تھے۔ پھر کہتے ہیں جلسہ کے انتظامات، استقبال، ہر ضروری چیز کی فراوانی حتیٰ کہ بچوں کے اچھل کود کو بھی مدّنظر رکھ کر مختلف انتظامات کرنا غیر معمولی تھا۔ جلسہ کا ماحول محبت اور اخوت کے جذبات سے پُر تھا۔ ہزاروں افراد کو بلانا اور ان کے نقل و حمل اور کھانے کا انتظام کرنا بذات خود ایک غیر معمولی امر ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں خطابات اور ان کی ترجمانی کا شعبہ بھی بہت اچھا تھا۔ کہتے ہیں میں نے ایک صحافی ٹیم اور ایک مسلمان فیملی کو دعوت دی تھی۔ وہ سب جلسہ کے حسن انتظام کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور انہوں نے خصوصی طور پر جو میرا آخری دن کا خطاب تھا اس کو بڑا پسند کیا اور احمدیوں کی اپنے امام کے لئے محبت ان مہمانوں کے لئے حیران کن امر تھا۔
اسی طرح عبدالقادر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے پہلی بار دیکھا کہ جلسہ کا کتنا بڑا کام ہوتا ہے اور کیسے ہر کارکن اپنے شعبہ میں شہد کی مکھی کی طرح بغیر کسی شور اور مشکلات پیدا کئے کام کرتا جاتا ہے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ اسے خدمت کا موقع دیا جائے خصوصاً جب انہیں پتا چلتا کہ میں عربی ہوں تو میرے ساتھ غیر معمولی اہتمام کے ساتھ پیش آتے تھے۔
پھر ایک ریم مصطفی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جلسہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود بہت زیادہ باترتیب اور منظم تھا۔ مجھے سب سے زیادہ اس روحانیت کا احساس ہوا جو لوگوں کے چہروں پر نظر آ رہی تھی۔ اللہ کرے کہ یہ روحانیت ہمیشہ نظر آتی رہے۔ ہم ان تمام لوگوں کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اس جلسہ کے کامیاب انعقاد، تقاریر کے ترجمہ اور دیگر کاموں میں حصہ ڈالا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری روحانیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پھر سلمیٰ جبولی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جلسہ کے نظم و ضبط اور انتظام کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت ایک جسم کی طرح متحد اور ایک دوسرے کے تعاون سے عبارت ہے۔ ہم ٹرانسپورٹ کے شعبہ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیں جلسہ پر لانے اور گھر واپس چھوڑنے کا احسن رنگ میں انتظام کیا۔ جلسہ میں مختلف ممالک، مختلف اقوام اور مختلف رنگوں کے افراد مل کر صرف ایک ہدف کے لئے کام کر رہے تھے اور وہ یہ کہ اسلام اور امن کا پیغام دنیا تک پہنچایا جائے۔
حسین عابدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں گزارے ہوئے لمحات میری زندگی کے خوبصورت ترین لمحات ہیں۔ میں ٹی وی پر مختلف جلسہ سالانہ دیکھا کرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ خدایا کبھی مجھے بھی خلیفہ وقت کے ساتھ جلسہ میں شرکت کی توفیق ملے لیکن میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ میری دعا اتنی جلدی قبول ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ مجھے اس سے بھی زیادہ عطا کرے گا جتنا میں نے مانگا تھا۔ میں جلسہ سالانہ کے سٹیج کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور ایسے میں ان مشکل ایام کی، ان اذیت ناک لمحوں کی داستان میری آنکھوں کے سامنے آ رہی تھی جو کہ میں نے سخت حالات میں شام اور ترکی میں گزارے اور اس وقت میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا اور میں نے کہا کہ ایک وہ اذیت ناک دن تھے اور ایک یہ دن ہیں کہ میں خلیفہ وقت کے سامنے بیٹھا ہوں۔ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔
ایک سیرین دوست ہیں فراز صاحب، کہتے ہیں میں نے پہلی بار جماعت کے کسی جلسہ میں شرکت کی ہے۔ اتنے لوگوں کو دیکھ کر مجھ پر تو دہشت طاری ہو گئی۔ (شاید ترجمہ کرنے والے نے دہشت لفظ لکھ دیا ہے یا انہوں نے واقعی کہا تھا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اصل میں محبت کے الفاظ میں انہوں نے ذکر کیا ہے) پھر یہ لوگ صرف کینیڈا سے ہی نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ نیز یہ کسی ایک قوم سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ مختلف رنگوں اور قوموں سے ان کا تعلق تھا۔ اسی طرح جلسہ میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس کے اعلیٰ انتظام اور حاضرین کا مختلف امور میں انتظامیہ کی ہدایات کا پاس کرنا اور اطاعت کا مظاہرہ کرنا نہایت ایمان افروز تھا اور جو چیز میرے لئے سب سے بڑی خوشی کا باعث ٹھہری وہ خلیفۃ المسیح کی موجودگی اور ان کے خطابات تھے جن سے میں تینوں دن مستفیض ہوا۔
بہرحال یہ چند احمدی لوگوں کے تاثرات تھے جو میں نے بیان کئے۔ نئے احمدی بھی اور پرانے بھی جو شام سے وہاں کے حالات کی وجہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں۔ غیروں کے بھی بعض تاثرات ہیں جو بیان کرتا ہوں۔ جماعت کے تعارف اور تبلیغ کے راستے ان ذریعوں سے کھلتے ہیں۔ جرمن قونصلیٹ یہاں آئے تھے جو مجھے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ میں چار ہفتے پہلے یہاں آیا ہوں۔ جماعت سے زیادہ تعارف نہیں تھا۔ مختلف ملکوں میں یہ رہتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے آج تک اسلامی تعلیمات کے متعلق ایسا جامع خطاب نہیں سنا (انہوں نے میری آخری تقریر سنی تھی)۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی بڑی مثبت ویژن (Vision) ہے۔ پھر میرے متعلق کہتے ہیں کہ حقیقی اسلام کو بیان کیا جو امن اور عدل اور محبت کی تعلیم دیتا ہے اور ہر لفظ میں ایک حقیقت نظر آر ہی تھی۔ کاش کہ دنیا کا میڈیا جتنا وقت عراق کے بغدادی اور ISIS کے پروپیگنڈے کو دیتا ہے اگر امن کے اس سفیر کو دے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہو جائے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہر فقرہ ان کا سچائی پر مبنی تھا اور دنیا کے امن کے قیام کے لئے ایک درد تھا۔ کہتے ہیں میں بھی اس پیغام کو جہاں تک میرے لئے ممکن ہوا آگے پھیلاؤں گا۔ تو غیر لوگ بھی اس طرح اللہ کے فضل سے ہمارے سفیر بن جاتے ہیں۔ ممبر آف پارلیمنٹ ہیں جوڈی (Judi) صاحبہ جنہیں یہاں رہنے والے لوگ جانتے ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ تمہارے خلیفہ نے حالات کے مطابق تمہارے سپرد ایک کام کیا ہے کہ وہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام ساری دنیا میں پھیلائیں گے اور اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ مسلمان اور غیر مسلم اپنے تعلقات محبت کے ساتھ استوار کریں اور سب عدل اور انصاف سے کام لیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو تیسری جنگ عظیم ہو گی اور یہ بات بہت واضح نظر آ رہی ہے۔ عوام الناس اور سیاست دان دونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا جس سے دنیا میں امن اور سلامتی قائم ہو گی۔ کہتی ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک مسلمان اور غیر مسلم کو دوسروں تک یہ پیغام پہنچانا چاہئے تا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ انتہا پسند گروپوں کے اعمال کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ انتہا پسند لوگ ہی ہیں جو اپنے مقصد کے لئے دوسروں کو بدنام کر رہے ہیں۔ ایک چرچ سیونتھ ڈے اونجلسٹ (Seventh-Day Evangelist) سے تعلق رکھنے والے مہمان آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ آج میرا دل بہت خوش ہے کہ خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں امن و سلامتی کے بارے میں بتایا ہے۔ اب ضروری ہے کہ لوگ جماعت احمدیہ کو پہچانیں۔ جو جماعت احمدیہ کام کر رہی ہے اس کا لوگوں کو علم ہو۔ مسلمان وہ نہیں ہیں جو میڈیا لوگوں کو بتاتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم تو بڑی پر امن ہے۔
بیلیز (Belize) سے وہاں کے ایک میئر آئے ہوئے تھے۔ یوکے میں بھی آ چکے ہیں۔ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کے اس خطاب کا مجھے بڑا گہرا اثر ہوا ہے کہ جس طرح بین الاقوامی معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ خلیفۃ المسیح نہ صرف احمدیوں کے لئے ہدایت کا باعث ہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح نے جو باتیں اپنے خطاب میں بیان کی ہیں میں انہیں کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔
ایک مہمان یہاں کے میئر ہیں وہ جماعت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمارے لئے یہ پیغام خاص موقع ہے۔ ہمیں اپنی روحانیت میں ترقی کرنی چاہئے اور سب انسانوں سے حسن سلوک کریں، یہ ہمیں پیغام ملا ہے قطع نظر اس کے کہ مذہب کیا ہے۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ جو آپ کے خلیفہ نے سکھایا ہے کہ امن کو دنیا میں قائم کرو۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو ادا کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔ برامپٹن (Brampton) سے آئے ہوئے ایک مہمان کہتے ہیں کہ جلسہ میں مجھے صرف ایک پیغام ملا کہ امن قائم کرو۔ پھر ایک مہمان نے میری آخری تقریر سنی اور کہتے ہیں کہ یہ حیران کن تھی۔ میرے پاس اپنے جذبات کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں۔ ایک خاتون ایم پی (MP) یاسمین اتنسی صاحبہ کہتی ہیں کہ خلیفہ کا پیغام، عورتوں سے خطاب بہت اچھا لگا۔ خاص طور پر ایک بات کہ ایک ماں پورے خاندان کے لئے بطور بنیاد ہوتی ہے اور تمام معاشرے کو مضبوط بناتی ہے۔
ایک خاتون میری لین صاحبہ کہتی ہیں کہ یہ میرا نواں جلسہ ہے۔ آپ کے خلیفہ کا خطاب سننے کے لئے میں بیتاب تھی۔ بڑا انتظار تھا۔ پھر کہتی ہیں کہ یہاں میں نے ہر ایک کو دوسرے سے ادب سے پیش آتے ہوئے دیکھا اور اس جلسہ کی اہمیت کا بھی سب کو احساس تھا۔ سیکیورٹی کا انتظام بھی بہت اعلیٰ تھا، ساؤنڈ سسٹم بھی بہت اچھا کام کر رہا تھا اور ویڈیو مانیٹر بھی اعلیٰ قسم کے تھے۔ ترجمہ کے لئے ہیڈ سیٹ کے استعمال کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ اس کے بغیر ہمارے جلسہ میں آنے کا مقصد پورا نہیں ہونا تھا کیونکہ جماعت احمدیہ کے امام کی پھر میں باتیں نہ سن سکتی۔ کہتی ہیں ہمیشہ کی طرح آپ لوگ مہمانوں سے بڑے ادب سے پیش آتے ہیں، احترام سے پیش آتے ہیں اگرچہ ہم سب اس کے حقدار نہیں ہیں۔ ہم اس بات پر آپ سب کے شکرگزار ہیں۔ ہزاروں احمدیوں کو امن اور محبت میں سرشار دیکھ کر بہت اثر ہوا اور یہ منظر یورپ اور عرب میں نیگیٹیوٹی (negativity) کے برعکس تھا حاضرین جلسہ کے اتحاد کو دیکھ کر مجھے اطمینان محسوس ہوا۔
جلسہ سالانہ پر جو بھی مہمان آتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا تأثر لے کر جاتے ہیں۔ بیرونی ممالک سے بھی کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ ایک آدھ کا میں نے ذکر کیا اور بڑے اچھے تاثر لے کر گئے ہیں۔ خاص طور پر یہاں سینٹرل امریکہ کے اور ساؤتھ امریکہ کے لوگ ہمارے جلسوں پہ آتے ہیں اور جب جلسہ کا ماحول دیکھتے ہیں تو اسلام کے بارے میں جو ان کے غلط تصورات ہیں وہ دور ہو جاتے ہیں۔ اور ان ممالک میں ہمارے مشن کیونکہ ابھی نئے نئے شروع ہوئے ہیں۔ ابھی چند احمدی ہیں جنہوں نے چند سال پہلے، ایک دو تین سال پہلے بیعتیں کی ہیں اور جماعتیں بنی ہیں۔ بعض مشکلات اور دقتیں بھی سامنے آتی ہیں تو بعض اعلیٰ افسران کے جلسوں پر آنے کی وجہ سے، حقیقت دیکھنے کی وجہ سے ہمیں پھر وہاں کام کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے اور ان کا تعاون حاصل ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ تو ان ممالک سے یوکے (UK) کے جلسہ پر آتے ہیں لیکن کچھ لوگ یہاں بھی آئے ہوئے تھے۔ پس جلسہ اس لحاظ سے بھی تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ بہرحال جلسہ سالانہ جہاں اپنوں کے لئے روحانی بہتری کے سامان پیدا کرتا ہے وہاں غیروں کے لئے بھی جماعتی تعارف اور تعلقات کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو پتا چلتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے مسلمان ممالک کے حالات اور اس کی وجہ سے دنیا کے حالات جو سامنے آ رہے ہیں اس نے میڈیا کی نظر بھی جماعت احمدیہ کی طرف پھیری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کی اس طرف توجہ دلوائی کیونکہ پہلے تو باوجود کہنے کے یہ لوگ نہیں آتے تھے۔ لیکن اس کے بعد ہمارے نوجوان جو ہیں ان کا بھی بڑا کردار ہے جنہوں نے میڈیا کے ساتھ تعلقات بنائے اور رابطے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے وسیع پیمانے پر کئے۔ کینیڈا کی میڈیا ٹیم میں بھی جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے بڑی محنت سے پریس اور میڈیا سے رابطوں میں اضافہ کیا ہے۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کینیڈا میں بھی ہمارے نوجوان اس حد تک اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو یہاں آ کر دیکھ کر مجھے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماشاء اللہ نوجوان بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اکثر لوگوں کو میں نے یہاں کام کرتے دیکھا۔ تو یہ بھی ایک تبلیغ ہے جو پریس کے ذریعہ سے ہمارے نوجوان کر رہے ہیں۔ ان میں بڑا جوش ہے۔ بعض بڑے بڑے اخبارات اور چینل سے رابطے کرتے رہے۔ بعض چینل تو بڑی اچھی رسپانس دیتے رہے۔ بعض کہہ دیتے تھے کہ ہمیں مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے ہم تمہارے جلسے کی خبریں نہیں شائع کر سکتے یا تمہارا خلیفہ اگر آئے ہیں تو ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہم کوریج کے لئے نہیں آ سکتے۔ بعض نوجوان اس بات سے بے چین بھی ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ بھی ان کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے نظارے دکھا دیتا ہے، سامان پیدا کر دیتا ہے۔ مثلاً ایک اخبار یا چینل سے انہوں نے رابطہ کیا تو اس نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ ایک سیرین نے بھی ذکر کیا کہ میں (صحافی) لے کے آیا۔ غالباً یہ وہی صحافی ٹیم تھی۔ ہمارے نوجوان چاہتے تھے کہ یہ (چینل والے) اپنا نمائندہ ضرور جلسہ پر لے کر آئیں تا کہ احمدیت کا صحیح پیغام، اسلام کا صحیح پیغام قوم کو پہنچے۔ تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کام کرتا ہے۔ اس چینل نے سیرین ریفیوجیز پر شاید کوئی ڈاکیومنٹری بنانی تھی۔ جب وہ اس کے لئے سیرین ریفیوجیز کی تلاش میں نکلے تو اتفاق سے بلکہ کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا، تقدیر ہی یہی تھی، ان کا رابطہ جن سیرین سے بھی ہوا وہ احمدی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جلسہ ہو رہا ہے وہاں آ جاؤ اور وہیں سب کچھ پتا چل جائے گا۔ وہیں ہم بات کریں گے۔ تو اس طرح اس میڈیا کو بھی جو پہلے انکار کر چکا تھا وہاں آنا پڑا۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ بھی جماعت کا تعارف وسیع پیمانے پر کسی نہ کسی ذریعہ سے کروا رہا ہے اور میڈیا کا بھی دنیا میں آجکل جو کردار ہے اس سے بڑے وسیع پیمانے پر جماعت احمدیہ کا تعارف ہو رہا ہے اور جو احمدی اس کے لئے والنٹیئر کرتے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ مزید محنت اور عاجزی سے اس کام کو بڑھاتے چلے جائیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اصل اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہمیشہ شامل حال ہوتا ہے اور اسی فضل کو ہمیشہ تلاش کرنا چاہئے۔
اخبار، ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے میڈیا کے کچھ لوگ پہلے دن جمعہ کو آئے ہوئے تھے جو جلسہ کا پہلا دن تھا۔ ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس بھی تھی یا انٹرویو لیا انہوں نے اس کی بھی اچھی کوریج ہوئی ہے اور جماعت کا تعارف ہوا ہے اسلام کی حقیقی تعلیم بتائی گئی۔ ان کو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچایا۔ میری تو یہ کوشش ہوتی ہے کہ حالات حاضرہ پر بات ہو یا جماعت احمدیہ پر جس طرح بھی ہو اس کو کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے جوڑوں تاکہ اسلام کی حقیقت ان لوگوں کو پتا چلے۔
بہرحال میڈیا نے جو جلسہ کی کوریج دی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کینیڈا کے سب سے بڑے تین اخبارات Toronto Star، The Globe and Mail اور National Post نے وسیع پیمانے پر جلسہ کی خبر کی اشاعت کی۔ ان کے خیال میں 3.9ملین سے زائد افراد تک یہ پیغام پہنچا۔ تین بڑے اخبارات کے علاوہ پچیس سے زائد دوسرے بڑے اخبارات کے ذریعہ پانچ لاکھ سے زائد لوگوں تک یہ پیغام پہنچا۔ اردو کے آٹھ، پنجابی کے دس ہسپانوی عربی اور بنگالی کے تین تین اخبارات کے ذریعہ تین لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ کینیڈا کا سب سے بڑا ریڈیو سٹیشن 680 News جس کے سامعین کی تعداد کہتے ہیں اڑھائی ملین ہے اس کے ذریعہ جلسہ کی خبر پہنچی۔ سماجی روابط کے ذریعے جن میں ٹوئٹر، انسٹا گرام، فیس بک اور periscope شامل ہے اس کے ذریعہ ان کا خیال ہے بیس لاکھ سے زائد لوگوں تک پیغام پہنچا۔ پھر سی ٹی وی، گلوبل ٹی وی، سٹی ٹی وی، راجرز ٹی وی اور سی بی سی سمیت سولہ سے زائد مین سٹریم ٹی وی چینلز نے جلسہ کے حوالہ سے خبر نشر کی جس کے ذریعہ سے ان کے خیال میں پچیس لاکھ افراد تک پیغام پہنچا۔ اردو، پنجابی، بنگالی، عربی، گھانین اور دیگر زبانوں میں ٹی وی نشریات کے ذریعہ جلسہ سالانہ کی خبر ایک لاکھ لوگوں تک پہنچی۔ بہرحال یہ کہتے ہیں مجموعی طور پر ٹی وی کے ذریعہ سے 6.6ملین افراد تک، اخبارات کے ذریعہ سے 2.8 ملین افراد تک، ریڈیوز کے ذریعہ سے 3.5 ملین افراد تک، سوشل میڈیا کے ذریعہ سے 2.8ملین افراد تک اور مجموعی طور پر ان کے خیال میں یہ جو رپورٹ ہے اس کے مطابق سولہ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا۔ اگر بہت محتاط اندازہ بھی لگائیں تو کم از کم بھی دس ملین تک تو جلسہ کے حوالے سے جماعت کا تعارف اور پیغام پہنچا ہو گا۔ جو خبریں میں نے میڈیا پر دیکھی ہیں یا سنی ہیں اس پر انہوں نے بڑے ایمانداری سے خبر دی ہے۔ جماعت کی خبر دی ہے، جلسہ کی خبر دی ہے، ہماری تعلیم کی خبر دی ہے۔
پس یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو وہ کر رہا ہے اور جماعت کا تعارف پھیل رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات ہماری توجہ بھی اس طرف پھیرتی ہے کہ ہم انہی باتوں پر خوش نہ ہو جائیں بلکہ اپنی روحانی حالت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو بڑھائیں۔ ہر اس بات کو برا سمجھیں جسے اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے اور ہر اس بات پر عمل کریں جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ خدمت کا موقع دے رہا ہے تو اسے فضل الٰہی جانیں اور تمام عہدیدارن بھی اور خدمت کرنے والے بھی اپنے فرائض کو تقویٰ پر چلتے ہوئے انجام دینے کی کوشش کریں اور تمام شاملین جلسہ اور سننے والے بھی اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم نے جلسہ پر جو سنا ہے اسے ابھی تک اپنایا ہوا ہے؟ زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اور یہ بھی جائزے لیں کہ کس طرح ہم نے نیک باتوں کو ہمیشہ اپنائے رکھنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی شکر گزاری عارضی اور وقتی شکرگزاری نہیں۔ پس اس چیز کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور یہی بات ہے جس سے پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کو مزید بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ان سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں پر عمل کرنے کی ہر احمدی کو توفیق دے جو حقیقت میں خداتعالیٰ کو پہنچاننے والے اور اس سے تعلق جوڑنے والے ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں توفیق دیتا ہے کہ ہم باوجود محدود وسائل کے دنیا میں ہر جگہ جلسے منعقد کرتے ہیں۔ ان تین دنوں میں خاص طور پر لگتا ہے ہر ڈیوٹی دینے والے کے دماغ سے دنیا داری کی سوچ بالکل غائب ہو گئی ہے۔ صرف جلسہ اور بے نفس ہو کر کام کرنا اکثریت کی سوچ ہوتی ہے۔ یہ کام حقیقت میں ایک خاموش تبلیغ ہوتی ہے۔
ہر شعبہ کے کارکنان نے اپنے اپنے شعبہ میں جو کام کئے ہیں ان کا افراد جماعت کو شکرگزار ہونا چاہئے۔ اسی طرح کارکنان کو بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔
جلسہ سالانہ جہاں اپنوں کے لئے روحانی بہتری کے سامان پیدا کرتا ہے وہاں غیروں کے لئے بھی جماعتی تعارف اور تعلقات کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو پتا چلتی ہے۔
میری تو یہ کوشش ہوتی ہے کہ حالات حاضرہ پر بات ہو یا جماعت احمدیہ پر جس طرح بھی ہو اس کو کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے جوڑوں تاکہ اسلام کی حقیقت ان لوگوں کو پتا چلے۔
جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ڈیوٹیاں دینے والے کارکنان سے اظہارِ تشکر۔ جلسہ میں شامل ہونے والے احمدی و غیر احمدی معزز مہمانوں کے تأثرات۔
اخبارات، ٹی وی چینلز و دیگر سوشل میڈیا پر جلسہ سالانہ کینیڈا کی بھر پور کوریج کا تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 14؍اکتوبر 2016ء بمطابق14؍اخاء 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الاسلام، ٹورانٹو، کینیڈا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔