مبلغ بشیر احمد رفیق خان اور واقف زندگی ڈاکٹر مکرمہ نصرت جہاں
خطبہ جمعہ 21؍ اکتوبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج میں جماعت کے دو خادموں کا ذکر کروں گا جن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے جن میں سے ایک مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب ہیں۔ اور دوسری فضل عمر ہسپتال کی شعبہ گائنی کی ڈاکٹر نصرت جہاں ہیں۔ جو انسان بھی دنیا میں آیا اس نے ایک دن یہاں سے رخصت ہونا ہے لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جن کو اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائے اور انسانیت کی خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
بشیر رفیق خان صاحب پرانے، دیرینہ خادم سلسلۂ مبلغ سلسلہ تھے۔ پھر مختلف انتظامی کاموں میں بھی ان کو مقرر کیا گیا۔ بڑی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کا 11؍اکتوبر 2016ء کو تقریباً 85 سال کی عمر میں لندن میں انتقال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے (BA) کیا۔ پھر شاہد کی ڈگری جامعۃ المبشرین سے 1958ء میں حاصل کی۔ یہ خاندان پرانا احمدی خاندان ہے۔ ان کی والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا جو حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کا نام دانشمند خان تھا۔ وہ 1890ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے اور صاحب رؤیاوکشوف آدمی تھے۔ بشیر رفیق خان صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے والدنے 1921ء میں احمدیت قبول کی تھی جس پر گاؤں والوں نے ان کا بائیکاٹ بھی کر دیا۔ ان کے والد کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک خط بشیر خان صاحب کو لکھا تھا کہ آپ کا خط ہمیشہ آپ کے بزرگ باپ کی یاد دلا کر ان کے لئے دعا کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ قول اور فعل میں تضاد سے پاک، خلوص اور سچائی کا مجسمہ تھے۔ یہ ہے وہ خصوصیت جو ایک احمدی کی، ایک مومن کی شان ہے۔ لکھتے ہیں کہ مجھے ان سے گہرا تعلق تھا اور ہے اور اس کا اظہار ہمیشہ دعا کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی ساری اولاد کو ان کا حقیقی وارث بنائے۔ ان کی شادی 1956ء میں سلیمہ ناہید صاحبہ سے ہوئی جو عبدالرحمن خان صاحب کی بیٹی تھیں جو خان امیر اللہ خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ ان کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ 1945ء میں خان صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل ہوئے اور اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی۔ انہی دنوں ایک خطبہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نوجوانانِ احمدیت کو زندگی وقف کرنے کی تحریک کی چنانچہ نماز جمعہ کے ختم ہوتے ہی کئی نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے اور ان خوش نصیب نوجوانوں میں یہ بھی شامل تھے۔ اور اس زمانے میں باقاعدہ انتظام اس طرح نہیں تھا تو اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذاتی خط ان کو ملا کہ آپ کا وقف قبول کیا جاتا ہے۔ 1947ء تک جب تک پارٹیشن نہیں ہوئی انہوں نے قادیان میں تعلیم جاری رکھی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد یا شاید پارٹیشن سے کچھ عرصہ پہلے اپنے علاقے میں چلے گئے تھے۔ کالج میں جب داخلہ لے لیا تو یہ کہتے ہیں اچانک ایک دن مجھے پرائیویٹ سیکرٹری کا خط ملا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ قادیان میں ایک پٹھان طالبعلم تھا جس نے زندگی وقف کی تھی لیکن اس کا نام نہیں پتا کون تھا اور پارٹیشن کی وجہ سے ریکارڈ بھی گم ہو گیا یا ربوہ میں موجودنہیں۔ اس کا پتا کریں۔ 1945ء میں پڑھنے والے طلباء میں سے کون تھا وہ جس نے وقف کیا تھا۔ اتفاق سے ان کے گھر خط آیا۔ انہوں نے لکھا کہ وہ مَیں ہی تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے انہیں حکم دیا کہ فوراً ربوہ حاضر ہو جائیں اور تعلیم الاسلام کالج لاہور میں داخلہ لو اور بی اے کرو۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث وہاں کے پرنسپل تھے۔ کہتے ہیں کہ 1953ء میں جب امتحان کی تیاری میں مصروف تھا تو اچانک اینٹی احمدیہ فسادات پھوٹ پڑے اور اسی حالت میں ہم نے امتحان بھی دیا اور کہتے ہیں اس امتحان کا جو نتیجہ نکلا اس سے مجھے بڑا سخت صدمہ پہنچا کیونکہ مَیں فیل ہو گیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ ساتھ مجھے یہ بھی پریشانی تھی کہ اگر مجھے فیل ہی ہونا تھا تو اللہ تعالیٰ نے تو امتحان سے پہلے مجھے پرچہ بھی دکھا دیا تھا کہ یہ پرچہ آئے گا اور وہ آیا بھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی بڑے وثوق سے کہا تھا کہ تم پاس ہو جاؤ گے۔ کہتے ہیں میرا ایمان اس بات پر بعض دفعہ متزلزل ہونے لگ جاتا تھا۔ اخبارات میں نتیجہ آیا۔ میں بڑا افسردہ بیٹھا تھا۔ میرے والد صاحب نے پوچھا کیا وجہ ہوئی؟ تو میں نے وجہ بتائی تو انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ دوبارہ امتحان دے دینا کیونکہ فسادات کی وجہ سے پنجاب میں تیاری نہیں کر سکے ہو گے۔ چند دن گزرے تو ان کے والد صاحب نے کہا کہ مَیں جب بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں تو مجھے تو یہی آواز آتی ہے کہ بشیر احمد تو پاس ہو چکا ہے۔ اور جو میں نے کالج کا نتیجہ دکھایا تو خیر خاموش ہو جاتے تھے۔ پھر چند دن بعد کہتے مجھے تو یہی جواب آ رہا ہے کہ تم پاس ہو چکے ہو۔ کہتے ہیں ایک دن اتفاق سے ڈاک میں بہت سارے خطوط آ گئے۔ اس میں ایک خط یونیورسٹی کی طرف سے بھی تھا جو میں نے کھولا تو میں حیران رہ گیا۔ یونیورسٹی نے کہا کہ غلطی سے تمہیں فیل قرار دے دیا گیا تھا۔ اب پرچوں کی دوبارہ پڑتال ہونے کے بعد تم پاس قرار دئیے گئے ہو۔ کچھ دنوں کے بعد یہ کہتے ہیں کہ مَیں خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور سے سارا واقعہ بیان کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ مَیں نے تمہیں بتایا تھا کہ مجھے دعاؤں کے بعد تمہارے پاس ہونے کی خبر دی گئی ہے جس کی اطلاع مَیں نے تمہیں کر دی تھی کہ تم پاس ہو جاؤ گے۔ پس یہ جو رزلٹ آیا ہے واضح ہے۔ خدائی بات کو کون ٹال سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا تو بتایا تھا۔ یہ تو پھر مذاق بن جاتا کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو بھی اور ان کے والد کو بھی یہ بتا رہا ہے اور رزلٹ اَور ہے۔ آخر وہی بات صحیح ثابت ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے بتائی تھی۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ جامعہ میں داخل ہو جاؤ اور شاہد کی ڈگری حاصل کرو۔ میری خواہش ہے کہ تمہیں میدان تبلیغ میں بھجوایا جائے۔ کہتے ہیں کہ جامعہ کی ہماری کلاس کو یہ خاص اعزاز بھی حاصل تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی چند مرتبہ وہاں تشریف لائے اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کرنے کے طریقے کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی کہ ہر طالبعلم کو اپنی لائبریری بنانی چاہئے اور کتابیں خریدنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور یہ بات ایسی ہے جو ہر جامعہ کے طالبعلم کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ اب دنیا میں بے شمار جامعات ہیں، واقفین زندگی ہیں ان کو اپنی لائبریریاں بنانی چاہئیں۔ گزشتہ دنوں لندن میں مربیان کی میٹنگ تھی وہاں بھی مَیں نے ان کو کہا تھا کہ مربیان کی اپنی لائبریریاں بھی ہونی چاہئیں، صرف جماعتی لائبریری پہ انحصار نہ کریں۔ کہتے ہیں جامعۃ المبشرین کی درسگاہ سے شاہد کی ڈگری لے کر مَیں وکالت تبشیر میں حاضر ہو گیا۔ مکرم مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تھے۔ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا کہ اس کو انگلستان بھجوا دیا جائے۔ پھر کہتے ہیں انگلستان جانے کے لئے بھی وکیل التبشیر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے ملاقات ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تفصیلی ہدایات لکھوائیں، دعائیں دیں، رخصت کیا، معانقہ کیا اور انگلستان 1959ء میں آپ کی تقرری ہوئی۔ وہاں پہنچ گئے اور مسجد فضل لندن میں نائب امام کے طور پر خدمات کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہتے ہیں کہ 1959ء میں جب انگلستان کے لئے روانہ ہوئے تو ایک دن مولانا جلال الدین صاحب شمس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کچھ نصائح کرنے کی درخواست کی۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی بڑا لمبا عرصہ امام مسجد لندن رہے تھے تو انہوں نے مختلف نصائح کیں اور فرمایا کہ ایک نصیحت میں تمہیں کرتا ہوں وہ یہ ہے اور میں نے اپنی زندگی میں اس نصیحت سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے کہتے ہیں شمس صاحب نے فرمایا کہ مَیں ملک شام میں مبلغ تھا تو میرے ذریعہ سے ایک متموّل گھرانے کے ایک فرد جناب منیر الحصنی صاحب نے احمدیت قبول کر لی۔ پرانے احمدی تھے۔ بڑے مخلص احمدی تھے۔ اس کے بعد ہی شام میں پھر جماعت پھیلی ہے۔ کہتے ہیں اور اس کے بعد دن بدن ان کا خدمت دین کا جذبہ اور جوش ترقی کرتا گیا۔ منیر الحصنی صاحب روزانہ عصر کے بعد مشن ہاؤس آ جاتے تھے۔ شام میں اس زمانے میں مشن ہاؤس ہوتا تھا۔ اس زمانے میں پابندیاں نہیں تھیں۔ شمس صاحب کہتے ہیں اور بڑے شوق سے میرے لئے وہ کھانا تیار کیا کرتے تھے اور اس پہ بڑا اصرار کرتے تھے اور پھر شام کو ہم دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ ایک دن جب ہم کھانے پہ بیٹھے تو میں نے منیر الحصنی صاحب سے کہا کہ آج سالن میں نمک زیادہ ہے آئندہ احتیاط کریں۔ منیر الحصنی صاحب کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے مولانا صاحب آپ تو جانتے ہیں کہ میرے گھر پر خدمت کے لئے کئی ملازم موجود ہیں۔ بڑے امیر آدمی تھے۔ حتی کہ جب میں شام کو گھر جاتا ہوں تو میرے بوٹ کے تسمے بھی میرا نوکر آ کر کھولتا ہے۔ میں نے اپنے گھر میں کبھی ایک پیالی چائے بھی خودنہیں بنائی۔ میں یہاں آ کر آپ کے لئے جو کھانا بناتا ہوں وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہوں ورنہ کہاں مَیں اور کہاں سالن کی تیاری۔ اس لئے اگر مجھ سے مصالحہ کم یا زیادہ ڈالنے میں کوئی کوتاہی ہو جایا کرے تو معاف کر دیا کریں کہ کھانا بنانا میرا کام نہیں ہے۔ یہ واقعہ سنا کر حضرت مولوی شمس صاحب فرمانے لگے کہ اس واقعہ سے مَیں نے یہ سبق سیکھا کہ ہماری خدمت یعنی مبلغین کی خدمت جو احباب بہت خوشی سے کرتے ہیں وہ ہماری ذات کی وجہ سے ہرگز نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور سلسلہ احمدیہ کی محبت میں کرتے ہیں اس لئے ہمیں ہمیشہ یہ بات مدّنظر رکھنی چاہئے کہ جتنی بھی کوئی خدمت ہماری کرتا ہے یہ اس کا ہم پر احسان ہے۔ اگر ان سے کوتاہی ہوجائے تو ہمارا کوئی حق نہیں کہ ان سے بازپرس کریں یا انہیں ٹوکیں۔ بہرحال عجیب عجیب وفا سے بھرے ہوئے، اخلاص سے بھرے ہوئے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو عطا فرمائے اور ابتدا سے اب تک عطا فرماتا چلا جا رہا ہے۔
یہ کہتے ہیں کہ 1964ء میں مکرم چوہدری رحمت خان صاحب جو وہاں لندن مسجد کے امام تھے بیماری کی وجہ سے واپس گئے تو ان کو مسجد فضل کا امام مقرر کر دیا گیا۔ 1960ء میں بشیر رفیق صاحب نے انگریزی رسالہ مسلم ہیرلڈ بھی جاری کیا اور شروع میں دس صفحات پر مشتمل تھا۔ ایڈیٹر بھی خود تھے اور باقی کام بھی خود کرتے تھے۔ 1962ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر اخبار احمدیہ کے نام سے پندرہ روزہ اخبار شائع کرنا شروع کیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس اخبار کا بانی بھی میں تھا اور ایک لمبے عرصے تک ایڈیٹر بھی ہونے کا شرف حاصل رہا اور باقاعدگی سے اس کے لئے مضمون بھی لکھتے رہنے کی توفیق ملی۔ بڑے علمی آدمی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جاری کردہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کا بھی شرف انہیں حاصل ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے 1967ء سے لے کر اپنے دور خلافت میں یورپ کے آٹھ دورے کئے ان میں سے سات دوروں میں مولانا بشیر رفیق صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے قافلہ میں شامل رہے۔ دو دفعہ دوروں میں بطور پرائیویٹ سیکرٹری بھی شامل ہونے کی توفیق ملی۔ 1970ء میں واپس پاکستان آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر تقرر ہوا۔ 1971ء میں پھر لندن واپس آئے اور امام کے طور پر اپنی سابقہ ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالیں۔ 1976ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ بطور ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کے امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر جانے کی بھی ان کو سعادت ملی۔ مئی 1978ء میں جو بین الاقوامی کسر صلیب کانفرنس لندن میں ہوئی تھی اس میں شمولیت کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تشریف لائے تھے اور اس کے انتظامات کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لئے احباب جماعت برطانیہ، مجلس عاملہ انگلستان اور کانفرنس کمیٹی نے دن رات ایک کر کے کام کیا اور ٹیم ورک کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ ان کی سرکردگی میں یہ کام ہوا۔ 1964ء تا 70ء اور پھر 71ء تا 79ء امام مسجد فضل لندن رہے۔ مسلم ہیرلڈ میگزین کے بانی ایڈیٹر 61ء تا 79ء، پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثالث 70ء تا 71ء۔ پھر نومبر 85ء میں آپ وکیل الدیوان تحریک جدید مقرر ہوئے، 87ء تک رہے۔ وکیل التصنیف ربوہ 82ء تا 85ء۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر ربوہ83ء تا 84ء۔ ایڈیشنل وکیل التصنیف لندن 1987ء تا 1997ء۔ ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز 1983ء تا 1985ء۔ چیئرمین بورڈ آف ایڈیٹرز ریویو آف ریلیجنز 1988ء تا 95ء، ممبر صدر انجمن احمدیہ پاکستان 1971ء تا 1985ء۔ ممبر افتاء کمیٹی 1971ء تا 1973ء۔ ممبر بورڈ قضاء 1984ء تا 1987ء۔ اور اسی طرح بعض دنیاوی پوسٹوں پر کام کی بھی ان کو توفیق ملی۔ روٹری کلب وانڈزورتھ کے ممبر تھے اور وائس پریذیڈنٹ تھے۔ پھر پریذیڈنٹ روٹری کلب بھی مقرر ہوئے۔ 1968ء میں لائبیریا کے صدر مملکت جناب ٹَب مَین کی دعوت پر بطور مہمان خصوصی انہیں بلایا گیا اور لائبیریا کا اعزازی چیف مقرر کیا گیا۔
اور ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ بڑی باقاعدگی سے تہجد ادا کرتے اور بڑے التزام سے دعا کیا کرتے تھے یہاں تک کہ نام لکھ کر دعا کرتے تا کہ کسی کا نام بھول نہ جائیں۔ کثرت سے درود بھیجنے والے، چندے کی اہمیت کو ہم پہ بڑا واضح کیا۔ ان کے بھائی کرنل نذیر ان کا واقعہ لکھتے ہیں جو مختصر میں نے بیان کیا تھا کہ حضرت خلیفۃ ثانی نے جب بلایا تو اس وقت انہوں نے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا جو خط آیا ان کے والد کو کہ ان کو بھیجیں تو انہوں نے کہا کہ میں وکالت کر کے جماعت کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہمیں دینی وکیل چاہئیں، دنیاوی نہیں۔ جو رتبہ، عزت، دولت اور شہرت وہ دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ اسے وقف کی برکت سے دے دے گا۔ کہتے ہیں والد صاحب نے جب یہ خط بھائی کو دیا تو خط پڑھ کر بغیر کسی سوال کے اپنا سامان اٹھایا اور ربوہ کو چلے گئے۔ اور پھر یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے الفاظ بھی کیسے پورے کئے۔ وکیل بنتے تو دنیاوی وکیل تھے۔ دنیاوی اعزازات بھی ملے اور دینی خدمت کا بھی موقع ملا اور ان کے یہ بھائی لکھتے ہیں کہ جو خلیفۃ ثانی نے لکھا تھا وہ سب کچھ وقف کی برکت سے ملا۔ مرتبہ بھی ملا، عزت بھی ملی، شہرت بھی ملی اور سب کچھ ملا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بھرپور زندگی انہوں نے گزاری ہے۔ خلافت سے بھی ان کا بڑا وفا کا تعلق تھا۔ بڑا عرصہ ان کو دل کی بڑی تکلیف تھی۔ ان کا دل کا آپریشن بھی ہوا۔ ایک وقت میں تو بالکل ناامیدی کی کیفیت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی دی۔ اس بیماری کی وجہ سے ان کو کمزوری بھی بہت ہوتی تھی لیکن بڑی باقاعدگی سے یہ نہ صرف مجھے خط لکھتے تھے اور وفا کا اور اخلاص کا اظہار کیا کرتے تھے بلکہ جہاں بھی ان کو پتا لگتا کہ میں جس فنکشن میں شامل ہو رہا ہوں یہ ضرور وہاں آیا کرتے تھے اور پھر واکر کے ذریعہ سے یا جس طرح بھی بعض دفعہ کمزوری میں ان کو میں نے دیکھا ہے جمعوں پہ ضرور شامل ہوا کرتے تھے۔ چل کے آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی اخلاص و وفا سے جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا ذکر جیسا کہ مَیں نے کہا محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں مالک صاحبہ کا ہے جو حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب کی بیٹی تھیں۔ 11؍اکتوبر2016ء کو لندن میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تھیں تو یہ ربوہ میں لیکن برٹش نیشنل تھیں۔ ہر سال آیا کرتی تھیں۔ کچھ تو اپنی جو پیشہ وارانہ مہارت کو بڑھانے کے لئے بھی مختلف ہسپتالوں میں جاتی تھیں اور کچھ عرصہ سے بیمار تھیں۔ کچھ علاج بھی کروا رہی تھیں اس لئے یہاں تھیں اور یوکے(UK) کے جلسہ کے بعد ایک دم ان کو انفیکشن ہوا۔ چیسٹ(chest) انفیکشن ہوا۔ بڑھتا چلا گیا۔ پھر پھیپھڑوں نے کام کرنا بند کردیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کافی ریکوری(recovery) ہو گئی تھی اور ڈاکٹر کچھ پُرامید بھی تھے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر دوبارہ انفیکشن کا حملہ ہوا تو بچنا مشکل ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی دوبارہ ایک دن اچانک حملہ ہوا اور اس بیماری کے بعد چند گھنٹوں میں ان کی وفات ہو گئی۔
ان کی پیدائش 15؍اکتوبر 1951ء کی ہے۔ کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کے والد محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب بھی پرانے خادم سلسلہ تھے۔ حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کا آبائی وطن نجیب آباد ضلع بجنور تھا جو یُوپی (UP) میں واقعہ ہے۔ انہوں نے یعنی ڈاکٹر نصرت جہاں کے دادا نے 1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بذریعہ خط بیعت کی اور پھر 1903ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ملاقات کی سعادت پائی۔ حضرت مولانا خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق کہ اپنے بیٹے کو دین کے لئے وقف کرنا مولانا عبدالمالک خان صاحب کو بچپن سے ہی وقف کر دیا تھا گو ان کی پیدائش بعد کی ہے۔ 1911ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ مولانا نے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کے بعد 1932ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا۔ اس کے بعد ان کو ایک بڑی اچھی ملازمت مل گئی لیکن مولوی عبدالمالک خان صاحب کے والدنے انہیں لکھا کہ مَیں نے تمہیں اس لئے نہیں پڑھایا کہ تم دنیا کماؤ۔ کسی ایک کو دین بھی کمانا چاہئے۔ یہ خط ملتے ہی مولانا عبدالمالک خان صاحب نے استعفیٰ دیا اور قادیان واپس آ کر مبلغین کلاس میں شمولیت اختیار کر لی اور یہی اخلاص اور وفا کا جذبہ تھا جو ڈاکٹر نصرت جہاں میں بھی تھا۔ یوکے(UK) سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ پہلے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس پاکستان سے کیا پھر یُوکے (UK) سے سپیشلائز کیا۔ اَور کہیں بھی وہ جاتیں تو لاکھوں روپیہ روزانہ کما سکتی تھیں۔ لیکن دین کی خدمت کے لئے، انسانیت کی خدمت کے لئے چھوٹے سے شہر میں، ربوہ میں آ کر آباد ہو گئیں اور ہسپتال کی اُس وقت جو بھی ضرورت تھی اُس ضرورت کو پورا کیا اور پھر تمام عمر بے نفس ہو کر ایسی خدمت کی جو انتہائی معیار پر پہنچی ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں بہت سے لوگوں نے مجھے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، سب بیان کرنے مشکل ہیں۔ بعض مَیں آگے جا کے بیان کروں گا۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہیں عائشہ نزہت وہ اس وقت یوکے میں ہی اپنے خاوند کے ساتھ مقیم ہے۔ ان کے تین بچے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے پاکستان میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کیا پھر انگلستان سے آر۔ سی۔ او۔ جی یعنی گائنی سپیشلسٹ کا کورس کیا Royal College of Obstetricians and Gynaecologists۔ 1985ء میں فضل عمر ہسپتال میں اپنی خدمات کا آغاز کیا اور 20؍اپریل 1985ء سے اب تک یہ خدمت سرانجام دیتی رہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا بیمار بھی تھیں۔ ان کو کچھ جگر کی بیماری تھی اس کے علاج کے سلسلہ میں یہ رخصت لے کر 5؍اپریل کو لندن آئی تھیں۔ علاج ہو رہا تھا اور علاج اللہ کے فضل سے کامیاب ہو گیا تھا۔ پھر ان کو جلسہ کے بعد چَیسٹ انفیکشن ہوا اس سے بھی کچھ حد تک لگ رہا تھا کہ واپسی ہے لیکن پھر اچانک حملہ ہوا اور وفات ہوئی۔
ان کے داماد مقبول مبشر صاحب کہتے ہیں خدا پر نہایت درجہ توکل تھا۔ عبادت کا ذوق تھا۔ قرآن سے محبت تھی۔ خلافت سے گہری وابستگی تھی۔ پوری طرح شرح صدر سے خلافت کی اطاعت، خدمت خلق، مریض کی شفا اور آرام ان کی پہلی ترجیح تھی۔ اور جو باتیں یہ بیان کر رہے ہیں مَیں ذاتی طور پر بھی گواہ ہوں یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ باتیں ہیں جو اُن میں تھیں۔ ہر سرجری سے پہلے اور علاج سے پہلے دعا کرتیں۔ روزانہ صدقہ دیتیں۔ ربوہ میں موجود بزرگوں کو اپنے مریضوں کی شفا یابی کے لئے کہتیں۔ بہت سے نادار مریضان کا اپنی جیب سے یا قریبی دوستوں کے خرچ سے علاج کرواتیں۔ جماعت کے پیسے کا بھی بہت درد رکھتی تھیں۔ ہر وقت کوشش کرتیں کہ کم سے کم خرچ ہو۔ جماعت کا ایک روپیہ بھی ضائع نہ ہو۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں لاہور میں پرائیویٹ ہسپتال میں کام کرتا تھا تو مجھ سے پوچھتیں کہ فلاں چیز تم نے کس کمپنی سے کس قیمت پہ خریدی ہے اور فلاں دوائی تم کس کمپنی سے کس قیمت پہ خریدتے ہو۔ پھر اگر موزوں ہوتی تو وہی چیز فضل عمر ہسپتال کے لئے ان اداروں سے کم قیمت پر خریدوا دیتیں۔ والدین سے بھی محبت تھی ان کی خدمت بھی بہت کی۔ ان کی والدہ کی لمبی بیماری کے باوجود ان کی انہوں نے بہت خدمت کی۔ اپنے فرائض بھی پورے کئے اور والدہ کی خدمت بھی کی۔ اور اپنی بیماری بھی آخری ایام میں بڑی ہمت سے گزاری۔ آخری بیماری کے دوران تقریباً دو مہینے ہسپتال رہی ہیں۔ ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ تلاوت سناؤ۔ گھر میں بھی بچوں کو نماز اور تلاوت کی تاکید کرتیں۔ کوئی نیکی کی بات بچوں میں دیکھتی تھیں، تلاوت کرتے دیکھتیں تو خوش ہوتیں اور انعام دیتیں اور دعا دیتیں۔ مبشر صاحب کہتے ہیں ہماری بیٹی جب بارہ سال کی ہوئی تو اس کو سر ڈھانپنے اور پردے کا خیال رکھنے کی تلقین کرتیں اور حضرت امّاں جان اور دیگر بزرگوں کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتیں بچوں کو مثال یا واقعہ کی صورت میں سناتیں۔ خود بھی پردے کی بہت پابند تھیں۔ پس اگر والدین اور ان کے بڑے بچوں کو یہ نصیحت کرتے رہیں تو پھر لڑکیوں میں جو حجاب نہ لینے کا حجاب ہے وہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ جرأت پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نصرت مجوکہ صاحبہ فضل عمر ہسپتال میں ہیں۔ کہتی ہیں ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کے ساتھ میرا تقریباً اٹھارہ سال سے تعلق تھا اور مَیں ہاؤس جاب کرتے ہی شعبہ گائنی فضل عمر ہسپتال کا حصہ بن گئی۔ میری ساری پروفیشنل ٹریننگ ڈاکٹر صاحبہ نے کی۔ وہ ایک قابل استاد تھیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں ان سے رہنمائی ملتی تھی۔ مضبوط اور مکمل تھیں۔ خدا تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک اطاعت گزار اور ایک ہمدرد بیٹی بھی تھیں اور ایک شفیق ماں بھی۔ ایک disciplined استاد بھی تھیں اور غمگسار بہن بھی اور دوست بھی۔ کہتی ہیں کہ ان کی ساری زندگی قربانی سے عبارت ہے۔ انہوں نے جماعت کی خدمت کے لئے اپنی ذاتی زندگی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کی ترجیحات عام انسانوں سے بہت مختلف تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ میرے دو بچے ہیں ایک تو میری بیٹی ہے اور دوسرا میرا شعبہ ہے۔ ہر وقت شعبہ گائنی کی ترقی کے لئے کوشاں رہتیں۔ مریضوں کے لئے مستعد اور کمربستہ رہتیں اور خاص طور پر جو جماعت کے کارکنان ہیں، غریب کارکنان ان کا بہت خیال رکھتیں۔ اگر کسی کی بیوی بیمار ہوتی تو بار بار فون کرکے بھی ان کی بیماریوں کا پوچھتیں۔ اپنے عملہ سے بڑی محبت کرتیں۔ اگر ان سے زیادہ کام کرواتیں، اگر کہیں کسی وقت کسی مریض کی وجہ سے زیادہ کام کرنا پڑ جاتا تو گھر سے ان کے لئے کھانا بھجواتیں۔ کسی مشکل وقت میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتیں۔ اور یہ تو ہر ایک نے لکھا ہے کہ خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا اور یہی حقیقت ہے غیر معمولی تعلق تھا۔ کہتی ہیں پچھلے سال سے ہر اہم بات میں مجھے شامل کرتیں۔ نیز مجھے ہر طرح کی گائنی سرجری بھی سکھائی اور یہ بھی اظہار کرتیں کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ کہتی ہیں اُس وقت تو مَیں نے دھیان نہیں دیا تھا کہ ان کا کیا مطلب ہے کیونکہ بڑی ایکٹو (active) تھیں۔ لیکن ان کی وفات کے بعد اب سمجھ آئی کہ ان کو اپنی بیماری کی وجہ سے بھی کچھ اندازہ تھا۔ یہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیں چھوڑ کے چلی گئیں۔ ربوہ کے رہنے والوں پر ان کے بیشمار احسانات ہیں اور آج ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہر دل دکھی ہے۔ بہت سارے خطوط مجھے آئے ہیں۔ انہوں نے بڑی حقیقت لکھی ہے۔
ڈاکٹر امۃ الحئی صاحبہ جو گھانا میں ہسپتال میں ہماری گائنی ڈاکٹر ہیں وہ لکھتی ہیں کہ میری بھی جو ابتدائی ٹریننگ ہے وہ ڈاکٹر نصرت جہاں نے کی تھی اور پھر جب میں گھانا گئی تو مستقل میرے سے واٹس اَیپ اور ای میل وغیرہ پہ رابطہ تھا۔ کوئی بھی گائنی کا مسئلہ ہوتا تو بڑی خوشی سے مجھے اس کا جواب دیتیں اور رہنمائی کرتیں اور ہر مشکل وقت میں یہی کہا کرتی تھیں کہ خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے لکھو۔ پھر یہ کہتی ہیں جب مَیں ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ کام کرتی تھی تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ان کا دھیان رہتا تھا۔ کہتی ہیں مجھے یاد ہے کہ جب بھی وہ کوئی زائد بتی، لائٹ جلتی دیکھتیں تو فوراً بند کر دیتیں کہ جماعت کا پیسہ بِلا وجہ ضائع کیوں ہو رہا ہے۔ پھر شادی شدہ کو شادی قائم رکھنے کی طرف توجہ دلاتیں۔ کہتیں کہ جو خون کے رشتہ ہوتے ہیں وہ کبھی نہیں ٹوٹتے لیکن میاں بیوی کا رشتہ پیار محبت کا ہوتا ہے وہ نہ رہے تو کچھ بھی نہیں رہتا۔ اور یہ بڑا اچھا نسخہ ہے جو انہوں نے بتایا۔ اس پہ ہر جوڑے کو عمل کرنا چاہئے۔ کہتی ہیں جب گزشتہ دنوں بیماری سے پہلے، لندن میں ہسپتال میں داخل ہونے سے چند دن پہلے مجھے فون کیا کہ نیا گائنی تھیٹر ربوہ میں بنا ہے اور پتا نہیں مَیں جا کے دیکھ سکتی ہوں یا نہیں۔ مجھے بھی انہوں نے کہا تھا۔ یا انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے دیر ہو جائے اس لئے ناظر اعلیٰ سے اس کا افتتاح کروا دیں۔ مَیں نے ان کو ہدایت بھیجی ہے کیونکہ افراد سے جماعت کے کام نہیں رکتے۔
ڈاکٹر نوری صاحب جو ربوہ میں طاہر ہارٹ کے انچارج ہیں وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ نو سال سے زائد عرصہ سے محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کے ساتھ فضل عمر ہسپتال کے زبیدہ بانی وِنگ اور طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں بعض ایسی صفات تھیں جو آجکل بہت کم ڈاکٹروں میں پائی جاتی ہیں۔ بہت ہی نیک، دعا گو، اعلیٰ اخلاق کی حامل، خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والی، اپنے مریضوں کے لئے دعائیں کرنے والی، پردہ کی باریکی سے پابندی کرنے والی، قرآن کریم کا وسیع علم رکھنے والی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُسوہ پر عمل کرنے والی خاتون تھیں۔ اور انہوں نے یہاں یوکے (UK) میں بھی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد یہاں مختلف ہسپتالوں میں اپنے علم میں اضافے کے لئے بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ انہوں نے نقاب کا پردہ کیا ہے اور پورا برقع پہنا ہے اور کبھی کوئی کمپلیکس نہیں تھا اور پردے کے اندر رہتے ہوئے سارے کام بھی کئے۔ اس لئے وہ لڑکیاں جن کو یہ بہانہ ہوتا ہے کہ ہم پردے میں کام نہیں کر سکتیں ان کے لئے یہ ایک نمونہ تھیں۔ پھر کہتے ہیں کہ اپنے فن میں بہت ماہر تھیں۔ جدید تکنیکی علم سے واقف تھیں اور اپنے علم کو نئے تقاضوں کے مطابق بڑھا کر کام کرتی تھیں۔ کبھی اپنے کام کے دوران وقت کی پرواہ نہیں کی اور حاصل سہولیات سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ تشویشناک حالات کے مریضوں کی خاطر اپنی چھٹیوں کو قربان کر کے بارہ بارہ گھنٹے کام کرتی رہتیں۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے ایک ڈیلوری کے پیچیدہ کیس پر ساری رات جاگ کر کام کیا۔ انہیں ممکنہ آپشنز کے بارے میں تسلی سے آگاہ کرتیں جس کی وجہ سے مریضوں کو اُن پر بڑا اعتماد تھا۔ قواعد و ضوابط اور اصولوں کی بھرپور پابند تھیں۔ اپنے فرائض دیانتداری سے سرانجام دیتی تھیں۔ بعض لوگ ان کے زمانے میں کہتے تھے مجھے بھی لکھتے تھے کہ بڑی سخت ہیں۔ اگر سخت تھیں تو اصولوں کی وجہ سے۔ لیکن ان کا دل بہت نرم تھا۔ سخاوت اور ہمدردی بھی ان کا ایک اہم وصف تھا۔ ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ ایک ضعیف خاتون جو طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں داخل رہی تھیں انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحبہ اپنا کام ختم کر کے گاڑی میں واپس گھر جا رہی تھیں کہ انہوں نے مجھے ہسپتال کے پاس اقصیٰ روڈ پر دیکھا تو گاڑی روکی اور میری گردن پر ہاتھ رکھ کر نہایت اطمینان سے میری بیماری کا پوچھا اور وہیں لکھ کر دوا تجویز کی اور پھر چلی گئیں۔ ان کی قوت بیان بھی بہت عمدہ تھی۔ ان کے والد صاحب مولانا عبدالمالک خان صاحب بھی بڑے اعلیٰ پائے کے مقرر تھے۔ فوزیہ شمیم صاحبہ صدر لجنہ لاہور نے نوری صاحب کو بتایا کہ لاہور میں لجنات سے خطاب کے لئے بلایا جاتا تو آپ کی شخصیت اور بیان کا سب پر یکساں اثر پڑتا۔ آپ کی باتوں کا محور احمدیت، خلافت اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر تھا۔ آپ کے انداز بیان میں آپ کے والد مرحوم مولانا عبدالمالک خان صاحب کی جھلک نظر آتی تھی۔ خلافت سے بہت وفا اور خلوص کا تعلق تھا۔ میٹنگز، سیمیناروں میں اور یہاں تک کہ وارڈ کے راؤنڈ کے دوران بھی خلیفہ وقت کے ارشادات کا تذکرہ کرتی رہتی تھیں۔ خلافت سے عقیدت صرف زبان تک محدودنہیں تھی بلکہ آپ کے عمل سے بھی اس کا اظہار ہوتا تھا۔ صحیح معنوں میں ایک رول ماڈل خاتون تھیں۔ ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں بڑی فراست اور دوراندیشی دے رکھی تھی۔ بعض اوقات مریض کے علاج کے سلسلہ میں کسی پروسیجر کو کچھ وقت کے لئے مؤخر کر دیتیں اور بعد میں ان کا یہ فیصلہ درست نکلتا۔ نہایت اچھی منتظمہ تھیں۔ اپنے شعبہ کے کام پر مکمل گرفت رکھتیں۔ اصولوں کی پابندی کرتیں۔ اپنے مؤقف کا ڈٹ کر اظہار کرتیں۔ معاملات کی گہری چھان بین کرنا اور ان سے آئندہ کے لئے رہنمائی لینا ان کی عادت تھی۔ انتظامی معاملات میں رعب اپنی جگہ لیکن عملہ سے ہر درجہ پیار اور محبت کرنے والی تھیں اور ان کی خوشی غمی میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ آپ کی ہمدردی اور شفقت کا دائرہ رشتہ داروں، پڑوسیوں اور عملہ اور ہسپتال ہی تک محدودنہ تھا بلکہ عملہ کے افراد خاندان، مریضوں اور ان کے لواحقین سبھی کو اس سے مستفیذ ہوتے ہوئے بارہا ہم نے دیکھا۔ ضرورتمندوں کی نہایت کھلے دل سے اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے خاموشی سے مدد کرتیں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اہم امور کا ریکارڈ محفوظ رکھتیں اور یہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کے علم کے مطابق آپ کی قیادت میں شعبہ گائنی کا ریکارڈ جو ہے اس وقت سب سے بہتر اور محفوظ حالت میں ہے۔
ایک مربی صاحب فضیل عیاض صاحب ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ بے حد ہمدرد اور غمگسار تھیں۔ 1989ء میں جب عاجز جامعہ احمدیہ ربوہ میں خدمت کی توفیق پا رہا تھا تو اپنے خاندان کے، اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ ربوہ منتقل ہوا۔ جب ہمارا علاج ڈاکٹر صاحبہ نے شروع کیا، بچے کی پیدائش کا علاج تھا یا کوئی اور مسئلہ تھا۔ بہرحال علاج کے دوران بڑی مہربان شفیق اور ہمدرد تھیں۔ ایک واقف زندگی مربی کی بیوی ہونے کی وجہ سے میری اہلیہ اور ہمارے بچے ہمیشہ ان کی خاص شفقت اور محبت کا مورد رہے۔ کہتے ہیں ہماری چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ فضل عمر ہسپتال میں ہی ان کی پیدائش ہوئی۔ کہتے ہیں ہمیشہ ہی ہم نے ان کو بچوں کی اور ان کی والدہ کی صحت کے بارے میں اپنے سے زیادہ متفکر پایا۔ جب ہمارے گھر چار بیٹیاں ہو گئیں تو ایک مرتبہ میری تیسری بیٹی نے جس کی عمر اس وقت صرف چار سال تھی ان کے گھر جا کر ان سے کہا کہ ہمیں بھی بھائی لا کر دیں تو ڈاکٹر صاحبہ نے اس کو بہت پیار کیا اور کہا کہ اللہ سے دعا کرو اللہ تمہیں بھائی دے۔ اور پھر جب دوبارہ ان کے گھر میں امید ہوئی تو ڈاکٹر صاحبہ نے خود بھی دعا کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو دعا کے لئے لکھا اور ہر ملنے والے کو ان کی بیوی کے لئے دعا کے لئے کہتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ جب بیٹا پیدا ہوا تو خود آ کر ہمارے گھر سے میری بیٹی کو لے گئیں کہ لو تمہیں اللہ تعالیٰ نے بھائی دے دیا ہے اور پھر اس کے بعد خود اپنی گاڑی میں میری بیوی کو گھر چھوڑ کے گئیں۔ غیر احمدی مریض بھی ان کے پاس بہت آتے تھے۔ انہوں نے خود سنایا کہ ایک دفعہ چنیوٹ کے غیراحمدی مولوی صاحب آگئے۔ ان کی بیوی کی اولادنہیں ہوتی تھی تو ان کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور امید بندھی تو کہتی ہیں اب یہ مولوی صاحب نو مہینہ تو میرے قابو میں ہیں اور انہوں نے خوب ان کو تبلیغ کی۔ کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔
پھر طاہر ندیم صاحب ہمارے عربی ڈیسک کے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ کا دواؤں سے زیادہ دعا پر بھروسہ تھا۔ کہتے ہیں مَیں لندن آ گیا جب میری بیوی وہیں تھی اور اہلیہ کا کوئی آپریشن کرنا تھا اس میں خطرہ پیدا ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں خود بتایا کہ اس وقت مَیں نے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی کہ اے خدایا! واقف زندگی کی بیوی ہے۔ اس کا خاوند تیرے دین کی خدمت کے لئے گیا ہوا ہے تُو اپنا فضل فرما دے، چنانچہ کچھ دیر کے بعد خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ جو بلیڈنگ ہو رہی تھی وہ مکمل طور پر رک گئی اور آپریشن کی ضرورت نہیں پڑی۔ مہمان نوازی کے بارے میں ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے پروگرام الحوار المباشر کے لئے جو عرب لوگ آتے ہیں وہ 53 گیسٹ ہاؤس لندن میں بیٹھتے ہیں۔ وہاں یہ خود بھی ٹھہری ہوئی تھیں اور یہ عرب بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں ایک دن اپنی بیٹی کے ساتھ کچن میں پراٹھے پکا رہی تھیں تو کہنے لگیں کہ آپ عرب لوگ حوار میں شامل ہو رہے ہیں۔ میں نے چاہا کہ آپ لوگ جو دین کی خدمت کر رہے ہیں ان کو اپنے ہاتھ سے پراٹھے بنا کر کھلاؤں اور اس طرح مَیں بھی اس جہاد کے ثواب میں شامل ہو جاؤں۔ مبشر ایاز صاحب جو ہمارے جامعہ ربوہ کے پرنسپل ہیں ان کے چاق و چوبند ہونے اور پردے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہماری یہ ڈاکٹر صاحبہ بھی برقع میں ملبوس عین پردے کی بہترین شکل کو اختیار کئے ہوئے فوجی جوانوں کی طرح بھاگ دوڑ کرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ جو خواتین پردے کو روک سمجھتی ہیں ان کے لئے یہ بہترین رول ماڈل تھیں۔ سارا سارا دن کام کرتی رہتیں اور بڑی ایکٹو (active) رہتیں پھر بھی کبھی تھکاوٹ کا اظہار نہیں ہوا۔
ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب کہتے ہیں کہ کوارٹرز صدر انجمن احمدیہ میں ہم بھی رہتے تھے یہ بھی رہتی تھیں۔ وہاں اس زمانے میں ربوہ کا ایک ماحول تھا، آپس میں بے تکلفی تھی، آنا جانا تھا۔ دوست محمد شاہد صاحب کے یہ بیٹے ہیں۔ اُن کی اور مولانا عبدالمالک خان صاحب کی آپس میں دوستی بھی تھی اور چونکہ مولانا عبدالمالک خان صاحب کے کوئی بیٹے وہاں نہیں تھے اس لئے دوست محمد شاہد صاحب نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ ان کے گھر سے پتا کرتے رہا کرو کہ کوئی ضرورت ہو کسی چیز کی، بازار سے کوئی چیز لانی وانی ہو تو کام کر دیا کرو۔ تو یہ جاتے رہتے تھے۔ اس لحاظ سے بڑی بے تکلفی تھی اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ سے بھی پوچھتا رہتا تھا۔ پھر ہسپتال میں اکٹھے کولیگ بھی رہے اور ہلکا سا بھی اگر ان کا کام کیا تو اتنی شکرگزار ہوتی تھیں کہ بے شمار شکریہ ادا کر کے اور پھر بچوں کو تحفے اور بیوی کو تحفے اور ان کو تحفے وغیرہ دیا کرتی تھیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ ان کا گائنی کا شعبہ جو تھا اس کو نئی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے قریباً ہر سال وہ انگلستان جا کر نئے پروسیجر سیکھ کر آتی تھیں۔ اور اپنے طور پہ آتی تھیں۔ یہ نہیں کہ جماعتی خرچ پہ آئیں۔ نیز مختلف احباب کے تعاون سے نئی مشینیں بھی لاتیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ حال ہی میں زبیدہ بانی ونگ میں نئے آپریشن تھیئٹر کی تعمیر میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا لیکن اس کو استعمال کرنے کا ان کو موقع نہیں ملا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جو موجود ڈاکٹر ہیں ان کو توفیق دے کہ اس کو صحیح استعمال کر سکیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ الغرض شعبہ کی موجودہ ہیئت جو ایک کمرے سے شروع ہوئی تھی، فضل عمر ہسپتال میں شعبہ گائنی صرف ایک کمرے میں ہوتا تھا اب ایک پورے ونگ میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس میں ڈاکٹر نصرت جہاں کی قابلیت اور شبانہ روز محنت اور بھرپور جذبہ کا بہت بڑا حصہ ہے۔
ایک ان کی سٹاف نرس جمیلہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ کی وفات کا بڑا افسوس ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک بہت ہی اچھی اور خوش اخلاق ڈاکٹر تھیں۔ ہم سب کا بہت خیال رکھنے والی ڈاکٹر تھیں۔ بچوں کی طرح ہمیں پیار کرتی تھیں اور بہت خیال رکھتی تھیں۔ جو بھی غریب مریض آتا اس کو پرچی کے پیسے بھی واپس کر دیتیں اور دوائی بھی اپنے پاس سے دیتیں۔ پھر ایک اور سٹاف نرس مسرت صاحبہ لکھتی ہیں کہ بہترین شفیق استاد اور بلند پایہ قابل ڈاکٹر تھیں۔ میں نے تقریباً اکتیس سال کا عرصہ ان کے زیر نگرانی گزارا ہے۔ بہت محبت کرنے والی، نہایت حساس، ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والی، بڑوں کی غمگسار، بچوں سے شفقت کا سلوک کرنے والی، مریضوں کے ساتھ انتہائی محبت سے پیش آنا، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا، تمام سٹاف کو ہمیشہ خدمت خلق اور خوش خُلقی کا درس دینا، خلیفۂ وقت کے حکم پر لبّیک کہنے والی ہستی تھیں۔ پھر ان کی ایک مریضہ لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ میرا علاج کر رہی تھیں اور واقف زندگی کی بیوی ہونے کی حیثیت سے کافی توجہ دیتی تھیں۔ الٹرا ساؤنڈ کروانا تھا تو اپنی مددگار کو کہا کہ ان کا الٹراساؤنڈ کروا لاؤ۔ اس وقت کافی رَش تھا۔ ایک کرسی تھی وہاں جس پر ایک غریب سی عورت بیٹھی ہوئی تھی تو اس عورت نے جو اسسٹنٹ مددگار تھی اس نے اس عورت کو اٹھا کے اس مریضہ کو وہاں بٹھانا چاہا کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ نے بھیجا تھا تو دیکھا کہ اچانک پیچھے سے آواز آئی کہ نہیں تم اس کرسی پہ نہیں، اس پہ بیٹھو۔ دیکھا تو ڈاکٹر صاحبہ خود ایک کرسی اٹھا کے لا رہی تھیں تا کہ جو دوسری غریب مریضہ ہے اس کو یہ احساس نہ ہو کہ مجھے اٹھایا گیا ہے کیونکہ مریض سارے ایک ہی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس کی حالت دیکھ کے یہ بھی تھا کہ بیٹھنے کی جگہ مل جائے اس لئے خود ہی کرسی اٹھا کے لے آئیں اور اپنی مریضہ کو اس پہ بٹھا دیا۔
ایک اور ڈاکٹر صاحبہ ہیں وہ لکھتی ہیں کہ جماعت کے لئے بہت غیرت رکھتی تھیں۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹرز کو بھی ابھارتی رہتی تھیں کہ خلیفۂ وقت سے ذاتی تعلق پیدا کریں اور دعا کے لئے کثرت سے لکھا کریں۔ ہر کام کے لئے جب بھی دعا کے لئے خلیفۂ وقت کو لکھتیں تو کہتی ہیں ہمارے لئے بھی دعا کے لئے کہتیں۔ پھر مجھے لکھا ہے کہ آپ کی طرف سے جواب آتا تو اس کو پڑھ کر سب کو سناتیں اور آنکھوں میں جو خوشی ہوتی تھی وہ ان کے لہجہ سے بھی عیاں ہو رہی ہوتی تھی اور آنکھوں سے بھی۔ کہتی ہیں کہ وہ ہم سب کے ایمان میں اضافے کا باعث ہوتی تھیں۔ اپنی زندگی جماعت کے لئے وقف کر کے نہ صرف اپنی دنیاوی آسائشوں اور مال کی قربانی کی تھی بلکہ وہ ہم سب ڈاکٹرز کو بھی اپنی زندگی کی مثالیں دے کر وقف اور جماعت کی خدمت کے لئے motivate کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے سے روز انسان کا ایمان تازہ ہوتا تھا اور دل میں وقف کی روح کا جذبہ ابھرتا تھا۔
خلافت سے تعلق اور اطاعت کا ایک واقعہ مجھے عابد خان صاحب جو ہمارے پریس کے ہیں انہوں نے لکھا کہ انہوں نے انہیں کہا کہ میں تو خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی بات سرسری طور پر بھی سن لوں، کوئی حکم نہ ہو بلکہ سرسری بات ہی ہو تو اس کو بھی میں حکم سمجھتی ہوں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ پس یہ ہے وہ وفا اور اطاعت کا معیار جو اُن میں تھا۔
بہت سارے لکھنے والے ہیں اس وقت سب تو بیان کرنے مشکل ہیں۔ ایک خاتون نے لکھا کہ ایک دفعہ میں اپنے گھر سے جو ہسپتال کے پیچھے ہے لجنہ کے دفتر جا رہی تھی تو یہ جماعتی گاڑی میں باہر آ رہی تھیں۔ جماعتی کام سے کہیں جا رہی تھیں۔ مجھے پوچھا کہاں جا رہی ہو تو میں نے بتایا لجنہ کے دفتر میں فلاں ڈیوٹی ہے تو انہوں نے ڈرائیور کو کہا کہ پہلے اس کو لجنہ کے دفتر میں چھوڑ آؤ کیونکہ یہ جماعتی کام سے جا رہی ہے اور پھر کہا کہ جماعتی گاڑی کو مَیں صرف جماعتی کام کے لئے استعمال کرتی ہوں۔ آپ کی بیٹی ندرت عائشہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری امّی ایک مثالی ماں اور نہایت محبت کرنے والا وجود تھیں۔ میرے اور میرے بچوں کے لئے بے حد دعائیں کیا کرتی تھیں۔ جب کوئی مشکل درپیش ہوتی تو فوراً امّی کو فون کر دیتی اور بے فکر ہو جاتی اور اللہ کے فضل سے بعد میں وہ کام آسان بھی ہو جاتا۔ پھر مجھے کہتیں کہ تم سجدہ شکر کرو۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود میری پرورش اور تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اتنی بلند حوصلہ اور باہمت تھیں کہ مجھے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا۔ کبھی اگر ان کو احساس ہوتا کہ بیٹی کی صحیح طرح خدمت نہیں کر سکی تو کہتیں کہ میں اپنی بیٹی کو مصروفیات کی وجہ سے اتنا وقت نہیں دے سکتی لیکن پھر فوراً کہتیں کہ جو وقت انسانیت کی خدمت میں صرف ہوا اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ میری اولاد کے کام خود بنا دے گا۔ ہمیشہ مجھے کہا کرتی تھیں کہ تمہارے نانا جان نے دو چیزیں اپنی اولاد کو نصیحت فرمائی تھیں۔ ایک توکّل علی اللہ اور دوسرا خلافت سے وابستگی۔ اور وہی نصیحت مَیں تمہیں کرتی ہوں کہ ہمیشہ اللہ پر توکل کرنا اور خلافت سے خود کو اور اپنی اولاد کو جوڑے رکھنا۔ یہ لکھتی ہیں کہ خلافت سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتی تھیں۔ جب بیمار ہوئیں اور وینٹی لیٹر (ventilator) لگانے لگے تو نماز پڑھی اور میرے موبائل فون سے قرآن پاک پڑھا۔ پھر ایک پیپر اور قلم مانگا جس پر لکھ دیا کہ خلیفہ وقت کو بار بار دعا کا پیغام بھیجتی رہنا۔ کہتی ہیں کہ میں نے اپنی امی کو بے انتہا پرخلوص اور جماعتی خدمت کے جذبہ سے سرشار پایا۔ فضل عمر ہسپتال میں امی کی خدمات کا آغاز ایک چھوٹے سے کنسلٹیشن رُوم (consultation room) سے ہوا جس کے ایک طرف کاؤچ اور دوسری طرف سادہ سی میز کرسی پڑی ہوئی تھی۔ ان کی خدمت کے جذبے اور دعاؤں نے پہلے انہیں لیبر وارڈ اور پھر شعبہ گائنی کی independent بلڈنگ عطا فرمائی جس کو انہوں نے اور ان کی ٹیم نے بڑے شوق اور لگن سے ایک کامیاب یونٹ بنا دیا۔ میڈیکل equipment خریدنے خود لاہور اور فیصل آباد جایا کرتی تھیں اور میں بھی کچھ سفروں میں ان کے ساتھ تھی۔ ہر دکاندار سے کوٹیشن لیتیں اور کوشش کرتیں کہ جماعت کے پیسے کو بچایا جائے۔
ایک دفعہ کہتی ہیں میری بیٹی عالیہ پندرہ دن کے لئے ربوہ آئی ہوئی تھی اسے بھی اپنے شعبہ کے کام میں شامل کیا کہ ٹائپنگ میں مدد کرو کیونکہ تمہاری ٹائپنگ سپیڈ اچھی ہے اور جماعت کی خدمت کرنا ایک سعادت ہے اور تم اس سعادت سے حصہ پاؤ۔ اپنے کام کی ایسی دھن تھی کہ بیماری کے آخری ایام میں بھی ہسپتال کا نام سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتی اور غنودگی کی حالت میں بھی ہسپتال کے آپریشن تھیئٹر اور مشین بنانے والی کمپنیوں کے نام لیتیں جسے سن کر انگریز نرسز بھی حیران ہوتیں اور مجھ سے پوچھنے لگتیں کہ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ اللہ کی ذات پر بے حد توکل تھا۔ شدید بیماری کے عالم میں چند دن تک بات نہیں کر سکتیں تھیں۔ جب سپیکنگ والو (speaking valve) لگایا گیا تو جو پہلا فقرہ امّی نے ادا کیا وہ یہ تھا کہ میری بیٹی اللہ پر چھوڑ دو۔ اور اگر میں رونے لگتی تو آنکھ کے اشارے سے اللہ کی طرف اشارہ کرتیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس اکلوتی بیٹی کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور جو اس کی ماں نے اس کو نصیحتیں کی ہیں اور اس سے توقعات رکھی ہیں اللہ تعالیٰ ان پر اسے پورا اترنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس بچی کو بھی اور اس کی اولاد کو بھی ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ مرحومہ کے بھی درجات بلند فرمائے اور اللہ تعالیٰ فضل عمر ہسپتال کو خدمت کرنے والی اور وفا کے ساتھ اپنے کام کو پورا کرنے والی، وفا کے ساتھ جماعت سے وابستہ رہنے والی اور خلافت کی اطاعت گزار مزید ڈاکٹریں بھی عطا فرماتا رہے اور جو موجود ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اس کام میں بڑھاتا چلا جائے۔
نماز جمعہ کے بعد ان دونوں کا مَیں نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
جو انسان بھی دنیا میں آیا اس نے ایک دن یہاں سے رخصت ہونا ہے لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جن کو اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائے اور انسانیت کی خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
سلسلہ کے دیرینہ خادم اور مبلغ مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب اور فضل عمر ہسپتال ربوہ کی واقف زندگی ڈاکٹر مکرمہ نصرت جہاں صاحبہ بنت مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب (مرحوم) کی وفات۔
مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 21؍اکتوبر 2016ء بمطابق21؍اخاء 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الاسلام، ٹورانٹو، کینیڈا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔