وقف نَو بچے، بچیوں اور ان کے والدین کو نہایت اہم نصائح
خطبہ جمعہ 28؍ اکتوبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بچوں کو وقف کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ روزانہ مجھے والدین کے خط ملتے ہیں۔ بعض دنوں میں ان کی تعداد بیس پچیس ہو جاتی ہے جس میں ماں باپ اپنے ہونے والے بچوں کو وقف نَو میں شامل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جب یہ تحریک فرمائی تھی، پہلے مستقل نہیں تھی پھر آپ نے اسے مستقل کر دیا اور جماعت نے بھی خاص طور پر ماؤں نے اس پر ہر ملک میں لبیک کہا۔ آج سے بارہ تیرہ سال پہلے جماعت کی جو اس طرف توجہ ہوئی تھی اس کی وجہ سے جو تعداد واقفین نَو کی 28000 سے اوپر تھی اب یہ تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 61000 کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے چھتیس ہزار سے اوپر لڑکے ہیں اور باقی لڑکیاں۔ گویا وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے وقف کرنا ہے۔
لیکن صرف بچوں کو وقف کے لئے پیش کرنے سے ماں باپ کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ بیشک ایک احمدی بچے کی تربیت والدین پر ہے اور والدین اپنے بچے کی بہتری ہی چاہتے ہیں۔ اس کی دنیاوی تعلیم بھی چاہتے ہیں۔ تربیت بھی چاہتے ہیں۔ دینی تعلیم بھی چاہتے ہیں اگر وہ دینی رجحان رکھنے والے والدین ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر بچہ اور خاص طور پر وقف نَو بچہ ان کے پاس جماعت کی امانت ہے جس کی تربیت اور اسے جماعت اور معاشرے کا بہترین حصہ بنانا والدین کا فرض ہے لیکن واقفین نَو بچوں کی تربیت ان کی دینی اور دنیاوی تعلیم پر خاص توجہ اور انہیں بہتر طور پر تیار کر کے جماعت کو دینا اس لحاظ سے بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ پیدائش سے پہلے ماں باپ یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ بھی ہمارے ہاں پیدا ہونے والا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی اسے خدا کے لئے، اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے مشن کی تکمیل کے لئے جو تکمیل اشاعت ہدایت کا مشن ہے، جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا مشن ہے، جو خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف دنیا کو توجہ دلانے کا مشن ہے، جو ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی اسلامی تعلیم دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کا مشن ہے، اس کے لئے پیش کرتے ہیں۔ پس یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو وقف نَو بچوں کے والدین خاص طور پر ماں اپنے ہونے والے بچے کی پیدائش سے پہلے خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد کرتے ہوئے پیش کرتی ہے اور خلیفہ وقت کو لکھتے ہیں کہ ہم حضرت مریم کی ماں کی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہوئے اپنے بچے کو وقف نَو سکیم میں پیش کر رہے ہیں کہ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(آل عمران: 36)کہ اے میرے رب! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں۔ یہ تو مجھے نہیں پتا کہ کیا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی لیکن جو بھی ہے میری خواہش ہے میری دعا ہے کہ یہ دین کا خادم بنے۔ فَتَقَبَّلْ مِنِّی۔ میری اس خواہش اور دعا کو قبول فرما اور اسے قبول فرما لے۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم۔ تو بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔ پس میری عاجزانہ دعا بھی سن لے۔ تجھے علم ہے کہ یہ دعا میرے دل کی آواز ہے۔ یہ بچے کی ماؤں کی خواہش ہوتی ہے وقف سے پہلے اور ہونی چاہئے ایک احمدی ماں کی جب وہ اپنے بچے کو وقف نَو کے لئے پیش کرتی ہے اور اس میں باپ بھی شامل ہے۔
پس جب یہ دعا وقف نَو میں شامل کرنے والے بچے کی ماں کرتی ہے تو ان ذمہ داریوں کا بھی احساس رہنا چاہئے جو اس عہد کے نبھانے اور اس دعا کے قبول ہونے کے لئے ماؤں پر بھی اور باپوں پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ وقف نَو میں بچہ ماں اور باپ دونوں کی رضا مندی سے پیش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قرآن کریم میں محفوظ اس لئے نہیں فرمائی کہ پرانے زمانے کا ایک قصہ سنانا مقصود تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کو یہ دعا اس قدر پسند آئی اور اسے اس لئے محفوظ فرمایا کہ آئندہ آنے والی مائیں بھی یہ دعا کر کے اپنے بچوں کو دین کی خاطر غیر معمولی قربانیاں کرنے والا بنائیں۔ گو کہ ہر مومن دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتا ہے لیکن وقف کرنے والے ان معیاروں کی انتہاؤں کو چھونے والے ہونے چاہئیں۔ پس جب ابتداسے مائیں اور باپ اپنے بچوں کے ذہنوں میں ڈالیں گے کہ تم وقف ہو اور ہم نے تمہیں خالصۃً دین کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا اور یہی تمہاری زندگی کا مقصد ہونا چاہئے اور ساتھ ہی دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو پھر بچے اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھیں گے کہ انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ پروان نہیں چڑھیں گے کہ ہم نے بزنس مین بننا ہے، ہم نے کھلاڑی بننا ہے، ہم نے فلاں شعبہ میں جانا ہے، ہم نے فلاں شعبہ میں جانا ہے، بلکہ ان کی طرف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ میں وقف نَو ہوں مجھے جماعت بتائے، مجھے خلیفۂ وقت بتائے کہ میں کس شعبہ میں جاؤں۔ مجھے اب دنیا سے کوئی غرض نہیں۔ جو عہد میری ماں نے پیدائش سے پہلے کیا تھا اور جو دعائیں اس نے میری پیدائش سے پہلے مانگی تھیں اور پھر میری تربیت ایسے رنگ میں کی کہ میں دنیا کی بجائے دین کو تلاش کروں میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میری ماں کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور میری ماں کی کوششوں کو جو اس نے میری تربیت کے لئے کیں اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا۔ اب میں بغیر کسی دنیاوی لالچ اور خواہش کے صرف اور صرف دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہوں۔ اس سوچ کا اظہار پہلے تو واقفین نَو کو اپنے وقف کی تجدید کرتے ہوئے پندرہ سال کی عمر میں کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے میں نے متعلقہ انتظامیہ جو ہے ان کو ہدایت بھی کی ہوئی ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں باقاعدہ تحریری طور پر ان سے لیں کہ وہ وقف کو جاری رکھیں گے یا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ پھر بیس اکیس سال کی عمر میں جب پڑھائی سے فارغ ہو جاتے ہیں تو ان سب کے لئے ضروری ہے جو جامعہ میں داخل نہیں ہوئے کہ وہ اس بونڈ (Bond) کو دوبارہ لکھیں۔ پھر اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ کسی شعبہ میں کچھ تربیت لے لو تو پھر دوبارہ تحریر کریں۔ گویا کہ ہر مرحلے پر وقف نَو کو خود اپنی دلی خواہش کے مطابق اپنے وقف کو قائم رکھنے کا اظہار کرنا چاہئے۔
اس بارے میں جیسا کہ میں نے کہا میں پہلے تفصیلاً کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں۔ کسی وقف نَو بچے کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ ہم نے اگر وقف کیا تو ہم دنیاوی طور پر کس طرح گزارہ کریں گے یا یہ وسوسہ دل میں پیدا ہو جائے کہ ہم ماں باپ کی مالی خدمت کس طرح کریں گے یا جسمانی طور پر خدمت کس طرح کریں گے۔ گزشتہ دنوں میری یہاں واقفین نَو کے ساتھ کلاس تھی تو ایک لڑکے نے یہ سوا ل کیا کہ اگر ہم وقف کر کے جماعت کو ہمہ وقت اپنی خدمات پیش کر دیں تو ہم اپنے والدین کی مالی یا جسمانی یا عمومی خدمت کس طرح کر سکیں گے۔ یہ سوال پیدا ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے اپنے واقفین نَو بچوں کے دل میں یہ بات بٹھائی ہی نہیں کہ تمہیں ہم نے وقف کر دیا ہے اور اب تم ہمارے پاس صرف اور صرف جماعت کی امانت ہو۔ دوسرے بہن بھائی ہماری خدمت کر لیں گے۔ تم نے صرف اپنے آپ کو خلیفۂ وقت کو پیش کر دینا ہے اور اس کے حکموں کے مطابق چلانا ہے۔ حضرت مریم کی والدہ کی دعا میں جو لفظ مُحَرَّرًا استعمال ہوا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ میں نے اس بچہ کو دنیاوی ذمہ داریوں سے بالکل علیحدہ کیا اور میری دعا ہے کہ خالصۃً دین کی ذمہ داری ہی اس کی ترجیح ہو جائے۔
پس ان ماؤں اور باپوں سے سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وقف نَو کا صرف نام ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ وقف تو ایک اہم ذمہ داری ہے۔ ایک وقف نَو کے جوانی تک پہنچنے تک ماں باپ کی اور اس کے بعد خود اس کی اپنی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے۔ بعض لڑکے لڑکیاں جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے بظاہر بڑا جوش دکھاتے ہیں، اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں لیکن بعد میں ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ اس لئے چھوڑ جاتے ہیں کہ جماعت جو الاؤنس دیتی ہے اس میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ جب ایک بڑا مقصد حاصل کرنا ہے تو تنگی اور قربانی تو کرنی پڑتی ہے۔ پس اگر بچپن سے یہ بات واقفین کے دماغوں میں بٹھا دی جائے کہ وقف زندگی سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ دنیاوی طور پر دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے، یہ سوچنے کی بجائے کہ میرا فلاں کلاس فیلو میری جتنی تعلیم حاصل کر کے لاکھوں کما رہا ہے اور میں ایک مہینہ بھی اس کے ایک دن کی آمد کے جتنا نہیں کما رہا، یہ سوچ ہونی چاہئے کہ جو مقام مجھے خدا تعالیٰ نے دیا ہے وہ دنیاوی مال سے بہت بڑھ کر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سامنے رکھیں کہ دنیاوی مال و اسباب کے لحاظ سے اپنے سے کمتر کو دیکھو اور روحانی لحاظ سے اپنے سے بڑھے ہوئے کو دیکھو تا کہ مادی دوڑ میں بڑھنے کی بجائے روحانی دوڑ میں بڑھنے کی کوشش کرو۔ (بخاری کتاب الرقاق باب لینظر الیٰ من ھو اسفلہ منہ … الخ حدیث 6490) (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الرقاق باب لینظر الیٰ من ھو اسفلہ منہ … الخ حدیث 6490 جلد 11 صفحہ 392 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
پس جو واقفین نَو لڑکے خاص طور پر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں خود بھی اپنی ظاہری اور مالی حالت کی بہتری کی بجائے روحانی حالت میں بہتری کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو ہر احمدی سے اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ اس کا معیار انتہائی بلند ہو تو ایک شخص جس کے ماں باپ نے پیدائش سے پہلے اس کو دین کے لئے وقف کر دیا اور اس کے لئے دعائیں بھی کی ہوں اس کو کس قدر ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اُسے سُنے یا نہ سُنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے۔ اور حیات طیّبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے۔ اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اور حضرت ابراہیمؑ کی طرح اُس کی رُوح بول اٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (البقرۃ: 132)‘‘ کہ میں تو اپنے ربّ کا فرمانبردار ہو چکا ہوں۔ فرمایا ’’جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا۔ پس تُم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف مَیں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں۔‘‘ یہی بنیاد ہے اور یہی مقصد ہے ’’پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اِس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 100۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس واقفین نَو کو عام احمدی سے بلند ہو کر یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کی خاطر دوسرے بھی وقف کرتے ہیں اور ہر ایک وقف کر بھی نہیں سکتا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ہونا چاہئے جو دین کا علم حاصل کرے اور پھر جا کے اپنے لوگوں کو بتائے۔ دنیاوی کاموں میں بھی الجھے ہوئے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا کہ دنیاوی کام کرتے ہوئے بھی خدا کا خوف اور دین مقدم ہونا چاہئے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 91۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
واقفین نَو کو تو اپنے قناعت کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ اپنی قربانی کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم مالی لحاظ سے کمزور ہوں گے تو ہمیں شاید ہمارے بہن بھائی کمتر سمجھیں یا والدین ہمیں اس طرح توجہ نہ دیں جس طرح باقیوں کو دے رہے ہیں۔ اول تو والدین کو ہی یہ خیال کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ واقفین زندگی کمتر ہیں۔ واقفین زندگی کا معیار اور مقام ان کی نظر میں بہت بلند ہونا چاہئے۔ لیکن واقفین زندگی کو خود اپنے آپ کو ہمیشہ دنیا کا عاجز ترین بندہ سمجھنا چاہئے۔
واقفین نَو کو جہاں قربانی کا معیار بڑھانا ہے وہاں اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی بلند کرنا چاہئے، اپنی وفا کے معیار کو بھی بڑھانا چاہئے۔ اپنے اور اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام صلاحتیوں اور استعدادوں سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کی خاطر، دین کی سربلندی کی خاطر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تب اللہ تعالیٰ بھی نوازتا ہے اور کسی کوبغیر جزا کے اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک موقع پر اپنے عہدوں کو وفا کے ساتھ پورا کرنے کے بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کی ہے جیسا کہ فرمایا ہے: وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم: 38) کہ اس نے جو عہد کیا اسے پورا کر کے دکھایا‘‘۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 234۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس عہدوں کو پورا کرنا کوئی معمولی چیز نہیں ہے اور وہ عہد جو وقف زندگی کا عہد ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درد بھرے الفاظ ہم سن چکے ہیں یہ کیسا عظیم عہد ہے۔ اگر ہر وقف نَو لڑکا اور لڑکی اپنے اس عہد کو وفا کے ساتھ پورا کرنے والا ہو تو ہم دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ بعض نوجوان جوڑے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بھی وقف نَو ہوں، میری بیوی بھی وقف نَو ہے، میرا بچہ بھی وقف ہے۔ یا ماں کہے گی کہ میں وقف نَو ہوں، باپ کہے گا میں وقف نَو ہوں اور میرا بچہ وقف نَو ہے تو یہ بڑی قابل تعریف بات ہے۔ لیکن اس کا حقیقی فائدہ تو جماعت کو تبھی ہو گا جب وفا کے ساتھ اپنے وقف کے عہد کو پورا کریں گے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے وفا کے مضمون کو ایک جگہ مزید کھولا ہے اور اس طرح کھولا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے‘‘۔ سچائی پر قائم ہو۔ وفا تمہاری سچی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ’’حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم: 38)کہ ابراہیم وہ ابراہیم ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔ جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذّتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بُت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے وہ بُت ہے اور اس قدر بُت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ میں بُت پرستی کر رہا ہوں‘‘۔ کہیں آجکل کے زمانے میں ڈرامے بت بن گئے ہیں۔ کہیں انٹرنیٹ بت بن گیا ہے۔ کہیں دنیا کمانا بت بن گیا ہے۔ کہیں اور خواہشات بت بن گئی ہیں۔ پر آپ نے فرمایا کہ انسان کو پتا ہی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہاہوں اور وہ اندر ہی اندر کر رہا ہوتا ہے۔ پس فرمایا کہ ’’پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰیکی آواز اُس وقت آئی جب وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے۔‘‘ عمل دکھ سے آتا ہے یعنی انسان کو جو نیک اعمال ہیں ان کے بجا لانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف اور دکھ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ لیکن دکھ میں ہمیشہ نہیں رہتا انسان۔ عمل کرنے میں بیشک دکھ ہے لیکن دکھ میں ہمیشہ نہیں رہتا انسان۔ فرمایا ’’لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاوے تو خداتعالیٰ اُس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ … ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیار کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا‘‘۔ بیٹے کی جان بھی بچ گئی اور باپ کو بیٹے کی قربانی کی وجہ سے جو دکھ ہونا تھا اس دکھ سے بھی نجات ہو گئی۔ فرمایا کہ ’’وہ آگ میں ڈالے گئے (حضرت ابراہیم علیہ السلام) لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کر سکی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ اگر انسان ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 429-430۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ وہ معیار ہے اللہ تعالیٰ کا پیار جذب کرنے کے لئے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے اور ہم سے اس کے حصول کی توقع رکھی ہے۔ یہ معیار نہ صرف ہر واقف نَو کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ ہر واقف زندگی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک قربانیوں کے معیار نہیں بڑھیں گے ہمارے وقف زندگی کے دعوے سطحی دعوے ہوں گے۔
بعض مائیں کہہ دیتی ہیں ہم کینیڈا آ گئے ہیں ہمارا بیٹا پاکستان میں مربی ہے یا وقف زندگی ہے اسے بھی یہاں بلا لیں اور یہیں اس کی ڈیوٹی لگا دیں یا ہمارے پاس آ جائے۔ جب وقف کر دیا تو پھر مطالبے کیسے؟ پھر یہ خواہشیں کیسی؟ خواہشیں تو ختم ہو گئیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ واقفین نَو میں شامل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے یہ بڑی اچھی بات ہے تو اس رجحان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے بڑھائیں نہ کہ حالات کے بدلنے سے اپنے عہدوں کو کمزور کرنے والے یا توڑنے والے بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بغیر دکھ کے، بغیر تکلیف کے قربانی نہیں ہو سکتی۔ حالات اگر بدلے ہیں تو ہم نے اس کو برداشت کرنا ہے خاص طور پر انہوں نے جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کیا یا جن کے ماں باپ نے اپنے بچوں کو پیش کیا اور پھر انہوں نے اس کی تجدید کی کہ ہم اپنے عہد جاری رکھیں گے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان خدا کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نوازتا ہے، اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑتا اور بے انتہا نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تمام واقفین نَو بھی اور ان کے ماں باپ بھی وقف کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں اور اپنی وفاؤں کے معیاروں کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جانے والے ہوں۔ مختصراً بعض انتظامی باتوں اور واقفین کے لئے لائحہ عمل کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں۔ بعض واقفین نَو کے ذہنوں میں غلط فہمیاں ہیں کہ وقف نَو ہو کر ان کی کوئی علیحدہ ایک شناخت بن گئی ہے۔ شناخت تو بیشک بن گئی ہے لیکن اس شناخت کے ساتھ ان سے غیر معمولی طور پرامتیازی سلوک نہیں ہو گا بلکہ اس شناخت کے ساتھ ان کو اپنی قربانیوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ بعض لوگ اپنے واقفین نَو بچوں کے دماغوں میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ تم بڑے سپیشل بچے ہو جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے ہو کر بھی ان کے دماغوں میں سپیشل ہونا رہ جاتا ہے۔ اور یہاں بھی اس قسم کی باتیں مجھے پہنچی ہیں۔ وہ وقف کی حقیقت کو پیچھے کر دیتے ہیں اور وقف نَو کے ٹائٹل کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیتے ہیں کہ ہم سپیشل ہو گئے۔
بعض کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ کیونکہ ہم وقف نَو میں ہیں اس لئے ہمیں اگر لڑکیاں ہیں تو ناصرات اور لجنہ اور لڑکے ہیں تو اطفال اور خدام کے پروگراموں میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری تنظیم ایک علیحدہ تنظیم بن گئی۔ یہ بالکل غلط تصور ہے اگر کسی کے دل میں ہے۔ جماعت کا تو کوئی عہدیدار بھی حتی کہ امیر جماعت بھی اپنی عمر کے لحاظ سے متعلقہ ذیلی تنظیم کا ممبر ہوتا ہے۔
پس ہر واقف نَو لڑکی اور لڑکے کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ عمر کے لحاظ سے اپنی تنظیموں کے ممبر ہیں جس جس عمر میں ہیں اور ان کے لئے ان کے پروگراموں میں حصہ لینا ضروری ہے اور جو حصہ نہیں لیتا ان کے بارے میں متعلقہ تنظیم کا صدر جو ہے وہ رپورٹ کرے اور اگر اس وقف نَو کی اصلاح نہیں ہوتی تو پھر ایسے بچے کو یا لڑکے کو یا نوجوان کو وقف نَو سکیم سے نکال دیا جائے گا۔ ہاں اگر بعض جماعتی پروگرام ہیں، وقف نَو کا پروگرام ہے، ذیلی تنظیموں کے پروگرام ہیں تو آپس میں مل جل کر ایک ایسے وقت رکھے جا سکتے ہیں جس میں ذیلی تنظیمیں اپنے پروگرام کریں اور وقف نَو والے اپنے۔ اور کوئی clash نہ ہو۔ پس اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
وقف نَو جیسا کہ میں نے کہا بڑے سپیشل ہیں لیکن سپیشل ہونے کے لئے ان کو ثابت کرنا ہو گا۔ کیا ثابت کرنا ہو گا؟کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان میں خوف خدا دوسروں سے زیادہ ہے تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان کی عبادتوں کے معیار دوسروں سے بہت بلند ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ وہ فرض نمازوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے والے ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان کے عمومی اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے۔ یہ ایک نشانی ہے سپیشل ہونے کی۔ ان کی بول چال، بات چیت میں دوسروں کے مقابلے میں بہت فرق ہے۔ واضح پتا لگتا ہے کہ خالص تربیت یافتہ اور دین کو دنیا پر ہر حالت میں مقدم کرنے والا شخص ہے تب سپیشل ہوں گے۔ لڑکیاں ہیں تو ان کا لباس اور پردہ صحیح اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ کر رشک کرنے والے ہوں اور یہ کہنے والے ہوں کہ واقعی اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی ان کے لباس اور پردہ ایک غیر معمولی نمونہ ہے تب سپیشل ہوں گی۔ لڑکے ہیں تو ان کی نظریں حیا کی وجہ سے نیچے جھکی ہوئی ہوں نہ کہ ادھر ادھر غلط کاموں کی طرف دیکھنے والی تب سپیشل ہوں گے۔ انٹرنیٹ اور دوسری چیزوں پر لغویات دیکھنے کی بجائے وہ وقت دین کا علم حاصل کرنے کے لئے صرف کرنے والے ہوں تو تب سپیشل ہوں گے۔ لڑکوں کے حلیے دوسروں سے انہیں ممتاز کرنے والے ہوں تو تب سپیشل ہوں گے۔ وقف نَو لڑکے اور لڑکیاں روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اور اس کے احکامات کی تلاش کر کے اس پر عمل کرنے والے ہوں کی تو پھر سپیشل کہلا سکتے ہیں۔ ذیلی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں میں دوسروں سے بڑھ کر اور باقاعدہ حصہ لینے والے ہیں تو پھر سپیشل ہیں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے لئے دعاؤں میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے بڑھے ہوئے ہیں تو یہ ایک خصوصیت ہے۔ رشتوں کے وقت لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی دنیا دیکھنے کی بجائے دین دیکھنے والے ہیں اور پھر وہ رشتے نبھانے والے بھی ہیں تو تب کہہ سکتے ہیں کہ ہم خالصۃً دینی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے رشتے نبھانے والے ہیں تو سپیشل کہلائیں گے۔ ان میں برداشت کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہے، لڑائی جھگڑااور فتنہ و فساد کی صورت میں اس سے بچنے والے ہیں بلکہ صلح کروانے والے ہیں تو سپیشل ہیں۔ تبلیغ کے میدان میں سب سے آگے آ کر اس فریضہ کو سرانجام دینے والے ہیں تب سپیشل ہیں۔ خلافت کی اطاعت اور اس کے فیصلوں پر عمل میں صف اول میں ہیں تو سپیشل ہیں۔ دوسروں سے زیادہ سخت جان اور قربانیاں کرنے والے ہیں تو بالکل سپیشل ہیں۔ عاجزی اور بے نفسی میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں، تکبر سے نفرت اور اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہیں تو بڑے سپیشل ہیں۔ ایم ٹی اے پر میرے خطبے سننے والے اور میرے ہر پروگرام کو دیکھنے والے ہیں تا کہ ان کو رہنمائی ملتی رہے تو بڑے سپیشل ہیں۔ اگر تو یہ باتیں اور تمام وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں یہ سب کرنے والے ہیں اور وہ تمام باتیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور ان سے اس نے روکا ہے اس سے رکنے والے ہیں تو یقینا سپیشل بلکہ بہت سپیشل ہیں ورنہ آپ میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ ماں باپ کو بھی یاد رکھنا چاہئے اور اپنے بچوں کی اس نہج سے تربیت کرنی چاہئے کیونکہ اگر یہ چیزیں ہیں تو اس وقت دنیا میں انقلاب لانے کا ذریعہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اگر یہ نہیں اور اس وجہ سے دنیا آپ کے نمونے کو دیکھنے والی نہیں تو سپیشل کیا اپنے عہدوں کو پورا نہ کرنے اور اپنی وفا کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے وفاؤں اور بدعہدوں میں شمار ہوں گے۔
پس تربیت کے دور میں سے گزارتے وقت ماں باپ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اس لحاظ سے انہیں سپیشل بنائیں اور بڑے ہو کر یہ واقفین نَو خود اس سپیشل ہونے کے معیار کو حاصل کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اپنی دنیاوی تعلیم کے دوران مختلف دوروں سے گزرتے وقت بجائے خود فیصلے کرنے کے جماعت سے پوچھیں کہ ہمیں کس لائن میں جانا ہے۔ لائن منتخب کرنے کے بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ واقفین نَو لڑکے جامعات میں جا کر مربی اور مبلغ بننے کو پہلی ترجیح دیں۔ اس وقت اس کی ضرورت ہے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے۔ نہ صرف ان ملکوں میں نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں جہاں جماعت کے قیام کو لمبا عرصہ گزر گیا ہے بلکہ نئے نئے ممالک بھی اللہ تعالیٰ جماعت کو عطا فرما رہا ہے اور وہاں جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور ہمیں ہر ملک میں بے شمار مربیان اور مبلغین چاہئیں۔ پھر ہمارے ہسپتالوں کے لئے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ربوہ میں بہت سے ڈاکٹروں کی جو مختلف شعبوں کے ماہر ہوں ان کی ضرورت ہے۔ قادیان میں ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ دنیا والے میرا خطبہ سن رہے ہیں اگر یہاں سے نہیں بھی جا سکتے تو اپنے اپنے ملکوں میں واقفین نَو اس طرف توجہ دیں اور ماہرین ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ بہت بڑا خلاء ہے کہ ہمارے پاس ماہرین ڈاکٹر کم ہیں۔ افریقہ میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور ہر شعبہ کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ پھر اب گوئٹے مالا میں بڑا ہسپتال بن رہا ہے۔ وہاں تو کینیڈا سے بھی جا سکتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت آئندہ بڑھے گی۔ انڈونیشیا میں ضرورت ہے اور جوں جوں جماعت پھیلے گی یہ ضرورت بڑھتی جائے گی۔ اس لئے سپیشلائز کر کے ان ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اور تجربہ لے کر واقفین نَو بچوں کو جو ڈاکٹر بن رہے ہیں ان کو آگے آنا چاہئے اور جن ملکوں میں جانا آسان ہے وہاں جانا چاہئے۔ اپنے آپ کو پیش کریں پھر جماعت بھیج دے گی۔ اسی طرح سکولوں کے لئے ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرز اور ٹیچرز کے لئے تو لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی کام آ سکتے ہیں اس لئے اس طرف توجہ کریں۔ کچھ آرکیٹکٹ اور انجنیئرز بھی چاہئیں جو تعمیرات کے شعبہ کے ماہر ہوں تا کہ مساجد مشن ہاؤسز سکول ہسپتال وغیرہ کی تعمیر کے کاموں میں صحیح نگرانی کر کے اور پلاننگ کر کے جماعتی اموال کو بچایا جا سکے۔ کم پیسے میں زیادہ بہتر سہولت مہیا کی جا سکے۔ پھر پیرا میڈیکل سٹاف بھی چاہئے اس میں بھی آنا چاہئے تو یہ تو وہ چند بعض اہم شعبے ہیں جن کی جماعت کو فی الحال ضرورت ہے۔ آئندہ ضروریات حالات کے مطابق بدلتی بھی رہیں گی۔
بعض واقفین نَو کی اپنی دلچسپی بھی بعض مضامین میں زیادہ ہوتی ہے اور جب میرے سے پوچھتے ہیں تو میں ان کی دلچسپی دیکھتے ہوئے ان کو اجازت بھی دے دیتا ہوں کہ وہ پڑھیں لیکن یہاں میں طلباء کو یہ بھی کہوں گا کہ وہ سائنس کے مختلف شعبوں میں ریسرچ میں بھی جائیں اور اس میں عمومی طور پر واقفین نَو بھی اور دوسرے سٹوڈنٹس بھی شامل ہیں۔ سائنس کے مختلف شعبہ جات کی ریسرچ میں ہمارے بہترین سائنس دان پیدا ہو جائیں تو آئندہ جہاں دین کا علم دینے والے احمدی ہوں گے اور دنیا دین سیکھنے کے لئے آپ کی محتاج ہو گی وہاں دنیاوی علم دینے والے بھی احمدی مسلمان ہوں گے اور دنیا آپ کی محتاج ہو گی۔ ایسی صورت میں واقفین نَو بیشک دنیا کا کام کر رہے ہوں گے لیکن ان کا مقصد اس علم اور کام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا پر ثابت کرنا ہوگا، اس کے دین کو پھیلانا ہو گا۔
اسی طرح دوسرے شعبہ جات میں واقفین نَو جا سکتے ہیں لیکن بنیادی مقصد یہ ہے اور جس کو ہر ایک کو جاننا چاہئے کہ میں واقف زندگی ہوں اور کسی وقت بھی مجھے دنیاوی کام چھوڑ کر دین کی ضرورت کے لئے پیش ہونے کا کہا جائے تو بغیر کسی عذر کے، بغیر کسی حیل و حجت کے آ جاؤں گا۔
ایک اہم بات جو ہر واقف نَو کو یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا کے کام کرنے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے لیکن یہ دنیا کے کام انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دین کا علم اور دین کی خدمت سے محروم کرنے والا نہ ہو بلکہ اس کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش ان کی اولین ترجیح ہو۔ قرآن کریم کی تفسیر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ہر وقف نَو کے لئے ضروری ہے۔ وقف نَو شعبہ نے غالباً اکیس سال کی عمر تک سلیبس بنایا ہوا ہے وہ موجود ہے اس کے بعد خود اپنے دینی مطالعہ کو بڑھائیں یہ ضروری ہے۔
ماں باپ کو بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ جتنی چاہے اپنے بچوں کی زبانی تربیت کر لیں اس کا اثر اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک اپنے قول و فعل کو اس کے مطابق نہیں کریں گے۔ ماں باپ کو اپنی نمازوں کی حالتوں کو نمونہ بنانا ہو گا۔ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کے لئے اپنے نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ اعلیٰ اخلاق کے لئے نمونہ بننا ہو گا۔ دینی علم سیکھنے کی طرف خود بھی توجہ کرنی ہو گی۔ جھوٹ سے نفرت کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ باوجود اس کے کہ بعض کو کسی عہدیدار سے تکلیف پہنچی ہو گھروں میں نظام کے خلاف یا عہدیداروں کے خلاف بولنے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ ایم ٹی اے پر کم از کم میرے خطبات جو ہیں وہ باقاعدگی سے سننے ہوں گے اور یہ باتیں صرف واقفین نَو کے والدین کے لئے ضروری نہیں بلکہ ہر وہ احمدی جو چاہتا ہے کہ ان کی نسلیں نظام جماعت سے وابستہ رہیں انہیں چاہئے کہ اپنے گھروں کو احمدی گھر بنائیں، دنیا داروں کے گھر نہ بنائیں ورنہ اگلی نسلیں دنیا میں پڑ کر نہ صرف احمدیت سے دور چلی جائیں گی بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی دور ہو جائیں گی اور اپنی دنیا و عاقبت دونوں برباد کریں گی۔
خدا کرے کہ نہ صرف تمام واقفین نَو بچے خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے والے اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں بلکہ ان کے عزیزوں کے عمل بھی ان کو ہر قسم کی بدنامی سے بچانے والے ہوں۔ بلکہ ہر احمدی وہ حقیقی احمدی بن جائے جس کی بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تلقین فرمائی ہے تا کہ دنیا میں جلد تر ہم احمدیت اور حقیقی اسلام کا جھنڈا اٹھتا ہوا دیکھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’انسان ایک دو کاموں سے سمجھ لیتا ہے کہ میں نے خدا کو راضی کر لیا حالانکہ یہ بات نہیں ہوتی۔‘‘ فرمایا کہ’’اطاعت ایک بڑا مشکل امر ہے۔ صحابہ کرام کی اطاعت، اطاعت تھی‘‘۔ وہ حقیقی اطاعت تھی جس کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’… کیا اطاعت ایک سہل امر ہے؟ جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حکم تو بہت ہیں۔ جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 73-74۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے۔ …صرف ماننے سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک اچھے عمل نہ ہوں۔ کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو ہو نیک بنو۔ متقی بنو۔ ہر ایک بدی سے بچو۔ …زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 274۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی نیکی اور تقویٰ پر قائم ہونے والی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے والی ہوں۔
صرف بچوں کو وقف کے لئے پیش کرنے سے ماں باپ کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر بچہ اور خاص طور پر وقف نَو بچہ ان کے پاس جماعت کی امانت ہے جس کی تربیت اور اسے جماعت اور معاشرے کا بہترین حصہ بنانا والدین کا فرض ہے۔
کسی وقف نَو بچے کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ ہم نے اگر وقف کیا تو ہم دنیاوی طور پر کس طرح گزارہ کریں گے یا یہ وسوسہ دل میں پیدا ہو جائے کہ ہم ماں باپ کی مالی خدمت کس طرح کریں گے۔ جو واقفین نَو لڑکے خاص طور پر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں خود بھی اپنی ظاہری اور مالی حالت کی بہتری کی بجائے روحانی حالت میں بہتری کی کوشش کریں۔ واقفین نَو کو تو اپنے قناعت کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ اپنی قربانی کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہئے۔ واقفین نَو کو جہاں قربانی کا معیار بڑھانا ہے وہاں اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی بلند کرنا چاہئے، اپنی وفا کے معیار کو بھی بڑھانا چاہئے۔ اپنے اور اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام صلاحتیوں اور استعدادوں سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کی خاطر، دین کی سربلندی کی خاطر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تب اللہ تعالیٰ بھی نوازتا ہے۔
اور کسی کوبغیر جزا کے اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑتا۔ اپنی دنیاوی تعلیم کے دوران مختلف دوروں سے گزرتے وقت بجائے خود فیصلے کرنے کے جماعت سے پوچھیں کہ ہمیں کس لائن میں جانا ہے۔ لائن منتخب کرنے کے بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ واقفین نَو لڑکے جامعات میں جا کر مربی اور مبلغ بننے کو پہلی ترجیح دیں۔ ہر وہ احمدی جو چاہتا ہے کہ ان کی نسلیں نظام جماعت سے وابستہ رہیں انہیں چاہئے کہ اپنے گھروں کو احمدی گھر بنائیں، دنیا داروں کے گھر نہ بنائیں ورنہ اگلی نسلیں دنیا میں پڑ کر نہ صرف احمدیت سے دور چلی جائیں گی بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی دور ہو جائیں گی اور اپنی دنیا و عاقبت دونوں برباد کریں گی۔
(تمام احمدیوں با لخصوص وقف نَو بچے، بچیوں اور ان کے والدین کو نہایت اہم نصائح)
فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء بمطابق28؍اخاء 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الاسلام، ٹورانٹو، کینیڈا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔