عدل، انصاف اور تقویٰ
خطبہ جمعہ 25؍ نومبر 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَّکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی أَنْ تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوٗوٓاْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً (النساء: 136)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔
ہم دنیا کو کہتے ہیں کہ دنیا کے مسائل کا حل اسلامی تعلیم میں ہے اس کے لئے ہم قرآنی تعلیم پیش کرتے ہیں۔ میرے کینیڈا کے دورے کے دوران ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ آجکل کے مسائل کا تم کیا حل پیش کرتے ہو؟ مَیں نے اسے کہا کہ تم دنیا والے اور دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے زعم میں مسائل حل کرنے اور دنیا میں امن قائم کرنے اور شدت پسندی کو روکنے کے لئے اپنی تمام کوششیں کر بیٹھے ہو لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ ایک جگہ کچھ کمی ہوتی ہے تو دوسری جگہ شعلہ بھڑک اٹھتا ہے۔ وہاں سے قابو پانے کی کوشش کرتے ہو تو پہلی جگہ فساد برپا ہوجاتا ہے۔ تمام دنیاوی کوششیں تو ان فسادات کو ختم کرنے کے لئے بروئے کار لائی جا چکی ہیں، استعمال ہو چکی ہیں، صرف ایک کوشش ابھی نہیں ہوئی اور وہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اس کا حل ہے۔ اس پہ وہ خاموش تو ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ بدقسمتی سے مسلمان ممالک نے بھی اسلام کا نعرہ تو لگایا ہے لیکن جو خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے اور جو اسلام چاہتا ہے اور جس کا اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اس پر عمل نہیں کیا، نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ اس وقت دنیا میں فساد کی لپیٹ میں مسلمان ممالک ہی ہیں۔ اس سے زیادہ بڑا المیہ اَور کیا ہو سکتا ہے۔
اس وقت تک تو کسی صحافی نے مجھے براہ راست یہ نہیں کہا کہ ان احکامات کی اگر کوئی عملی حقیقت ہے تو پہلے مسلمان ممالک اپنی اصلاح کریں۔ لیکن ان کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ سکتے ہیں اور اٹھتے ہوں گے اس لئے مَیں عموماً غیروں کے سامنے اپنی جو تقریریں ہوتی ہیں ان میں پہلے مسلمانوں کی حالت کا ذکر کے پھر ان طاقتوں کو ان کا اپنا چہرہ دکھاتا ہوں اور صحافیوں کے سامنے اور مختلف انٹرویوز میں یہ بتاتا ہوں کہ مسلمانوں کا اس پر عمل نہ کرنا بھی اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی دلیل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہو جائے گی کہ وہ اسلامی تعلیم کی حقیقت بھلا دیں گے اور اپنی نفسانی خواہشات اور اپنے ذاتی مفادات ان کی ترجیح بن جائیں گے۔ (ماخوذ از الجامع لشعب الایمان جلد 3 صفحہ 317-318 حدیث 1763 مطبوعہ مکتبۃالرشد بیروت2004ء)
جب ایسی صورت ہوگی تو اُس وقت آپ کے غلام صادق کا ظہور ہو گا جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور جس کے ظہور کے زمانے کی نشانیاں قرآن کریم نے بھی بیان فرمائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑے واضح طور پر کھول کر بیان فرمائیں۔ اس لئے ایک احمدی مسلمان کے لئے ان حالات میں پریشان ہونے کی بجائے ایک لحاظ سے خوشی کا مقام ہے، یہ تسلی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی جو حالت بیان کی تھی اور خاص طور پر علماء کی حالت کی پیشگوئی فرمائی تھی وہ پوری ہوئی اور ہم اس کے گواہ بنے اور یہ بات تو اب غیر احمدی مسلمان بھی کہنے لگ گئے ہیں اور خاص طور پر اپنے علماء کے بارے میں بھی آوازیں اٹھانے لگ گئے ہیں گو دبی دبی زبان میں ہی یہ آوازیں اٹھ رہی ہوں۔ لیکن ہم احمدی مسلمان اس لحاظ سے بھی خوش ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے دوسرے حصہ کو بھی پورا کرنے والوں میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والوں میں بھی شامل ہیں جس کے ذریعہ سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا دور شروع ہوا ہے۔ لیکن کیا اتنی بات ہمیں ہمارا مقصد حاصل کرنے والا بنا دے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ہم میں سے ہر ایک کو غور کرنا چاہئے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے یہ آیت میں اپنی بہت سی تقریروں میں، خطابات میں بیان کر چکا ہوں جو غیروں کے سامنے کرتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ اسلام جب انصاف اور عدل قائم کرنے کا کہتا ہے تو اس کے لئے جو معیار قائم کرتا ہے وہ اس آیت میں درج ہیں۔ اور اکثر لوگ اس سے بڑے متاثر ہوتے ہیں، اپنے تبصروں میں اس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا کام صرف علمی طور پر دوسروں کو متاثر کرنا نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیں قرآنی احکامات کی عملی مثالیں اپنے عمل سے دکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کوئی حکومت نہیں ہے جہاں ہم حکومتی سطح پر ان احکامات کے نمونے قائم کر کے دکھا سکیں۔ جب وہ وقت انشاء اللہ آئے گا تو اعلیٰ سطح پر بھی یہ نمونے ہمیں دکھانے ہوں گے لیکن اس وقت جماعتی اور معاشرتی سطح پر یہ نمونے ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا ہم سے پوچھ سکتی ہے کہ ٹھیک ہے تمہارے پاس حکومتی اختیارات تو نہیں ہیں لیکن تمہارا ایک جماعتی نظام ہے۔ تم ایک جماعت ہو۔ تم ایک ہاتھ پر اٹھنے اور بیٹھنے کا دعویٰ کرتے ہو۔ تمہارا ایک دوسرے سے معاشی اور معاشرتی معاملات میں واسطہ پڑتا ہے کیا تم انصاف اور ایمانداری کے اس معیار پر اپنے معاملات طے کرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک جگہ شروع میں ’’قسط‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور دوسری جگہ ’’عدل‘‘ کا جس کے معنی ہیں برابری، مکمل انصاف اور اعلیٰ اخلاقی معیار، کسی بھی قسم کی طرفداری سے مکمل طور پر پاک ہونا اور بغیر کسی جھکاؤ اور اثر کے کام کرنا۔ اب ہم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے معاملات طے کرتے ہیں؟ کیا ہم یہ معیار قائم کرنے کے لئے اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم یہ معیار قائم کرنے کے لئے اپنے والدین کے خلاف گواہی دینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم یہ معیار قائم کرنے کے لئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینے کے لئے تیار ہیں؟ یہاں قریبی رشتہ داروں سے مراد سب سے پہلے تو بچے ہیں۔ کیا ہم یہ معیار قائم کرنے کے لئے اپنی خواہشات کو دبانے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور عملاً ثابت کر کے اس کو دکھا بھی سکتے ہیں؟ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو معمولی چیز نہیں۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے یہ نمونے قائم کر کے ہمیں دکھائے۔ چنانچہ ایک واقعہ آتا ہے۔ آپ کے والد قادیان کے اس علاقے کے رئیس تھے۔ زمیندارہ تھا۔ ایک موقع پر جب وہاں مزارعوں کے ساتھ ایک خاندانی مقدمہ چل پڑا تو اس مقدمے میں مزارعوں کے حق میں سچائی بیان کر کے آپ نے اپنے خاندان کے مالی نقصان کی کوئی پرواہ نہیں کی بلکہ ان غریب مزارعوں نے باوجود یہ علم ہونے کے کہ آپ مالک ہیں، اس میں حصہ دار ہیں عدالت میں آپ کی گواہی پر فیصلہ کرنے کا کہا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ ہمیشہ حق اور انصاف پر قائم ہوتے ہوئے گواہی دیں گے۔ چنانچہ آپ نے ان کے حق میں گواہی دی۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 17 صفحہ 542-543)
پس آپ یہ معیار اپنے ماننے والوں میں بھی قائم فرمانا چاہتے ہیں اس لئے کہ آپ وہ جماعت بنانا چاہتے ہیں اور پیدا فرمانا چاہتے ہیں جو قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو، جس کے نیکیوں کے معیار بلند ہوں۔ اس لئے آپ نے عہد بیعت میں قرآن کریم کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرنے کا عہد ہم سے لیا ہے۔
قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰی أَلَّا تَعْدِلُواْ اِعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ: 9)۔ یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جواں مردوں کا کام ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش بھی آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکہ دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے۔‘‘ (نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409-410)
آپ علیہ السلام اپنی جماعت کے افراد سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے معیار بہت بلند ہوں اور وہ عمل ہوں جو قرآنی تعلیم کے مطابق ہوں۔ حقوق غصب کرنے والوں اور ناانصافی کرنے والوں میں شامل نہ ہوں۔ اگر فیصلے کرنے کا اختیار ملے تو ہر رشتہ سے بالا ہو کر فیصلہ ہو، چاہے اس فیصلہ سے اپنے آپ کو نقصان پہنچ رہا ہو یا اپنے والدین کو نقصان پہنچ رہا ہو یا قریبی رشتہ داروں، اپنے بچوں کو نقصان پہنچ رہا ہو۔ لیکن انصاف کے اعلیٰ معیار بہرحال قائم ہونے چاہئیں۔ پس یہ نمونے جب ہم آپس میں قائم کریں گے تو دنیا کو بھی کہہ سکیں گے کہ آج ہم ہیں جو اپنے اندر یہ تبدیلی لا کر اور اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے دشمن سے بھی انصاف کا حوصلہ رکھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ سچی گواہی دیتے ہیں چاہے اپنے خلاف ہو۔ اپنے والدین کے خلاف ہو یا اپنے بچوں اور دوسرے قریبیوں کے خلاف دینی پڑے۔ یہ نمونے ہم اس لئے قائم کر رہے ہیں کہ آئندہ دنیا کی رہنمائی ہم نے کرنی ہے۔ اگر یہ نمونے نہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دور جا کر اپنے عَہدوں سے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوں گے۔
پس ہر احمدی کو اور خاص طور پر یہاں مَیں کہوں گا عہدیداروں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس حد تک اپنی امانتوں کے حق ادا کرتے ہوئے انصاف اور عدل کے اس معیار پر قائم ہیں کہ ان کا ہر فیصلہ جو ہے وہ انصاف کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے والا ہو۔
مَیں کینیڈا گیا ہوں تو وہاں بھی بعض عہدیداروں یا ان لوگوں کے بارے میں جن کے پاس باقاعدہ عہدہ تو نہیں لیکن بعض خدمات سپرد کی گئی ہیں لوگوں کو شکایت ہے کہ وہ انصاف سے کام نہیں لیتے۔ بعض اپنے قریبیوں کے حق میں فیصلہ کا رجحان رکھتے ہیں یا فیصلے کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی نہ کسی کے حق میں فیصلہ ہونا ہوتا ہے اور دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ ہونا ہے لیکن دونوں فریقین کو یہ تسلی ہونی چاہئے کہ ہماری بات سنی گئی ہے اور سننے کے بعد فیصلہ کرنے والے نے اپنی عقل کے مطابق نتیجہ اخذ کیا ہے۔ جن معاملات میں پبلک ڈیلنگ (Public Dealing) ہوتی ہے ان میں ایک تو قضاء کا شعبہ ہے جو لوگوں کے آپس کے اختلافات میں فیصلہ کرتا ہے۔ پھر امور عامہ کا شعبہ ہے اس کا بھی کچھ نہ کچھ تعلق ہے۔ پھر تربیت کا شعبہ ہے اور اصلاحی کمیٹی کا بھی کام ہے۔ پھر بعض معاملات میں تحقیق کے لئے کمیشن بنائے جاتے ہیں ان کا بھی بعض دفعہ یہ کام ہو جاتا ہے اور کمیشن بھی فریقین کی باتیں سنتا ہے۔ پس ہر شعبہ کا کام ہے کہ فیصلہ کرتے وقت اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ غور اور تدبر اور ہر چیز کی باریکی کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس باریکی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔ دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کہ صحیح فیصلہ کی توفیق دے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے دعا ضرور کرنی چاہئے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم فیصلہ کرنے سے پہلے جب تک کچھ نفل نہ پڑھ لیں فیصلہ نہیں کرتے۔ لیکن ایسے بھی ہیں جو بعض دفعہ لاپرواہی سے فیصلے کر جاتے ہیں یا کسی ذاتی رجحان کی وجہ سے فیصلے کر جاتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں سے معاملات اور ڈیلنگ (Dealing) میں جنرل سیکرٹری کا شعبہ ہے۔ جنرل سیکرٹری اور اس کے دفتر میں کام کرنے والے ہر کارکن کا کام ہے کہ ہر آنے والے کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئے۔ یہ نہیں کہ جو پسندیدہ لوگ ہیں اور دوست ہیں ان کے لئے اور رویّے ہوں اور جو ناواقف ہیں یا جن کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں ان کے ساتھ منفی رویّے ہوں۔ اور باقی شعبوں کے افسران کو جن جن کی بھی پبلک ڈیلنگ (Public Dealing) ہے اس بات کی نگرانی کرنی چاہئے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والا ہر کارکن اور مددگار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنا کام کر رہا ہے یا نہیں۔ یہ امانتیں ہیں جو کام کرنے والوں کے سپرد کی گئی ہیں اور کوئی خدمت کسی کے بھی سپرد کرتے وقت اس سے چاہے یہ عہد لیا جائے یا نہ کہ مَیں اپنے کام اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سرانجام دوں گا اس کا کسی بھی خدمت کو قبول کرنا ہی یہ عہد بن جاتا ہے کہ میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کام کروں گا۔ (اور) یہ ایک ایسی امانت ہے جس کی ذمہ داری قبول کرنا خالصۃً اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونا چاہئے۔ ویسے تو ہر مومن اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی امانت اور عہد کی حفاظت کرے اور اس کا حق ادا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ (المومنون: 9) کہ مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن جو خالصۃً لِلّٰہ کام کرنے والے ہیں یا کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں۔ جن کے سپرد خاص طور پر ذمہ داریاں کی گئی ہیں انہیں ایک عام مومن سے بھی بڑھ کر کس قدر محتاط ہونا چاہئے۔
یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ صرف یہ نہ سمجھیں کہ مرکزی عہدیدار ہی مخاطب ہیں بلکہ صدران اور ان کی عاملہ کے ممبران بھی شامل ہیں جن کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا وہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہے ہیں؟ اور یہ صرف کینیڈا کی بات نہیں ہے، جرمنی سے بھی اور یہاں بھی اور دوسرے بعض ممالک میں بھی یہی شکایتیں ہیں۔ پس ہر جگہ اپنے رویّوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ انصاف کے تقاضے پورے نہ کر کے نہ صرف امانت اور عہدوں کا خیال نہیں رکھ رہے بلکہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خیانت کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔ خدمت کر کے ثواب لینے کی بجائے ناانصافیاں کر کے یا متکبرانہ رویّے دکھا کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والے بن جاتے ہیں۔ پس جہاں غلطیاں ہوتی ہیں وہاں غلطیوں کو چھپانے کے لئے عذر لنگ تلاش کرنے کی بجائے، غلط قسم کے عذر تلاش کرنے کی بجائے استغفار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ پس ہمارے عہدیداروں کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہے ہیں؟ اپنے کام سے بھی انصاف کر رہے ہیں اور جن سے واسطہ پڑ رہا ہے ان سے بھی انصاف کر رہے ہیں؟ صرف صدر ہونا یا سیکرٹری ہونا یا امیر ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ عہدے نہ کسی کی بخشش کے سامان کرنے والے ہیں، نہ ہی اللہ تعالیٰ پر اور اس کی جماعت پر کوئی احسان ہے۔ اگر یہ اپنی امانتوں اور عہدوں کے اس طرح حق ادا نہیں کر رہے جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور خالص ہو کر ادا نہیں کر رہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ پس ہر فیصلہ میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کریں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر ایک عہدیدار کو کام کرنا چاہئے۔ اگر کوئی معاملہ سامنے آئے جس کے بارے میں پہلے غلط فیصلہ ہو چکا ہے تو جیسا کہ میں نے کہا اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ان فیصلوں کو درست کریں۔ اپنے اخلاق کو بھی درست کریں اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو بھی یاد رکھیں کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ: 84) کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور ملاطفت سے بات کرو، اعلیٰ اخلاق سے بات کرو۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا کے ہر ملک میں عہدیداروں کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کینیڈا کی مثال مَیں نے دی ہے یا اس سے خیال آیا تو اس لئے کہ وہاں لوگوں میں، غیروں میں جماعت زیادہ جانی جاتی ہے اور اب میرے دورے کے بعد مزید تعارف بڑھا ہے اور ہم لوگوں کی نظر میں، غیروں کی نظر میں زیادہ ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہمیں ہر معاملے میں اپنے نمونے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہر عہدیدار خاص طور پر اور ہر احمدی عموماً دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل ہونا چاہئے۔ جہاں دنیا میں فتنے فساد اور افراتفری اور حقوق غصب کرنے کے نمونے نظر آتے ہیں وہاں جماعت میں انصاف اور حقوق کی ادائیگی کے نمونے نظر آنے چاہئیں۔ اس تعارف سے دنیا والے دیکھیں گے کہ جماعت کس طرح کی ہے۔ ہر فرد جو ہے وہ ایک نمونہ ہے۔
پس ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ذمہ داری صرف عہدیداروں کی ہی نہیں ہے، ہر احمدی بھی ذمہ دار ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپس کے تعلقات میں مثالی نمونے قائم کریں۔ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ اپنے اخلاق کو اعلیٰ معیار تک پہنچائیں۔ ایک دوسرے سے معاملات میں کسی بھی قسم کی طرفداری سے اپنے آپ کو مکمل طور پر پاک کریں۔ کسی بھی طرف ان کا جھکاؤ نہ ہو۔ احمدی کی گواہی اور بیان اپنے انصاف اور سچائی کے لحاظ سے ایک مثال بن جائے اور دنیا یہ کہے کہ اگر احمدی نے گواہی دی ہے تو پھر اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ گواہی انصاف کے اعلیٰ معیار پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر ہم یہ کر لیں تو ہم اپنی تقریروں میں، اپنی باتوں میں، اپنی تبلیغ میں سچے ہیں ورنہ پھر جیسے دوسرے ویسے ہی ہم۔
ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہد بیعت میں تمام قسم کی برائیوں سے بچنے کا عہد کیا ہے اور عہد پر توجہ نہ دینا اور جان بوجھ کر اس پر عمل نہ کرنا خیانت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک حقیقی مؤمن کی نشانی بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 320مسند ابی ہریرہؓ حدیث 8577 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پھر ایک حدیث میں آپ نے فرمایا جو عہدیداروں کو بھی سامنے رکھنی چاہئے اور ہر احمدی کو بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین امور کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا اور وہ تین باتیں یہ ہیں۔ خدا تعالیٰ کے لئے کام میں خلوص نیت۔ دوسرے ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی۔ اور تیسرے جماعت مسلمین کے ساتھ مل کر رہنا۔ (سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع حدیث 2658)
پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرنا اور خلوص نیت سے ادا کرنا یہی اللہ تعالیٰ کی امانت کا حق ادا کرنا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کے لئے دوسرے کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ جب ہم میں سے ہر ایک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا بن جائے گا تو حقوق کے حصول کی دوڑ خود بخود ختم ہو جائے گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ میرا حق دو بلکہ حق ادا کرنے والے ہوں گے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حقیقی مسلمان کی نشانی بتائی ہے۔ اور پھر ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت مسلمین سے چمٹے رہنا جو ہے یہی حقیقی مسلمان بناتا ہے۔
اس وقت دنیا میں صرف اور صرف ایک جماعت ہے جو جماعت احمدیہ مسلمہ کہلاتی ہے اور یہی ایک جماعت ہے جو دنیا میں ایک نام سے پہچانی جاتی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بین الاقوامی جماعت نہیں جو تمام دنیا میں ایک نام سے جانی جاتی ہو۔ پس اس کے ساتھ جڑ کے رہنا اور نظام جماعت کا حصہ بننا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حقیقی مسلمان بناتا ہے۔ اس خوش قسمتی پر ہر احمدی جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے اور حقیقی شکرگزاری یہی ہے کہ نظام جماعت کی مکمل اطاعت، خلافت کی اطاعت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس شکر گزاری کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر احمدی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے بنیں۔ اگر کبھی کسی بھی قسم کی گواہیوں کی ضرورت پڑے تو اس میں خیانت کے مرتکب نہ ہوں۔ جماعت کا ہر عہدیدار اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ اپنے عہدوں اور اپنی امانتوں کو پورا کرنے والا اور ادا کرنے والا ہو۔ اپنی تمام ذمہ داریوں کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ادا کرنے والا ہو۔ یہ خوبصورت تعلیم ہماری نسلوں میں بھی جاری رہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش بھی کرنی چاہئے تا کہ جب وقت آئے تو ہم دنیا میں حقیقی انصاف قائم کر کے دکھانے والے ہوں۔ وہ انصاف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور جس کے نمونے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے اس زمانے میں بھی قائم فرمائے اور جس کی توقع آپ نے اپنے ماننے والوں سے بھی رکھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
نماز کے بعد میں کچھ جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ مکرم عدنان محمد کُرْدِیَّہْ صاحب کا ہے جو حلب سیریا کے رہنے والے تھے۔ جنہیں 2013ء میں سیریا کی ایک دہشت گرد تنظیم نے اغوا کیا تھا اس کے بعد شہید کیا۔ عدنان صاحب کی پیدائش 1971ء میں سیریا کے شہر حلب میں ہوئی۔ 2003ء میں انہوں نے خاتون تَمَاضُرْ صاحبہ سے شادی کی۔ عدنان صاحب کے سسر یاسین شریف صاحب 2007ء میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے بچوں کے علاوہ ان کی بیٹی تَمَاضُرْ بھی احمدیت کی صداقت کی قائل ہوئیں اور عدنان صاحب کے گھر میں احمدیت کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ لیکن عدنان شہید صاحب پڑھے لکھے نہ تھے۔ اکثر مولویوں کے پیچھے چلتے تھے۔ جب ان کی بیوی نے 2010ء میں بیعت کر لی تو مولویوں کے اکسانے پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تُو گھر میں ایم ٹی اے دیکھے گی یا احمدیت کے بارے میں بات کرے گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ ان کے سسر یاسین شریف صاحب انہیں قرآن و سنت کے حوالے سے سمجھاتے تھے تو خاموش ہو جاتے۔ جب مولویوں کے پاس جاتے تو پھر ساری باتیں بھول جاتے۔ شہید کے سسر کہتے ہیں کہ 2011ء کی بات ہے کہ میں ان کے گھر میں ان کی بیوی یعنی اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر قرآن پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں عدنان بھی کام سے واپس آ گیا اور ہمیں قرآن پڑھتا دیکھ کر کہنے لگا کہ پڑھتے رہیں کیونکہ میں آپ کی تفسیر سننا چاہتا ہوں۔ ہم اس وقت سورۃ بنی اسرائیل کی یہ آیت پڑھ رہے تھے کہ إِذْ یَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلاً مَّسْحُورًا (بنی اسرائیل: 48) یعنی جب ظالم لوگ کہتے ہیں تم ایک ایسے شخص کی پیروی کر رہے ہو جو سحر زدہ ہے۔ ان کے سسر کہتے ہیں میں نے عدنان سے کہا کہ قرآن کہتا ہے وہ لوگ ظالم ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ سحر زدہ تھے۔ مگر بعض مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا تھا جبکہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ یہ بات قطعاً غلط ہے اور ایسی کسی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ عدنان نے یہ بات سنتے ہی حسب عادت فوراً فون اٹھایا اور اپنے مولوی سے پوچھا کہ کیا واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا تھا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ہاں ہوا تھا اور اس کا ذکر بخاری میں ہے۔ عدنان صاحب نے مولوی کو کہا کہ میں ایک عام سا اور گناہگار سا آدمی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بعض قریبی اشخاص نے مجھ پر جادو کرنے کی کوشش کی لیکن مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے مقرب ترین اور محبوب ترین رسول تھے پھر میں یہ کیسے مان لوں کہ بعض لوگ ان پر جادو کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا اور ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ دن بعد عدنان سوچ بچار کرتے رہے۔ پھر ایک روز مجھے کہنے لگے کہ میری خواہش تھی کہ میری بیوی اچھے اخلاق اور اعمال کی مالک ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب سے تم نے احمدیت قبول کی ہے تمہارے اندر بہت نیک تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ نیز بچوں اور میرے رشتہ داروں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنے لگی ہو۔ یہ تاثیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس لئے میں بھی اس مبارک جماعت میں شامل ہوتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔ شہید کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک شدّت پسند تنظیم کے بعض ارکان جو جماعت کے خلاف نہایت اہانت آمیز باتیں کیا کرتے تھے۔ مجھے ان کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوتا۔ جب میں اس کے بارے میں عدنان کو بتاتی تو وہ کہتا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور کبھی ان سے بحث نہ کرنا۔ ہمارا کام صرف ان کے لئے دعا کرنا ہے۔ پھر 20؍جون 2013ء کو اس تنظیم کے بعض ارکان نے عدنان کو اغوا کر لیا اور تقریباً دو ماہ کے بعد انہیں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 42، 43 سال تھی۔ کہتی ہیں گو مجھے ان کی شہادت کے بارہ میں خوابیں تو آرہی تھیں لیکن ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز ہمارے علاقے کے مخالفین میں سے ایک شخص نے مجھے کہا کہ کیا تم ابھی تک اپنے خاوند کا انتظار کر رہی ہو۔ وہ نہیں آئے گا کیونکہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ ہم نے اسے بہتیرا سمجھایا تھا کہ احمدیت چھوڑ دو لیکن وہ یہی کہتا تھا کہ میں احمدیت نہیں چھوڑوں گا خواہ میری گردن کٹ جائے۔ اس لئے وہ شہادت تو بڑی پرانی ہو گئی ہے لیکن پتا کیونکہ ان کو اب چلا ہے اس لئے جنازہ اب ادا کیا جا رہا ہے۔
شہید کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ شہیدنیک، صالح اور نمازوں کے پابند تھے۔ ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کرتے۔ ایک ہمدرد اور محبت کرنے والے شوہر اور شفیق باپ تھے۔ بچوں کی دینی تربیت کی ہمیشہ ان کو فکر رہتی۔ ہر ایک کی مدد و خدمت کرنے والے اور صلہ رحمی کرنے کے جذبہ سے مالا مال تھے۔ چندوں میں باقاعدہ اور سب سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔ ان کے سسر کہتے ہیں کہ قبول احمدیت کے بعد اس میں ایک عجیب اخلاص پیدا ہو گیا اور انہوں نے اپنی ویگن احمدیوں کے لئے وقف کر دی۔ جمعہ کے روز احمدیوں کو مختلف مقامات سے نماز سینٹر میں لاتے پھر واپس بھی چھوڑتے۔ اسی طرح مستورات کو بھی اجلاس کے لئے صدر لجنہ کے گھر تک لانے اور واپس چھوڑنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے۔ احمدی احباب انہیں کرایہ دینے کی کوشش کرتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے۔ اور اگر کوئی بہت اصرار کرتا تو تیل کا خرچ لے لیتے۔ چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ان چندوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے کام میں بہت برکت ڈالی ہے اور اس کی مثال وہ دیتے ہیں کہ انہوں نے کسی کے ساتھ مل کر ایک ویگن خریدی تھی جو وہ چلایا کرتے تھے اور اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی کہ انہوں نے پارٹنر شپ سے علیحدہ ہو کے وہ ساری ویگن خود ہی خرید لی۔ ان کی ایک اور رشتہ دار ہیں وہ کہتی ہیں کہ صلہ رحمی کا وصف ان میں بہت نمایاں تھا۔ کہتی ہیں جب فسادات بڑھے، جنگ کی صورتحال پیدا ہوئی، ہمارے علاقے میں حالات بہت خراب ہوئے تو روٹی نایاب ہو گئی اور اگر کہیں ملتی تھی تو بہت مہنگی ملتی تھی۔ ایسے حالات میں عدنان شہید تمام رشتہ داروں کی خدمت پر مامور تھے۔ وہ دور دراز کے علاقوں سے روٹی لا کر ہمیں دیا کرتے تھے۔
شہیدنے اپنے پیچھے بیوی اور پانچ بچے چھوڑے ہیں۔ دو بیٹیاں ان کی پہلی مرحومہ بیوی سے تھیں جبکہ دو بیٹے اور ایک بیٹی دوسری بیوی سے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ سب لوگ کینیڈا پہنچ چکے ہیں۔
دوسرا جنازہ ہے مکرمہ بشیر بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ درویش قادیان کا جو 7؍نومبر 2016ء کو 93 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 1923ء میں پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ (اس وقت پاکستان تو نہیں تھا۔ علاقہ پاکستان کا تھا۔ ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔) 1944ء میں محترم چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ کے ساتھ شادی ہوئی۔ چیمہ صاحب نے نومبر 1947ء میں جب حفاظت مرکز کے لئے قادیان آنے کے لئے وقف کیا تو یہ بھی 1952ء میں قادیان آ کر اپنے خاوند کے ساتھ عہد درویشی میں شامل ہو گئیں۔ قادیان سے بہت محبت تھی۔ اور خاوند کی وفات کے بعد آپ نے 36 سال کا لمبا عرصہ نہایت صبر و شکر کے ساتھ گزارا۔ اللہ کے فضل سے نہایت تقویٰ شعار اور مخلوق خدا کی ہمدرد بہت نیک خاتون تھیں۔ گھر پہ آئے ہوئے کسی سوالی کو کبھی خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی تھیں۔ وفات سے ایک سال قبل تک ہر سال رمضان کے پورے روزے رکھا کرتی تھیں اور ایک سے زیادہ مرتبہ قرآن شریف کا دور مکمل کرتی تھیں۔ اپنی اولاد کو بھی نماز باجماعت اور قرآن کریم کی تلاوت اور خلافت اور نظام جماعت کی مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کی تلقین کرتی رہیں۔ انتہائی دعا گو، عبادت گزار، صابر شاکر، توکل علی اللہ کا کامل نمونہ، صاف گو، اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے والی بڑی خوددار، بڑی غیور اور مشفق خاتون تھیں۔ صاحب کشف ورؤیا بھی تھیں۔ تمام اولاد کے رشتے انہوں نے خالص دینی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے کئے۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور پانچ بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ تین بیٹے آپ کے واقف زندگی مربی ہیں جن میں سے ایک بیٹے طاہر احمد صاحب چیمہ جامعہ احمدیہ میں استاد ہیں۔ ایک بیٹے مبارک احمد چیمہ صاحب انچارج دفتر علیاء ہیں اور اس وقت سیکرٹری شوریٰ بھارت بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔
تیسرا جنازہ غائب مکرم رانا مبارک احمد صاحب کا ہے جو لاہور کے رہنے والے تھے۔ اس کے بعد یہاں آگئے۔ 5؍نومبر 2016ء کو 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے والد رانا محمد یعقوب صاحب مرحوم نے ایک خواب کے نتیجہ میں احمدیت قبول کی تھی جس کی وجہ سے خاندان میں شدید مخالفت ہوئی اور انہیں گھر بار چھوڑنا پڑا۔ پھر اس کے بعد آپ کی والدہ نے بھی احمدیت قبول کر لی۔ راناصاحب بچپن سے ہی جماعتی خدمات میں ہمیشہ صف اوّل میں رہے۔ ابتدا سے ہی خلافت اور جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ جماعتی خدمات کا آغاز 1967ء سے ہوا جو آخر دم تک جاری رہا۔ آپ کو لاہور اور بہاولپور میں بطور قائد مجلس اور سیکرٹری مال کے علاوہ تیس سال تک صدر جماعت علامہ اقبال ٹاؤن لاہور اور اس کے علاوہ لمبا عرصہ ضلع لاہور کے سیکرٹری مال، سیکرٹری تحریک جدید اور سیکرٹری وقف جدید کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کیا تھا۔ چنانچہ الفضل کے نمائندہ کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ نہایت نرم گفتار اور دعا گو، چندہ جات میں باقاعدہ، خلافت سے دلی محبت رکھنے والے مخلص انسان تھے۔ الفضل میں مضامین بھی لکھا کرتے تھے اور ان کے مضامین اچھے ہوا کرتے تھے۔ جب تک یہ پاکستان میں رہے ہیں مجھے باقاعدہ وہاں کے حالات یا کوئی بیمار ہوا تو اس کے بارے میں فوری اطلاع سب سے پہلے ان کی طرف سے آیا کرتی تھی۔ لوگوں کے لئے بھی اکثر دعاؤں کی تحریک کیا کرتے تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے اور کافی پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ سارے یہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ اسی طرح شہید مرحوم کے بھی اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اب بچے سیریا سے وہاں کینیڈا چلے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ماحول سے بھی ان کو بچاکے رکھے اور وہ نیک مقاصد اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے جن کی خاطر شہیدنے احمدیت قبول کی تھی۔
ہمارا کام صرف علمی طور پر دوسروں کو متاثر کرنا نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیں قرآنی احکامات کی عملی مثالیں اپنے عمل سے دکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کوئی حکومت نہیں ہے جہاں ہم حکومتی سطح پر ان احکامات کے نمونے قائم کر کے دکھا سکیں۔ جب وہ وقت انشاء اللہ آئے گا تو اعلیٰ سطح پر بھی یہ نمونے ہمیں دکھانے ہوں گے لیکن اس وقت جماعتی اور معاشرتی سطح پر یہ نمونے ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر احمدی کو اور خاص طور پر یہاں مَیں کہوں گا عہدیداروں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس حد تک اپنی امانتوں کے حق ادا کرتے ہوئے انصاف اور عدل کے اس معیار پر قائم ہیں کہ ان کا ہر فیصلہ جو ہے وہ انصاف کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے والا ہو۔ بعض عہدیداروں یا ان لوگوں کے بارے میں جن کے پاس باقاعدہ عہدہ تو نہیں لیکن بعض خدمات سپرد کی گئی ہیں لوگوں کو شکایت ہے کہ وہ انصاف سے کام نہیں لیتے۔
جنرل سیکرٹری اور اس کے دفتر میں کام کرنے والے ہر کارکن کا کام ہے کہ ہر آنے والے کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئے۔ یہ نہیں کہ جو پسندیدہ لوگ ہیں اور دوست ہیں ان کے لئے اور رویّے ہوں اور جو ناواقف ہیں یا جن کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں ان کے ساتھ منفی رویّے ہوں۔ اور باقی شعبوں کے افسران کو جن جن کی بھی پبلک ڈیلنگ (Public Dealing) ہے اس بات کی نگرانی کرنی چاہئے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والا ہر کارکن اور مددگار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنا کام کر رہا ہے یا نہیں۔ صرف یہ نہ سمجھیں کہ مرکزی عہدیدار ہی مخاطب ہیں بلکہ صدران اور ان کی عاملہ کے ممبران بھی شامل ہیں جن کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا وہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ جہاں غلطیاں ہوتی ہیں وہاں غلطیوں کو چھپانے کے لئے عذر لنگ تلاش کرنے کی بجائے، غلط قسم کے عذر تلاش کرنے کی بجائے استغفار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔
ہمارا ہر عہدیدار خاص طور پر اور ہر احمدی عموماً دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل ہونا چاہئے۔ جہاں دنیا میں فتنے فساد اور افراتفری اور حقوق غصب کرنے کے نمونے نظر آتے ہیں وہاں جماعت میں انصاف اور حقوق کی ادائیگی کے نمونے نظر آنے چاہئیں۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہد بیعت میں تمام قسم کی برائیوں سے بچنے کا عہد کیا ہے اور عہد پر توجہ نہ دینا اور جان بوجھ کر اس پر عمل نہ کرنا خیانت ہے۔
اس وقت دنیا میں صرف اور صرف ایک جماعت ہے جو جماعت احمدیہ مسلمہ کہلاتی ہے اور یہی ایک جماعت ہے جو دنیا میں ایک نام سے پہچانی جاتی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بین الاقوامی جماعت نہیں جو تمام دنیا میں ایک نام سے جانی جاتی ہو۔ پس اس کے ساتھ جڑ کے رہنا اور نظام جماعت کا حصہ بننا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حقیقی مسلمان بناتا ہے۔ اس خوش قسمتی پر ہر احمدی جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے اور حقیقی شکرگزاری یہی ہے کہ نظام جماعت کی مکمل اطاعت، خلافت کی اطاعت ہو۔
مکرم عدنان محمد کُرْدِیَّہْ صاحب آف سیریا کی شہادت۔ مکرمہ بشیر بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری منظور احمد چیمہ صاحب درویش قادیان اور مکرم رانا مبارک احمد صاحب آف لاہور حال لندن کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 25؍نومبر 2016ء بمطابق 25 نبوت 1395 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔